نمسکار!
پروگرام میں میرے ساتھ شامل ہورہے حکومت ہند میں ہمارے کھیلوں کے وزیر جناب انوراگ ٹھاکر جی ، تمام کھلاڑی ساتھیوں، تمام کوچز اور خاص طور پر والدین ، آپ کے ماں باپ۔ آپ تمام حضرات سے بات چیت کرکے میرے اعتماد میں اضافہ ہواہے کہ اس بار بھارت پیرالمپک گیمز میں بھی ایک نئی تاریخ رقم کرنے جا رہا ہے۔ میں اپنے تمام کھلاڑیوں اور تمام کوچز کو آپ کی کامیابی ، ملک کی فتح کے لیے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
ساتھیوں،
آپ کی خود اعتمادی ، کچھ حاصل کرنے کی آپ کی قوت ارادی ، میں دیکھ سکتا ہوں کہ یہ لامحدود ہے۔ یہ آپ کی محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ آج پیرالمپکس میں سب سے بڑی تعداد میں بھارت کے ایتھلیٹ حصہ لینے جا رہے ہیں۔ آپ لوگ بتا رہے تھے کہ کورونا کی وبا نے آپ کی مشکلات میں بھی اضافہ کیا، لیکن آپ نے یہ سلسلہ کبھی ٹوٹنے نہیں دیا۔ اس پر قابو پانے کے لیے آپ نے جو کچھ کرنا ہے، وہ سب کیا ہے۔ آپ نے اپنے حوصلے کو پست نہیں ہونے دیا ، اپنی پریکٹس کو رکنے نہیں دیا۔ اور یہی تو حقیقی 'اسپورٹس مین اسپرٹ'ہے ہمیں ہر حالت میں وہ یہی سکھاتی ہےکہ - ہاں ، ہم یہ کریں گے! ہم یہ کر سکتے ہیں اور آپ سب نے کر کے دکھایا بھی۔ سب نے کرکے دکھایا۔
ساتھیوں،
آپ اس مقام تک پہنچے ہیں کیوں کہ آپ حقیقی چیمپیئن ہیں۔ زندگی کے کھیل میں اپنی مصیبتوں کو شکست دی ہے۔ زندگی کے کھیل میں آپ جیت چکے ہیں۔ ایک کھلاڑی کے طور پر آپ کے لیے آپ کی جیت، آپ کا میڈل بہت اہم ہے، لیکن میں بار بار کہتا ہوں کہ نئی سوچ کا بھارت آج اپنے کھلاڑیوں پر میڈل کا دباؤ نہیں بناتا۔ آپ کو بس اپنا صد فی صد دینا ہے، پوری لگن کے ساتھ، ذہنی تناؤکے بغیر،سامنے کتنا ہی مضبوط کھلاڑی ہو اس کی فکر کیے بغیر بس ہمیشہ یہ یاد رکھیئے اور اسی یقین کے ساتھ میدا ن پر محنت کرنی ہے۔ میں جب نیا نیا وزیراعظم بنا تو دنیا کے لوگوں سے ملتا تھا۔ اب وہ تو اونچائی میں بھی ہم سے زیادہ ہوتے ہیں۔ ان ملکوں کا رتبہ بھی بڑا ہوتا ہے۔ میرا بھی بیک گراؤنڈ آپ کے ہی جیسا تھا اور ملک میں بھی لوگوں کو شبہ ہوتا تھا کہ مودی جی کو تو دنیا کا کچھ پتہ نہیں ہے یہ وزیراعظم بن گئے کیا کریں گے۔ لیکن میں جب دنیا کے لیڈروں سے ملتا تھا۔ تو میں کبھی یہ نہیں سوچتا تھا کہ نریندر مودی ہاتھ ملا رہا ہے۔ میں یہ سوچتا تھا کہ 100 کروڑ سے بھی بڑی آبادی والا ملک مصافحہ کر رہا ہے۔ میرے پیچھے 100 کروڑ سے زیادہ ملک کے لوگ کھڑے ہیں۔ یہ نیت رہتی تھی اور اسی وجہ سے مجھے کبھی بھی میرے اعتماد میں تزلزل نہیں آیا۔ میں دیکھ رہا ہوں آپ کے اندر تو زندگی کو جیتنے کا اعتماد لبریز بھی ہے اور گیم جیتنا تو آپ کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ میڈل تو محنت سے خود ہی آنے والے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہی ہے، اولمپکس میں ہمارے کچھ کھلاڑیوں نے جیت حاصل کی ، تو کچھ چوک بھی گئے۔ لیکن ملک سب کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا تھا، سب کے لیے جشن منا رہا تھا۔
