نئی دہلی، 31 جولائی 2021، جے ہند شریمان! میں سردار ولبھ بھائی پٹیل نیشنل پولیس اکیڈمی کے ڈائرکٹر اتل کروال، اکیڈمی کے کنبے اور یہاں موجود تمام افسروں کی جانب سے آپ کا دلی خیرمقدم اور استقبال کرتا ہوں۔ ہم سبھی آپ کے ممنون ہیں کہ آپ نے اپنے بہت زیادہ مصروف ترین معمولات زندگی میں سے اس تقریب کے لئے وقت نکالا۔ اس تقریب میں موجود دیگر معززین مرکزی وزیر داخلہ جناب امت شاہ، امور داخلہ کے مرکزی وزیر مملکت جناب نتیہ نند رائے ، مرکزی داخلہ سکریٹری جناب اجے بھلہ اور بارڈر منیجمنٹ آف پولیس کے سکریٹری جناب سنجیوا کمار کا بھی میں دلی خیر مقدم کرتا ہوں۔ شریمان اس تقریب میں آپ کے سامنے کل 144 بھارتی پولیس سروس کے افسران اور دوست ممالک نیپال، بھوٹان، مالدیپ اور ماریشس کے 34 پولیس افسر بھی موجود ہیں۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ چھ ماہ کی ضلعی تربیت کے دور میں ان تمام افسروں نے اپنی اپنی ریاستوں، ضلع میں اور ممالک میں قابل تعریف اور اہم رول ادا کیا ہے، جس میں سے کچھ افسر کورونا سے متاثر بھی ہوئے۔ لیکن پوری طرح صحت یاب ہوکر تربیت میں شامل رہے۔ یہ بات بھی آپ کے لئے باعث مسرت ہوگی کہ دلی کے 8 افسروں کے ایک دستے نے جس میں تین غیر ملکی افسر بھی شامل رہے، بھارت درشن کے دوران لکشدیپ کے دورے کے دوران ایک فوجی افسر کرنل صاحب کے خاندان کے چار افراد کو ڈوبنے سے بچایا۔ ان تمام افسروں کی پاسنگ آؤٹ پریڈ تقریب تقسیم اسناد کے لے 6 اگست کا دن مقرر کیا گیا۔ جس کے بعد یہ نیشنل فارنسنک سائنسز یونیورسٹی اور سی آر پی ایف کی اٹیچمنٹ مکمل کرنے کے بعد اپنی اپنی ریاستوں میں اور ممالک میں سرگرمی کے ساتھ فرض کی ادائیگی کے لئے موجود ہوں گے۔ ان تمام افسروں کے لئے خوش قسمتی کی بات ہے کہ ملک کی خدمات میں پہلا قدم رکھنے کے موقع پر انہیں آپ سے آشیرواد اور رہنمائی حاصل ہوگی۔ شریمان پولیس اکیڈمی کے دو برس کی سخت تربیت کے آخری نتائج کے مطابق پہلے دو مقام خواتین افسروں نے حاصل کئے ہیں، جن میں سے پہلے مقام پر رنجیتا شرما رہیں جنہوں نے نہ صرف بیسٹ پروبیشنر کا خطاب حاصل کیا بلکہ آئی پی ایس کی تاریخ میں ایسی پہلی ہندوستانی خاتون افسر بنیں جنہوں نے آئی پی ایس ایسو سی ایشن سورڈ آف آنر بھی جیتا جو کہ آؤٹ ڈور تربیت کی بنیاد پر دیا جاتا ہے۔ دوسرے نمبر پر ایک باصلاحیت خاتون افسر شریا گپتا رہیں اور آپ کی اجازت ہو تو اس تقریب کی نظامت کرنے کے لئے میں شریا کو مدعو کرنا چاہوں گا۔
شریا گپتا: جے ہند شریمان! میں شریا گپتا بھارتی پولیس سروس کے 2019 بیچ کی زیر پروبیشن افسر ہوں۔ بنیادی طور پر میرا تعلق دلی سے ہے اور مجھے تامل ناڈو کیڈر مختص ہوا ہے۔جناب عالی سب سے پہلے تربیت یافتہ افسروں کے ساتھ بات چیت کے اس پروگرام میں آپ کی پروقار موجودگی کے لئے میں آپ کا استقبال کرتا ہوں اور اپنی ممنونیت کا اظہار کرتی ہوں۔ اس بات کے پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے میں اپنے ساتھی افسر جناب انج پالیوال کو مدعو کرتی ہوں کہ وہ اپنا تعارف کراتے ہوئے آپ سے بات چیت شروع کریں۔
انُج پالیوال: جے ہند شریمان! سر میرا نام انج پالیوال ہے۔ میں سر ہریانہ کےپانی پت ضلع کا رہنے والا ہوں اور سر مجھے کیرل کیڈر مختص ہوا ہے۔ سر میں نے اپنی گریجویشن آئی آئی ٹی رڑکی سے کی ہے۔ اس کے بعد میں نے سر دو سال ایک پرائیویٹ کمپنی میں کیا ہےسر۔
وزیراعظم: سب سے پہلے تو شریا کو ونکّم!
شریا گپتا: ونکم سر!
