‘‘ میں ہندوستان کے ہر شہری کے ساتھ بار بار حکومت پر اعتماد ظاہر کرنے کے لئے بے حد ممنونیت کااظہار کرنے آیا ہوں’’
‘‘بہت سی اہم قانون سازیوں پر وہ بحث نہیں ہو سکی جس کی وہ حقدار تھیں کیوں کہ اپوزیشن نے سیاست کو ان سے اوپر رکھا’’
‘‘اگلے ہزار برسوں تک 21ویں صدی کا یہ وقت ملک کو متاثر کرے گا۔ ہم سب کی توجہ کا مرکزایک ہی ہونا چاہئے ’’
‘‘ہم نے ہندوستان کے نوجوانوں کو گھوٹالوں سے پاک حکومت دی ہے’’
‘‘آج غریب کے دل میں اپنے خوابوں کی تکمیل کے بارے میں ایک اعتماد پیدا ہوا ہے’’
‘‘اپوزیشن عوام کا اعتماد نہیں دیکھ پا رہی کیونکہ وہ بے اعتمادی میں ڈوبی ہوئی ہے’’
‘‘ جب آپ 2028 میں تحریک عدم اعتمادلائیں گے، ملک ٹاپ 3 میں شامل ہو گا’’
‘‘اپوزیشن نام بدلنے پر یقین رکھتی ہے لیکن اپنا ورک کلچر نہیں بدل سکتی’’
‘‘مجاہدین آزادی اور ملک کے بانیوں نے ہمیشہ خاندانی سیا ست کی مخالفت کی’’
‘‘خواتین کے خلاف جرائم ناقابل قبول ہیں اور مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کام کریں گی کہ قصورواروں کو سزا دی جائے’’
‘‘منی پورمیں امن ہوگا اور وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا’’
‘‘میں منی پور کے لوگوں، منی پور کی ماؤں اور بیٹیوں کو یقین دلاتا ہوں کہ قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے اور ایوان ان کے ساتھ کھڑا ہے’’
‘‘حکومت منی کو دوبارہ ترقی کی پٹری پر لانے کے سلسلے میں کوئی کسر اٹھانہیں رکھے گی’’
‘‘ہماری حکومت نے شمال مشرق کی ترقی کو پہلی ترجیح دی ہے’’
‘‘ہمارے لئے سب کا ساتھ سب کا وشواس کوئی نعرہ نہیں بلکہ ایمان کا حصہ ہے، ایک عہد ہے’’
‘‘پارلیمنٹ کسی پارٹی کا پلیٹ فارم نہیں ہے۔ پارلیمنٹ ملک کا سب سے قابل احترام ادارہ ہے۔ یہاں کا ہر لمحہ ملک کے لئے استعمال کیاجانا چاہئے’’
‘‘آج کا ہندوستان دباؤ سے ٹوٹتا نہیں ہے ۔ آج کا ہندوستان نہ جھکتا ہے، نہ تھکتا ہے اور نہ رکتا ہے’’

عزت مآب اسپیکر صاحب ،

پچھلے تین دنوں سے کئی سینئر قابل احترام ممبران نے اپنے خیالات کااظہار کیا ہے۔ تقریباً سبھی کے خیالات مجھ تک تفصیل سے پہنچے بھی ہیں۔ میں نے خود بھی کچھ تقریریں سنی ہیں ۔ محترم اسپیکر ، ملک کے عوام نے ہماری حکومت کے تئیں بار بار جو اعتماد ظاہر کیا ہے، میں آج کروڑوں شہریوں کا شکریہ ادا کرنے کیلئے حاضر ہوا ہوں اور محترم اسپیکر ، کہتے ہیں بھگوان بہت رحم دل ہیں اور بھگوان کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی کے ذریعے اپنی خواہش کو پورا کرتا ہے،کسی نہ کسی کو ذریعہ بناتا ہے۔ میں اسے بھگوان کا آشیرواد مانتا ہوں کہ ایشور نے حزب مخالف کو سمجھ دی اور وہ یہ تحریک لے کر آئے۔ 2018 میں بھی یہ ایشور کا ہی حکم تھا جب اپوزیشن کےمیرے ساتھی عدم اعتماد کی تحریک لے کر آئے تھے۔ اس وقت بھی میں نے کہا تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک ہماری حکومت کیلئے فلور ٹیسٹ نہیں ہے ، میں نے اس دن کہا تھا۔ بلکہ یہ انہی کا فلور ٹیسٹ ہے، یہ میں نے اس دن بھی کہا تھا ۔ اور ہوا بھی وہی جب ووٹنگ ہوئی تو حزب اختلاف کے پاس جتنے ووٹ تھے اتنے ووٹ بھی وہ جمع نہیں کرپائے تھے۔ اور اتنا ہی نہیں، جب ہم سب عوام کے پاس گئے تو عوام نے بھی پوری طاقت کے ساتھ ان کے لئے عدم اعتماد کا اعلان کردیا۔ اور انتخابات میں این ڈی اے کو بھی زیادہ سیٹیں ملیں اور بی جے پی کو بھی زیادہ سیٹیں ملیں۔ یعنی ایک طرح سے حزب اختلاف کی عدم اعتماد کی تحریک ہمارے لئے نیک فال ہوتی ہے ، اور میں آج دیکھ رہا ہوں کہ آپ نے طے کرلیا ہے کہ این ڈی اے اور بی جے پی 2024 کے انتخابات میں پرانے تمام ریکارڈ توڑ کر شاندار جیت کے ساتھ عوام کےآشیرواد سے واپس آئے گی۔

عزت مآب اسپیکرصاحب،

اپوزیشن کی تحریک پر یہاں تین دنوں سے الگ الگ موضوعات پر کافی بحث ہوئی ہے۔ اچھا ہوتا کہ اجلاس کی شروعات کے بعد سے ہی اپوزیشن نے سنجیدگی کے ساتھ ایوان کی کارروائی میں حصہ لیا ہوتا۔ گزشتہ دنوں اسی پارلیمنٹ نے اورہمارے دونوں ایوانوں نے عوامی اعتماد بل ، ثالثی بل، ڈینٹل کمیشن بل، آدیوسیوں سے متعلق بل، ڈیجیٹل ڈیٹا پروٹیکشن بل، نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن بل، کوسٹل ایکوا کلچر سے جڑا بل، ایسے کئی اہم بل یہاں پاس کیے ہیں۔ اور یہ ایسے بل تھے جو ہمارے ماہی گیروں کے حق کے لئے تھے، اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ کیرلا کو ہونا تھا اور کیرلا کے ممبران پارلیمنٹ سے زیادہ امید تھی کیونکہ وہ ایسے بل پر تو اچھے طریقے سے حصہ لیتے ہیں ۔ لیکن سیاست ان پر ایسی حاوی ہوچکی ہے کہ ان کو ماہی گیروں کی فکر نہیں ہے۔

یہاں نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن کا بل تھا ۔ ملک کے نوجوانوں کی طاقت کی امیدوں وآرزوؤں کے لئے ایک نئی سمت فراہم کرنے والا بل تھا۔ ہندوستان کو ایک سائنس پاور کے طور پر بھارت کیسے اُبھرے ویسے ایک طویل مدتی نظریے کے ساتھ سوچا گیا تھا، اس پر بھی آپ کو اعتراض ۔ ڈیجیٹل ڈیٹا پروٹیکشن بل، یہ طاقت اپنے آپ میں ملک کے نوجوانوں کے جذبے میں جو بات آج اہمیت سے ہے اس سے جڑا ہوا تھا۔ آنے والا وقت ٹیکنالوجی سے متحرک ہے ۔ آج ڈیٹا کو ایک طرح سے سیکنڈ آئل کے طور پر، سیکنڈ گولڈ کے طور پر مانا جاتا ہے۔ اس پر کتنی سنجیدہ بحث کی ضرورت تھی ۔ لیکن سیاست آپ کے لئے ترجیح تھی۔ کئی ایسے بل تھے جو گاؤں کے لیے ، غریب کے لیے، دلت کے لیے، پسماندوں کے لیے، آدیواسی کے لیے ، ان کی فلاح سے متعلق بحث کے لیے تھے۔ ان کے مستقبل کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ لیکن اس میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ملک کے عوام نے جس کام کے لیے ان کو یہاں بھیجا ہے اس عوام کو بھی دھوکہ دیا گیا ہے۔ اپوزیشن کی کچھ پارٹیوں کے لیے ان کے برتاؤ سے ، ان کے کردار سے ، انہوں نے ثابت کردیا ہے کہ ملک سےزیادہ ان کے لیے پارٹی ہے۔ ملک سے بڑی پارٹی ہے، ملک سے پہلے ترجیح پارٹی کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں آپ کو غریب کی بھوک کی فکر نہیں ہے، اقتدار کی بھوک ہی آپ کے دماغ پر سوار ہے۔ آپ کو ملک کے نوجوانوں کے مستقبل کی پرواہ نہیں ہے ۔ آپ کو اپنے سیاسی مستقبل کی فکر ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

آپ اکٹھا ہوئے، پارلیمنٹ کو ایک دن چلنے بھی دیا، کس کام کے لیے؟ آپ اکٹھا ہوئے تو عدم اعتماد کی تحریک پر اکٹھا ہوئے؟ اور اپنے کٹّر بدعنوان ساتھی، ان کی شرط پر مجبور ہوکر کے اور اس عدم اعتماد کی تحریک پر بھی آپ نے کیسی بحث کی؟ اور میں تو دیکھ رہا ہوں ، سوشل میڈیا میں آپ کے درباری بھی بہت دکھی ہیں، یہ حال ہے آپ کا۔

اور عزت مآب اسپیکر صاحب، دیکھیے مزہ اس ڈبیٹ کا کہ فیلڈنگ اپوزیشن نے آرگنائز کی لیکن چوکے چھکے یہیں سے لگے۔ اور اپوزیشن نو کانفیڈنس موشن پر نو بال، نو بال پر ہی آگے چلتا جارہا ہے۔ ادھر سے سنچری ہورہی ہے اُدھر سے نو بال ہورہی ہے۔

اسپیکر صاحب،

میں ہمارے اپوزیشن کے ساتھیوں سے یہی کہوں گا کہ آپ تیاری کرکے کیوں نہیں آتے جی۔ تھوڑی محنت کیجیے اور میں نے پانچ سال دیے آپ کو محنت کرنے کے لیے ، 18 میں کہا تھا کہ 23 میں آپ آنا ضرور آنا، پانچ سال بھی نہیں کرپائے آپ لوگ۔ کیا حال ہے آپ لوگوں کا، کیسی کسمپرسی ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

اپوزیشن کے ہمارے ساتھیوں کو‘دِکھاس ’ کی ’چھپاس‘ کی بہت خواہش رہتی ہے مگر فطری بات بھی ہے ۔ لیکن آپ یہ مت بھولیے کہ ملک بھی آپ کو دیکھ رہا ہے۔ آپ کے ایک ایک لفظ کو ملک غور سے سن رہا ہے۔ لیکن ہر بار ملک کو آپ نے مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا ہے۔ اور اپوزیشن کے رویے پر بھی میں کہوں گا، جن کے بہی کھاتے بگڑے ہوئے ہیں، جن کے بہی کھاتے خود کے بگڑے ہوئے ہیں۔وہ بھی ہم سے ہمارا حساب لیے پھرتے ہیں۔

عزت مآب اسپیکر صاحب ،

اس عدم اعتماد کی تحریک میں کچھ چیزیں تو ایسی عجب نظر آئیں، جنہیں نہ تو کبھی پہلے سنا ہے، نہ دیکھا ہے اور نہ کبھی تصور کیا ہے۔ سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کے لیڈر کو بولنے کی فہرست میں نام ہی نہیں تھا اور پچھلی مثال دیکھئے آپ، 1999 میں واجپئی سرکار کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی تھی۔ شرد پوار صاحب اس وقت قیادت کررہے تھے، انہوں نے ڈیبیٹ کی قیادت کی۔ 2003 میں اٹل جی کی سرکار تھی، سونیا جی اپوزیشن کی لیڈر تھیں، انہوں نے قیادت کی، انہوں نے تفصیل سے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی۔ 2018 میں کھڑگے جی تھے اپوزیشن کے لیڈر۔ انہوں نے نمایاں طریقے سے معاملے کو آگے بڑھایا، لیکن اس بار ادھیر بابو کو کیا خیال ہوگیا، ان کی پارٹی نے انہیں بولنے کا موقع نہیں دیا۔ یہ تو کل امت بھائی نے بہت بہت ذمہ داری کے ساتھ کہا کہ بھائی اچھا نہیں لگ رہا ہے اور آپ کی رواداری تھی کہ ان کا وقت ختم ہوگیا تھا، تو بھی آپ نے ان کو آج موقع دیا، لیکن گڑ کا گوبر کیسے کرنا ہے، یہ اس میں ماہر ہیں۔ میں نہیں جانتا ہوں کہ آخر آپ کی مجبوری کیا ہے، کیوں ادھیر بابو کو درکنار کردیاگیا۔ پتہ نہیں کلکتہ سے کوئی فون آیا ہو اور کانگریس بار بار، پھر کانگریس بار بار ان کی بے عزتی کرتی ہے۔ کبھی الیکشن کے نام پر انہیں عارضی طور پر فلور لیڈر کی پوزیشن سے ہٹا دیتے ہیں ۔ ہم ادھیر بابو کے تئیں اپنی پوری ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ سریش جی ذرا زور سے ہنس لیجئے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب ،