ساتھیوں،
ایک کھلاڑی کے طور پر آپ یہ بخوبی جانتے ہیں کہ، میدان میں جتنی جسمانی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے اتنی ہی ذہنی قوت بھی معنی رکھتی ہے۔ آپ لوگ تو خاص طور پر ایسے حالات سے نکل کر آگے بڑھ رہے ہیں جہاں ذہنی قوت سے ہی اتنا سب کچھ ممکن ہوا ہے۔ اس لیے، آج ملک اپنے کھلاڑیوں کے لیے ان سبھی باتوں پر توجہ دے رہا ہے۔ کھلاڑیوں کے لیے 'اسپورٹ سائیکالوجی' اس تعلق سے ورک شاپس اور سیمینار اس کا انتظام مسلسل کرتے رہے ہیں۔ ہمارے زیادہ کھلاڑی چھوٹے شہروں،قصبوں اور گاؤں سے آتے ہیں۔ اس لیے ایکسپوزر کی کمی بھی ان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ نئی جگہ، نئے لوگ، بین الاقوامی حالات، کئی بار یہ چیلنجز ہی ہمارا حوصلہ کم کردیتے ہیں۔ اس لیے یہ طے کیا گیا کہ اس سمت میں بھی ہمارے کھلاڑیوں کو تربیت ملنی چاہیے۔ میں امید کرتا ہوں کہ ٹوکیوں پیرالمپکس پر فوکس کرتے ہوئے جو تین سیشنز آپ نے جوائن کیے، ان سے آپ کو کافی مدد بھی ملی ہوگی۔
ساتھیوں،
ہمارے چھوٹے چھوٹے گاؤں میں ، دور دراز علاقوں میں ، بہت زیادہ حیرت انگیز ٹیلنٹ موجود ہے ، کتنا اعتماد ہے ، آج میں آپ سب کو دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ میرے سامنے براہ راست ثبوت موجود ہیں۔ کئی بار آپ یہ بھی سوچیں گے کہ اگر آپ کو وسائل میسر نہ ہوتے اورسہولیات نہ ملتیں تو آپ کے خوابوں کا کیا ہوتا؟ ہمیں ملک کے دیگر لاکھوں نوجوانوں کے بارے میں بھی فکر کرنا ہے۔ بہت سارے نوجوان ہیں جو اتنے تمغے لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آج ملک خود ان تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے ، دیہی علاقوں پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ آج ملک کے ڈھائی سو سے زائد اضلاع میں 360 'کھیلو انڈیا سنٹر' قائم کیے گئے ہیں ، تاکہ مقامی سطح پر ٹیلنٹ کی شناخت کی جا سکے ، انہیں موقع ملے۔ آنے والے دنوں میں ان مراکز کی تعداد ایک ہزار تک بڑھا دی جائے گی۔ اسی طرح ہمارے کھلاڑیوں کے سامنے ایک اور چیلنج وسائل کا بھی ہوتا تھا۔ جب آپ کھیلنے جاتے تھے ، وہاں کوئی اچھا میدان نہیں تھا ، اچھا سامان نہیں تھا۔ اس سے کھلاڑی کے حوصلے پر بھی اثر پڑا۔ وہ اپنے آپ کو دوسرے ممالک کے کھلاڑیوں سے کمتر سمجھتا تھا۔ لیکن آج ملک میں کھیلوں کے بنیادی ڈھانچے کو بھی بہتر کیا جا رہا ہے اور اسے فروغ بھی دیا جا رہا ہے۔ ملک کھلے ذہن کے ساتھ ہر کھلاڑی کی مدد کر رہا ہے۔ 'ٹارگٹ اولمپک پوڈیم اسکیم' کے ذریعے ، ملک نے کھلاڑیوں کے لیے ضروری انتظامات بھی کیے ، اہداف طے کیے۔ اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔
ساتھیوں،
اگر ملک کو کھیلوں میں سرفہرست ہونا ہے تو ہمیں اس پرانے خوف کو دور کرنا ہوگا جو پرانی نسل کے ذہنوں میں تھا۔ اگر کوئی بچہ کھیل میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا تو گھر کے لوگ پریشان ہوتے تھے کہ وہ آگے کیا کرے گا؟ کیونکہ ایک یا دو کھیلوں کو چھوڑ کر کھیل اب ہمارے لیے کامیابی یا کیریئر کا پیمانہ نہیں رہا۔ ہمارے لیے اس ذہنیت ، عدم تحفظ کے احساس کو توڑنا بہت ضروری ہے۔
