میرے پیارے 140 کروڑ پریوار جنوں!

 دنیا کی سب سےبڑی جمہوریت اور اب بہت سے لوگوں کی منشاء  ہے، یہ آبادی کے نقطہ نظر سے بھی ، ہم اعتمادو یقین میں نمبر ایک پر ہیں۔ اتنا بڑا عظیم ملک، 140 کروڑ لوگ، یہ میرے بھائی بہن، میرے پریوار جن، آج آزادی کا جشن منارہے ہیں۔ میں ملک کے کروڑوں شہریوں کو، ملک اور پوری دنیا میں ہندوستان سے محبت کرنے والے، ہندوستان کا احترام کرنے والے، ہندوستان کے وقار میں اضافہ کرنے والے کروڑوں لوگوں کو آزادی کے اس عظیم مقدس تہوار کی ان گنت مبارکباد دیتاہوں۔

میرے پیارے پریوار جنوں!

قابل احترام باپو کی قیادت میں عدم تعاون کی تحریک، ستیہ گرہ کی تحریک اور بھگت سنگھ، سکھ دیو، راج گرو، جیسے لاتعداد بہادروں کی قربانی، اس نسل میں شاید ہی کوئی شخص ہوگا، جس نے ملک کی آزادی میں اپنا تعاون نہ دیا ہو۔ میں آج ملک کی آزادی کی جنگ میں جن لوگوں نے تعاون دیاہے، قربانیاں دی ہیں، تیاگ کیا ہے، تپسیا کی ہے، ان سب کو احترام کے ساتھ سلام کرتا ہوں، ان کو خراج عقیدت پیش کرتاہوں۔ آج 15 اگست، عظیم انقلابی اور روحانی زندگی  کےمحرک شری اروندوکا 150واں یوم پیدائش مکمل ہورہاہے۔ یہ سال سوامی دیانند سرسوتی کے 150ویں یوم پیدائش کا سال ہے، یہ سال رانی درگاوتی کی 500 ویں یوم پیدائش کا بہت ہی مقدس موقع ہے، جو پورا ملک بڑی دھوم دھام سے منانے والا ہے۔ یہ سال میرابائی بھگتی یوگ کی سر تاج میرابائی کے 525سال کا بھی مقدس موقع ہے۔اس بار جو 26 جنوری ہم منائیں گے، وہ ہمارے یوم جمہوریہ کی 75ویں سالگرہ ہوگی۔مختلف شکل میں متعدد مواقع،لاتعداد امکانات  قومی تعمیر میں جٹے رہنے کےلیے پل پل نئی تحریک، پل پل نئی فکر، پل پل خواب، پل پل عہد، شاید اس سے بڑا کوئی موقع نہیں ہوسکتا۔

 

میرے پیارے پریوار جنوں!

اس بار قدرتی آفات نے ملک کے مختلف حصوں میں ناقابل یقین بحران پیدا کئے۔ جن خاندانوں نے اس بحران کا سامنا کیا ہے، میں ان تمام خاندانوں کے تئیں اپنے ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں اور ریاست-مرکز کی سرکاریں مل کر ان تمام بحرانوں سے جلدی نجات حاصل کرکے پھر تیز رفتاری کےساتھ آگے بڑھیں گے، میں یہ یقین دلاتاہوں۔

میرے پیارے پریوار جنوں!

پچھلے کچھ ہفتے شمال –مشرق میں خاص طور پر منی پور میں اور ہندوستان کے بھی دیگر کچھ حصوں میں ، لیکن خاص  طور پر منی پور میں جو تشدد کا دور چلا ، کئی لوگوں کو اپنی زندگی گنوانی پڑی ، ماں-بیٹیوں کی عزت کے ساتھ کھلواڑ ہوا ، لیکن کچھ دنوں سے لگاتار امن کی خبریں آرہی ہیں، ملک، منی پور کے لوگوں کے ساتھ ہے۔ منی پور کے لوگوں  نے پچھلے کچھ دنوں سے جو امن بنائے رکھا ہے ، اس امن کے موقع کو آگےبڑھائیں اور امن سے ہی حل کا راستہ نکلے گا۔ اور ریاست اور مرکزی سرکار مل کر ان مسائل کے حل کے لئے بھرپور کوشش کررہی ہے ، کرتی رہے گی۔

میرے پیارے پریوار جنوں!

جب ہم تاریخ کی طرف نظر ڈالتے ہیں، تو تاریخ میں کچھ لمحے ایسے آتے ہیں، جو اپنی نہ مٹنے والی چھاپ چھوڑکر جاتے ہیں اور اس کا اثر صدیوں تک جاری رہتا ہے اور کبھی کبھی ابتدا ء میں وہ بہت چھوٹا لگتا ہے ، چھوٹا سا واقعہ لگتا ہے، لیکن وہ متعدد مسائل کی جڑ بن جاتا ہے۔ ہمیں یاد ہے 1000-1200 سال پہلے  اس ملک پر حملہ ہوا ۔ ایک چھوٹی سی ریاست کے چھوٹے سے راجہ کی شکست ہوئی لیکن تب پتہ تک نہیں تھا کہ ایک واقعہ بھارت کو ہزار سال کی غلامی میں پھنسا دے گا اور ہم غلامی میں جکڑتے گئے، جکڑتے گئے، جکڑتے گئے، جو آیا لوٹتا گیا ، جو جس کا  من چاہا ہم پر آکر سوار ہوگیا ۔ کیسا الگ دور رہا ہوگا ، وہ ہزار سال کا ۔

 

میرے پیارے پریوار جنوں!

واقعہ چھوٹا کیوں نہ ہو، لیکن ہزاروں سال تک اثر چھوڑتا رہا ہے۔ لیکن  میں آج اس بات کا ذکر اس لئے کرنا چاہتا ہوں کہ بھارت کے سورماؤں نے  اس دور  میں کوئی علاقہ ایسا نہیں تھا ، کوئی وقت ایسا نہیں تھا، جب انہوں نے ملک کی آزادی کی شمع کو روشن نہ رکھا ہو، قربانی کی روایات نہ بنائی ہو۔ ماں بھارتی بیڑیوں سے آزاد ہونے کے لئے اُٹھ کھڑی ہوئی تھی، زنجیروں کو جھنجھوڑ رہی تھی اور ملک کی ناری شکتی  (خواتین کی طاقت) ، ملک کی نوجوانوں کی طاقت، ملک کے کسان ، ملک کے گاؤ ں کے لوگ، مزدور کوئی ہندوستانی ایسا نہیں تھا ، جو آزادی کے خواب کو لے کر جیتا نہ ہو۔ آزادی کو حاصل کرنے کے لئے  مرمٹنے کے لئے تیار ہونے والوں کی ایک بڑی فوج تیار ہوگئی تھی۔ جیلوں میں جوانی گزارنے والے متعدد عظیم لوگ ہمارے ملک کی آزادی کو، غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لئے لگے ہوئے تھے۔

میرے پیارے پریوار جنوں!

عوامی شعور کی وہ وسیع شکل، قربانی اور   تپسیا  کی وہ وسیع شکل  ،ہر فرد کے اندر ایک نیااعتماد جگانے والا وہ لمحہ، آخرکار 1947 میں ملک کی آزادی کی شکل میں سامنے آیا، ہزار سال کی غلامی کے دوران بنائے گئے خواب ہم وطنوں نے پورے ہوتے ہوئے دیکھے۔

ساتھیو!

میں ہزار سال پہلے کی بات اس لئے  کہہ رہا ہوں، میں دیکھ رہا ہوں کہ پھر ایک مرتبہ ملک کے سامنے ایک موقع آیا ہے، ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں، ایسے دور میں  ہم داخل ہوئے ہیں اور یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ بھارت کے ایسے امرت کال میں ، یہ امرت کال کا پہلا سال ہے، یا تو ہم زندگی میں جی رہے ہیں، یا ہم ماں بھارتی کی گود میں جنم لے چکے ہیں۔ اور یہ دورمیرے لفظ لکھ کر  رکھئے میرے پیارے پریوار جنو، اس دور میں جو ہم کریں گے، جو قدم اٹھائیں گے، جتنی قربانی دیں گے، تپسیا کریں گے۔ سرو جن ہتائے، سروجن سکھائے،ایک کے بعد ایک فیصلے لیں گے۔آنے والے ایک  ہزار سال کی، ملک کی سنہری تاریخ اس سے  پھوٹ کر نکلنے والی ہے۔اس دور میں ہونےوالے واقعات آئندہ  ایک ہزار سال کے لئے اس کا اثر پیدا کرنے والے ہیں۔ غلامی کی ذہنیت سے باہر نکلا ہوا ملک، پنچ پران کے لئے وقف ہوگا۔ ایک نئی خود اعتمادی کے ساتھ آج آگے بڑھ رہا ہے۔نئے عزائم کو پورا کرنے کے لئے وہ جی جان سے جڑ رہا ہے۔ میری بھارت ماتا ، جو کبھی توانائی سے بھرپور تھی، لیکن راکھ کے ڈھیر میں دبی پڑی تھی ۔وہ بھارت ماں 140 کروڑ اہل وطن کی کوششوں سے ان کےشعور سے، ان کی توانائی سے پھر ایک بار بیدار ہوچکی ہے۔ ماں بھارتی بیدار ہوچکی ہے اور  میں صاف دیکھ  رہا ہوں دوستوں، یہی دور ہے گزشتہ نو دس سال میں ہم نے محسوس کیا ہے، دنیا بھر میں ہندستان کے شعور کے تئیں ، ہندستان کی صلاحیت کے تئیں،ایک نئی رغبت ، ایک نیا اعتماد ،نئی امید پیدا ہوئی ہے  اور یہ روشنی، جو ہندستان سے اٹھی ہے وہ دنیا کو اس میں اپنے لئے روشنی نظر آرہی ہے۔ دنیا میں نیا اعتماد پیدا ہورہا ہے ۔ہماری خوش قسمتی ہے، کچھ ایسی چیزیں جو ہمارے آباؤ اجداد  نے ہمیں وراثت میں دی ہیں اور موجودہ دور میں تیار کی ہیں۔آج ہمارے پاس ڈیموگرافی ہے، آج ہمارے پاس ڈیموکریسی ہے، آج ہمارے پاس ڈائیورسٹی ہے۔ ڈیموگرافی،ڈیموکریسی اور ڈائیورسٹی کی یہ تریوینی  ہندستان کے ہر خواب کو پورا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔آج پوری دنیا میں جہاں ملکوں کی عمر ڈھل رہی ہے،ڈھلاؤ پر ہے، تو ہندستان نوجوانی کی طرف توانائی سے بھرپور ہوکر کے بڑھ رہا ہے۔ کتنی بڑی شان کا دور ہے کہ آج تیس سال کی کم عمر کی آبادی دنیا میں سب سے زیادہ کہیں ہے ، تو یہ میری بھارت ماں کی گود میں ہے۔یہ میرے ملک میں ہےاورتیس سال سے کم عمر کے نوجوان ہوں،میرے ملک کے پاس ہوں، کروڑوں بازوں ہوں، کروڑوں دماغ ہوں، کروڑوں خواب، کروڑوں عزائم ہوں تو بھائیو اور بہنو، میرے پریوار جنو،ہم اپنی خواہش کےمطابق نتیجہ حاصل کرکے رہ سکتے ہیں۔

 

میرے پیارے پریوار جنوں!

ایسے واقعات ملک کی قسمت تبدیل کردیتے ہیں۔ یہ اہلیت ملک کی قسمت تبدیل کردیتی ہے۔ہندستان ایک ہزار سال کی غلامی اور آنے والے ایک ہزار سال کے عظیم ہندستان کے بیچ میں پڑاؤ پر ہم کھڑے ہیں۔ ایک ایسےمقام پرہم  کھڑے ہیں ، اس لئے اب ہمیں نہ رکنا ہے،نہ تذبذب  میں زندگی گزارنی ہے۔

میرے پیارے پریوار جنوں!

ہمیں کھوئی ہوئی  اس وراثت پر فخر کرتے ہوئے کھوئی ہوئی  خوشحالی کو حاصل کرتے ہوئے، پھر ایک بار یہ بات مان کر چلیں،ہم جو بھی کریں گے ، ہم جو بھی قدم اٹھائیں گے، ہم جو بھی فیصلہ کریں گے، وہ اگلے ایک ہزار سال تک  اپنی سمت کا تعین کرنے والا ہے۔ ہندستان کی قسمت کو لکھنے والا ہے۔میں آج اپنے ملک کے نوجوانوں کو، اپنے ملک کے بیٹے بیٹیوں کو، یہ ضرور کہنا چاہوں گا جو خوش قسمتی میرے نوجوانوں  کو ملی ہے،ایسی خوش قسمتی ، شاید ہی کسی کو نصیب ہوتی ہے، جو آپ کو نصیب ہوئی ہےاور اس لیے ہمیں یہ گنوانا نہیں ہے۔ مجھے نوجوانوں کی طاقت پر بھروسہ ہے، نوجوانوں کی طاقت میں صلاحیت ہے اور ہماری پالیسیاں اور ہمارے رسم و رواج بھی اس نوجوان صلاحیت کو مزید تقویت دینے کے لیے ہیں۔

آج میرے نوجوانوں نے ہندوستان کو دنیا کے پہلے تین اسٹارٹ اپ اقتصادی نظام میں جگہ دلائی ہے۔ دنیا کے نوجوانوں کو حیرت ہو رہی ہے۔ ہندوستان کی اس طاقت کے بارے میں، ہندوستان کی اس طاقت کو دیکھ کر۔ آج دنیا ٹیکنالوجی پر مبنی ہے اور آنے والا دور ٹیکنالوجی سے متاثر رہنے والا ہے اور تب ٹیکنالوجی میں ہندوستان کا جو ٹیلنٹ ہے، اس کا  ایک نیا کردار ہونے  والا ہے۔

ساتھیو!