کسی بھی ملک کی زندگی میں تاریخ میں ایسا وقت آتا ہے جب وہ پرانی بندشوں کو توڑ کرکے ایک نئی توانائی کے ساتھ، نئی امنگ کے ساتھ، نئے خوابوں کے ساتھ، نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے قدم اٹھالیتا ہے۔ 21 ویں صدی کا یہ دور ہے اور میں بڑی سنجیدگی سے اِس پاکیزہ جمہوریت کےمندر میں بول رہا ہوں اور لمبے تجربے کے بعد بول رہا ہوں کہ یہ دور صدی کا وہ دور ہے جس میں ہندوستان کے لیے ہر خواب کو پورا کرنے کا موقع ہمارے پاس ہے اور ہم سب ایسے دور میں ہیں، چاہے ہم ہیں، چاہے آپ ہیں، ملک کے کروڑوں عوام ہیں۔ یہ وقت بہت اہم ہے، بڑی اہمیت رکھتا ہے۔

بدلتی ہوئی دنیا میں، اور میں ان الفاظ کو بھی بڑے اعتماد سے کہنا چاہتا ہوں کہ اس دور میں جو کچھ سامنے آئے گا اس کا اثر اس ملک پر آنے والے ایک ہزار سال تک رہنے والا ہے۔ ملک کے 140 کروڑ شہریوں کی طاقت اس دور میں اپنی محنت سے، اپنی استطاعت سے، اپنی طاقت سے جو کرے گی وہ آنے والے ایک ہزار سال کی مضبوط بنیاد رکھنے والی ہے ۔ اور اس لئے اس دور میں ہم سب کا بہت بڑا فریضہ ہے، بہت بڑی ذمہ داری ہے، اور ایسے وقت میں ہم سب کی توجہ کامرکز ایک ہی ہونا چاہیے، ملک کی ترقی۔ ملک کے لوگوں کے خوابوں کو پورا کرنے کاعزم اور اس عزم کو پایہ تکمیل تک لے جانے کے لیے جی جان سے مصروف ہوجانا یہی وقت کا تقاضہ ہے۔ ملک کے 140 کروڑ شہری، ان ہندوستانی برادری کی مشترکہ طاقت ہمیں اس بلندی پر پہنچا سکتی ہے۔ ہمارے ملک کے نوجوان نسل کی استطاعت ہے کہ آج دنیا نے ان کا لوہا مانا ہوا ہے، ہم ان پر بھروسہ کریں۔ ہماری نوجوان نسل بھی جو خواب دیکھ رہی ہے وہ خوابوں کو عزم کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اور اس لیے،عزت مآب اسپیکر صاحب،

2014 میں 30 سال کے بعد ملک کے عوام نے پوری اکثریت و الی سرکار بنائی اور 2019 میں بھی۔ اس ٹریک ریکارڈ کو دیکھ کر ان کےخوابوں کو پورا کرنے کی صلاحیت کہاں ہے، ان کے عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی طاقت کہاں پڑی ہے، وہ ملک اچھی طرح پہچان گیا ہے۔اور اس لیے 2019 میں پھر ایک بار ہم سب کو خدمت کرنے کا موقع دیا اور زیادہ مضبوطی کے ساتھ دیا۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

اس ایوان میں بیٹھے ہر ایک آدمی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہندوستان کے نوجوانوں کے خوابوں کو، ان کی آرزوؤں، ان کی امیدوں کے مطابق، وہ جوکام کرناچاہتا ہےاس کےلئے ہم اسے موقع دیں۔ حکومت میں رہتے ہوئے ہم نے بھی اس ذمہ داری کو نبھانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ہم نے ہندوستان کے نوجوانوں کو گھوٹالوں سے پاک حکومت دی ہے۔ ہم نے ہندوستان کے نوجوانوں کو، آج کے ہمارے پیشہ ورافراد کو کھلے آسمان میں اُڑنے کیلئے حوصلہ دیا ہے، موقع دیا ہے۔ ہم نے دنیا میں ہندوستان کی بگڑی ہوئی ساکھ کو بھی سنبھالا ہے اور اسے پھر ایک بار نئی بلندیوں پر لے گئے ہیں۔ابھی بھی کچھ لوگ دنیا میں ہماری ساکھ کو داغدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن دنیا اب اس ملک کو سمجھ چکی ہے ۔بھارت دنیا کے مستقبل میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے ،اس حوالے سے دنیا کا ہم پر اعتماد بڑھتا جا رہا ہے۔

اور اس دوران ہمارے اپوزیشن کے ساتھیوں نے کیا کیا ، ایسے افراتفری کے ماحول میں ، چاروں طرف امکانات ہی امکانات ، انہوں نے تحریک عدم اعتماد کی آڑ میں عوام کی خود اعتمادی کو توڑنے کی ناکام کوشش کی۔ آج ہندوستان کے نوجوان ریکارڈ تعداد میں نئے اسٹارٹ اپ لے کر دنیا کو حیران کر رہے ہیں۔ آج ہندوستان میں ریکارڈ غیر ملکی سرمایہ کاری آرہی ہے۔ آج ہندوستان کی برآمدات نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ آج وہ ہندوستان کے بارے میں کوئی اچھی بات نہیں سن سکتے، یہ ان کا حال ہے۔ آج غریبوں کے دل میں اپنے خواب پورے کرنے کا یقین پیدا ہو گیا ہے۔ آج ملک میں غربت تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ نیتی آیوگ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں 13.5 کروڑ لوگ غربت سے باہر آئے ہیں۔

عزت مآب اسپیکر صاحب ،

آئی ایم ایف اپنے ایک ورکنگ پیپر میں لکھتا ہے کہ ہندوستان نے انتہائی غربت کو تقریباً ختم کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف نے ہندوستان کے ڈی بی ٹی کے اور دیگر ہمارے سماجی بہبود کی اسکیم کے لیے، آئی ایم ایف نے اسے کہا ہے کہ یہ لاجسٹکس ماربل ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب ،

عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ ہندوستان میں جل جیون مشن کے ذریعے چار لاکھ لوگوں کی جانیں بچائی جا رہی ہیں۔ یہ چار لاکھ کون ہیں۔ میرے غریب،مظلوم، استحصال کے شکار محروم خاندانوں کے میرے اپنے لوگ ہیں۔ ڈبلیو ایچ او ایسے چار لاکھ لوگوں کی جان بچانے کی بات کر رہا ہے۔ اس کا تجزیہ کرنے کے بعد کہتا ہے کہ سوچھ بھارت ابھیان کی وجہ سے تین لاکھ لوگوں کو مرنے سے بچایا گیا ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب ،

ہندوستان سوچھ ہوتا ہے، تین لاکھ لوگوں کی زندگی بچتی ہے،یہ تین لاکھ لوگ ہیں کون- وہی جھگی جھونپڑی میں زندگی گزارنے کے لیے مجبورلوگ ، جنہیں بہت سی مشکلات کے ساتھ گزربسر کرنی پڑتی ہے ۔ میرے غریب پریوار کے لوگ ہیں ، شہری کچی آبادیوں میں رہنے والے لوگ ، دیہات میں رہنے والے لوگ اور محروم طبقے کے لوگ ہیں ، جن کی جانیں بچائی گئی ہیں۔ یونیسیف نے کیا کہا- یونیسیف نے کہا ہے کہ سوچھ بھارت ابھیان کی وجہ سے ہر سال غریبوں کے 50 ہزار روپے بچ رہے ہیں۔ یہ دیکھئے حزب اختلاف کی کچھ پارٹیوں بشمول کانگریس کو ہندوستان کی ان کامیابیوں پر کوئی بھروسہ نہیں ہے ۔ وہ سچ جو دنیا دور سے دیکھ رہی ہے، یہ لوگ یہاں رہتے ہیں مگرانہیں نظر نہیں آ تا۔

عزت مآب اسپیکر صاحب ،

عدم اعتماد اور گھمنڈ ان کی رگوں میں رچ بس گیا ہے۔ انہیں عوام کا یقین کبھی نظر نہیں آتا۔ اب یہ جو شتر مرغ والا اندازہے، اس حوالے سے ملک کیا کرسکتا ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب ،

جو پرانی سوچ والے لوگ رہے ہیں، میں اس سوچ سے متفق نہیں ہوں، لیکن وہ کہتے ہیں کہ بھائی جب کچھ اچھا کام ہوتا ہے تو خیر ہوتی ہے ، گھر میں کچھ اچھا ہوتا ہے ، بچے بھی اچھے کپڑے پہنتے ہیں ، اگر تھوڑا سا صاف ستھرا ہو تو کالا ٹیکا لگا دیتے ہیں۔ آج ملک کی جو بھلائی ہورہی ہے ، ملک کی چاروں طرف تعریف ہو رہی ہے ، ملک کی جو چاروں طرف سے ستائش ہو رہی ہے ، تو میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ کالے ٹیکے کی شکل میں کالے کپڑے پہن کر کے ایوان میں آکر کے آپ نے اِس خوشحالی کو بھی محفوظ کرنے کا کام کیا ہے ، اس کے لیے بھی میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

عزت مآب اسپیکر صاحب ،

پچھلے تین دنوں سے ہمارے اپوزیشن کے ساتھیوں نے جی بھر لغت کھول کھول کر جتنے برے الفاظ ملتے ہیں لے آئے ہیں۔ جتنے برے الفاظ کابھرپور استعمال کرسکتے ہیں، جانے کہاں کہاں سے لے آتے ہیں۔ لے کر آئے ، ہوگا، اتنے برے الفاظ بول لئے ہیں تو ان کی بھڑاس نکل گئی ہوگی۔ تھوڑا من ہلکا ہوگیاہوگا ، ویسے تو یہ لوگ مجھے دن رات کوستے رہتے ہیں، ان کی یہ فطرت ہے اور ان کے لیے تو سب سے پیارا نعرہ کیا ہے، مودی تیری قبر کھدے گی، مودی تیری قبر کھدے گی۔ یہ ان کا پسندیدہ نعرہ ہے، لیکن میرے لیے ان کی گالیاں ، یہ برے الفاظ، یہ غیر جمہوری زبان، میں اس کا بھی ٹانک بنادیتا ہوں اور یہ ایسا کیوں کرتے ہیں اور یہ کیوں ہوتا ہے۔ آج میں ایوان میں کچھ راز کھولناچاہتا ہوں، مجھے پکا یقین ہوگیا ہے کہ اپوزیشن کے لوگوں کو ایک خفیہ وردان ملا ہے، ہاں، خفیہ وردان ملا ہوا ہے جی اور وردان یہ ہے کہ یہ لوگ جس کا برا چاہیں گے، اس کا بھلا ہی ہوگا۔ ایک مثال تو آپ دیکھئے، 20 سال ہوگئے، کیا کچھ نہیں ہوا، کیا کچھ نہیں کیاگیا، لیکن بھلا ہی ہوتا گیا، تو آپ کو بڑا خفیہ وردان ہے جی اور میں تین مثالوں سے اِس خفیہ وردان کو ثابت کرسکتا ہوں۔

آپ کو معلوم ہوگا کہ ان لوگوں نے کہا تھا بینکنگ سیکٹر کے لیے - بینکنگ سیکٹر ڈوب جائے گا، بینکنگ سیکٹر تباہ ہو جائے گا، ملک ختم ہو جائے گا، ملک برباد ہو جائے گا،نہ جانے کیا کیا کہا تھا۔ اور وہ بیرون ملک سے بڑے بڑے اسکالرس کو لاتے تھے، وہ ان سے کہلواتے تھے، تاکہ اگر کوئی ان کی بات نہ مانے تو شاید وہ ان کی بات مان لیں۔ انہوں نے ہمارے بینکوں کی صحت کو لے کر طرح طرح کی مایوسی اور افواہیں پھیلانے کا کام انہوں نے زور دار طریقے سے کیا۔ اور جب انہوں نے بینکوں کا برا چاہا تو پھر کیا ہوا، ہمارے پبلک سیکٹر بینکوں کا خالص منافع دوگنا سے بھی زیادہ ہو گیا ہے۔ ان لوگوں نے فون بینکنگ گھوٹالے کے بارے میں بات - اس کی وجہ سے ملک کو این پی اے کے سنگین بحران میں ڈبودیا تھا۔

ماضی کی بات کرتے ہیں، لیکن آج این پی اے کاجوانبارلگاکروہ گئے تھےاس کو بھی عبور کر کے ہم ایک نئی قوت کے ساتھ نکل چکےہیں۔ اور آج محترمہ نرملا جی نے تفصیل سے بتایا ہے کہ کتنا منافع ہوا ہے۔ دوسری مثال – ہمارے ڈیفنس کے ہیلی کاپٹر بنانے والی سرکاری کمپنی ایچ اے ایل ۔ یہ ایچ اے ایل کے بارے میں بہت سی بھلی اور بری باتیں انہیں کی تھیں ، ایچ اے ایل کے لیے کیاکچھ نہیں کہاتھا۔ اور اس میں دنیابھرمیں بہت نقصان پہنچانے والی زبان کا استعمال کیا گیا تھا ۔ اورایچ اے ایل برباد ہو گیا، ایچ اے ایل ختم ہو گیا،بھارت کی دفاعی صنعت ختم ہوچکی ہے، ایسا نہ جانے ایچ اےایل کےبارے میں کیا کیا کہا گیا تھا۔

