مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی ارجن منڈا جی، فگن سنگھ کلستے جی، محترمہ رینوکا سنگھ جی، ڈاکٹر بھارتی پوار جی، بشیشور توڈو جی، دیگر معززین، اور ملک کی الگ الگ ریاستوں سے آئے میرے سبھی قبائلی بھائیو اور بہنو! آپ سبھی کو آدی مہوتسو کی بہت بہت نیک خواہشات۔
آدی مہوتسو آزادی کے امرت مہوتسو میں ملک کے آدی وراثت کی شاندار پیشکش کر رہا ہے۔ ابھی مجھے ملک کی قبائلی روایت کی اس شاندار جھانکی کو دیکھنے کا موقع ملا۔ طرح طرح کے رس، طرح طرح کے رنگ! اتنے خوبصورت کپڑے، ایسی قابل فخر روایات! قسم قسم کے فنون، قسم قسم کے فنی نمونے! قسم قسم کے ذائقے، طرح طرح کی موسیقی، ایسا لگ رہا ہے جیسے ہندوستان کا تنوع، اس کی عظمت، کندھے سے کندھا ملا کر ایک ساتھ کھڑی ہے۔
یہ ہندوستان کے لامحدود آسمان کی طرح ہے جس میں اس کا تنوع قوس قزح کے رنگوں کی طرح ابھرتا ہے۔ اور قوس و قزح کی ایک اور خصوصیت بھی ہے۔ جب یہ مختلف رنگ اکٹھے ہوتے ہیں تو روشنی کی ایک کرن بنتی ہے جو دنیا کو نظریہ بھی دیتی ہے اور سمت بھی۔ یہ تنوع جب ’ایک بھارت، سریشٹھ بھارت‘ کے دھاگے میں پرویا جاتا ہے، تب ہندوستان کا عظیم الشان روپ دنیا کے سامنے آتا ہے۔ پھر، ہندوستان اپنی ثقافتی روشنی سے دنیا کی رہنمائی کرتا ہے۔
یہ آدی مہوتسو ’کثرت میں وحدت‘ کی ہماری صلاحیت کو ایک نئی بلندی دے رہا ہے۔ یہ ’ترقی اور وراثت‘ کے خیال کو مزید جاندار بنا رہا ہے۔ میں اس تقریب کے لیے اپنے قبائلی بھائیوں اور بہنوں اور قبائلی مفادات کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو،
21ویں صدی کا ہندوستان سب کا ساتھ، سب کا وکاس کے منتر پر چل رہا ہے۔ جسے پہلے دور دراز سمجھا جاتا تھا، اب حکومت دہلی سے چل کر اس تک پہنچتی ہے۔ جو پہلے خود کو دور دراز سمجھتا تھا، اب حکومت اسے قومی دھارے میں لا رہی ہے۔ پچھلے 8-9 سالوں میں قبائلی سماج سے متعلق آدی مہوتسو جیسے پروگرام ملک کے لیے ایک مہم بن گئے ہیں۔ میں خود بہت سے پروگراموں کا حصہ بنتا ہوں۔ ایسا اس لیے کہ قبائلی معاشرے کا مفاد بھی میرے لیے ذاتی تعلقات اور احساسات کا معاملہ ہے۔ جب میں سیاسی زندگی میں نہیں تھا، ایک سماجی کارکن، تنظیم کے کارکن کے طور پر کام کررہا تھا، تو مجھے متعدد ریاستوں اور اس میں بھی ہمارے قبائلی گروپ کے درمیان جانے کا موقع ملتا تھا۔
میں نے ملک کے کونے کونے میں قبائلی سماج کے ساتھ، قبائلی خاندانوں کے ساتھ کتنے ہی ہفتے گزارے ہیں۔میں نے آپ کی روایات کو قریب سے دیکھا ہے، ان کو جیا ہے اور ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ گجرات میں بھی، عمرگام سے امباجی تک گجرات کی پوری مشرقی پٹی، اس قبائلی پٹی میں، مجھے اپنی زندگی کے اہم ترین سال اپنے قبائلی بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں گزارنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ قبائلیوں کے طرز زندگی نے مجھے ملک کے بارے میں، ہماری روایات کے بارے میں، ہمارے ورثے کے بارے میں بہت کچھ سکھایا ہے۔ اس لیے جب میں آپ کے درمیان آتا ہوں تو مجھے ایک الگ ہی قسم کا پیار محسوس ہوتا ہے۔ آپ کے بیچ اپنوں سے جڑنے کا احساس ہوتا ہے۔