میں پچھلے دنوں، جی-20 سربراہ کانفرنس کے لیے بالی گیا تھا اور بالی میں، دنیا کے خوشحال سے  خوشحال  ترین ممالک، ان کے رہنما، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی، مجھے  ہندوستان کی  ڈیجیٹل انڈیا کی کامیابی کے لیے، اس کی باریکیوں کے بارے میں جاننے کے خواہش مندتھے۔ ہر کوئی اس کا  سوال پوچھتا تھا اور جب میں ان  کو کہتا تھا کہ ہندوستان نے جو کمال کیا ہے، وہ دہلی، ممبئی، چنئی تک محدود نہیں ہیں، ہندوستان جو کمال  کر رہا ہے، یہاں تک کہ میرے ٹائر-2، ٹائر-3 شہروں کے نوجوان بھی، آج  میرے ملک کی تقدیر سنوار رہے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی جگہوں سے میرے نوجوان، اور میں آج بڑے اعتماد کے ساتھ کہتا ہوں کہ ملک کی یہ نئی صلاحیت نظر آ رہی ہے، اور اسی لیے میں کہتا ہوں کہ ہمارے چھوٹے شہر سائز اور آبادی کے لحاظ سے چھوٹے ہو سکتے ہیں۔ یہ ہمارے  چھوٹے چھوٹے شہر، ہمارے قصبے سائز اور آبادی کے لحاظ سے چھوٹے ہوسکتے ہیں، لیکن ان میں جو امید اور آرزو، کوشش اور اثر ہے، وہ کسی سے کم نہیں ہے، ان میں وہ صلاحیت موجود ہے۔ نئے ایپس، نئے حل، ٹیکنالوجی کے آلات۔ اب کھیلوں کی دنیا دیکھئے، کون بچے  ہیں، جھگی جھونپڑی سے نکلے ہوئے بچے، آج کھیلوں کی دنیا میں اپنا کمال دکھا رہے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے گاؤں، چھوٹے چھوٹے قصبے  کے نوجوان، ہمارے بیٹے بیٹیاں آج کمال دکھا رہے ہیں۔ اب دیکھیں، میرے ملک کے 100 اسکول ایسے ہیں، جہاں کے  بچے سیٹلائٹ بنا کرکے سیٹلائٹ چھوڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ آج ہزاروں ٹنکرنگ لیبز نئے سائنسدانوں کو جنم دے رہے ہیں۔ آج، ہزاروں ٹنکرنگ لیبز لاکھوں بچوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے راہ پر آگے بڑھنے کی ترغیب دے رہی ہے۔

 

میں میرے  ملک کے نوجوانوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ مواقع کی کوئی کمی نہیں ہے، آپ جتنے مواقع چاہیں گے، یہ ملک  آسمان سے بھی زیادہ مواقع آپ کو دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

میں آج لال قلعہ کی فصیل سے  اپنے ملک کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو تہہ دل سے ابھینندن کرنا  چاہتا ہوں۔ ملک، آج جہاں پہنچا ہے، اس میں مخصوص قوت کا اضافہ ہورہا ہے، میری ماؤں بہنوں کی صلاحیت  کا۔ آج ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے، تو  میں میرے  کسان بھائیوں اور بہنوں کا ابھینندن کرنا چاہتا ہوں۔ یہ آپ ہی کی  لگن ہے، یہ آپ ہی کی محنت کہ ملک آج زراعت کے شعبے میں آگے بڑھ رہا ہے۔میں میرے ملک کے مزدوروں کا،میرے محنت کشوں کا، میرے  پیارے پریوار جن  ایسے کروڑوں لوگوں  کے سامنے آج میں  سلام پیش کرتا ہوں،  ان کا ابھینندن کر تا ہوں۔ملک  آج جو  جدیدیت کی طرف بڑھ رہا ہے، دنیا کے مقابلہ کرنے والی صلاحیت کے  ساتھ نظر آرہا ہے، اس کے پیچھے میرے ملک کے مزدوروں کا، میرے ملک کے محنت کشوں کا بہت بڑا تعاون ہے، آج وقت کہتا ہے کہ لال قلعہ کی فصیل سے میں ان کا ابھینندن کروں۔

ان کا خیر مقدم کروں اور  یہ میرے  پریوار جَن،  140 کروڑ  ہم وطن  میرے ان مزدوروں ، ریڑی پٹری والوں کا ،  پھول – سبزی بیچنے والوں کا  ہم  احترام کرتے ہیں۔  میرے ملک کو  آگے بڑھانے میں ، میرے ملک کو  ترقی کی نئی اونچائی پر لے جانے میں پیشہ ور  افراد  کا  بہت بڑا رول  بڑھتا رہا ہے۔ چاہے سائنس داں ہوں، چاہے انجینئرس ہوں،  ڈاکٹرس ہوں، نرسز  ہوں،  اساتذہ ہوں،  آچاریہ ہوں، یونیورسٹیاں ہوں،  گروکُل ہو،  ہر کوئی  ما ں بھارتی  کا مستقبل  تابناک بنانے کے لئے  اپنی پوری قوت  سے  لگا ہوا ہے۔

میرے پیارے پریوار جنوں!

 قومی شعور ، وہ ایک ایسا لفظ ہے، جو ہمیں تشویشات سے  آزاد کر رہا ہے  ۔ اور  آج وہ قومی شعور  یہ  ثابت کر رہا ہے کہ  بھارت کی  سب سے بڑی صلاحیت بنی  ہے بھروسہ، بھارت  کی سب سے بڑی صلاحیت بنا ہے  اعتماد ،   ہر ایک شخص میں ہمارا اعتماد ،  ایک ایک شخص  کا  حکومت پر اعتماد، ہر ایک شخص کا ملک کے  تابناک مستقبل پر اعتماد اور   دنیا  کا بھی  بھارت کے تئیں اعتماد۔ یہ اعتماد  ہماری پالیسیوں کا  ہے،  ہمارے رواجوں کا ہے۔ بھارت  کے تابناک مستقبل  کا ، جس مقررہ مضبوط قدموں سے ہم آگے بڑھ رہے ہیں،  اس کا  ہے۔

بھائیو اور بہنوں!

میرے پیارے پریوار جنوں،  یہ  بات یقینی  ہے کہ  بھارت کی صلاحیت اور  بھارت کے امکانات  اعتماد کی نئی بلندیوں  کو  پار کرنے والی  ہیں اور یہ  اعتماد کی نئی بلندیاں ، نئی  صلاحیت کو لے  کر  کے چلنی چاہئے۔ آج ملک میں  جی-20  سمٹ  کی مہمان نوازی کا  بھارت کو موقع ملا ہے، اور پچھلے  ایک سال سے  ہندوستان کے ہر کونے میں  جس طرح سے  جی – 20  کے بہت سے  ایسے   پروگرام منعقد ہوئے ہیں،  بہت سے  کام ہوئے ہیں،  اس نے  ملک کے عام انسان کی  صلاحیت کو  دنیا  سے متعارف کرادیا ہے۔ بھارت  کے تنوع  کا تعارف کرایا ہے۔ بھارت  کے تنوع  کو  دنیا تعجب سے دیکھ رہی ہے اور  اس کی وجہ سے بھارت کے  قریب  کشش میں اضافہ  ہوا ہے، بھارت کو جاننے  کی، بھارت کو سمجھنے کی خواہش جاگی ہے۔ اسی طرح  سے آپ دیکھئے، ایکسپورٹ، آج بھارت  کا ایکسپورٹ تیزی سے بڑھ رہا ہے اور میں کہنا چاہتا ہوں، دنیا کے  ماہرین  ان سارے  پیمانوں  کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ اب بھارت  رکنے والا نہیں ہے۔  دنیا کی کوئی بھی ریٹنگ ایجنسی ہوگی، وہ بھارت کو  فخر دلارہی ہے۔ کورونا دور کے بعد  دنیا ایک نئے سرے سے  سوچنے لگی ہے، اور میں  یقین کے ساتھ دیکھ رہا ہوں کہ جس طرح سے  دوسری جنگ عظیم کے بعد  دنیا  نے  ایک نیا  ورلڈ آرڈر تیار کیا تھا۔ میں صاف صاف دیکھ رہا ہوں کہ کورونا کے  بعد  ایک نیا  عالمی نظام ، ایک نیا  گلوبل آرڈر ، ایک  نئی  جیو پالیٹکل ایکویشن، یہ بہت ہی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ جیو پالیٹکل ایکویشن سے  ساری  تشریحات بدل رہی ہیں، تعریفیں بدل رہی ہیں۔ اور  میرے پیارے پریوار جنوں، آپ  فخر کریں گے کہ بدلتی ہوئی  دنیا  کو  شیپ دینے میں  آج میرے  140  کروڑ  ہم وطنوں ، آپ کی  صلاحیت نظر  آرہی  ہے، آپ  فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں۔

 اور کورونا کےد ور میں  بھارت نے جس طرح سے  ملک کو آگے بڑھایا ہے ، دنیا نے ہماری   صلاحیتوں کو دیکھا ہے۔  جب  دنیا کی سپلائی چین  تہس نہس  ہو گئی تھی، بڑی بڑی ارتھ ووستھا پر  دباؤ تھا، اس وقت بھی ہم نے  کہا تھا،  ہمیں  دنیا کی ترقی  دیکھنی ہے۔

تو وہ انسان پر مرکوز ہونا چاہیے، انسانی ہمدردی سے بھرا ہوا ہونا چاہیے اور تب جا کر مسائل کا صحیح حل نکلے گا اور کووڈ نے ہمیں سکھایا ہے ،یا ہمیں مجبور کیا ہے  لیکن  انسانی ہمدردی اور دکھ درد کو چھوڑ کرکے ہم دنیا کا بھلا نہیں کرسکتے۔

آج ہندوستان گلوبل ساؤتھ کی آواز بن رہا ہے۔ ہندوستان کی خوشحالی، وراثت آج دنیا کےلیے ایک موقع بن رہی ہے۔گلوبل اکنامی، گلوبل سپلائی چین میں ہندوستان کی حصے داری، میں پختہ یقین کے ساتھ کہتا ہوں، آج جو ہندوستان میں صورت حال پیدا ہوئی ہے، آج جو ہندوستان نے کمایا ہے، وہ دنیا میں استحکام کی ضمانت لے کر آیا ہے دوستو،اب نہ ہمارے دل میں، اور نہ ہی 140 کروڑ میرے پریوار جنوں کے دل میں اور نہ ہی دنیا کے  دل میں کوئی ‘افس’ (ifs)ہے اور نہ کوئی ‘بٹس’ (buts) ہے، اعتماد بن چکا ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو!

اب گیند ہمارے پالے میں ہے۔ ہمیں موقعے کو جانے نہیں دینا چاہیے، ہمیں موقعے کو چھوڑنا نہیں چاہیے، ہندوستان میں، میں اپنے ہم وطنوں  کا اس لیے بھی استقبال کرتا ہوں کہ میرے ہم وطنو ں میں ایک صاف ستھری ذہانت کی اہلیت ہے، مسائل کی جڑوں کو سمجھنے کی صلاحیت ہے اور اس لیے  2014 میں میرے ہم وطنوں  نے 30 سال کے تجربے کےبعد طے کیا کہ ملک کو آگے لے جانا ہے، تو مستحکم سرکار چاہیے، مضبوط سرکار چاہیے، مکمل اکثریت والی سرکار چاہیے اور ہم وطنوں  نے ایک مضبوط اور مستحکم سرکار بنائی۔ تین دہائیوں تک جو غیریقینی کا دور تھا، جو عدم استحکام کا باب تھا، جن سیاسی مجبوریوں سے ملک جکڑا ہوا تھا، اس سے آزادی ملی۔

 

میرے پیارے پریوار جنوں!