اتنا ہی نہیں، جیسے آج کل کھیتوں میں جاکرویڈیو بنائی جاتی ہے، معلوم ہے نا؟ کھیتوں میں جاکرویڈیو بنائی جاتی ہے، اسی طرح اس وقت ایچ اے ایل فیکٹری کے گیٹ پر مندروں کی سبھاکرکے ویڈیو شوٹ کروائی گئی تھی اوروہاں کے مزدوروں کو اکسایاگیا تھا، اب تمہارا کوئی مستقبل نہیں، تمہارے بچے بھوک سے مریں گے، ایچ اے ایل ڈوب رہا ہے۔ ملک کے اتنے اہم انسٹی ٹیوٹ کا اتنا برا چاہا ، اتنا برا چاہا،اتنا برا کہا ،وہ راز - آج ایچ اے ایل کامیابی کی نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ایچ اے ایل نے اپنے اب تک کی سب سے زیادہ، اب تک کی سب سے زیادہ آمدنی درج کی ہے۔ان کے سنگین الزام کے باوجود بھی یہاں کے کاریگروں کو، وہاں کے ملازمین کو اکسانے کی بھرپور کوشش کے باوجود بھی آج ایچ اے ایل آج ملک کی آن بان شان بن کر ابھرا ہے۔

عزت مآب اسپیکرصاحب،

جس کابراچاہتے ہیں، وہ کیسے آگے بڑھتا ہے ، میں تیسری مثال دیتا ہوں۔ آپ جانتے ہیں کہ ایل آئی سی کے لیے کیاکیا کہا گیا تھا۔ ایل آئی سی برباد ہو گئی، غریبوں کے پیسے ڈوب رہے ہیں ، غریب کہاں جائے گا، غریب بیچارےنے بڑی محنت سے ایل آئی سی میں پیسہ لگایا تھا، کیا-کیا- جتنی ان کی سوچ کی طاقت تھی، جتنے ان کےدرباریوں نے کاغذ پکڑا دیئے تھے، ان کے مطابق سب کچھ بول دیتے تھے۔ لیکن آج ایل آئی سی لگاتار مضبوط ہو رہی ہے۔ شیئر مارکیٹ میں دلچسپی رکھنے والوں کو یہ بھی ضروری ہے کہ جن سرکاری کمپنیوں کولوگ گالی دیں ، آپ ان میں داؤ لگا لیں، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔

عزت مآب ا سپیکرصاحب،

یہ لوگ ملک کے جن اداروں کی موت کا اعلان کرتے ہیں، ان اداروں کی قسمت چمک جاتی ہے ، اور مجھے یقین ہے کہ جس طرح یہ ملک کو کوسکتے ہیں، جمہوریت کو کوستے ہیں ، مجھے پختہ یقین ہے کہ ملک بھی مضبوط ہونے والا ہے، جمہوریت بھی مضبوط ہونے والی ہے، اور ہم تومضبوط ہونے ہی جا رہے ہیں۔

عزت مآب اسپیکرصاحب،

یہ وہ لوگ ہیں ،جو ملک کی صلاحیت پر یقین نہیں رکھتے۔ یہ لوگ ملک کی محنت پر یقین نہیں رکھتے، ملک کی طاقت پر یقین نہیں رکھتے۔ کچھ دن پہلے میں نے کہا تھا کہ ہماری حکومت کی اگلی مدت میں، تیسری مدت میں، ہندوستان دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائے گا۔

عزت مآب اسپیکرجی،

اب ملک کے مستقبل کے بارے میں تھوڑا سا بھی اعتماد ہوتا، توجب ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم آنے والے پانچ سال یعنی تیسری مدت میں ملک کی معیشت کو دنیا میں تیسرے نمبر پر لے آئیں گے، تو ایک ذمہ دار اپوزیشن کیا کرتی ؟وہ سوال پوچھتی ، اچھا بتائیں نرملا جی، بتائیں آپ کیسے کرنے والے ہو ؟ کرو، اچھا مودی جی بتائیں- آپ یہ کیسے کرنے جا رہے ہیں، آپ کا روڈ میپ کیا ہے- ایسا کرتے۔ اب یہ بھی مجھے سکھاناپڑ رہا ہے۔ لیکن یا وہ کچھ تجاویز دے سکتے تھے، وہ کچھ تجاویز دے سکتے تھے۔ یا پھر یہ کہیں گے کہ ہم الیکشن میں عوام کے پاس جائیں گے اور انہیں بتائیں گے کہ وہ تیسرے نمبرکی بات کرتے ہیں، ہم ایک نمبر پر لائیں گے اور ایسے ایسے لائیں گے- کچھ توکرتے آپ۔ لیکن یہ ہماری اپوزیشن کا المیہ ہے اور ان کی سیاسی گفتگو کو دیکھیں۔ کانگریس کے لوگ کیا کہہ رہے ہیں، اب دیکھئے ان میں تصور کی کتنی کمی ہے۔ اتنے سال اقتدار میں رہنے کے بعد بھی کیاناتجربہ کارانہ باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔

کیا کہتے ہیں یہ، یہ کہتے ہیں کہ اس ہدف تک پہنچنے کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں، تیسرے نمبر پر بھی ایسا ہی ہونے جا رہا ہے۔ بتاؤ مجھے لگتا ہے اسی سوچ کی وجہ سے وہ اتنے سال سوتے رہے کہ یہ خود بخود ہونے والا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ بغیر کچھ کیے تیسرے تک پہنچ جائیں گے۔ اور کانگریس کی مانیں، اگر سب کچھ خود بخود ہونے والا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ کانگریس کے پاس نہ کوئی پالیسی ہے، نہ کوئی ارادہ، نہ کوئی ویژن، نہ عالمی معیشت کی کوئی سمجھ اورنہ ہی بھارت کی معاشی طاقت کاپتہ ہے۔ اوراس لئے سوئے سوئے اگر ہوجائے گا، تو یہی ایک المیہ ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

یہی وجہ ہے کہ کانگریس کے دور میں غربت اور افلاس میں اضافہ ہوتا رہا۔ 1991 میں ملک کنگال ہونے کی حالت میں تھا ۔ کانگریس کے دور میں معیشت دنیا کی ترتیب میں دس، گیارہ، بارہ کے بیچ میں جھولتی رہی تھی۔ لیکن 2014 کے بعد ہندوستان نے ٹاپ فائیو میں جگہ بنائی۔ کانگریس کے لوگ سوچیں گے کہ یہ کسی جادو کی چھڑی سے ہوا ہے۔ لیکن میں آج ایوان کو بتانا چاہتا ہوں، محترم اسپیکر صاحب، اصلاح، کارکردگی اور تبدیلی، ایک خاص منصوبہ بندی، پلاننگ اور محنت کی بدولت، ملک آج اس مقام پر پہنچا ہے۔ اور یہ منصوبہ بندی اور محنت جاری رہے گی۔ضرورت کے مطابق اس میں نئی ​​اصلاحات لائی جائیں گی اور کارکردگی کے لیے پوری طاقت استعمال کی جائے گی اور نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہم تیسرے نمبر پر پہنچ کررہیں گے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

میں ملک کے اعتماد کا اظہار بھی لفظوں میں کرنا چاہتا ہوں اور ملک کا اعتماد یہ ہے کہ 2028 میں،2028 میں جب آپ عدم اعتماد کی تحریک لائیں گے تو یہ ملک پہلے تین میں ہوگا، یہ ملک کا اعتماد ہے۔

محترم اسپیکر صاحب،

ہمارے اپوزیشن کی قیادت کی فطرت میں ہی بداعتمادی بھری پڑی ہے۔۔ ہم نے لال قلعہ سے سوچھ بھارت ابھیان کی اپیل کی۔ لیکن انھوں نے ہمیشہ عدم اعتماد کا ہی اظہار کیا۔ کیسے ہوسکتا ہے؟ جو گاندھی جی بھی آکے گئے ، کہہ کر گئے کیا ہوا؟ ابھی سوچھتا کیسے ہوگی؟ بداعتمادی سے بھری ہوئی ان کی سوچ ہے۔ ہم نے ماؤں اور بیٹیوں کو کھلے میں رفع حاجت سے آزادی دلانے کے لیے، اُس مجبوری سے آزاد ہونے کے لیے بیت الخلاء جیسی ضرورت پر زور دیا اور اس پریہ کہہ رہے ہیں، کیا لال قلعہ سے ایسے موضوع بولے جاتے ہیں؟ کیا یہ ملک کی ترجیح ہوتی ہے ؟ ہم نے جب جن دھن کھاتے کھولنے کی بات کی تب بھی یہی بات نا امیدی کی۔ کیا ہوتا ہے جن دھن کھاتہ ؟ان کے ہاتھ میں پیسہ کہاں ہے؟ ان کی جیب میں کیا پڑا ہے؟ کیا لے کر آئیں گے، کیا کریں گے؟ ہم نے یوگ کے بارے میں بات کی، آیوروید کی بات کی، ہم نے اسے فروغ دینے کی بات کی،تو اس کا بھی مذاق اڑایا گیا۔ ہم نے اسٹارٹ اپ انڈیا کے بارے میں بات کی،تو انہوں نے اس پر بھی مایوسی پھیلائی ۔ اسٹارٹ اپ تو کوئی ہوہی نہیں ہوسکتا۔ ہم نے ڈیجیٹل انڈیا کی بات کی، تو بڑے بڑے دانشور لوگوں نے کیا بیانات دیئے۔ ہندوستان کے لوگ تو ان پڑھ ہیں، ہندوستان کے لوگوں کو تو موبائل چلانا نہیں آتا ہے۔ ہندوستان کے لوگ کہاں سے ڈیجیٹل کریں گے؟ آج ڈیجیٹل انڈیا میں ملک آگے ہے۔ ہم نے میک ان انڈیا کے بارے میں بات کی۔ یہ لوگ جہاں بھی گئے وہاں میک ان انڈیا کا مذاق اڑایا۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

کانگریس پارٹی اور اس کے دوستوں کی تاریخ رہی ہے کہ انہیں ہندوستان پر، ہندوستان کی طاقت پر کبھی بھروسہ نہیں رہا ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

اور یہ کس پر یقین رکھتے تھے؟ آج میں ایوان کو تھوڑا یاد دلانا چاہتا ہوں۔ پاکستان سرحد پر حملہ کرتا تھا۔ہمارے یہاں آئے دن دہشت گرد بھیجتا تھا۔ اور اس کے بعد پاکستان ہاتھ اٹھا کر مکر جاتا تھا اور یہ کہہ کر بھاگ جاتا تھا کہ ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہوتا تھا۔ اور ان کی پاکستان سے اتنی محبت تھی کہ وہ پاکستان کی باتوں پر فوراً یقین کر لیتے تھے۔ پاکستان کہتا تھا کہ دہشت گردانہ حملے تو ہوتے رہیں گے اور بات چیت بھی ہوتی رہے گی۔یہ لوگ یہاں تک کہتے کہ پاکستان کہہ رہا ہے تو یہ درست ہی کہہ رہا ہوگا۔ یہی ان کی سوچ رہی ہے۔ کشمیر دن رات دہشت گردی کی آگ میں جل رہا تھا۔ جلتا تھا لیکن کانگریس حکومت کا کام کشمیر اور کشمیر کے عام شہریوں پر اعتماد نہیں تھا۔ وہ حریت پر یقین رکھتے تھے، وہ علیحدگی پسندوں پر یقین رکھتے تھے، جو پاکستان کا جھنڈا لے کر چلتے تھے۔ ہندوستان نے دہشت گردی پر سرجیکل اسٹرائک کی،ہندوستان نے فضائی حملہ کیا، ان کو ہندوستانی فوج پر اعتماد نہیں تھا۔ ان کو دشمن کے دعوؤں پر بھروسہ تھا، یہ ان کی خصلت تھی۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

آج کوئی بھی دنیا میں ہندوستان کے لیے اگر غلط الفاظ بولتا ہے تو انھیں اس پر فوراً یقین ہوجاتا ہے۔ فوراً اس کو کیچ کر لیتے ہیں۔ان میں ایسی مقناطیسی طاقت ہے کہ بھارت کے خلاف ہر چیز فوراً پکڑ لیتے ہیں۔ جیسے کوئی بیرونی ایجنسی کہتی ہے کہ قحط کا سامنا کررہا کوئی ملک، ہندوستان سے بہتر ہے، ایسی جھوٹی بات آئے گی تواس کو بھی سچ مان لیتے ہیں اور ہندوستان میں تشہیر کرنا شروع کرتے ہیں۔ پریس کانفرنس کردیتے ہیں۔ بھارت کو بدنام کرنے میں کیا مزہ آتا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی ایسی بے تکی باتوں پرجن کی مٹی کے ڈلے کی طرح کوئی قیمت نہ ہو، توجہ نہیں دے گا، ایسی باتوں پر توجہ دینا یہ کانگریس کی فطرت رہی ہے اور فوراً اس کا ہندوستان میں شور شرابہ کرنا، تشہیر کرنا پوری کوششیں اسی میں لگا دی جاتی ہیں۔ کورونا کی وبا آئی، ہندوستان کے سائنسدانوں نے میڈ اِن انڈیا نام کی ویکسین تیار کی۔انہوں نے بھارت کی ویکسین پربھروسہ نہیں کیا،غیر ملکی و یکسین پربھروسہ کیا، یہ ان کی سوچ رہی ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

