میرے عزیز اہل وطن حضرات،
انسانیت کے سامنے ایسے مواقع بہت کم آتے ہیں جب وقت کا پہیہ، ہمیں ماضی کی اصلاح کرکے نئے مستقبل کی تعمیر کا موقع فراہم کرتا ہے۔ آج خوش قسمتی سے ہمارے سامنے ایک ایسا ہی لمحہ ہے۔ دہائیوں قبل، حاتیاتی تنوع کا صدیوں قدیم جو سلسلہ ٹوٹ گیا تھا، معدوم ہوگیا تھا، آج ہمیں اسے پھر سے جوڑنے کا موقع حاصل ہوا ہے۔ آج بھارت کی سرزمین پر چیتے لوٹ آئے ہیں۔ اور میں یہ بھی کہوں گا کہ ان چیتوں کے ساتھ ہی فطرت سے محبت کرنے والے بھارتیوں کا شعور بھی پوری قوت سے بیدار ہو چکا ہے۔ میں اس تاریخی موقع پر تمام اہل وطن کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
خاص طور سے میں ہمارے دوست ملک نامیبیا اور وہاں کی حکومت کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جن کے تعاون سے دہائیوں بعد چیتے بھارت کی سرزمین پر واپس لوٹے ہیں۔
مجھے یقین ہے ، یہ چیتے نہ صرف فطرت کے تئیں ہماری ذمہ داریوں کا احساس کرائیں گے، بلکہ ہماری انسانی اقدار اور روایات سے بھی ہمیں آگاہ کرائیں گے۔
ساتھیو،
جب ہم اپنی جڑوں سے دور ہوتے ہیں تو بہت کچھ کھو بیٹھتے ہیں۔ اس لیے ہی آزادی کے اس امرت کال میں ہم نے ’اپنی وراثت پر فخر ‘ اور ’غلامی کی ذہنیت سے آزادی‘ جیسے پانچ پرانوں کی اہمیت کو دوہرایا ہے۔ گذشتہ صدیوں میں ہم نے وہ وقت بھی دیکھا ہے جب فطرت کے استحصال کو طاقت کے مظاہرے اور جدیدیت کی علامت تسلیم کر لیا گیا تھا۔ 1947 میں جب ملک میں صرف آخری تین چیتے بچے تھے، تو ان کا بھی سال کے جنگلوں میں بے رحمی اور غیر ذمہ دارانہ طور پر شکار کر لیا گیا۔ یہ بدقسمتی رہی کہ ہم نے 1952 میں چیتوں کو ملک سے معدوم ہونے کا تو اعلان کر دیا، لیکن ان کی بازآبادکاری کے لیے دہائیوں تک کوئی بامعنی کوشش نہیں کی۔
آج آزادی کے امرت کال میں اب ملک نئی توانائی کے ساتھ چیتوں کی بازآبادکاری کے لیے متحد ہوگیا ہے۔ امرت میں تو وہ طاقت ہوتی ہے، جو مردہ کو بھی دوبارہ زندہ کر دیتی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آزادی کے امرت کال میں فرض اور یقین کا یہ امرت ہماری وراثت کو، اور اب چیتوں کو بھی بھارت کی سرزمین پر ازسر نو زندہ کر رہا ہے۔
اس کے پس پشت ہماری برسوں کی محنت ہے۔ ایک ایسا کام، سیاسی نقطہ نظر سے جسے کوئی اہمیت نہیں دیتا، اس کے لیے بھی ہم نے زبردست توانائی صرف کی۔ اس سلسلے میں ایک تفصیلی چیتا ایکشن پلان تیار کیا گیا۔ ہمارے سائنس دانوں نے طویل تحقیق کی، جنوبی افریقی اور نامیبیائی ماہرین کے ساتھ مل کر کام کیا۔ ہماری ٹیمیں وہاں گئیں، وہاں کے ماہرین بھی بھارت آئے۔ پورے ملک میں چیتوں کے لیے سب سے بہتر علاقے کے لیے سائنسی جائزوں کا اہتمام کیا گیا، اور اب کونو نیشنل پارک کو اس مبارک شروعات کے لیے منتخب کیا گیا۔ اور آج، ہماری وہ محنت، نتیجہ کے طورپر ہمارے سامنے ہے۔
ساتھیو،