ملک کے پاس آج ایسی سرکار ہے، جو سب کی فلاح، سب کی بہبود، ملک کی متوازن ترقی کےلیے ، وقت کا لمحہ لمحہ اور عوام کی پائی پائی عوام کی بھلائی کے لیے صرف کررہی ہے اور میری سرکار، میرے ہم وطنوں  کا وقار ایک بات سے جڑا ہوا ہے۔ ہمارے ہر فیصلے، ہماری ہر سمت، اس کا ایک ہی معیار ہے، نیشن فرسٹ(ملک پہلے) اور ملک پہلے، یہی دوررس نتیجہ ، مثبت نتائج پیدا کرنے والا ہے۔ ملک میں بڑی سطح پر کام ہورہا ہے، لیکن میں کہنا چاہوں گا کہ 2014 میں آپ نے ایک مضبوط سرکار بنائی اور میں کہتا ہوں کہ 2014 میں اور 2019 میں آپ نے ایک سرکار منتخب کی، تو مودی میں اصلاح کرنے کی ہمت آئی۔ آپ نے ایسی سرکار تشکیل دی کہ مودی کو ریفارم کرنے کی ہمت آئی ہے اور جب مودی نے ایک کے بعدایک ریفارم کیے، تو میرے بیوروکریسی کے لوگ، میرے لاکھوں ہاتھ پیر، جو ہندوستان کے کونے کونے میں سرکار کے حصے کی شکل میں کام کررہے ہیں،  انہوں نے ٹرانسفارم کرنے  کے لیے  پرفارم کی ذمہ داری بخوبی ادا کی اور انہوں نے پرفارم کرکے دکھایا  اور جب عوام سے جڑ گیا تو وہ ٹرانسفارم ہوتا بھی نظر آرہا ہے۔ اس لیے ریفارم، پرفارم ، ٹرانسفارم یہ باب اب ہندوستان کے مستقبل کو تیار کررہا ہے۔ ہماری سوچ ملک کی ان طاقتوں کوبڑھاوا دینے پر ہے جو آنے والے ایک ہزار سال کی بنیاد کو مضبوط کرنے والے ہیں۔

دنیا کو نوجوان طاقت کی ضرورت ہے، نوجوان اسکل کی ضرورت ہے، ہم نے ایک علیحدہ اسکل وزارت تشکیل کی، وہ ہندوستان کی ضرورتوں کو تو پورا  کرے گی،  وہ دنیا کی ضرورتوں کو بھی پورا کرنے کی اہلیت رکھے گی۔ ہم نے جل شکتی کی وزارت تشکیل دی۔

وزارت کی تشکیل کے لیے اگر وہ تجزیہ کرے گا نا،  تو اس سرکار کی ذہنیت کو بڑھے اچھے ڈھنگ سے آپ سمجھ سکیں گے۔ ہم نے جل شکتی کی وزارت بنائی، یہ جل شکتی کی وزارت ، ہمارے ملک کے ایک ایک شہری کو پینے کا صاف پانی پہنچے، آب وہوا کے تحفظ کے لیے پانی کے تئیں حساس نظام تیار ہو، اس پر ہم زور دے رہے ہیں۔  ہمارے ملک میں کورونا کے بعد دنیا دیکھ رہی ہے، صحت کی مجموعی دیکھ بھال، یہ وقت کا تقاضا ہے۔ ہم نے علیحدہ سے آیوش کی وزارت بنائی ہے اور یوگ اور آیوش ،آج دنیا میں اپنا پرچم لہرا رہے ہیں۔ ہم دنیا کو ہماری عہد بستگی کی وجہ سے دنیا کا، ہماری طرف دھیان گیا ہے۔ اگر ہم ہی ہماری اس قوت کو ٹھکرادیں گے، تو پھر دنیا کیسے ہمیں قبول کرے گی، لیکن جب وزارت بنی ، تو دنیا کو بھی اس کی قدر وقیمت سمجھ میں آئی۔ ماہی پروری ہمارا اتنا بڑا سمندری ساحل، ہمارےکروڑوں  ماہی گیر بھائی بہن، ان کی  فلاح وبہبود بھی ہمارے دلوں میں ہے اور اس لیے ہم نے الگ سے ماہی پروری کو لے کرکے، مویشی پروری کو لے کر کے، ڈیری کو لے کر کے الگ وزارت کی تشکیل کی، تاکہ سماج کے جس طبقے کے لوگ پیچھے رہ گئے ہیں، ان کو ہم ساتھ لیں۔ ملک میں سرکاری معیشت کے حصے ہوتے ہیں، لیکن سماج کی معیشت کا ایک بڑا حصہ ہے کوآپریٹو موومنٹ۔ اس کو تقویت بہم پہنچانے کے لیے، اس کو جدید بنانے کے لیے اور ملک کے کونے کونے میں جمہوریت کی ایک سب سے بڑی اکائی کو مضبوط کرنے کے لیے، ہم نے الگ سے امداد باہمی کی وزارت بنائی اور  وہ ہمارے امداد باہمی کے ادارے ان کا جال بچھا رہا ہے، تاکہ غریب سے غریب کی وہاں سنوائی ہو، اس کی ضرورت کی تکمیل ہو اور وہ بھی ملک کی ترقی کے تعاون میں ایک چھوٹی اکائی کا حصہ بن کر اس میں وہ تعاون دے سکیں۔ ہم نے تعاون سے خوشحالی کا راستہ اختیار کیا ہے۔

میرے پیارے پریوار جنوں!

جب ہم 2014 میں آئے تھے، تو ہم عالمی معیشت میں 10 ویں مقام پر تھے اور آج 140 کروڑ ہم وطنوں کی محنت رنگ لائی ہے، جس سے کہ ہم دنیا کی معیشت میں 5 ویں نمبر پر پہنچ چکے ہیں۔ اور یہ ایسے ہی نہیں ہوا ہے، جب بدعنوانی کا عفریت  ملک کو دبوچے ہوئے تھا، لاکھوں کروڑوں کے گھوٹالے معیشت کو،  ڈاواں ڈول کررہے تھے، گورنینس، فریجائل فائل میں ملک کی پہچان ہونے لگی تھی۔ لیکیجز کو ہم نے بند کیا، مضبوط معیشت بنائی، ہم نے غریبوں کی فلاح وبہبود کے لیے زیادہ سے زیادہ رقم خرچ کرنے کی کوشش کی اور آج میں، ہم وطنوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ جب ملک معاشی لحاظ سے خوشحال ہوتا ہے، تو صرف تجوری ہی نہیں بھرتی، ملک کےاستعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہم وطنوں کی صلاحیت بڑھتی ہے اور تجوری کی پائی پائی اگر ایمانداری سے عوام الناس کے لیے خرچ کرنے کا عزم کرنے والی سرکار ہو، تو نتیجہ کیسا آتا ہے۔ میں 10 سال کا حساب ترنگے کی گواہی میں، لال قلعہ کی فصیل سے اپنے ہم وطنوں کو دے رہا ہوں۔ اعداد وشمار دیکھ کر آپ کو لگے گا اتنا بڑا بدلاؤ، اتنی زیادہ استعداد۔ 10 سال پہلے ریاستوں کو 30 لاکھ کروڑ روپے بھارت سرکار کی طرف سے جاتے تھے۔ پچھلے 9 سال میں یہ تعداد 100 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے۔ پہلے مقامی اداروں کی ترقی کے لیے بھارت سرکار کے خزانے سے 70 ہزار کروڑ روپے جاتے تھے، آج وہ 3 لاکھ کروڑ روپے سے بھی زیادہ جارہے ہیں۔ پہلے غریبوں کے گھر بنانے کے لیے 90 ہزار کروڑ روپے خرچ ہوتے تھے۔ آج 4 گنا بڑھ کے 4 لاکھ کروڑ روپے سے بھی زیادہ غریبوں کے گھر بنانے کے لیے خرچ ہورہے ہیں۔ پہلے غریبوں کو یوریا سستا ملے۔جو یوریا کے بیگ دنیا کے کچھ بازاروں میں تین ہزار میں بکتے ہیں، وہ یوریا کا بیگ میرے کسانوں کو 300 میں ملے اور اس لیے ملک کی سرکار 10 لاکھ کروڑ روپے میرے کسانوں کو یوریا میں سبسڈی دے رہا ہے۔ مدرا یوجنا 20 لاکھ کروڑ روپئے اس سے بھی زیادہ میرے ملک کے نوجوانوں کو ذاتی روزگار کے لیے، اپنے پیشے کے لیے، اپنے کاروبار کے لیے دیئے ہیں۔ آٹھ کروڑ  لوگوں نے نیا کاروبار شروع کیا ہے اور آٹھ کروڑ لوگوں نے کاروبار شروع کیا ہے، ایسا نہیں ہے، ہر کاروباری نے ایک یا دو، لوگوں کو روزگار دیا ہے۔  8-10  کروڑ نئے لوگوں کو روزگار دینے کی صلاحیت، یہ مدرا یوجنا سے فائدہ اٹھانے والے 8 کروڑ  شہریوں نے کیا ہے۔ ایم ایس ایم ایز کو قریب ساڑھے تین لاکھ کروڑ روپئے کی مدد سے کورونا کے مشکل دور میں بھی اُن کو ڈوبنے نہیں دیا، مرنے نہیں دیا، ان کو ایک طاقت دی ہے۔ ایک رینک ایک پنشن، میرے ملک کے فوج کے نوجوانوں کا عزت کا ایک موضوع تھا۔  70 ہزار کروڑ روپے ہندوستان کی تجوری سے آج پہنچا ہے۔ میرے سابق فوجی ہیروز کی جیب میں ان کے پریوار کو پہنچا ہے۔ سبھی زمرے میں، میں نے  تو کچھ ہی گنائے ہیں، میں زیادہ وقت لینا نہیں چاہتا ہوں۔ ہر زمرے میں پہلے کے مقابلے میں کئی گنا رقم ملک کی ترقی کے لیے کونے کونے میں روزگار پیدا کرنے کے لیے پائی پائی کا استعمال ہندوستان کی تقدیر بدلنے  کے لئے ہو اور اس لیے ہم نے کام کیا ہے۔

اور میرے پیارے  پریہ جنوں!

اتنا ہی نہیں، ہم نے، ان ساری کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج پانچ سال کے میرےایک دور حکومت میں، پانچ سال میں ساڑھے 13 کروڑ میرے غریب بھائی بہن، غریبی کی زنجیروں کو توڑ کرکے نئی مڈل کلاس کے روپ میں باہر آئے ہیں۔ زندگی میں اس سے بڑا کوئی اطمینان نہیں ہوسکتا۔

میرے پیارے پریہ پریوار جنوں!

اور جب ساڑھے تیرہ کروڑ لوگ غریبی کی اس مصیبت سے باہر نکلتے ہیں، تو کیسی کیسی اسکیموں نے انھیں مدد دی ہے۔ ان کو آواس یوجنا کا فائدہ ملنا، پی ایم سواندھی سے پچاس ہزار کروڑ روپئے،ریڑھی-  پٹری والوں تک پہنچایا ہے۔ آنے والے دنوں میں، آنے والی وشوکرما جینتی پر ایک پروگرام ہم آگے لاگو کریں گے، اس وشوکرما جینتی پر ہم تقریبا  13-15 ہزار کروڑ روپے سے جو روایتی ہنرمندی سے رہنے والے لوگ، جو اوزار سے اور اپنے ہاتھ سے کام کرنے والا طبقہ ہے، زیادہ تر او بی سی طبقے سے ہیں ۔ ہمارے کارپینٹر ہوں، ہمارے سنار ہوں، ہمارے راج مستری ہوں، ہمارے کپڑے دھونے والے کام کرنے والے لوگ ہوں، ہمارے بال  کاٹنے والے بھائی بہن پریوار ہوں، ایسے لوگوں کو ایک نئی طاقت دینے کے لیے ہم آنے والے مہینوں میں وشوکرما جینتی پر وشو کرما یوجنا کا آغاز کریں گے اور تقریبا 13-15 ہزار کروڑ روپئے سے اس کی شروعات کریں گے۔ ہم نے پی ایم کسان سمّان ندھی میں ڈھائی لاکھ کروڑ روپے سیدھا میرے ملک کے کسانوں کے کھاتوں میں جمع کیا ہے۔ ہم نے جل جیون مشن ہر گھر میں صاف ستھرا پانی پہنچے، کے تحت دو لاکھ کروڑ روپے خرچ کئے ہیں۔ ہم نے آیوشمان بھارت یوجنا، تاکہ غریب کو بیماری کی وجہ سے اسپتال جانے سے جو مصیبت ہوتی ہے، اس سے چھٹکارا دلانا۔ اس کو دوائی ملے، اس کا علاج  ہو، آپریشن، اچھے سے اچھے اسپتال میں ہوں، آیوشمان بھارت یوجنا کے تحت 70 ہزار کروڑ روپئے ہم نے لگائے ہیں۔ مویشی دھن ملک میں کورونا ویکسین کی بات تو ملک کو یاد ہے، 40 ہزار کروڑ روپئے لگائے، وہ تو یاد ہے ، لیکن آپ کو جان کر خوشی ہوگی کہ ہم نے مویشی دھن کو بچانے کے لیے قریب قریب 15 ہزار کروڑ روپے مویشی دھن کی ٹیکہ کاری کے لیے لگائے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو،

میرے پیارے پریوار جنوں

جن اوشدھی کیندروں نے، ملک کے سینئر سٹیزن کو ، ملک کے متوسطے طبقے کے خاندانوں کو ایک نئی طاقت دی ہے۔جس مشترکہ کنبے میں اگر کسی کو ایک ذیابیطس جیسا مرض ہو جائے،3-2 سے تین ہزار کا بل فطری ہوجاتا ہے۔ ہمی نے جن-اوشدھی کیندر سے جو دوائی بازار میں 100 روپئے میں ملتی ہے، وہ ہم نے 10 روپئے ، 15 روپئے،20 روپئے میں دی۔  اور آج ملک کے 1000 جن –اوشدھی کیندروں سے ان بیماری میں، جن کو دوائی کی ضرورت تھی، ایسے لوگوں کے تقریباً 20 کروڑ روپئے ان کی جیب میں بچے  ہیں ۔  اور یہ زیادہ تر متوسط طبقے کے کنبے کے لوگ ہیں۔ لیکن آج اس کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے میں ہم وطنوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ جیسے ہم ایک وشوکرما یوجنا لے کر کے سماج کے اس طبقے کو چھونے والے ہیں۔ جب ملک میں 10 ہزار جن-اوشدھی کیندر سے ہم 25 ہزار جن –اوشدھی کیندر کا ہدف لے کر کے آنے والے دنوں میں کام کرنے والے ہیں۔

میرے پیارے پریوارجنوں!

جب ملک میں  غریبی کم ہوتی ہے، تب ملک کے متوسط طبقے کی طاقت بہت بڑھتی ہے۔ اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آنے والے پانچ سال میں مودی کی گارنٹی ہے، ملک، پہلی تین عالمی معیشت میں اپنا مقام حاصل کرلے گا ۔ یہ پکی جگہ بنا لے گا۔ آج جو ساڑھے 13 کروڑ غریبی  سے باہر آئے ہوئے لوگ ہیں وہ ایک  طرح سے متوسط  طبقے کی طاقت بن جاتے ہیں۔ جب غریب کی خریدینے کی قوت بڑھتی ہے، تو متوسط طبقے کی تجارت کی طاقت بھی بڑھتی ہے۔ جب گاؤوں کی خرید اری کی طاقت بڑھتی ہے ، تو قصبے اور شہر کا اقتصادی انتظام اور تیز رفتار سے دوڑتا ہے۔ اور یہی انٹر کنکٹیڈ ہمارا اقتصادی سرکل ہوتا ہے۔ ہم اسے زور دے کر آگے چلانا چاہتے ہیں۔

میرے پیارے پریوارجنوں!