ملک کے کروڑوں شہریوں نے ہندوستان کی ویکسین پر اعتماد کا اظہار کیا۔ وہ(اپوزیشن) ہندوستان کی صلاحیت پر یقین نہیں رکھتے۔ انہیں ہندوستان کے لوگوں پر بھروسہ نہیں ہے۔ لیکن میں اس ایوان کو بتانا چاہتا ہوں۔ اس ملک کا بھی اوراس ملک کے لوگوں کا بھی کانگریس کے تئیں عدم اعتماد کا بہت گہرا احساس ہے۔ کانگریس اپنے غرور سے اس قدر بکھر چکی ہے، اتنی بھر گئی ہے کہ اس کو زمین دکھائی تک نہیں دیتی ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

ملک کے کئی حصوں میں کانگریس کو جیت درج کرنے میں کئی دہائیاں لگیں۔آخری بار کانگریس نے تمل ناڈو میں 1962 میں کامیابی حاصل کی تھی۔ تمل ناڈو کے لوگ 61 سال سے کہہ رہے ہیں۔ کانگریس نو کانفیڈنس ، تمل ناڈو کے لوگ کانگریس کو نو کانفیڈنس کہہ رہے ہیں، وہ آخری بار 1972 میں مغربی بنگال میں جیتی تھی۔ مغربی بنگال کے لوگ 51 سال سے کہہ رہے ہیں، کانگریس پر کوئی اعتماد نہیں، کانگریس پر کوئی اعتماد نہیں۔ اتر پردیش، بہار اور گجرات کانگریس آخری بار 1985 میں جیتی تھی، پچھلے 38 سالوں سے وہاں کے لوگوں نے کانگریس کو نو کانفیڈنس کہا ہے، وہاں کے لوگوں نے کانگریس کو نو کانفیڈنس کہا ہے۔ آخری بار انہوں نے تریپورہ میں 1988 میں کامیابی حاصل کی تھی، 35 سالوں سے تریپورہ کے لوگ کانگریس کو ناقابل اعتماد کہہ رہے ہیں۔کانگریس نو کانفیڈنس ، کانگریس نو کانفیڈنس ۔ اڈیشہ میں پچھلی بار 1995 میں کانگریس کو جیتنا نصیب ہوا تھا، یعنی اڈیشہ بھی 28 سال سے کانگریس کوایک ہی جواب دے رہا ہے،نو کانفیڈنس، کانگریس نو کانفیڈنس ۔

عزت مآب اسپیکر صاحب

ناگالینڈ میں کانگریس کی آخری جیت 1988 میں ہوئی تھی۔ یہاں کے لوگ بھی 25 سال سے کانگریس نو کانفیڈنس ۔ کانگریس نو کانفیڈنس کہہ رہے ہیں ۔ دہلی، آندھرا پردیش اور مغربی بنگال میں تو ایک بھی ایم ایل اے ان کےکھاتے میں نہیں ہے۔ عوام نے بارہا کانگریس کے تئیں نو کانفیڈنس اعلان کیا ہے۔


 

عزت مآب اسپیکر صاحب

میں آج اس موقع پر یہ آپ کے کام کی بات بتاتا ہوں ۔آپ تھک جائیں گے ، آپ بہت تھک جائیں گے ۔ میں آپ کی بھلائی کی بات بتاتا ہوں ۔اس موقع پر میں اپنے اپوزیشن کے ساتھیوں کے تئیں اپنے دکھ کا بھی اظہارکرناچاہتا ہوں۔ کچھ ہی دن پہلے بنگلورو میں آپ نے مل جل کر قریب قریب ڈیڑھ دو دہائی پرانے یوپی اے کی آخری رسومات اد ا کیں ۔ جمہوری رویہ کے مطابق مجھے اسی وقت آپ سے ہمدردی کا اظہارضرور کرنا چاہئے تھا۔ لیکن جو تاخیر ہوئی اس میں میرا قصور نہیں ہے کیونکہ آپ خود ایک طرف تو یوپی اے کا کریا کرم کررہے تھے اوردوسری طرف جشن بھی منارہے تھے اور جشن بھی ا س بات کا کھنڈر پر نیا پلاسٹر لگانے کا ۔آپ جشن منارہے تھے ویل مشین پر نیا پینٹ لگانے کا دہائیوں پرانی کھٹارہ گاڑی کو الیکٹرک گاڑی دکھانے کے لئے آپ نے اتنا بڑا مجمع لگایا تھا اور مزے کی بات یہ ہے کہ مجمع ختم ہونے سے پہلے ہی اس کا کریڈٹ لینے کے لئے آپس میں سرپھٹوّل شروع ہوگئی ۔ میں حیران تھا کہ اس اتحاد کو لے کر آپ عوام کے درمیان جائیں گے ۔ میںاپوزیشن کے ساتھیوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ جس کے پیچھے چل رہے ہیں اس کو تو اس ملک کے سنسکار کی سمجھ نہیں بچی ہے ۔ نسل در نسل یہ لوگ لال مرچ اور ہری مرچ کا فرق نہیں سمجھ پائے ۔ لیکن آپ میں سے کئی ساتھیوں کو میں جانتا ہوں ، آپ سب تو ہندوستانی ذہنیت کو سمجھنے والے لوگ ہیں، آپ لوگ ہندوستان کے مزا ج کو پہچاننے والے لوگ ہیں۔ بھیس بدل کر دھوکہ دینے کی کوشش کرنے والوں کی حقیقت سامنے آہی جاتی ہے۔ جنہیں صرف نام کا سہارا ہے ، انہیں کے لئے کہا گیا ہے ۔

دوریدھ سے بھاگتے ،دور یدھ سے بھاگتے

نام رکھا رندھیر

بھاگیہ چند کی آج تک ، سوئی ہے تقدیر

عزت مآب اسپیکر صاحب

ان کی مصیبت یہ ہے کہ خودکو زندہ رکھنے کے لئے ، ان کو این ڈی اے کا ہی سہارا لینا پڑا ہے لیکن عادت کے مطابق گھمنڈکا جو I ہے نہ وہ ان کو چھوڑتا نہیں ہے ۔اس لئے این ڈی اے میں دو I پرودئے ۔ گھمنڈ میں د و I پرودئے ۔ پہلا I 26 پارٹیوں کا گھمنڈ اوردوسرا I ایک خاندان کا گھمنڈ ۔ I این ڈی اے بھی چرالیا ۔کسی حد تک بچنے کے لئے اور انڈیا کے بھی ٹکڑے کردئے I.N.D.I.A

عز ت مآب اسپیکر صاحب

ذرا ہمار ے ڈی ایم کے کے بھائی بھی سن لیں ، ذرا کانگریس کے لوگ بھی سن لیں ۔ اسپیکر صاحب ، یوپی اے کو لگتا ہے کہ ملک کے نام کا استعمال کرکے اپنی قبولیت کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ لیکن کانگریس کی معاون پارٹی کے ساتھی تمل ناڈ سرکار میں ایک وزیر نے دو دن پہلے ہی یہ کہا ہے کہ I.N.D.I.A ان کے لئے کوئی معنیٰ نہیں رکھتا ۔ ان کے مطابق تمل ناڈ تو ہندوستان میں ہے ہی نہیں ۔

عزت مآب اسپیکر صاحب

آج میں فخر کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ تمل ناڈ وہ ریاست ہے جہاں سے ہمیشہ حب الوطنی کی لہریں نکلی ہیں ۔ اس ریاست نے ہمیں راجہ جی دئے ۔جس ریاست نے ہمیں کامراج دیا۔ جس ریاست نے ہمیں این ٹی آر دیا ۔ جس ریاست نے ہمیں ابولکلام دیا ، آج اس تمل ناڈ سے یہ آواز سنائی دے رہی ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب

جب آپ کے اتحاد میں اندر ہی اندر ایسے لوگ ہوں جو اپنے ملک کے وجود کو مسترد کرتے ہوں تو آپ کی گاڑی کہاں جاکر رکے گی۔ ذرا اس پر اگر غیرت بچی ہو تو ضرور غوروفکر کیجئے گا۔

عزت مآب اسپیکر صاحب

نام کو لے کر ان کا یہ چشمہ آج کا نہیں ، نام کو لے کر یہ جو محبت ہے نا وہ آج کی نہیں – یہ دہائیوں پرانا چشمہ ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ نام بدل کر ملک پر راج کرلیں گے ۔غریبوں کا چاروں طرف نام تو نظر آتا ہے لیکن ان کا م کہیں نہیں نظر آتا ہے ۔ اسپتالوں میں ان کے نام ہیں علاج نہیں ،تعلیمی اداروں پر ان کے نام کی تختی لٹک رہی ہے ، سڑک ہو ، پارک ہو ، ان کا نام موجود ہے ۔ غریبوں کی فلا ح وبہبود کی اسکیموں پر ان کا نام ، کھیل انعامات پر ان کا نام ، ائیر پورٹ پر ان کا نام ، میوزیم پران کا نام ، اپنے نام سے اسکیمیں چلائیں اورپھر ان اسکیموں میں ہزاروں کروڑ کی بدعنوانی کی۔سماج کے آخری سرے پر کھڑا شخص کام ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا لیکن اسے ملا کیا۔ صرف اور صرف خاندان کا نام ۔

اسپیکر صاحب

کانگریس کی پہچان سے جڑی کوئی چیز ان کی اپنی نہیں ہے۔ انتخابی نشان سے لے کر فکر تک ۔ کانگریس ،جسے اپنا ہونے کا دعوی ٰ کرتی ہے وہ کسی اور سے لیا ہوا ہے ۔

عزت مآب اسپیکر صاحب

اپنی خامیوں کی پردہ پوشی کے لئے انتخابی نشان اور فکر کو بھی چرا لیا۔ تاہم جو تبدیلیاں رونما ہوئیں ، اس میں بھی پارٹی کا گھمنڈ ہی دکھائی دیتا ہے۔ یہ بھی دکھائی دیتا ہے کہ 2014سے وہ کس طرح مسترد کئے جانے کے موڈ میں ہیں ۔ پارٹی کے بانی کو ن اے او ہیوم ، ایک غیر ملکی تھے۔ جنہوں نے اسے قائم کیا۔ آپ جانتے ہیں کہ 1920 میں ہندوستان کی جدوجہد آزادی کو ایک نئی توانائی ملی ۔ 1920 میں ایک نیا جھنڈا ملا اورملک نے اس جھنڈے کو اپنالیا تو راتوں رات کانگریس نے اس جھنڈے کی طاقت کودیکھ کر اسے بھی چھین لیا۔ اور علامت کو دیکھا کہ یہ گاڑی چلانے کے لئے ٹھیک رہے گی۔ 1920سے یہ کھیل چل رہا ہے ۔ان کو یہ لگا کہ وہ ترنگا جھنڈ ا دیکھیں گے ،تو جو لوگ دیکھیں گے ، سمجھیں گے کہ ان کی ہی بات ہورہی ہے ۔ یہ انہوں نے کھیل کیا ۔ ووٹروں کو لبھانے کے لئے گاندھی نام بھی انہوں نے چرالیا۔ کانگریس کے انتخابی نشان دیکھئے ۔ دو بیل ، گائے بچھڑ ا ، اور پھر ہاتھ کا پنجہ ۔ یہ سارے ان کے کارنامے ، ان کی مختلف نوعیت کی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔اس کو ظاہرکرتے ہیں اور یہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ سب کچھ ایک خاندان کے ہاتھوں میں مرکوز ہوچکا ہے ۔

عزت مآب اسپیکر صاحب

یہ I.N.D.I.A اتحاد نہیں ہے ، یہ I.N.D.I.A الائنس نہیں ہے ، ایک گھمنڈیہ اتحاد ہے ۔ اور اس کی بارات میں ہر کوئی دولہا بننا چاہتا ہے۔ سب کو وزیر اعظم بننا ہے ۔

عزت مآب اسپیکر صاحب

اس اتحاد نے یہ بھی نہیں سوچا کہ کس ریاست میں آپ کس کے ساتھ کہاں تک پہنچے ہیں؟ مغربی بنگال میں آپ ٹی ایم سی اور کمیونسٹ پارٹی کے خلاف اور دہلی میں ایک ساتھ ہیں ۔1991 کے مغربی بنگال کے اسمبلی الیکشن میں اسی کمیونسٹ پارٹی نے ادھیر بابو کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا وہ آج بھی تاریخ میں درج ہے۔خیر 1991 کی بات بہت پرانی ہوچکی ہے ۔ پچھلےسال کیرالہ کے وائناڈ میں جن لوگوں نے کانگریس کی دفتر میں توڑ پھوڑ کی یہ لوگ ان کے ساتھ دوستی کرکے بیٹھے ہیں ۔ باہر سے تو یہ اپنا لیبل بدل سکتے ہیں لیکن پرانے پاپوں کا کیا ہوگا؟ یہ پاپ ہی آپ کو لے ڈوبیں گے ۔ آپ عوام سے یہ پاپ کس طرح چھپا پائیں گے؟ آپ انہیں پوشیدہ نہیں رکھ سکتے اور آج جو حالات ہیں ، اس کے تناظر میں میں کہنا چاہتا ہوں۔

