میرے کابینہ کے ساتھی جناب دھرمیندر پردھان جی، اناپورنا دیوی جی، راجکمار رنجن سنگھ جی، سبھاش سرکار جی، ملک کے مختلف حصوں سے آئے اساتذہ، معزز دانشور اور ملک بھر سے میرے پیارے طالب علم دوست۔
تعلیم ہی ملک کو کامیاب بنانے اور ملک کی تقدیر بدلنے کی سب سے زیادہ طاقت رکھتی ہے۔ آج 21ویں صدی کا بھارت جن مقاصد کے لیے آگے بڑھ رہا ہے، ان میں ہمارے تعلیمی نظام کی بھی بہت اہمیت ہے۔ آپ سب اس نظام کے نمائندے ہیں، پرچم بردار ہیں۔ اس لیے ’آل انڈیا ایجوکیشن کانفرنس‘ کا حصہ بننا میرے لیے بھی بہت اہم موقع ہے۔
میں متفق ہوں، سیکھنے کے لیے مذاکرہ بہت ضروری ہے۔ تعلیم کے لیے رابطہ ضروری ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آل انڈیا ایجوکیشن کانفرنس کے اس سیشن کے ذریعے ہم اپنے مذاکرے اور فکر کی روایت کو مزید آگے لے جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے کاشی میں نو تعمیر شدہ رودراکش آڈیٹوریم میں اس طرح کا ایک پروگرام منعقد کیا گیا تھا۔ اس بار یہ سماگم دلی کے اس نو تعمیر شدہ بھارت منڈپم میں ہو رہا ہے۔ اور یہ خوشی کی بات ہے کہ بھارت منڈپم کے باقاعدہ افتتاح کے بعد یہ پہلا پروگرام ہے اور خوشی میں اضافہ اس لیے ہو جاتا ہے کہ پہلا پروگرام تعلیم سے متعلق منعقد کیا جا رہا ہے۔
ساتھیو،
کاشی کے رودراکش سے لے کر اس جدید بھارت منڈپم تک، اکھل بھارتیہ شکشا سماگم کے اس سفر میں بھی ایک پیغام چھپا ہوا ہے۔ یہ ہے قدیمیت اور جدیدیت کے سنگم کا پیغام! یعنی ایک طرف ہمارا تعلیمی نظام بھارت کی قدیم روایات کو محفوظ کر رہا ہے اور دوسری طرف جدید سائنس اور ہائی ٹیک ٹیکنالوجی، اس میدان میں بھی ہم اتنی ہی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ اس تقریب کے لیے، تعلیمی نظام میں آپ کے تعاون کے لیے، میں آپ سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
اتفاق سے آج ہماری قومی تعلیمی پالیسی کو بھی 3 سال مکمل ہو رہے ہیں۔ ملک بھر کے دانشوروں، ماہرین تعلیم اور اساتذہ نے اسے ایک مشن کے طور پر لیا اور آگے بڑھایا ہے۔ آج اس موقع پر میں ان سب کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان کے تئیں اظہار تشکر کرتا ہوں۔
ابھی یہاں آنے سے پہلے میں پاس کے برآمدے میں نمائش دیکھ رہا تھا۔ اس نمائش میں ہماری مہارت اور تعلیم کے شعبے کی طاقت اور کامیابیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ نئے جدید طریقے دکھائے گئے ہیں۔ مجھے وہاں کنڈرگارٹن میں بچوں سے ملنے اور ان سے بات کرنے کا موقع ملا۔ میرے لیے یہ دیکھنا واقعی حوصلہ افزا تھا کہ بچے کھیلتے ہوئے کیسے اتنا سیکھ رہے ہیں، تعلیم اور اسکولنگ کے معنی کیسے بدل رہے ہیں۔ اور میں آپ سب سے یہ بھی گزارش کروں گا کہ پروگرام ختم ہونے کے بعد جب بھی آپ کو موقع ملے آپ وہاں ضرور جائیں اور وہ تمام سرگرمیاں ضرور دیکھیں۔
ساتھیو،