سوال1:
وزیراعظم: اچھا انج جی، آپ نے آئی آئی ٹی سے پڑھائی کی ہے اور پھر آپ دو سال کہیں اور کام کے لئے چلے گئے اور آپ پولیس سروس میں آگئے۔ایسا آپ کے ذہن میں کیا تھا کہ آپ نے پولیس سروس کو اپنا کیرئر بنایا؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ آئی اے ایس جانا چاہتے تھے پھر کہیں لڑھک گئے اور یہاں پہنچ گئے، ایسا تو نہیں ہوا ہے؟
انُج پالیوال: سر جب میں اپنے کالج میں پڑھ رہا تھا تو میں سر جب تھرڈ ایئر میں تھا تو سر ہمارے کالج میں سر حال میں پڈوچیری کی گورنر محترمہ کرن بیدی بھی آئی تھیں۔ تو سر جب انہوں نے اپنا سر وہاں پر جو لیکچر دیا تھاتوسر جو اس سے ہم بہت لوگ سر کافی متاثر ہوئے تھے اور سر ہم نے سول سروس کی تیاری کرنے کاعزم کیا تھا۔ سر امتحان دیتے وقت سر میری پہلی ترجیح سر آئی اے ایس تھی، دوسری آئی پی ایس تھی اور سر میں اس کے بعد دوسری بار کوشش نہیں کی، میں آئی پی ایس میں کافی خوش ہوں اور سر ملک کی خدمت آئی پی ایس پولیس کے طور پر ہی کرنا چاہتا ہوں۔
وزیراعظم: ابھی تو کرن جی وہاں ایل جی نہیں ہیں۔ وہاں تو اب نئے ایل جی ہیں۔
سوال2:
وزیراعظم: اچھا انج آپ کا بیک گراؤنڈ بایو ٹیکنالوجی کا ہے۔ پولیسنگ میں کرائم انسوسٹی گیشن جیسے معاملوں کو لیکر بھی میں سمجھاتا ہوں کہ آپ کی تعلیم کام آسکتی ہے، آپ کو کیا لگتا ہے؟
انج پالیوال:جی سر! بالکل آسکتی ہے سر! آج کل سائنسی جانچ بہت ضروری ہےسر کسی بھی کیس میں کنوکشن لانے کے لئے اور سر نئی نئی تکنیک جیسے کہ ڈی این اے اور ڈی این اے ٹیکنالوجی پر سر آج کل کافی فوکس کیا جاتا ہے۔کسی بھی کیس میں سر ریپ کیس ہوتا، مرڈ کیس ہوتا ہے تو سر ان میں ڈی این اے کی کافی اہمیت ہے اور ڈی این اے فنگر پرنٹنگ آج کل بہت اہم ہے سر۔
وزیراعظم: اس کورونا کےدور میں ویکسین کی کتنی بات چیت ہوری ہے۔ تو آپ کا یہ بیک گراؤنڈ ہونے کی وجہ سے اس کو بھی دلچسپی لیکر کے پڑھائی وڑھائی کرتے ہو یا چھوڑ دیا؟
انج پالیوال: سر ابھی توجہ ٹریننگ پر ہے سر۔
سوال 3:
وزیراعظم: اچھا اس کے علاوہ بھی آپ کی کیا ہابی ہیں؟
انج پالیوال: سر اس کے علاوہ مجھے کھیلنا بہت پسند ہے سر، میوسیقی میں دلچسپی ہے سر۔
وزیراعظم: تو کہاں بایو ٹیکنالوجی، کہاں موسیقی اور کہاں یہ پولیسنگ... کیونکہ ہماری ہابیز اکثر پولیسنگ جیسے سخت اور ڈیمانڈنگ کام میں ایک طرح سے بہت مدد بھی کرسکتی ہے اور موسیقی ہے تو اور زیادہ مدد کرسکتی ہے۔
انج پالیوال: جی سر!
دیکھئے انج، میں آپ کو آپ کی آنے والی زندگی اور کیریر کے لئے مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ ہریانہ کے رہنے والے ہیں اور آپ کیرل کیڈر میں کام کریں گے۔ آپ نے آئی آئی ٹی سے تعلیم حاصل کی ہے اور سول سروسز میں ہیومینیٹیز پر کا انتخاب کیا۔ آپ ایسی خدمت میں ہیں جو سخت سمجھی جاتی ہے ار آپ کو موسیقی سے بھی لگاؤ ہے۔ پہلی نظر میں یہ متضاد لگ سکتے ہیں، لیکن یہ آپ کی بہت بڑی طاقت بھی بن سکتے ہیں۔ اپنی اس طاقت کو آپ پولیس سروس میں بہتر قیادت فراہم کرانے کے لئے کام میں لائیں گے، یہ میری نیک خواہشات ہیں۔
انج پالیوال: شکریہ سر! جے ہند سر!
شریا گپتا: شکریہ شریمان! اب میں درخواست کروں گی اپنے ساتھی ٹرینی افسر جناب روہن جگدیش سے کہ وہ اپنا تعارف کرائیں اور آپ کے ساتھ بات چیت شروع کریں۔
روہن جگدیش: جے ہند شریمان! میرا نام روہن جگدیش ہے۔ میں بھارتی پولیس سروس 2019 بیچ کا زیر تربیت افسر ہوں۔ مجھے کرناٹک کیڈر مختص ہوا ہے۔ میں بنیادی طور پر بینگلور کا رہنے والا ہوں اور میں بینگلور یونیورسٹی کے یونیورسٹی لاء کالج سے لاء کا ڈگری کا گریجویٹ ہوں۔ میری پہلی پسند بھارتی پولیس سروس تھی۔ اس کی اصل وجہ میرے والد تھے۔ انہوں نے کرناٹک ریاست کی پولیس میں 37 سال خدمت کی ہے، یہ میرے لئے بڑے فخر کی بات ہے۔ تو میں نے بھی ان کی طرح بھارتی پولیس سروس میں اپنی خدمت کرنے کے لئے اس کا انتخاب کیا ہے۔ جے ہند شریمان!
