“ Vishwanath Dham is not just a grand building. This is a symbol of the Sanatan culture of India. It is a symbol of our spiritual soul. This is a symbol of India's antiquity, traditions, India's energy and dynamism.”
“Earlier the temple area was only 3000 square feet which has now been enlarged to about 5 lakh square feet. Now 50000 - 75000 devotees can visit the temple and temple premises”
“The dedication of Kashi Vishwanath Dham will give a decisive direction to India and will lead to a brighter future. This complex is a witness of our capability and our duty. With determination and concerted thought, nothing is impossible”
“For me God comes in the form of people, For me every person is a part of God. I ask three resolutions from the people for the country - cleanliness, creation and continuous efforts for self-reliant India”
“Long period of slavery broke our confidence in such a way that we lost faith in our own creation. Today, from this thousands-year-old Kashi, I call upon every countryman - create with full confidence, innovate, do it in an innovative way”
Felicitates and has lunch with the workers who worked on the construction Kashi Vishwanath Dham

ہر ہر مہادیو۔ ہر ہر مہادیو۔ نمہ پاروتی پتیے، ہر ہر مہادیو۔ ماں اناپورنا کو سلام۔ گنگا میا جی جے۔ اترپردیش کی گورنر محترمہ آنندی بین پٹیل جی، کرم یوگی جناب یوگی آدتیہ ناتھ جی، بی جے پی کے قومی صدر، ہم سب کے لیے رہ نما، جناب جے پی نڈا جی، نائب وزیر اعلی بھائی کیشو پرساد موریہ جی، دنیش شرما جی، مرکز میں وزرا کی کونسل کے میرے ساتھی مہندر ناتھ پانڈے جی، اترپردیش بی جے پی کے صدر سوتنتردیو سنگھ جی، یہاں کے وزیر جناب نیل کنٹھ تیواری جی، ملک کے گوشے گوشے سے آئے معزز سنتو اور میرے پیارے کاشی کے باشندو اور ملک بھر اور بیرون ملک سے اس موقع کا مشاہدہ کرنے والے تمام عقیدت مند! کاشی کے تمام بھائیوں کے ساتھ ہم نے بابا وشوناتھ کے قدموں میں سر جھکایا ہے۔ ماں اناپورنا کے پاؤں میں بار بار جھکے ہیں۔ اب میں بابا کے ساتھ آنے کے ساتھ ساتھ نگر کوتوال کال بھیروجی کا درشن کرکے آرہا ہوں اور اہل وطن کے لیے ان کی آشیرباد لا رہا ہوں۔ کاشی میں جو کچھ بھی خاص ہے، جو کچھ بھی نیا ہے، ان سے پہلے پوچھنا ضروری ہے۔ میں کاشی میں کوتوال کے قدموں میں بھی جھکتا ہوں۔ گنگا ترنگ رمنم جٹا کلاپم، گوری نترنتر وبھوشت وام-بھاگم نارائن پریا-مننگ-مداپ-ہارم، وارانسی پور-پتیم بھج وشوناتھم۔ ہم بابا وشوناتھ دربار سے، ملک اور دنیا کو سلام پیش کرتے ہیں، ان عقیدت مندوں کو جو اپنی جگہ سے اس مہایگیہ کا مشاہدہ کررہے ہیں۔ ہم سب کاشی کے لوگوں کے سامنے جھکتے ہیں جن کے تعاون سے شبھ گھڑی آئی ہے۔ دل باغ باغ ہے۔ ذہن ہم آہنگی کی حالت میں ہے۔ آپ سب لوگوں کو مبارکباد۔

ساتھیو،

ہمارے پرانوں میں کہا گیا ہے کہ جیسے ہی کوئی کاشی میں داخل ہوتا ہے، ہر پابندی سے آزاد ہوجاتا ہے۔ بھگوان وشویشور کا آشیرباد اندرونی روح میں شعور پیدا ہوتا ہے جیسے یہاں ایک مافوق الفطرت توانائی آتی ہے۔ اور آج کاشی کے لازوال شعور میں ایک مختلف ارتعاش ہے! آج آدی کاشی کی مافوق الفطرت شکل میں ایک مختلف رعنق ہے! آج ابدی بنارس کے عزائم ایک مختلف طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں! ہم نے شاستروں میں سنا ہے کہ جب بھی کوئی نیک موقع آتا ہے، تمام دیوی شکتیاں تمام بھگوانئی طاقتیں بنارس میں بابا کے پاس موجود ہوتی ہیں۔ میں آج بابا کے دربار میں بھی کچھ ایسا ہی تجربہ کر رہا ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری پوری شعوری کائنات اس سے جڑی ہوئی ہے۔ بابا اپنی مایا کی توسیع کو جانتے ہیں، لیکن جہاں تک ہمارا انسانی وژن جاتا ہے، اس وقت پوری دنیا 'وشوناتھ دھام' کے اس مقدس انعقاد سے جڑی ہوئی ہے۔

ساتھیو،

آج بھگوان شیو کا پیارا دن ہے، پیر۔ آج وکرم سموت 2,880، مارگ شیرشا شکلاپکشا، دشمی تاریخ کی ایک نئی تاریخ کی تخلیق ہورہی ہے۔ اور ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم اس تاریخ کے گواہ ہیں۔ آج وشوناتھ دھام ناقابل تصور لامحدود توانائی سے بھرا ہوا ہے۔ اس کی شان پھیل رہی ہے۔ اس کی خصوصیت آسمان کو چھو رہی ہے۔ یہاں غائب ہونے والے بہت سے قدیم مندر بھی بحال کر دیے گئے ہیں۔ بابا اپنے عقیدت مندوں کی صدیوں کی خدمت سے خوش ہو رہے ہیں، لہذا انھوں نے ہمیں اس دن کے لیے نوازا ہے۔ وشوناتھ دھام کا یہ پورا نیا کمپلیکس کوئی عظیم الشان عمارت ہی نہیں ہے، یہ ہمارے بھارت کی ابدی ثقافت کی علامت ہے! یہ ہماری روحانیت کی علامت ہے! یہ بھارت کی قدیم ترین روایات کی علامت ہے! بھارت کی توانائی، حرکیت کی! جب آپ یہاں آئیں گے تو آستھا ہی کے درشن نہیں ہوں گے بلکہ آپ یہاں اپنے ماضی کا فخر بھی محسوس کریں گے۔ ہم وشوناتھ دھام کمپلیکس میں دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح قدیم و جدید ایک ساتھ آرہے ہیں، قدیم کے الہام کس طرح مستقبل کی رہ نمائی کر رہے ہیں۔