جب عہد سازی میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، تو وہ اپنا وقت لیتی ہیں۔ تین سال قبل جب ہم نے قومی تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا تو ہمارے سامنے ایک بہت بڑا کام تھا۔ لیکن قومی تعلیمی پالیسی کو نافذ کرنے کے لیے آپ سب نے جس فرض شناسی کا مظاہرہ کیا، جس لگن کا مظاہرہ کیا اور نئے خیالات کو قبول کرنے کی ہمت دکھائی، اور کھلے ذہن کے ساتھ نئے تجربات کو قبول کیا، یہ واقعی زبردست ہے اور اس سے نئےسرے سے اعتماد پیدا ہوتا ہے۔
آپ سب نے اسے ایک مشن کے طور پر لیا ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی میں روایتی علمی نظام سے لے کر مستقبل کی ٹیکنالوجی تک کو متوازن انداز میں یکساں اہمیت دی گئی ہے۔ پرائمری تعلیم کے شعبے میں نئے نصاب کی تیاری، علاقائی زبانوں میں کتابیں لانے، اعلیٰ تعلیم کے لیے، ملک میں تحقیق کے ایکو نظام کو مضبوط بنانے کے لیے ملک کی تعلیمی دنیا کی تمام عظیم شخصیات نے محنت کی ہے۔
ملک کے عام شہری اور ہمارے طلباء نئے نظام سے بخوبی واقف ہیں۔ انہیں معلوم ہوا ہے کہ ’ٹین پلس ٹو‘ تعلیمی نظام کے بجائے اب ’فائیو پلس تھری‘ پلس تھری پلس فور‘ کا نظام نافذ کیا جا رہا ہے۔ تعلیم بھی تین سال کی عمر سے شروع ہو جائے گی۔ اس سے پورے ملک میں یکسانیت آئے گی۔
حال ہی میں کابینہ نے نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی منظوری دی ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی کے تحت نیشنل کریکولم فریم ورک بھی جلد نافذ ہونے والا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ فاؤنڈیشن اسٹیج یعنی 3 سے 8 سال کی عمر کے بچوں کے لیے ایک فریم ورک بھی تیار کیا گیا ہے۔ باقی جماعتوں کا نصاب بہت جلد مکمل کر لیا جائے گا۔ قدرتی طور پر، اب ملک بھر کے سی بی ایس ای اسکولوں میں ایک مشترکہ نصاب ہوگا۔ این سی ای آر ٹی اس کے لیے نئی نصابی کتابیں تیار کر رہی ہے۔ تیسری جماعت سے بارہویں تک تقریباً 130 مضامین پر نئی کتابیں آرہی ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ چونکہ اب علاقائی زبانوں میں بھی تعلیم دی جانی ہے، یہ کتابیں 22 بھارتی زبانوں میں ہوں گی۔
ساتھیو،
نوجوانوں کو ان کے ہنر کے بجائے ان کی زبان کی بنیاد پر پرکھنا ان کے ساتھ سب سے بڑا ظلم ہے۔ مادری زبان میں تعلیم کی وجہ سے بھارت کے نوجوان صلاحیت کے ساتھ حقیقی انصاف شروع ہونے والا ہے۔ اور یہ سماجی انصاف کے لیے بھی ایک اہم قدم ہے۔ دنیا میں سینکڑوں مختلف زبانیں ہیں۔ ہر زبان کی اپنی اہمیت ہے۔ دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک نے اپنی زبان کی وجہ سے کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اگر ہم صرف یورپ کو دیکھیں تو وہاں کے بیشتر ممالک صرف اپنی مادری زبان استعمال کرتے ہیں۔ لیکن یہاں اتنی بھرپور زبانیں ہونے کے باوجود ہم اپنی زبانوں کو پسماندہ قرار دیتے ہیں۔ اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسی کا دماغ کتنا ہی اختراعی ہو، اگر وہ انگریزی نہیں بول سکتا ، تو اس کی قابلیت کو آسانی سے قبول نہیں کیا جاتا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان ہمارے دیہی علاقوں کے ہونہار بچوں کو ہوا ہے۔ آج آزادی کے سنہری دور میں قومی تعلیمی پالیسی کے ذریعے ملک نے اس احساس کمتری کو پیچھے چھوڑنا شروع کر دیا ہے اور میں اقوام متحدہ میں بھی بھارت کی زبان بولتا ہوں۔ سننے والے کو تالی بجانے میں وقت لگے تو لگے ۔
