اینکر- محترم وزیر اعظم، معزز وزراء، ڈاکٹر پی ٹی اوشا؛ آج پیرس اولمپکس میں حصہ لینے والے ہمارے تمام کھلاڑی آپ سے بات کرنے آئے ہیں۔ جناب عالی سے رہنمائی کی امید رکھتے ہیں۔ تقریباً 98 لوگ آن لائن جڑے ہوئے ہیں جناب، کیونکہ ان کی ٹریننگ بیرون ملک چل رہی ہے، ملک کے دیگر مراکز میں ٹریننگ چل رہی ہے۔ اور آنے والے چند دنوں میں آپ سبھی لوگ پیرس کے لیے روانہ ہوں گے۔ جناب عالی سے گزارش ہے کہ سب کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی فرمائیں۔ شکریہ جناب عالی!
وزیر اعظم - آپ سب کو خوش آمدید! اور ان تمام دوستوں کو بھی خوش آمدید جو آن لائن جڑے ہوئے ہیں۔ دوستو، آج میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا، کیونکہ آج آپ جانے کے موڈ میں ہوں گے اور جیتنے کے موڈ میں ہوں گے۔ اور جب آپ جیت کر واپس آئیں گے تو میں آپ کا استقبال کرنے کا خواہاں ہوں۔ اور یہی وجہ ہے کہ میری ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ کھیلوں کی دنیا سے منسلک اپنے ملک کے ستاروں سے ملتے رہیں، نئی نئی چیزیں جانتے رہیں اور ان کی کوششوں کو سمجھتے رہیں۔ اور بحیثیت حکومت، اگر ہم نظام میں کچھ تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں اور کچھ کاوشوں کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں، تو مجھے اس سمت میں کچھ کام کرتے رہنا چاہیے۔ میری کوشش یہ رہتی ہے کہ سب سے براہ راست بات چیت کروں، تاکہ اوّلین معلومات دستیاب ہوسکیں۔
کھیلوں کی ایک نوعیت ہوتی ہے، جو ہر طالب علم کے لیے اہم ہوتا ہے۔ جب وہ امتحان کا پرچہ دینے جاتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے پورے گھر کو یقین دلاتا ہے کہ فکر نہ کرو میں رینک لینے جا رہا ہوں۔ اور جب اسے امتحان میں پتہ چلے گا کہ کیا ہوگا، وہ کیا کر پائے گا، ٹھیک کیا یا نہیں کیا، تو نکلتے ہی شروع کردیتا ہے۔ پنکھا بہت شور مچا رہا تھا۔ کھڑکی کھلی تھی تو مزہ نہیں آرہا تھا، استاد بار بار میری طرف دیکھتے تھے۔ تو آپ نے دیکھے ہوں گے ایسے طالب علم، ان کے پاس بہت سارے بہانے ہوتے ہیں اور وہ ہمیشہ حالات کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور ایسے لوگ زندگی میں کبھی ترقی نہیں کرتے، وہ بہانے بنانے میں تو ماہر ہو جاتے ہیں، لیکن ترقی نہیں کر پاتے۔
لیکن میں نے دیکھا ہے، بہت سے کھلاڑیوں کو میں جانتا ہوں، وہ کبھی بھی حالات پر الزام تراشی نہیں کرتے۔ وہ ہمیشہ یہ کہتے ملیں گے کہ یہ تکنیک میرے لیے نئی تھی۔ وہ جو کرتا تھا میں نے اندازہ نہیں لگایا کہ وہ بھی ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔
میرے کہنے کا مطلب ہے دوستو، ہم کھیلنے کے لیے جا رہے ہیں، ہم اپنی بہترین کارکردگی کے لیے جا رہے ہیں، لیکن اولمپکس سیکھنے کا ایک بہت بڑا میدان ہوتا ہے۔ اب تو، ایک تو میں اپنا کھیل کھیلوں اور ٹیلی فون کرکے سب کو بتاتا رہوں ، دیکھئے آج ایسا رہا، ویسا رہا؛ دوسرے ہوتے ہیں باقی ہر کھیل دیکھنے جاتے ہیں۔ ہمارا ملک کیسے کھیل رہا ہے، دوسرا ملک کیسے کھیل رہا ہے، اور وہ چیزوں کا مکمل مشاہدہ کرتا ہے، انہیں جذب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور وہ آکر اپنے کوچ کو بھی کہے گا کہ ارے نہیں، میں نے دیکھا، اس نے تو آخری لمحے میں بڑا کارنامہ انجام دیا تھا، تو مجھے بھی بتائیے کہ وہ تکنیک کیا تھی؟ کبھی اس ویڈیو کو وہ دس بار دیکھتا ہے، کہ اس نے اس کو کیسے پلٹا تھا۔