شہر کے اندر جو کمزور لوگ رہتے ہیں ، بغیر بات کی جو مصیبت رہتی ہے ۔ متوسط  طبقے کے کنبے  اپنے خود کے گھر کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ہم ان کے لئے بھی آنے والے کچھ سالوں  میں ایک منصوبہ لے کر آرہے ہیں اور جس میں ایسے میرے پریوار جنوں، جو شہروں میں رہتے ہیں، لیکن کرائے کے مکان میں رہتے ہیں ، جھگی –جھوپڑیوں  میں رہتے ہیں، چال میں رہتے ہیں، غیرتسلیم شدہ (اَن اتھارائزڈ) کالونی میں رہتے ہیں۔ ایسے میرے پریوارجن اگر اپنامکان چاہتے ہیں، تو بینک سے جو قرض ملے گا اس کے سود کے اندر راحت دے کر کے لاکھوں روپئے کی مدد کرنے کا ہم نے فیصلہ کیا ہے۔میرے متوسط طبقے کے کنبے کو 2 لاکھ سے 7 لاکھ  انکم ٹیکس کی حدبڑھ جاتی ہے، تو سب سے بڑا فائدہ تنخواہ جات طبقے کو ہوتا ہے۔ میرے متوسط طبقے کو ہوتی ہے۔ انٹرنیٹ کا  ڈیٹا بہت مہنگا تھا، 2014  سے پہلے۔ اب دنیا کا سب سے سستا انٹرنیٹ کا ڈیٹا پر خرچ ہورہا ہے، ہر کنبے کے پیسے بچ رہے ہیں۔

میرے پریوارجنوں!

دنیا کورونا کے بعد ابھی تک ابھر نہیں پائی ہے ، جنگ نے پھر ایک نئی مصیبت پیدا کی ہے۔ آج دنیا مہنگائی کے بحران سے جوجھ رہی ہے۔ پوری دنیا کی معیشت  کو مہنگائی نے دبوچ کر رکھا ہے۔ ہم بھی دنیا سے جن سامان کی ضرورت ہوتی ہے، لاتے ہیں،تو ہم سامان تو درآمد کرتے ہیں، ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں مہنگائی بھی درآمد کرنی پڑتی ہے۔ تو اس سے پوری دنیا کو مہنگائی نے جکڑ کررکھا ہے۔

لیکن میرے  عزیز پریوار جنوں!

بھارت نے مہنگائی پر قابو پانے کے لئے بھرپور کوششیں کی ہیں۔ پچھلے دور کے مقابلے میں ہمیں کچھ کامیابی بھی ملی ہے، لیکن اتنے سے اطمینان نہیں  کیا جاسکتا ۔دنیا سے ہماری چیزیں اچھی ہیں، اتنی بات سے ہم سوچ نہیں سکتے ، مجھے تو میرے ہم وطنوں کو مہنگائی کا بوجھ کم سے کم ہو، اس سمت میں اور بھی قدم اٹھانے ہیں۔ اور ہم اس قدم کو اٹھا کر رہیں گے۔ میری کوشش لگاتار جاری رہے گی۔

میرے عزیز پریوارجنوں!

آج ملک بے شمار صلاحیتوں کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ ملک جدیدت کی طرف آگے بڑھنے کے لئے کام کررہا ہے۔ آج ملک قابل تجدیدتوانائی میں کام کررہا ہے، آج ملک  میں گرین ہائیڈروجن پر کام  ہورہاہے، ملک کی خلاء  میں صلاحیت بڑھ رہی ہے۔ تو ملک ڈیپ سی مشن میں بھی کامیابی کےساتھ آگے بڑھ رہا ہے،ملک میں ریلوے کی جدید کاری ہورہی ہے، تو وندے بھارت بلٹ ٹرین بھی آج ملک کے اندر کام کررہی ہے، گاؤں گاؤں پکی سڑکیں بن رہی ہیں، تو الیکٹرک بسیں، میٹرو کی تعمیر بھی آج ملک میں ہورہی ہے۔ آج گاؤں گاؤں تک انٹرنیٹ پہنچ رہا ہے، تو کوئنٹم کمپیوٹر کے لیے بھی ملک طے کرتا ہے، نینو یوریا اور نینو ڈی اے پی پر کام ہورہا ہے، تو دوسری طرف نامیاتی زراعت پر بھی ہم زور دے رہے ہیں۔ آج کسان اتپادک  سنگھ ایپ کی  تشکیل ہورہی ہے، تو ہم سیمی کنڈیکٹر کی بھی تعمیر کرنا چاہ رہے ہیں۔ ہم معذور افراد کےلیے ایک آسان ہندوستان کی تعمیر کے لیے کام کرتے ہیں، وہیں ہم پیرالمپک میں بھی ہندوستان کا ترنگا جھنڈا گاڑنے کےلیے اپنے معذور افراد کو اہل بنا رہے ہیں۔ ہم کھلاڑیوں کو خصوصی تربیت دے رہے ہیں۔ آج ہندوستان، پرانی سوچ، پرانے دائرے کو چھوڑ کرکے اہداف کو طے کرکے اہداف کو حاصل کرنے کے نظریے کے ساتھ چل رہا ہے۔ جب میں کہتاہوں کہ جس کا سنگ بنیاد ہماری سرکار رکھتی ہے، اس کا افتتاح بھی ہم اپنی مدت کار میں کرتے ہیں۔ ان دنوں جو سنگ بنیاد میں رکھ رہا ہوں،آپ لکھ کر رکھ لیجئے، اس کا افتتاح بھی آپ سب نے میرے نصیب میں رکھ چھوڑا ہے۔ ہمارے کام کی تہذیب، بڑا سوچنا، دور کاسوچنا،سب کی فلاح سب کی بہبود کےبارے میں سوچنا یہ ہمارے کام کا طریقہ کار رہا ہے۔اور سوچ سے بھی زیادہ ، عہد سے بھی زیادہ کس طرح حاصل کرنا ہے، اس توانائی کے ساتھ ہم کام کرتے ہیں۔ ہم نے آزادی کے امرت مہوتسو میں 75 ہزار امرت سروور بنانے کا عہد کیا تھا، تقریبا 50-55 ہزار امرت سروور کا تصور کیا تھا، لیکن آج تقریبا 75 ہزار امرت سروور کی تعمیر کا کام ہورہا ہے۔ یہ اپنے آپ میں بہت بڑا کام ہورہا ہے۔ جن شکتی اور جل شکتی کی یہ طاقت  ہندوستان کےماحولیات کے تحفظ میں بھی کام آنے والی ہے۔ 18 ہزار گاؤوں تک بجلی پہنچانا، جن دھن بینک کھاتے کھولنا، بیٹیوں کےلیے بیت الخلا ء بنوانا، سارے ٹارگیٹ وقت سے پہلے پوری طاقت سے پورا کرےگا۔ جب ہندوستان ٹھان لیتا ہے، تو اسے پورا کرکے رہتا ہے۔ یہ ہمارا ٹریک ریکارڈ کہتا ہے۔ 200 کروڑ ٹیکہ کاری کا کام – دنیا جب ہم سے پوچھتی ہے، 200 کروڑ کےبارے میں سنتی ہے، تو اس کی آنکھیں پھٹی رہ جاتی ہیں۔ اتنا بڑا کام۔ یہ میرے ملک کے آنگن واڑی کارکن ، ہماری صحت کارکن ، انہوں نے یہ کرکے دکھایا۔یہ میرے ملک کی صلاحیت ہے۔ 5-جی کو رول آؤٹ کیا،دنیا میں سب سے تیز رفتار سے 5-جی رول آؤٹ کرنے والا میرا ملک ہے۔ 700 سے زیادہ اضلاع تک ہم پہنچ چکے ہیں اور اب 6-جی کی بھی تیار ی کررہے ہیں۔ہم نے ٹاسک فورس بنادیا ہے۔قابل تجدید توانائی پر ہم ہدف سےپہلے چلے، ہم نے قابل تجدید توانائی 2030 کا جو ہدف طے کیا تھا، 21-22 میں اسے پورا کردیا۔ ہم نے ایتھنول میں20 فیصد بلینڈنگ  کی بات کی کہی تھی، وہ بھی ہم نے وقت سے 5 سال قبل ہی پورا کردیا ہے۔ ہم نے 500 بلین ڈالر کے ایکسپورٹ کی بات کہی تھی، وہ بھی وقت سے پہلے 500 بلین ڈالر  سے زیادہ کردیا۔

ہم نے طے کیا ، جو ہمارے ملک میں 25 سال سے بحث ہورہی تھی کہ ملک میں نیا پارلیمنٹ بننا چاہیے، نئی پارلیمنٹ ہو، یہ مودی ہے، وقت سے پہلے نئی پارلیمنٹ بنا کرکے دکھا دیا ،میرے  پیارے بھائیو بہنوں، یہ کام کرنے والی سرکار ہے۔مقرر شدہ اہداف کو عبور کرنے والی سرکار ہے، یہ نیا ہندوستان ہے، یہ خود اعتمادی سےبھرا ہوا ہندوستان ہے، یہ عہد کو پورا کرنے کےلیے جی جان سے لگا ہوا ہندوستان ہے۔

اس لیے یہ ہندوستان نہ رکتا ہے، یہ ہندوستان نہ تھکتا ہے، یہ ہندوستان نہ تو ہانپتا ہے اور نہ ہی یہ ہندوستان ہارتا ہے۔ اس لیے میرے پیارے پریوار جنوں ، اقتصادی طاقت بھری ہے، تو ہمارے مزدوروں کی طاقت کو نئی طاقت ملی ہے۔ ہماری سرحدیں پہلے سے زیادہ  محفوظ ہوئی ہیں اور میری سرحد پر بیٹھے ہوئے جوان۔

میرے جوان، جو ملک کی سرحدوں کی حفاظت کررہے ہیں اور ملک کی اندرونی حفاظت سنبھالنے والی یونیفارم فورسیز،میں آزادی کے اس مبارک موقع پر بہت بہت مبارک   باد دیتے ہوئے اپنی بات کو آگے بڑھاتا ہوں۔ میں فو ج کی اتھارٹی ہو،ہماری فوج  جوان بنے،ہماری فوج جنگ کے لئے تیار ،جنگ کے لائق بنے اس کے لئے مسلسل اصلاحات کا کام آج ہماری فوج میں ہورہا ہے۔

میر ے پیارے پریوار جنوں!

آئے دن ہم لوگ سنا کرتے تھے، یہاں بم دھماکہ ہوا، وہاں بم دھماکہ ہوا۔ ہر جگہ پر لکھا ہوا رہتا تھا کہ اس بیگ کو مت چھونا، اعلانات ہوتے رہتے تھے۔آج ملک تحفظ کو محسوس کررہا ہے اور جب تحفظ ہوتا ہے ، امن ہوتا ہے، تو ترقی کے نئے ارمان ہم پورے کرسکتے ہیں۔اس کے لئے سیریل بم دھماکوں کا زمانہ گزری ہوئی بات ہوگئی ہے۔بے قصور لوگوں کی جب موت ہوتی تھی، وہ گزرے ہوئے کل کی بات ہوگئی ہے۔ آج ملک میں دہشت گردانہ حملوں میں زبردست کمی آئی ہے۔نکسل متاثرہ علاقوں میں بھی بہت بڑی تبدیلی آئی  ہے۔ بہت بڑی تبدیلی کا ایک ماحول قائم ہوا ہے۔

میرے پیارے پریوار جنوں!