ابھی حالات ایسے ہیں ۔

اس لئے ہاتھوں میں ہاتھ

جہاں حالات بدلے ، پھر چھریاں بھی نکلیں گی۔

عزت مآب اسپیکر صاحب

یہ گھمنڈیہ اتحاد ملک میں کنبہ پروری کی سیاست کا سب سے بڑا عکاس ہے ۔ ملک کے مجاہدین آزادی نے ، ہمارے آئین سازوں نے ہمیشہ کنبہ پروری کی سیاست کی مخالفت کی تھی ۔مہاتما گاندھی ،سردار ولبھ بھائی پٹیل ، باباصاحب امبیڈ کر ، ڈاکٹر راجندرپرساد ، مولانا آزاد ، گوپی ناتھ بورتولوئی ، لوک نائک جے پرکاش ، ڈاکٹر لوہیا، آپ جتنے بھی نام دیکھیں گے ان سب نے کنبہ پروری کی کھل کر مخالفت کی تھی ۔ کیونکہ کنبہ پروری کا نقصان ملک کے عام شہری کو اٹھانا پڑتا ہے ۔ کنبہ پروری عام شہری کو اس کے حقوق ، اس کے اختیارات سے محروم کرتے ہیں۔اسلئے ان شخصیتوں نے ہمیشہ اس بات زور دیا تھا کہ ملک کو خاندان، نام اورپیسے پر مبنی نظام سے ہٹانا ہی ہوگا لیکن کانگریس کو ہمیشہ یہ بات پسند نہیں آئی ۔

عزت مآب اسپیکر صاحب

ہم نے ہمیشہ کنبہ پروری کی مخالفت کرنے والوں کو دیکھا ہے کہ کس قدر ان کے تئیں نفرت کا جذبہ تھا ، کانگریس کو کنبہ پروری ہی پسند ہے۔ کانگریس کو دربار واد پسند ہے ۔ جہاں بڑے لوگ ان کے بیٹے بیٹیاں بھی بڑے عہدوں پر قابض ہوں ، جو خاندان سے باہر ہیں ان کے لئے بھی یہی ہے کہ جب تک آپ اس محفل میں درباری نہیں بنیں گے آپ کا بھی کوئی مستقبل نہیں ہے ۔ یہی ان کے کام کا طریقہ رہا ہے ۔ اس دربارسسٹم نے کئی وکٹ لئے ، کتنو ں کا حق مارا ہے ان لوگوں نے ، مثال کے طور پر باباصاحب امبیڈ کر ، کانگریس نے جی جان لگاکر دو بار ان کو شکست دلوائی ۔ کانگریس کے لوگ باباصاحب امبیڈ کر کے کپڑوں کا مذاق اڑاتے تھے ۔ بابو جگجیون رام نے ایمرجنسی پر سوال اٹھایا تو انہوں نے انہیں بھی نہیں چھوڑ ا ، ان کو اذیت دی ، مرارجی بھائی دیسائی ، چرن سنگھ ،چندرشیکھر جی ، آپ کتنے ہی نام لے لیجئے ،دربار واد کے سبب ملک کے عظیم لوگوں کے حقوق کو انہوں نے ہمیشہ ہمیش کے لئے تباہ کردیا۔ یہاں تک کہ جو درباری نہیں تھے ، ان کا پورٹریٹ تک پارلیمنٹ میں لگانے میں ان کو جھجک ہوتی تھی۔ 1990 میں ان کی تصویریں سینٹرل ہال میں تب لگیں ، جب بی جے پی کی حمایت سے غیر کانگریسی سرکار قائم ہوئی ۔ لوہیا جی کا پورٹریٹ بھی پارلیمنٹ میں تب لگا جب 1991 میں غیر کانگریسی سرکار قائم ہوئی ۔ نیتا جی کا پورٹریٹ 1978 میں سینٹرل ہال میں ا س وقت لگایا گیا جب جنتا پارٹی کی سرکار تھی ۔ لال بہادر شاستری اور چرن سنگھ کا پورٹریٹ بھی 1993 میں غیر کانگریسی سرکار نے لگوایا ۔ سردار پٹیل کی خدمات کو بھی کانگریس نے ہمیشہ مسترد کیا ۔ سردار صاحب کو وقف دنیا کا سب سے اونچا اسٹیچو آف یونٹی مجسمہ بنانے کا اعزا ز بھی ہمیں حاصل ہوا ۔ ہماری سرکار نے دہلی میں پی ایم میوزیم بنایا ۔ سارے سابق وزرائے اعظم کو اعز از دیا ۔ پی ایم میوزیم پارٹی اور سیاست سے اوپر اٹھ کر تمام وزرائے اعظم کو وقف ہے ۔ ان کو یہ بھی نہیں پتہ ہے کیونکہ ان کے خاندان کے باہر کا کوئی بھی وزیراعظم ہوا ہوا ، ان کو منظور نہیں ۔ ان کو تسلیم نہیں ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب

کئی بار کچھ برا بولنے کے ارادے سے بھی جو کوشش ہوتی ہے تو کچھ نہ کچھ سچ بھی نکل جاتا ہے۔ اس کا تجربہ ہم سب کو ہے ۔ لنکا ہنومان نے نہیں جلائی ’ ان کے گھمنڈ نے اسے جلایا اور یہ بالکل حقیقت ہے ۔ آپ دیکھئے عوام بھی بھگوان را م کا ہی روپ ہیں ۔اس لئے 400سے 40 ہوگئے ۔

عزت مآب اسپیکر صاحب

سچ تو یہ ہے کہ ملک کے عوام نے دو دو بار 20سال کی مکمل اکثریت کی سرکار کا انتخاب کیا ہے۔ لیکن غریب کا بیٹا یہاں کیسے بیٹھا ہے ۔ آپ کو جو حق تھا آپ اپنی خاندانی نسل کو مانتے تھے ۔ وہ یہاں کیسے بیٹھ گیا ، یہ خلش اب بھی آپ کو پریشان کررہی ہے ، آپ کو سونے نہیں دیتی ہے اور ملک کے عوام بھی آپ کو سونے نہیں دیں گے، 2024 میں بھی سونے نہیں دیں گے ۔

عزت مآب اسپیکر صاحب

کبھی ان کے یوم پیدائش پر ہوائی جہاز میں کیک کاٹے جاتے ہیں ۔ آج اس ہوائی جہاز میں غریبوں کے لئے ویکسین جاتی ہے ، یہ فرق ہے ۔

عزت مآب اسپیکر صاحب

ایک زمانہ تھا کبھی ڈرائی کلین کے لئے کپڑے ہوائی جہاز سے آتے تھے آج ہوائی چپل والا غریب ہوائی جہاز میں اُڑ رہا ہے ۔

عزت مآ ب اسپیکر صاحب

کبھی چھٹی منانے کے لئے ، موج مستی کرنے کے لئے بحریہ کے جہاز منگوالیتے تھے ،آج اسی بحریہ کے جہاز دور ممالک میں پھنسے ہندوستانیوں کو اپنے گھر لانے کے لئے ،غریبوں کو اپنے گھر لانے کے لئے استعمال میں آتے ہیں ۔

عزت مآب اسپیکر صاحب

جو لوگ اپنے رویے اور عمل اور کردار کے لحاظ سے راجہ بن گئے ہیں ، جدید راجہ کی شکل میں ہی جن کا دماغ کام کرتا ہو ، انہیں یہاں ایک غریب کے بیٹے کے ہونے سے پریشانی تو ہوگی ہی ۔آخر یہ نام دار لوگ ہیں ، کام دار لوگ ہیں۔

عزت مآب اسپیکر صاحب

بعض باتوں کو مجھے کسی موقع پر ہی کہنے کا وقت ملتا ہے ،ایسی بہت سی باتیں ہوتی ہیں ، کل یہاں دل سے بات کرنے کی بات کہی گئی تھی ۔ ان کے دماغ کا حال تو لمبے عرصے سے ملک جانتا ہے لیکن اب ان کے دل کا بھی پتہ چل گیا ہے ۔

عزت مآب اسپیکر صاحب

ان کا مودی پریم تو اتنا زبردست ہے کہ 24 گھنٹے خواب میں بھی ان کو مودی یاد آتا ہے ۔ مودی اگر تقریر کرتے وقت درمیان میں پانی پینے لگے تو وہ کہتے ہیں کہ اگر پانی پیا ہے تو سینہ تان کر ادھر دیکھئے کہ مودی کو پانی پلادیا ۔ اگر میں گرمی میں ، سخت دھوپ میں عوام سے ملاقات کے لئے نکل پڑتا ہوں اور کبھی پسینہ پونچھ لوں تو کہتے ہیں کہ دیکھئے مودی کا پسینہ چھڑا دیا ۔ ایک گیت کی لائنیں ہیں ۔

ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا ہی بہت

دل بہل جائے فقط اتنا اشارہ ہی بہت

اتنے پر بھی آسماں والا گرادے بجلیاں

کوئی بتلادے ذرا ڈوبتا پھر کیا کرے

عزت مآب اسپیکر صاحب

میں کانگریس کی پریشانی سمجھتا ہوں برسوں سے ایک ہی ناکام پروڈکٹ اس کو بار بار لانچ کرتے ہیں ۔ ہر بار لانچنگ فیل ہوجاتی ہے ۔ اب اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے ، ووٹروں کے تئیں ان کی نفرت بھی ساتویں آسمان پر پہنچ گئی ہے ۔ ان کی لانچنگ فیل ہوتی ہے ، غصہ عوام پر کرتے ہیں ۔ لیکن ای آر والے تشہیر کیا کرتے ہیں ؟ محبت کی دوکان کی تشہیر کرتے ہیں ۔ اس لئے ملک کے عوام بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ لوٹ کی دوکان اورجھوٹ کا بازار اس میں نفرت ہے ، گھپلے ہیں ، منھ بھرائی ہے ، دل سیاہ ہے ، دہائیوں سے ملک کنبہ پروری کی آگ کے حوالے اور تمہاری دوکان نے ایمرجنسی بیچی ہے ، تقسیم فروخت کی ہے ،سکھوں پر ہوا ظلم بیچا ہے ، ڈھیر سارا جھوٹ بیچا ہے ،تاریخ بیچی ہے، اوڑی کے سچ کا ثبوت بیچا ہے ،شرم کرو نفرت کی دوکان والوں تم نے فوج کا وقار فروخت کیا ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب

ہم جو لوگ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں گاؤں اور غربت کے پس منظر سے ہیں ۔ یہاں ایوان میں بڑی تعداد میں لوگ گاؤں اور چھوٹے قصبات سے آتے ہیں اور گاؤں کا کوئی شخص کسی غیر ملک جائے ،سالوں تک وہ اس کے گیت گاتا رہتا ہے ۔ایک بار بھی اگر کوئی غیر ملک جائے اور وہاں کا ماحول دیکھ کر آئے تو سالوں تک یہ بتاتا رہتا ہے کہ میں نے یہ دیکھا ، یہ دیکھا ۔ فطری ہے ایک گاؤں کا شخص جس نے دہلی اور ممبئی بھی نہ دیکھا ہو وہ امریکہ جاکے واپس آجائے ، یورپ جاکے لوٹ آئے تو اس کا ذکر کرتا رہتا ہے ۔ جن لوگوں نے کبھی گملے میں مولی تک نہیں اگائی وہ کھیتوں کو دیکھ کر بلاشبہ حیران ہوں گے ۔

عزت مآب اسپیکر صاحب

یہ لوگ تو کبھی زمین پر اترے ہیں نہیں ۔ انہوں نے ہمیشہ گاڑی کا شیشہ نیچے کرکے دوسروں کی غربت دیکھی ہے ۔ انہیں سب کچھ حیران کرنے والا لگ رہا ہے۔ جب ایسے لوگ ہندوستان کی صورتحال کا ذکرکرتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ ہندوستان میں 50 سال تک ان کے خاندان نے حکمرانی کی تھی ۔ چنانچہ جب وہ ہندوستان کی اس حالت کا تذکرہ کرتے ہیں تو وہ اپنے آباواجداد کی ناکامیوں کا ذکرکرتے ہیں ۔ تاریخ اس کی گواہ ہے۔ ان کی دال گلنے والی نہیں ہے ۔اسلئے نئی نئی دوکانیں کھول کر بیٹھ گئے ہیں۔

عزت مآب اسپیکر صاحب

ان لوگوں کو پتہ ہے کہ ان کی نئی دوکان پر بھی کچھ دنوں میں تالا لگ جائے گا۔ آ ج اس بحث کے دوران ملک کے لوگوں کو میں بڑی سنجیدگی کے ساتھ اس گھمنڈیہ اتحاد کی اقتصادی پالیسی سے بھی انتباہ کرنا چاہتا ہوں ۔ ملک میں یہ گھمنڈیہ اتحاد ایک ایسی معیشت چاہتا ہے جس سے ملک کمزور ہو اور وہ طاقتور نہ بن پائے ۔ ہم آس پاس کے ممالک میں دیکھتے ہیں کہ جن اقتصادی پالیسیوں کو لے کر کانگریس اور اس کے ساتھی آگے بڑھنا چاتے ہیں ، جس طرح سے خزانے سے پیسے لٹا کر ووٹ پانے کا کھیل کھیل رہے ہیں ، ہمارے آس پاس کے ممالک کے حالات دیکھ لیجئے ۔ میں ملک کے لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں ، مجھے یہ توقع نہیں ہے کہ یہ سدھریں گے ۔ البتہ عوام انہیں سدھار دیں گے ۔

