وزیر اعظم : دیپیکا جی نمستے!
دیپیکا : نمستے سر!
وزیر اعظم: دیپیکا جی،پچھلے من کی بات میں، میں نے آپ کی اور کئی ساتھیوں سے گفتگو کی تھی۔ابھی پیرس میں طلائی تمغہ جیت کر آپ نے جو کرشمہ کیا ،اس کے بعد تو پورے ملک میں آپ سے متلعق گفتگو ہورہی ہے۔ اب آپ رینکنگ میں دنیا بھر میں سرفہرست ہوگئی ہیں۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ بچپن میں آم توڑنے کیلئے نشانہ لگایا کرتی تھیں ،آم سے شروع ہوا آپ کا یہ سفر بہت خاص ہے، اپنے اس سفر کے بارے میں ملک بہت کچھ جاننا چاہتا ہے ،اگر آپ کچھ بتائیں تو اچھا ہوگا۔
دیپیکا: سر،شروع سے ہی میرا سفر بہت اچھا رہا،آم مجھے بہت پسند تھے اس لئے اسٹوری بنی ، شروع میں تھوڑی جدوجہد کرنی پڑی کیونکہ وہاں سہولیات اچھی نہیں تھی،اس کے بعد ایک ساتھ تیز اندازی کرنے کے بعد کافی اچھی سہولتیں ملیں اور کافی اچھے کوچ بھی ملے۔
وزیر اعظم: دیپیکا جی ،جب آپ شہرت کی بلندی پر پہنچ جاتی ہیں ،تو لوگوں کی آپ سے امیدیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ اب سامنے اولمپک جیسا سب سے بڑا ایونٹ ہے،تو امیدوں اور توقعات کے درمیان آپ خود کو کیسے سنبھالتی ہیں۔
دیپیکا: سر امیدیں تو ہیں ہی لیکن سب سے زیادہ امیدیں خود سے ہوتی ہیں اور ہم یہی فوکس کررہے ہیں کہ جتنی بھی توجہ ہو ، اپنی پریکٹس پر ہو اور کیسے مجھے اپنی کارکردگی کو بہتر بنانا ہے ،اس چیز پر میں سر زیادہ فوکس کررہی ہوں۔
وزیر اعظم:چلئے آپ کو بہت بہت مبارکباد،آپ نے ہار نہیں مانی،آپ نے چنوتیوں کو ہی طاقت بنالیا ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ اسکرین پر مجھے آپ کے اہل خانہ بھی نظر آرہے ہیں ،میں ان کو بھی نمسکار کرتا ہوں،ملک کو پورا بھروسہ ہے کہ آپ اولمپک میں بھی ایسے ہی ملک کا نام روشن کریں گی۔آپ کو میری ڈھیر ساری دعائیں و نیک خواہشات۔
دیپیکا:شکریہ سر۔
وزیر اعظم: آیئے اب ہم پروین کمار جادھو جی سے بات کرتے ہیں ،پروین جی نمستے،
پروین : نمستے سر!
وزیر اعظم :پروین جی مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ کی ٹریننگ پہلے ایتھلیٹ بننے کیلئے ہوئی تھی ۔
پروین: جی سر،بالکل
وزیر اعظم:آج آپ اولمپک میں تیر اندازی کیلئے ملک کی نمائندگی کرنے جارہے ہیں ،یہ تبدیلی کیسے ہوئی؟
پروین: سر پہلے میں ایتھلیٹکس کرتا تھا تو میرا سلیکشن حکومت کی اکیڈمی میں ایتھلیٹکس کیلئے ہوا ۔تو وہاں جوکوچ تھے انہوں نے میری رہنمائی کی۔ اس وقت میرا جسم تھوڑا کمزور تھا،تو انہوں نے کہاکہ آپ دوسرے گیم میں اچھا کرسکتے ہیں۔اس کے بعد مجھے تیر اندازی کی یونٹ میں شامل کرلیا گیا اور اس کے بعد ہی میں نے امراوتی میں تیر اندازی کے لیے مسلسل مشق کر رہا ہوں۔