ساتھیو،

ماں گنگا، جو اترواہنی سے بابا کے پاؤں دھونے کاشی آتی ہیں، آج بہت خوش ہوں گی۔ اب جب ہم بھگوان وشوناتھ کے قدموں میں جھک جائیں گے، مراقبہ کریں گے تو گنگا ماں کو چھونے والی ہوا ہمیں آشیرباد اور برکت دے گی۔ اور جب ماں گنگا آزاد اور خوش ہوگی تو بابا کی توجہ میں ہم 'گنگا ترنگ کی کل کل' کے بھگوانئی تجربے کا احساس بھی کر سکیں گے۔ بابا وشوناتھ سب سے تعلق رکھتے ہیں، ماں گنگا سب کی ہے۔ اس کی برکتیں ہر ایک کے لیے ہیں۔ لیکن وقت اور حالات کی وجہ سے بابا اور ماں گنگا کی خدمت تک یہ رسائی مشکل ہو چکی تھی، ہر کوئی یہاں آنا چاہتا تھا، لیکن سڑکوں اور جگہ کی کمی تھی۔ بزرگوں کا، دویانگوں کا یہاں آنا بہت مشکل تھا۔ لیکن اب وشوناتھ دھام پروجیکٹ کی تکمیل کے ساتھ ہر ایک کے لیے یہاں پہنچنا آسان ہوگیا ہے۔ ہمارے دویانگ بھائی بہن، بوڑھے والدین کشتی کے ذریعے براہ راست جیٹی پر آئیں گے۔ جیٹی سے گھاٹ آنے کے لیے ایسکیلیٹر بھی نصب کیے گئے ہیں۔ وہاں سے آپ براہ راست مندر آ سکیں گے۔ تنگ راستوں کی وجہ سے درشن کے انتظار کے لیے گھنٹوں، جو پریشانی پیدا ہوئی تھی وہ بھی اب کم ہوجائے گی۔ اس سے پہلے مندر کا علاقہ جو صرف 3000 مربع فٹ میں تھا اب تقریبا 5 لاکھ مربع فٹ بن چکا ہے۔ اب 50، 60، 70 ہزار عقیدت مند مندر اور مندر کے احاطوں میں آسکتے ہیں۔ یعنی پہلے ماں گنگا کے درشن اشنان اور وہاں سے براہ راست وشوناتھ دھام۔ یہی تو ہے، ہر ہر مہادیو!

ساتھیو،

جب میں بنارس آیا تھا تو میں ایک یقین کے ساتھ آیا تھا۔ یقین آپ سے زیادہ بنارس کے لوگوں پر تھا۔ آج حساب کتاب کا وقت نہیں ہے، لیکن مجھے یاد ہے، کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو بنارس کے لوگوں پر شک کرتے تھے۔ یہ کیسا ہوگا۔، یہ بالکل نہیں ہوگا۔، یہ یہاں ایسے ہی چلتا ہے! ایسے مودی جی تو آکے چلے گئے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ بنارس کے لیے اس طرح کے مفروضے بنائے گئے تھے! اس طرح کے دلائل دیے جا رہے تھے! یہ تعطل بنارس کا نہیں تھا! کاشی میں ایک ہی سرکار ہے۔ کچھ سیاست تھی، کچھ لوگوں کے ذاتی مفادات تھے، لہذا بنارس پر الزام لگایا جا رہا تھا۔ لیکن کاشی کاشی ہے! کاشی لافانی ہے۔ کاشی میں صرف ایک حکومت ہے جس کے ہاتھ میں ڈمرو ہے، ان کی حکومت ہے۔ کاشی کو کون روک سکتا ہے جہاں گنگا اپنی دھارا تبدیل کرکے بہتی ہے؟ کاشی کھنڈ میں بھگوان شیو نے خود کہا ہے، "ونا مم پرسادم وے،کاشی پرتی پدیتے"۔ یعنی میری خوشی کے بغیر کاشی میں کون آ سکتا ہے، کون اسے کھا سکتا ہے؟ مہادیو کی مرضی کے بغیر کوئی کاشی نہیں آتا اور نہ ہی اس کی مرضی کے بغیر یہاں کچھ ہوتا ہے۔ یہاں جو کچھ ہوتا ہے وہ مہادیو کی مرضی سے ہوتا ہے۔ جو کچھ بھی ہوا ہے، یہ مہادیو ہی ہیں جںھوں نے یہ کیا ہے۔ یہ وشوناتھ دھام، میں بابا آپ کے آشیرواد سے ہوا ہے۔ ان کی مرضی کے بغیر، ایک پتہ حرکت کر سکتا ہے؟ کوئی کتنا ہی بڑا ہو، وہ بلائیں گے تبھی کوئی آسکتا ہے۔

ساتھیو،

اگر کسی اور نے بابا کے لیے تعاون کیا ہے تو وہ بابا کے لوگوں کا ہے۔ بابا کے لوگ، ہمارے تمام کاشی کے باشندے، جو خود مہادیو کی شکلیں ہیں۔ جب بھی بابا کو اپنی طاقت کا تجربہ کرنا ہوتا ہے تو وہ اس کے لیے کاشی کے لوگوں کو ایک وسیلہ بناتے ہیں۔ پھر کاشی یہ کرتی ہے اور دنیا دیکھتی ہے۔ "ادم شوائے ادم نمم۔

بھائیو اور بہنو،

میں اپنے ہر محنت کش بھائی اور بہن کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنھوں نے اس شاندار کمپلیکس کی تعمیر میں پسینہ بہایا ہے۔ کورونا کے اس نامساعد دور میں بھی انھوں نے کام کو یہاں رکنے نہیں دیا۔ مجھے صرف ان کام کرنے والے ساتھیوں سے ملنے، ان سے آشیرواد لینے کا موقع ملا۔ میں اپنے کاریگروں، ہمارے سول انجینئروں، انتظامیہ کے لوگوں، ان خاندانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جن کے یہاں گھر ہوئے کرتے تھے، اور ان سب کے ساتھ میں یوپی حکومت، ہمارے کرم یوگی وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ جی اور ان کی پوری ٹیم کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں جنھوں نے کاشی وشوناتھ دھام پروجیکٹ کو مکمل کرنے کے لیے دن رات ایک کردیا۔