عزت مآب اسپیکر صاحب

اس طرح کی چیزوں کے غلط نتائج ہمارے ملک پر مرتب ہورہے ہیں ، ہماری ریاستوں پر مرتب ہورہے ہیں ۔ الیکشن جیتنے کے لئے اناپ شناپ وعدوں کی وجہ سے اب ان ریاستوں میں عوام پرنئے نئے ٹیکس لگائے جارہے ہیں ، نئے نئے بوجھ ڈالے جارہےہیں اور ترقیاتی پروجیکٹوں کو بند کرنے کا باضابطہ طورپر اعلان کیا جارہا ہے ۔

عزت مآب اسپیکر صاحب

اس گھمنڈیہ اتحاد کی جو اقتصادی پالیس ہے ان کے نتائج کو میں واضح طورپر دیکھ رہا ہوں ،اس لئے میں ملک کے عوام کو جو انتباہ دینا اور سچ کو سمجھانا چاہتا ہوں یہ گھمنڈیہ گٹھ بندھن ملک کے دیوالیہ ہونے کی گارنٹی ہے ۔ یہ معیشت کو ڈبونے کی گارنٹی ہے ، یہ ڈبل ڈجٹ مہنگائی کی گارنٹی ہے ، یہ پالیسیوں کو مفلوج بنادینے کی گارنٹی ہے ، یہ عدم استحکام کی گارنٹی ہے ، یہ بدعنوانی کی گارنٹی ہے ، یہ منھ بھرائی کی گارنٹی ہے ، یہ کنبہ پروری کی گارنٹی ہے ، یہ زبردست بے روز گاری کی گارنٹی ہے ، یہ خوف اورتشدد کی گارنٹی ہے ، یہ ہندوستان کو دو صدی پیچھے لے جانے کی گارنٹی ہے ۔

عزت مآب اسپیکر صاحب

یہ کبھی بھی ہندوستان کو ٹاپ 3معیشت بنانے کی گارنٹی نہیں دے سکتے ۔ یہ مودی ملک کو گارنٹی دیتا ہے کہ میری تیسری مدت کا ر میں میں ہندوستان کو ٹاپ3 کی پوزیشن میں لاکے رکھوں گا۔ یہ ملک کو میری جانب سے گارنٹی ہے ۔ یہ کبھی بھی ملک کو ترقی یافتہ بنانے کی سوچ بھی نہیں سکتے ۔ یہ اس سمت میں کچھ کر بھی نہیں سکتے ہیں۔

عزت مآب اسپیکر صاحب

عزت مآب ! جمہوریت میں جن کو بھروسہ نہیں ہوتا وہ سنانے کے لئے تو تیار ہوتے ہیں لیکن سننے کا ان میں حوصلہ نہیں ہوتا ، نازیبا الفاظ استعمال کرو ، بھاگ جاؤ ، کوڑا کچرا پھینکو بھاگ جاؤ، جھوٹ پھیلاؤ بھاگ جاؤ ، یہی جن کا کھیل ہے ملک ان سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرسکتا ۔ اگر انہوں نے وزیر داخلہ جی کی منی پور کی بحث پر اتفاق رائے کا مظاہرہ کیا ہوتا تو تنہا منی پور کے موضوع پر تفصیل سے بحث ہوسکتی تھی ۔ لیکن بحث میں ان کو مزہ نہیں تھا ۔ کل امت بھائی نے تفصیل سے اس موضوع پر چیزیں سامنے رکھیں تو ملک کو بھی حیرت ہوئی کہ یہ لوگ اس قدر جھوٹ پھیلاسکتے ہیں ایسے ایسے پاپ کرکے گئے ہیں لوگ ، اور آج جب وہ عدم اعتماد کی تجویز لے کر آئے اور عدم اعتماد کے موضوع پر انہوں نے تقریق کی تو ٹریزری بینچ کا فرض بنتا ہے کہ ملک کے اعتماد کو ظاہر کریں ، ملک کے اعتماد کو نئی طاقت دیں ، ملک کے تئیں عدم اعتماد کا اظہار کرنے والوں کو سخت جواب دیں یہ ہمارا بھی فرض بنتا ہے ۔ ہم نے کہا تھا کہ اور تنہا منی پور کے لئے بحث کرو ، وزیرداخلہ نے تو خط لکھ کر یہ بات کہی تھی کیونکہ یہ ان کے محکمے سے جڑ اہوا موضوع تھا لیکن ان کا حوصلہ نہیں ہوا ۔ ان کا بحث کا ارادہ نہیں تھا ۔ پیٹ میں پاپ تھا اور سر پھوڑ رہے تھے ۔ اس کا ہی نتیجہ تھا ۔

عزت مآب اسپیکر صاحب

منی پور کی صورتحال پر ملک کے وزیر داخلہ جناب امت شاہ نے کل دو گھنٹے تک تفصیل سے اور بڑے صبر کے ساتھ اس میں رتی بھر بھی سیاست شامل نہیں تھی ، تمام موضوعات کو تفصیل سے سمجھایا ، سرکار اور ملک کی تشویش کو ظاہر کیا اور ملک کے عوام کو بیدار کرنے کی کوشش بھی کی۔ اس میں اس پورے ایوان کی طرف سے ایک یقین کا پیغام منی پور کو پہنچانے کا ارادہ تھا ، اس میں عام لوگوں کو باخبر کرنے کی بھی کوشش موجود تھی ۔ انتہائی ایمانداری سے ملک کی بھلائی اور منی پور کے مسئلے کے لئے راستہ تلاش کرنے کی کوشش تھی ۔ مگر چونکہ انہیں سیاست کے علاوہ کچھ نہیں کرنا ہے ، انہوں نے وہی کیا ۔

عزت مآب اسپیکر صاحب

کل ویسے تو تفصیل سے امت بھائی سب کچھ بتانے کی کوشش کی ہے ، منی پور میں عدالت کا ایک فیصلہ آیا ہے ۔ اب عدالتوں میں کیا ہورہا ہے وہ ہم جانتے ہیں اس کے حق میں اور مخالفت میں جو صورتحال پیدا ہوئی ،تشدد کا دور شروع ہوگیا اس سے بہت سے خاندانوں کو پریشانی ہوئی ہے بہت سے لوگوں نے اپنوں کو کھودیا ہے ۔ خواتین کے ساتھ سنگین جرائم کا ارتکاب کیا گیا ۔ یہ جرائم ناقابل معافی ہیں ۔ مجرمین کو سخت سے سخت سزا دلوانے کے لئے مرکزی سرکار ، ریاستی سرکار مل کر بھرپور کوشش کررہی ہے ۔ میں ملک کے تمام شہریوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں جس طرح کی کوشش چل رہی ہے اس کے نتیجے میں مستقبل قریب میں وہاں امن کا سورج طلوع ہوگا ۔ منی پور ایک بار پھر نئے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھے گا میں منی پور کے لوگوں سے بصد اصرار کہنا چاہتا ہوں ، وہاں کی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ ملک آپ کے ساتھ ہے، یہ ایوان آپ کے ساتھ ہے ۔ یہاں کوئی ہونہ ہو ہم سب ملک کر اس چیلنج کا حل نکالیں گے ، وہاں پھر سے امن قائم ہوگا ، میں منی پور کے لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ منی پور پھر ترقی کی راہ پر تیز رفتاری سے آگے بڑھے اس کے لئے ہم اپنی کوششوں میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھیں گے ۔

عزت مآب اسپیکر صاحب

یہا ں ایوان میں ماں بھارتی کے بارے میں جو کہا گیا ہے اس نے ہر ہندوستانی کے جذبے کو گہری ٹھیس پہنچائی ہے ۔ اسپیکر صاحب ! پتہ نہیں مجھے کیا ہوگیا ہے ۔ کیا اقتدار کے بغیر کسی کا ایسا حال ہوجاتا ہے ؟ کیا اقتدار کے بغیر جی نہیں سکتے ؟کیسی کیسی زبان بول رہے ہیں ۔

عزت مآب اسپیکر صاحب

پتہ نہیں کیوں کچھ لوگ بھارت ماں کی موت کی دعا کرتے نظر آرہے ہیں۔اس سے بڑی بدنصیبی کیا ہوسکتی ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کبھی جمہوریت کے قتل کی بات کرتے ہیں ، کبھی آئین کے قتل کی بات کرتے ہیں ۔دراصل جو ان کے دل میں ہے ان کے عمل سے بھی وہی سامنے آجاتا ہے ۔ میں حیران ہوں کہ ایسا بولنے والے کون لوگ ہیں؟ کیا ملک 14 اگست کی تقسیم کے دکھ کو بھول گیا ، یہ انتہائی تکلیف دہ دن ان چیخوں اور لوگوں کے دکھ درد کو لے کر سامنے آجاتا ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ماں بھارتی کے تین تین ٹکڑے کردئے ۔ جب ماں بھارتی کو غلامی کی زنجیروں کو آزاد کران تھا ، جب ماں بھارتی کی زنجیروں کو کاٹان تھا ، بیڑیوں کو توڑنا تھا تب ان لوگوں نے ماں بھارتی کے بازو کاٹ ڈالے ۔ ماں بھارتی کے تین تین ٹکڑے کردئے ۔ یہ لوگ کس منھ سے ایسا بولنے کی ہمت کرتے ہیں ۔

عزت مآب اسپیکر صاحب

یہ وہ لوگ ہیں کہ جس وندے ماترم گیت نے ملک کے لئے مرمٹنے کی تحریک دی تھی ، ہندوستان کے ہرکونے میں وندے ماترم بیداری کی آواز بن گیا تھا۔ منھ بھرائی کی سیاست کے چلتے انہوں نے ماں بھارتی کے ٹکڑے کردئے ۔اتنا ہی نہیں وندے ماترم گیت کے بھی ان لوگوں نے ٹکڑے کردئے ، یہ وہ لوگ ہیں عزت مآب اسپیکر صاحب یہ وہ لوگ ہیں کہ جو بھارت تیرے ٹکڑے ہوں گے نعرہ لگاتے ہیں ، ان کی حوصلہ افزائی کے لئے پہنچ جاتے ہیں ۔ یہ ان لوگوں کی مدد کررہے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ سلی گوڑی کے پاس جو چھوٹا سا شمال مشرق کو جوڑنے والا کاریڈور ہے اس کو کاٹ دیں تاکہ شمال مشرق پوری طر ح الگ ہوجائے ۔ ایسا خواب دیکھنے والے لوگوں کی یہ حمایت کرتے ہیں۔

عزت مآب اسپیکر صاحب

میں ذرا ان کو جہاں بھی ہوں، ذرا میرا سوال آس پاس میں بیٹھے ہوئے کوئی جواب دے یہ جو باہر گئے ہیں نا ان کو ذرا پوچھئے کہ کچّا تیوو کیا ہے؟ کوئی پوچھے ان سے کہ کچّا تیوو کیا ہے؟ اتنی بڑی باتیں کرتے ہیں آج میں بتانا چاہتا ہوں یہ کچا تیوو کیا ہے۔ اور یہ کچا تیوو کہاں آیا ، ذرا ان کو پوچھئے ، اتنی بڑی باتیں لکھ کر کے دیش کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔اور یہ ڈی ایم کے والے ان کی سرکار ان کے وزیر اعلیٰ مجھے چٹھی لکھتے ہیں ابھی بھی لکھتے ہیں اور کہتے ہیں مودی جی کچا تیوو واپس لے آیئے۔ یہ کچا تیوو ہےکیا ؟کس نے کیا؟ تمل ناڈو سے آگے سری لنکا کے پہلے ایک جزیرہ کسی نے کسی دوسرے دیش کو دے دیا تھا۔کب دیا تھا ، کہاں گئی وہ،کیا یہ بھارت ماتا نہیں تھی وہاں؟ کیا وہ ماں بھارتی کا حصہ نہیں تھا؟ اور اس کو بھی آپ نے توڑا۔ کون تھا اس وقت ،محترمہ اندرا گاندھی کی قیادت میں ہوا تھا۔ کانگریس کی تاریخ ماں بھارتی کو چھن بھن کرنے کی رہی ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

اور کانگریس کی ماں بھارتی کے تئیں محبت کیسی رہی ہے؟بھارت کے عوام کے تئیں محبت کیسی رہی ہے؟ ایک سچائی بہت دکھ کے ساتھ میں اس ایوان کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ یہ تکلیف وہ نہیں سمجھ پائیں گے ، میں داون گیرے کے چپے چپے پر گھوما ہوا شخص ہوں۔ اور راجنیتی میں کچھ نہیں تھا تب بھی اپنے پیر وہاں گھِستا تھا۔اس علاقے کے تئیں میرا ایک جذباتی لگاؤ ہے۔ ان کو اندازہ نہیں ہے ۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

