نمسکار۔
ایک بھارت شریشٹھ بھارت کی بیحد خوبصورت تصویر آج یہاں نظر آرہی ہے۔ آج اس پروگرام کا خاکہ بہت وسیع ہے، اپنے آپ میں تاریخی ہے۔
کیوڑیا میں گجرات کے گورنر جناب آچاریہ دیو برت جی، گجرات کے وزیراعلیٰ جناب وجئے روپانی جی موجود ہیں۔ پرتاپ نگر میں گجرات اسمبلی کے اسپیکر جناب راجندرترویدی جی ہیں۔ احمد آبادسے گجرات کے نائب وزیراعلیٰ نتن پٹیل جی، دہلی میں مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی پیوش گوئل جی، وزیر خارجہ ایس جئے شنکر جی،ڈاکٹر ہرش وردھن جی، دہلی کے وزیراعلیٰ بھائی اروند کجریوال جی ہمارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے ریوا سے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ ہمارے ساتھ ہیں۔ ممبئی میں مہاراشٹر کےوزیراعلیٰ بھائی ادھو ڈھاکرے جی بھی موجود ہیں۔ وارانسی سے یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی ہمارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ تملناڈو سمیت دیگر ریاستی حکومتوں کے وزراء، اراکین پارلیمنٹ، اراکین اسمبلی بھی آج اس عظیم پروگرام میں ہمارے ساتھ ہیں، اور سب سے بڑی خوشی کی بات ہے کہ آج آنند میں موجود سردار ولبھ بھائی پٹیل جی کے بڑے کنبے کے متعدد اراکین بھی آج ہمیں آشیرواد دینے کیلئے آئے ہیں۔ آج آرٹ کی دنیا کے متعدد سینئر فنکار ، کھیلوں کی دنیا کے بہت سے ستارے بھی بہت بڑی تعداد میں اس پروگرام کے ساتھ جڑے ہیں، اور ان سبھی کے ساتھ ہمیں آشیرواد دینے کیلئے آئے ہوئے، خدا کے جیسے ہمارے عوام ، ہمارے پیارے بھائیو اور بہنو، ہمارے سبھی بھارت کے روشن مستقبل کی نمائندگی کرنے والے بچو، آپ سبھی کا بہت بہت استقبال۔
ریلوے کی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ ایسا ہورہا ہے کہ جب ایک ساتھ ملک کے الگ الگ کونے سے ایک ہی جگہ کے لئے اتنی ٹرینوں کو ہری جھنڈی دکھائی گئی ہو۔ آخری کیوڑیا جگہ بھی تو ایسی ہی ہے۔ اس کی پہچان ملک کو ایک بھارت- شریشٹھ بھارت کا منتر دینے والے، ملک کو متحد کرنے والے، سردار پٹیل کے دنیا کے سب سے اونچے مجسمے سے اسٹیچو آف یونٹی سے ہے، سردار سروور باندھ سے ہے۔ آج کا یہ پروگرم صحیح معنوں میں بھارت کو ایک کرتی، بھارتیہ ریلوے کے وِژن اور سردار ولبھ بھائی پٹیل کے مشن، دونوں کو ظاہر کررہا ہے۔ اور مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ اس پروگرام میں ا لگ الگ ریاستوں سے اتنے عوام نمائندے موجود ہیں۔ میں آپ سبھی کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