اس کا مطلب ہے کہ جو شخص سیکھنے کے جذبے کے ساتھ کام کرتا ہے، اس کے پاس سیکھنے کے بہت سے مواقع ہوتے ہیں۔ جو شکایت میں جینا چاہتا ہے، اس کے لیے بھی مواقع کی کمی نہیں ہوتی۔ دنیا کے امیر ممالک میں بھی جو لوگ بہترین سہولتیں لے کر آئے ہوئے ہیں وہ شاید شکایت کرتے نظر آئیں گے۔ اور جب ہمارے جیسے ملک کے لوگ جاتے ہیں تو بہت سی مشکلات ہوتی ہیں، بہت سی تکلیفیں ہوتی ہیں، لیکن دل میں، اس کے من میں رہتا ہے کہ میرا دیش، میرا ترنگا جھنڈا۔ اور اس لیے وہ مشکلوں کو اور تکلیفوں کو بالکل ایک طرف رکھ دیتا ہے۔ وہ اپنے مشن کے لیے جٹ جاتا ہے۔
اور اسی لیے ساتھیو، مجھے پورا بھروسہ ہے کہ اس بار بھی آپ کھیل کے میدان میں ہندوستان کا نام روشن کرکے آئیں گے۔ جو پہلی بار جا رہے ہیں، جن کو اولمپکس میں جانے کا پہلا موقع مل رہا ہے، ایسے کون کون ہیں! اچھا، بیٹیوں کی تعداد زیادہ ہے، پہلوانوں کی تعداد بھی زیادہ ہے نا؟
اچھا جو پہلی بار جا رہے ہیں ان کے ذہنوں میں کیا چل رہا ہے! میں ذرا سننا چاہوں گا، آپ کیا سوچ رہے ہیں؟ آپ میں سے کوئی بھی بتائے، تو براہ کرم مجھے بتائیے۔ آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں نا؟ یہ پیچھے۔ ہاں بتائیے۔
کھلاڑی – مجھے بہت اچھا محسوس ہورہا ہے، میں پہلی بار اولمپکس میں جا رہی ہوں۔
وزیر اعظم: اپنا تعارف دیجئے!
کھلاڑی - میں رمتا جندال ہوں اور میں پہلی بار ایئر رائفل شوٹنگ میں اولمپکس میں جا رہی ہوں۔ اس لیے میں جانے کے لیے بہت پرجوش ہوں کیونکہ جب سے میں نے کھیل شروع کیے ہیں، اولمپکس میں جانا شروع سے ہی میرا خواب تھا۔ اس لیے مجھے وہاں جانے اور ملک کے لیے کچھ اچھا کرکے آنے کا بہت جوش اور حوصلہ بھی ہے۔
وزیر اعظم - آپ کی تربیت کہاں کہاں ہوئی ہے؟
کھلاڑی - میں ہریانہ سے ہوں، لیکن میں ٹریننگ چنئی میں کرتی ہوں۔
وزیر اعظم: کیا خاندان میں کوئی اور بھی کھیلوں کی دنیا سے وابستہ ہے یا آپ ہی نے اس کی شروعات کی ؟
کھلاڑی - نہیں، میں نے ہی شروعات کی ہے۔
وزیر اعظم - اچھا، ورنہ ہریانہ میں تو ہر گھر میں کھلاڑی ملے گا۔ تشریف رکھیں۔ اور کون بتا سکتے ہیں کہ پہلی بار کون جا رہا ہے؟ بیٹیاں تو بہت بتا سکتی ہیں۔ دیجئے، دیجئے، وہ کچھ کہیں گی۔
کھلاڑی - سر، میرا نام ریتیکا ہے اور میں ہریانہ، روہتک سے ہوں۔ میں بہت خوش ہوں، میں پہلی بار جا رہی ہوں۔ جوش بھی بہت ہے کہ میں اپنی کارکردگی دکھاؤں گی، پورے ملک کی نظریں مجھ پر ہوں گی، سبھی لوگ دعا بھی کررہے ہیں اور میں بھی اپنی 100 فیصد کارکردگی کا مظاہرہ کروں گی۔
وزیر اعظم - شاباش! بولئے نا، ہاں دیجئے، آپ ہچکچا رہی ہیں، بولنا ہے، یہ آپ کی باڈی لینگویج کہہ رہی ہے۔
کھلاڑی - میرا نام انتم تنگاڑا ہے۔ اور میں 53 کلوگرام میں ریسلنگ کرتی ہوں۔ میری عمر اس وقت 19 سال ہے اور میں اولمپکس میں کھیلنے جا رہی ہوں۔ میں بہت خوش ہوں کہ اس وقت اولمپکس میں کشتی میں صرف ایک تمغہ آیا ہے لڑکی کا، اور وہ بھی کانسہ کا۔ تو میں چاہتی ہوں کہ اس سے بھی اچھا میڈل لے کر آؤں۔
وزیر اعظم - شاباش! ٹھیک ہے، آپ میں سے 18 سال سے کم عمر کے کون کون ہیں؟ جن کی عمر 18 سال سے کم ہے۔ ایک، ہاں، بتائیے ذرا۔
کھلاڑی - ہیلو، میں دھنیدھی دیسنگھو ہوں۔ میں 14 سال کی ہوں۔ میں کیرالہ سے ہوں، لیکن میں عام طور پر کرناٹک کی نمائندگی کرتی ہوں۔ میں ٹیم انڈیا کا حصہ ہونے کے ناطے اس سال اولمپکس میں جانے کے لیے بہت پرجوش ہوں۔ یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے کہ مجھے اس سال ایسی شاندار ٹیم کا حصہ بننے کا موقع ملا ہے۔ میں جانتی ہوں کہ یہ میرے سفر کا صرف ایک آغاز ہے اور میں جانتی ہوں کہ یہاں مجھے اور ہم سب کو ایک طویل راستہ طے کرنا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ہم سب ملک کا سر فخر سے بلند کریں گے، اور مجھے امید ہے کہ ہم عظیم کامیابیوں اور لائف ٹائم اہداف کے ساتھ واپس آئیں گے۔
وزیر اعظم - آپ سب کے لیے نیک خواہشات۔
کھلاڑی - شکریہ جناب عالی!
