وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے کہا ہے کہ یہ بمسٹیک ملکوں کا کام ہے کہ وہ اس صدی کو ایشیاء کی صدی بنائیں کیونکہ یہ ممالک کل انسانوں کا پانچویں حصہ ہیں اور ان کی مجموعی طاقت 3.8 ٹریلین ڈالر جی ڈی پی کی ہے۔ وزیر اعظم آج ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ’پرارمبھ: اسٹارٹ اپ انڈیا انٹرنیشنل سمٹ‘ سے خطاب کر رہے تھے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ بمسٹیک ملکوں مثلاً بنگلہ دیش، بھوٹان، بھارت، نیپال، سری لنکا، میانمار اور تھائی لینڈ میں اسٹارٹ اپ کے میدان میں متحرک توانائی پائی جاتی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ صدی ڈیجیٹل انقلاب کی صدی ہے اور نئے زمانے کی اختراعات کی صدی ہے۔ یہ اشیاء کی بھی صدی ہے۔ اس لئے ہمارے وقت کا تقاضا ہے کہ مستقبل کی ٹیکنالوجی اور صنعت کار اسی علاقے سے آگے آنے چاہئیں۔ اس کے لیے وزیر اعظم نے زور دیا کہ ایشیائی ممالک جن کے پاس تعاون کا حوصلہ ہے انھیں یہ ذمے داری اٹھانی چاہئے اور آپس میں مل کر کام کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ان میں کلچر، تہذیب اور تعلقات کا ایک جیسا ورثہ ہے۔ ہم اپنے خیالات، اپنی سوچ بچار اور خیر وعافیت میں ساجھے دار ہیں اس لئے ہماری کامیابی بھی شراکت داری والی ہونی چاہیے۔ یہ ذمے داری قدرتی طور پر بمسٹیک ملکوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ ہم دنیا کی آبادی کے پانچویں حصے کے لیے کام کرتے ہیں۔
وزیر اعظم نے علاقے کے نوجوانوں میں بہت جلد کام کرنے، توانائی اور جوش کے امکانات کا ذکر کیا۔انھوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے 2018 کی بمسٹیک چوٹی میٹنگ میں ٹیکنالوجی اور اختراع میں تال میل کی اپیل کی تھی اور ایک بمسٹیک اسٹارٹ اپ اجتماع کی تجویز پیش کی تھی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آج کا اسٹارٹ اپ انڈیا انٹرنیشنل اجتماع اس وعدے کو پورا کرنے کی سمت میں ایک قدم کی حیثیت رکھتا ہے۔
جناب مودی نے علاقے کے بمسٹیک ملکوں کے مابین کنیکٹی ویٹی اور کاروباری تعلقات کو بڑھانےکے لیے کئے جانے والے اقدامات کا ذکر کیا۔ انھوں نے یاد دلایا کہ بمسٹیک وزیروں نے 2018 میں انڈیا موبائل کانگریس میں شرکت کی تھی تاکہ ڈیجیٹل کنیکٹی ویٹی کو فروغ دیا جاسکے۔ اسی طرح دفاع، بحران کے بندوبست، خلاء، زراعت اور کاروبار جیسے شعبوں میں تعاون کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیر اعظم نے امید ظاہر کی کہ ’’ان شعبوں میں مضبوط تعلقات سے ہمارے اسٹارٹ اپس کو فائدہ ہوگا جس کے نتیجے میں ایک ویلیو سائکل تشکیل پائے گی یعنی بنیادی ڈھانچے ، زراعت اور کاروبار جیسے شعبوں میں تعلقات اور گہرے ہوں گے جس سے ہمارے اسٹارٹ اپس کے لیے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ جس کے نتیجے میں ان شعبوں میں ترقی ہوگی‘‘۔