معزز خواتین وحضرات ، نمسکار !
میں آپ سبھی کا بھارت میں خیرمقدم کرتا ہوں۔ زراعت انسانی تہذیب کا مرکز ہے۔ اس طرح، زراعت کے وزیروں کے طور پر، آپ کا کام صرف معیشت کے ایک شعبے کو سنبھالنا نہیں ہے، بلکہ آپ پر انسانیت کے مستقبل کی ایک بڑی ذمہ داری بھی ہے۔ عالمی سطح پر، زراعت دو اعشاریہ پانچ بلین سے زیادہ لوگوں کی روزی روٹی فراہم کرتی ہے۔ خطہ جنوب میں، زراعت کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی)میں تقریباً 30 فیصد اور 60 فیصد سے زیادہ کا تعاون ہے۔ آج اس شعبے کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ وبائی مرض کی وجہ سے سپلائی کے سلسلے میں رکاوٹیں جغرافیائی اور سیاسی تناؤ کے اثرات کی وجہ سے بدتر ہو گئی ہیں۔آب وہوا کی تبدیلی کی وجہ سے موسم کے شدید حالات زیادہ سے زیادہ کثرت سے رونما ہو رہے ہیں۔ ان چیلنجوں کو سب سے زیادہ خطہ جنوب کے ملکوں نے محسوس کیا ہے۔
دوستو،
میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ بھارت اس اہم ترین شعبے میں کیا کر رہا ہے۔ ہماری پالیسی ‘بنیادی باتوں کی جانب واپسی’ اور ‘مستقبل کی طرف مارچ’ کا امتزاج ہے۔ ہم قدرتی کاشتکاری کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی سے چلنے والی کاشتکاری کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔ پورےبھارت میں کسان اب قدرتی کاشتکاری کر رہے ہیں۔ وہ مصنوعی کھاد یا کیڑے مار ادویات استعمال نہیں کر رہے ہیں۔ ان کی توجہ دھرتی ماں کو زندہ کرنے، مٹی کی صحت کی حفاظت،‘فی قطرہ، زیادہ فصل’ پیدا کرنےاور نامیاتی کھادوں اور کیڑوں کے انتظام کے حل کو فروغ دینے پرمرکوز ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، ہمارے کسان پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں۔ وہ اپنے کھیتو ں پر شمسی توانائی پیدا کر رہے ہیں اور استعمال کر رہے ہیں۔ وہ فصلوں کے انتخاب کو بہتر بنانے کے لیے مٹی کی صحت کے کارڈز کا استعمال کر رہے ہیں اوروہ فصلوں پر پانی کو چھڑکنے اور اپنی فصلوں کی نگرانی کے لیے ڈرون کااستعمال کر رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ‘‘امتزاجی نقطہ نظر’’ زراعت کے کئی مسائل کو حل کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔
دوستو،
جیسا کہ آپ جانتے ہیں، سال 2023 موٹے اناج کے بین الاقوامی سال کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ آپ کو اس کا عکس حیدرآباد میں اپنی پلیٹوں پر نظر آئے گا، جس میں آپ موٹے اناج یا شری انّ، جیسا کہ ہم اسےبھارت میں کہتے ہیں، سے تیار کردہ بہت سے پکوان کا مشاہدہ کریں گے۔ یہ سپر فوڈ نہ صرف کھانے کے لیے صحت بخش ہیں، بلکہ یہ کم پانی استعمال کرنے، کم کھاد کی ضرورت اور زیادہ کیڑوں سے مزاحم ہو کر ہمارے کسانوں کی آمدنی بڑھانے میں بھی مدد کرتے ہیں۔ بلاشبہ، موٹے اناج نئے نہیں ہیں۔ کسان ہزاروں سالوں سے اس کی کاشت کر رہے ہیں۔ لیکن منڈیوں اور مارکیٹنگ نے ہمارے انتخاب کو اتنا متاثر کیا کہ ہم روایتی طور پر اگائی جانے والی خوراک کی فصلوں کی قدر کو بھول گئے۔ آئیے شری انّ یعنی موٹے اناج کو اپنی پسند کے کھانے کے طور پر قبول کریں۔ ہماری اپنی عہد بستگی کے ایک حصے کے طور پر بھارت موٹے اناج سے متعلق بہترین طورطریقوں، تحقیق اور ٹیکنالوجیز کو مشترک کرنے کے لئے مہارت کے ایک مرکز کے طور پر انسٹی ٹیوٹ آف ملٹس ریسرچ قائم کر رہا ہے۔
دوستو،
میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ اس سلسلے میں غٰوروخوض کریں کہ عالمی سطح پر خوراک کی یقینی فراہمی کو حاصل کرنے کے لیے اجتماعی کارروائی کیسے کی جائے۔ ہمیں غریب کسانوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے پائیدار اور جامع خوراک کے نظام کی تعمیر کے طور طریقے تلاش کرنے چاہئیں۔ ہمیں عالمی سطح پر کھاد کی سپلائی کے سلسلے کو مضبوط کرنے کے طریقے تلاش کرنے چاہئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مٹی کی زرخیزی اور بہتر صحت، فصل کی صحت اور پیداوار کے لیے زرعی طریقوں کو اپنانے چاہئیں۔ دنیا کے مختلف حصوں کے روایتی طریقے ہمیں دوبارہ پیداوار کرنے والی زراعت کے متبادل تیار کرنے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے کسانوں کو اختراعات اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سےآراستہ کرکے انہیں بااختیار بنانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں خطہ جنوب کے ملکوں میں چھوٹے اور غریب کسانوں کے لیے سستے حل بھی تلاش کرنے چاہئیں۔ زرعی اور خوراک کے نقصان کو کم کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے بجائے فصلوں کی باقیات سے دولت پیدا کرنے میں سرمایہ کاری کرنے کی شدید ضرورت ہے۔
دوستو،
زراعت میں بھارت کی جی 20 ترجیحات، ‘ایک کرہ ارض’ کو ٹھیک کرنےاور‘ایک خاندان’ کے اندر ہم آہنگی پیدا کرنے نیز ایک روشن مستقبل کی امید دلانے پر مرکوز ہیں۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ دو ٹھوس نتائج ‘‘خوراک کی یقینی فراہمی اورتغذیہ پر دکن کے اعلیٰ سطحی اصول’’ اورموٹے اناج اور دیگر اناج کے لیے‘‘مہارشی’’ پہل پر کام کر رہے ہیں۔ ان دو اقدامات کی حمایت، جامع، پائیدار اور لچکدار زراعت کی حمایت میں ایک بین ثبوت ہے۔ میری خواہش ہے کہ آپ سب کو اپنے خیالات میں کامیابی حاصل ہو۔
شکریہ!