نمسکار۔
آچاریہ شری ایس این گوئنکا جی کی صد سالہ پیدائش کی تقریبات کا آغاز ایک برس قبل ہوا تھا۔ اس ایک سال میں آزادی کا امرت مہوتسو منانے کے ساتھ ساتھ ملک نے کلیان مترا گوئنکا جی کے نظریات کو بھی یاد کیا۔ آج جب ان کی صد سالہ تقریبات اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہیں، ملک ترقی یافتہ ہندوستان کی قراردادوں کو پورا کرنے کی جانب تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اس سفر میں، ہم ایس این گوینکا جی کے خیالات اور سماج کے تئیں ان کی لگن سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ گروجی بھگوان بدھ کے منتر کو دہرایا کرتے تھے - سمگہ نام تپوسوکھو - یعنی جب لوگ مل کر مراقبہ کرتے ہیں تو اس کے اثر انگیز نتائج سامنے آتے ہیں ۔ یہ یکجہتی کا احساس، یہ اتحاد کی طاقت ترقی یافتہ ہندوستان کی ایک بڑی بنیاد ہے۔ اس پیدائش کی صد سالہ تقریب میں، آپ سب نے سال بھر اس منتر کا پرچار کیا ہے۔ میں آپ سب کو اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو،
آچاریہ ایس این گوئنکا جی سے میری واقفیت بہت پرانی تھی۔ میری ان سے پہلی ملاقات اقوام متحدہ میں عالمی مذہبی کانفرنس میں ہوئی۔ اس کے بعد میں گجرات میں بھی کئی بار ان سے ملتا رہا۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے آخری مرتبہ ان سے ملنے کا موقع ملا۔ اس کے ساتھ میرے تعلقات میں ایک الگ ہی قربت تھی۔ اس لیے مجھے انہیں قریب سے دیکھنے اور جاننے کا شرف حاصل ہوا۔ میں نے دیکھا تھا کہ انہوں نے وِپسنا کو کتنی گہرائی سے جذب کیا تھا! کوئی شور نہیں، کوئی ذاتی خواہشات نہیں! ان کی شخصیت صاف پانی جیسی تھی - پرسکون اور سنجیدہ! ایک خاموش بندے کی طرح وہ جہاں بھی گئے ایک نیکی کا ماحول پھیلا دیا۔ 'ایک زندگی، ایک مشن' کی بہترین مثال کے طور پر، ان کے پاس صرف ایک ہی مشن تھا – وِپسنا ! انہوں نے اپنے وِپسنا علم کا فائدہ سب کو پہنچایا۔ اس لیے ان کا یہ تعاون پوری انسانیت کے لیے، پوری دنیا کے لیے تھا۔
ساتھیو،
گوئنکا جی کی زندگی ہم سب کے لیے ایک عظیم ترغیب کا ذریعہ رہی ہے۔ وِپسنا قدیم ہندوستانی طرز زندگی کا پوری دنیا کے لیے ایک شاندار تحفہ ہے، لیکن ہمارے اس ورثے کو فراموش کر دیا گیا۔ بھارت میں ایک طویل دور ایسا رہا جس میں وِپسنا سکھانے اور سیکھنے کا فن آہستہ آہستہ معدوم ہو رہا تھا۔ گوئنکا جی نے میانمار میں 14 سال تک تپسیا کرنے کے بعد علم حاصل کیا اور پھر بھارت کی اس قدیم شان کو لے کر وطن واپس آئے۔ وِپسنا خود مشاہدے کے ذریعے خود کی تبدیلی کا راستہ ہے۔ اس کی اہمیت اس وقت بھی تھی جب یہ ہزاروں سال پہلے وجود میں آئی تھی، اور یہ آج کی زندگی میں اور بھی زیادہ اہمیت حاصل کر چکی ہے۔ وِپسنا میں ان چنوتیوں کو حل کرنے کی بھی بڑی طاقت ہے جن کا آج دنیا کو سامنا ہے۔ گروجی کی کوششوں کی وجہ سے دنیا کے 80 سے زیادہ ممالک نے مراقبہ کی اہمیت کو سمجھا اور اسے اپنایا۔ آچاریہ شری گوئنکا جی ان عظیم شخصیات میں سے ایک ہیں جنہوں نے دوبارہ وپسنا کو عالمی شناخت دی۔ آج بھارت پوری طاقت کے ساتھ اس عزم کو نئی توسیع دے رہا ہے۔ ہم نے اقوام متحدہ میں بین الاقوامی یوم یوگ کی تجویز پیش کی تھی۔ اسے 190 سے زائد ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ یوگ اب عالمی سطح پر زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔
ساتھیو،
ہمارے آباؤ اجداد نے وِپسنا جیسے یوگ کے عمل پر تحقیق کی۔ لیکن ہمارے ملک کی ستم ظریفی یہ رہی ہے کہ آنے والی نسلیں اس کی اہمیت اور اس کے استعمال کو بھول چکی ہیں۔ وِپسنا، مراقبہ، دھارنا، ہم ان کو صرف ترک کرنے کے معاملات سمجھتے تھے۔ لوگ عملی طور پر اپنا کردار بھول گئے۔ آچاریہ شری ایس این گوئنکا جی جیسی نامور شخصیات نے عوام کی اس غلطی کو درست کیا۔ گرو جی بھی کہا کرتے تھے - صحت مند زندگی اپنے تئیں ہم سب کی بڑی ذمہ داری ہے۔ آج وپسنا رویے سے لے کر شخصیت کی تعمیر تک ہر چیز کے لیے ایک موثر ذریعہ بن گیا ہے۔ آج جدید دور کی چنوتیوں نے وِپسنا کے کردار کو مزید بڑھا دیا ہے۔ آج پریشانی اور تناؤ ایک عام سی بات بن گئی ہے۔ کام کاج کی زندگی میں توازن، طرز زندگی اور اس طرح کے مسائل کی وجہ سے ہمارے نوجوان بھی ذہنی تناؤ کا شکار ہو رہے ہیں۔ وپاسنا ان کے لیے حل ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی طرح مائیکرو فیملی اور نیوکلیئر فیملی کی وجہ سے گھر میں بزرگ والدین بھی بہت زیادہ تناؤ کا شکار رہتے ہیں۔ ہمیں ایسے بزرگوں کو بھی جوڑنے کی کوشش کرنی چاہیے جو زیادہ سے زیادہ تعداد میں ریٹائرمنٹ کی عمر عبور کر چکے ہیں۔
ساتھیو،
ایس این گوئنکا جی کے ہر کام کے پس پشت یہ احساس کارفرما تھا کہ ہر شخص کی زندگی خوش حال ہو، اس کا دماغ پرسکون ہو اور دنیا میں ہم آہنگی ہو۔ ان کی کوشش تھی کہ ان کی مہم کے ثمرات آنے والی نسلوں تک پہنچتے رہیں۔ اس لیے انہوں نے اپنے علم کو وسعت دی۔ وِپسنا کو پھیلانے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس کے ہنر مند اساتذہ پیدا کرنے کی ذمہ داری بھی لی۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ وِپسنا روح کا سفر ہے۔ یہ اپنے اندر گہرائی میں ڈوبنے کا ایک طریقہ ہے۔ لیکن یہ صرف ایک طرز نہیں ہے، یہ ایک سائنس بھی ہے۔ ہم اس سائنس کے نتائج سے واقف ہیں۔ اب وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم اس کے ثبوت جدید معیارات پر، جدید سائنس کی زبان میں پیش کریں۔ آج ہم سب فخر محسوس کر رہے ہیں کہ پوری دنیا میں اس سمت میں کام ہو رہا ہے۔ تاہم ، بھارت کو اس میں مزید آگے آنا ہوگا۔ ہمیں اس میں قیادت کرنی ہوگی۔ کیونکہ ہمارے پاس اس کا ورثہ بھی ہے اور جدید سائنس کی سمجھ بھی۔ نئی تحقیق اس کی قبولیت میں اضافہ کرے گی اور دنیا کے لیے زیادہ فلاح و بہبود کا سبب بنے گی۔
ساتھیو،
آچاریہ ایس این گوئنکا جی کی صد سالہ پیدائش کی تقریبات کا یہ سال ہم سب کے لیے ایک متاثر کن وقت رہا ہے۔ ہمیں انسانی خدمت کے لیے ان کی کوششوں کو آگے بڑھانا چاہیے۔ ایک مرتبہ پھر آپ سب کے لیے نیک خواہشات۔ بہت بہت شکریہ۔