ساتھیو،

ہماری اس وارانسی نے قرنوں کو جیا ہے، تاریخ کو بگڑتے ہوئے دیکھا ہے، کتنے ادوار آئے اور چلے گئے! چاہے۔ کتنی ہی سلطنتیں اٹھ کر مٹی میں مل گئیں۔ بنارس باقی ہے، بنارس اپنا رس پھیلا رہا ہے۔ بابا کا دھام نہ صرف ابدی رہا ہے بلکہ اس کی خوب صورتی نے ہمیشہ دنیا کو حیران اور راغب کیا ہے۔ ہمارے پرانوں میں کاشی کی ایسی بھگوانئی شکل بیان کی گئی ہے جو قدرتی چمک سے گھری ہوئی ہے۔ اگر ہم گرنتھوں کو دیکھیں، شاستروں کو دیکھیں۔ مورخین نے بھی درختوں، جھیلوں، تالابوں سے گھری کاشی کی حیرت انگیز نوعیت کو بیان کیا ہے۔ لیکن وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا۔ حملہ آوروں نے اس شہر پر حملے کیے، اسے تباہ کرنے کی کوشش کی! اورنگ زیب کے مظالم، اس کی دہشت گردی کی تاریخ گواہ ہے۔ جس نے تلوار سے تہذیب کو بدلنے کی کوشش کی، جس نے ثقافت کو عصبیت سے کچلنے کی کوشش کی! لیکن اس ملک کی مٹی باقی دنیا سے کچھ مختلف ہے۔ اگر اورنگ زیب یہاں آتا ہے تو شیواجی بھی کھڑا ہو جاتا ہے! اگر یہاں کوئی سالار مسعود ادھر آتا ہے تو راجا سہیلدیو جیسے بہادر جنگجو اسے ہمارے یکجہتی کی طاقت کا احساس دلاتے ہیں۔ اور برطانوی دور میں بھی وارین ہیسٹنگز کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کاشی کے لوگوں نے کیا، کاشی کے یہ لوگ وقتا فوقتا بولتے ہیں اور کاشی کی زبان پر نکلتا ہے۔ گھوڑے پر ہودا اور ہاتھی پر جین جان بھاگل وارین وارن ہیسٹنگ۔

ساتھیو،

آج وقت کے چکر کو دیکھیں، دہشت گردی کے وہ مترادفات تاریخ کے تاریک صفحات تک محدود ہو چکے ہیں! اور میری کاشی آگے بڑھ رہی ہے اور اپنے فخر کو دوبارہ نئی عظمت دے رہی ہے۔

ساتھیو،

کاشی کے بارے میں، میں جتنا زیادہ بولتا ہوں، اتنا ہی میں ڈوبتا جاتا ہوں، میں اتنا ہی جذباتی ہوتا جاتا ہوں۔ کاشی الفاظ میں بیان کیا جانے والا موضوع نہیں ہے، کاشی احساسات کی تخلیق ہے۔ کاشی وہ جگہ ہے جہاں جاگرتی زندگی ہے، کاشی وہ جگہ ہے جہاں موت بھی اچھی ہے! کاشی وہ جگہ ہے جہاں سچائی سنسکار ہے! کاشی وہ جگہ ہے جہاں محبت ہی روایت ہے۔

بھائیو اور بہنو،

ہمارے شاستروں میں کاشی کی تعریفیں بھی بیان کی گئی ہیں اور آخر میں کیا کہا گیا ہے، آخر میں 'نیتی نیتی' ہی کہا ہے۔ یعنی جتنا کہا اتنا ہی نہیں ہے! ہمارے شاستروں نے کہا ہے، "شیوم گیانم ایتی برو: شیوم شبدارتھ چنتکا۔ "۔ یعنی جو لوگ شیو کے لفظ پر غور کرتے ہیں وہ شیو کو علم کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کاشی شیومئی ہے، یہ کاشی روشن ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ علم، تحقیق، ریسرچ، یہ کاشی اور بھارت کے لیے فطری رہے ہیں۔ بھگوان شیو نے خود کہا ہے، "سروکشیترشو بھو پشٹھے، کاشی کشترم چمیں وپو"۔ یعنی کاشی زمین کے تمام حصوں میں میرا ہی جسم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کا پتھر، یہاں کا ہر پتھر شنکر ہے۔ اس لیے ہم اپنی کاشی کو زندہ سمجھتے ہیں اور اسی جذبے کے تحت ہمیں اپنے ملک کے ذرات میں ماں کا احساس ہوتا ہے۔ ہمارے شاستروں کا جملہ ہے کہ کاشی میں ہر جگہ ہر جاندار کے پاس بھگوان وشو کے تصورات ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کاشی زندگی کو براہ راست شیوتوا سے جوڑتی ہے۔ ہمارے رشیوں نے یہ بھی کہا ہے کہ کہ جب تم بھگوان وشویشر کی پناہ میں آتے ہو تو عقل بھی وسیع ہو جاتی ہے۔ بنارس وہ شہر ہے جہاں سے جگت گرو شنکرآچاریہ شریڈوم راجہ کے تقدس سے تحریک ملی تھی انھوں نے ملک کو متحد کرنے کا عزم کیا تھا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں گوسوامی تلسیداس جی نے بھگوان شیو سے متاثر ہو کر رام چرت مانس جیسی عظیم تخلیق کی۔

یہیں کی سرزمین سارناتھ میں بھگوان بدھ شعور کی دنیا لیے لیے ظاہر ہوئے۔ کبیر داس جیسی سماجی مصلح یہیں ہوئے۔ جب معاشرے کو جوڑنے کی ضرورت تھی تو یہ کاشی بھی بن گیا جو سنت روی داس جی کی آستھا کی طاقت کا مرکز تھا۔ یہ کاشی چار جین تیرتھنکروں کی سرزمین ہے جو عدم تشدد اور تپسیا کا مجسمہ ہے۔ راجہ ہریش چندر کی دیانت داری سے لے کر ولبھاچاریہ اور رامانند جی کے علم تک، چیتنیا مہاپربھو اور سمرتھ گرو رام داس سے لے کر سوامی وویکانند اور مدن موہن مالویہ تک، بہت سے رشیوں اور آچاریہ کو کاشی کی مقدس سرزمین سے منسوب کیا گیا ہے۔ چھترپتی شیواجی مہاراج کو یہیں سے تحریک ملی۔ رانی لکشمی بائی سے لے کر چندر شیکھر آزاد تک کاشی بہت سے جنگجوؤں کی کرم بھومی رہی ہے۔ بھرتیندو ہریش چندر، جے شنکر پرساد، منشی پریم چند، پنڈت روی شنکر اور بسم اللہ خان جیسی صلاحیتیں۔ اس یاد کو کس حد تک لے جائیں، کتنا کہنا ہے! پورا ذخیرہ ہے۔ جس طرح کاشی لامحدود ہے اسی طرح کاشی کا تعاون بھی لامحدود ہے۔ کاشی کی نشوونما میں ان لامحدود نیک ارواح کی توانائی شامل ہے۔ اس ترقی میں بھارت کی لامحدود روایات کی وراثت بھی شامل ہے۔ اس لیے ہر رائے رکھنے والے لوگ، زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ یہاں آتے ہیں اور اس سے جڑا ہوا محسوس کرتے ہیں۔

