نمستے!
پروگرام میں موجود قابل صد احترام سنتوں، گجرات کے گورنر آچاریہ دیوورت جی، وزراء کی کونسل میں میرے ساتھی پروشوتم روپالا جی، آریہ سماج کی مختلف تنظیموں سے وابستہ تمام عہدیداران، دیگر معززین، خواتین و حضرات!
ملک سوامی دیانند سرسوتی جی کی 200واں یوم پیدائش منا رہا ہے۔ میری خواہش تھی کہ میں خود سوامی جی کی جائے پیدائش ٹنکارا پہنچ جاتا، لیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ میں اپنے دل و دماغ سے آپ سب کے درمیان ہی ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ آریہ سماج سوامی جیکی خدمات کو یاد کرنے اور انہیں عوام تک پہنچانے کے لیےیہمہوتسو منا رہا ہے۔ مجھے پچھلے سال اس اتسو کے افتتاح میں شرکت کا موقع ملا تھا۔ یہ فطری بات ہے کہ میلے کا تعلق ایک ایسے عظیم انسان سے ہے جس کی خدمات ایسی بے مثا ل ہوں ان کے سلسلہ میں ہونے والے مہوتسو کا اتنا فطری بات ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ تقریب ہماری نئی نسل کو مہارشی دیانند کی زندگی سے متعارف کرانے کا ایک موثر ذریعہ بنے گی۔
ساتھیو!
میں خوش قسمتی سے سوامی جی کی جائے پیدائش گجرات میں پیدا ہوا۔ ان کے کام کی جگہ ہریانہ تھی، کافی عرصے تک مجھے بھی اس ہریانہ کی زندگی کو قریب سے جاننے، سمجھنے اور وہاں کام کرنے کا موقع ملا۔ لہذا، قدرتی طور پر اس کا میری زندگی میں ایک مختلف اثر ہے، اس کا اپنا ایک کردار ہے۔ آج، اس موقع پر، میں مہارشی دیانند جی کے چرنوں میں پڑنام کرتا ہوں اور انہیں نمن کرتا ہوں۔ میں ملک اور بیرون ملک مقیم ان کے کروڑوں پیروکاروں کو بھی ان کے یوم پیدائش پر بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیو!
تاریخ میں کچھ دن، کچھ لمحے، کچھ پل ایسے آتے ہیں جو مستقبل کی سمت کو ہی بدل دیتے ہیں۔ 200 سال پہلے دیانند جی کی پیدائش ایسا ہی ایک بے مثال لمحہ تھا۔ یہ وہ دور تھا جب غلامی میں جکڑے ہندوستان کے لوگ اپنا شعور کھو رہے تھے۔ سوامی دیانند جی نے تب ملک کو بتایا کہ کس طرح ہمارے دقیانوسی تصورات اور توہمات نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ان دقیانوسی تصورات نے ہماری سائنسی سوچ کو کمزور کر دیا تھا۔ ان سماجی برائیوں نے ہمارے اتحاد پر حملہ کیا تھا۔ سماج کا ایک طبقہ ہندوستانی ثقافت اور روحانیت سے مسلسل دور ہوتا جا رہا تھا۔ ایسے وقت میں سوامی دیانند جی نے 'ویدوں کی طرف لوٹنے' کی اپیل کی۔ انہوں نے ویدوں پر بھاشیہ لکھے اور منطقی وضاحتیں دیں۔ انہوں نے دقیانوسی تصورات پر کھل کر حملہ کیا، اور بتایا کہ ہندوستانی فلسفہ کی اصل نوعیت کیا ہے۔ نتیجہیہ نکلا کہ معاشرے میں خود اعتماد لوٹنے لگی۔ لوگ ویدک مذہب کو جاننے لگے اور اس کی جڑوں سے جڑنے لگے۔
ساتھیو!
انگریزی حکومت نے ہماری معاشرتی برائیوں کو مہرہ بناکر ہمیں نیچا دکھانے کی کوشش کی۔ تب برطانوی راج کو کچھ لوگوں نے سماجی تبدیلیوں کا حوالہ دے کر درست قرار دیا۔ ایسے دور میں سوامی دیانند جی کی آمد سے ان تمام سازشوں کو گہرا جھٹکا لگا۔ لالہ لاجپت رائے، رام پرساد بسمل، سوامی شردھانند، انقلابیوں کا ایک پورا سلسلہ تیار ہوا، جو آریہ سماج سے متاثر تھا۔ اس لیے دیانند جی نہ صرف ویدکرشی ہی نہیں تھے بلکہ وہ قومی شعور کے حامل رشی بھی تھے۔
ساتھو!