ترقی کی ہر چیز میں،لیکن  جب 2047،ہم ایک  ترقی یافتہ ہندستان کا خواب لے کر چل رہے ہیں، تب،اور وہ خواب نہیں،140 کروڑ اہل وطن کا عزم ہے اور اس عزم کو پورا کرنے کے لئے محنت کی انتہا بھی ہے اور اس کی سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے،وہ قومی کردار ہوتا ہے۔دنیا میں جن جن ملکوں  نے ترقی کی ہے ، دنیا میں جو جو ملک بحران سے باہر نکلے ہیں، ان  میں ہر چیز کے ساتھ ساتھ ایک اہم کیٹلک ایجنٹ رہا ہے، وہ قومی کردار رہا ہے اور ہمیں قومی کردار کے لئے مزید زور دیتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔ ہمارا ملک ، ہمارا قومی کردار باوقار ہو، نورانی ہو،محنتی ہو، حوصلے مند ہو،تیزفہم ہو،یہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری  ہے اور آنے والے پچیس سال ہم ایک ہی منتر کو لے کر چلیں ۔یہ ہمارے قومی کردار کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ یکجہتی کا پیغام،ہمیں ہندستان کی یکجہتی کو جینا ، ہندستان کے اتحاد کو آنچ آئے، نہ  ایسی میری زبان ہوگی نہ ایسا میرا کوئی قدم ہوگا۔ ہر لمحہ ملک کو جوڑنے کی کوشش  میری طرف سے ہوتی رہے گی۔ہندستان کا اتحاد ہمیں طاقت دیتا ہے۔

شمال  ہو، جنوب ہو، مشرق ہو، مغرب ہو،گاؤں ہو ، شہر ہو، مرد ہو، عورت  ہو،ہم سب  میں اتحاد کے جذبے کے ساتھ اور تنوع سے بھرے ہوئے ملک میں اتحاد کی  صلاحیت ہوتی ہے اور دوسری اہم بات، میں دیکھ رہا ہوں، اگر 2047 میں ہمیں اپنےملک کو ترقی یافتہ ہندستان کی شکل میں دیکھنا ہے، تو ہمیں شریشٹھ بھارت کے منتر کو جینا ہوگا۔ ہمیں اس کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔ اب ہمارے پروڈکشن میں، میں نے 2014 میں کہا تھا  زیرو ڈیفیکٹ ، زیر وایفیکٹ، دنیا کی کسی بھی ٹیبل پر میک ان انڈیا چیز ہو،تو دنیا کو یقین ہونا چاہئے کہ اس سے بہتر دنیا میں کچھ نہیں ہوسکتا ہے۔ یہ الٹی میٹ ہوگا،ہماری ہر چیز ، ہماری خدمات ہوں گی، تو افضل ہوں گی،ہمارے الفاظ کی طاقت ہوگی، تو افضل ہوگی ، ہمارے ادارے ہوں گے،تو افضل ہوں گے ۔ ہمارے فیصلہ کے طریقہ کار ہوں گے تو افضل ہوں گے۔ یہ  افضلیت کا جذبہ لے کر ہمیں چلنا ہوگا۔

تیسری بات ہے، ملک میں آگے بڑھنے کے لئے ایک اضافی قوت کی اہلیت،  ہندستان کو آگے لے جانی والی ہے اور وہ ہے خواتین  کی قیادت  والی ترقی۔

آج ہندستان فخر سے  کہہ سکتا ہے کہ دنیا میں شہری ہوا بازی میں اگر کسی ایک ملک میں سے سب سے زیادہ خاتون پائلٹ ہیں، تو وہ  میرے ملک میں ہیں۔  آج چندریان کی رفتار ہو ، مون مشن کی بات ہو،میری خاتون سائنسداں  اس کی قیادت کررہی ہیں۔

آج  ویمن سیلف ہیلپ گروپ ہوں، 2 کروڑ لکھ پتی دیدی کا ہدف لے کر ویمن سیلف ہیلپ گروپ پر ہم کام کررہے ہیں۔ ہم  نے، ہماری ناری شکتی کی صلاحیت کو بڑھاوا دیتے ہوئےخواتین کی قیادت میں ترقی کی بات کی۔اور جب جی-20 میں، میں نے خواتین کی قیادت میں ترقی کے موضوعات کو آگے بڑھایا، توپورا جی-20 گروپ اب اس کی اہمیت کو تسلیم کررہا ہے اور اس کی اہمیت کو تسلیم کرکے وہ اس پر بہت زور دے رہے ہیں۔اسی طرح  سے ہندوستان تنوع سے بھرا ملک ہے، غیرمتوازن ترقی کے ہم شکار رہے ہیں، میرا- پرایا کی وجہ سے ہمارے  ملک کے  کچھ حصے اس کے شکار رہے ہیں ۔ اب ہمیں ریجنل ایسپریشن کو متوازن ترقی پر زور دینا ہے اور ریجنل ایسپریشن کے جذبے کو احترام دیتے ہوئے ، جیسے ہماری بھارت ماں کا کوئی، ہمارے جسم کا کوئی حصہ اگر غیرترقی یافتہ رہے، تو ہمارا جسم ترقی یافتہ نہیں مانا جائے گا۔ ہمارے جسم کا کوئی حصہ اگر کمزور ہو، تو ہمیں صحتمند نہیں مانا جائے گا۔ ویسے ہی میری بھارت ماتا کا کوئی ایک حصہ بھی ، سماج کا کوئی طبقہ بھی اگر کمزور رہے، تو میری بھارت ماتا اہل ہے، صحتمند ہے، ہم یہ سوچ کر نہیں بیٹھ سکتے۔ اس لیے ریجنل ایسپریشنزکو ہمیں ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے ہم سماج کی مجموعی ترقی ہو،ہر پہلو سے ترقی ہو، زمین کے ہر حصے کو اس کی اپنی طاقت کو پھلنے پھولنے کا موقع ملے، اس سمت میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔

میرے پیارے پریوارجنوں!

ہندوستان ایک مدر آف ڈیموکریسی ہے،ہندوستان ماڈل آف ڈائیورسٹی بھی ہے،زبانیں لاتعداد ہیں، بولیاں کئی ہیں،پہناوے کئی طرح کے ہیں، تنوع بہت ہے، ہمیں ان تمام کی بنیاد پر آگےبڑھنا ہے۔

میرے پیارے پریوارجنوں!

جب میں اتحاد کی بات کرتا ہوں، تب اگر کوئی واقعہ منی پور میں ہوتا ہے، تو اس کا دکھ مہاراشٹر میں محسوس کیا جاتاہے، اگر سیلاب آسام میں آتا ہے، تو بے چین کیرالہ ہوجاتاہے، ہندوستان کے کسی بھی حصےمیں کچھ بھی ہو، ہم اعضا ء کے عطیہ کے جذبے کو محسوس کرتے ہیں، میرے ملک کی بیٹیوں پر کوئی ظلم نہ ہو، یہ ہماری سماجی ذمہ داری ہے، یہ ہماری خاندانی ذمہ داری بھی ہے اور یہ ملک کے ناطے ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ آج جب ہم افغانستان سے گروگرنتھ صاحب  کےسوروپ کو لاتے ہیں تو پورا ملک فخر کا احساس کرتا ہے۔ آج جب دنیا کے کسی ملک میں کووڈ کے دور میں میرا کوئی سکھ بھائی لنگر لگاتا ہے، بھوکوں کو کھلاتا ہے اور دنیا میں تعریف ہوتی ہے، تو ہندوستان کا سینہ چوڑا ہوجاتا ہے۔

میرے پیارے پریوارجنوں!

ہمارے لیے جب ناری سمان  کی بات کرتے ہیں ۔ مجھے ابھی ، ایک ملک میں دورہ کررہا تھا، تو وہاں کی ایک  بہت ہی  سینئر وزیر نے مجھ سے ایک سوال پوچھا۔ اس نے کہا کہ کیا آ پ کے یہاں بیٹیاں سائنس اور انجینئرنگ کےمضامین کی پڑھائی کرتی ہیں؟ میں نےان سے کہاکہ  آج میرے ملک میں لڑکوں سے زیادہ بیٹیاں ایس ٹی ای ایم  یعنی سائنس ، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور میتھ میں زیادہ سے زیادہ داخلہ لے رہی ہیں، تو ان کے لیے یہ حیران کن تھا۔یہ  صلاحیت آج ہمارے ملک کی  نظر آرہی ہے۔

میرے پیارے پریوارجنوں!

آج 10 کروڑ خواتین ویمن سیلف ہیلپ  میں جڑی ہوئی ہیں اور ویمن سیلف ہیلپ گروپ کے ساتھ آپ گاؤوں میں جائیں گے، تو آپ کو بینک والی دیدی ملے گی، آپ کو آنگن واڑی والی دیدی ملے گی، آپ کو دوا دینے والی دیدی ملے گی اور اب میرا خواب ہے ، 2 کروڑ لکھ پتی دیدی بنانے کا،گاؤں میں 2 کروڑ لکھ پتی دیدی ۔ اس کے لیے ایک نیا متبادل بھیجا، سائنس اور ٹیکنالوجی۔  میں گاؤں کی خواتین کی صلاحیت اور اہلیت کو دیکھتا ہوں، اسی لیے میں ایک نئی اسکیم کے بارے میں سوچ رہا ہوں کہ ہمارے زرعی شعبے میں ٹیکنالوجی آئے۔ ایگری ٹیک کو تقویت ملے۔ اس لیے،خواتین سیلف ہیلپ  گروپ کی بہنوں کوہم تربیت  دیں گے، ڈرون چلانے کی، ڈرون کی مرمت کرنے کی، ہم ٹریننگ دیں  اور ایسی ہزاروں خواتین سیلف  ہیلپ گروپس کو ہندوستان کی سرکار ڈرون فراہم کرے گی، تربیت فراہم کرے گی اور ہمارے زرعی کام کے لیے ڈرون خدمات مہیا ہوں، اس کے لیے ہم شروعات کریں گے، ابتدائی طور پر ہم 15 ہزار خواتین سیلف ہیلپ گروپس کے ذریعے یہ ڈرون کی اڑان کا ہم آغاز کر رہے ہیں۔

میرے پیارے پریوار جنوں!

آج ملک جدیدیت کی طرف گامزن ہے۔ ہائی وے ہو، ریلوے ہو، ایئر وے ہو، آئی - ویز ہو، انفارمیشن ویز ہو، واٹر ویز ہو، کوئی  شعبہ ایسا نہیں ہے، جس شعبے کو آگے بڑھانے کی سمت میں  آج ملک کام نہ کرتا ہو۔ گزشتہ 9 سالوں میں  ساحلی علاقوں میں، ہم نے آدی واسی علاقے میں، ہمارے پہاڑی علاقوں میں ترقی پر بہت زور دیا ہے۔ ہم نے پروت مالا، بھارت مالا ایسی اسکیموں کے ذریعے سماج کے اس طبقے کو ہم نے طاقت دی ہے۔ ہم نے گیس کی پائپ لائن سے  ہمارےمشرقی ہندوستان کو جوڑنے کا کام کیا ہے۔ ہم نے اسپتالوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔ ہم نے ڈاکٹروں کی نشستوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے تاکہ ہمارے بچے ڈاکٹر بننے کا خواب پورا کر سکیں۔ ہم نے مادری زبان میں پڑھائی میں تبدیلی کی ہے اور اس سمت میں وہ مادری زبان میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اور میں سپریم کورٹ آف انڈیا کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ سپریم کورٹ آف انڈیا نے کہا ہے کہ اب جو فیصلہ دیں گے، اس کا جو آپریٹو پارٹ ہوگا وہ جو عدالت میں آیا ہے،  اس کی زبان میں اسے دستیاب ہوگا۔ مادری زبان کی اہمیت آج بڑھ رہی ہے۔

میرے پیارے پریوار جنوں!

آج تک ہمارے  ملک کے جو سرحدی گاؤں ہیں، ہم نے وہاں  وائبرینٹ بارڈر ولیج کا  ایک پروگرام شروع کیا ہے اور وائبرینٹ بارڈر ولیج اب تک اس کے لیے کہا جاتا تھا کہ ملک کے آخری گاؤں،  ہم نے اس  پوری سوچ کو بدلا ہے۔ وہ ملک کا آخری گاؤں نہیں ہے، سرحد پرجو نظر آرہا ہے وہ میرے ملک کا پہلا گاؤں ہے۔ اگر سورج مشرق میں طلوع ہوتا ہے، تو اس طرف کے گاؤں کو سورج کی پہلی کرن ملتی ہے۔ اگر سورج غروب ہوتا ہے، تو اس طرف کے گاؤں کو آخری کرن کا فائدہ ملتا ہے۔ یہ میرا پہلا گاؤں ہے اور مجھے خوشی ہے کہ آج  میرے اس پروگرام کے خصوصی مہمان،یہ جو پہلے گاؤں ہیں، سرحدی گاؤں  ہے، اس کے 600  پردھان آج  لال قلعہ کی فصیل  کے اس انتہائی  اہم پروگرام کا حصہ بننے کے لیے آئے ہیں۔  پہلی بار وہ اتنی دور  تک آئےہیں۔ نئے عزم اور طاقت کے ساتھ شامل ہونے آئے ہیں۔

میرے پیارے پریوار جنوں!

ہم نے متوازن ترقی کے لیے خواہش منداضلا ع، خواہش مند بلاک کا تصور کیا اور آج اس کے ہمیں خوش کن نتائج مل رہے ہیں۔ آج، ریاست کے معمول کے جو پیرامیٹرز ہیں، جو خواہش مند اضلاع  کبھی بہت پیچھے تھے، وہ آج ریاست میں بھی اچھا کرنے لگ گئے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آنے والے دنوں میں،یہ ہمارے خواہش مند اضلاع، ہمارے خواہش مند بلاکس ضرور آگے بڑھیں گے۔ جیسا کہ میں نے کہا تھا، ہندوستان کے کردار کے بارے میں بات کر رہا تھا، تو  میں نے پہلےکہا تھا کہ ہندوستان کا اتحاد، دوسرا کہا تھا کہ ہندوستان کو ترقی کی جانب زور دے،تیسرے کہا تھا، خواتین کی ترقی کی میں نے بات کہی تھی۔اور  میں آج  ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں کہ ہم جیسے ریجنل  ایسپریشن ، میں نے چوتھی بات کہی تھی، پانچویں اہم بات ہے اور ہندوستان میں  اب اس سمت  میں جانا ہے اور وہ ہے ہمارا قومی کردار ہے، ہمیں دنیا کی بہتری کے لیے سوچنے والا ہونا چاہیے۔ ہمیں ملک کو اتنا مضبوط بنانا ہے کہ وہ دنیا کی فلاح کے لیے اپنا کردار ادا کر سکے۔ اور آج کورونا کے بعد میں دیکھ رہا ہوں، بحران کے وقت جس طرح ملک نے دنیا کی مدد کی، اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارا ملک دنیا میں ایک عالمی دوست کے روپ میں ہے۔

دنیا  کے اٹوٹ ساتھی کی شکل میں ہے۔ آج میرے ملک کی پہچان بنی  ہے۔ ہم جب دنیا  کی بھلائی کی بات کرتے ہیں ، تب بھارت  کی بنیادی سوچ  قائم ہوتی ہے۔ اس سوچ کو ہم آگے بڑھانے والے لوگ ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ آج امریکی پارلیمنٹ کے کئی چنے ہوئے معزز نمائندے بھی آج ہمارے 15 اگست کے اس مقدس موقع میں ہمارے درمیان موجود ہیں۔