سوال1:
وزیراعظم: روہن جی، آپ بینگلور کے ہیں، ہندی بھی کافی سیکھی لی ہے اور ایک لاء گریجویٹ ہیں۔ آپ نے پولیٹکس اور انٹرنیشنل ریلیشنز کا بھی مطالعہ کیا ہے۔ اس علم کا آپ آج کے پولیس نظام میں کیا رول دیکھتے ہیں؟
روہن جگدیش: جناب جب میں نے ٹریننگ جوائن کی تھی، اس وقت ہی میں نے ہندی سیکھی ہےتو میں اس کے لئے بہت ٹریننگ کے لئے ممنون ہوں اور میں پالیٹکل سائنس اور انٹرنیشنل ریلیشز کا مطالعہ کرتے ہوقت ، میں دنیا ابھیت بہت چھوٹی ہے لگ رہا ہے گلوبلائزیشن کے ذریعہ۔ تو اس لئے ہم کو ہر طرح پولیس ایجنسیوں اور دوسری ریاستوں کے ساتھ بھی انٹرپول کے ذریعہ کام کرنے کا موقع ملے گا تو ہمارا جرائم کا پتہ لگانے اور جانچ کرنے کے معاملے میں ابھی ان سائبر کرائم کے ذریعہ کرائم صرف انڈیا کا ہی لوکلائز نہیں ہے بلکہ انٹرنیشنل بھی ہے۔ تو اس نالج سے ریلیشنز رکھنا اور کرائم کو حل کرنا، انٹرنیشنل کراس بارڈر دہشت گردی، نکسل ازم اور منشیات کے معاملوں کو حل کرنے میں اس کا استعمال ہوتا ہے شریمان۔
سوال2:
وزیراعظم: ہم اکثر پولیس اکیڈمی میں مشکل فزیکل ٹریننگ کے بارے میں سننتے ہیں۔ آپ کو جو ٹریننگ ملی، آپ کو کیا لگتا ہے کیونکہ آپ نے اپنے والد کو دیکھا ہے، زندگی پوری آپ کی یہ پولیس بیڑے کے درمیان گزری ہے۔ لیکن آپ خود اس ٹریننگ میں آئے، تو آپ کو کیا محسوس ہورہا ہے؟ ذہن میں ایک اطمینان محسوس ہورہا ہے؟ آپ کے والد نے جو آپ سے امیدیں کی ہوں گی، اس کو پورا کرنے کے لئے صلاحیتیں آپ کی نظر آتی ہوں گی اور آپ کے والد موازنہ کرتے ہوں گےکہ ان کے زمانے میں ٹریننگ کیسی ہوتی تھی، آپ کے زمانے میں کیسی ہوتی ہے؟ تو آپ دونوں کے درمیان کچھ بحث بھی ہوتی ہوگی؟
روہن جگدیش: سر میرے والد میرا رول ماڈل بھی ہیں اور انہوں نے کرناٹک پولیس میں سب انسپیکٹر کے طور پر جوائن کیا تھا اور 37 برس کے بعد ایس پی کی رینک میں وہ ریٹائر بھی ہوچکے ہیں سر تو جب میں اکیڈمی پہنچا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ پولیس ٹریننگ کافی سخت ہوتی ہے اور بہت محنت کرنی پڑے گی تو میں آتے ہی اندر کا ایک مائیکل اینجیلو کا ایک جملہ لکھا ہے سر، اس میں کہا ہے – ہم سب کے اندر اسٹیچو آل ریڈی ہے، ایک ہنر ہے۔ ہمیں اکیڈمی کے ذریعہ اس ہنر کو اسٹون سے نکالنا پڑتا ہے۔ ایسے ہی ہمارے ڈائرکٹر سر اور ہماری تمام فیکلٹیز نے ہم کو تربیت دیکر ہمارے بہترین ہنر کو بنایا ہے۔ تو ہم اس ہنر کے ساتھ اپنے ملک کی خدمت کریں گے سر۔
وزیراعظم: اچھا اس ٹریننگ کو مزید بہتر بنانے کے لئے کیا کرنا چاہیے، کوئی مشورہ ہے آپ کے ذہن میں ہے؟
روہن جگدیش:سر ابھی آل ریڈی بہت بہتر ہے۔ میں پہلے سوچتا تھا کہ بہت مشکل ہے اور اب ہمارے ڈائرکٹر آنے کے بعد اور سب بدل چکا ہے اور ہماری سوچ رکھ کر ہی ٹریننگ کررہے ہیں اور ہم کو انٹرنیشنل اسٹینڈرڈز پر ٹریننگ دے رہے ہیں تو میں بہت خوش ہوں اس ٹریننگ سے۔
سوال3:
وزیراعظم: روہن جی، مجھے بتایا گیا ہےکہ آپ اچھے تیراک ہیں اور آپ نے اکیڈمی کے پرانے سارے ریکارڈ بھی توڑ دیئے ہیں۔ ظاہر ہے آپ آج کل اولمپک میں بھارت کے کھلاڑیوں کی اچھی کارکردگی کو بھی برابر فالو کررہے ہوں گے۔ آنے والے وقت میں پولیس سروس سے بہتر ایتھلیٹس نکالنے کےلئے، یا پھر پولیس کےفٹنیس لیول کو بہتر بنانے کے لئے، آپ کے ذہن میں کوئی خیال آتا ہے کہ آج آپ دیکھتے ہوں گے کہ ایک عمر کے بعد پولیس کا ذرابیٹھنا، اٹھنا، چلنا سب ذرا کچھ مختلف نظر آتا ہے، آپ کو کیا لگتا ہے؟
روہن جگدیش: سر اکیڈمی میں ہماری فٹنیس پر کافی توجہ دی جاتی ہے سر۔ تو اس لئے میرا خیال ہے کہ ہم یہاں وقت گزارنے کے بعد فٹنیس کا ایک صرف ٹریننگ میں ہی نہیں ، ہماری زندگی میں ایک حصہ ہوجاتا ہے سر۔ ابھی بھی مجھے شاید میری کوئی کلاس نہیں ہے تو صبح پی ٹی نہیں تو بھی میں پانچ بجے اٹھ جاتا ہوں سر کیونکہ یہ روٹین بن چکا ہے۔ تو ہم یہ پوری زندگی میں یہ ہم کو لیکر جائیں گے اور جب ہم ضلع میں پہنچیں گے تو اپنے ساتھی افسر اور ہمارے ساتھ کام کرنے والے پولیس افسر کو بھی اس بارے میں کہہ کر ان کو بھی اسٹریس منیجمنٹ اور ہیلتھ کے منیجمنٹ اور ان کی طبیعت کو کیسے ٹھیک رکھی جاسکتی ہے، اس کی جانکاری دے کر ہم صرف آپ کی فٹنیس ہی نہیں سب کی فٹنیس کرکے پورے انڈیا کو فٹ رکھنے کی کوشش کرنا چاہوں گا۔
وزیراعظم: چلئے روہن جی، مجھے آپ سے بات کرکے اچھا لگا۔ فٹنیس اور پروفیشنلزم ہماری پولیس کی ایک بہت بڑی ضرورت ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ جیسے پرجوش نوجوان ان ریفارمس کو مزید آسانی سے پولیس سسٹم میں نافذ کرسکتے ہیں۔ پولیس اپنی فورس میں فٹنیس کو پرموٹ کرے گی تو سماج میں بھی نوجوان فٹ رہنے کی ترغیب حاصل کریں گے۔ میری آپ کے لئے بہت بہت نیک خواہشات ہیں۔
روہن جگدیش: جے ہند شریمان!