وزیر اعظم: اچھا جو لوگ تین بار سے زیادہ اولمپکس میں گئے ہیں، ایسے کون کون ہیں؟ تین بار سے زیادہ۔ آئیے ذرا ان سے سنتے ہیں۔ ہاں بتائیے، تو یہ جھارکھنڈ والوں کو تو کچھ بھی کہنے کی آزادی ہے۔
کھلاڑی – نمستے سر، میرا نام دیپکا کماری ہے۔ میں تیر اندازی کی نمائندگی کرتی ہوں اور مجھے بہت خوشی ہے کہ یہ میرا چوتھا اولمپکس ہے اور میں بہت پرجوش ہوں اور میرے پاس کافی تجربہ ہے، تو میں چاہوں گی کہ اس تجربے کو استعمال کروں۔ اور اسی جوش اور اسی اعتماد کے ساتھ نمائندگی کروں اور اپنی 200 فیصد کارکردگی دوں۔ شکریہ جناب عالی۔
وزیر اعظم- اچھا، آپ ان نئے کھلاڑیوں کو کیا پیغام دیں گے جو پہلی بار یہاں جا رہے ہیں؟ جو پہلی بار اس ٹیم میں جا رہے ہیں۔
کھلاڑی- سر، میں یہ کہوں گی کہ جوش بہت زیادہ ہوتا ہے، لیکن میں ان سے کہوں گی کہ وہ اس چکاچوند سے پریشان نہ ہوں۔ جتنا ہوسکے وہ خود پر زیادہ سے زیادہ توجہ مرکوز کریں اور لطف اٹھائیں، لیکن پوری توجہ کے ساتھ، مکمل خود اعتمادی کے ساتھ۔ میں یہ کہوں گی کہ اگر تمغہ جیتنا ہے تو اس کے پیچھے نہ بھاگو، وہ پرفارم کریں، اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں تاکہ تمغہ ان کے حصے میں آئے۔
وزیراعظم- آپ تین بار ہو آئیں۔ آپ پہلی بار گئیں، تو اس سے کچھ سیکھا ہوگا، آپ نے آکر اس پر عمل کیا ہوگا۔ دوسری بار گئیں تو کچھ اور سیکھا ہوگا۔ کیا میں جان سکتا ہوں کہ آپ نے کون سی ایسی نئی چیزیں اختیار کیں ، جن کی وجہ سے آپ کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے اور آپ کو لگتا ہے کہ آپ ملک کو کچھ دے پائیں گی۔ یا ایسا تو نہیں ہے کہ معمول کی جو پریکٹس کرتی تھیں وہی کرتی رہیں، کیونکہ زیادہ تر میں نے دیکھا ہے، جس طرح میں ہوں، میں یوگا وغیرہ کرنے کا عادی ہوں۔ تو میں اپنے لیے سمجھ لیتا ہوں۔ لیکن میں نے دیکھا ہے کہ جو ایک تال بن جاتی ہے، اسی جگہ سے شروع کرتا ہوں وہیں سے ایک دم سے شروع ہو جاتا ہے۔ پھر میں تھوڑا حساس ہوکر کہتا ہوں، نہیں، آج یہ دو چھوڑو، دو نئے کام کرو، تو تھوڑا مجھے۔ ویسے ہر ایک کی عادت بن جاتی ہے کہ وہ اپنی پرانی عادت کی طرح کام کرتا رہتا ہے۔ اور اس کو لگتا ہے کہ میں نے یہ کیا۔ آپ کی صورت حال کیا ہے؟
کھلاڑی - جناب عالی، جو پرانی اچھی عادت ہے اسے جاری رکھتے ہیں اور جیسے آخری مرتبہ اگر ہم کسی بھی میچ میں ہار جاتے ہیں تو ہم اس سے سیکھتے ہیں اور پریکٹس کے دوران وہ غلطی ہم نہ کریں، اس کو ہم ہردم بار بار کرتے ہیں، تاکہ ہماری عادت میں رچ بس جائے۔ جو اچھی عادت ہے وہ معمول بن جائے، وہی چیز ہم جاری رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
وزیر اعظم - کبھی کبھی کوئی بری عادت بھی عادت بن جاتی ہے، جسم کا حصہ بن جاتی ہے۔
کھلاڑی- جناب ایسا ہوتا ہے۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ بری عادت لگ جاتی ہے، لیکن ہم خود سے بات کرتے ہیں اور خود کو یاد دلاتے ہیں کہ ہمیں ان چیزوں کو اچھی چیزوں میں کیسے تبدیل کرنا ہے۔
وزیر اعظم - چلئے! اور کون ہے جو تین بار گیا اور لوٹا؟
کھلاڑی - نمستے سر، میں پووما ایم آر ایتھلیٹکس ہوں۔ جب میں 2008 میں اولمپکس میں گئی تھی تو میری عمر 18 سال تھی۔ تو میں ریزرو میں تھی، تو 2016 میں ہم ٹیم میں باہر گئے، تو 2002 کے بعد ہم فائنل میں نہیں آئے،تو اس مرتبہ ہم قومی ریکارڈ بنا کر فائنل میں آنا چاہتے ہیں۔