بھارت کی سوچ کیسی ہے ، ہم دنیا کی بھلائی کی بات کو کیسے آگے بڑھاتے ہیں، اب دیکھئے ، جب ہم، جب سوچتے ہیں تو کیا کہتے ہیں، ہم نے دنیا کے سامنے یہ فلسفہ پیش کیاہے اور دنیا اس فلسفے کو لے کر ہمارے ساتھ جڑرہی ہے۔ ہم نے کہا کہ ایک سورج، ایک دنیا، ایک گرڈ قابل تجدیدتوانائی کے شعبے میں  ایک بہت بڑا ہمارا سٹیٹمنٹ(بیان) ہے، آج دنیا اس کو تسلیم کررہی ہے۔ کووڈ کے بعد ہم نے دنیا کو کہا کہ ہمارا یہ اپروچ ہونا چاہئے، ایک کرہ ارض، ایک صحت ، مسائل کا حل تبھی ہوگا ،جب انسان کا ، مویشی کا ، پودوں  کا بیماری کے وقت میں یکساں طور پر علاج کیا جائے گا۔ تب جا کر ہم یہ کریں گے۔ ہم نے جی -20 سربراہ کانفرنس کے دوران  دنیا کے سامنے کہا ہے کہ  ایک دنیا، ایک کنبہ، ایک مستقبل کی سوچ کو لے کر کے چل رہے ہیں۔ ہم نے آب و ہوا میں تبدیلی کو لے کر دنیا کو،جو بحران سے جوجھ رہی ہے،  راستہ دکھایا ہے، لائیو مشن لانچ کیا ہے۔ ماحولیات کے لئے طرززندگی ہم نے دنیا کے سامنے مل کر  بین الاقوامی شمسی اتحاد بنایا ہے اور آج دنیا کے کئی ملک بین الاقوامی شمسی اتحاد کا حصہ بن رہے ہیں۔ ہم نے حیاتیاتی تنوع کی اہمیت دیکھتے ہوئے  بگ کیٹ الائنس  کے بندوبست  کو ہم نے آگےبڑھایا ہے۔ ہم نے قدرتی آفات کی وجہ سے عالمی تمازت کے سبب بنیادی ڈھانچہ کا جو نقصان ہوتا ہے، اس کے لئے دوراندیشانہ بندوبست کی ضرورت ہے۔اور اسی لئے آفات کے لچکدار بنیادی ڈھانچہ کے لئے اتحاد سی ڈی آر آئی  کے ایک حل کی شکل میں  دنیا کو دیا ہے۔ دنیا آج سمندروں کو لڑائی کا مرکز بنا رہی ہے، تب ہم نے دنیا کو ساگر کا پلیٹ فارم دیا ہے۔ جو عالمی بحری امن کی ضمانت بن سکتا ہے۔ ہم نے روایتی طبی طریقہ پر زور دیتے ہوئے ڈبلیو ایچ او کا ایک گلوبل لیول کا سنٹر ہندوستان میں بنانے کی سمت کام کیا ہے۔ ہم نے یوگ اور آیوش کے ذریعہ عالمی فلاح و بہبود اور دنیا کی صحت کی سمت کام کیا ہے۔ آج بھارت دنیا کی بھلائی کی مضبوط بنیاد ڈال رہا ہے۔ اس مضبوط  بنیاد کو آگے بڑھانا  ہم سبھی کا کام ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

میرے پیارے پریوار جنوں!

خواب بہت سے ہیں، عہدواضح ہے، پالیسیاں واضح ہیں، نیت کے سامنے کوئی سوالیہ نشان نہیں ہے۔ لیکن کچھ حقیقتوں کو ہمیں تسلیم کرنا ہوگا اور اس کےحل کے لئے میرے پیارے پریوار جنوں، میں آج لال قلعہ سے آپ کی مدد مانگنے آیا ہوں، میں لال قلعہ سے  آپ کا آشرواد مانگنے آیا ہوں۔ کیونکہ پچھلے سالوں میں، میں نے ملک کو جو سمجھا ہے، ملک کی ضروریات کو جو میں نے آزمایا ہے۔ اور تجربے کی بنیاد پر میں کہہ رہا ہوں کہ آج سنجیدگی سے ان چیزوں کو لینا ہوگا ۔ آزادی کے امرت کال میں 2047 میں جب ملک آزادی کے 100 سال منائے گا اس وقت دنیا میں بھارت کا ترنگا جھنڈا ترقی یافتہ بھارت کا ترنگا-جھنڈا ہوناچاہئے۔ ذرہ برابر بھی ہمیں رکنا نہیں ہے، پیچھےہٹنا نہیں ہے ، اور اس کے لئے صاف ستھری شفاف اور غیرجانبدارانہ رویہ، یہ پہلی مضبوطی کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس مضبوطی کو جتنا زیادہ کھاد  پانی دے سکتے ہیں۔

اداروں کے توسط سے دے سکتے ہیں، شہری ہونے کے ناطے دے سکتے ہیں، خاندان کے ناطے دے سکتے ہیں۔ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہونی چاہئے اور اس لیے پچھلے 75 سال کی تاریخ دیکھئے، بھارت کے استعداد اور صلاحیت میں کوئی کمی نہیں تھی اور یہ ملک جسے  کبھی سونے کی چڑیا کہاجاتا تھا، وہ ملک اس صلاحیت کو لے کر پھر سے کیوں نہیں کھڑا ہوسکتا ہے؟ مجھے پورا یقین ہے، ساتھیو، میرے پیارے پریوار جنوں، میرا پکا، اٹوٹ اور مستحکم یقین ہے کہ 2047 میں جب ملک آزادی کے 100 سال منائے گا، اس وقت تک میرا ملک ترقی یافتہ بھارت بن کر رہے گا۔ اور یہ میں  اپنے دیش کی صلاحیت کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ ہمارے دستیاب وسائل کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں  اور سب سے زیادہ 30 سال سے کم عمر والی میری نوجوان طاقت کے بھروسے پر کہہ رہا ہوں۔ میری ماتاؤں- بہنوں کی صلاحیت کے بھروسے کہہ رہا ہوں، لیکن اس کے سامنے اگر کوئی رکاوٹ ہے، کچھ بھی خرابیاں پچھلے 75 سال میں ایسے گھر کرگئی  ہیں، ہمارے معاشرے کے نظام کا ایسا حصہ بن گئی ہیں کہ کبھی کبھی تو ہم آنکھیں بھی بند کردیتے ہیں۔ اب آنکھ بند کرنے کا وقت نہیں ہے۔ اگر خوابوں کو حقیقت کی شکل دینا ہے ، عزائم کو پورا کرنا ہے تو ہمیں یہ آنکھ مچولی بند کرکے آنکھ میں آنکھ ملا کر 3 برائیوں سے لڑنا ہے، جو وقت کا تقاضا ہے۔ ہمارے ملک کی سبھی پریشانیوں کی جڑ میں بدعنوانی نے دیمک کی طرح دیش کے سارے انتظامات کو، ملک کی ساری صلاحیتوں کو پوری طرح نوچ لیا ہے۔ بدعنوانی سے پاک، بدعنوانی کے خلاف جنگ، ہر اکائی میں، ہر علاقہ میں اور میں ہم وطنوں، میرے پیارے پریوار جنوں، یہ مودی کی زندگی کا کمیٹمنٹ ہے، یہ میری شخصیت کا ایک کمیٹمنٹ ہے کہ میں بدعنوانی کے خلاف لڑائی لڑتا رہوں گا۔  دوسرا ہمارے ملک کو نوچ لیا ہے کنبہ پروری نے۔ اس کنبہ پرستی نے ملک کو جس طرح سے جکڑ کر رکھا ہوا ہے، اس نے ملک کے لوگوں کا حق چھینا ہے، اور تیسری برائی منھ بھرائی کی ہے۔ اس  منھ بھرائی نے  بھی ملک کی بنیادی فکر کو ملک کے شمولیاتی قومی کردار کو داغ لگادیے ہیں۔ تہس نہس کردیا ان لوگوں نے، اور اس لیے میرے پیارے ہم وطنوں، اس لیے میرے پیارے پریوار جنوں، ہمیں اِن تین برائیوں کے خلاف پوری طاقت کے ساتھ لڑنا ہے۔  بدعنوانی، کنبہ پرستی اور منھ بھرائی یہ چنوتیاں ، یہ ایسی چیزی پنپی ہیں، جو ہمارے ملک کے لوگوں کو، جو امیدیں ہیں، انہیں کچلتی ہیں۔ ہمارے  ملک کے کچھ لوگوں کے پاس جو تھوڑی بہت صلاحیت ہے، اُس کا استحصال کرتی ہیں۔ یہ ایسی چیزیں ہیں، جو ہمارے لوگوں کی امیدوں- خواہشوں کو سوال یا نشان کی شکل میں بدل دیتی  ہیں۔ ہمارے غریب ہوں، ہمارے دلت ہوں، ہمارے پچھڑے ہوں، ہمارے پسماندہ ہوں، ہمارے آدیواسی بھائی بہن ہوں، ہماری ماتائیں- بہنیں ہوں، ہمیں اور سب کو  ان کے حقوق کے لیے اِن 3 برائیوں سے نجات حاصل کرنی ہے۔ ہمیں بدعنوانی کے خلاف ایک نفرت کا ماحول بنانا ہے۔ جیسے گندگی سے  ہمیں نفرت پیدا ہوتی ہے نہ من میں، گندگی پسند نہیں ہے، یہ عام زندگی کی اس سے بڑی کوئی گندگی نہیں ہوسکتی اور اس لئے ہمارے سوچھتا ابھیان کو ایک نیا موڑ یہ بھی دینا ہے کہ ہمیں بدعنوانی سے آزادی حاصل کرنی ہے۔ سرکار ٹکنالوجی سے بدعنوانی کو پاک کرنے کے لئے بہت کوشش کررہی ہے۔ آپ کو جان کر حیرانی ہوگی ، اس ملک میں پچھلے نو سال میں ایک کام میں نے ایسا کیا ، اعدادوشمار سنوگے، تو لگے گا کہ مودی ایسا کرتا ہے۔ جیسے دس کروڑ لوگ قریب قریب جو غلط فائدہ اٹھاتے تھے ، وہ میں نے روک دیا۔ تو آپ میں سے کوئی کہے گا ، آپ نے لوگوں سے ناانصافی کردی ؛ جی نہیں ، یہ دس کروڑ کون لوگ تھے، یہ دس کروڑ لوگ وہ تھے ،جن کا جنم ہی نہیں ہوا تھا اور ان کے نام پر  ان کی بیوائیں سامنے آجاتی تھیں۔وہ ضعیف  ہوجاتے تھے، وہ  معذور ہو جاتے تھے، فائدے لئے جاتے تھے۔ دس کروڑ ایسی بے نامی چیزیں جو چلتی تھیں، اس کو روکنے کا مقدس کام، بدعنوانی کرنے والوں کی جائیداد، جو ہم نے ضبط کی ہے نا، وہ پہلے کے مقابلے میں 20 گنا زیادہ کی ہے۔

میرے پیارے پریوار جنوں!

یہ آپ کی کمائی کا پیسہ لوگ لے کر بھاگے تھے۔  20 گنا جائیداد کو ضبط کرنے کا ، اور اسی لئے لوگوں کی میرے تئیں ناراضگی ہونا بہت فطری بات ہے۔ لیکن مجھے بدعنوانی کے خلاف لڑائی کو آگےبڑھانا ہے۔ ہماری سرکاری  مشینری  نے ، پہلےکیمرے کے سامنے تو کچھ ہوجاتا تھا، لیکن بعد میں چیزیں اٹک جاتی تھیں، ہم نے پہلے کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ عدالت میں فردجرم داخل کی ہیں اور اب ضمانتیں بھی نہیں ملتی ہیں۔  ویسے پکےبندوبست کو لے کر ہم آگےبڑھ رہے ہیں، کیونکہ ہم ایمانداری سے بدعنوانی کے خلاف لڑرہے ہیں۔

آج کنبہ پروری ، اور منھ بھرائی نے اس ملک کا بہت بڑا نقصان کیا ہے اور یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے۔ اب جمہوریت میں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سیاسی پارٹی اور میں خاص زور دے رہا ہوں، سیاسی پارٹی آج میرے ملک کی جمہوریت میں ایک ایسی بُرائی آئی ہے ،جو کبھی بھارت کی جمہوریت کو مضبوطی نہیں دے سکتی اور وہ کیا ہے بیماری، خاندانی سیاست کرنے والی پارٹیاں اور ان کا تو منتر کیا ہے ، پارٹی آف دی فیملی، بائے دی فیملی اینڈ فار دی فیملی۔ ان کی زندگی کا منتر ہی یہی ہے کہ ان کی سیاسی پارٹی، ان کی سیاسی پارٹی کنبے کا ، کنبے کے ذریعہ اور کنبے کے لئے  کنبہ پروری اور بھائی-بھتیجاواد صلاحیتوں کے دشمن ہوتے ہیں۔ صلاحیتوں کو نکارتے ہیں،اہلیت کو تسلیم نہیں کرتے ہیں، اور اس لئے کنبہ پروری کی اس ملک کی جمہوریت کی مضبوطی کے لئے ان کو ختم کرنا ضروری ہے۔ سروجن ہتائے، سروجن سُکھائے ، ہر کسی کو حق ملے ، اس لئے اور سماجی انصاف کے لئے بھی یہ بہت ضروری ہے، اسی طرح سے منھ بھرائی ، منھ بھرائی نے سماجی انصاف کا سب سے بڑا نقصان کیا ہے، اگر سماجی انصاف کو تباہ کسی نے کیا ہے، تو یہ منھ بھرائی کی سوچ، منھ بھرائی کی سیاست، منھ بھرائی کا سرکاری منصوبوں کا طریقہ ، اس نے سماجی انصاف کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے اور اس لئے ہمیں منھ بھرائی، بدعنوانی ،  یہ ترقی کے سب سے بڑے دشمن ہیں ۔ اگر ملک ترقی  چاہتا ہے، ملک 2047، ترقی یافتہ بھارت کا سپنا پورا کرنا چاہتا ہے تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم کسی بھی حالت میں ملک میں بدعنوانی کو برداشت نہیں کریں گے، اس موڈ کو لے کر کے چلنا چاہئے۔

میرے پیارے پریوارجنوں!