آج کیوڑیا کے لئے نکل رہی ٹرینوں میں ایک ٹرین پورتچھی تھلائیور ڈاکٹر ایم جی راما چندرن سینٹرل ریلوے اسٹیشن سے بھی آرہی ہے۔ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ آج بھارت رتن ایم جی آر کی سالگرہ بھی ہے۔ ایم جی آر نے فلم اسکرین سے لیکر پارلیٹکل اسکرین تک، لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کی تھی۔ ان کی زندگی، ان کا پورا سیاسی سفر غریبوں کے لئے وقف تھا۔ غریبوں کو عزت سے بھرپور زندگی ملے اس کے لئے انہوں نے مسلسل کام کیا تھا۔ بھارت رتن ایم جی آر کے ان اصولوں کو پورا کرنے کیلئے آج ہم سب کوشش کررہے ہیں۔ کچھ سال پہلے ہی ملک نے ان کے اعزاز میں چنئی سینٹرل ریلوے اسٹیشن کانام بدل کر ایم جی آر کے نام پر کیا تھا۔ میں بھارت رتن ایم جی آر کو سلام کرتا ہوں، انہیں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو،
آج کیوڑیا کا ملک کی ہے ہر سمت سے براہ راست ریل کنیکٹیویٹی سے جڑناپورے ملک کے لئے ایک حیرت انگیز لمحہ ہے، ہمیں فخر سے بھرنے والا پل ہے۔ تھوڑی دیر پہلے چنئی کے علاوہ وارانسی، ریوا، دادر اور دہلی سے کیوڑیا ایکسپریس اور احمد آباد سے جن شتابدی ایکسپریس کیوڑیا کے لئے نکلی ہیں۔ اسی طرح کیوڑیا اور پرتاپ نگر کے درمیان بھی میمو سیوا شروع ہوئی ہے۔ ڈبھوئی- چندوڑ ریل لائن کی توسیع اور چندوڑ- کوڑیا کے درمیان کی نئی ریل لائن اب کیوڑیا کے ترقی کے سفر میں نیا باب لکھنے جارہی ہے اور آج جب اس ریلوے کے پروگرام سے میں جڑا ہوں تو کچھ پرانی یادیں بھی تازہ ہورہی ہیں۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ بڑودہ اورڈابھوئی کے درمیان نیورو گیج ریلوے چلتی تھی۔ مجھے اکثر اس میں سفر کرنے کا موقع ملتا تھا۔ ماں نرمدا کے تئیں میرا ایک زمانے میں بڑا خاص جھکاؤ رہتا تھا، میرا آنا جانا ہوتا تھا۔ زندگی کے کچھ پل ماں نرمدا کی گود میں گزارتا تھا اس وقت اس نیرو گیج ٹرین سے ہم چلتے تھے۔ اور یہ نیرو گیج ٹرین کا مزہ یہ تھا کہ آپ اس کی اسپیڈ اتنی دھیمی ہوتی تھی، کہیں پر بھی اتر جائیے، کہیں پر بھی اس میں چڑھ جائیے، بڑے آرام سے، یہاں تک کہ کچھ پل آپ ساتھ ساتھ چلیں تو ایسا لگتا ہے کہ آپ کی اسپیڈ زیادہ ہے، تو میں بھی کبھی اس کا لطف لیتا تھا، لیکن آج اب وہ براڈ گیج میں کنورٹ ہورہا ہے۔ اس ریل کنیکٹیویٹی کا سب سے بڑا فائدہ اسٹیچو آف یونٹی دیکھنے والے سیاحوں کو تو ملے گا ہی، یہ کنیکٹیویٹی کیوڑیا کے آدیواسی بھائی بہنوں کی زندگی بھی بدلنے جارہی ہے۔ یہ کنیکٹیویٹی سہولت کے ساتھ ساتھ روزگار اور خودروزگار کے نئے مواقع بھی لیکر آئے گی۔ یہ ریل لائن ماں نرمدا کے کنارے پر بسے کرنالی ، پوئچا اور گرودیشور جیسے آستھا سے جڑے اہم جگہوں کو بھی کنیکٹ کرے گی اور یہ بات صحیح ہے یہ پورا علاقہ ایک طرح سے اسپریچوول وائبریشن سے بھرا ہوا علاقہ ہے۔ اور اس انتظام کےسبب جو عام طور پر روحانی سرگرمیوں کیلئے یہاں آتے ہیں ان کے لئے تو بہت ہی ایک طرح سے یہ بہت بڑی سوغات ہے۔
بھائیو اور بہنو،