وزیر اعظم: اور اس تبدیلی کے باوجود بھی آپ نے اپنے کھیل میں خود اعتمادی اور مہارت کیسے پیدا کی؟
پروین:سر میرا گھرانہ اس معاملے میں اتنا بہتر نہیں ہے مطلب یہ کہ معاشی طور پر ہمارے حالات درست نہیں ہیں ۔
وزیر اعظم: میرے سامنے آپ کے والدین بھی بیٹھے ہوئے ہیں، میں انہیں بھی نمسکار کرتا ہوں ،ہاں پروین بتایئے۔
پروین:تو مجھے پتہ تھا کہ گھر جاکر مجھے بھی مزدوری ہی کرنی پڑے گی، اس سے اچھا تو یہاں محنت کرکے آگے کچھ اچھا کرنا ہے ،اس لئے میں نے اسی میں دلجمعی کے ساتھ لگنا مناسب سمجھا۔
وزیر اعظم:دیکھئے ،آپ کے بچپن کی مشکل جدوجہد کے بارے میں مجھے کافی جانکاری ملی ہے اور آپ کے والدین نے بھی جس طرح سے خاص طور سے آپ کے والد صاحب نے محنت کی ، یومیہ مزدوری بھی کی۔ اس وقت سے لیکر آج تک، آپ ملک کی نمائندگی کرنے کے سفر پر گامزن ہوئے ہیں،اور آپ نے حوصلہ نہیں ہارا ہے ،آپ نے اپنی محنت سے خود کو بنایا ہے اور اپنے ہدف کو اپنی آنکھوں کے سامنے سے ہٹنے نہیں دیا ہے ،آپ کی زندگی کے شروعاتی تجربات نے چیمپئن بننے میں آپکی کیا مدد کی؟
پروین:سر جہاں مجھے خود یہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ تھوڑا مشکل ہے اس وقت میں یہی سوچتا تھا کہ ابھی تک میں نےجو کچھ بھی کیا اگر میں ابھی شکست تسلیم کر لوں گا تو سب کچھ ختم ہوجائے گا۔ میرے لئے بہتر یہ تھا کہ محنت اور جستجو میں لگا رہوں اور کامیاب بننے کی کوشش کروں۔
وزیر اعظم: پروین جی آپ تو ایک چیمپئن ہیں ہی لیکن میری نظر میں آپ کے والدین بھی چیمپئن ہیں تو میری خواہش ہے کہ میں آپ کے والدین سے بھی با ت کروں ،نمسکار جی ۔
والدین:نمسکار
وزیر اعظم: آپ نے مزدوری کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو آگے بڑھایا اور آج آپ کا بیٹا اولمپک میں ملک کیلئے کھیلنے جارہا ہے ۔آپ نے دکھادیا کہ محنت اور ایمانداری کی طاقت کیا ہوتی ہے ابھی آپ کیا کہنا چاہیں گے۔
والدین:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر اعظم :دیکھئے آپ نے ثابت کردیا ہے کہ اگر کچھ کرنے کی لگن ہو تو پریشانیاں کسی کو روک نہیں سکتیں ،آپ کی کامیابی سے یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ زمینی سطح پر اگر صحیح انتخاب ہو تو ہمارے ملک کی صلاحیتیں کیا نہیں کرسکتیں،میری طرف سے پروین آپ کو بہت بہت مبارکبادایک بار پھر آپ کے والدین کو بھی پرنام اور جاپان میں جم کر کھیلئے گا۔
پروین : بہت شکریہ سر۔
وزیراعظم: اچھا اب ہم نیرج چوپڑا جی سے بات کریں گے ۔
نیرج : نمستے سر!