ساتھیو،

کاشی نہ صرف ہمارے بھارت کی ثقافتی و روحانی راجدھانی ہے بلکہ بھارت کی روح کا زندہ اوتار بھی ہے۔ آپ دیکھیں، یوپی میں مشرق اور شمال کو ملانے والی یہ کاشی، یہاں وشوناتھ مندر کو مسمار کر دیا گیا تو مندر کی تزئین و آرائش ماتا اہلیا بائی ہولکر نے کی۔ جن کی جائے پیدائش مہاراشٹر تھی جن کی کرم بھومی اندور مہیشور اور بہت سے علاقوں میں تھی۔ آج میں اس موقع پر اس ماں اہیلیا بائی ہولکر کے سامنے سر جھکاتا ہوں۔ ڈھائی سو سال پہلے انھوں نے کاشی کے لیے بہت کچھ کیا تھا۔ اس کے بعد سے کاشی کے لیے اتنا کام اب کیا گیا ہے۔

ساتھیو،

پنجاب سے تعلق رکھنے والے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے بابا وشوناتھ مندر کی رونق بڑھانے کے لیے سونے کے 23 منکے پیش کیے تھے، جس کے اوپر سونے کی تختی لگی ہوئی تھی۔ پنجاب سے گرو نانک دیو جی، بھی کاشی آئے تھے اور یہاں ستسنگ پیش کیا تھا۔ دیگر سکھ گروؤں کا بھی کاشی کے ساتھ خاص تعلق تھا۔ پنجاب کے لوگوں نے کاشی کی تعمیر نو کے لیے دل کھول کر عطیہ دیا تھا۔ مشرق میں بنگال کی رانی بھوانی نے بنارس کی ترقی کے لیے سب اپنا کچھ پیش کردیا۔ میسور اور دیگر جنوبی بھارتی راجاؤں نے بھی بنارس کے لیے بے حد تعاون کیا ہے۔ یہ ایک ایسا شہر ہے جہاں آپ کو شمالی، جنوبی، نیپالی تقریبا ہر قسم کے ہر طرز کے مندر نظر آئیں گے۔ وشوناتھ مندر اس روحانی شعور کا مرکز رہا ہے اور اب یہ وشوناتھ دھام کمپلیکس اس شعور کو اپنی عظیم شکل میں مزید توانائی دے گا۔

ساتھیو،

ہم سب جنوبی بھارت کے لوگوں کی کاشی سے عقیدت، جنوبی بھارت کے کاشی اور کاشی کے جنوب پر اثرات کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ ایک کتاب میں لکھا ہے، کنڑا زبان میں کہا گیا ہے، کہ جب جگت گرو مادھواچاریہ جی اپنے شاگردوں کے ساتھ جا رہے تھے تو انھوں نے کہا کہ کاشی کے وشوناتھ پاپ نوارن کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے شاگردوں کو کاشی کی شان اور وقار کے بارے میں بھی بتایا۔

ساتھیو،

صدیوں پہلے کا یہ احساس مسلسل جاری ہے۔ مہاکاوی سبرامنیا بھارتی، جن کے کاشی میں قیام نے زندگی کا رخ بدل دیا، نے ایک جگہ لکھا ہے، کہ کاشی کے سنت شاعر کی تقریر کو کانچی پور میں سننے کا ذریعہ بنائیں گے" کاشی سے نکلا ہر پیغام اتنا وسیع ہوتا ہے کہ اس سے ملک کی سمت بدل جاتی ہے۔ ویسے میں ایک اور بات کہوں گا۔ مجھے ایک پرانا تجربہ ہے۔ ہمارے گھاٹوں پر رہنے والے بہت سے بنارسی ساتھیوں نے کشتی چلاتے ہوئے تامل، کنڑا، تیلگو، ملیالم اس قدر روانی سے بولتے ہیں کہ مجھے لگا کہ کہیں میں کیرالہ، تامل ناڈو یا کرناٹک میں تو نہیں آیا ہوا ہوں! اتنی اچھی زبان بولتے ہیں!

ساتھیو،

ہزاروں برسوں سے بھارت کی توانائی محفوظ رہی ہے۔ جب ہم مختلف خطوں، علاقوں کے سوتر سے جڑتے ہیں تو بھارت 'ایک بھارت، شریشٹھ بھارت' کے طور پر بیدار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں 'سوراشٹر سومناتھم' سے لے کر 'ایودھیا متھرا مایا، کاشی کانچی اونتیکا' تک ہر روز یاد رکھنا سکھایا جاتا ہے۔ ہمارے پاس دوادش جیوترلنگوں کی یاد کا پھل ہے: اس میں کوئی شک نہیں کہ سومناتھ سے وشوناتھ تک دوادش جیوترلنگوں کو یاد کرنا ہر عزم کو کام یاب کرتا ہے۔ یہ شک اس لیے نہیں ہے کہ اس یاد کے بہانے پورے بھارت کی روح متحد ہے۔ اور جب بھارت کی روح کی بات آتی ہے تو شک کہاں رہ جاتا ہے، ناممکن کیا رہتا ہے؟

ساتھیو،

یہ بھی محض اتفاق نہیں ہے کہ جب بھی کاشی نے کوئی موڑ لیا ہے، کچھ نیا کیا ہے تو ملک کی قسمت بدل گئی۔ کاشی میں ترقی کا مہایگیہ جو گذشتہ سات برسوں سے جاری ہے، آج ایک نئی توانائی حاصل کر رہا ہے۔ کاشی وشوناتھ دھام کو قوم کے نام وقف کرنا، بھارت کو ایک فیصلہ کن سمت دے گا اور اس کے روشن مستقبل کا باعث بنے گا۔ یہ کمپلیکس ہماری طاقت، ہمارے فرض کا گواہ ہے۔ اگر آپ اس کے بارے میں سوچتے ہیں، اگر آپ پر عزم ہیں، تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ ہر بھارتی کے بازوؤں میں وہ طاقت ہوتی ہے جو ناقابل تصور کو سچ بناتی ہے۔ ہم ریاضت کرنا جانتے ہیں، ہم تپسیا کرنا جانتے ہیں، ہم ملک کے لیے دن رات کھپنا جانتے ہیں۔ چیلنج کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، ہم بھارتی مل کر اسے شکست دے سکتے ہیں۔ تخریب کاروں کی طاقت بھارت کی طاقت اور بھارت کی عقیدت سے زیادہ کبھی نہیں ہوسکتی۔ یاد رکھیں، دنیا ہمیں دیکھے گی جیسا کہ ہم خود کو دیکھتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ آج کا بھارت اب اس کمتری کے احساس سے نکل رہا ہے جس سے صدیوں کی غلامی نے ہمیں متاثر کیا تھا۔ آج کا بھارت نہ صرف سومناتھ مندر کی حسن کاری کر رہا ہے بلکہ سمندر میں ہزاروں کلومیٹر کا آپرِکل فائبر بھی بچھا رہا ہے۔ آج کا بھارت نہ صرف بابا کیدارناتھ مندر کی تزئین و آرائش کر رہا ہے بلکہ بھارتیوں کو اپنے طور پر خلا میں بھیجنے کی تیاری بھی کر رہا ہے۔ آج کا بھارت نہ صرف ایودھیا میں بھگوان شری رام کا مندر تعمیر کر رہا ہے بلکہ ملک کے ہر ضلع میں میڈیکل کالج بھی کھول رہا ہے۔ آج کا بھارت نہ صرف بابا وشوناتھ دھام کو شاندار انداز میں دیکھ رہا ہے بلکہ غریبوں کے لیے کروڑوں پکے گھر بھی بنا رہا ہے۔