شریا گپتا: شکریہ شریمان! اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اب میں مدعو کرتی ہوں جناب گورو رام پرویش رائے کو کہ وہ آپ کے سامنے اپنا تعارف پیش کریں اور بات چیت کریں۔
گورو رام پرویش رائے: جے ہند سر! میرا نام گورو رائے ہے۔ میں مہاراشٹر کے امراوتی ضلع کا رہنے والا ہوں اور مجھے چھتیس گڑھ کیڈر مختص ہوا ہے۔ میں نے کالج آف انجیئرنگ ، پونے سے انجینئرنگ کی ہے اور انڈین پولیس سروس سے قبل میں انڈین ریلویز میں کام کرتا تھا۔
گورو رام پرویش رائے: جے ہند سر! میرا نام گورو رائے ہے۔ میں مہاراشٹر کے امراوتی ضلع کا رہنے والا ہوں اور مجھے چھتیس گڑھ کیڈر مختص ہوا ہے۔ میں نے کالج آف انجیئرنگ ، پونے سے انجینئرنگ کی ہے اور انڈین پولیس سروس سے قبل میں انڈین ریلویز میں کام کرتا تھا۔
سوال1:
وزیراعظم: گورو جی، مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ تو شطرنج کے کھلاڑی ہیں، بہت اچھا کھیلتے ہیں شطرنج۔ شہ اور مات کے اس کھیل میں یہ بھی طے ہے کہ آپ کو جیتنا ہی جیتنا ہے۔ ویسے ہی آپ نے سوچا کبھی کہ مجرموں کو قابو کرنے میں آپ کے شطرنج کا علم کیا کام آسکتا ہے؟
گورو رام پرویش رائے: میں کیونکہ شطرنج کھیلتا ہوں تو میں ہمیشہ اسی طریقے سے سوچتا ہوں۔ مجھے جیسے چھتیس گڑھ کیڈر الاٹ ہوا ہے اور وہاں پر لیفٹ ونگ انتہاپسندی ہے اوپر میں بہت اور سر مجھے ہمیشہ یہی لگتا ہے کہ شطرنج میں دو چیز ہوتی ہیں کہ ایک اسٹریجی اور ایک ٹیکٹکس تو ہمیشہ اپنی فورس میں پالیسیز میں ایسی اسٹریجیز ہوں جو انہیں ٹیکل کرسکیں۔ اور آپریشنز کے ذریعہ ہم ایسے ٹیکٹکس کا استعمال کریں جو کہ ہمیں ٹریننگ اکیڈمی میں بھی سکھائی گئی ہے۔ اس طریقے سے آپریشنز کریں کہ ہمارا کم سے کم نقصان ہو اور ہم زیادہ سے زیادہ ان لوگوں پر اٹیک کرکے ان لوگوں کو روک سکیں۔
سوال2:
وزیراعظم: گورو جی، آپ نے بتایا کہ آپ کا کیڈر چھتیس گڑھ الاٹ ہوا ہے اور وہاں کی صورتحال کے بارے میں آپ نے ذکر کیا وہاں لیفٹ ونگ کی انتہاپسندی کی صورتحال بھی ہے اور اس سے واقف بھی ہیں۔ ایسے میں آپ کا رول اور بھی اہم ہے۔ آپ کو نظم و نسق کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں میں ترقی اور سوشل رابطے کو بھی سپورٹ کرنا ہے۔ آپ نے اس کے لئے کوئی خصوصی تیاری کی ہے؟
گورو رام پرویش رائے: حکومت ہند کی جو دو طرفہ حکمت عملی ہے، ترقی کی اور حفاظت کے نقطہ نظر سے کیونکہ سر میں کالج میں تھا میں سول انجینئر ہوں کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ لیفٹ ونگ انتہاپسندی کو ختم کرنے کے لئے ترقی ہی واحد راستہ ہے اور ترقی کے لئے سب سے پہلے اگر ہم سوچیں تو ہمارے لئے دماغ میں ریل، روڈ، ریلویز، گھر بیسک سول سہولتیں آتی ہیں تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر میں سول انجینئر ہوں تو میں اپنی اس نالج کا اچھی طرح استعمال کر پاؤں گا چھتیس گڑھ میں۔
وزیراعظم: آپ گڑھ چرولی علاقے میں بھی کافی کچھ اسٹڈی کرتے ہوں گے مہاراشٹر کے ہیں تو؟
گورو رام پرویش رائے: جی سر! اس کے بارے میں بھی معلوم ہے تھوڑا۔
وزیراعظم: گورو جی ، آپ جیسے نوجوان افسروں پر بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ سائبر فرانڈز ہوں یا پھر تشدد کے راستے پر گئے نوجوانوں کو قومی دھارے میں شامل کرنا ہو۔ گزشتہ برسوں میں بہت محنت کرکے ماؤ نوازوں کے تشدد کو ہم محدود کررہے ہیں۔ آج قبائلی علاقوں میں ترقی اور یقین کے نئے پل تعمیر کئے جارہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ جیسی نوجوان لیڈر شپ اس کام کو تیزی سے آگے بڑھائے گی۔ میری آپ کو بہت بہت نیک خواہشات۔
گورو رام پرویش رائے: شکریہ سر! جے ہند!