یہ بات صحیح ہے کہ جب فطرت اور ماحولیات کا تحفظ ہوتا ہے تو ہمارا مستقبل بھی محفوظ ہوتا ہے۔ ترقی اور خوشحالی کے راستے بھی کھلتے ہیں۔ کونو نیشنل پارک میں جب چیتے پھر سے دوڑیں گے، تو یہاں کا سبزہ زار ایکو نظام پھر سے بحال ہوگا، حیاتیاتی تنوع میں اضافہ ہوگا۔ آنے والے دنوں میں یہاں ایکو سیاحت میں بھی اضافہ ہوگا، یہاں ترقی کے نئے امکانات پیدا ہوں گے، روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوگا۔ لیکن ساتھیو، میں آج آپ سے،تمام اہل وطن سے ایک درخواست بھی کرنا چاہتا ہوں۔ کونو نیشنل پارک میں چھوڑے گئے چیتوں کو دیکھنے کے لیے اہل وطن کو چند مہینوں کا صبر کرنا ہوگا، انتظار کرنا ہوگا۔ آج یہ چیتے مہمان بن کر آئے ہیں، اس علاقہ سے انجان ہیں۔ کونو نیشنل پارک کو یہ چیتے اپنا گھر بنا پائیں، اس کے لیے ہمیں ان چیتوں کو بھی کچھ مہینوں کا وقت دینا ہوگا۔ بین الاقوامی رہنما خطوط پر چلتے ہوئے بھارت ان چیتوں کو بسانے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔ ہمیں اپنی کوششوں کو ناکام نہیں ہونے دینا ہے۔
ساتھیو،
دنیا آج جب فطرت اور ماحولیات کی جانب دیکھتی ہے تو ہمہ گیر ترقی کی بات کرتی ہے۔ لیکن فطرت اور ماحولیات، چرند و پرند، بھارت کے لیے یہ صرف پائیداری اور سلامتی کے موضوع نہیں ہیں۔ ہمارے لیے یہ ہماری حساسیت اور روحانیت کی بھی بنیاد ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جن کا ثقافتی وجود ’سروَم کھل وِدم برہم‘ کے اصول پر ٹِکا ہوا ہے۔ یعنی، دنیا میں چرند و پرند، پیڑ پودے، ذی روح اور بے جان جو کچھ بھی ہے، وہ ایشور کی شکل ہے، ہماری اپنی توسیع ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں:
پرم پروپکارارتھم
یو جیوتی سہ جیوتی
یعنی، خود کے فائدے کو ذہن میں رکھ کر جینا حقیقی زندگی نہیں ہے۔ حقیقی زندگی وہ جیتا ہے جو انسان دوستی کے لیے جیتا ہے۔ اسی لیے، ہم جب خود کھانہ کھاتے ہیں، اس سے پہلے پرندوں اور جانوروں کے لیے بھی کھانہ نکالتےہیں۔ ہمارے آس پاس رہنے والے چھوٹے سے چھوٹے جاندار کی بھی فکر کرنا ہمیں سکھایا جاتا ہے۔ ہمارے اخلاق ایسے ہیں کہ کہیں بلاوجہ کسی جاندار کی زندگی چلی جائے توہم ندامت کے احساس سے بھر جاتے ہیں۔ پھر کسی جانور کی پوری نسل کا وجود ہی اگر ہماری وجہ سے مٹ جائے، یہ ہم کیسے قبول کر سکتے ہیں؟
آپ سوچئے، ہمارے یہاں کتنے ہی بچوں کو یہ معلوم تک نہیں ہوتا ہے کہ جس چیتا کے بارے میں سن کر وہ بڑے ہو رہے ہیں، وہ ان کے ملک سے گذشتہ صدی میں ہی معدوم ہو چکا ہے۔ آج افریقہ کے کچھ ممالک میں، ایران میں چیتا پائے جاتے ہیں، لیکن بھارت کا نام اس فہرست سے بہت پہلے ہٹا دیا گیا تھا۔ آنے والے برسوں میں بچوں کو اس ستم ظریفی سے نہیں گزرنا پڑے گا۔ مجھے یقین ہے، وہ چیتا کو اپنے ہی ملک میں، کونو نیشنل پارک میں دوڑتا ہوا دیکھ سکیں گے۔ چیتا کے ذریعہ آج ہمارے جنگل اور زندگی کی ایک بڑی خلاء پر ہو رہی ہے۔
ساتھیو،