وزیر اعظم: نیرج جی آپ تو بھارتی فو ج میں ہیں اور آپ کے تجربات فوج کے ایسے گوشے سے ہے وہ کون سی ٹریننگ ہے جس نے آپ کو کھیل میں اس مقام تک پہنچنے میں مدد کی ۔
نیرج:سر میرا شروع سے ایک ہی ہدف تھا اور مجھے بھارتی فوج میں جانا پسند تھا ۔میں نے پانچ چھ سال کھیلا، اور اس کے بعد مجھے فوج میں شامل ہونے کا موقع ملا تو مجھے کافی خوشی ہوئی ،اس کے بعد میں نے اپنے گیم پر فوکس کیا ،اور بھارتی فوج میں مجھے جتنی سہولیات اور مجھے جوکچھ چاہئے تھا حکومت ہند نے مجھے وہ سب کچھ مہیا کرایا ،اور میں پوری طبیعت کے ساتھ اپنے کھیل میں محنت کررہا ہوں ۔
وزیر اعظم: نیرج جی میں آ پ کے ساتھ ساتھ آپ کے پورے اہل خانہ کو بھی دیکھ رہا ہوں ،آپ کے کنبے کے تمام افراد کو میں پرنام کرتا ہوں۔
وزیر اعظم:نیرج جی،مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آپ کو چوٹ لگ گئی تھی لیکن پھر بھی آپ نے اس سال قومی ریکارڈ بنادیا ،آپ نے اپنا حوصلہ ،اپنی پریکٹس کو کیسے سنبھالے رکھا۔
نیرج: میں یہ تسلیم کرتا ہوں سر کہ زخمی ہونا کھیل کا ایک حصہ ہے ،میں نے 2019 میں کافی محنت کی تھی ،اس سال ورلڈ چیمپئن شپ تھی ہماری۔۔۔
وزیر اعظم: اچھا ،آپ کو کھیلوں میں انجری میں بھی اسپورٹس میں اسپرٹ دکھتا ہے ۔
نیرج: سر کیوں کہ ہمارا یہی سفر ہے،چند سالوں کا ہی ہمارا کیریئر ہوتا ہے اور ہمیں خود سے حوصلہ حاصل کرنا ہوتا ہے ،زخمی ہونے کی وجہ سے میرا ایک سال خراب ہوگیا ،کیونکہ میں نے تیاری کافی کی تھی ورلڈ چیمپئن شپ اور ایشیئن چیمپئن شپ کیلئے لیکن زخمی ہونے کی وجہ سے اس میں دقتیں آگئیں ،پھر میں نے اپنا پورا فوکس اولمپک پر کیا اور دوبارہ سے واپسی کی ،پہلا مقابلہ میں نے کافی اچھے سے کھیلا اور اسی میں اولمپک کوالیفائی کرلیا ،اس کے بعد پھر کورونا کی وجہ سے اولمپک معطل ہوگیا تو پھر اپنی تیاری مسلسل رکھی سر،اور پھر اس کے بعد پھر میں نے کمپٹیشن میں حصہ لیا اور اپنی بہترین کارکرگی کا مظاہرہ کرکے قومی ریکارڈ بنایا اور سر میں ابھی بھی پوری محنت کررہا ہوں کوشش کریں گے کہ جتنا اچھا ہوسکے اولمپک میں شاندار مظاہرہ کرسکوں۔
وزیر اعظم: نیرج جی،آپ سے بات کرکے بہت اچھا لگا، میں ایک بہت اہم بات آپ سے کرنا چاہتا ہوں ،آپ کو اپنی خواہشات کے بوجھ تلے دبنے کی ضرورت نہیں ہے ،آپ اپنا صد فیصد دیجئے یہی مزاج ہونا چاہئے ،بغیر کسی دباؤ کے پوری محنت کیجئے، میں آپ کے تئیں نیک خواہشات پیش کرتا ہوں اور آپ کے والدین کو بھی پرنام کرتا ہوں۔
وزیر اعظم: آیئے دوتی چند جی سے بات کرتے ہیں۔
وزیر اعظم : دوتی جی ،نمستے!