شریا گپتا: شریمان آپ کا بہت بہت شکریہ! اب میں مدعو کرنا چاہوں گی محترمہ رنجیتا شرما کو کہ وہ آپ کے سامنے اپنا تعارف پیش کریں اور اپنے خیالات ظاہر کریں۔
رنجیتا شرما: جے ہند سر! میرا نام رنجیتا ہے۔ میں ہریانہ سے ہوں اور مجھے راجستھان کیڈر الاٹ ہوا ہے۔ سر میری ڈسٹرکٹ پالیٹیکل ٹریننگ کے دوران شروعات میں ہی ایک بہت ہی مشکل لاء اینڈ آرڈر صورتحال کا مجھے سامنا کرنا پڑا۔ سر اس دوران مجھے تحمل کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ سر کیونکہ تقریباً سبھی طرح کی داخلی سکیورٹی کے معاملے ہوں یا لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال ہو، وہاں پر ہم اپنے ہی ملک کے شہریوں کا سامنا کررہے ہوتے ہیں اور اس صورتحال میں یہ ضروری ہوجاتا ہےکہ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم تحمل سے کام لیں اور جیسا کہ سر ہماری اکیڈمی میں بھی کافی جگہ ہم یہ پڑھتے ہیں کہ سردار پٹیل جنہوں نے آئی پی ایس پروبیشنرز اور آئی پی ایس افسروں کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس لمحہ کوئی پولیس افسر اپنا صبر و تحمل کھو دیتا ہے، اسی لمحہ وہ ایک پولیس افسر نہیں رہتا۔ تو سر اس لئے پولیس ٹریننگ کے دوران چاہے وہ اکیڈمی میں ہو یا چاہے وہ ضلع کی جو عملی تربیت تھی وہ اس کے دوران ہو، یہ مسلسل احساس ہوتا رہا کہ پولیس کے جو اصول ہیں، جو اقدار ہیں جیسے کہ صبر و تحمل ہو، حوصلہ ہو اور اس کا سر مجھے مسلسل احساس ہوتا رہا۔
سوال1:
وزیراعظم: رنجیتا جی، آپ نے ٹریننگ کے دوران جو بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں، ان کے لئے آپ کو بہت بہت مبارکباد۔ آپ کے بارے میں پڑھ اور سن رہا تھا تو محسوس ہوا کہ آپ نے ہر جگہ اپنا سکہ جمایا ہے۔ آپ نے جو کچھ بھی حاصل کیا ہے، اس سے آپ کے گھر، گاؤں، پاس پڑوس میں اب بیٹیوں کے تعلق سے تبدیلی نظر آتی ہے یا نہیں، کیا تجربہ ہوتا ہے؟
رنجیتا شرما: سر سبب پہلے شکریہ سر! سر آس پاس جو کنبے ہیں، دوست ہیں، سماج ہے، سر جیسے ہی ہمارے سلیکشن کے بارے میں پتہ چلا کہ سلیکشن ہوا ہے تو مختلف طبقات سے کالز آئیں کہ آپ آئیے اور ہمارے یہاں بچوں سے بات چیت کیجئے اور اس میں خاص طور سے جو گرل چائلڈ تھیں سر، اس پر فوکس رہا کہ آپ ان سے بات چیت کیجئے کیونکہ آپ ایک موٹی ویشن ، ایک رول ماڈل کی طرح بات کرسکتے ہیں۔ سر یہی تجربہ میرا ضلع میں بھی رہا۔ وہاں بھی کئی بار ایسا موقع آئے جہاں پر مجھے بلایا گیا کہ میں خاص کر خاتون اسٹوڈینٹس سےبات کرکے ان کو موٹی ویٹ کروں، انہیں انسپائر کروں اور کہیں نہ کہیں سر جو یہ وردی ہے، اس میں ایک شناخت تو ملتی ہے اور ایک ذمہ داری اور ایک چیلنج کا بھی احساس ہوتا ہے۔ اور اگر ایک خاتون کو وہ ایک وردی میں دیکھتے ہیں اور اس سے ان کو کہیں نہ کہیں کچھ بھی موٹی ویشن، انسپریشن ملتا ہے سر۔ یہ میرے لئے اصل کامیابی رہے گی۔
سوال2:
وزیراعظم: رنجیتا جی، آپ کی یوگا میں بھی بہت دلچسپی ہے۔ آپ نے جو پڑھائی کی، اس سے لگتا ہے کہ آپ صحافت کے میدان میں بھی آگے بڑھنا چاہتی تھیں۔ تو پھر اس راستے میں آپ کیسے پہنچ گئیں؟
رنجیتا شرما: سر یہاں پر بھی ایک کہانی ہے۔ سر مجھے لگتا ہے کہ میں نے پرائیویٹ سیکٹر میں کام کیا۔ اس سے قبل تقریباً 8، 9 سال۔ لیکن سر میں کچھ ایسا ایک کام کرنا چاہتی تھی جس کا اثر مجھے فوری طور پر نظر آنے لگے اور سماج کے قریب سے اس کو میں سماج کے لئے کام کرسکوں۔ کیونکہ سر پرائیویٹ سیکٹر میں آپ کا دائرہ بہت محدود ہوتا ہے تو وہاں پر جامع طریقے سے آپ اپنی چھاپ نہیں چھوڑ سکتے ہیں۔ تو ایڈمنیسٹریٹیو سروس ہو یا پولیس سروس ہو سر یہ آپ کو موقع دیتی ہے اور جہاں تک وردی کا سوال ہے سر تو اس میں تو میرے لئے کافی ذمہ داری اور اعزاز کی بات ہے کہ مجھے بھارتی پولیس سروس میں ہونے کا یہ موقع ملا ہے۔
سوال3:
وزیراعظم: آپ نے اپنے لئے کوئی ایسا نشانہ طے کیا ہے جو آپ ملک کے پولیس نظام کو بہتر بنانے کے لئے ضرور عمل میں لانا چاہیں گی؟
رنجیتا شرما: سر پولیس کو مجھے یاد ہے سر پچھلی دفعہ آپ کی یہ بات چیت ہوئی تھی تو آپ نے کہا تھا کہ جہاں پولیس کی بات آتی ہے وہاں پر ڈنڈا، طاقت اس کے استعمال کی بات آتی ہے۔ تو سر اگر میں اپنی فیلڈ میں جاکر پولیس کی امیج کی اصلاح کرنے، اسے بہتر بنانے ، اس میں کسی بھی طرح کا اگر تعاون دے پاؤگی پولیس کو قابل رسائی بنانے کےلئے، پولیس امپریشن کو قابل رسائی بنانے کے لئے مجموعی طور پر جو امیج ہے پولیس کی،اس کو ذرا بھی بہتر بنانے میں میں تعاون رہا سر تو وہ میرے لئے ایک بڑی کامیابی ہوگی اور میرا نشانہ بھی رہے گا۔
وزیراعظم: رنجیتا جی، جب میں نے آپ کے بارے میں جانا اور سنا۔ آپ کو میں ایسے ہی مشورہ دینا چاہوں گا کہ آپ اپنی ڈیوٹی سے جڑی ہوئی نہیں ہیں، آپ کو جہاں بھی ڈیوٹی کا موقع ملے، ہفتے میں ایک گھنٹہ کسی نہ کسی لڑکیوں کے اسکول میں جاکر ان بچیون سے ایسے ہی گپ شپ کیجئے، یہ زندگی بھر اس سلسلے کو بنائے رکھئے، ہفتے میں ایک گھنٹہ کسی نہ کسی لڑکیوں کے اسکول میں جانا ، ان بچیوں سے ملنا، باتیں کرنا اور دوسرا ہوسکے اگر یوگا کی آپ کی پریکٹس جاری رہتی ہے تو کہیں کھلے باغیچے میں بچیوں کے لئے یوگا کی ایک کلاس بھی چلا لیجئے، جس میں آپ بیچ بیچ میں جایا کریں اور آرگنائز کریں۔ آپ کی ڈیوٹی سے علاوہ یہ کچھ کام کیجئے، آپ دیکھئے کہ اس کا اثر کچھ زیادہ ہی ہوگا۔ خیر آپ سے جو باتیں ہوئیں، آپ کو بہت بہت نیک کواہشات دیتا ہوں۔ دیکھئے ہریانہ ہو یا راجستھان، ہم سبھی جانتے ہیں کہ گزشتہ کچھ برسوں میں بیٹیوں کو آگے بڑھانے میں کافی کام ہوا ہے۔ آپ ان دونوں ریاستوں میں سماجی شعور کی لہر کو مضبوط کرنے میں اپنا رول بخوبی نبھا سکتی ہیں۔ آپ کی جو کمیونی کیشن کی پڑھائی ہے، جو سمجھ ہے، وہ آج پولیس کی ایک بہت بڑی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ اس کا بھی آپ بھرپور استعمال آنے والے وقت میں کریں گی۔ میری جانب سے آپ کو بہت بہت نیک خواہشات!!