ساتھیو،
قبائلی معاشرے کے حوالے سے آج ملک جس فخر کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ جب میں غیر ملکی سربراہان مملکت سے ملتا ہوں اور انہیں تحفہ دیتا ہوں تو میری کوشش ہوتی ہے کہ اس میں کچھ نہ کچھ میرے قبائلی بھائی اور بہنوں کے ذریعہ بنایا گیا ہو۔
آج جب ہندوستان پوری دنیا کے بڑے فورمز پر جاتا ہے تو وہ قبائلی روایات کو اپنی وراثت اور فخر کے طور پر پیش کرتا ہے۔ آج ہندوستان دنیا کو بتاتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی، گلوبل وارمنگ جیسے عالمی چیلنجز کا اگر آپ حل چاہتے ہیں تو آئیے میری قبائلی روایات کے طرز زندگی کو دیکھیں، آپ کو کوئی راستہ مل جائے گا۔ آج جب بات پائیدار ترقی کی ہوتی ہے تو ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کو ہمارے قبائلی معاشرے سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم کیسے درختوں سے، جنگلوں سے، دریاؤں سے اور پہاڑوں سے ہماری نسلوں کا رشتہ جوڑ سکتے ہیں، ہم کیسے قدرت سے وسائل لے کر بھی اسے محفوظ کرتے ہیں، اس کی افزودگی کرتے ہیں، اس کی تحریک ہمارے قبائلی بھائی بہن ہمیں لگاتار دیتے رہتے ہیں اور یہی بات آج بھارت پوری دنیا کو بتارہا ہے۔
ساتھیو،
آج، ہندوستان کے روایتی، اور خاص طور پر قبائلی معاشرے کی طرف سے تیار کردہ مصنوعات کی مانگ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ آج شمال مشرق کی مصنوعات بیرونی ممالک کو برآمد کی جا رہی ہیں۔ آج بانس کی مصنوعات کی مقبولیت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلی حکومت کے دور میں بانس کاٹنے اور استعمال کرنے پر قانونی پابندیاں تھیں۔ ہم بانس کو گھاس کے زمرے میں لائے اور اس پر عائد تمام پابندیاں ہٹائیں، جس کی وجہ سے اب بانس کی مصنوعات ایک بڑی صنعت کا حصہ بن رہی ہیں۔ قبائلی مصنوعات کو زیادہ سے زیادہ مارکیٹ میں پہنچنا چاہیے، ان کی پہچان بڑھنی چاہیے، ان کی مانگ بڑھنی چاہیے، حکومت اس سمت میں بھی مسلسل کام کر رہی ہے۔
ون دھن مشن کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں 3 ہزار سے زیادہ ون دھن وکاس کیندر قائم کیے گئے ہیں۔ 2014 سے پہلے، بہت کم، معمولی جنگلاتی پیداوار تھی جو ایم ایس پی کے دائرے میں آتی تھی۔ اب یہ تعداد بڑھ کر 7 گنا ہو گئی ہے۔ اب تقریباً 90 معمولی جنگلاتی پیداوار ہیں جن پر حکومت کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) دے رہی ہے۔ 50 ہزار سے زیادہ ون دھن خود امدادی گروپوں کے ذریعے لاکھوں قبائلی لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔ قبائلی معاشرے نے ملک میں بننے والے خود امدادی گروپوں کے بڑے نیٹ ورک سے بھی فائدہ اٹھایا ہے۔ اس وقت مختلف ریاستوں میں 80 لاکھ سے زیادہ خود امدادی گروپ کام کر رہے ہیں۔ ان گروپوں میں 1.25 کروڑ سے زیادہ قبائلی ہیں، ہماری مائیں بہنیں بھی ہیں۔ قبائلی خواتین بھی اس کا بڑا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔
بھائیو اور بہنو،
آج حکومت کا زور قبائلی فنون کو فروغ دینے اور قبائلی نوجوانوں کی مہارتوں کو بڑھانے پر بھی ہے۔ اس بار کے بجٹ میں روایتی کاریگروں کے لیے پی ایم وشوکرما اسکیم شروع کرنے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ پی ایم- وشوکرما کے تحت آپ کو مالی امداد دی جائے گی، ہنر کی تربیت دی جائے گی، آپ کی مصنوعات کی مارکیٹنگ کے لیے مدد دی جائے گی۔ اس سے ہماری نوجوان نسل کو بہت فائدہ ہو گا۔ اور دوستو یہ کوششیں صرف چند شعبوں تک محدود نہیں ہیں۔ ہمارے ملک میں سیکڑوں قبائلی برادریاں ہیں۔ ان کے پاس بہت سی روایات اور ہنر ہیں، جن میں لامحدود امکانات پوشیدہ ہیں۔ اس لیے ملک میں نئے قبائلی تحقیقی ادارے بھی کھولے جا رہے ہیں۔ ان کوششوں سے قبائلی نوجوانوں کے لیے ان کے اپنے علاقوں میں نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔
ساتھیو،
جب میں 20 سال پہلے گجرات کا وزیر اعلیٰ بنا تو میں نے وہاں ایک بات نوٹ کی تھی۔ وہاں قبائلی پٹی میں جو بھی اسکول تھے، اتنی بڑی قبائلی برادری تھی، لیکن پچھلی حکومتوں نے قبائلی علاقوں میں سائنس اسٹریم کے اسکول بنانے کو ترجیح نہیں دی۔ اب سوچیں کہ جب ایک قبائلی بچہ سائنس بالکل نہیں پڑھے گا تو وہ ڈاکٹر انجینئر کیسے بنے گا؟ ہم نے اس پوری پٹی میں قبائلی علاقوں کے اسکولوں میں سائنس کی تعلیم کے انتظامات کرکے اس چیلنج کو حل کیا۔ قبائلی بچے خواہ وہ ملک کے کسی بھی کونے میں ہوں، ان کی تعلیم اور ان کا مستقبل میری ترجیح ہے۔
آج ملک میں ایکلویہ ماڈل رہائشی اسکولوں کی تعداد میں پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔ 2004 سے 2014 کے درمیان 10 سالوں میں صرف 90 ایکلویہ رہائشی اسکول کھولے گئے۔ لیکن، 2014 سے 2022 کے ان 8 سالوں میں، 500 سے زیادہ ایکلویہ اسکولوں کو منظوری دی گئی ہے۔ اس وقت ان میں سے 400 سے زائد اسکولوں میں تعلیم کا آغاز ہو چکا ہے۔ ان نئے اسکولوں میں ایک لاکھ سے زیادہ قبائلی طلباء نے تعلیم حاصل کرنا شروع کردیا ہے۔ اس سال کے بجٹ میں ایسے اسکولوں میں 40 ہزار سے زائد اساتذہ اور ملازمین کی بھرتی کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ درج فہرست قبائل کے نوجوانوں کو دی جانے والی اسکالرشپ میں بھی دو گنا سے زیادہ اضافہ کیا گیا ہے۔ 30 لاکھ طلباء اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
ساتھیو،
زبان کی رکاوٹ کی وجہ سے قبائلی نوجوانوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن نئی قومی تعلیمی پالیسی میں مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے متبادل بھی کھل گئے ہیں۔ اب ہمارے قبائلی بچے، قبائلی نوجوان اپنی زبان میں تعلیم حاصل کر کے آگے بڑھ سکیں گے۔