وزیر اعظم : دوتی جی ،آپ کے نام کے معنی ہی چمک کے ہیں ،دوتی کا مطلب ہی ہوتا ہے روشنی اور آپ کھیل کے ذریعہ اپنی تابانی بکھیر رہے ہیں،اب آپ اولمپک میں چھا جانے کیلئے تیار ہیں ،اتنے بڑے مقابلے کو کیسے دیکھتے ہیں ۔
دوتی: سر پہلے تو آپ کو یہ بتادیتی ہوں کہ میں اڈیشہ کی ایک ایسے کنبے سے تعلق رکھتی ہوں جو بنائی کا کام کرتے ہیں ،میرے کنبے میں تین بہنے ایک بھائی، والدین کو ملا کر مجموعی طور سے نو اراکین ہیں ،جب میرے گھر میں کسی لڑکی کی پیدائش ہوتی تھی تو گاؤں کے لوگ میری والدہ کو تنقید کا نشانہ بنایا کرتے تھے کہ اتنی لڑکیاں کیوں پیدا کررہی ہے؟میرا خاندان کافی غریب ہے ہمارے پاس تو کھانے کیلئےبھی کچھ نہیں تھا ، ہماری ذریعہ آمدنی بھی کافی کم تھا ۔
وزیر اعظم: آپ کے والدین میرے سامنے ہیں ،
دوتی : جی،میرے دماغ میں بس ایک ہی بات تھی کہ اچھا کھیلوں گی تو ملک کا نام روشن کروں گی اور سرکاری ادارہ میں مجھے نوکری مل جائے گی ،اور نوکری سے جو تنخواہ ملے گی اس سے میں اپنے کنبے کی حالت کو بدل سکتی ہوں،تو آج اس کورس کے بعد بہت کچھ تبدیل ہونے کو میں محسوس کررہی ہوں،میری فیملی میں بھی تبدیلی آئی ہے ،اب میں آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں اور ان تمام لوگوں کو جنہوں نے ہمو قت میں میری مدد کی،میری زندگی میں ہمیشہ پریشانیا ں رہی ہیں،اس کانفرنسنگ کے ذریعہ ایک بات بتانا چاہتی ہوں کہ میں نے کتنی مشکلات برداشت کرکے یہاں تک پہنچی ہوں ،میرے دل و دماغ میں ہے کہ میرے ساتھ جو لوگ بھی اولمپک جائیں گے ،میں دوسری بار اولمپک کے کیلئے جارہی ہوں ،میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ میں پوری ہمت اور حوصلے کے ساتھ اس میں شریک ہورہی ہوں ، اور میں قطعی خوفزدہ نہیں ہووں گی، ہندوستان کی کوئی خاتون کمزور نہیں ہے اور آگے بڑھے کر ملک کا نام روشن کریں گی،اسی حوصلے کے ساتھ میں اولمپک میں کھیلوں گی اور ملک کیلئے میڈل لانے کی کوشش کروں گی۔
وزیر اعظم: دوتی جی،آپ کے برسوں کی محنت کا فیصلہ چند ہی لمحوں میں ہوتا ہے ،ہار اور جیت میں پلک جھپکنے بھر کی دیر ہوتی ہے ؟اس کا سامنا کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔
دوتی: بنیادی طور پر 100 میٹر کی دوڑ میں دیکھیں تو یہ 10-12 سیکنڈ میں ختم ہوجاتا ہے ،لیکن اس کی تیاری کرنے میں سال لگ جاتے ہیں ، بہت محنت کرنی پڑتی ہے ،100 میٹر دوڑنے کیلئے 10-12 بار دوڑ لگانی پڑتی ہے ،مشق اور بہت سارے ایکسرسائز کرنے پڑتے ہیں ،سوئمنگ پل میں بھی مشق کرنی پڑتی ہے اور اسے ہمیشہ ایک چیلنج کے طور پر لینا پڑتا ہے ،اگر ایک بار بھی گر جائیں تو آپ کو ناکام بتاکر نکال دیا جاتا ہے،تو ہر چیز پر توجہ لگانی پڑتی ہے اور مسلسل دوڑلگانی پڑتی ہے،تھوڑ ا خوف تو ہوتا ہے ،ڈر بھی لگتا ہے لیکن میں پوری ہمت کے ساتھ اپنے کام میں منہمک رہتی ہوں ، جیسا میں اپنے ذاتی زندگی میں محنت کرتی آرہی ہوں ،تو میں ہمیشہ ہمت اور چیلنج کے ساتھ دوڑ لگاتی رہتی ہوں اور اس میں کافی وقت بھی صرف کرتی ہوں اور ملک کیلئے میڈل بھی لاتی ہوں۔