وزیر اعظم - یہ اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔ شکریہ، آپ سب کے لیے نیک تمنائیں۔ یہ جو باہر جارہے ہیں اور ہمارے ساتھ آن لائن جڑے ہوئے ہیں وہ بھی اپنے کچھ تجربات شیئر کرنا چاہتے ہیں تو اچھا لگے گا تمام کھلاڑیوں کو۔ کون بتانا چاہتا ہے، ہاتھ اٹھا کر شروع کریں۔
کھلاڑی - نمسکار سر،
وزیر اعظم - نمستے۔
کھلاڑی - میں پی وی سندھو ہوں سر، اب یہ میرا تیسرا اولمپکس ہے، میں جا رہی ہوں سر۔ تو 2016 میں پہلے اولمپکس میں چاندی کا تمغہ لے کر آئی تھی اور 2020 ٹوکیو میں کانسہ لے کر آئی تھی، تو اس لیے اس بار مجھے امید ہے کہ میں تمغے کا رنگ بدلوں گی اور مجھے امید ہے کہ میں تمغہ لے کر واپس آؤں گی۔ ظاہر ہے کہ میں کافی تجربے کے ساتھ جا رہی ہوں، لیکن یقینی طور پر یہ آسان نہیں ہوگا، لیکن میں اپنی ہر ممکن کوشش کروں گی اور میں ایک اور میڈل کی امید رکھتی ہوں سر۔
وزیر اعظم- یہ جو نئے کھلاڑی آ رہے ہیں ان کے لیے آپ کیا کہیں گی!
کھلاڑی - سب سے پہلے، میں بس یہی کہنا چاہتی ہوں کہ میں ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتی ہوں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اولمپکس ہے، کیسے کھیلنا ہے اور بہت زیادہ دباؤ بھی رہتا ہے اور کچھ لوگوں کو یہ رہتا ہے کہ وہ اس تجسس میں رہتے ہیں کہ اس کا پہلا اولمپکس ہے اور ہم اولمپکس میں جانا چاہتے ہیں۔ لیکن میں صرف یہ کہنا چاہتی ہوں کہ یہ بھی کسی دوسرے ٹورنامنٹ کی طرح ہے۔ بس اتنا ہے کہ ہمیں توجہ مرکوز کرنی ہے اور ہمیں اپنے آپ میں یہ یقین ہونا چاہیے کہ ہم یہ کر سکتے ہیں اور یقیناً ہر کوئی سخت محنت کر رہا ہے، اس لیے میری خواہش ہے کہ وہ اپنا 100 فیصد برقرار رکھیں۔ یہ مت سوچیں کہ یہ کوئی الگ ٹورنامنٹ ہے اور یہ مشکل ہے۔ لیکن میں انہیں صرف یہ بتانا چاہتی ہوں کہ یہ کسی دوسرے ٹورنامنٹ کی طرح ہی ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ اپنی 100 فیصد کارکردگی دکھائیں۔ شکریہ جناب عالی۔
وزیر اعظم - اور کون ہے، کوئی ہے جو باہر سے بات کرنا چاہے گا؟
کھلاڑی - نمستے، سر میں پرینکا گوسوامی ہوں۔
وزیر اعظم - نمستے جی، آپ کے بالاکرشن کہاں ہیں؟
کھلاڑی - سر، میرے پاس ہی ہے، یہیں سوئٹزرلینڈ میں ہی ہے۔
وزیر اعظم - تو اس بار بھی بالا کرشن کو لے کر جارہی ہو نا۔
کھلاڑی - جی جناب عالی، یہ ان کا بھی دوسرا اولمپکس ہے۔ سب سے پہلے تو سر آپ کو بہت بہت مبارک ہو کہ آپ تیسری بار وزیر اعظم بنے ہیں اور ہم سب کھلاڑیوں کو آپ سے دوبارہ بات کرنے اور ملنے کا موقع ملا ہے۔ اور سر، جیسا کہ یہ دوسرا اولمپکس ہے اور میں حکومت کی جانب سے تین مہینے سے آسٹریلیا میں ٹریننگ کررہی تھی اور ابھی ٹی او پی ایس کی جانب سے سوئٹزرلینڈ میں ٹریننگ کر رہی ہوں، ہمیں حکومت کی طرف سے بہت تعاون مل رہا ہے۔ اگر آپ کسی دوسرے ملک میں پریکٹس کرنے جارہے ہیں تو مجھے امید ہے کہ تمام کھلاڑی اولمپکس میں اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے اور اچھے نتائج دیں گے اور زیادہ سے زیادہ تمغے جیتیں گے۔
وزیر اعظم- ٹھیک ہے، آپ کی ایک شکایت رہتی تھی کہ آپ کا کھیل ایسا ہے کہ اسے دیکھنے والا کوئی نہیں۔ تو آپ وہاں پریکٹس کر رہے تھے، آپ کو دیکھنے والا کوئی تھا۔