ساتھیو،

نئے بھارت کو اپنی ثقافت پر فخر ہے اور وہ اپنی صلاحیتوں پر اتنا ہی اعتماد رکھتا ہے۔ نئے بھارت میں ورثہ بھی ہے اور ترقی بھی ہے۔ آپ دیکھیں، رام جانکی روٹ کی تعمیر کی جارہی ہے تاکہ ایودھیا سے جنک پور تک سفر کرنا آسان ہو سکے۔ آج بھگوان رام سے وابستہ مقامات کو رامائن سرکٹ سے جوڑا جا رہا ہے اور رامائن ٹرین چلائی جا رہی ہے۔ بدھ سرکٹ پر کام کیا جارہا ہے اور کوشی نگر میں بین الاقوامی ہوائی اڈے کا قیام بھی عمل میں آیا ہے۔ جہاں کرتار پور صاحب راہداری تعمیر کی گئی ہے وہیں ہیم کنڈ صاحب جی کے درشن کو آسان بنانے کے لیے روپ وے بھی تعمیر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اتراکھنڈ میں چاردھام روڈ مہا پروجیکٹ پر بھی تیزی سے کام جاری ہے۔ بھگوان وٹھل کے کروڑوں عقیدت مندوں کے آشیرواد سے سری سنت گیانیشور مہاراج پالکھی مارگ اور سنت تکارام مہاراج پالکھی مارگ پر بھی چند ہفتے قبل کام شروع ہوا ہے۔

ساتھیو،

کیرالہ میں گرووایور مندر ہو یا تمل ناڈو میں کانچی پورم ویلنکنی، تلنگانہ میں جوگولمبا دیوی مندر ہو یا بنگال میں بیلور مٹھ، گجرات میں دوارکا جی ہو یا اروناچل پردیش میں پرشورام کنڈ، ملک کی مختلف ریاستوں میں ہمارے عقیدے اور ثقافت سے وابستہ ایسے بہت سے مقدس مقامات پر پوری عقیدت کے ساتھ کام کیا گیا ہے، کام چل رہا ہے۔

بھائیو اور بہنو،

آج کا بھارت اپنے کھوئے ہوئے ورثے کو دوبارہ سمیٹ رہا ہے۔ یہاں کاشی میں ماں اناپورنا خود رہتی ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ایک صدی کے انتظار کے بعد کاشی سے چوری ہونے والی ماں اناپورنا کا مجسمہ سو سال بعد اب کاشی میں دوبارہ نصب کیا گیا ہے۔ ماں اناپورنا کے فضل سے کورونا کے مشکل وقت میں ملک نے اپنے کھانے پینے کے ذخیرے کھول دیے، اس بات کو یقینی بنایا کہ کوئی غریب بھوکا نہ سوئے، مفت راشن کا انتظام کیا۔

ساتھیو،

جب بھی ہم بھگوان کے درشن کرتے ہیں، مندروں میں آتے ہیں، کبھی بھگوان سے کچھ مانگتے ہیں، ہم کچھ عزم بھی کرتے ہیں۔ میرے لیے عوام بھگوان کی شکل ہے۔ میرے لیے ہر بھارتی بھگوان کا حصہ ہے۔ جس طرح یہ سب لوگ بھگوان کے پاس جاتے ہیں اور آپ سے کچھ مانگتے ہیں، جب میں آپ کو بھگوان سمجھتا ہوں تو عوام کو بھگوان کی شکل مانتا ہوں، میں آج آپ سے کچھ مانگنا چاہتا ہوں، میں آپ سے کچھ مانگتا ہوں۔ میں اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے ملک کے لیے تین عہد چاہتا ہوں، مت بھولیں، میں تین عہد چاہتا ہوں اور بابا کی مقدس سرزمین سے مانگ رہا ہوں- پہلا عہد صفائی، دوسرا تخلیق اور تیسرا خود کفیل بھارت کے لیے مسلسل کوششیں۔ صفائی طرز زندگی ہے، صفائی نظم و ضبط ہے۔ یہ اپنے ساتھ بہت بڑی حد تک فرائض لاتی ہے۔ بھارت چاہے کتنا ہی ترقی کرے، اگر وہ صاف ستھرا نہیں ہوگا، ہمارے لیے آگے بڑھنا مشکل ہوگا۔ ہم نے اس سمت میں بہت کچھ کیا ہے لیکن ہمیں اپنی کوششوں میں مزید اضافہ کرنا ہوگا۔ فرض شناسی سے بھری آپ کی ایک چھوٹی سی کوشش ملک کی بہت مدد کرے گی۔ یہاں بنارس میں بھی، شہر میں، گھاٹوں پر، صفائی ستھرائی پر توجہ دینی ہوگی۔ ہمیں صفائی ستھرائی کو ایک نئی سطح پر لے جانا ہے۔ اتراکھنڈ سے بنگال تک گنگا جی کی صفائی ستھرائی کے لیے بہت سی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہمیں چوکس رہنا ہوگا اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کرنا ہوگا کہ نمامی گنگے مہم کام یاب رہے۔