وزیر اعظم : دوتی جی،آپ نے ملک کیلئے بہت سارے ریکارڈ اپنے نام کئے ہیں، ملک کو امید ہے کہ آپ اس بار بھی اولمپک پوڈیم پر ضروری اپنی جگہ بنائیں گی ،آپ بے خوف ہوکر کھیلوں میں حصہ لیجئے پورا ملک اولمپک کے اپنے کھلاڑیوں کے ساتھ ہے ، میرے طرف سے آپ کو بہت بہت مبارکباد اور آپ کے والدین کو خصوصی پرنام۔
وزیر اعظم: آیئے اب ہم آشیش کمار جی سے با ت کرتے ہیں۔
وزیر اعظم : آشیش جی ،آپ کے والد صاحب قومی سطح کے کبڈی کھلاڑی تھے اور آپ کے خاندان میں کئی کھلاڑی رہے ہیں ، آپ نے باکسنگ کا انتخاب کیوں کیا؟۔
آشیش: سر باکسنگ میں نے اس لئے چنا کہ جب میں چھوٹا تھا تو ہمارے گھر پر کھیل کا ماحول بنا ہوا تھا ،میرے والد صاحب بہت اچھے کھلاڑی رہے ہیں ،وہ چاہتے تھے کہ ان بیٹا بھی باکسنگ کھیلے ،مجھ پر کبڈی کھیلنے کیلئے دباؤ نہیں دیا گیا تھا ،لیکن میرے خاندان میں میرے بھائی وغیرہ کبڈی کھیلتے تھے اور باکسنگ بھی کھیلتے تھے ،کافی اچھے لیول تک کھیلیں ہیں ، تو مجھے بھی ان کھیلوں میں سے کسی ایک کو چننے کیلئے کہا گیا ،میں بہت دبلا پتلا تھا ،میرا جسم بہت زیادہ مضبوط نہیں تھا اس لئے میں نے سوچا کہ کبڈی تو نہیں کھیل پاؤں گا ،مجھے شاید باکسنگ ہی کرنی چاہئے اور دھیرے دھیرے میرا جھکاؤ باکسنگ کی طرف ہوتا چلا گیا ،اور میں باکسنگ سیکھنے لگا۔
وزیر اعظم : آشیش جی ، آپ نے کووڈ سے بھی لڑائی لڑی ہے ،ایک کھلاڑی کے طو ر پر آپ کیلئے یہ کتنا مشکل رہا ،آپ کا کھیل ،آپ کی فٹنس متاثر نہ ہو اس کیلئے آپ نے کیا کیا؟ اور میں جانتاآپ نے اس مشکل حالات میں اپنے والد صاحب کو بھی کھودیا ،ایک ایسے وقت میں آپ ایسے مشکل مشن کو لیکر نکلے تھے ،اس میں ذرا بھی ادھر ادھر نہیں ہونے دیا تو میں آپ کے خیالا ت جاننا چاہوں گا۔
آشیش : سر مقابلے سے 25 دن قبل میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا جس کی وجہ سے میں کافی صدمے میں تھا ،میں ذہنی طور پر بہت مشکل حالات سے دو چار تھا ۔سر، مجھے کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا ،اس وقت میں کافی پریشان رہا ،اس وقت مجھے اپنے اہل خانہ کی سب سے زیادہ مدد کی ضرورت تھی اور میرے خاندان کے لوگوں نے میری بڑی مدد کی ، میرے بھائی ، میری بہن اور میرے کنبے کے سبھی لوگوں نے مجھے حوصلہ دیا ،میرے دوستوں نے بھی مجھے با ر بار تحریک دی کہ مجھے اپنے والد صاحب کے خواب کو پورا کرنا ہے ،یہ وہی خواب تھا کہ میں باکسنگ رنگ میں اتروں جسے میرے والد صاحب نے دیکھا ،جسے مجھے پورا کرنا تھا ،تو سر میں نے سارا کام کاج چھوڑ کر انہوں نے مجھے پھر سے کیمپ جوائن کرنے کیلئے کہا کہ جایئے اپنے والد صاحب کےخواب کو پورا کیجئے۔