کھلاڑی- جی سر، اس کھیل کو بیرونی ممالک میں بھی اتنی ہی اہمیت دی جاتی ہے، جتنا کہ اور کھیلوں میں دی جاتی ہے، ہمارے اپنے اپنے ملک میں تھوڑا سا کم تھا۔ لیکن جب سے آپ اس کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ سب کو دیکھنا چاہیے، آپ ہر کھلاڑی کے لیے بات کرتے ہیں، تو ہمارے ملک میں اب بہت سے لوگ کھیل دیکھ رہے ہیں اور کھلاڑیوں کی بہت حوصلہ افزائی ہو رہی ہے اور ہمیں یہ سپورٹ بھی مل رہی ہے کہ کوئی ہمارا کھیل بیٹھ کر دیکھ رہا ہے، تب ہمیں بھی اچھا کرنے کی مزید ترغیب ملتی ہے۔
وزیراعظم- آپ کو بہت بہت مبارک ہو، اور کون ہے وہاں سے جو بات کرنا چاہے گا؟
کھلاڑی - نمسکار سر، میں نکھد بول رہی ہوں سر۔ میں باکسنگ کے 50 زمرے میں اولمپکس میں ہندوستان کی نمائندگی کرنے جا رہی ہوں۔ اور یہ میرا پہلا اولمپکس ہے اور میں بہت پرجوش ہوں، اسی کے ساتھ ساتھ میں اپنے آپ کو فوکس کر رہی ہوں، کیونکہ پورے اہل وطن کو مجھ سے توقعات وابستہ ہیں، میں ان کی توقعات پر پورا اترنا چاہتی ہوں اور اپنے ملک کا نام بلند کرکے واپس لوٹنا چاہتی ہوں۔
وزیر اعظم - بہت بہت مبارک ہو، نیرج کچھ کہہ رہے تھے۔
کھلاڑی - نمستے سر!
وزیراعظم - نمستے بھیا۔
کھلاڑی - جناب آپ کیسے ہیں؟
وزیر اعظم - میں ویسا ہی ہوں، آپ کا چورما ابھی تک نہیں آیا۔
کھلاڑی: جناب ہم اس بار چورما لے کر آئیں گے۔ پچھلی بار وہ دہلی میں چینی والا چورما تھا۔ اب تو ہریانہ کا دیسی گھی۔
وزیراعظم: وہی تو، بھائی مجھے تیری ماں کے ہاتھ کا چورما کھانا ہے۔
کھلاڑی: ضرور جناب۔
وزیر اعظم - ہاں، بتائیے۔
کھلاڑی- بالکل جناب، ابھی ہم جرمنی میں ہیں اور ٹریننگ بہت اچھی چل رہی ہے۔ اس بار میں نے بہت کم مقابلہ کھیلا ہے، کیونکہ مجھے بار بار انجری ہورہی ہے۔ لیکن اب یہ بہت بہتر ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے ہم نے فن لینڈ میں ایک مقابلہ کھیلا اور وہ بہت اچھا رہا اور ہمارے پاس اولمپکس میں ابھی ایک مہینہ باقی ہے اور ٹریننگ بہت اچھی چل رہی ہے۔ ہم خود کو مکمل طور پر فٹ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور پیرس جا کر اپنے ملک کے لیے 100 فیصد کارکردگی دیں سر، کیونکہ یہ چار سال میں آتا ہے۔ میں تمام کھلاڑیوں کو بتانا چاہوں گا کہ انہیں چار سال میں موقع ملتا ہے اور اپنے اندر جاکر معلوم کریں کہ وہ کیا چیز ہے جس سے ہم اپنی بہترین کارکردگی پیش کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ٹوکیو میرا پہلا اولمپکس تھا اور اس کا نتیجہ پہلے اولمپکس میں بہت اچھا تھا، میں نے ملک کے لیے گولڈ جیتا اور مجھے یقین ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے ذہن میں کوئی خوف نہیں تھا، میں بے خوف ہو کر کھیلا اور خود پر بہت یقین تھا۔ میں خود کہتا ہوں کہ ٹریننگ بہت اچھی رہی اور میں تمام کھلاڑیوں سے کہوں گا کہ اسی طرح کھیلیں، کسی سے ڈرنے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ وہ بھی انسان ہیں۔ کئی بار ہم سوچتے ہیں کہ شاید یورپ کے لوگ زیادہ مضبوط ہیں یا امریکہ یا دوسرے ممالک کے کھلاڑی زیادہ مضبوط ہیں۔ لیکن بات وہی ہے کہ اگر ہم خود کو پہچان لیں کہ ہاں، ہم اتنی محنت کر رہے ہیں اور اپنے گھر سے بہت دور ہیں، تو کچھ بھی ممکن ہے۔
وزیر اعظم - آپ نے سب کو بہت اچھی ٹپس دی ہیں، میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ کی اچھی صحت کے لیے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ ایک ماہ میں کوئی نئی چوٹ نہیں آنی چاہیے بھائی۔