ساتھیوں،
ہندوستان میں کھیلوں کی ثقافت کو فروغ دینے کے لیے ہمیں اپنے طریقوں کو مسلسل بہتر بنانا ہوگا۔ آج بین الاقوامی کھیلوں کے ساتھ ساتھ روایتی ہندوستانی کھیلوں کو بھی ایک نئی پہچان دی جا رہی ہے۔ نوجوانوں کو مواقع ، پیشہ ورانہ ماحول دینے کے لیے ملک کی پہلی سپورٹس یونیورسٹی امپھال ، منی پور میں بھی کھولی گئی ہے۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ کھیلوں کو بھی مساوی ترجیح دی گئی ہے۔ آج ملک خود آگے آ رہا ہے اور 'کھیلو انڈیا' مہم چلا رہا ہے۔
ساتھیوں،
آپ کسی بھی کھیل سے وابستہ ہوں ، ایک بھارت- شریشٹھ بھارت کے پس پردہ کارفرما عوامل کو بھی تقویت فراہم کرتے ہیں۔ آپ کس ریاست سے تعلق رکھتے ہیں ، آپ کس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں ، آپ کون سی زبان بولتے ہیں ، سب سے بڑھ کر آپ آج 'ٹیم انڈیا' ہیں۔ یہ جذبہ ہمارے معاشرے کے ہر شعبے میں ہونا چاہیے ، یہ ہر سطح پر نظر آنا چاہیے۔ سماجی مساوات کی اس مہم میں ، میرے دیویانگ (معذور)بھائی اور بہنیں خود کفیل بھارت میں ملک کے لیے بہت اہم شراکت دار ہیں۔ آپ نے ثابت کیا کہ زندگی کو جسمانی مشقت سے نہیں روکنا چاہیے۔ لہٰذا ، آپ تمام ہی ،عام لوگوں کے لیے ، خاص طور پر نئی نسل کے لیے مشعل راہ بھی ہیں۔
ساتھیوں،
پہلے دویانگوں (معذوروں)کو سہولیات فراہم کرنے کو ویلفیئر(فلاح و بہبود) سمجھا جاتا تھا۔ لیکن آج ملک اسے اپنی ذمہ داری مان کر کام کر رہا ہے۔ اس لیے، ملک کی پارلیمنٹ نے معذوروں کے حقوق کے لیے قانون، جیسا قانون بنایا،معذوروں کے حقوق کو قانونی تحفظ فراہم کیا۔ 'سوگمیہ بھارت ابھیان'اس کی ایک اور بڑی مثال ہے۔ آج سینکڑوں سرکاری عمارتوں، سینکڑوں ریلوے اسٹیشن، ہزاروں ٹرین کے کوچز، درجنوں گھریلو ہوائی اڈوں کے انفراسٹرکچر کو معذوروں کے لیے آسان اور سہل بنایا جا چکا ہے۔ انڈین سائن لینگویج کی اسٹینڈرڈ ڈکشنری بنانے کا کام بھی تیزی سے چل رہا ہے۔ این سی ای آر ٹی کی کتابوں کو بھی اشاراتی زبانوں میں ترجمہ کیا جا رہا ہے۔ اس طرح کی کوششوں سے کتنے ہی لوگوں کی زندگیاں بدل رہی ہیں۔ کتنے ہی ٹیلنٹس ملک کے لیے کچھ کرنے کا اعتماد حاصل کر رہے ہیں۔
ساتھیوں،
ملک جب کوشش کرتا ہے ، اور ہمیں اس کے سنہری نتائج تیزی سے ملتے ہیں ، تب ہمیں بڑا سوچنے ، اور نئے نئے اختراعات کرنے کی تحریک ملتی ہے۔ ہماری ایک کامیابی ہمارے بہت سے نئے اہداف کا راستہ کھولتی ہے۔ لہذا ، جب آپ ترنگا لے کر ٹوکیو میں اپنی سب سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے ،تو آپ صرف تمغے ہی نہیں جیتیں گے ، بلکہ آپ ہندوستان کے عہد کو بھی بہت دور لے جانے والے ہیں ، آپ اسے ایک نئی توانائی دینے والے ہیں ، آپ اسے آگے بڑھانے والے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آپ کی یہ ہمت، حوصلے ، آپ کا جوش و خروش ٹوکیو میں نئے ریکارڈ قائم کرے گا۔ اسی یقین کے ساتھ ، ایک بار پھر آپ سب کے لیے بہت ساری نیک خواہشات۔ بہت بہت شکریہ!