سر،اس دن میں اسپین میں تھا ،تب میں کووڈ سے متاثر تھا ،اس وقت مجھے کووڈ سے جڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ،ان حالات کا میں وہاں سامنا کرتا رہا ،میرے لئے وہاں خصوصی سہولیات مہیا کرائی گئیں اور میری ٹیم ڈاکٹر کرن کے ساتھ میں مسلسل رابطے میں تھا ،اور دیگر اسٹاف نے بھی میرا تعاون کیا ، میرے لئے الگ سے جگہ مہیا کرائی گئی ،وہیں پر میں پریکٹس کرتا تھا اور اپنی فٹنس پر توجہ دیتا تھا ،لیکن حالات معمول پر آنے میں کافی وقت لگ گیا ،صحت مند ہونے کے بعد جب میں ہندوستان آیا تو میں نے کیمپ میں واپسی کی ،وہاں پر میرے کوچ اور میرے معاون اسٹاف نے میری بہت مدد کی ،دھرمیندر سنگھ یادو میرے کوچ ہیں ،انہوں نے میرا بھر پور تعاون کیا ،رنگ میں واپس لانے کیلئے مجھے ہر طرح سے مدد کی گئی ۔
وزیر اعظم : آشیش جی ، آپ کے کنبے کو بھی میں پرنام کرتا ہوں ، آشیش جی آپ کو یاد ہوگا کہ سچن تندولکر بھی ایک بہت اہم اننگ کھیل رہے تھے اور اسی وقت ان کے والد صاحب کا انتقال ہوگیا لیکن انہوں نے کھیل کو ترجیح دی ،اور کھیل کے ذریعہ ہی اپنے والدصاحب کو خراج عقیدت پیش کیا ،آپ نے بھی ویسا ہی کمال کیا ہے ،آپ نے آج اپنے والد کو کھونے کے باجود بھی ملک کیلئے ،کھیل کیلئے پورے دل و دماغ سے جٹے ہوئے ہیں اور اپنا وعدہ پور ا کررہے ہیں ،آپ کی مثال واقعی قابل ستائش اور حوصلہ افزا ہے، آپ ایک کھلاڑی کے طور پر ہر بار فاتح ثابت ہوئے ہیں ،اور اس کے ساتھ ہی ایک فرد کے طور پر آپ نے جسمانی ،ذہنی چیلنجوں پر فتح حاصل کی ہے ، آپ سے پورے ملک کو بہت امیدیں ہیں ، ہمیں پورا یقین ہے کہ آپ اولمپک کے پلیٹ فارم پر بھی اچھا مظاہرہ کریں گے ، میری طرف سے آپ کو بہت بہت مبارکباد، آپ کے اہل خانہ کو بھی میرا پرنام۔
وزیر اعظم: آیئے،ہم تمام لوگوں کیلئے جانی پہنچانی شخصیت ،جانا پہچانا نام ،میری کوم سے بات کرتے ہیں۔
وزیر اعظم: میری کوم جی نمستے،
میری کوم: نمستے سر،
وزیر اعظم : آپ کو ایسی کھلاڑی ہیں جس سے ملک کو تحریک ملتی ہے ،حوصلہ ملتا ہے ،اس اولمپک کی ٹیم میں بھی بہت سے ایسے کھلاڑی ہوں گے جن کیلئے آپ کی ذات کافی اہمیت کی حامل ہے ،وہ بھی آپ کو فون کرتے ہی ہوں گے، اگر وہ آ پ کو فون کرتے ہیں تو آپ سے کیا سوال کرتے ہیں؟
میری کوم: سر ، گھر میں سب میرے لیے دعا کر رہے ہیں۔میرے بچے مجھے بہت زیادہ مِس کرتے ہیں۔ سر، اور میں سمجھتی ہوں کہ میں ملک کے لیے لڑائی لڑنے جا رہی ہوں۔میرے بچے بھی یہی سمجھتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا ہے کہ آپ کے والد آپ سے جو کہیں اسی پر عمل کرنا ہے۔ اور گھر میں پیار و محبت کے ساتھ رہنا ہے۔ کووڈ کی وجہ سے باہر کہیں نہیں نکلنا ہے۔ بچے ویسے تو گھر میں تنہا رہ کر بہت بور ہوجاتے ہیں۔ ان کے آن لائن کلاسز چل رہے ہیں۔بچوں کو کھیل بہت پسند ہے، وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلتے ہیں لیکن ابھی حالات ایسے ہیں کہ انہیں گھر سے باہر نکلنے کا خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔ اس بار کورونا کی وجہ سے دوستوں سے بھی دوری ہوگئی ہے۔ ہم نے بچوں کو سکھایا ہے کہ ہر مشکل حالات میں لڑنا ہے اور اس پر جیت حاصل کرنی ہے۔ خود کو بھی محفوظ رکھنا ہے اور دوسرے کے تحفظ کا بھی خیال رکھنا ہے۔ میں نے ان سے کہا ہے کہ میں ملک کے لیے لڑنے جا رہی ہوں اورمیری خواہش ہے کہ آپ سب محفوظ رہیں۔ ملک کے لیے بہتر سے بہتر کرنے کی کوششوں کو میں نے جاری رکھا ہے۔یہی وہ خاص بات ہے جو مجھے آپ سے شیئر کرنی تھی۔