کھلاڑی: سر یہی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم - دیکھو ساتھیو، آپ نے دیکھا ہوگا کہ دو تین چیزیں بہت اچھی نکلیں۔ آپ کو تجربہ کار لوگوں سے سیکھنے کو ملتا ہے۔ اس کی ایک اہمیت ہے۔ جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا کہ وہاں کے چکاچوند میں ڈوب مت جانا، کھو مت جانا ، یہ بہت سچ ہے جی۔ ورنہ اس کا اثر ہم پر اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے کام پر توجہ نہیں دے پاتے۔ دوسری بات یہ کہ پرماتما نے ہمیں بلندی عطا کی ہے، دوسرے کھلاڑی ہم سے بڑے قد والے ہوتے ہیں، لیکن ہم پکا مان کر چلیں کہ یہاں قد کا کوئی کھیل نہیں ہے۔ یہاں مہارت کا کھیل ہے، آپ کی صلاحیتوں کا کھیل ہے۔ سامنے والے کا جسم ہم سے دو فٹ اونچا ہے، چوڑا ہے، اس کی فکر نہ کریں۔ آپ کو اپنے ٹیلنٹ پر اعتماد ہونا چاہیے اور جسم کتنا ہی موٹا کیوں نہ ہو، کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو، کتنا ہی شاندار نظر آتا ہو، اس بات پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ وہ جیت جائے گا۔ اس لیے ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہم صرف اپنی صلاحیتوں پر توجہ مرکوز کریں، ہمارے پاس جو ہنر ہے، یہی ہمیں نتائج دیتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے لوگوں کو بہت سی چیزیں معلوم ہوتی ہیں، لیکن امتحان کے وقت گڑبڑ ہوجاتی ہے۔ تو ان کو لگتا ہے کہ یاد نہیں آتا ہے، پھر سوچتے ہیں کہ کوئی چیز آپس میں جڑی ہوئی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کی توجہ امتحان پر کم ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر میں اچھا نہیں کروں گا تو میرے گھر والے کیا کہیں گے؟ اگر مجھے کم نمبر ملے، اسی دباؤ میں رہتا ہے۔ دوستو پریشان ہونا چھوڑ دو، بس کھیلو۔ ارے، تمغے آتے بھی ہیں، نہیں بھی آتے ہیں۔ یہ دباؤ کبھی نہ رکھیں۔ ہاں، آپ کو اپنا 100فیصد بہترین دینا ہے، یہ مزاج آپ کا ہونا چاہیے اور اس میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔
دوسری بات، آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کے کوچز ہیں، وہ آپ کو وہ تمام جسمانی علاج بتا رہے ہوں گے جو وہ آپ کو فراہم کرتے ہیں۔ کھیلوں کی دنیا میں نیند اتنی ہی اہم ہے جتنی مشق اور مستقل مزاجی۔ اور کبھی کبھی تو کل صبح میچ ہونے والا ہے تو آج رات کو نیند ہی نہیں آرہی ہے۔ اور شاید نیند کی کمی ہمیں کسی بھی چیز سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ اور آپ حیران ہوں گے کہ یہ کیسا وزیراعظم ہے جو ہمیں سونے کا کہہ رہا ہے۔ لیکن میں آپ سے گزارش کروں گا کہ اچھی نیند کھیلوں کی دنیا اور کسی بھی زندگی میں ہر چیز کے لیے بہت ضروری ہے۔ اور آج کل میڈیکل سائنس بھی نیند پر بہت زور دے رہی ہے۔ آپ کی نیند کتنی دیر تک ہے، آپ کی نیند کتنی گہری ہے، اسے بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ اور نئی میڈیکل سائنس میں ان چیزوں کو بڑے پیمانے پر قبول کیا جا رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آپ کو چاہے کتنا ہی جوش کیوں نہ ہو، آپ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ آپ سوتے ہیں، حالانکہ آپ اتنی محنت کرتے ہیں کہ آپ کا سو جانا بہت فطری ہے، کیونکہ آپ گہری نیند میں چلے جائیں، کیونکہ آپ اپنے جسم پر بہت محنت کرتے ہیں۔ لیکن جسم کی محنت کے بعد سونا ایک چیز ہے اور تمام پریشانیوں سے مبرا ہوکر سونا الگ چیز ہے، اس لیے میں آپ سے گزارش کروں گا کہ نیند کے حوالے سے تھوڑا سمجھوتہ کریں اور تھوڑے دن پہلے اس لئے بھیجتے ہیں کہ آپ متعلقہ مقامی پریشانیوں سے بچ جائیں۔ وہاں مسائل سے بچیں، وہاں تھوڑا سا آرام کریں اور اس کے بعد جب آپ کھیل کے میدان میں داخل ہوں گے تو آپ راحت محسوس کریں گے، اس لیے حکومت یہ انتظام کرتی ہے۔ اس بار بھی کھلاڑیوں کی سہولت کے لیے کچھ نئے کام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن پھر بھی میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہاں سب کے لیے سب کچھ آسان ہوگا یا نہیں، لیکن میں نے کوشش کی ہے۔ ان دنوں ہم وہاں کے جو ہندوستانی کمیونٹی ہیں، آئیے انہیں تھوڑا سا متحرک کریں، انہیں ترغیب دیں، آپ بھی اپنے کھلاڑیوں سے تھوڑا سا جڑیں، کچھ نظم و ضبط ہے تو ہم ان کے اتنے قریب نہیں ہو سکتے، لیکن پھر بھی وہ خیال رکھتے ہیں اور فکر مند ہیں۔ جس کا کھیل مکمل ہو جاتا ہے، اس کی تو اس کی پوری فکر ہوتی ہے۔ ہم اسے آپ کے لیے آرام دہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں، کوئی تکلیف نہ ہو اور آپ اچھے نتائج لے کر آئیں۔ میں آپ سب کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں اور میں ایک بار پھر آپ کا انتظار کروں گا۔ جب آپ 11 اگست کو تشریف لائیں گے تو پورا کھیل مکمل ہو جائے گا۔ آپ میں سے جو لوگ جلدی جائیں گے اور جلدی واپس آجائیں گے، ایسا تو معمول رہتا ہے۔ لیکن میں کوشش کروں گا کہ ایک بار 15 اگست کو لال قلعہ پر پروگرام ہو تو آپ لوگ بھی اس میں شامل ہوں، تاکہ ملک دیکھے کہ ہمارے بھائی یہاں سے اولمپکس کھیلنے گئے تھے، کیونکہ اولمپکس کھیلنا بھی بڑی بات ہے۔ وہ کھیل میں کیا کرکے آتے ہیں وہ اس میں چار چاند لگا دیتا ہے، لیکن ملک کے اندر اتنی ساری کھیل کی دنیا کے لوگوں کا ہونے کے بعد۔ کھیلو انڈیا سے باہر آنے کے بعد آپ میں سے ایسے کتنے کھلاڑی بن چکے ہیں۔ اچھا، یہ بھی کافی لوگ ہیں، تو براہ کرم مجھے بتائیں کہ آپ کیا، کس قسم کا، اور کون سا کھیل کھیل رہے ہیں۔
کھلاڑی - ہیلو سر، میں سیفت ہوں اور میں شوٹنگ کرتی ہوں، اس لیے کھیلو انڈیا نے میری بہت مدد کی ہے، کیونکہ دہلی میں ٹریننگ اور اس اسکیم کے تحت آنے کے بعد میں نے جو بھی نتیجہ حاصل کیا، وہ کھیلو انڈیا کی وجہ سے تھا۔
وزیر اعظم- ٹھیک ہے، یہ ایک اچھی شروعات ہے۔
کھلاڑی- جی جناب۔
وزیر اعظم - آپ کا۔
کھلاڑی – نمستے سر، میرا نام منوبھاکر ہے۔ میں شوٹنگ میں اپنے دوسرے اولمپکس میں ہندوستان کی نمائندگی کروں گی۔ 2018 میں پہلا ایڈیشن کھیلو انڈیا اسکول گیمز تھا۔ اس میں، میں نے قومی ریکارڈ کے ساتھ گولڈ میڈل جیتا تھا۔ اور وہاں سے میں ٹاپس کے کور گروپ میں آگئی تھی اور تب سے ایک ہی سوچ تھی کہ مجھے انڈیا کی جرسی چاہیے اور انڈیا کے لیے کھیلنا ہے اور کھیلو انڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم تھا، جس نے بہت سے لوگوں کو رہنمائی فراہم کی ہے۔ وہاں کے بہت سے کھلاڑی ہیں جنہیں میں آج اپنی ٹیم میں دیکھ رہی ہوں، جو میرے ساتھ بھی کھیلتے ہیں اور مجھ سے جونیئر بھی ہیں۔ جو کہ کھیلو انڈیا کی طرف سے آئے ہیں، اور اس کا ایک بڑا قدم ہوتا ہے ٹاپس ، جو مجھے 2018 سے اس کی حمایت حاصل ہے، اور میں ان کی بہت شکر گزار ہوں کہ ان کے تعاون کی وجہ سے ایک کھلاڑی کو درپیش چھوٹے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ پھر میرے خیال میں کھیلو انڈیا اور ٹاپس نے میرے لیے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ جی سر، ان کے تعاون کی وجہ سے ہی میں آج یہاں ہوں۔ جی شکریہ سر۔