آج کیوڑیا گجرات کے دور دراز علاقے میں بسا ایک چھوٹا سا بلاک نہیں رہ گیا ہے، بلکہ کیوڑیا دنیا کے سب سے بڑے سیاحت منزل کے طور پر آج اُبھر رہا ہے۔ اسٹیچو آف یونٹی دیکھنے کیلئے اب اسٹیچو آف لیبرٹی سے بھی زیادہ سیاہ پہنچنے لگے ہیں۔ اس کی نقاب کشائی کے بعد سے تقریباً 50 لاکھ لوگ اسٹیچو آف یونٹی کو دیکھنے آچکے ہیں۔ کورونا میں مہینوں تک سب کچھ بند رہنے کے بعد اب ایک بار پھر کیوڑیا میں آنے والے سیاحوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایک سروے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ جیسے جیسے کنیکٹیویٹی بڑھ رہی ہے، مستقبل میں ہر روز ایک لاکھ تک لوگ کیوڑیا آنے لگیں گے۔
ساتھیو،
چھوٹا سا خوبصورت کیوڑیا، اس بات کی بہترین مثال ہے کہ کیسے منظم طریقے سے ماحولیات کا تحفظ کرتے ہوئےمعیشت اور ماحولیات دونوں کی ترقی تیزی سے کی جاسکتی ہے۔ یہاں اس پروگرام میں موجود بہت سے معززین شاید کیوڑیا نہیں گئے ہوں گے، لیکن مجھے یقین ہے، ایک بار کیوڑیا کی ترقی کا سفر دیکھنے کے بعد آپ کو بھی اپنے ملک کی اس شاندار جگہ کو دیکھ کر فخر ہوگا۔
ساتھیو،
مجھے یاد ہے جب شروع میں کیوڑیا کو دنیا کا بہترین فیملی سیاحتی منزل بنانے کی بات کی جاتی تھی، تو لوگوں کو یہ خواب ہی لگتا تھا۔ لوگ کہتے تھے، یہ ممکن ہی نہیں ہے، ہی ہو نہیں سکتا۔ اس کام میں تو کئی دہائی لگ جائیں گے۔ خیر پرانے تجربے کی بنیاد پر ان کی باتوں میں دلیل بھی تھی۔ نہ کیوڑیا جانے کیلئے چوڑی سڑکیں، نہ اتنی اسٹریٹ لائٹیں، نہ ریل، نہ سیاحوں کے رہنے کیلئے بہتر انتظام، اپنے دیہی پس منظر میں کیوڑیا ملک کے دیگر چھوٹے سے گاؤں کی طرح ہی ایک تھا۔ لیکن آج کچھ ہی برسوں میں کیوڑیا کی صورت بالکل بدل چکی ہے۔ کیوڑیا پہنچنے کیلئے کشادہ سڑکیں ہیں، رہنے کیلئے پورا ٹینٹ سیٹی ہے، دیگر اچھے انتظامات ہیں، بہترین موبائل کنیکٹیویٹی ہے، اچھے اسپتال ہیں، کچھ دن پہلے سی پلین کی سہولت شروع ہوئی ہے ہے اور آج ملک کے اتنے سارے ریل روٹ سے کیوڑیا ایک ساتھ جڑ گیا ہے۔ یہ شہر ایک طرح سے مکمل فیملی پیکیج کے طور پر خدمات دے رہا ہے۔ اسٹیچو آف یونٹی اور سردار سروور باندھ کا پُرشکوہ منظر ان کی عظمت کا احساس آپ کیوڑیا پہنچ کر ہی کرسکتے ہیں۔اب یہاں سینکڑوں ایکڑ میں پھیلا سردار پٹیل زولوجیکل پارک ہے۔ جنگل سفاری ہے، ایک طرف آیوروید اور یوگ پر مبنی آرویہ ون ہے تو دوسری پوشن پارک ہے۔ رات میں جگمگاتا گلو گارڈن ہے، تو دن میں دیکھنے کیلئے ٹیکسس گارڈن اور بٹرفلائی گارڈن ہے۔ ٹورسٹوں کو گھمانے کیلئے ایکتا کروز ہے، تو دوسری طرف نوجوانوں کو حوصلہ دکھانے کیلئے رافٹنگ کا بھی انتظام ہے۔ یعنی بچے ہوں، نوجوان ہو یا بزرگ، سبھی کیلئے بہت کچھ ہے۔ بڑھتے ہوئے ٹورازم کے سبب یہاں قبائلی نوجوانوں کو روزگار مل رہا ہے، یہاں کے لوگوں کی زندگی میں تیزی سے جدید ترین سہولتیں پہنچ رہی ہیں، کوئی منیجر بن گیا ہے ، کوئی کیفے کا مالک بن گیا ہے، کوئی گائڈ کا کام کرنے لگا ہے، مجھے یاد ہے جب میں زولوجیکل پارک میں چڑیوں کیلئے خصوصی ایویری ڈوم دیا گیا تھا، تو وہاں ایک مقامی خاتون گائڈ نے بہت تفصیل سے مجھے جانکاری دی تھی۔ اس کے علاوہ کیوڑیا کی مقامی خواتین، ان کو ہینڈی کرافٹ کے لئے بنائے گئے خصوصی ایکتا مال میں اپنے سامان کو فروخت کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ کیوڑیا کے آدیواسی گاؤں میں 200 سے زیادہ کمروں کی پہچان کرکے انہیں ٹورسٹ کے ہوم اسٹے کے طور پر تیار کیا جارہا ہے۔