ساتھیو،
اب سماجی علوم سے انجینئرنگ تک کی تعلیم بھی بھارتی زبانوں میں دی جائے گی۔ نوجوانوں میں زبان پر اعتماد ہوگا تو ان کی صلاحیتیں اور ہنر بھی سامنے آئے گا اور، اس کا ملک کو ایک اور فائدہ ہوگا۔ زبان کی سیاست کر کے نفرت کی دکان چلانے والوں کا بھی منہ بند کر دیا جائے گا۔ قومی تعلیمی پالیسی سے ملک کی ہر زبان کا احترام ہوگا اور اسے فروغ حاصل ہوگا۔
ساتھیو،
آزادی کے امرت مہوتسو میں آئندہ 25 سال بہت اہم ہیں۔ ان 25 سال میں ہمیں توانائی سے بھرپور نوجوان نسل تیار کرنی ہے۔ وہ نسل جو غلامی کی ذہنیت سے آزاد ہو۔ ایسی نسل، جو نئی ایجادات کے لیے ترس رہی ہے۔ ایسی نسل جو سائنس سے لے کر کھیل تک ہر میدان میں بھارت کا نام روشن کرتی ہو، بھارت کا نام آگے لے جاتی ہو۔ ایک ایسی نسل جو 21ویں صدی کے بھارت کی ضروریات کو سمجھتی ہو، اپنی صلاحیت کو بڑھاتی ہو اور ایسی نسل، جو فرض کے احساس سے معمور ہو، اپنی ذمہ داریوں کو جانتی اور سمجھتی ہو، اس میں قومی تعلیمی پالیسی کا بہت بڑا کردار ہے۔
ساتھیو،
معیاری تعلیم کی دنیا میں بہت سے مرحلے ہیں، لیکن، جب ہم بھارت کی بات کرتے ہیں، تو ہمارے پاس ایک بڑی کوشش ہے - مساوات! قومی تعلیمی پالیسی کی ترجیح یہ ہے کہ بھارت کے ہر نوجوان کو یکساں تعلیم اور اس کے ،مساوی موقع ملیں۔ جب ہم مساوی تعلیم اور مساوی موقعوں کی بات کرتے ہیں تو صرف اسکول کھولنے سے یہ ذمہ داری پوری نہیں ہوتی۔ مساوی تعلیم کا مطلب- تعلیم کے ساتھ ساتھ وسائل تک مساوات ہونی چاہیے۔ مساوی تعلیم کا مطلب ہے - ہر بچے کی سمجھ اور پسند کے مطابق اسے اختیارات ملتے ہیں۔ مساوی تعلیم کا مطلب ہے کہ بچوں کو مقام، طبقے، علاقہ کی وجہ سے تعلیم سے محروم نہ کیا جائے۔
اسی لیے، قومی تعلیمی پالیسی کا وژن یہ ہے، ملک کی کوشش ہے کہ نوجوانوں کو ہر طبقے، گاؤں، شہر، امیر غریب میں یکساں موقعے ملے۔ آپ نے دیکھا کہ پہلے بہت سے بچے صرف اس وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر پاتے تھے کہ دور دراز علاقوں میں اچھے اسکول نہیں تھے۔ لیکن آج ملک بھر میں ہزاروں اسکولوں کو پی ایم - شری اسکولوں کے طور پر اپ گریڈ کیا جارہا ہے۔ ’5 جی‘کے اس دور میں یہ جدید ہائی ٹیک اسکول بھارت کے طلبہ کے لیے جدید تعلیم کا ذریعہ بنیں گے۔
آج قبائلی علاقوں میں ایکلویہ قبائلی اسکول بھی کھولے جا رہے ہیں۔ آج ہر گاؤں میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے۔ دور دراز کے بچے دیکشا، سویم اور سویم پربھا جیسے ذرائع سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ بہترین کتابیں ہوں، تخلیقی انداز میں سیکھنے تکنیک، آج ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے ہر گاؤں میں نئے خیالات، نئے انتظامات، نئے موقعے دستیاب ہو رہے ہیں یعنی بھارت میں پڑھائی کے لیے درکار وسائل کا فرق بھی تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔
ساتھیو،
آپ جانتے ہیں کہ قومی تعلیمی پالیسی کی ایک بڑی ترجیح یہ ہے کہ تعلیم کو صرف کتابوں تک محدود نہ رکھا جائے، بلکہ عملی تعلیم کو اس کا حصہ بنایا جائے۔ اس کے لیے پیشہ ورانہ تعلیم کو عام تعلیم کے ساتھ مربوط کرنے پر بھی کام کیا جا رہا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ فائدہ کمزور، پسماندہ اور دیہی ماحول کے بچوں کو ہوگا۔
کتابی مطالعہ کے بوجھ کی وجہ سے یہ بچے سب سے پیچھے رہ گئے۔ لیکن نئی قومی تعلیمی پالیسی کے تحت اب نئے طریقوں سے پڑھائی جائے گی۔ یہ مطالعہ انٹرایکٹو ہونے کے ساتھ ساتھ دلچسپ بھی ہوگا۔ اس سے پہلے لیب اور پریکٹیکل سہولیات بہت کم اسکولوں میں دستیاب تھیں۔ لیکن، اب 75 لاکھ سے زیادہ بچے اٹل ٹنکرنگ لیبز میں سائنس اور اختراعات سیکھ رہے ہیں۔ سائنس اب سب کے لیے یکساں طور پر قابل رسائی ہوتی جا رہی ہے۔ یہ نوجوان سائنسدان مستقبل میں ملک کے بڑے پروجیکٹوں کی قیادت کریں گے اور بھارت کو دنیا کا تحقیقی مرکز بنائیں گے۔
ساتھیو،
کسی بھی اصلاح کے لیے ہمت کی ضرورت ہوتی ہے اور جہاں ہمت ہوتی ہے وہاں نئے امکانات جنم لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھارت کو نئے امکانات کی نرسری کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ آج دنیا جانتی ہے کہ جب سافٹ ویئر ٹیکنالوجی کی بات آتی ہے تو مستقبل بھارت کا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ جب خلائی ٹیکنالوجی کی بات آتی ہے تو بھارت کی صلاحیت کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ جب دفاعی ٹیکنالوجی کی بات آتی ہے تو بھارت کا ’کم لاگت‘ اور ’بہترین کوالٹی‘ کا ماڈل ہٹ ہونے والا ہے۔ ہمیں دنیا کے اس اعتماد کو کمزور نہیں ہونے دینا چاہیے۔
گزشتہ برسوں میں جس رفتار سے بھارت کی صنعتی ساکھ میں اضافہ ہوا ہے، جس رفتار سے ہمارے اسٹارٹ اپ دنیا میں بڑھے ہیں، اس سے پوری دنیا میں ہمارے تعلیمی اداروں کی عزت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ تمام عالمی درجہ بندیوں میں بھارتی اداروں کی تعداد بڑھ رہی ہے، ہماری درجہ بندی بھی بڑھ رہی ہے۔ آج ہمارے آئی آئی ٹیز کے دو کیمپس زنجبار اور ابوظبی میں کھل رہے ہیں۔ بہت سے دوسرے ممالک بھی ہم پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اپنی جگہوں پر آئی آئی ٹی کیمپس کھولیں۔ دنیا میں اس کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ ہمارے تعلیمی ماحولیاتی نظام میں آنے والی ان مثبت تبدیلیوں کی وجہ سے، بہت سی عالمی یونیورسٹیاں بھی بھارت میں اپنے کیمپس کھولنا چاہتی ہیں۔ آسٹریلیا کی دو یونیورسٹیاں گجرات کے گفٹ سٹی میں اپنے کیمپس کھولنے والی ہیں۔ ان کامیابیوں کے درمیان، ہمیں اپنے تعلیمی اداروں کو مسلسل مضبوط کرنا ہوگا اور انہیں مستقبل کے لیے تیار کرنے کے لیے سخت محنت کرنی ہوگی۔ ہمیں اپنے اداروں، اپنی یونیورسٹیوں، اپنے اسکولوں اور کالجوں کو اس انقلاب کا مرکز بنانا ہے۔