وزیر اعظم - چلئے، آپ کے لیے بہت سی نیک خواہشات۔ اور کوئی ہے جو کچھ کہنا چاہتا ہے۔ اپنی رائے کے مطابق کچھ بتانا چاہتے ہیں۔ ہاں۔
کھلاڑی – نمسکار سر! میں ہاکی ٹیم سے ہرمن پریت سنگھ ہوں۔ تو سر، آخری بار ہم نے اولمپکس میں کانسہ کا تمغہ 41 سال بعد جیتا تھا۔ اس لیے یہ دیکھنا ہمارے لیے بہت فخر کا لمحہ تھا۔ اور کیونکہ ہاکی کی تاریخ بہت اچھی رہی ہے اور اس بار کوششیں بہت اچھی جا رہی ہیں اور سہولیات کی بات بھی کرنے دیں۔
وزیر اعظم- آپ کے گروپ کو سب دیکھ رہے ہیں۔
کھلاڑی- سر، اگر ہم بنگلہ سائی میں رہتے ہیں تو ہمیں ایک بہترین سہولت مل رہی ہے۔ جیسا کہ آپ نے صحت یابی کے بارے میں کہا، آپ نے نیند کے بارے میں کہا، ہمیں اپنی صحت یابی کے لیے کھانے سے لے کر ہر چیز تک بہت اچھی چیزیں مل رہی ہیں۔ اور اس بار بھی ہم سخت محنت کر رہے ہیں اور ہماری ٹیم بہت مضبوط ہے۔ تو امید کرتے ہیں سر کہ اس بار بہتر کریں گے اور ملک کے لیے میڈل لائیں گے۔
وزیراعظم- شاید ملک پر کسی ایک کھیل کا سب سے زیادہ دباؤ ہے، تو وہ ہاکی پر ہوتا ہے، کیونکہ ملک میں ہر کوئی مانتا ہے کہ یہ ہمارا کھیل ہے، ہم کیسے پیچھے رہ گئے۔ سب سے زیادہ دباؤ ہاکی کے کھلاڑیوں پر ہے، کیونکہ ملک کا ہر بچہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ ہمارا کھیل ہے، ہم کیسے ہار سکتے ہیں۔ باقی کہتے تو کہتے ہیں کہ ہاں بھائی ہمارے لوگوں نے کوشش کی، جستجو کی، نکال رہے ہیں۔ وہ ہاکی کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے اس لیے انہیں مزید محنت کرنی پڑتی ہے۔ لیکن میں آپ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں، آپ اسے ضرور لائیں گے، مجھے پورا اعتماد ہے۔
کھلاڑی - شکریہ جناب عالی۔
وزیراعظم- چلئے صاحب! میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ یہ ملک کے لیے کچھ کرنے کا موقع ہوتا ہے۔ آپ اپنی تپسیا سے اس مقام تک پہنچے ہیں۔ اب موقع ہے ملک کو کچھ دینے کا۔ اور ملک کو دینے کے لیے کھیل کے میدان میں اپنی بہترین کارکردگی پیش کرنی ہوگی۔ جو کھیل کے میدان میں اپنی بہترین کارکردگی پیش کرتا ہے وہ ملک کی شان بڑھاتا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ اس بار ہمارے تمام ساتھی پرانے تمام ریکارڈ توڑ کر آئیں گے۔ اس بار ہندوستان کی کوشش ہے کہ وہ 2036 میں اپنے ملک میں اولمپکس کی میزبانی کرے۔ اس سے ایک بڑا ماحول بھی بنتا ہے کہ ہم اپنی سمت میں کوششیں کر رہے ہیں اور شاید بنیادی ڈھانچے کے لیے درکار تیاریوں کے لیے کافی کام ہو رہا ہے۔ تمام ماہر لوگ اس پر کام کر رہے ہیں۔ اگر آپ لوگ بھی کھیل کے بعد، یا کھیل سے پہلے تو میں نہیں کہوں گا، کہ وہاں کیا انتظامات ہیں؟ اس بار اولمپکس فرانس کے مختلف شہروں میں منعقد ہو رہے ہیں اور ان میں سے ایک مکمل طور پر بہت دور ایک جزیرے پر منعقد ہو رہا ہے۔ تو وہاں ایک مختلف قسم کا ماحول ہوگا۔ لیکن پھر بھی، اگر آپ وہاں کے انتظامات میں دلچسپی رکھتے ہیں، تو ان کا مشاہدہ کریں، انہیں نوٹ کریں، کیونکہ جب ہم 2036 کی تیاری کریں گے تو کھلاڑیوں سے جو ماحصل ہمیں حاصل ہوگا وہ ماحصل بہت مفید ثابت ہوگا۔ کہ بھائی وہاں یہ تھا، وہاں وہ تھا، وہاں اِس چیز کی کمی تھی، وہاں اُس چیز کی کمی تھی، تو اگر آپ ایسی چیزوں کا بھی مشاہدہ کرکے آئیں گے تو ہمیں بہت سہولت ملے گی کہ ہمیں 2036 کے لیے کیا کرنا ہے۔ میں آپ سب کو نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ شکریہ۔