بھائیو اور بہنو،
کیوڑیا میں جو ریلوے اسٹیشن بنایا گیا ہے، اس میں سہولت کے ساتھ ساتھ ٹورزم کا خیال رکھا گیا ہے۔ یہاں ٹرائبل آرٹ گیلری اور ایک ویوینگ گیلری بھی بنائی جارہی ہے۔ اس ویوینگ گیلری سے سیاح اسٹیچو آف یونٹی کو دیکھ پائیں گے۔
ساتھیو،
اس طرح کے ہدف پر مرکوز کوشش بھارتی ریل کے بدلتی تصویر کا بھی ثبوت ہے۔ بھارتی ریل روایتی سواری اور مال گاڑی والے اپنے کردار کو نبھانے کے ساتھ ہی ہمارے اہم ٹورازم اور آستھا سے جڑے سرکٹ کو براہ راست کنیکٹویٹی دے رہی ہے۔اب تو مختلف روٹس پر وسٹاڈوم والے کوچیز بھارتی ریل کے سفر کو اور پُرکشش بنانے والے ہیں۔ احمدآباد- کیوڑیا جن شتابدی ایکسپریس بھی ان ٹرینوں میں سے ہوگی جس میں ‘‘وسٹاڈوم کوچ ’’ کی سہولت ملے گی۔
ساتھیو،
گزشتہ برسوں میں ملک کے ریل بنیادی ڈھانچے کو جدید تر بنانے کیلئے جتنا کام ہوا ہے، وہ غیرمعمولی ہے۔ آزادی کے بعد ہماری زیادہ تر توانائی پہلے سے جو ریل انتظام تھااس کو ٹھیک۔ ٹھاک کرنےیا بہتربنانے میں ہی لگی رہی۔ اس دوران نئی سوچ اور نئی ٹیکنالوجی پر فوکس کم ہی رہا۔ یہ نقطہ نظر بدلا جانا بہت ضروری تھا اور اس لئے گزشتہ برسوں میں ملک نے ریلوے کے پورے نظام میں وسیع تبدیلی کرنے کیلئے کام کیا۔ یہ کام صرف بجٹ بڑھانا، گھٹانا، نئی ٹرینوں کا اعلان کرنا، یہاں تک محدود نہیں رہا۔ یہ تبدیلی متعدد محاذوں پر ایک ساتھ ہوا ہے۔ اب جیسے کیوڑیا کو ریل سے جوڑنے والے اس پروجیکٹ کی ہی مثال دیکھیں، تو اس کی تعمیر میں جیسا ابھی ویڈیو میں بتایا گیا تھا، موسم نے کورونا کی وبا نے، متعدد قسم کی روکاوٹیں آئیں۔ لیکن ریکارڈ وقت میں اس کا کام پورا کیا گیا اور جس نئی تعمیری ٹیکنالوجی کااستعمال اب ریلوے کررہی ہے، اس نے اس میں بہت مدد کی۔ اس دوران ٹریک سے لیکر پلوں کی تعمیر تک، نئی تکنیک پر فوکس کیا گیا، مقامی سطح پر دستیاب وسائل کا استعمال کیا گیا۔ سگنلنگ کے کام کو تیز کرنے کیلئے ورچوول موڈ کے ذریعے ٹیسٹ کیے گئے۔ جب کہ پہلے کے حالات میں ایسی روکاوٹیں آنے پر اکثر ایسے پروجیکٹ لٹک جاتے تھے۔
ساتھیو،
ڈیڈیکیٹیڈ فریٹ کوریڈور کا پروجیکٹ بھی ہمارے ملک میں پہلے جو طور طریقے چل رہے تھے، اس کی ایک مثال ہی مان لیجئے۔ مشرقی اور مغربی ڈیڈیکیٹیڈ فریٹ کوریڈور کے ایک بڑے سیکشن کا افتتاح کچھ ہی دن پہلے مجھے کرنے کا موقع ملا۔ ملک کے لئے بیحدر ضروری اس پروجیکٹ پر 2006 سے لیکر 2014 تک یعنی لگ بھگ 8 سالوں میں صرف کاغذوں پر ہی کام ہوا۔ 2014 تک ایک کلو میٹر ٹریک بھی نہیں بچھایا گیا تھا۔ اب اگلے کچھ مہینوں میں کُل ملاکر 1100 کلو میٹر کا کامپورا ہونے جارہا ہے۔