ساتھیو،
جب ملک آخری منزل پر کھڑے شخص کو اپنی ترجیح میں شامل کرتا ہے تو ترقی کی راہیں خود بخود کھل جاتی ہیں۔ ہماری حکومت پسماندہ افراد کو ترجیح دینے کے منتر کے ساتھ ملک کی ترقی کے لیے نئی جہتوں کو چھو رہی ہے۔ حکومت توقعاتی اضلاع اور توقعاتی بلاکوں کو ترقی دینے کی مہم چلا رہی ہے، جن میں سے زیادہ تر قبائلی اکثریتی علاقے ہیں۔
اس سال کے بجٹ میں درج فہرست قبائل کے لیے دیے گئے بجٹ میں بھی 2014 کے مقابلے میں 5 گنا اضافہ کیا گیا ہے۔ قبائلی علاقوں میں بہتر جدید انفرااسٹرکچر بنایا جا رہا ہے۔ جدید رابطوں میں اضافے کے ساتھ سیاحت اور آمدنی کے مواقع بھی بڑھ رہے ہیں۔ ملک کے ہزاروں دیہات، جو کبھی بائیں بازو کی انتہا پسندی سے متاثر تھے، اب 4 جی کنکٹیوٹی سے منسلک ہو رہے ہیں۔ یعنی جو نوجوان الگ تھلگ رہنے کی وجہ سے علیحدگی پسندی کے جال میں پھنس جاتے تھے، وہ اب انٹرنیٹ اور انفرا کے ذریعے قومی دھارے سے جڑ رہے ہیں۔ یہ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس‘وہ مرکزی دھارا ہے جو دور دراز ملک کے ہر شہری تک پہنچ رہا ہے۔ یہ قدیم اور جدیدیت کے سنگم کی آواز ہے جس پر نئے ہندوستان کی بلند عمارت کھڑی ہوگی۔
ساتھیو،
گزشتہ 8-9 سالوں میں قبائلی معاشرے کا سفر اس تبدیلی کا گواہ ہے کہ ملک کس طرح مساوات اور ہم آہنگی کو ترجیح دے رہا ہے۔ آزادی کے 75 سالوں میں پہلی بار ملک کی قیادت کسی قبائلی کے ہاتھ میں آئی ہے۔ پہلی بار، ایک قبائلی خاتون صدر کی شکل میں اعلیٰ ترین عہدے پر ہندوستان کا سر فخر سے بلند کر رہی ہیں۔ آج پہلی بار ملک میں قبائلی تاریخ کو اتنی پہچان مل رہی ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے قبائلی معاشرے نے ملک کی آزادی کی جدوجہد میں کتنا بڑا تعاون دیا ہے، کتنا بڑا کردار ادا کیا ہے۔ لیکن، کئی دہائیوں سے تاریخ کے ان سنہرے ابواب، بہادر مرد و خواتین کی ان قربانیوں پر پردہ ڈالنے کی کوششیں جاری تھیں۔ اب امرت مہوتسو میں ملک نے ماضی کے ان بھولے ہوئے ابواب کو ملک کے سامنے لانے کی پہل کی ہے۔
پہلی بار، ملک نے بھگوان برسا منڈا کے یوم پیدائش پر قبائلی فخر کا دن منانا شروع کیا ہے۔ پہلی بار مختلف ریاستوں میں آدیواسی سوتنترا سینانی میوزیم یعنی قبائلی مجاہدین آزادی میوزیم کھولے جا رہے ہیں۔ پچھلے سال ہی، مجھے جھارکھنڈ کے رانچی میں بھگوان برسا منڈا کے لیے وقف میوزیم کا افتتاح کرنے کا موقع ملا۔ ایسا ملک میں پہلی بار ہو رہا ہے لیکن اس کا اثر آنے والی نسلوں میں نظر آئے گا۔ یہ تحریک کئی صدیوں تک ملک کو سمت دے گی۔
ساتھیو،
ہمیں اپنے ماضی کو بچانا ہے، فرض کے احساس کو حال میں بام عروج پر لے جانا ہے اور مستقبل کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرتے ہوئے جینا ہے۔ آدی مہوتسو جیسے پروگرام ان عزائم کو آگے بڑھانے کا ایک مضبوط ذریعہ ہیں۔ ہمیں اسے ایک مہم کے طور پر آگے بڑھانا ہے، اسے ایک عوامی تحریک بنانا ہے۔ اس طرح کی زیادہ سے زیادہ تقریبات مختلف ریاستوں میں منعقد ہونی چاہئیں۔