ساتھیو،

غلامی کے طویل دور نے ہم بھارتیوں کے اعتماد کو توڑ دیا تاکہ ہم اپنی تخلیقیت پر اعتماد کھو بیٹھیں۔ آج اس ہزاروں سال پرانی کاشی سے میں ہر ملک کے باشندے سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ پورے اعتماد کے ساتھ تخلیق کرے، جدت لائے، اسے اختراعی انداز میں کرے۔ جب بھارت کے نوجوان کورونا کے اس مشکل وقت میں سینکڑوں اسٹارٹ اپ بنا سکتے ہیں، اتنے چیلنجوں کے درمیان، وہ 40 سے زیادہ یونیکورن بنا سکتے ہیں، تو وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ آپ سوچیے ایک یونیکورن، اسٹارٹ اپ کی مالیت سات ہزار کروڑ روپے سے زیادہ ہے اور یہ پچھلے ڈیڑھ سال میں اتنے کم وقت میں۔ یہ بے مثال ہے۔ ہر بھارتی، جہاں بھی ہو، وہ کسی بھی شعبے میں، ملک کے لیے کچھ نیا کرنے کی کوشش کرے گا، تب ہی نئے راستے ملیں گے، نئے راستے بنیں گے اور ہر نئی منزل پاکر رہیں گے۔

بھائیو اور بہنو،

آج ہمارا تیسرا عہد یہ ہے کہ ہم خود کفیل بھارت کے حصول کے لیے اپنی کوششیں تیز کریں۔ یہ آزادی کا امرت کال ہے۔ ہم آزادی کے 75 ویں سال میں ہیں۔ جب بھارت آزادی کے 100 سال منارہا ہے تو ہمیں اب اس پر کام کرنا ہوگا کہ بھارت کیسا ہوگا۔ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم خود کفیل ہوں۔ جب ہم ملک میں بنائے گئے کاموں پر فخر کریں گے، جب ہم مقامی لوگوں کے لیے آواز اٹھائیں گے، جب ہم ایسی چیزیں خریدیں گے جو ایک بھارتی بنانے کے لیے پسینہ بہا رہا ہے تو ہم اس مہم میں مدد کریں گے۔ امرت کال میں بھارت 130 کروڑ ہم وطنوں کی کوششوں سے آگے بڑھ رہا ہے۔ مہادیو کے فضل سے ہر بھارتی کی کوششوں سے ہم خود کفیل بھارت کا خواب پورا ہوتے دیکھیں گے۔ اس یقین کے ساتھ میں ایک بار پھر بابا وشوناتھ، ماں اناپورنا، کاشی کوتوال اور تمام دیوتاؤں کے قدموں میں جھکتا ہوں۔ ملک کے مختلف گوشوں سے اتنی بڑی تعداد میں قابل احترام سنت اور مہاتما آئے ہیں، یہ ہمارے لیے، میرے جیسے عام شہری کے لیے خوش قسمتی کے لمحات ہیں۔ میں تمام سنتوں، تمام معزز مہاتماؤں کے سامنے سر جھکاتا ہوں اور دل کی گہرائیوں سے انھیں سلام پیش کرتا ہوں۔ آج میں کاشی کے تمام لوگوں، ہمارے ملک کے تمام عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ ہر ہر مہادیو۔

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
Ayushman driving big gains in cancer treatment: Lancet

Media Coverage

Ayushman driving big gains in cancer treatment: Lancet
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM’s address at Christmas Celebrations hosted by the Catholic Bishops' Conference of India
December 23, 2024
It is a moment of pride that His Holiness Pope Francis has made His Eminence George Koovakad a Cardinal of the Holy Roman Catholic Church: PM
No matter where they are or what crisis they face, today's India sees it as its duty to bring its citizens to safety: PM
India prioritizes both national interest and human interest in its foreign policy: PM
Our youth have given us the confidence that the dream of a Viksit Bharat will surely be fulfilled: PM
Each one of us has an important role to play in the nation's future: PM

Respected Dignitaries…!

आप सभी को, सभी देशवासियों को और विशेषकर दुनिया भर में उपस्थित ईसाई समुदाय को क्रिसमस की बहुत-बहुत शुभकामनाएं, ‘Merry Christmas’ !!!

अभी तीन-चार दिन पहले मैं अपने साथी भारत सरकार में मंत्री जॉर्ज कुरियन जी के यहां क्रिसमस सेलीब्रेशन में गया था। अब आज आपके बीच उपस्थित होने का आनंद मिल रहा है। Catholic Bishops Conference of India- CBCI का ये आयोजन क्रिसमस की खुशियों में आप सबके साथ जुड़ने का ये अवसर, ये दिन हम सबके लिए यादगार रहने वाला है। ये अवसर इसलिए भी खास है, क्योंकि इसी वर्ष CBCI की स्थापना के 80 वर्ष पूरे हो रहे हैं। मैं इस अवसर पर CBCI और उससे जुड़े सभी लोगों को बहुत-बहुत बधाई देता हूँ।

साथियों,

पिछली बार आप सभी के साथ मुझे प्रधानमंत्री निवास पर क्रिसमस मनाने का अवसर मिला था। अब आज हम सभी CBCI के परिसर में इकट्ठा हुए हैं। मैं पहले भी ईस्टर के दौरान यहाँ Sacred Heart Cathedral Church आ चुका हूं। ये मेरा सौभाग्य है कि मुझे आप सबसे इतना अपनापन मिला है। इतना ही स्नेह मुझे His Holiness Pope Francis से भी मिलता है। इसी साल इटली में G7 समिट के दौरान मुझे His Holiness Pope Francis से मिलने का अवसर मिला था। पिछले 3 वर्षों में ये हमारी दूसरी मुलाकात थी। मैंने उन्हें भारत आने का निमंत्रण भी दिया है। इसी तरह, सितंबर में न्यूयॉर्क दौरे पर कार्डिनल पीट्रो पैरोलिन से भी मेरी मुलाकात हुई थी। ये आध्यात्मिक मुलाक़ात, ये spiritual talks, इनसे जो ऊर्जा मिलती है, वो सेवा के हमारे संकल्प को और मजबूत बनाती है।

साथियों,

अभी मुझे His Eminence Cardinal जॉर्ज कुवाकाड से मिलने का और उन्हें सम्मानित करने का अवसर मिला है। कुछ ही हफ्ते पहले, His Eminence Cardinal जॉर्ज कुवाकाड को His Holiness Pope Francis ने कार्डिनल की उपाधि से सम्मानित किया है। इस आयोजन में भारत सरकार ने केंद्रीय मंत्री जॉर्ज कुरियन के नेतृत्व में आधिकारिक रूप से एक हाई लेवल डेलिगेशन भी वहां भेजा था। जब भारत का कोई बेटा सफलता की इस ऊंचाई पर पहुंचता है, तो पूरे देश को गर्व होना स्वभाविक है। मैं Cardinal जॉर्ज कुवाकाड को फिर एक बार बधाई देता हूं, शुभकामनाएं देता हूं।