ہم سب کا ایک اہم فرض ہے ، آپ نے جس طرح سے زندگی گزاری ہے،اگر ہماری آنے والی نسل کو ایسی زندگی جینے کے لئے مجبور ہونا پڑے تو  یہ ہمارا گناہ ہے، یہ ہمارا فرض ہے  کہ ہماری آنے والی نسل کو  ہم ایسا خوشحال ملک دیں ، ایسا متوازن ملک دیں۔ایسا سماجی انصاف کے ورثے والا ملک دیں، تاکہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو پانے کےلیے انہیں کبھی بھی جدوجہد نہ کرنی پڑے۔ ہم سب کا فرض ، ہر شہری کا فرض ہے اور یہ امرت کال فرض کا دور ہے۔ہم فرض سے پیچھے نہیں ہوسکتے۔ ہمیں اس ہندوستان کی تعمیر کرنی ہے، جو قابل احترام باپو کےخوابوں کا تھا۔ ہمیں اس ہندوستان کی تعمیر کرنا ہے، جو ہمارے مجاہدین آزادی کا خواب تھا۔ہمیں وہ ہندوستان بنانا ہے، جوہمارےبہادر شہیدوں کا تھا، ہماری بہادر خواتین کا تھا، جنہوں نے مادروطن کے لیے اپنی زندگی قربان کردی۔

میرے پیارے پریوارجنوں!

میں جب 2014 میں آپ کے پاس  آیا تھا، تب 2014 میں تبدیلی کا وعدہ لے کر آیا تھا۔2014 میں، میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ میں تبدیلی لاؤں گا اور 140کروڑ میرے پریوار جن، آپ نے مجھ پر بھروسہ کیا اور میں نے اس بھروسے کو پورا کرنے کی کوشش کی۔ریفارم، پرفارم، ٹرانسفارم وہ 5 سال ، جو وعدہ تھا، وہ یقین میں بدل گیا، کیونکہ میں نے تبدیلی کا وعدہ کیا تھا ریفارم، پرفارم، ٹرانسفارم کے ذریعے میں نے اس وعدے کو یقین میں بدل دیا ہے۔ سخت محنت کی ہے، ملک کے لیے کی ہے، شان سے کیا ہے، صرف اور صرف نیشن فرسٹ، ملک پہلے کے جذبے سے کیا ہے۔ 2019 میں پرفارمنس کی بنیاد پر، آپ سب نے مجھے پھر سے آشیرواددیا، تبدیلی کا وعدہ مجھے یہاں لے آیا، پرفارمنس مجھے دوبارہ لے آیا اور آنے والے 5 سال غیر معمولی ترقی کے ہیں۔ 2047 کے خواب کو پورا کرنے کے سب سے سنہری پل آنے والے 5 سال ہیں۔ اگلی بار 15 اگست کو اسی لال قلعے سے میں آپ کو ملک کی حصولیابیوں، آپ کی صلاحیتوں، آپ کے عہد ، اس میں ہوئی پیش رفت، اس کی جو کامیابی ہے،اس کا تذکرہ اس سےبھی زیادہ خوداعتمادی کے ساتھ آپ کے سامنے پیش کروں گا۔

میرے پیارے پریہ جنوں!

میرے پریوار جنوں، میں آپ میں سے آتا ہوں، میں آپ کے بیچ سے نکلا ہوں، میں آپ کےلیے جیتا ہوں۔ اگر مجھے خواب بھی آتا ہے، تو آپ کے لیے آتا ہے، اگر میں پسینہ بھی بہاتا ہوں تو آپ کےلیے بہاتا ہوں، اس لیے نہیں کہ آپ نے مجھے ذمہ داری دی ہے، میں اس لیے کررہاہوں کہ آپ میرے پریوار جن ہیں اور آپ کے خاندان کےممبر کے ناطے میں آپ کے کسی دکھ کو دیکھ نہیں سکتا ہوں، میں آپ کے خوابوں کو چکنا چور ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا ہوں، میں آپ کے عہد کو کامیابی تک لے جانے کےلیے آ پ کا ایک ساتھی بن کر، آپ کا ایک خادم بن کر، آپ کے ساتھ جڑے رہنے کا، آپ کے ساتھ جینے کا، آپ کے لیے جدوجہد کرنے کا عہد لے کر نکلا ہوا انسان ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے آباؤاجداد نے آزادی کے لیے جو جنگ لڑی تھی، جو خواب دیکھے تھے، وہ خواب ہمارے ساتھ ہیں۔ آزادی کی جنگ میں، جنہوں نے قربانی دی تھی، ان کے آشیروادہمارے ساتھ ہیں۔ 140 کروڑ ہم وطنوں کے لیے ایک ایسا موقع آیا ہے، یہ موقع ہمارے لیےایک بہت بڑی  طاقت لے کر آیا ہے۔

اور اسی لیے میرے پیارے پریہ جنوں!

آج جب میں امرت کال میں آپ سے گفتگو کررہا ہوں، یہ امرت کال کاپہلا سال ہے۔یہ امرت کال کےپہلے سال پر ،جب میں آپ سےبات کررہا ہوں، تو میں آپ سے پورے یقین سے کہنا چاہتا ہوں.......

چلتا چلاتا کال  چکر

امرت کال کا بھال چکر

سب کے سپنے، اپنے سپنے

پنپے سپنے سارے، دھیر چلے، ویر چلے، چلے یووا ہمارے

نیتی صحیح ریت نئی، گتی سہی،راہ نئی

چنوچنوتی سینہ تان، جگ میں بڑھاؤ دیش کا نام

 

میرے پیارے پریوار جنوں!

ہندوستان کے کونے کونے میں بیٹھے ہوئے میرے پریوار جنوں، دنیا کے کونے کونے میں جا کرکے بسے ہوئے میرے پریوار جن، آپ سب کو آزادی کے مبارک موقع پر پھر ایک بار میں بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ اور یہ امرت کال ہم سب کے لیے کرتویہ کال  ہے۔ یہ امرت کال ہم سب کو ماں بھارتی کے لیے کچھ کر گزرنے کا سال ہے۔ آزادی کی جب لڑائی  چل رہی تھی ، 1947 سے پہلے جس پیڑھی نے جنم لیا تھا، انھیں ملک کے لیے مرنے کا موقع ملا تھا۔ وہ ملک کے لیے مرنے کے لیے موقع نہیں چھوڑتے تھے، لیکن ہمارے نصیب میں ملک کے لیے مرنے کا موقع نہیں ہے۔ لیکن ہمارے لیے ملک کے لیے جیتنے کا یہ اس سے بڑا کوئی موقع نہیں ہوسکتا۔ ہمیں پل پل ملک کے لیے جینا ہے، اسی عہد کے ساتھ، اس امرت کال میں 140 کروڑ ہم وطنوں کے خواب عزائم تشکیل کرتے ہیں۔ 140 کروڑ ہم وطنوں کے عزائم کو تکمیل  میں تبدیل کرنا ہے اور 2047 کا جب ترنگا جھنڈا لہرائے گا، تب دنیا ایک ترقی یافتہ ہندوستان کی تعریف کے پل باندھ رہی ہوگی۔ اسی اعتماد کے ساتھ، اسی عہد کے ساتھ میں آپ سب کو بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ بہت بہت  مبارکباد دیتا ہوں۔

جئے ہند، جئے ہند، جئے ہند

بھارت ماتا کی جئے، بھارت ماتا کی جئے، بھارت ماتا کی جئے

وندے ماترم، وندے ماترم، وندے ماترم

بہت بہت شکریہ!

 

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
India’s Biz Activity Surges To 3-month High In Nov: Report

Media Coverage

India’s Biz Activity Surges To 3-month High In Nov: Report
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM’s address at the Odisha Parba
November 24, 2024
Delighted to take part in the Odisha Parba in Delhi, the state plays a pivotal role in India's growth and is blessed with cultural heritage admired across the country and the world: PM
The culture of Odisha has greatly strengthened the spirit of 'Ek Bharat Shreshtha Bharat', in which the sons and daughters of the state have made huge contributions: PM
We can see many examples of the contribution of Oriya literature to the cultural prosperity of India: PM
Odisha's cultural richness, architecture and science have always been special, We have to constantly take innovative steps to take every identity of this place to the world: PM
We are working fast in every sector for the development of Odisha,it has immense possibilities of port based industrial development: PM
Odisha is India's mining and metal powerhouse making it’s position very strong in the steel, aluminium and energy sectors: PM
Our government is committed to promote ease of doing business in Odisha: PM
Today Odisha has its own vision and roadmap, now investment will be encouraged and new employment opportunities will be created: PM

जय जगन्नाथ!

जय जगन्नाथ!

केंद्रीय मंत्रिमंडल के मेरे सहयोगी श्रीमान धर्मेन्द्र प्रधान जी, अश्विनी वैष्णव जी, उड़िया समाज संस्था के अध्यक्ष श्री सिद्धार्थ प्रधान जी, उड़िया समाज के अन्य अधिकारी, ओडिशा के सभी कलाकार, अन्य महानुभाव, देवियों और सज्जनों।

ओडिशा र सबू भाईओ भउणी मानंकु मोर नमस्कार, एबंग जुहार। ओड़िया संस्कृति के महाकुंभ ‘ओड़िशा पर्व 2024’ कू आसी मँ गर्बित। आपण मानंकु भेटी मूं बहुत आनंदित।

मैं आप सबको और ओडिशा के सभी लोगों को ओडिशा पर्व की बहुत-बहुत बधाई देता हूँ। इस साल स्वभाव कवि गंगाधर मेहेर की पुण्यतिथि का शताब्दी वर्ष भी है। मैं इस अवसर पर उनका पुण्य स्मरण करता हूं, उन्हें श्रद्धांजलि देता हूँ। मैं भक्त दासिआ बाउरी जी, भक्त सालबेग जी, उड़िया भागवत की रचना करने वाले श्री जगन्नाथ दास जी को भी आदरपूर्वक नमन करता हूं।

ओडिशा निजर सांस्कृतिक विविधता द्वारा भारतकु जीबन्त रखिबारे बहुत बड़ भूमिका प्रतिपादन करिछि।

साथियों,

ओडिशा हमेशा से संतों और विद्वानों की धरती रही है। सरल महाभारत, उड़िया भागवत...हमारे धर्मग्रन्थों को जिस तरह यहाँ के विद्वानों ने लोकभाषा में घर-घर पहुंचाया, जिस तरह ऋषियों के विचारों से जन-जन को जोड़ा....उसने भारत की सांस्कृतिक समृद्धि में बहुत बड़ी भूमिका निभाई है। उड़िया भाषा में महाप्रभु जगन्नाथ जी से जुड़ा कितना बड़ा साहित्य है। मुझे भी उनकी एक गाथा हमेशा याद रहती है। महाप्रभु अपने श्री मंदिर से बाहर आए थे और उन्होंने स्वयं युद्ध का नेतृत्व किया था। तब युद्धभूमि की ओर जाते समय महाप्रभु श्री जगन्नाथ ने अपनी भक्त ‘माणिका गौउडुणी’ के हाथों से दही खाई थी। ये गाथा हमें बहुत कुछ सिखाती है। ये हमें सिखाती है कि हम नेक नीयत से काम करें, तो उस काम का नेतृत्व खुद ईश्वर करते हैं। हमेशा, हर समय, हर हालात में ये सोचने की जरूरत नहीं है कि हम अकेले हैं, हम हमेशा ‘प्लस वन’ होते हैं, प्रभु हमारे साथ होते हैं, ईश्वर हमेशा हमारे साथ होते हैं।

साथियों,

ओडिशा के संत कवि भीम भोई ने कहा था- मो जीवन पछे नर्के पडिथाउ जगत उद्धार हेउ। भाव ये कि मुझे चाहे जितने ही दुख क्यों ना उठाने पड़ें...लेकिन जगत का उद्धार हो। यही ओडिशा की संस्कृति भी है। ओडिशा सबु जुगरे समग्र राष्ट्र एबं पूरा मानब समाज र सेबा करिछी। यहाँ पुरी धाम ने ‘एक भारत श्रेष्ठ भारत’ की भावना को मजबूत बनाया। ओडिशा की वीर संतानों ने आज़ादी की लड़ाई में भी बढ़-चढ़कर देश को दिशा दिखाई थी। पाइका क्रांति के शहीदों का ऋण, हम कभी नहीं चुका सकते। ये मेरी सरकार का सौभाग्य है कि उसे पाइका क्रांति पर स्मारक डाक टिकट और सिक्का जारी करने का अवसर मिला था।

साथियों,

उत्कल केशरी हरे कृष्ण मेहताब जी के योगदान को भी इस समय पूरा देश याद कर रहा है। हम व्यापक स्तर पर उनकी 125वीं जयंती मना रहे हैं। अतीत से लेकर आज तक, ओडिशा ने देश को कितना सक्षम नेतृत्व दिया है, ये भी हमारे सामने है। आज ओडिशा की बेटी...आदिवासी समुदाय की द्रौपदी मुर्मू जी भारत की राष्ट्रपति हैं। ये हम सभी के लिए बहुत ही गर्व की बात है। उनकी प्रेरणा से आज भारत में आदिवासी कल्याण की हजारों करोड़ रुपए की योजनाएं शुरू हुई हैं, और ये योजनाएं सिर्फ ओडिशा के ही नहीं बल्कि पूरे भारत के आदिवासी समाज का हित कर रही हैं।