ساتھیو،
قابل نوجوانوں کی تعمیر ہی ایک مضبوط قوم کی تعمیر کی سب سے بڑی ضمانت ہوتی ہے اور نوجوانوں کی تعمیر میں پہلا کردار والدین اور اساتذہ کا ہوتا ہے۔ اس لیے میں اساتذہ اور والدین سے یہ کہنا چاہوں گا کہ بچوں کو آزادانہ طور پر پرواز کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ ہمیں ان میں اعتماد پیدا کرنا ہوگا تاکہ وہ ہمیشہ کچھ نیا سیکھنے اور کرنے کی ہمت کریں۔ ہمیں مستقبل پر نظر رکھنی ہے، مستقبل کے نظریے سے سوچنا ہوگا ۔ ہمیں بچوں کو کتابوں کے دباؤ سے آزاد کرنا ہوگا۔
آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) جیسی ٹیکنالوجی جو کل تک سائنس فکشن میں ہوا کرتی تھی، اب ہماری زندگی کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔ روبوٹکس اور ڈرون ٹیکنالوجی ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ اس لیے ہمیں پرانی سوچ سے نکل کر نئے دائروں میں سوچنا ہو گا۔ ہمیں اپنے بچوں کو اس کے لیے تیار کرنا ہے۔ میں اپنے اسکولوں میں مستقبل کی ٹیکنالوجی سے متعلق انٹرایکٹو سیشنز کرنا چاہوں گا۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کی بات ہو ، موسمیاتی تبدیلی ہو یا صاف توانائی، ہمیں اپنی نئی نسل کو بھی ان سب سے آگاہ کرنا ہوگا۔ اس لیے ہمیں اپنے نظام تعلیم کو اس طرح تیار کرنا ہو گا کہ نوجوان اس جانب آگاہ ہوں اور ان کے تجسس میں اضافہ ہو ۔
ساتھیو،
جیسے جیسے بھارت مضبوط ہو رہا ہے، بھارت کی شناخت اور روایات میں دنیا کی دلچسپی بھی بڑھ رہی ہے۔ ہمیں اس تبدیلی کو دنیا کی توقع کے طور پر ماننا ہوگا۔ یوگ، آیوروید، آرٹ، موسیقی، ادب اور ثقافت کے شعبوں میں مستقبل کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ ہمیں اپنی نئی نسل کو ان سے متعارف کرانا ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ آل انڈیا ایجوکیشن کانفرنس کے لیے یہ تمام مضامین ترجیحی حیثیت رکھتے ہوں گے۔
بھارت کے مستقبل کی تشکیل کے لیے آپ سب کی یہ کوششیں ایک نئے بھارت کی بنیاد ڈالیں گی اور مجھے پختہ یقین ہے کہ 2047 میں ہم سب کا ایک خواب ہے، ہم سب کے پاس ایک قرارداد ہے کہ جب ملک آزادی کے 100 سال منائے گا، 2047 میں ہمارا ملک ایک ترقی یافتہ بھارت ہوگا اور یہ دور اُن نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے جو آج آپ کے ساتھ تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ جو آج آپ کے ساتھ تیار ہو رہے ہیں، وہ کل ملک کو تیار کرنے والے ہیں اور اسی لیے آپ سب کو بہت سی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں، اس خواب کو پورا کرنے کے لیے ہر نوجوان کے دل میں عزم کا جذبہ پیدا ہونا چاہیے، اس عزم کو سچ کرنے کے لیے محنت کی انتہا ہونی چاہیے، کامیابیاں حاصل کرتے رہیں، آگے بڑھیں۔ اس نیت کے ساتھ آگے بڑھیں۔
میں آپ سب کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں، آپ کا بہت بہت شکریہ!