رنجیتا شرما: شکریہ سر، جے ہند سر!
شریا گپتا: شکریہ شریمان! اسی سلسلے اب میں مدعو کرتی ہوں اپنے ساتھی ٹرینی افسر جناب نتھن راج پی کو جو آپ کو اپنا تعارف دیکر آپ سے بات چیت جاری رکھیں گے۔
نتھن راج پی: جے ہند سر! میرا نام نتھن راج ہے۔ میرا تعلق کیرل کے کاسرگوڑ ضلع سے ہے اور مجھے کیرل کیڈر الاٹ کیا گیا ہے سر۔
سوال1:
وزیراعظم: میں کئی بار کیرل جاچکا ہوں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ کو فوٹو گرافی میں دلچسپی ہے۔ فوٹو گرافی کے لئے کیرل میں کن مقامات کو آپ نے سب سے زیادہ پسند کیا ہے؟
نتھن راج پی: سر خصوصی طور پر ویسٹرن گھاٹ سر اور میرا تعلق کاسر گوڑ ضلع سے ہے اور ہمارے پاس بہت زیادہ فورس وہیکل سپورٹ ہے اور مجھے شوٹ کرنے کے لئے ویسٹر گھاٹ کے کچھ حصے بہت پسند ہیں۔
سوال2:
وزیراعظم: مجھے بتایا گیا ہے کہ تربیت کے دوران پروبیشنرز 20-22 افسروں کے اسکواڈ میں منظم ہوتے ہیں۔ اپنے اسکواڈ کے ساتھ آپ کا کیا تجربہ رہا ہے؟
نتھن راج پی: سر جب ہم اسکواڈ میں ہوتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم اکیڈمی میں تنہا نہیں ہیں۔ ہمارے ساتھ کئی ساتھی ہیں اور اس کی وجہ سے شروع میں ہم نے بڑی انڈور اور آؤٹ ڈور سرگرمیوں کے بارے میں سوچا۔ ابتدا میں ہم میں سے کئی کے ذہن میں یہ تاثر تھا کہ ہم یہ نہیں کرپائیں گے۔ لیکن اپنے اسکواڈ کےساتھیوں کی مدد سے ہم تمام کام انجام دے سکے۔ بلکہ ہم تو اس سے آگے بڑھ کر بھی کام انجام دینے کے بارے میں سوچ سکے۔ یہاں تک کہ 40 کلو میٹر راستے کا مارچ ہو یا 16 کلو میٹر کی دوڑ، ہم نے یہ سب کیا اپنے ساتھیوں کے اسکواڈ کی مدد سے سر۔
وزیراعظم:نتھن جی، مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ کو پڑھانا بھی پسند ہے۔سروس میں رہنے کے دوران آپ اپنے اس جذبے کے مطابق کرنا جاری رکھیں۔ اس سے آپ کو لوگوں کے ساتھ گہرے رابطے قائم کرنے میں مدد ملے گی۔
نتھن راج پی: سر میں یہ بھی جاری رکھنا چاہتا ہوں سر۔ میں معاشرے میں بیداری پھیلانے کے بارے میں سوچتا ہوں۔ ایک پولیس افسر کو معلوم ہونا چاہیے کہ سماج کے ساتھ رابطہ کیسے کیا جاتا ہے۔ میرا خیال ہےکہ تدریس کا کام ایک ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعہ آپ طلبا اور عوام کے ساتھ اچھی طرح رابطہ کرسکتے ہیں سر۔
وزیراعظم: آپ کے لئے بہت بہت نیک خواہشات۔
نتھن راج پی: شکریہ سر۔ جے ہند سر۔
شریا گپتا: اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اب میں مدعو کرتی ہوں ڈاکٹر نوجوت سمی کو کہ وہ آپ کے سامنے اپنا تعارف پیش کریں اور بات چیت کو جاری رکھیں۔
ڈاکٹر نوجوت سمی: جے ہند شریمان! میرا نام نو جوت سمی ہے۔ میں پنجاب کے گرداس پور ضلع سے ہوں اور مجھے بہار کیڈر مختص ہوا ہے۔ سر میں نے ڈینٹل سرجری میں گریجویٹ کی ڈگری لدھیانہ سے حاصل کی ہے۔ میر ڈسٹرکٹ ٹریننگ پٹنہ میں ہوئی اور اسی دوران خاتون پولیس ملازمین کی بڑھتی ہوئی تعداد، حوصلے اور تحریک سے مجھے کافی حوصلہ ملا ہے۔
سوال1:
وزیراعظم: نوجوت جی، آپ نے تو لوگوں کو دانت کے درد سےراحت دلانے کے لئے ، دانتوں کو ٹھیک کرنے کی ذمہ داری اٹھائی تھی۔ ایسے میں ملک کے دشمنوں کے دانت کھٹے کرنے کا راستہ آپ نے کیوں چنا؟
ڈاکٹر نوجوت سمی: سر سول سروسز کی طرف میرا جھکاؤ کافی پہلے سے ہی تھا اور سر ایک ڈاکٹر کا کام اور ایک پولیس کا کام بھی لوگوں کی تکلیف دور کرنا ہی ہوتا ہے سر۔ تو سر مجھے لگا کہ میں سول سروسز کے ذریعہ سے اور بھی ایک بڑے پلیٹ فارم پر رہ کر لوگوں کے مسائل کے حل میں اپنا تعاون دے سکتی ہوں۔
سوال2:
وزیراعظم: آپ نے پولیس فورس جوائن کی ہے تو یہ صرف آپ کے لئے ہی نہیں، ملک میں بیٹیوں کی نئی نسل کو بھی راغب کرنے والی ہے۔ آج پولیس میں بیٹیوں کی حصے داری میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس شرکت کو بڑھانے کے لئے آپ کا کوئی مشورہ ہو یا آپ کا کوئی تجربہ ہو تو ضرور شیئر کریں۔