साथियों,

आज आपके बीच आया हूं तो कितना कुछ याद आ रहा है। मेरे लिए वो बहुत संतोष के क्षण थे, जब हम एक दशक पहले फादर एलेक्सिस प्रेम कुमार को युद्ध-ग्रस्त अफगानिस्तान से सुरक्षित बचाकर वापस लाए थे। वो 8 महीने तक वहां बड़ी विपत्ति में फंसे हुए थे, बंधक बने हुए थे। हमारी सरकार ने उन्हें वहां से निकालने के लिए हर संभव प्रयास किया। अफ़ग़ानिस्तान के उन हालातों में ये कितना मुश्किल रहा होगा, आप अंदाजा लगा सकते हैं। लेकिन, हमें इसमें सफलता मिली। उस समय मैंने उनसे और उनके परिवार के सदस्यों से बात भी की थी। उनकी बातचीत को, उनकी उस खुशी को मैं कभी भूल नहीं सकता। इसी तरह, हमारे फादर टॉम यमन में बंधक बना दिए गए थे। हमारी सरकार ने वहाँ भी पूरी ताकत लगाई, और हम उन्हें वापस घर लेकर आए। मैंने उन्हें भी अपने घर पर आमंत्रित किया था। जब गल्फ देशों में हमारी नर्स बहनें संकट से घिर गई थीं, तो भी पूरा देश उनकी चिंता कर रहा था। उन्हें भी घर वापस लाने का हमारा अथक प्रयास रंग लाया। हमारे लिए ये प्रयास केवल diplomatic missions नहीं थे। ये हमारे लिए एक इमोशनल कमिटमेंट था, ये अपने परिवार के किसी सदस्य को बचाकर लाने का मिशन था। भारत की संतान, दुनिया में कहीं भी हो, किसी भी विपत्ति में हो, आज का भारत, उन्हें हर संकट से बचाकर लाता है, इसे अपना कर्तव्य समझता है।

साथियों,

भारत अपनी विदेश नीति में भी National-interest के साथ-साथ Human-interest को प्राथमिकता देता है। कोरोना के समय पूरी दुनिया ने इसे देखा भी, और महसूस भी किया। कोरोना जैसी इतनी बड़ी pandemic आई, दुनिया के कई देश, जो human rights और मानवता की बड़ी-बड़ी बातें करते हैं, जो इन बातों को diplomatic weapon के रूप में इस्तेमाल करते हैं, जरूरत पड़ने पर वो गरीब और छोटे देशों की मदद से पीछे हट गए। उस समय उन्होंने केवल अपने हितों की चिंता की। लेकिन, भारत ने परमार्थ भाव से अपने सामर्थ्य से भी आगे जाकर कितने ही देशों की मदद की। हमने दुनिया के 150 से ज्यादा देशों में दवाइयाँ पहुंचाईं, कई देशों को वैक्सीन भेजी। इसका पूरी दुनिया पर एक बहुत सकारात्मक असर भी पड़ा। अभी हाल ही में, मैं गयाना दौरे पर गया था, कल मैं कुवैत में था। वहां ज्यादातर लोग भारत की बहुत प्रशंसा कर रहे थे। भारत ने वैक्सीन देकर उनकी मदद की थी, और वो इसका बहुत आभार जता रहे थे। भारत के लिए ऐसी भावना रखने वाला गयाना अकेला देश नहीं है। कई island nations, Pacific nations, Caribbean nations भारत की प्रशंसा करते हैं। भारत की ये भावना, मानवता के लिए हमारा ये समर्पण, ये ह्यूमन सेंट्रिक अप्रोच ही 21वीं सदी की दुनिया को नई ऊंचाई पर ले जाएगी।

Friends,

The teachings of Lord Christ celebrate love, harmony and brotherhood. It is important that we all work to make this spirit stronger. But, it pains my heart when there are attempts to spread violence and cause disruption in society. Just a few days ago, we saw what happened at a Christmas Market in Germany. During Easter in 2019, Churches in Sri Lanka were attacked. I went to Colombo to pay homage to those we lost in the Bombings. It is important to come together and fight such challenges.

Friends,

This Christmas is even more special as you begin the Jubilee Year, which you all know holds special significance. I wish all of you the very best for the various initiatives for the Jubilee Year. This time, for the Jubilee Year, you have picked a theme which revolves around hope. The Holy Bible sees hope as a source of strength and peace. It says: "There is surely a future hope for you, and your hope will not be cut off." We are also guided by hope and positivity. Hope for humanity, Hope for a better world and Hope for peace, progress and prosperity.

साथियों,

बीते 10 साल में हमारे देश में 25 करोड़ लोगों ने गरीबी को परास्त किया है। ये इसलिए हुआ क्योंकि गरीबों में एक उम्मीद जगी, की हां, गरीबी से जंग जीती जा सकती है। बीते 10 साल में भारत 10वें नंबर की इकोनॉमी से 5वें नंबर की इकोनॉमी बन गया। ये इसलिए हुआ क्योंकि हमने खुद पर भरोसा किया, हमने उम्मीद नहीं हारी और इस लक्ष्य को प्राप्त करके दिखाया। भारत की 10 साल की विकास यात्रा ने हमें आने वाले साल और हमारे भविष्य के लिए नई Hope दी है, ढेर सारी नई उम्मीदें दी हैं। 10 साल में हमारे यूथ को वो opportunities मिली हैं, जिनके कारण उनके लिए सफलता का नया रास्ता खुला है। Start-ups से लेकर science तक, sports से entrepreneurship तक आत्मविश्वास से भरे हमारे नौजवान देश को प्रगति के नए रास्ते पर ले जा रहे हैं। हमारे नौजवानों ने हमें ये Confidence दिया है, य़े Hope दी है कि विकसित भारत का सपना पूरा होकर रहेगा। बीते दस सालों में, देश की महिलाओं ने Empowerment की नई गाथाएं लिखी हैं। Entrepreneurship से drones तक, एरो-प्लेन उड़ाने से लेकर Armed Forces की जिम्मेदारियों तक, ऐसा कोई क्षेत्र नहीं, जहां महिलाओं ने अपना परचम ना लहराया हो। दुनिया का कोई भी देश, महिलाओं की तरक्की के बिना आगे नहीं बढ़ सकता। और इसलिए, आज जब हमारी श्रमशक्ति में, Labour Force में, वर्किंग प्रोफेशनल्स में Women Participation बढ़ रहा है, तो इससे भी हमें हमारे भविष्य को लेकर बहुत उम्मीदें मिलती हैं, नई Hope जगती है।