साथियों,

ओडिशा, माता सुभद्रा के रूप में नारीशक्ति और उसके सामर्थ्य की धरती है। ओडिशा तभी आगे बढ़ेगा, जब ओडिशा की महिलाएं आगे बढ़ेंगी। इसीलिए, कुछ ही दिन पहले मैंने ओडिशा की अपनी माताओं-बहनों के लिए सुभद्रा योजना का शुभारंभ किया था। इसका बहुत बड़ा लाभ ओडिशा की महिलाओं को मिलेगा। उत्कलर एही महान सुपुत्र मानंकर बिसयरे देश जाणू, एबं सेमानंक जीबन रु प्रेरणा नेउ, एथी निमन्ते एपरी आयौजनर बहुत अधिक गुरुत्व रहिछि ।

साथियों,

इसी उत्कल ने भारत के समुद्री सामर्थ्य को नया विस्तार दिया था। कल ही ओडिशा में बाली जात्रा का समापन हुआ है। इस बार भी 15 नवंबर को कार्तिक पूर्णिमा के दिन से कटक में महानदी के तट पर इसका भव्य आयोजन हो रहा था। बाली जात्रा प्रतीक है कि भारत का, ओडिशा का सामुद्रिक सामर्थ्य क्या था। सैकड़ों वर्ष पहले जब आज जैसी टेक्नोलॉजी नहीं थी, तब भी यहां के नाविकों ने समुद्र को पार करने का साहस दिखाया। हमारे यहां के व्यापारी जहाजों से इंडोनेशिया के बाली, सुमात्रा, जावा जैसे स्थानो की यात्राएं करते थे। इन यात्राओं के माध्यम से व्यापार भी हुआ और संस्कृति भी एक जगह से दूसरी जगह पहुंची। आजी विकसित भारतर संकल्पर सिद्धि निमन्ते ओडिशार सामुद्रिक शक्तिर महत्वपूर्ण भूमिका अछि।

साथियों,

ओडिशा को नई ऊंचाई तक ले जाने के लिए 10 साल से चल रहे अनवरत प्रयास....आज ओडिशा के लिए नए भविष्य की उम्मीद बन रहे हैं। 2024 में ओडिशावासियों के अभूतपूर्व आशीर्वाद ने इस उम्मीद को नया हौसला दिया है। हमने बड़े सपने देखे हैं, बड़े लक्ष्य तय किए हैं। 2036 में ओडिशा, राज्य-स्थापना का शताब्दी वर्ष मनाएगा। हमारा प्रयास है कि ओडिशा की गिनती देश के सशक्त, समृद्ध और तेजी से आगे बढ़ने वाले राज्यों में हो।

साथियों,

एक समय था, जब भारत के पूर्वी हिस्से को...ओडिशा जैसे राज्यों को पिछड़ा कहा जाता था। लेकिन मैं भारत के पूर्वी हिस्से को देश के विकास का ग्रोथ इंजन मानता हूं। इसलिए हमने पूर्वी भारत के विकास को अपनी प्राथमिकता बनाया है। आज पूरे पूर्वी भारत में कनेक्टिविटी के काम हों, स्वास्थ्य के काम हों, शिक्षा के काम हों, सभी में तेजी लाई गई है। 10 साल पहले ओडिशा को केंद्र सरकार जितना बजट देती थी, आज ओडिशा को तीन गुना ज्यादा बजट मिल रहा है। इस साल ओडिशा के विकास के लिए पिछले साल की तुलना में 30 प्रतिशत ज्यादा बजट दिया गया है। हम ओडिशा के विकास के लिए हर सेक्टर में तेजी से काम कर रहे हैं।

साथियों,

ओडिशा में पोर्ट आधारित औद्योगिक विकास की अपार संभावनाएं हैं। इसलिए धामरा, गोपालपुर, अस्तारंगा, पलुर, और सुवर्णरेखा पोर्ट्स का विकास करके यहां व्यापार को बढ़ावा दिया जाएगा। ओडिशा भारत का mining और metal powerhouse भी है। इससे स्टील, एल्युमिनियम और एनर्जी सेक्टर में ओडिशा की स्थिति काफी मजबूत हो जाती है। इन सेक्टरों पर फोकस करके ओडिशा में समृद्धि के नए दरवाजे खोले जा सकते हैं।

साथियों,

ओडिशा की धरती पर काजू, जूट, कपास, हल्दी और तिलहन की पैदावार बहुतायत में होती है। हमारा प्रयास है कि इन उत्पादों की पहुंच बड़े बाजारों तक हो और उसका फायदा हमारे किसान भाई-बहनों को मिले। ओडिशा की सी-फूड प्रोसेसिंग इंडस्ट्री में भी विस्तार की काफी संभावनाएं हैं। हमारा प्रयास है कि ओडिशा सी-फूड एक ऐसा ब्रांड बने, जिसकी मांग ग्लोबल मार्केट में हो।

साथियों,

हमारा प्रयास है कि ओडिशा निवेश करने वालों की पसंदीदा जगहों में से एक हो। हमारी सरकार ओडिशा में इज ऑफ डूइंग बिजनेस को बढ़ावा देने के लिए प्रतिबद्ध है। उत्कर्ष उत्कल के माध्यम से निवेश को बढ़ाया जा रहा है। ओडिशा में नई सरकार बनते ही, पहले 100 दिनों के भीतर-भीतर, 45 हजार करोड़ रुपए के निवेश को मंजूरी मिली है। आज ओडिशा के पास अपना विज़न भी है, और रोडमैप भी है। अब यहाँ निवेश को भी बढ़ावा मिलेगा, और रोजगार के नए अवसर भी पैदा होंगे। मैं इन प्रयासों के लिए मुख्यमंत्री श्रीमान मोहन चरण मांझी जी और उनकी टीम को बहुत-बहुत बधाई देता हूं।

साथियों,

ओडिशा के सामर्थ्य का सही दिशा में उपयोग करके उसे विकास की नई ऊंचाइयों पर पहुंचाया जा सकता है। मैं मानता हूं, ओडिशा को उसकी strategic location का बहुत बड़ा फायदा मिल सकता है। यहां से घरेलू और अंतर्राष्ट्रीय बाजार तक पहुंचना आसान है। पूर्व और दक्षिण-पूर्व एशिया के लिए ओडिशा व्यापार का एक महत्वपूर्ण हब है। Global value chains में ओडिशा की अहमियत आने वाले समय में और बढ़ेगी। हमारी सरकार राज्य से export बढ़ाने के लक्ष्य पर भी काम कर रही है।

साथियों,

ओडिशा में urbanization को बढ़ावा देने की अपार संभावनाएं हैं। हमारी सरकार इस दिशा में ठोस कदम उठा रही है। हम ज्यादा संख्या में dynamic और well-connected cities के निर्माण के लिए प्रतिबद्ध हैं। हम ओडिशा के टियर टू शहरों में भी नई संभावनाएं बनाने का भरपूर हम प्रयास कर रहे हैं। खासतौर पर पश्चिम ओडिशा के इलाकों में जो जिले हैं, वहाँ नए इंफ्रास्ट्रक्चर से नए अवसर पैदा होंगे।

साथियों,

हायर एजुकेशन के क्षेत्र में ओडिशा देशभर के छात्रों के लिए एक नई उम्मीद की तरह है। यहां कई राष्ट्रीय और अंतर्राष्ट्रीय इंस्टीट्यूट हैं, जो राज्य को एजुकेशन सेक्टर में लीड लेने के लिए प्रेरित करते हैं। इन कोशिशों से राज्य में स्टार्टअप्स इकोसिस्टम को भी बढ़ावा मिल रहा है।

साथियों,

ओडिशा अपनी सांस्कृतिक समृद्धि के कारण हमेशा से ख़ास रहा है। ओडिशा की विधाएँ हर किसी को सम्मोहित करती है, हर किसी को प्रेरित करती हैं। यहाँ का ओड़िशी नृत्य हो...ओडिशा की पेंटिंग्स हों...यहाँ जितनी जीवंतता पट्टचित्रों में देखने को मिलती है...उतनी ही बेमिसाल हमारे आदिवासी कला की प्रतीक सौरा चित्रकारी भी होती है। संबलपुरी, बोमकाई और कोटपाद बुनकरों की कारीगरी भी हमें ओडिशा में देखने को मिलती है। हम इस कला और कारीगरी का जितना प्रसार करेंगे, उतना ही इस कला को संरक्षित करने वाले उड़िया लोगों को सम्मान मिलेगा।

साथियों,

हमारे ओडिशा के पास वास्तु और विज्ञान की भी इतनी बड़ी धरोहर है। कोणार्क का सूर्य मंदिर… इसकी विशालता, इसका विज्ञान...लिंगराज और मुक्तेश्वर जैसे पुरातन मंदिरों का वास्तु.....ये हर किसी को आश्चर्यचकित करता है। आज लोग जब इन्हें देखते हैं...तो सोचने पर मजबूर हो जाते हैं कि सैकड़ों साल पहले भी ओडिशा के लोग विज्ञान में इतने आगे थे।

साथियों,

ओडिशा, पर्यटन की दृष्टि से अपार संभावनाओं की धरती है। हमें इन संभावनाओं को धरातल पर उतारने के लिए कई आयामों में काम करना है। आप देख रहे हैं, आज ओडिशा के साथ-साथ देश में भी ऐसी सरकार है जो ओडिशा की धरोहरों का, उसकी पहचान का सम्मान करती है। आपने देखा होगा, पिछले साल हमारे यहाँ G-20 का सम्मेलन हुआ था। हमने G-20 के दौरान इतने सारे देशों के राष्ट्राध्यक्षों और राजनयिकों के सामने...सूर्यमंदिर की ही भव्य तस्वीर को प्रस्तुत किया था। मुझे खुशी है कि महाप्रभु जगन्नाथ मंदिर परिसर के सभी चार द्वार खुल चुके हैं। मंदिर का रत्न भंडार भी खोल दिया गया है।

साथियों,

हमें ओडिशा की हर पहचान को दुनिया को बताने के लिए भी और भी इनोवेटिव कदम उठाने हैं। जैसे....हम बाली जात्रा को और पॉपुलर बनाने के लिए बाली जात्रा दिवस घोषित कर सकते हैं, उसका अंतरराष्ट्रीय मंच पर प्रचार कर सकते हैं। हम ओडिशी नृत्य जैसी कलाओं के लिए ओडिशी दिवस मनाने की शुरुआत कर सकते हैं। विभिन्न आदिवासी धरोहरों को सेलिब्रेट करने के लिए भी नई परम्पराएँ शुरू की जा सकती हैं। इसके लिए स्कूल और कॉलेजों में विशेष आयोजन किए जा सकते हैं। इससे लोगों में जागरूकता आएगी, यहाँ पर्यटन और लघु उद्योगों से जुड़े अवसर बढ़ेंगे। कुछ ही दिनों बाद प्रवासी भारतीय सम्मेलन भी, विश्व भर के लोग इस बार ओडिशा में, भुवनेश्वर में आने वाले हैं। प्रवासी भारतीय दिवस पहली बार ओडिशा में हो रहा है। ये सम्मेलन भी ओडिशा के लिए बहुत बड़ा अवसर बनने वाला है।

साथियों,

कई जगह देखा गया है बदलते समय के साथ, लोग अपनी मातृभाषा और संस्कृति को भी भूल जाते हैं। लेकिन मैंने देखा है...उड़िया समाज, चाहे जहां भी रहे, अपनी संस्कृति, अपनी भाषा...अपने पर्व-त्योहारों को लेकर हमेशा से बहुत उत्साहित रहा है। मातृभाषा और संस्कृति की शक्ति कैसे हमें अपनी जमीन से जोड़े रखती है...ये मैंने कुछ दिन पहले ही दक्षिण अमेरिका के देश गयाना में भी देखा। करीब दो सौ साल पहले भारत से सैकड़ों मजदूर गए...लेकिन वो अपने साथ रामचरित मानस ले गए...राम का नाम ले गए...इससे आज भी उनका नाता भारत भूमि से जुड़ा हुआ है। अपनी विरासत को इसी तरह सहेज कर रखते हुए जब विकास होता है...तो उसका लाभ हर किसी तक पहुंचता है। इसी तरह हम ओडिशा को भी नई ऊचाई पर पहुंचा सकते हैं।

साथियों,

आज के आधुनिक युग में हमें आधुनिक बदलावों को आत्मसात भी करना है, और अपनी जड़ों को भी मजबूत बनाना है। ओडिशा पर्व जैसे आयोजन इसका एक माध्यम बन सकते हैं। मैं चाहूँगा, आने वाले वर्षों में इस आयोजन का और ज्यादा विस्तार हो, ये पर्व केवल दिल्ली तक सीमित न रहे। ज्यादा से ज्यादा लोग इससे जुड़ें, स्कूल कॉलेजों का participation भी बढ़े, हमें इसके लिए प्रयास करने चाहिए। दिल्ली में बाकी राज्यों के लोग भी यहाँ आयें, ओडिशा को और करीबी से जानें, ये भी जरूरी है। मुझे भरोसा है, आने वाले समय में इस पर्व के रंग ओडिशा और देश के कोने-कोने तक पहुंचेंगे, ये जनभागीदारी का एक बहुत बड़ा प्रभावी मंच बनेगा। इसी भावना के साथ, मैं एक बार फिर आप सभी को बधाई देता हूं।

आप सबका बहुत-बहुत धन्यवाद।

जय जगन्नाथ!