سوامی دیانند جی کی پیدائش کے 200 سال کا یہپڑاؤ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب ہندوستان اپنے امرت کال کے ابتدائی سالوں میں ہے۔ سوامی دیانند جی ایک سنت تھے جنہوں نے ہندوستان کے روشن مستقبل کا خواب دیکھا تھا۔ سوامی جی کا ہندوستان کے بارے میں جو یقین تھا، ہمیں اس یقین کو امرتکال میں اپنے خود اعتمادی میں بدلنا ہوگا۔ سوامی دیانند جدیدیت کے پیرو کار تھے، رہنما تھے۔ ان سے تحریک لے کر آپ سب کو اس امرت کال میں ہندوستان کو جدیدیت کی طرف لے جانا ہے، ہمیں اپنے ملک کو ترقییافتہ ہندوستان بنانا ہے۔ آج آریہ سماج کے ملک اور دنیا میں ڈھائی ہزار سے زیادہ اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں ہیں۔ آپ سبھی 400 سے زیادہ گروکلوں میں طلباء کو تعلیم اور تربیت دے رہے ہیں۔ میں چاہوں گا کہ آریہ سماج اکیسویں صدی کی اس دہائی میں ایک نئی توانائی کے ساتھ ملک کی تعمیر کی مہمات کی ذمہ داری اٹھائے۔ ڈی اے وی ادارہ مہارشی دیانند سرسوتی جی کی زندہ یادگارہے، تحریک ہے، شعور کی سرزمین ہے۔ اگر ہم اسے مسلسل تقویت پہنچائیں گے تو یہ مہارشی دیانند جی کو ہماری مقدس خراج عقیدت ہوگی۔
ہندوستانی کردار سے جڑا تعلیمی نظام آج کی بڑی ضرورت ہے۔ آریہ سماج کے اسکول اس کے بڑے مراکز رہے ہیں۔ ملک اب اسے قومی تعلیمی پالیسی کے ذریعے وسعت دے رہا ہے۔ معاشرے کو ان کوششوں سے جوڑنا ہماری ذمہ داری ہے۔ آج، چاہےلوکل کے لئے ووکل کا معاملہ ہو، آتم نربھر بھارت مہموں ... آج کی جدید طرز زندگی میں فطرت کے لئے انصاف کو یقین بنانے والا مشن لائف ہو، ہمارے ملیٹس شری انّ کو فروغ دیناہو،یوگاہو، فٹنس، کھیلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا، آریہ سماج کے تعلیمی ادارے اور ان میں پڑھنے والے طلباء، سب مل کر ایک بہت بڑی طاقت ہیں۔ یہ سب ایک بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
آپ کے اداروں میں طلباء ہیں، ان میں سے ایک بڑی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہے جو 18 سال کی عمر سے تجاوز کر چکے ہیں۔ یہ آپ کے تمام بزرگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے نام ووٹر لسٹ میں شامل ہوں اور وہ ووٹ کی اہمیت کو سمجھتے ہوں۔ آریہ سماج کے قیام کا 150 واں سال بھی اسی سال سے شروع ہونے والا ہے۔ میں چاہوں گا کہ ہم سب اپنی کوششوں اور کامیابیوں سے اتنے بڑے موقع کو واقعییادگار بنائیں۔
ساتھیو!
قدرتی کاشتکاری بھی ایک ایسا موضوع ہے جسے جاننا اور سمجھنا تمام طلبہ کے لیے بہت ضروری ہے۔ ہمارے آچاریہ دیوورت جی اس سمت میں بہت محنت کر رہے ہیں۔ مہارشی دیانند جی کی جائے پیدائش سے پورے ملک کے کسانوں تک قدرتی کھیتی کا پیغام پہنچانے سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے؟
ساتھیو!
مہارشی دیانند نے اپنے دور میں خواتین کے حقوق اور ان کی شرکت کے بارے میں بات کی تھی۔ نئی پالیسیوں اور ایماندارانہ کوششوں کے ذریعے آج ملک اپنی بیٹیوں کو آگے لے جا رہا ہے۔ ابھی چند ماہ قبل ہی، ملک نے ناری شکتی وندن ایکٹ پاس کرکے لوک سبھا اور اسمبلی میں خواتین کے ریزرویشن کو یقینی بنایا ہے۔ ان کوششوں سے ملک کے لوگوں کو جوڑنا ہی آج مہارشی کو حقیقی خراج عقیدت ہوگا۔
اورساتھیو،
ان تمام سماجی کاموں کے لیے آپ کے پاس حکومت ہند کی نو تشکیل شدہ نوجوان تنظیم کی طاقت بھی ہے۔ ملک کی اس سب سے بڑی اور نوجوان تنظیم کا نام –میرا یووا بھارت - مائی بھارت ہے۔ میں دیانند سرسوتی جی کے تمام پیروکاروں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ڈی اے وی ایجوکیشنل نیٹ ورک کے تمام طلباء کو مائی بھارت میں شامل ہونے کی ترغیب دیں۔ میں ایک بار پھر آپ سب کو مہارشی دیانند کے 200 ویںیوم پیدائش پرایک بار پھر مبارکباد دیتا ہوں۔ میں ایک بار پھر مہارشی دیانند جی اور آپ تمام سنتوں کوبصد احترام پڑنام کرتا ہوں۔
بہت بہت شکریہ!