نمسکار!
ملک کی وزیر خزانہ محترمہ نرملا سیتا رمن جی، وزیر مملکت برائے خزانہ جناب پنکج چودھری جی، ڈاکٹر بھاگوت کراڈ جی، آر بی آئی کے گورنر جناب شکتی کانت داس جی، بینک کاری کے شعبہ کی تمام اہم شخصیات، ہندوستانی صنعت کے تمام معزز ساتھی، پروگرام سے وابستہ دیگر تمام معززین، خواتین و حضرات،
میں جب سے یہاں آیا ہوں۔ جو کچھ بھی سنا اس میں اعتماد نظر آرہا ہے۔ یعنی ہمارے اعتماد کی سطح اتنی متحرک ہو ، یہ بذات خود بہت بڑے امکانات کو عزم میں بدل دیتے ہیں اور سب مل کرچلیں تو اس عزم کو بروئے کار لانے میں میں نہیں مانتا کہ تاخیر ہوگی۔ کسی بھی ملک کی ترقی کے سفر میں ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ ملک ایک نئی چھلانگ لگانے کے لیے نیا عہد لیتا ہے اور پھر پوری قوم کی طاقت ان عزائم کے حصول میں لگ جاتی ہے۔ تحریک آزادی کافی عرصہ چلی تھی۔ 1857سے تو خاص طور پر اس کو مورخین اسے ایک دھاگے میں باندھ کر بھی دیکھتے ہیں۔ لیکن 1942 اور 1930کا ڈانڈی یاترا اور ہندوستان چھوڑو دو ایسے موڑ تھے، جن کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک ایسا وقت تھا جس نے ملک میں چھلانگ لگانے کا جذبہ پیدا کر دیا تھا ۔ 30 کی دہائی میں لگنے والی اس چھلانگ نے پورے ملک میں ایک ماحول بنا دیا۔ اور 42 میں جو دوسری چھلانگ لگی اس کا نتیجہ 1947 میں آیا۔ یعنی جس چھلانگ کی میں بات کر رہا ہوں۔ آزادی کے 75 سال اور اب ہم اس مرحلے میں پہنچے ہیں کہ حقیقی معنوں میں یہ چھلانگ لگانے کے لیے زمین ہموار ہے، ہدف مقرر ہے، بس ہمیں چلنا ہے۔ اور میں نے لال قلعہ سے 15 اگست کو کہاتھا ، یہ وقت ہے، صحیح وقت ہے۔ آپ سبھی ملک و قوم کی تعمیر کے اس عظیم الشان جشن کے اہم شراکت دار ہیں اور اس لیے مستقبل کی تیاریوں کے بارے میں آپ کی بات چیت، ان دو دنوں کے لیے آپ کے ذریعہ غور و خوض ، آپ نے مل بیٹھ کر جو لائحہ عمل تیار کیا ہوگا ، آپ نے جو فیصلے کیے ہوں گے ، میں سمجھتا ہوں کہ تمام باتیں اپنے آپ میں بہت اہم ہیں۔
ساتھیوں،
حکومت نے گزشتہ 6-7 سالوں میں بینک کاری کے شعبہ میں جو اصلاحات کیں، بینکنگ شعبہ کے ساتھ ہر قسم کا تعاون پیش کیا، اس کے باعث آج ملک بینک کاری شعبہ بہت مستحکم حالت میں ہے۔ آپ بھی یہ محسوس کرتے ہیں کہ بینکوں کی مالی صحت اب بہت بہتر حالت میں ہے۔ 2014 سے پہلے جو بھی مسائل تھے، جو بھی چیلنج در پیش تھے، ہم نے انہیں ایک ایک کرکے حل کرنے کے طریقے تلاش کیے ہیں۔ ہم نے این پی اے کے مسئلے کو حل کیا، بینکوں میں دوبارہ سرمایہ کاری کی، ان کی طاقت میں اضافہ کیا۔ ہم نے آئی بی سی جیسی اصلاحات متعارف کرائیں، ان کے قوانین میں اصلاحات کیں اور قرض وصولی کے ٹربیونل کو مضبوط کیا۔ کورونا کے دوران ملک میں ایک مخصوص اسٹریسڈ ایسٹ مینجمنٹ ورٹیکل بھی تشکیل دیا ۔ ان فیصلوں کی وجہ سے آج بینکوں کی ریزولیوشن اور ریکوری بہتر ہو رہی ہے، بینکوں کی پوزیشن مضبوط ہو رہی ہے اور اس کے اندر ایک وجدانی طاقت پائی جا رہی ہے۔ حکومت نے جس شفافیت اور عزم کے ساتھ کام کیا ہے ، بینکوں کو واپس کی گئی رقم بھی اس کا ایک عکس ہے۔ ہمارے ملک میں جب بینکوں سے رقم لے کر کوئی بھاگتا ہے تو اس کا بہت شور ہوتا ہے لیکن کوئی پرعزم حکومت حکومت واپس لاتی ہے تو اس ملک میں کوئی چرچا نہیں ہوتی ہے۔ سابقہ حکومتوں کی حکمرانی کے دوران جو لاکھوں کروڑ روپئے پھنسائے گئے تھے ، ان میں سے 5 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی وصولی کی جا چکی ہے۔ شاید آپ اس سطح کے لوگ بیٹھے ہیں، آپ کو پانچ لاکھ کروڑ کو بہت بڑا نہیں لگتا ہوگا۔ کیونکہ جس طرح سے ایک سوچ بنی ہوئی تھی، یہاں بیٹھےان لوگوں کی نہیں ہوگی،اس پر مجھے پختہ یقین ہے۔ لیکن یہ سوچ بنی ہوئی تھی۔ بینک ہمارے ہی ہیں۔ بینک میں جو ہے وہ بھی ہماراہی ہے، وہاں رہے یا یہاں رہے ، کیا فرق پڑتا ہے؟ اور جو چاہاوہ مانگا ، جو مانگا وہ ملا اور بعد میں پتہ نہیں تھا کہ 2014 میں ملک کچھ اور فیصلہ کردے گا۔ سب کچھ صاف ہو گیا۔
ساتھیوں
یہ جو رقم واپس لینے والی ہماری کوشش ہے۔ پالیسیوں کی بنیاد بھی لی گئی، قانون کی بنیاد بھی لی گئی۔ سفارتی چینل کا بھی استعمال کیا ہے اور پیغام بھی بہت واضح ہے کہ یہی واحد راستہ ہے، لوٹ آئیے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ نیشنل ایسیٹ ری کنسٹرکشن کمپنی اس کی تشکیل سے اور 30 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی سرکاری گارنٹی سے بھی ، آنے والے وقت میں تقریباً 2 لاکھ کروڑ روپے کے حل ہونے کی امید ہے۔ ہم سبھی یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ پبلک سیکٹر کے بینکوں کے استحکام سے پورے بینکنگ شعبے کی افادیت میں اضافہ ہوا ہے اور بینکوں کو مارکیٹ سے فنڈز اکٹھا کرنے میں بھی مدد مل رہی ہے۔
ساتھیوں،
یہ جتنے بھی اقدامات کیے گئے ہیں، جتنی بھی اصلاحات کی گئی ہیں ، اس سے آج بینکوں کے پاس ایک عظیم اور مستحکم سرمایے کی بنیاد بنی ہے۔ آج بینکوں کے پاس اچھی خاصی لیکویڈیٹی ہے، این پی اے کی پروویزننگ کا بیک لاگ نہیں ہے۔ پبلک سیکٹر بینکوں کے این پی اے آج 5 سالوں میں سب سے کم ہے ہی، کو رونا کے باوجود، اس مالی سال کے پہلے نصف میں ہمارے بینکوں کے استحکام نے سب کی توجہ مبذول کی ہے۔ اس وجہ سے بین الاقوامی ایجنسیاں بھی ہندوستان کے بینکنگ شعبہ کا منظر نامہ بہتر کر رہی ہیں۔
ساتھیوں،
آج ہندوستان کے بینکوں کی طاقت اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ ملک کی معیشت کو نئی توانائی دینے میں، ایک بڑا دھکا دینے میں، ہندوستان کو خود کفیل بنانے میں بہت بڑا رول ادا کرسکتے ہیں۔ میں اس مرحلے کو ہندوستان کے بینکنگ شعبہ کا ایک اہم سنگ میل تصور کرتا ہوں۔ لیکن آپ نے دیکھا ہوگا، سنگ میل ایک طرح سے ہمارے آگے کے سفر کا اشارہ بھی ہوتا ہے۔ میں اس مرحلے کو ہندوستان کے بینکوں کے لیے ایک نئے نقطہ آغاز کے طور پر دیکھ رہا ہوں۔ آپ کے لیے یہ ملک میں دولت پیدا کرنے والوں اور روزگار تخلیق کرنے والوں کی حمایت کرنے کا وقت ہے۔ جو ابھی آر بی آئی کے گورنر نے روزگار کی تخلیق کا ذکر کیا میں سمجھتا ہوں یہ وقت آگیا ہے۔ آج وقت کی ضرورت ہے کہ اب ہندوستان کے بینک اپنی بیلنس شیٹ کے ساتھ ساتھ ملک کی بیلنس شیٹ کو بڑھانے کے لیے فعال طور پر کام کریں ۔ صارفین آپ کے پاس آپ کی شاخ میں آئیں ، یہ انتظار مت کیجیے ۔ آپ کو صارف کی ، کمپنی کی ، ایم ایس ایم ای کی ضروریات کا تجزیہ کرکے ، ان سے رجوع کرنا ہوگا، ان کے لیے حسب ضرورت حل فراہم کرنا ہوں گے۔جیسے میں ایک مثال پیش کرتا ہوں، اتر پردیش کے علاقے بندیل کھنڈ اور تمل ناڈو میں دو دفاعی راہداری بنائی گئی۔ اب وہاں حکومت تیزی سے کام کر رہی ہے۔ کیا اس راہداری کے ارد گرد بینک کی جتنی شاخیں ہیں، کیا کبھی ان کو آپ نے بلایا، ان سے میٹنگ کی کہ بھائی دفاعی راہداری بن رہی ہے، یعنی یہاں دفاع کا ایک بالکل نیا شعبہ آرہا ہے۔ بینک فعال طور پر کیا کر سکتا ہے؟ دفاعی راہداری کے آنے سے ان چیزوں کے آنے امکانات ہیں۔ کون کون سے کپتان ہیں جو اس میں آئیں گے؟ کون کون چھوٹے چھوٹے چین ہوں گے ، ایم ایس ایم ای ہوں گے ، جو اس کے سپورٹ سسٹم میں آئیں گے؟ اس کے لیے ہمارے بینک کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ فعال طریقہ کار کیا ہوگا؟ ہمارے مختلف بینکوں کے درمیان مقابلہ کیسے ہوگا؟ بہترین خدمات کون فراہم کرتا ہے؟ اس کے بعد حکومت ہند نے جس دفاعی راہداری کا تصور کیا ہے، اسے زمین پر اتارنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ لیکن ٹھیک ہے، حکومت نے دفاعی راہداری بنائی ہے۔ لیکن میری توجہ اسی پر مرکوز ہے۔کیوں ہمارے پاس 20 سال سے ایک اچھا کلائنٹ ہے، چل رہی ہے گاڑی، بینک بھی چل رہا ہے،اس کا بھی چل رہا ہے، بس ہوگیا ۔ اس سے ہونے والا نہیں ہے۔
ساتھیوں،
آپ منظوری دینے والے اور سامنے والے درخواست دہندہ ہیں، آپ دینے والے ہیں اور سامنے ولا درخواست گزار ، اس احساس کو چھوڑ کر اب بینکوں کو شراکت داری کا ماڈل اپنانا ہوگا۔ مثال کے طور پر اب بینک کی شاخوں کی سطح پر یہ ہدف مقرر کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے علاقے کے 10 نئے نوجوانوں یا 10 چھوٹے کاروباریوں کے ساتھ مل کر ان کے کاروبار کو بڑھانے میں مدد فراہم کرے گا۔ جب میں اسکول میں پڑھتا تھا، اس زمانے میں بینکوں کو کو نیشنلائز نہیں کیا گیا تھا۔ اور اس وقت مجھے پوری طرح یاد ہے کہ سال میں کم از کم دو بار بینک کے لوگ ہمارے اسکول آتے تھے، بتاتے تھے کہ اسکول اور بینک میں اکاؤنٹ کیوں کھولنا چاہیے، چھوٹے چھوٹے بچوں کو گلے دے کر یہ سمجھاتے تھے کہ اس میں پیسہ کیوں بچانا چاہیے، کیونکہ اس وقت وہ سرکار کے ماتحت نہیں آیا تھا۔ اس وقت آپ کو لگتا تھا کہ یہ میرا بینک ہے، مجھے اس کی فکر کرنی ہے۔ ایک مقابلہ بھی تھا اور بینکنگ یعنی مالیاتی دنیا کا بینکنگ شعبہ کی عام آدمی کے لیے تربیت بھی ضروری تھی۔ تمام بینکوں نے یہ کام کیا ہے، شاید نیشنلائزیشن کے بعد مزاج بدلا ہے۔ لیکن 2014 میں، بینک کی اس طاقت کو پہچاننے کے بعد، جب میں نے ان سے کہا کہ مجھے جن دھن اکاؤنٹ کی تحریک شروع کرنی ہے، مجھے غریبوں کی جھونپڑی میں جاکر ان کے بینک اکاؤنٹ کھولوانے ہیں۔ جب میں اپنے افسران سے بات کر رہا تھا تو بہت اعتماد کا ماحول نہیں تھا۔ اندیشے تھے کہ ایسا کیسے ہوگا، تو میں کہتا تھا کہ ایک زمانہ تھا کہ بینک والے اسکول آتے تھے۔ طے تو کرو ، اتنا بڑا ملک اور صرف 40 فیصد لوگ بینک سے جڑے ہوں، 60 فیصد باہر ہوں، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ خیر بات آگے بڑھی اور یہی بینکنگ سیکٹر کے لوگ، نیشنلائزڈ بینکوں کے لوگ، جنہیں بڑے بڑے صنعت کاروں کے ساتھ ہی بیٹھنے کی عادت سی ہو گئی تھی، جب ان لوگوں نے ملک کے سامنے ایک ہدف رکھا کہ ہمیں جن دھن اکاؤنٹ کھولنا ہے، میں آج فخر کے ساتھ تمام تمام بینکوں کا ذکر کرنا چاہوں گا ، تمام بینکوں کے ہر چھوٹے سے چھوٹے ملازم کا ذکر کرنا چاہوں گا، جنہوں نے اس خواب کو سچ کر دکھایا اور جن دھن اکاؤنٹ، مالیاتی شمولیت دنیا کے سامنے ایک بہترین مثال بن گئی۔ شمولیت. یہ آپ ہی کی کوششوں کی وجہ سے ہوا ہے اور میرا ماننا ہے کہ پردھان منتری جن دھن یوجنا کا جو بیج 2014 میں بویا تھا ، لیکن آج اس مشکل دور میں دنیا لڑکھڑا گئی ہے، ہندوستان کا غریب بچا رہا۔ کیونکہ یہ جن دھن اکاؤنٹ کی طاقت تھی۔ جن جن بینک کے ملازمین نے جن دھن اکاؤنٹ کھولنے کے لیے محنت کی ہے، غریب کی جھونپڑی میں جا تے تھے ، بینک کے بابو کوٹ پینٹ پہن کر اور ٹائی لگا کر غریبوں کے گھر کے سامنے کھڑے رہتے تھے، اس وقت تو شاید لگا ہوگا کہ حکومت کا یہ پروگرام ، لیکن میں کہتا ہوں کہ جنہوں نے اس کام کو کیا ہے ، اس وبائی مرض کے دور جو غریب بھوکا نہیں سویا ہے ، اس کا اجر ان بینک ملازمین کے اکاؤنٹ میں جاتا ہے۔ کوئی کام کوئی کوشش کبھی بھی ضائع نہیں ہوتا ہے۔ ایک سچی سوچ کے ساتھ ایمانداری سے کیا ہوا کام ، ایک دور آتا ہے جب انجام کار سامنے آتا ہے۔ اور جن دھن اکاؤنٹ کتنا بڑا نتیجہ دیا ہے ۔ ہم دیکھ رہے ہیں اور ہمیں معیشت ایسی نہیں بنانی ہے کہ اوپر سے اتنا مضبوط ہو ، اس کی مضبوطی کا بوجھ اتنا ہو کہ نیچے سب کچھ دب جائے ۔ ہمیں بینک کاری کا نظام نیچے بھی غریب سے غریب تک اتنی مضبوطی دینی ہے تاکہ اوپر جاتی ہوئی معیشت جب اوپر بھی بڑا بلک بنے گا تو دونوں کی طاقت سے ہندوستان بھی مستحکم ہوگا۔ اور میں مانتا ہوں کہ ہمیں اسی سوچ کے ساتھ چلنا چاہیے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ جب مقامی کاروباریوں کو یہ احساس ہوگا کہ بینک اور اس کے ملازمین ان کے ساتھ کھڑے ہیں مدد کے لیے خود ان کے پاس آ رہے ہیں تو ان کی خود اعتمادی کتنی بڑھ جائے گی۔ آپ کے بینک کے تجربات کا بھی انہیں بہت فائدہ ہوگا۔
ساتھیوں،
میں جانتا ہوں کہ بینکنگ نظام کی صحت کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ قابل عمل پروجیکٹوں میں ہی پیسہ لگایا جائے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پراجیکٹوں کو قابل عمل بنانے میں بھی ہم ایک فعال کردار ادا کر سکتے ہیں۔قابل عمل بنانے کے لیے ایک ہی خطہ نہیں ہوتے ہیں۔ ہمارے بینک کے ساتھی ایک اور کام کر سکتے ہیں۔ آپ کو بخوبی اندازہ ہے کہ آپ کے علاقے میں کس کس کی معاشی صلاحیت کتنی ہے۔یہ بینک کی شاخوں کی کے دائرہ کار سے باہر نہیں ہوتا ہے۔ وہ اس سر زمین کی طاقت کو جانتا ہے۔ آج جو 5 کروڑ روپئے کا قرض آپ سے لے کر جا رہا ہے، ایمانداری سے اسے وقت پر واپس کر رہا ہے، آپ اس کی استعداد بڑھانے میں بھی مدد کر سکتے ہیں۔ جو شخص آج 5 کروڑ کا قرض لے کر اسے بینک کو واپس کر رہا ہے، کل اس میں کئی گنا زیادہ قرض لے کر اسے واپس کرنے کی صلاحیت پیدا ہو ، اس کے لیے آپ کو اس کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے۔ اب جیسا کہ آپ سب پی ایل آئی اسکیم کے بارے میں جانتے ہیں اور آج اس کا بھی ذکر ہوا ۔ حکومت بھی اس میں کچھ ایسا ہی کر رہی ہے۔ جو لوگ ہندوستان کے صنعت کار ہیں، وہ اپنی صلاحیت کئی گنا بڑھائیں، خود کو ایک عالمی کمپنی میں تبدیل کریں، اس کے لیے حکومت انہیں پیداوار پر مراعات دے رہی ہے۔ آپ خود سوچیں، آج ہندوستان میں انفراسٹرکچر پر ریکارڈ سرمایہ کاری ہو رہی ہے، لیکن ہندوستان میں انفراسٹرکچر سے متعلق کتنی بڑی کمپنیاں ہیں؟ پچھلی صدی کے جو انفراسٹرکچر تھے، پچھلی صدی کے انفراسٹرکچر کی جو مہارت تھی، گزشتہ صدی کے انفراسٹرکچر کی جو ٹیکنالوجی ہے ، اسی میں گزارہ کرنے والے ہمارے انفراسٹرکچر کے شعبے کی جو کمپنیاں کام کریں گی، کیا ان سےاکیسویں صدی کے خواب پورے ہوسکتے ہیں ؟ نہیں ہو سکتے ہیں۔ آج اگر اسے بڑی عمارت بنانی ہے، بڑے پیمانے پر کام کرنا ہے، بلٹ ٹرین کا کام کرنا ہے، ایکسپریس وے کا کام کرنا ہے تو اس کے ساز و سامان بھی بہت مہنگے لگیں گے۔ اسے پیسوں کی ضرورت ہوگی۔ ہمارے بینکنگ سیکٹر کے لوگوں کے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ میرے بینک کا ایک کلائنٹ ایسا ہو گا جو انفراسٹرکچر میں ہو، جس کا نام بھی دنیا کے پانچ بڑے لوگوں میں ہو، یہ خواہش کیوں نہیں ہے بھائی؟ میرا بینک بڑا ہو وہ تو ٹھیک ہے، لیکن میرے ملک کی ایک انفراسٹرکچر کمپنی جس کا اکاؤنٹ میرے بینک میں ہے، اس کا نام بھی دنیا کی 5 سر فہرست کمپنیوں میں آئے گا ۔ مجھے بتائیں آپ کے بینک کی عزت بڑھے گی یا نہیں؟ میرے ملک کی طاقت بڑھے گی یا نہیں؟ اور ہمیں ہر شعبے میں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم اس طرح کے مختلف شعبوں میں دنیا کے سب سے بڑے کتنے ماہر پیدا کرتے ہیں۔ جب ہمارا کوئی کھلاڑی گولڈ میڈل لے کر آتا ہے تو گولڈ میڈل لانے والا تو ایک ہی ہوتا ہے لیکن پورا ہندوستان خود کو سنہرے دور میں دیکھتا ہے۔ یہ طاقت زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہے۔ ہندوستان کا کوئی ایک ذہین آدمی، کوئی ایک سائنسدان نوبل پرائز لے کر آتا ہے تو پورے ہندوستان کو لگتا ہے کہ ہاں یہ میرا نوبل پرائز ہے، یہ ملکیت ہوتی ہے۔ کیا ہم اپنے بینکنگ سیکٹر کے لیے، اپنی مالیاتی دنیا کو بھی ہندوستان میں اتنی بلندیوں پر ایک ایک چیز کو لے جائیں گے تاکہ بینکوں کو تو فائدہ ہی فائدہ ہو، اس میں کوئی نقصان نہیں ہے۔
ساتھیوں،
گزشتہ کچھ عرصے میں ملک میں جو بڑی بڑی تبدیلیاں آئی ہیں، جو اسکیمیں لاگو ہوئی ہیں، ان سے ملک میں ڈیٹا کا جو بہت بڑا پول بنا ہے، بینکنگ سیکٹر کو ان کا فائدہ ضرور اٹھانا چاہیے۔ جیسا کہ اگر میں جی ایس ٹی کی بات کروں تو آج ہر تاجر کا پورا لین دین شفافیت کے ساتھ ہوتا ہے۔ تاجروں کی کتنی صلاحیت ہے، اس کی تجارت کہاں کہاں پھیلی ہوئی ہے، اس کے کاروبار کی تاریخ کیسی ہے، اس کا اب مستحکم ڈیٹا ملک کے پاس دستیاب ہے۔ کیا اس ڈیٹا کی بنیاد پر ہمارے بینک، اس کاروباری کی مدد کے لیے خود اس کے پاس نہیں جا سکتے کہ بھائی تمہارا اچھا کاروبار چل رہا ہے،مزید بڑھاؤ، چلو بینک تمہارے پاس تیار ہے، ارے ہمت کرو اور آگے نکلو، وہ چار کام مزید اچھا کرے گا اور 10 لوگوں کو روزگار دےگا ۔ اسی طرح، میں آپ کے درمیان، جیسے میں نے ابھی دفاعی راہداری کی بات کہی ، میں حکومت ہند کے ملکیتی منصوبے کا بھی ذکر کرنا چاہوں گا، اور مجھےپختہ یقین ہے کہ میرے بینک کے ساتھیوں نے اس ملکیتی اسکیم کے بارے میں سنا ہوگا۔ آج حکومت اور یہ موضوع ایسا ہے جو لوگ بین الاقوامی امور کو پڑھتے ہیں، انہیں معلوم ہوگا کہ پوری دنیا اس مسئلے، ملکیت کے مسئلے سے نبرد آزما ہے۔ ہندوستان نے راستہ نکال لیا، شاید ہم رزلٹ پر لے آئیں گے، یہ ہےکیا ؟ آج ٹیکنالوجی کی مدد سے ڈرون سے نقشہ سازی کرا کے حکومت ملک کے ہر گاؤں میں لوگوں کو جائیداد کی ملکیت کے کاغذات دے رہی ہے۔ روایتی طور پر لوگ اس گھر میں رہ رہے ہیں، ان کے پاس کاغذات نہیں ہیں، ان کے پاس جائیداد کے سرکاری کاغذات نہیں ہیں اور اس وجہ سے وہ اس مکان کا استعمال کسی کو کرائے پر دینے کے لیے تو کام آسکتا ہے اور کسی کام میں نہیں آتا ہے۔ اب جب ان کے پاس یہ ملکیتی کاغذات ہیں، مستند حکومت نے دیے ہیں، تو کیا بینکوں کو لگتا ہے کہ اس کے پاس سسٹم ہے۔ اب میں گاؤں کے ان لوگوں کو جن کے پاس اپنی جائیداد ہے، اس کی بنیاد پر اس کو کچھ رقم دینے کی میں پیش کش کروں گا، ممکن ہے دیکھو تمہارے کھیت میں یہ کرنا ہے تو تم کو تھوڑی مدد کرتا ہوں ، تم یہ کرسکتے ہو۔ تم دستکاری کا کام کرتے ہو، گاؤں کے اندر لوہار ہو،سنار ہو، میں یہ پیسے دیتا ہوں، تم یہ کام کر سکتے ہو۔ اب یہ رقم تم اپنے گھر پر حاصل کر سکتے ہیں۔ دیکھو، ملکیت کے کاغذات بننے کے بعد، بینکوں کے لیے گاؤں کے لوگوں کو ، گاؤں کے نوجوانوں کو قرض دینا زیادہ محفوظ ہو جائے گا۔ لیکن میں یہ بھی کہوں گا کہ جب بینکوں کی مالی حفاظت میں اضافہ ہوا ہے، تو بینکوں کو بھی گاؤں کے لوگوں کی مدد کے لیے آگے آنا ہوگا۔ اب یہ ضروری ہے، ہمارے ملک میں زرعی شعبے میں سرمایہ کاری بہت کم ہوتی ہے۔ کارپوریٹ دنیا کی سرمایہ کاری تو تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ جبکہ فوڈ پروسیسنگ کے بہت زیادہ امکانات موجود ہے، دنیا میں بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ گاؤں میں فوڈ پروسیسنگ انڈسٹری، زراعت سے متعلق مشینری، شمسی توانائی سے متعلق کام، متعدد نئے شعبے تیار ہو رہے ہیں جہاں آپ کی مدد گاؤں کی تصویر بدل سکتی ہے۔ اسی طرح ایک اور مثال سواندھی اسکیم کی بھی ہے۔ پردھان منتری سواندھی یوجنا کی وجہ سے ہمارے ریہری پٹری والے بھائی اور بہن ہے ، پہلی بار بینکنگ نظام میں شامل ہوئے ہیں۔ اب ان کی بھی ایک ڈیجیٹل تاریخ رقم کی جا رہی ہے۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بینکوں کو ایسے ساتھیوں کی مدد کے لیے مزید آگے آنا چاہیے اور میں نے بینکوں سے بھی درخواست کی ہے اور میری یہاں شہری وزارت سے بھی درخواست کیا ہے اور میں نے تمام میئرز سے بھی گزارش کی ہے کہ آپ کے شہر کے اندر یہ جو ریہری پٹری والے ہیں ان کو موبائل فون پر ڈیجیٹل لین دین سکھائیں۔ وہ تھوک میں مال لے گا، وہ بھی ڈیجیٹل طریقے سے لے گا، وہ فروخت کرے گا تو بھی ڈیجیٹل طریقے سے کرے گا اور یہ سب کوئی مشکل کام نہیں ہے، ہندوستان نے اسے کر کے دکھایا ہے۔ اس کی اپنی تاریخ تیار ہوگی، آج اس کو 50 ہزار دیے ہیں، کل آپ اسے 80 ہزار دے سکتے ہیں، پرسوں ڈیڑھ لاکھ روپے دے سکتے ہیں، اس کا کاروبار بڑھتا جائے گا۔ وہ مزید سامان خریدے گا، مزید سامان فروخت کرے گا۔ اگر وہ ایک گاؤں میں کر رہا ہے تو وہ تین گاؤں میں کرنا شروع کر دے گا۔
ساتھیوں،
آج، جب ملک مالی شمولیت پر اتنی محنت کر رہا ہے، جب شہریوں کی پیداواری صلاحیت کواَن لاک کرنا بہت ضروری ہے۔ اور میں یہاں تین یا چار بار اَن لاک کرنا سن چکا ہوں۔ جیسا کہ ابھی بینکنگ سیکٹر کی ہی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے، یہ بات آپ ہی کی طرف سےآئی ہے کہ جن ریاستوں میں جن دھن اکاؤنٹ جتنے زیادہ کھلے ہیں ، اور جتنے زیادہ جن دھن کھاتے چل رہے ہیں، سرگرمی مسلسل ان جن دھن کھاتوں میں چل رہی ہے۔ بینکوں کی رپورٹ ایک نئی چیز لے کر آئی ہے اور جسے سن کر مجھے خوشی ہوئی کہ بینک کی رپورٹ کہہ رہی ہے کہ اس کی وجہ سے جرائم کی شرح میں کمی آئی ہے۔ یعنی بینک والوں نے کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ میں پولیس کا بھی کام کر رہا ہوں، لیکن یہ ایک ضمنی چیز ہے۔ایک صحت مند معاشرے کی فضابن رہی ہے۔ ایک جن دھن اکاؤنٹ کسی کو جرم کی دنیا سے باہر لے آتا ہے، زندگی کی اس سے بڑی نیکی اور کیا ہو گی۔ معاشرے کی اس سے بڑی خدمت اور کیا ہو سکتی ہے۔ یعنی جب مقامی لوگوں سے بینکوں کا رابطہ بڑھا، جب بینکوں کے دروازے عوام کے لیے کھلے تو اس کا اثر لوگوں کی زندگی جینے کے طریقے پر بھی آیا۔ بینکنگ سیکٹر کی اس طاقت کو سمجھتے ہوئے ہی میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے بینکنگ سیکٹر کے ساتھیوں کو آگے بڑھنا چاہیے۔ میں جانتا ہوں، یہاں جو لوگ بیٹھے ہیں، ان کے متعلق باتیں میں نہیں کہہ رہا ہوں کیونکہ یہاں جو نمائندے آئے تھے انہوں نے اپنی بات بتائی ، میں دوسروں کے نمائندوں کی باتیں بتا رہا ہوں ۔ لیکن ان کا تعلق بینکنگ سیکٹر سےہی ہے، اس لیے میری تمام گفتگو کا مرکزی نقطہ میرا بینکنگ سیکٹرہے ، اس کے قائدین ہیں۔ سرکاری بینک ہوں یا پرائیویٹ سیکٹر کے بینک، ہم شہریوں میں جتنا زیادہ سرمایہ کاری کریں گے، اتنی ہی زیادہ نئی نوکریاں پیدا ہوں گی،اتنا ہی ملک کے نوجوانوں کو ، خواتین کو ، متوسط طبقے کو فائدہ ہوگا۔
ساتھیوں،
ہم نےخود انحصار ہندوستان مہم کے دوران جو تاریخی اصلاحات کیں ان سے ملک میں نئے امکانات کے دروازے کھلے ہیں۔ آج کارپوریٹ اور اسٹارٹ اپ جس پیمانے پر آگے آرہے ہیں وہ بے مثال ہے۔ ایسے میں ہندوستان کی امنگوں کو مضبوط کرنے، فنڈ فراہم کرنے ، ان میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے اس سے بہتر وقت کیا ہو سکتا ہے دوستو؟ ہندوستان میں اور ہمارے بینکنگ سیکٹر کو یہ بات سمجھنا ہوگا، ہندوستان میں ان آئیڈیاز پر سرمایہ کاری کا دور ہے، اسٹارٹ اپس کو سپورٹ کرنے کا دور ہے، اسٹارٹ اپ کی بنیاد ایک آئیڈیا پر ہوتی ہے۔ آپ اس سے پوچھنے جائیں گے،ایسے کیا ہے، فلاں کچھ نہیں ہوتا، آئیڈیا ہوتا ہے۔
ساتھیوں،
آپ کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ آپ کے پاس ڈیٹا کی کوئی کمی نہیں ہے۔ آپ جو بھی اصلاحات چاہتے تھے، حکومت نے وہ کر بھی دی ہے اورآئندہ بھی کرتی رہے گی۔ اب آپ کو قومی مقاصد کے ساتھ، قومی اہداف کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرکے آگے بڑھنا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ وزارتوں اور بینکوں کو ایک ساتھ لانے کے لیےابھی ہمارے سکریٹری صاحب ذکر کر رہے تھے ، ایک ویب پر مبنی پروجیکٹ فنڈنگ ٹریکر بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ اچھی بات ہے، اس سے بہت ساری سہولیات بڑھیں گی، لیکن اس میں میرا ایک مشورہ ہے، یہ کوشش اچھی ہے لیکن کیا یہ بہتر نہیں ہو سکتا ہے کہ ہم اس نئی پہل کو گتی شکتی پورٹل میں ہی انٹرفیس کے طور پر شامل کردیں۔ آزادی کے اس امرت دور میں ہندوستان کا بینکنگ سیکٹر بڑی سوچ اور اختراعی نقطہ نظر کے ساتھ آگے بڑھے گا۔
ساتھیوں،
ایک اور موضوع ہے جس میں اگر ہم نے تاخیر کی تو ہم پیچھے رہ جائیں گے اور وہ ہے فنٹیک ۔ ہندوستان کے لوگوں میں ہر نئی چیز کو اپنانے کی جو طاقت ہے وہ حیرت انگیز ہے۔ آج آپ نے دیکھا ہوگا کہ پھل فروش، سبزی فروش کیو آر کوڈ لگا کر بیٹھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ پیسے دو۔ مندروں میں بھی عطیہ دینے والےکیو آر کوڈ لگادیں، کام کرے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فنٹیک کی طرف ایک ماحول تیار ہوا ہے۔ کیا ہم طےکر سکتے ہیں اور میں تو چاہتا ہوں باقاعدہ مسابقت کاایک ماحول بنے کہ ہر بینک کی برانچ میں کم از کم 100، زیادہ میں نہیں کہہ رہا ہوں، 100فیصدڈیجیٹل لین دین والے کلائنٹ ہوں گے اور سرفہرست ہوں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی ہزار یا دو ہزار روپے لے کر آیا اور اس کو آپ نے ویسے 100 کا ... جو بڑے بڑے ہیں ، 100فیصد وہ ڈیجیٹل طریقے سے کرے گا، جو بھی کاروبار کرے گا وہ آن لائن ڈیجیٹل طریقے سے کرے گا۔ ہمارے پاس دنیا کا سب سے بڑا مستحکم یو پی آئی پلیٹ فارم ہے، ہم اسے کیوں نہیں کرتےہیں جی؟ اب ہم یہ سوچیں پہلے ہمارے بینکنگ سیکٹر کی کیا حالت تھی، کلائنٹ آتے تھے، پھر ہم انہیں ٹوکن دیتے تھے، پھر وہ نوٹ لے کر آتا تھا، چار بار گنتے تھے ، یوں یوں کرتے رہتےتھے۔ پھر دوسرا بھی گن کر تصدیق کرتا تھا۔ پھر صحیح نوٹ ہیں، غلط نوٹ ہیں، اس میں بھی دماغ کھپاتے تھے۔ یعنی ایک کلائنٹ 20 منٹ، 25 منٹ، آدھا گھنٹہ میں بڑی مشکل سے جاتا تھا۔ آج مشین کام کر رہی ہے، نوٹ بھی مشین گن رہی ہے۔ سارے کام مشینیں کر رہی ہیں۔ تو وہاں تو آپ کو ٹیکنالوجی کا بڑا مزہ آتا ہے۔ لیکن ابھی بھی ہم ڈیجیٹل لین دین کے اس موضوع پر تذبذب کا شکار ہیں، میں سمجھ نہیں پا رہا ہوں جی ۔ اسے نفع یا نقصان کے پیمانے پر مت سوچئے دوستو، وہ جو چھلانگ لگانے کا دور ہے نا ، اس میں فنٹیک بھی ایک بہت بڑی پٹری ہے، جس پٹری سے گاڑی دوڑنے والی ہے۔ اور اسی لیے میری گزارش ہے کہ ہر بینک کی برانچ کم از کم 100، یہ آزادی کے امرت مہوتسو میں ہم اس کو سچ ثابت کرتے رہیں کہ 15 اگست 2022 سے پہلے اس ملک میں ایک بھی بینک کی برانچ ایسی نہیں ہوگی جس میں کم از کم 100 ایسے کلائنٹ نہیں ہوں گے جو اپنا 100فیصد کاروباری لین دین ڈیجیٹل طور پر نہیں کرتے ہوں۔ اب دیکھیں تبدیلی آپ کو معلوم ہو جائے گی۔ جن دھن نے آپ کو جس طاقت کا احساس دلایا ہے ، اس سے کئی گنا طاقت کا احساس اس چھوٹی سی طاقت سے نظر آئے گی۔ ہم نےدیکھا ہے خواتین کے سیلف ہیلپ گروپ مجھے طویل عرصے تک ریاست میں خدمات انجام دینے کا موقع ملا، اس وقت ہر سال بینک کے لوگوں کے ساتھ بیٹھتے تھے اور ایشو ریلیز کرنا اور آگے کے بارے میں سوچنا ، یہ تمام باتیں کرتے تھے اور میں نے محسوس کیا کہ ایک بات کے لیے تمام بینک بڑے فخر سے ایک بات کہتے تھے اور وہ کہتے تھے صاحب ایک خواتین سیلف ہیلپ گروپ کو ہم پیسے دیتے ہیں۔ وقت سے پہلے لوٹا دیتے ہیں، پورا کا پورا لوٹادیتے ہیں، ہمیں کبھی تشویش نہیں رہتی ہے۔ جب آپ کے پاس اتنا شاندار مثبت تجربہ ہے، تو کیا آپ کے پاس اس کو فروغ دینے کے لیے کوئی فعال منصوبہ ہے؟ ہمارے خواتین کے سیلف ہیلپ گروپ کی صلاحیت اتنی زیادہ ہے کہ وہ نچلی سطح پر ہماری معیشت کا ایک بہت بڑا محرک بن سکتی ہیں۔ میں نے بڑےبڑے لوگوں کی باتیں دیکھی ہیں،میں نے چھوٹے لوگوں سے بات کی ہے کہ پتہ ہے کہ زمین پر مالیات کے جدید نظام موجود ہیں۔ یہ عام شہری کی معاشی طاقت کے لیے ایک بہت بڑی بنیاد بن سکتا ہے۔میں چاہتا ہوں اس نئی سوچ کے ساتھ نئے عزم کے ساتھ چھلانگ لگانے کا موقع ہے۔ زمین تیار ہے دوستوں اور سب سے بڑی بات جس کا میں بار بار ذکر کر چکا ہوں ، بینک والوں کو پچاس بار کہہ چکا ہوں، میں آپ کے ساتھ ہوں۔ ملک کے مفاد میں خلوص نیت سے کیے گئے کسی بھی کام کے لیے میرے الفاظ لکھ کر رکھ لیں ، یہ میری ویڈیو کلپ کو اپنے پاس رکھیں، میں آپ کے ساتھ ہوں، میں آپ کے پاس ہوں، آپ کے لیے ہوں۔ خلوص نیت سے دیانتداری سے ملک کے مفاد کے کام میں کبھی غلطیاں بھی ہوتی ہیں، اگر ایسی کوئی مشکل آتی ہے تو میں دیوار بن کر کھڑا رہنے کو تیار ہوں۔ لیکن اب ہمیں ملک کو آگے لے جانے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہوں گی۔ اتنی شاندار مضبوط زمین ہو، اتنا بڑا موقع ہو، آسمان کو چھونے کے امکانات ہیں اور ہم سوچنے میں وقت گزار دیں تو میں سمجھتا ہوں کہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
میری جانب سے آپ کو بہت بہت نیک خواہشات!
شکریہ!