وزیرا عظم:وہ سن رہے ہیں ،میرے سامنے سب لوگ نظر آرہے ہیں ،اچھا ویسے تو آپ ہر پنچ میں چیمپئن ہیں لیکن آپ کا سب سے فیوریٹ پنچ کونسا ہے ؟جاب،ہُک،اپر کٹ یا کچھ اور؟اور یہ بھی بتایئے کہ یہ پنچ آپ کا فیوریٹ کیوں ہے؟
میری کوم: سر، میرا فیوریٹ پنچ تو ساؤتھ پول ہے سر،یہ کبھی مس نہیں ہوتا ہے لگنا ہے تو یقینی طور پر لگنا ہے ۔
وزیر اعظم : میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کا ہر دلعزیز کھلاڑی کون ہے۔
میری کوم:سر میرا فیوریٹ کھلاڑی باکسنگ میں تو محمد علی ہے ،وہی میرا ہیرو اور مجھے حوصلہ دینے والا کھلاڑی ہے۔
وزیر اعظم: میری کوم جی ،آپ نے باکسنگ کےتقریباً ہر بین الاقوامی مقابلے جیتے ہیں ،آپ نے کہیں کہا تھا کہ اولمپک میں طلائی تمغہ حاصل کرنا آپ کا خواب ہے ۔یہ آپ کا ہی نہیں پورے دیش کا خواب ہے ملک کو امید ہے کہ آپ اپنا اور ملک کا خواب ضرور پورا کریں گی ، میرے طرف سے آپ کو بہت بہت مبارکبار ،نیک خواہشات ،آپ کے اہل خانہ کو میرا پرنام۔
میری کوم: بہت بہت شکریہ سر آپ کا
وزیر اعظم : آیئے اب ہم پی وی سندھو سے بات کرتے ہیں۔
وزیر اعظم : سندھو جی ، مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ ٹوکیو اولمپک سے پہلے اولمپک سائز کوٹ میں پریکٹس کرنا چاہتی تھیں ۔ اب گچی باؤلی میں آپ کی پریکٹس کیسی چل رہی ہے ۔
پی وی سندھو: گچی باؤلی میں پریکٹس بہت اچھی چل رہی ہے سر، میں نے یہ پسند کیا ہے کیونکہ اولمپک اسٹیڈیم بہت بڑا ہے اور وہ مکمل طور پر ایئر کنڈیشن ہے ۔۔۔۔۔۔میں یہ سوچا کہ اگر یہ اچھا اسٹیڈیم ہے تو پریکٹس کرنے میں کیا حرج ہے اور اگر مجھے موقع مل رہا ہے تو اسے کیوں نہیں کھیلوں ،میں فروری سے ہی پریکٹس کررہی ہوں سر،اس کیلئے میں حکومت سے اجازت لی تھی ،عالمی وبا کی وجہ سے تمام احتیاطی تدابیرپر عمل کرنے کیلئے مجھے کہا گیا ہے اور مجھے اس کی اجازت دی گئی ہے ،میں نے اس تعلق سے پوری طرح تیاری کی ہے اور پریکٹس کررہی ہوں،میں ان لوگوں کی بہت شکر گزار ہوں کہ میں نے جیسے ہی پریکٹس کیلئے اجازت مانگی انہوں نے فوراً ہی اجازت دے دی ، میں نے اس اسٹیڈیم میں کھیلنا ابھی سے ہی شروع کردیا ہے تاکہ مجھے آنے والے وقت میں ٹوکیو میں مجھے کسی طرح کی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے، اس لئے میں نے ایسا کرنے کا فیصلہ کیا سر،
وزیر اعظم: آپ کے گھروالے بھی میرے سامنے ہیں میں ان کر پرنام کرتا ہوں۔مجھے یاد آتا ہے کہ گوپی چند جی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انہوں نے ریو اولمپک سے پہلے آپ کا فون لے لیا تھا ۔آپ کو آئیس کریم کھانے کی بھی اجازت نہیں دی تھی ،کیا ابھی بھی پر آئیس کریم کھانے کی پابندی لگی ہوئی ہے یا کوئی چھوٹ ملی ہے؟
پی وی سندھو: سر،تھوڑ ا کنٹرول کرتی ہوں کیونکہ ایک ایتھلیٹ کیلئے غذا پر توجہ دینا بہت اہم ہوتا ہے اور ابھی اولمپک کی تیاری کررہی ہوں تو غذا پر کنٹرول کرنا ضروری ہے ،اب آئیس کریم اتنا نہیں کھاتی ہوں بس کبھی کبھی کھالیتی ہوں۔