آج21ویں صدی کا بھارت، پوری دنیا کو پیغام دے رہا ہے کہ معیشت اور علم ماحولیات کوئی متضاد شعبے نہیں ہیں۔ ماحولیات کے تحفظ کے ساتھ ہی، ملک کی ترقی بھی ہو سکتی ہے، یہ بھارت نے دنیا کو کرکے دکھایا ہے۔ آج ایک جانب ہم دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشتوں میں شامل ہیں، تو ساتھ ہی ملک کے جنگلاتی علاقوں کی توسیع بھی تیزی سے عمل میں آرہی ہے۔
ساتھیو،
2014 میں ہماری حکومت بننے کے بعد سے ملک میں تقریباً ڈھائی سو نئے محفوظ علاقوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ہمارے یہاں ایشیائی شیروں کی تعداد میں بڑا اضافہ رونما ہوا ہے۔ آج گجرات ملک میں ایشیائی شیروں کا سب سے بڑا علاقہ بن کر ابھرا ہے۔ اس کے پس پشت دہائیوں کی محنت، تحقیق پر مبنی پالیسیاں اور عوامی شراکت داری کا اہم کردار ہے۔ مجھے یاد ہے، ہم نے گجرات میں ایک عزم کیا تھا- ہم جنگلی جانوروں کےاحترام میں اضافہ کریں گے، اور تصادم کو کم کریں گے۔ آج اس فکر کا اثر نتیجہ کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔ ملک میں بھی، شیروں کی تعداد کو دوگنا کرنے کا جو ہدف طے کیا گیا تھا، ہم نے اسے وقت سے پہلے حاصل کیا ہے۔ آسام میں ایک وقت، ایک سینگ والے گینڈے کا وجود خطرے سے دوچار تھا، تاہم آج ان کی تعداد میں بھی اضافہ رونما ہوا ہے۔ ہاتھیوں کی تعداد بھی گذشتہ برسوں میں بڑھ کر 30 ہزار سے زائد ہوگئی ہے۔
بھائیو اور بہنو،
ملک میں فطرت اور ماحولیات کے نقطہ نظر سے جو ایک اور بڑا کام ہوا ہے، وہ ہے مرطوب زمین کی توسیع! بھارت ہی نہیں، پوری دنیا میں کروڑوں افراد کی زندگی اور ان کی ضرورتیں مرطوب ماحولیات پر منحصر ہیں۔ آج ملک میں 75 مرطوب علاقوں کو رام سر سائٹس قرار دیا گیا ہے، جن میں 26 سائٹوں کو گذشتہ 4 برسوں کے دوران ہی جوڑا گیا ہے۔ ملک کی ان کوششوں کا اثر آنے والی صدیوں تک دکھائی دے گا، اور ترقی کے نئے راستے کھلیں گے۔
ساتھیو،
آج ہمیں عالمی مسائل ، حل اور یہاں تک کہ اپنی زندگی کو بھی جامع انداز میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اسی لیے، آج بھارت نے دنیا کے لیے لائف یعنی طرز حیات برائے ماحولیات جیسا زندگی کا اصول فراہم کیا ہے۔ آج بین الاقوامی شمسی اتحاد جیسی کوششوں کے ذریعہ بھارت دنیا کو ایک پلیٹ فارم فراہم کر رہا ہے، ایک نظریہ دے رہا ہے۔ ان کوششوں کی کامیابی دنیا کی سمت اور مستقبل طے کرے گی۔ اس لیے، آج وقت ہے کہ ہم عالمی چنوتیوں کو دنیا کی نہیں اپنی انفرادی چنوتی بھی مانیں۔ ہماری زندگی میں ایک چھوٹی سی تبدیلی پورے کرۂ ارض کے مستقبل کے لیے ایک بنیاد بن سکتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بھارت کی کوششیں اور روایات اس سمت میں مکمل بنی نوع انسانیت کی رہنمائی کریں گی، بہتر دنیا کے خواب کو تقویت بہم پہنچائیں گی۔
اسی یقین کے ساتھ، آپ سبھی کا اس اہم وقت پر، اس تاریخی وقت پر بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں، مبارکباد پیش کرتا ہوں۔