ساتھیو،
ملک میں ریل نیٹ ورک کی جدیدکاری کے ساتھ ہی آج ملک کے ان حصوں کو ریلوے سے جوڑا جارہا ہے،جو ابھی جڑے ہوئے نہیں تھے۔ آج پہلے سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ پرانے ریل روٹ کی توسیع اور بجلی کاری کی جارہی ہے، ریل ٹریک کو زیادہ اسپیڈ کیلئے اہل بنایا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں سیمی ہائی اسپیڈ ٹرین چلانا ممکن ہورہا ہے اور ہم ہائی اسپیڈ ٹریک اور ٹیکنالوجی کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس کام کے لئے بجٹ کو کئی گنا بڑھایا گیا ہے۔ یہی نہیں، ریلوے ماحولیات کے موافق بھی ہو، یہ بھی یقینی بنایا جارہا ہے۔ کیوڑیا ریلوے اسٹیشن بھارت کا پہلا ایسا اسٹیشن ہے، جس کو شروعات سے ہی گرین بلڈنگ کے طور پر سرٹیفکیشن ملا ہے۔
بھائیو اور بہنو،
ریلوے کی تیزی سے جدیدکاری کا ایک بڑا سبب ریلوے مینوفیکچرنگ اور ریلوے ٹیکنالوجی میں خودکفالت پر ہمارا زور ہے، ہمارا فوکس ہے۔ پچھلے برسوں میں اس سمت میں جو کام ہوا، اس کا نتیجہ اب دھیرے دھیرے ہمارے سامنے دِکھ رہا ہے۔ اب سوچئے، اگر ہم بھارت میں ہائی ہارس پاور کے الیکٹرک لوکوموٹیو نہیں بناتے، تو کیا دنیا کی پہلی ڈبل اسٹیک لانگ ہال کنٹینر ٹرین کیا بھارت چلا پاتا؟ آج بھارت میں ہی بنی ایک سے ایک جدید ٹرینیں بھارتی ریل کا حصہ ہیں۔
بھائیو اور بہنو،
آج جب بھارتی ریل کے ٹرانسفارمیشن کی طرف ہم آگے بڑھ رہے ہیں، تو ہائلی اسکیلڈ اسپیشلسٹ مین پاور اور پروفیشنلز بھی بہت ضروری ہیں۔ ودودرا میں بھارت کی پہلی ڈیمڈ ریلوے یونیورسٹی کے قیام کے پیچھے یہی مقصد ہے۔ ریلوے کے لئے اس قسم کا اعلیٰ ادارہ قائم کرنے والا بھارت دنیاکے چنندہ ملکوں میں سے ایک ہے۔ ریل ٹرانسپورٹ ہو، کثیر موضوعاتی تحقیق ہو، ٹریننگ ہو، ہر قسم کی جدید ترین سہولتیں ہوں، یہ ساری چیزیں یہاں دستیاب کرائی جارہی ہیں۔ 20 ریاستوں کے سینکڑوں باصلاحیت نوجوان بھارتی ریل کےحال اور مستقبل کو بہتر بنانے کیلئے خود کی تربیت فراہم کررہے ہیں، یہاں ہونے والے اختراعات اور تحقیق سے بھارتی ریل کو جدیدترین بنانے میں اور مدد ملے گی۔ بھارتی ریل بھارت کی ترقی کے ٹریک کو رفتار دیتی رہے، اسی تمنا کے ساتھ پھر سے گجرات سمیت پورے ملک کو ان نئی ریل سہولتوں کیلئے بہت بہت مبارکباد۔ اور سردار صاحب کو ایک بھارت- شریشٹھ بھارت کا ان کا جو خواب تھ، جب ہندوستان کے کونے کونے سے اسٹیچوآف یونٹی کی اس مقصدسرزمین پر ملک کی مختلف زبانوں اور مختلف قسم کے ملبوسات والے لوگوں کا آنا جانا بڑھے گا، تو ملک ایک ایکتا کا وہ منظر ایک طرح سے باقاعدگی سے وہاں چھوٹا بھارت ہمیں دکھائی دیگا۔ آج کیوڑیا کے لئے بڑاخاص دن ہے۔ ملک کے اتحاد اور یکجہتی کے لئے جو مسلسل کوششیں ہورہی ہیں، اس میں ایک نیا باب ہے۔ میں پھر ایک بار سب کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں!
بہت بہت شکریہ!