ساتھیو،
اس سال پوری دنیا ہندوستان کی پہل پر انٹرنیشنل ملٹس ایئر بھی منا رہی ہے۔ ملٹس جسے ہم عام زبان میں موٹے اناج کے طور پر جانتے ہیں، اور جو صدیوں سے ہماری صحت کی بنیاد یہ موٹا اناج تھا۔ اور یہ ہمارے قبائلی بھائی بہنوں کی خوراک کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ اب ہندوستان میں یہ موٹا اناج ایک قسم کا سپر فوڈ ہے، اس سپرفوڈ کو شری انیہ کی پہچان دی ہے۔ شری انیہ باجرہ، شری انیہ جوار، شری انیہ راگی، اس طرح کے کتنے ہی نام ہیں۔ یہاں کے مہوتسو کے فوڈ اسٹالوں پر ہمیں شری انیہ کا ذائقہ اور خوشبو بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ہمیں قبائلی علاقوں کے شری انیہ کی بھی زیادہ سے زیادہ تشہیر کرنی ہے۔
اس سے نہ صرف لوگوں کو صحت کے فوائد حاصل ہوں گے بلکہ قبائلی کسانوں کی آمدنی بھی بڑھے گی۔ مجھے یقین ہے کہ ہماری ان کوششوں سے ہم ایک ترقی یافتہ ہندوستان کا خواب پورا کرسکیں گے۔ اور جب آج وزارت نے دہلی میں اتنا بڑا پروگرام منعقد کیا ہے۔ ملک بھر سے ہمارے قبائلی بھائی بہنیں بہت سی متنوع چیزیں بنا کر یہاں لائے ہیں۔ خاص طور پر کھیت میں پیدا ہونے والی عمدہ چیزیں یہاں لائی گئی ہیں۔ آج میں دہلی کے لوگوں، گڑگاؤں اور ہریانہ کے قریب دیگر علاقوں کے لوگوں، اتر پردیش کے نوئیڈا-غازی آباد کے لوگوں سے اور خاص طور پر دہلی کے لوگوں سے بڑی تعداد میں آنے کی درخواست کرتا ہوں۔ یہ میلہ آئندہ چند روز تک کھلا رہے گا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس ملک کی کس قسم کی قوتیں دور دراز کے جنگلوں میں ملک کا مستقبل بنا رہی ہیں۔
جو لوگ صحت کے تئیں حساس ہیں، جو کھانے کی میز پر ہر چیز کا بہت خیال رکھتے ہیں، خاص طور پر ایسی ماؤں اور بہنوں سے، میری آپ سے گزارش ہے کہ آئیں اور دیکھیں کہ ہمارے جنگلات کی پیداوار جسمانی غذائیت کے لیے کتنی بھرپور ہے۔ آپ محسوس کریں گے اور مستقبل میں آپ مسلسل وہاں سے آرڈر کریں گے۔ اب جیسے یہاں ہمارے پاس شمال مشرق سے ہلدی ہے، خاص طور پر ہمارے میگھالیہ سے۔ اس کے اندر جو غذائیت ہے، ویسی ہلدی شاید دنیا میں کہیں اور نہیں۔ جب ہم اسے لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اب ہم اسی ہلدی کو اپنے کچن میں استعمال کریں گے۔ اور اسی لیے میں دہلی، ہریانہ اور اتر پردیش کے لوگوں سے جو یہاں کے قریب ہیں، ان سے خصوصی طور پر درخواست کرتا ہوں کہ وہ یہاں آئیں اور میں چاہوں گا کہ دہلی دم دکھائے کہ میرے آدی واسی بھائی بہن جو چیزیں لے کر آئے ہیں، ایک بھی چیز ان کو واپس لے جانے کا موقع نہیں ملے گا۔ ساری کی ساری چیزیں یہاں فروخت ہوجانی چاہئیں۔ ان کو ایک نیا جوش ملے گا، ہمیں ایک اطمینان حاصل ہوگا۔
آئیے، ہم مل کر اس آدی مہوتسو کو ناقابل فراموش بنائیں، یادگار بنائیں، اسے بہت کامیاب بنائیں۔ آپ سب کو میری طرف سے بہت بہت نیک خواہشات۔
بہت بہت شکریہ!