ڈاکٹر نوجوت سمی: سر ابھی ہماری ضلع کی عملی تربیت کے دوران بہار پولیس اکیڈمی راج گیر میں ہم لوگ ٹریننگ میں تھے۔ سر وہاں پر خاتون کانسٹبل کا ایک بہت ہی بڑا بیچ تھا۔ ان کے ساتھ بات چیت کرنے کا مجھے موقع ملا تو سر مجھے اتنی زیادہ خوشی ہوئی کہ وہ لڑکیاں آگے بڑھ کر بہت کچھ بننا چاہتی تھیں۔سر وہ پہلے سے ہی بہت زیادہ موٹی ویٹیڈ تھیں۔ تو سر مجھے بہت اچھا لگا اور میں نے یہ سوچا کہ جب بھی میں اپنے کام میں، اپنی فیلڈ میں جاؤں گی تو خواتین کے لئے ضرور کچھ کروں گی تاکہ ان کی ایجوکیشن میں خصوصی طور پر کوئی کمی نہ آسکے سر۔ جیسا بھی ہوسکا میں ان کے لئے ضرور کچھ کروں گی۔
وزیراعظم: دیکھئے نوجوت جی، بیٹیوں کا زیادہ سے زیادہ پولیس فورس میں آنا، ملک کے پولیسنگ سسٹم کو مضبوط کرے گا۔ پنجاب ہو یا بہار، آپ تو عظیم گرو روایت کی ریاستوں کو کنکٹ کررہی ہیں۔ گرو تو کہہ گئے ہیں کہ
भैकाहू को देतनहि,
नहि भय मानत आन।
یعنی عام انسانوں کو نہ تو ہمیں ڈرانا ہے اور نہ کسی سے ڈرنا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اسی تحریک سے آگے بڑھیں گی اور پولیس سروس کو مزید شمولیاتی اور حساس بنانے میں کامیاب ہوں گی۔
ڈاکٹر نوجوت سمی: شکریہ سر، جے ہند!
شریا گپتا: شکریہ شریمان، اب میں درخواست کرتی ہوں کومی پرتاپ شیو کشور سے کہ وہ اپنا تعارف کرائین اور آپ کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کریں۔
کومّی پرتاپ شیو کشور: جے ہند شریمان! میرا نام کے پی ایس کشور ہے اور میں آندھرا پردیش کے نیلور ضلع سے تعلق رکھتا ہوں اور مجھے آندھرا پردیش کا کیڈر الاٹ ہوا ہے۔ سر میں نے انجنیئرنگ آئی آئی ٹی کھڑگپور میں فائننشیل انجینئرنگ آف بایو ٹکنالوجی میں بی ٹی اور ایم ٹیک میں مکمل کیا ہے۔ اس کے بعد میں نے پولیس سروس جوائن کرنے سے پہلے میں چار سال سینٹر آف ایکسی لینس ان آرٹی فیشل انٹلی جنس میں کام کیا ہے سر اور مجھے لگتا ہےکہ ٹیکنالوجی کو اگر اچھی طرح سے ہم استعمال کریں گے تو بہت سارے پولیس میں جو چیلنجز ہیں جیسے افرادی قوت کی کمی وغیرہ، ڈیفیشی اینسی کے چیلنجز ہیں، ہم بہت اچھی طرح سے انہیں حل کرسکتے ہیں۔
سوال1:
وزیراعظم: پرتاپ، آپ فائننشیل بیک گراؤنڈ سے ہیں۔ ایسے میں آج فائننشیل فراڈ کے چیلنج ہیں، ٹریننگ کے دوران اس سے نمٹنے کے لئے آپ کو کوئی اختراعی آئڈیا آتے ہیں کیا، خیال آتے ہوں گے من میں کافی کچھ؟
کومّی پرتاپ شیو کشور: ضرور سر، ہم کو بہت اچھی انویسٹی گیشن، فائننشیل فراڈ کو انویسٹی گیٹ کرنا، کون کون سے قوانین ہیں، ان سے متعارف کرایا گیا ہے اور خاص کے جب ہم ڈسٹرکٹ ٹریننگ میں تھے کرنول ضلع میں بہت اچھا فائننشیل فراڈ آدھار ریلیٹیڈ، فیک آدھار کارڈ کے ذریعہ کیسے پیسے لیک ہورہے ہیں۔ ایسے کام انویسٹی گیٹ کرنے میں ٹریننگ میں مدد کی اور فیلڈ میں مجھے لگتا ہے بہت کچھ آگے سیکھنے کے لئے ملے گا۔
سوال2:
وزیراعظم: سائبر کرائم میں ہمارے بچے اور خواتین کو یہ جو عناصر ہیں، ان کو بہت نشانہ بناتے رہتے ہیں اور اس کے لئے تھانے کی سطح پر کیا کام ہوسکتا ہے، اس سے متعلق کوئی تجویز آپ کے ذہن میں آتی ہے، ابھی لگتا ہے کہ ہاں اس میں ایسے جانا چاہیے؟
کومّی پرتاپ شیو کشور: سر ہم نے اپنے یہاں یہ کام کیا سر کہ اس میں جو بھی نیا نیا سائبر فراڈ ہورہا ہے، ہو کس طریقے سے ہورہا ہے۔ ہر دن ہم اخبار میں اور اپنے لوکل سٹی چینل میں بولتے تھے۔ اور یہی کام ہم جو کمزور گروپ ہیں، جیسے کالج ہیں جو نیا نیا اسمارٹ فون لیکر آرہا ہے اور ان کو ہر ہفتے ایک سیشن ایسا کرتےتھے اور دوسرا لگاتار مہینے میں ایک بار ایک ویبینار ایک چلاتے تھے، جہاں لوگ اپنی مرضی سے جوائن کرتے تھے اور سب سے زیادہ مجھے لگتا ہے یہ جو کرائم جس حساب سے ہوتا ہے، اس کو ہم لوگوں تک پہنچانا ہے تاکہ وہ پہلو ہی بیدار ہوں۔
سوال3:
وزیراعظم: دیکھئے پرتاپ، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی بہت انکلوسیو ٹیکنالوجی ہے، جو سب کو جوڑتی ہے اور غریب، محروم، مظلوم تک بھی سہولت اور وسائل پہنچانے میں بہت مدد گار ہے۔ یہ ہمارا مستقبل ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے سائبر کرائم کو بھی بڑاخطرہ بنادیا ہے۔ خاص طور پر فائننشیل فراڈز ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس نے جرم کو تھانو، ضلعوں، ریاستوں کی سرحد سے باہر نکال کر نیا قومی اور بین الاقوامی چیلنج بنادیا ہے اس سے نمٹنے کے لئے حکومت اپنی سطح پر کئی اقدامات کررہی ہے۔ لیکن اس میں پولیس کو بھی روز نئی اختراعات کرنی ہوں گی۔ ڈیجیٹل اویئرنیس کو لیکر تھانے کی سطح پر خصوصی مہم چلائی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ میری آپ تمام نوجوان افسروں سے اپیل ہے کہ آپ کے پاس بھی اگر اس سلسلے میں کوئی مشورہ ہو تو آپ مجھ تک ضرور پہنچایئے۔ ہم منسٹری تک پہنچائیے کیونکہ آج یہ جو نوجوان فورس ہے، جن کو اس کا بیک گراؤنڈ ہونے کی وجہ سے ان کے خیالات ان لڑائی میں کام آسکتے ہیں۔ چلئے پرتاپ بہت بہت نیک خواہشات آپ کو!
کومّی پرتاپ شیو کشور: جے ہند سر!
شریا گپتا: شکریہ شریمان، اب میں دوست ملک مالدیپ کے پولیس افسر جناب محمد ناظم سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ عزت مآب وزیراعظم کے ساتھ اپنے تجربات شیئر کریں۔
محمد ناظم: گڈ ،مارننگ عزت مآب وزیراعظم سر، میں مالدیپ پولیس سروس کا چیف انسپکٹر آف پولیس محمد ناظم ہوں۔ بھارتی پولیس سروس کے 2019 بیچ کے ساتھ سردار ولبھ بھائی پٹیل نیشنل پولیس اکیڈمی میں میرے یادگار سفر کے تجربات کے بارے میں بات کرنے کا موقع ملنا میرے لئے فخر اور اعزاز کی بات ہے۔گزشتہ دو برسوں کے دوران ہماری تربیت ہمارے پروفیشنلزم ، فٹنیس اور ایک پولیس افسر کے طور پر صلاحیت میں زبردست بہتری آئی ہے۔ مالدیپ کے افسر 1998 سے اس اکیڈمی میں تربیت حاصل کررہے ہیں۔ ہمارے موجودہ چیف آف پولیس محمد حمید نے بھی اسی باوقار پولیس اکیڈمی سے تربیت حاصل کی ہے۔سر دو سال کی تربیت میں نہ صرف ایک یونیفارم پولیس آفیسر کے طور پر بلکہ ایک بہتر انسان کے طور پر بھی ہماری شخصیت کو نکھارا ہے۔ اپنے بیچ کے ہندوستانی ساتھیوں اور دیگر غیر ملکی ساتھیوں کے ساتھ پرخلوص تال میل بھی یادگار ہیں اور ہم نے اس اکیڈمی سے ہر ایک لمحے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے۔ ہم نے کئی بھارتی افسروں کے ساتھ دوستی کی ہے اور ہمارا ان کے رابطے میں رہنے کا منصوبہ ہے۔ یہاں پر ہمارا جو وقت گزرا وہ بہت مزے میں گزرا۔ اس موقع پر میں یہ بیش قیمت موقع فراہم کرانے کے لئے حکومت ہند کے لئے دلی ممنوعیت کا اظہار کرتا ہوں۔ شکریہ سر، جے ہند!
سوال1:
وزیراعظم: ناظم ، آپ نے بھارت اور مالدیپ میں کیا بات مشترکہ پائی؟
محمد ناظم: سر ثقافت اور کھانے میں بہت زیادہ یکسانیت ہے سر۔
سوال2:
وزیراعظم: ہمارے ساتھ نیپال، بھوٹان اور ماریشس کے آفیسر ز بھی ہیں۔ کیا اس سے ان ملکوں کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنے میں آپ کو مدد ملی؟
محمد ناظم: جی سر، اس سے حقیقت میں مدد ملی ہے۔ ہم نے غیر ملکی افسروں کے ساتھ بات چیت کی ہے اور پالیسی سسٹم کے بارے میں ہمیں اچھی معلومات حاصل ہوئی ہے سر۔
وزیراعظم: او کے ناظم، آپ کے لئے بہت بہت نیک خواہشات۔
محمد ناظم: شکریہ سر، جے ہند۔
وزیراعظم: مجھے مالدیپ کے قدرت سے محبت کرنے والے لوگوں سے مل کر بہت اچھا لگتا ہے۔ مالدیپ بھارت کا پڑوسی ہی نہیں بلکہ بہت اچھا دوست بھی ہے۔ بھارت، مالدیپ میں پولیس اکیڈمی بنانے میں بھی تعاون کررہا ہے اور اب تو مالدیپ کرکٹ کے لئے بھی اپنے آپ کو تیار کررہا ہے۔ مالدیپ اور بھارت کے سماجی اور تجارتی رشتے بھی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ بھارت میں آپ کی تربیت مالدیپ کی پولیسنگ کو مضبوط کرے گی اور بھارت۔ مالدیپ تعلقات کو بھی مضبوط بنانے میں مدد کرے گی۔ بہت بہت نیک خواہشات!
شریا گپتا: شکریہ شریمان، بات چیت کے اس پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے میں آپ سے گزارش کرتی ہوں کہ قوم کی خدمت کے لئے تیار ہم زیر پروبیشن افسروں سے خطاب کرکے ہماری رہنمائی کریں۔