बीते 10 सालों में देश बहुत सारे unexplored या under-explored sectors में आगे बढ़ा है। Mobile Manufacturing हो या semiconductor manufacturing हो, भारत तेजी से पूरे Manufacturing Landscape में अपनी जगह बना रहा है। चाहे टेक्लोलॉजी हो, या फिनटेक हो भारत ना सिर्फ इनसे गरीब को नई शक्ति दे रहा है, बल्कि खुद को दुनिया के Tech Hub के रूप में स्थापित भी कर रहा है। हमारा Infrastructure Building Pace भी अभूतपूर्व है। हम ना सिर्फ हजारों किलोमीटर एक्सप्रेसवे बना रहे हैं, बल्कि अपने गांवों को भी ग्रामीण सड़कों से जोड़ रहे हैं। अच्छे ट्रांसपोर्टेशन के लिए सैकड़ों किलोमीटर के मेट्रो रूट्स बन रहे हैं। भारत की ये सारी उपलब्धियां हमें ये Hope और Optimism देती हैं कि भारत अपने लक्ष्यों को बहुत तेजी से पूरा कर सकता है। और सिर्फ हम ही अपनी उपलब्धियों में इस आशा और विश्वास को नहीं देख रहे हैं, पूरा विश्व भी भारत को इसी Hope और Optimism के साथ देख रहा है।

साथियों,

बाइबल कहती है- Carry each other’s burdens. यानी, हम एक दूसरे की चिंता करें, एक दूसरे के कल्याण की भावना रखें। इसी सोच के साथ हमारे संस्थान और संगठन, समाज सेवा में एक बहुत बड़ी भूमिका निभाते हैं। शिक्षा के क्षेत्र में नए स्कूलों की स्थापना हो, हर वर्ग, हर समाज को शिक्षा के जरिए आगे बढ़ाने के प्रयास हों, स्वास्थ्य के क्षेत्र में सामान्य मानवी की सेवा के संकल्प हों, हम सब इन्हें अपनी ज़िम्मेदारी मानते हैं।

साथियों,

Jesus Christ ने दुनिया को करुणा और निस्वार्थ सेवा का रास्ता दिखाया है। हम क्रिसमस को सेलिब्रेट करते हैं और जीसस को याद करते हैं, ताकि हम इन मूल्यों को अपने जीवन में उतार सकें, अपने कर्तव्यों को हमेशा प्राथमिकता दें। मैं मानता हूँ, ये हमारी व्यक्तिगत ज़िम्मेदारी भी है, सामाजिक दायित्व भी है, और as a nation भी हमारी duty है। आज देश इसी भावना को, ‘सबका साथ, सबका विकास और सबका प्रयास’ के संकल्प के रूप में आगे बढ़ा रहा है। ऐसे कितने ही विषय थे, जिनके बारे में पहले कभी नहीं सोचा गया, लेकिन वो मानवीय दृष्टिकोण से सबसे ज्यादा जरूरी थे। हमने उन्हें हमारी प्राथमिकता बनाया। हमने सरकार को नियमों और औपचारिकताओं से बाहर निकाला। हमने संवेदनशीलता को एक पैरामीटर के रूप में सेट किया। हर गरीब को पक्का घर मिले, हर गाँव में बिजली पहुंचे, लोगों के जीवन से अंधेरा दूर हो, लोगों को पीने के लिए साफ पानी मिले, पैसे के अभाव में कोई इलाज से वंचित न रहे, हमने एक ऐसी संवेदनशील व्यवस्था बनाई जो इस तरह की सर्विस की, इस तरह की गवर्नेंस की गारंटी दे सके।

आप कल्पना कर सकते हैं, जब एक गरीब परिवार को ये गारंटी मिलती हैं तो उसके ऊपर से कितनी बड़ी चिंता का बोझ उतरता है। पीएम आवास योजना का घर जब परिवार की महिला के नाम पर बनाया जाता है, तो उससे महिलाओं को कितनी ताकत मिलती है। हमने तो महिलाओं के सशक्तिकरण के लिए नारीशक्ति वंदन अधिनियम लाकर संसद में भी उनकी ज्यादा भागीदारी सुनिश्चित की है। इसी तरह, आपने देखा होगा, पहले हमारे यहाँ दिव्यांग समाज को कैसी कठिनाइयों का सामना करना पड़ता था। उन्हें ऐसे नाम से बुलाया जाता था, जो हर तरह से मानवीय गरिमा के खिलाफ था। ये एक समाज के रूप में हमारे लिए अफसोस की बात थी। हमारी सरकार ने उस गलती को सुधारा। हमने उन्हें दिव्यांग, ये पहचान देकर के सम्मान का भाव प्रकट किया। आज देश पब्लिक इंफ्रास्ट्रक्चर से लेकर रोजगार तक हर क्षेत्र में दिव्यांगों को प्राथमिकता दे रहा है।

साथियों,

सरकार में संवेदनशीलता देश के आर्थिक विकास के लिए भी उतनी ही जरूरी होती है। जैसे कि, हमारे देश में करीब 3 करोड़ fishermen हैं और fish farmers हैं। लेकिन, इन करोड़ों लोगों के बारे में पहले कभी उस तरह से नहीं सोचा गया। हमने fisheries के लिए अलग से ministry बनाई। मछलीपालकों को किसान क्रेडिट कार्ड जैसी सुविधाएं देना शुरू किया। हमने मत्स्य सम्पदा योजना शुरू की। समंदर में मछलीपालकों की सुरक्षा के लिए कई आधुनिक प्रयास किए गए। इन प्रयासों से करोड़ों लोगों का जीवन भी बदला, और देश की अर्थव्यवस्था को भी बल मिला।

Friends,

From the ramparts of the Red Fort, I had spoken of Sabka Prayas. It means collective effort. Each one of us has an important role to play in the nation’s future. When people come together, we can do wonders. Today, socially conscious Indians are powering many mass movements. Swachh Bharat helped build a cleaner India. It also impacted health outcomes of women and children. Millets or Shree Anna grown by our farmers are being welcomed across our country and the world. People are becoming Vocal for Local, encouraging artisans and industries. एक पेड़ माँ के नाम, meaning ‘A Tree for Mother’ has also become popular among the people. This celebrates Mother Nature as well as our Mother. Many people from the Christian community are also active in these initiatives. I congratulate our youth, including those from the Christian community, for taking the lead in such initiatives. Such collective efforts are important to fulfil the goal of building a Developed India.

साथियों,

मुझे विश्वास है, हम सबके सामूहिक प्रयास हमारे देश को आगे बढ़ाएँगे। विकसित भारत, हम सभी का लक्ष्य है और हमें इसे मिलकर पाना है। ये आने वाली पीढ़ियों के प्रति हमारा दायित्व है कि हम उन्हें एक उज्ज्वल भारत देकर जाएं। मैं एक बार फिर आप सभी को क्रिसमस और जुबली ईयर की बहुत-बहुत बधाई देता हूं, शुभकामनाएं देता हूं।

बहुत-बहुत धन्यवाद।