میں ایوان کے سامنے تین مثالیں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اور بہت فخر کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں،اہل وطن بھی سن رہے ہیں۔ پہلا واقعہ پانچ مارچ 1966۔ اس دن کانگریس نے میزورم میں بے سہارا شہریوں پر اپنی فضائیہ کے ذریعہ حملہ کروایا تھا۔ اور وہاں بہت سنگین تنازعہ ہوا تھا ۔کانگریس والے جواب دیں، کیا وہ کسی دوسرے دیش کی فضائیہ تھی کیا؟ کیا میزورم کے لوگ میرے ملک کے شہری نہیں تھے کیا۔کیا ان کی حفاظت یہ بھارت کی سرکار کی ذمہ داری تھی یا نہیں تھی۔ پانچ مارچ 1966 ۔ فضائیہ سے حملہ کروایا گیا، بے قصور شہریوں پر حملہ کروایا گیا۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

آج بھی میزورم میں پانچ مارچ کو پورا میزورم سوگ مناتا ہے۔ اس درد کو میزورم بھول نہیں پارہا ہے۔ کبھی انھوں نے مرحم لگانے کی کوشش نہیں کی، زخم بھرنے کی کوشش تک نہیں کی۔ کبھی ان کو اس کا دکھ نہیں ہوا ہے۔ اور کانگریس نے اس سچائی کو دیش کے سامنے چھپایا ہےدوستو۔ یہ سچ دیش سے انھوں نے چھپایا ہے۔ کیا آپ نے ہی دیش میں فضائیہ سے حملہ کروایا ،کون تھا اس وقت ۔اندراگاندھی۔ اکال تخت پر حملہ ہوا ، یہ تو ابھی بھی ہماری یادداشت میں ہے، ان کو میزورم میں اس سے پہلے یہ عادت لگ گئی تھی ۔ اور اس لئے اکال تخت پر حملہ کرنے تک وہ پہنچے تھے میرے ہی دیش میں، اور یہاں ہمیں نصیحت کررہے ہیں۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

شمال مشرق میں وہاں کے لوگوں کے اعتماد کا انھوں نے قتل کیا ہے۔ وہ زخم کسی نہ کسی مسئلے کی شکل میں ابھر کر آتے ہیں، انہی کے کارنامےہیں۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

میں دوسرے واقعہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں، اور وہ واقعہ ہے 1962 کا وہ خوفناک ریڈیو نشریہ آج بھی کانٹے کی طرح شمال مشرق کے لوگوں کو چبھ رہا ہے۔ پنڈت نہرو نے 1962 میں جب دیش کے اوپر چین کا حملہ چل رہا تھا ، دیش کے ہر کونے میں لوگ اپنی حفاظت کے لئے بھارت سے امید لگائے بیٹھے تھے ، کہ ان کو کوئی مدد ملے گی، ان کی جان مال کی حفاظت ہوگی، دیش بچ جائیگا۔ لوگ اپنے ہاتھوں سے لڑائی لڑنے کے لئے میدان میں اترے ہوئے تھے، ایسی نازک گھڑی میں دہلی کے تخت پر بیٹھے ہوئے اور اس وقت کے واحد جو رہنما ہوا کرتے تھے، پنڈت نہرو نے ریڈیو پر کیا کہا تھا۔ انھوں نے کہا تھا ….مائی ہارٹ گوز آؤٹ ٹودا پیوپل آف آسام۔ یہ حال کرکے رکھا تھا انھوں نے۔ وہ نشریہ آج بھی آسام کے لوگوں کے لئے ایک نشترکی طرح چبھتا رہتا ہے۔اور کس طرح سے اس وقت نہرو جی نے انھیں اپنی قسمت پر چھوڑ کرجینے کے لئے مجبور کردیا تھا۔ یہ ہم سے حساب مانگ رہے ہیں۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

یہاں سے چلے گئے لوہیا وادی۔ انھیں بھی میں سنانا چاہتا تھا ، جو لوگ اپنے آپ کو لوہیا جی کا وارث کہتے ہیں اور جو کل ایوان میں بہت اچھل اچھل کر بول رہے تھے ، ہاتھ لمبے چوڑے کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ لوہیا جی نے نہرو جی پر سنگین الزام لگایا تھا ۔ اور لوہیا جی نے کہا تھا اور وہ الزام تھا کہ جان بوجھ کر نہرو جی شمال مشرق میں ترقی نہیں کررہے تھے، جان بوجھ کر کے نہیں کررہے تھے۔ اور لوہیا جی کے لفظ تھے ۔ یہ کتنی لاپروائی والی اور کتنی خطرناک بات ہے۔ لوہیا جی کے لفظ ہیں۔ یہ کتنی لاپروائی والی اور کتنی خطرناک بات ہے ، تیس ہزار مربع میل سے بڑے علاقے کو ایک کولڈ اسٹوریج میں بند کرکےاسے ہر طرح کی ترقی سے محروم کردیا گیا ہے۔ یہ لوہیا جی نے نہرو پر الزام لگایا تھا کہ شمال مشرق کے لئے تمہارا رویہ کیا ہے، یہ کہا تھا۔ شمال مشرق کے لوگوں کے دلوں کو ان کے جذبات کو آپ نے کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ میرے وزرا کی کونسل کے چار سو وزیر رات کو قیام کرکے وہ اکیلے اسٹیٹ ہیڈکوارٹر میں نہیں، ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر کے طور پر ۔ اور میں خود پچاس بار گیا ہوں۔ یہ اعدادوشمار نہیں ہیں صرف یہ عقیدت شمال مشرق کے تئیں پیش ہیں۔

عزت مآب ،

اور کانگریس کا ہر کام کاج سیاست اور چناؤ اور سرکار کے آس پاس ہی گھومتا رہتا ہے۔ جہاں زیادہ سیٹیں ملتی ہوں سیاست کی اپنی کھچڑی پکتی ہے۔ تو وہاں تو مجبورا سے ہی کچھ کرلیتے ہیں، لیکن شمال مشرق میں دیش سن رہا ہے، شمال مشرق میں ان کی کوشش رہی ہے کہ جہاں پر اکا دکا سیٹیں ہوتی تھیں وہ علاقے ان کے لئے قابل قبول نہیں تھے۔ وہ علاقے ان کو منظور نہیں تھے، ان کی طرف ان کا دھیان نہیں تھا۔ ان کو دیش کے شہریوں کے حقوق کی کوئی ہمدردی نہیں تھی۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

اور اسلئے جہاں اکا دکا سیٹیں ہوا کرتی تھیں، اس کے تئیں سوتیلا برتاؤ، یہ کانگریس کے ڈی این اے میں رہا ہے، پچھلے کئی سالوں کی تاریخ دیکھ لیجئے۔ شمال مشرق میں ان کا یہ رویہ تھا، لیکن اب دیکھئے میں پچھلے نو سال کی اپنی کوششوں سے کہتا ہوں کہ ہمارے لئے شمال مشرق ہمارے جگرکا ٹکڑا ہے۔ آج منی پور کے مسائل کو ایسے پیش کیا جارہا ہے ، جیسے گزرے کچھ وقت سے ہی وہاں ایسے حالات پیدا ہوئے ہوں۔کل امت بھائی نے تفصیل سے بتایا ہے کہ مسئلہ کیا ہے، کیسے ہوا ۔ لیکن میں آج بہت سنجیدگی سے کہنا چاہتا ہوں شمال مشرق کے ان مسئلوں کو پیدا کرنے والی کوئی ماں ہے تو وہ اکیلی کانگریس ہے۔ شمال مشرق کے لوگ اس کے لئے ذمہ دار نہیں ہیں، ان کی یہ سیاست ذمہ دار ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

بھارتی سنسکاروں سے لبریز منی پور ،عقیدت مندی سے مالا مال وراثت والا منی پور ،جنگ آزادی اور آزاد ہند فوج ، لاتعداد قربانیاں دینے والا منی پور ۔ کانگریس کی حکمرانی میں ایسا عظیم ہمارا علاقہ علیحدگی کی آگ میں بلی پر چڑھ گیا تھا۔ آخر کیوں؟

عزت مآب اسپیکر صاحب،

آپ سب کو بھی میں یاد دلانا چاہتا ہوں ساتھیو، یہاں جو میرے شمال مشرق کے بھائی ہیں ان کو ہر چیز کا پتہ ہے۔ جب منی پور میں ،وہ ایک وقت تھا ہرنظام انتہا پسندتنظیموں کی مرضی سے چلتا تھا، وہ جو کہیں وہ ہوتا تھا، اور اس وقت سرکار کس کی تھی منی پور میں؟ کانگریس کی۔ جب سرکاری دفتروں میں مہاتما گاندھی کا فوٹو نہیں لگنے دیا جاتا تھا ، تب سرکار کس کی تھی؟ کانگریس۔جب مورانگ میں آزاد ہند فوج کے میوزیم پر نیتا جی سبھاش چندر بوس کے مجسمہ پر بم پھینکا گیا، تب منی پور میں سرکار کس کی تھی؟ کانگریس۔ تب منی پور میں سرکار کس کی تھی؟ کانگریس۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

جب منی پور میں اسکولوں میں قومی ترانہ نہیں ہونے دیں گے، یہ فیصلے کئے جاتے تھے ، تب منی پور میں سرکار کس کی تھی؟ کانگریس۔ جب مہم پر مہم چل رہی تھی، مہم چلا کرکے لائبریری میں رکھی گئی کتابوں کو جلانے کا اس دیش کےانمول علم کو جلاتے وقت سرکار کس کی تھی؟کانگریس۔ جب منی پور میں مندر کی گھنٹی شام کو چار بجے بند ہوجاتی تھی، تالے لگ جاتے تھے ، پوجا ارچنا کرنا بڑا مشکل ہوجاتا تھا، فوج کا پہرا لگانا پڑتا تھا، تب منی پور میں سرکار کس کی تھی؟ کانگریس۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

جب امپھال کے اسکان مندر پر بم پھینک کر عقیدت مندوں کی جان لے لی گئی تھی تب منی پور میں سرکار کس کی تھی؟ کانگریس۔ جب افسر، حال دیکھئے ،آئی اے ایس، آئی پی ایس افسران کو اگر وہاں کام کرنا ہے تو ان کی تنخواہ کا ایک حصہ ان کو ان انتہا پسند لوگوں کو دینا پڑتا تھا۔ تب جا کر کے وہ رہ پاتے تھے، تب سرکار کس کی تھی؟ کانگریس۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

ان کی تکلیف چنندہ ہے، ان کی ہمدردی چنندہ ہے۔ان کا دائرہ سیاست سے شروع ہوتا ہے اور سیاست سے آگے بڑھتا ہے۔ وہ سیاست کے دائرے سے باہر تھے، نہ انسانیت کے لئے سوچ سکتے ہیں، نہ دیش کے لئے سوچ سکتے ہیں، نہ ہی دیش کی ان مشکلات کے لئے سوچ سکتے ہیں۔ ان کو صرف سیاست کے علاوہ کچھ سوجھتا نہیں ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

منی پور میں جوسرکار ہے اور پچھلے چھ سال سے ان مسائل کا حل ڈھونڈنے کے لئے لگاتار پوری لگن سے کوشش کررہی ہے ۔بند اور بلاکیڈ کا زمانہ کوئی بھول نہیں سکتا۔منی پور میں آئے دن بند اور بلاکیڈ ہوتا تھا ۔ وہ آج گزرے وقت کی بات ہوچکی ہے۔ امن قائم کرنے کے لئے ہر ایک کو ساتھ لے کر چلنے کے لئے ایک اعتماد پیدا کرنے کی کوشش لگاتار ہورہی ہے، آگے بھی جاری رہے گی۔ اور جتنا زیادہ ہم سیاست کو دور رکھیں گے، اتنا ہی امن قریب آئے گا۔ یہ میں دیش واسیوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

ہمارے لئے شمال مشرق آج بھلے ہمیں دور لگتا ہو ، لیکن جس طرح سے جنوب مشرقی ایشیا کی ترقی ہورہی ہے ، جس طرح سے آسیان ملکوں کی اہمیت بڑھ رہی ہے ، وہ دن دور نہیں ہوگا ، ہماری ترقی کے ساتھ ساتھ شمال مشرق عالمی نقطہ نظر سے سینٹر پوائنٹ بننے والا ہے۔ اور میں یہ دیکھ رہا ہوں ، اور اس لئے میں پوری طاقت سے آج شمال مشرق کی ترقی کے لئے کررہا ہوں، ووٹ کے لئے نہیں کررہا ہوں جی۔مجھے معلوم ہے کہ کروٹ لیتے ہوئے دنیا کی نئی ساخت کس طرح سے جنوب مشرقی ایشیا اور آسیان کے ملکوں کے لئے اثر پیدا کرنے والی ہے۔ اور شمال مشرق کی کیا اہمیت بڑھنے والی ہے، اور نہ شمال مشرق کی قصیدہ خوانی پھر سے کیسے شروع ہونے والی ہے، وہ میں دیکھ سکتا ہوں اور اسلئے میں لگا ہوا ہوں۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

اور اسلئے ہماری سرکار نے شمال مشرق کی ترقی کو اپنی پہلی ترجیح بنایا ہے ۔ گزشتہ نو برسوں میں لاکھوں کروڑوں روپے شمال مشرق کے بنیادی ڈھانچہ پر ہم نے لگائے ہیں۔ آج جدید ترین ہائی وے اور شاہراہیں، جدید ریلوے،جدید نئے ہوائی اڈے ،یہ شمال مشرق کی پہچان بن رہے ہیں۔ آج پہلی بار اگر تلا ریل کنکٹویٹی سے جڑا ہے۔ پہلی بار منی پور میں مال گاڑی پہنچی ہے۔ پہلی بار شمال مشرق میں وندے بھارت جیسی جدید ٹرین چلی ہے۔پہلی بار اروناچل پردیش میں گرین فیلڈ ہوائی اڈہ بنا ہے۔ پہلی بار اروناچل میں سکم جیسی ریاست ہوائی کنکٹویٹی سے جڑی ہے۔ پہلی بار پانی کے ذریعہ شمالمشرق ، بین الاقوامی تجارت کا گیٹ وے بنا ہے۔ پہلی بار شمال مشرق میں ایمس جیسا میڈیکل ادارہ کھلا ہے۔ پہلی بار منی پور میں ملک کی پہلی کھیل کود یونیورسٹی کھل رہی ہے۔ پہلی بار میزورم میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماسک کمیونکیشن جیسے ادارے کھل رہے ہیں۔ پہلی بار مرکزی کابینہ میں شمال مشرق کی اتنی حصہ داری بڑھی ہے۔ پہلی بار ناگالینڈ سے ایک خاتون رکن پارلیمنٹ راجیہ سبھا میں پہنچی ہے۔ پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں شمال مشرق کے لوگوں کو پدم ایوارڈسے نوازا گیا ہے۔ پہلی بار شمال مشرق کے لچت بورفوکن جیسے سورما کی جھانکی یوم جمہوریہ کی پریڈ میں شامل ہوئی ہے۔ پہلی بار منی پور میں رانی گائی دنلیو کے نام پر شمال مشرق کا پہلا قبائلی مجاہد آزادی میوزیم بنا ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

ہم جب سب کا ساتھ ، سب کا وکاس کہتے ہیں، یہ ہمارے لئے نعرہ نہیں ہے، یہ ہمارے لفظ نہیں ہیں۔ یہ ہمارے لئے عقیدہ کی بات ہے۔ ہمارے لئے عہد بستگی ہے اور ہم دیش کے لئے نکلے ہوئے لوگ ہیں۔ ہم نے تو کبھی زندگی بھر سوچا ہی نہیں تھا کہ کبھی ایسی جگہ آکر کے بیٹھنے کا موقع ملے گا۔ لیکن یہ دیش کے عوام کی مہربانی ہے کہ اس نے ہمیں موقع دیا ہے تو میں دیش کے عوام کو یقین دلاتا ہوں۔

شریر کا کن۔ کن،سمے کا پل۔ پل صرف اور صرف دیش واسیوں کے لئے ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

میں اپنے اپوزیشن کے ساتھیوں کی ایک بات کے لئے آج تعریف کرنا چاہتا ہوں ۔ کیونکہ ویسے تو وہ ایوان کے لیڈرکولیڈر ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ میری کسی تقریر کو انھوں نے ہونے نہیں دی ہے۔ لیکن مجھ میں صبر بھی ہے، برداشت بھی ہے اور جھیل بھی لیتا ہوں اور وہ تھک بھی جاتے ہیں۔لیکن ایک بات کے لئے میں تعریف کرناچاہتا ہوں،ایوان کے لیڈر ہونے کے ناتے میں نے 2018 میں ان کو کام دیا تھا کہ 2023 میں آپ عدم اعتماد کی تحریک لے کر آئیں اور میری بات مانی انھوں نے۔ لیکن مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ 18 کے بعد 23 میں پانچ سال ملے، تھوڑا اچھا کرتے، اچھے ڈھنگ سے کرتے،لیکن تیاری بالکل نہیں تھی۔ کوئی اختراع نہیں تھی، کوئی تخلیق نہیں تھی۔ نہ ایشو تلاش کرپارہے تھے، پتہ نہیں یہ ملک کو انھوں نے بہت مایوس کیا ہے۔چیئرمین صاحب، چلئے کوئی بات نہیں 2028 میں ہم پھر سے موقع دیں گے۔ لیکن میں اس بار ان سے درخواست کرتا ہوں کہ جب 2028 میں آپ عدم اعتماد کی تحریک لے کر آئیں ہماری سرکار کے خلاف، تھوڑی تیاری کرکے آیئے ۔ کچھ ایشو تلاش کرکے آیئے ، ایسے کیا گھسی پٹی باتیں لے کر کے گھومتے رہتے ہو، اور ملک کے عوام کو تھوڑا اعتماد اتنا مل جائے کہ چلو آپ اپوزیشن کےبھی قابل ہوں۔ اتنا تو کرو ۔ آپ نے وہ قابلیت بھی کھو دی ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ وہ تھوڑا ہوم ورک کریں گے۔ تو تو ، میں میں اور چلانا ۔ چیخنا ، اور نعرے بازی کے لئے تو دس لوگ مل جائیں گے، لیکن تھوڑا دماغ والا بھی کام بھی کیجئے نا۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

سیاست اپنی جگہ پر ہے ، پارلیمنٹ یہ دَل کے لئے پلیٹ فارم نہیں ہے۔ پارلیمنٹ ملک کے لئے باعزت اعلیٰ ترین ادارہ ہے۔ اور اس لئے ارکان پارلیمنٹ کو بھی اس کے لئے سنجیدہ ہونا ضروری ہے۔ ملک اتنے وسائل لگا رہا ہے ۔ ملک کے غریب کے حق کا یہاں خرچ کیا جاتا ہے، یہاں کے پل پل کا استعمال ملک کے لئے ہونا چاہئے۔ لیکن یہ سنجیدگی اپوزیشن کے پاس نظر نہیں آرہی ہے۔ اس لئے چیئرمین صاحب ، یہ سیاست ایسے تو نہیں ہوسکتی۔ چلو خالی ہیں ذرا پارلیمنٹ گھوم آتے ہیں، کیااسی کے لئے پارلیمنٹ ہے ؟ یہ طریقہ ہوتا ہے کیا؟

عزت مآب اسپیکر صاحب،

یہ، چلو پارلیمنٹ گھوم آتے ہیں، اس جذبہ سے سیاست تو چل سکتی ہے ، ملک نہیں چل سکتا۔ یہاں ملک چلانے کے لئے ہمیں کام دیا گیا ہے اور اسلئے وہ اگر ذمہ داری کو پورا نہیں کرتے ہیں، تو وہ جنتا جناردھن اپنے رائے دہندگان کی اعتماد شکنی کرتے ہیں اور انھوں نے اعتماد شکنی کی ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

میرا اس ملک کے عوام پر پورا یقین ہے، بے انتہا یقین ہے اور میں چیئرمین صاحب، یقین سے کہتا ہوں کہ ہمارے ملک کے لوگ ایک طرح سے اکھنڈ وشواسی لوگ ہیں۔ ہزار سال کی غلامی کے ادوار میں بھی ، ان کے اندر کےیقین اور اعتماد کو کبھی انھوں نے ہلنے نہیں دیا تھا۔یہ اکھنڈ وشواسی معاشرہ ہے، اکھنڈ چیتنیا سے بھرا ہوا سماج ہے۔ یہ عزم کے لئے سپرد کرنے کے رواج کو لیکر چلنے والا سماج ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

یہ ٹھیک ہے غلامی کے ادوار میں ہم پر بہت حملے ہوئے ، بہت کچھ جھیلنا پڑا ہمیں لیکن ہمارے دیش کے سورماؤں، ہمارے دیش کی عظیم شخصیتوں نے،ہمارے دیش کے مفکروں نے، ہمارے دیش کے عام آدمی نے یقین کی اس لَو کو کبھی بجھنے نہیں دیا ہے۔کبھی بھی وہ لو کبھی بجھی نہیں تھی اور جب لو کبھی بجھی نہیں تب روشنی کے سایہ میں ہم اس لطف کو محسوس کررہے ہیں۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

گزشتہ نو برسوں میں ملک کے عام انسان کا اعتماد نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے، نئے ارمانوں کو چھو رہا ہے۔ میرے ملک کے نوجوان دنیا کی برابری کرنے کے خواب دیکھنے لگے ہیں۔ اور اس سے بڑی خوش قسمتی کیا ہوسکتی ہے؟ بھارت کا ہر شخص پر اعتماد ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

آج کا بھارت نہ دباؤ میں آتا ہے ، نہ دباؤ کو مانتا ہے۔ آج کا بھارت نہ جھکتا ہے ، آج کا بھارت نہ تھکتا ہے، آج کا بھارت نہ رکتا ہے۔ خوشحال وراثت کے تئیں اعتماد کولیکر،عہد کرکے چلئے اور یہی وجہ ہے جب ملک کا عام انسان ملک پر یقین کرنے لگتا ہے۔ تو دنیا کو بھی ہندوستان پر یقین کرنے کے لئے متاثر کرتا ہے۔ آج چونکہ دنیا کا یقین بھارت کے تئیں بنا ہے، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بھارت کے لوگوں کا خود پر یقین بڑھا ہے۔ یہ استطاعت ، مہربانی کرکے اس یقین کو توڑنے کی کوشش مت کیجئے۔ موقع آیا ہے ،ملک کو آگے لے جانے کا ،سمجھ نہیں سکتے ہو تو چپ رہو۔ انتظار کرو لیکن ملک کے یقین کے ساتھ دھوکہ دہی کرکے اسے توڑنے کی کوشش مت کرو۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

گزشتہ برسوں میں ترقی یافتہ بھارت کی مضبوط بنیاد رکھنے میں ہم کامیاب ہوئے اور خواب دیکھا ہے ،2047 کا ، جب ملک آزادی کے سو برس منائے گا، آزادی کے پچہتر برس پورے ہوتے ہی ، امرت کال شروع ہوا ہے۔ اور امرت کال کے ابتدائی برسوں میں ہیں۔ تب اس یقین کے ساتھ میں کہتا ہوں جو بنیاد آج مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے، اس بنیاد کی طاقت ہے کہ 2047 میں ہندوستان ترقی یافتہ ہندوستان ہوگا، بھارت ترقی یافتہ بھارت ہوگا ساتھیو۔ اور یہ ہم وطنوں کی محنت سے ہوگا، ہم وطنوں کے یقین سے ہوگا، ہم وطنوں کے عزم سے ہوگا، ہم وطنوں کی اجتماعی طاقت سے ہوگا، ہم وطنوں کی بے انتہا کوششوں سے ہونے والا ہے، یہ میرا یقین ہے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

ہوسکتا ہے، یہاں جو بولا جاتا ہے وہ ریکارڈ کے لئے تو لفظ چلے جائیں گے، لیکن تاریخ ہمارے کاموں کو دیکھنے والی ہے، جن کاموں سے ایک خوشحال بھارت کا خواب پورا کرنے کے لئے ایک مضبوط بنیاد کا دور رہا ہے ، اس شکل میں دیکھا جائیگا۔ اس یقین کے ساتھ عزت مآب چیئرمین صاحب ، آج ایوان کے سامنے میں کچھ باتیں پوری طرح واضح کرنے کے لئے آیا تھا اور میں نے بہت من پر بہت قابو رکھ کر کے نازیبا الفاظ پر ہنستے ہوئے ، اپنے من کو خراب نہ کرتے ہوئے ، 140 کروڑ دیش واسیوں کو ان کے خوابوں اور عزائم کو اپنی نظر کے سامنے رکھ کر کے میں چل رہا ہوں، میرے من میں یہی ہے ۔ اور میں ایوان کے ساتھیوں سے التجا کروں گا ، آپ وقت کو پہچانیئے، ساتھ مل کرکے چلئے۔ اس ملک میں منی پور سے بھی سنگین مسئلے پہلے بھی درپیش ہوئے ہیں، لیکن ہم نے مل کرکے راستے نکالے ہیں، آؤ مل کرکے چلیں، منی پور کے لوگوں کو اعتماد دے کر کے چلیں، سیاست کا کھیل کرنے کے لئے منی پور کے کردارکا، کم سے کم بے جا استعمال نہ کریں۔ وہاں جو ہوا ہے ، وہ افسوسناک ہے۔ لیکن اس درد کو سمجھ کرکے، درد کی دوائی بن کرکے کام کریں ،یہی ہمارا راستہ ہوناچاہئے۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

اس بحث میں، بہت مفید بحث اس طرف تو ہوئی ہے۔ایک ۔ ایک ، ڈیڑھ۔ ڈیڑھ گھنٹہ تفصیل سے سرکار کے کام کا حساب دینے کا ہمیں موقع ملا ہے۔ اور میں اگر یہ تحریک نہیں آئی ہوتی تو شاید ہمیں بھی اتنا کچھ کہنے کا موقع نہ ملتا تو پھر ایک بار تحریک لانے والوں کا تو میں شکر گزار ہوں، لیکن یہ تحریک دیش کے ساتھ دھوکہ دہی کی تحریک ہے، یہ ملک کے عوام نہ منظور کریں ایسی تحریک ہے اور اس کے ساتھ میں پھر ایک بار عزت مآب چیئرمین صاحب آپ کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی آواز کو آرام دیتا ہوں۔

بہت بہت شکریہ۔

 

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
Cabinet approves minimum support price for Copra for the 2025 season

Media Coverage

Cabinet approves minimum support price for Copra for the 2025 season
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
سوشل میڈیا کارنر،21دسمبر 2024
December 21, 2024

Inclusive Progress: Bridging Development, Infrastructure, and Opportunity under the leadership of PM Modi