وزیر اعظم : دیکھیئے، سندھو جی، آپ کے والد اور آپ کی والدہ دونوں اسپورٹس پرسن ہیں۔ اس لیے میرا دل چاہتا ہے کہ آج میں ان سے بھی بات کروں۔آپ کو نمسکار، آپ یہ بتائیے کہ کسی بچے کی دلچسپی کےکھیل میں جانے کی ہو تو کئی والدین کے لیے یہ بہت مشکل ہوتا ہے۔ بہت سارے لوگوں کی ڈھیروں تشویشات ہوتی ہیں۔ آپ ایسے تمام والدین کے لیے کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
والدین: والدین کو یہ جاننا چاہئے کہ اگر اپنے بچے صحت کے معاملے میں اچھے ہیں تو سب کچھ بہتر ہوگا ،کیونکہ اب تھوڑا کھیلیں گے تو صحت اور بھی بہتر ہوگی،اور آپ کی یکسوئی ہوگی اور ہر معاملے میں آپ آگے بڑھتے رہیں گے اور یقیناً آپ لمبی چھلانگ لگاسکتے ہیں ۔
وزیرا عظم: آپ ایک کامیاب کھلاڑی کے والدین ہیں اپنے بچوں کو کھیلوں کی طرف راغب کرنے کیلئے کس طرح کی ذمہ داریاں ادا کرنی پڑتی ہیں۔
والدین:سر،والدین کو تو یہ فرض ہی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو جو وہ کچھ کرنا چاہیں ان کی بہتر انداز سے رہنمائی کریں ،ان کو حوصلہ دیں ،آپ تو جانتے ہیں کہ حکومت ہر طرح سے ہر کھیل سے جڑے کھلاڑیوں کو سہولیات فراہم کررہی ہے ، اس لئے اب بچوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے، ملک کا نام روشن کرنے کیلئے انہیں محنت کرنا سکھانا ہے ،انہیں بھی راغب کرنا ہے کہ انہیں بھی شہرت ملے اور انہیں حوصلہ دیتے رہنا ہے ،ایک دوسرے کے تئیں محبت اور احترام کا جذبہ پروان چڑھانا ہے،دوسروں کو عزت دو اور آشیر واد لو۔
وزیر اعظم: سندھو جی، آپ کے والدین نے آپ کو ورلڈ چیمپئن بنانے کیلئے بہت ساری قربانیاں دی ہیں ،انہوں نے اپنا کام کردیا ہے اب آپ کی باری ہے ،آپ خوب محنت کیجئے اور مجھے یقین ہے کہ اس بار بھی آپ کامیاب ہوں گی اور کامیابی کے بعد میری ملاقات ہوتی ہی ہے آپ لوگوں سے تو میں بھی آپ کے ساتھ آئیس کریم کھاؤں گا۔
وزیر اعظم: آیئے ایلا سے بات کرتے ہیں،ایلا نمستے!
ایلاوینل: نمستے سر،
وزیر اعظم:(گجراتی میں بات چیت کی)ایلا وینل ،مجھے بتایا گیا کہ پہلے آپ ایتھلیٹکس میں جانا چاہتی تھیں پھر ایسا کیا ٹریگر کرگیا کہ آپ نے شوٹنگ کو اختیار کرلیا۔
ایلا وینل:سر میں نے کافی سارے اسپورٹس میں کوشش کی تھی ،شوٹنگ سے پہلے مجھے بچپن سے ہی اسپورٹس بہت پسند تھا۔ایتھلیٹکس ،بیڈ منٹن،جوڈو وغیرہ میں بھی کوشش کی تھی ،لیکن جب میں شوٹنگ شروع کی تو مجھے اس سے بہت ہی حوصلہ ملا ،میں بہت زیادہ پرجوش ہوگئی ،اس کھیل میں بہت زیادہ یکسوئی کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے اور بہت زیادہ پرسکون رہنا ہوتا ہے ،یہ پرسکون رہنے والا معاملہ مجھ سے نہیں ہوپاتا تھا،اس کے بعد مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور اس کے بعد مجھے اس گیم سے بہت زیادہ لگاؤ ہوگیا۔
وزیر اعظم:ابھی میں دوردرشن پر ایک پروگرام دیکھ رہا تھا اس میں میں آپ کے والدین کو سن رہا تھا اور سنسکار دھام میں آپ نے اس کا آغاز کیا تھا ،آپ اس کی پوری تفصیلات بیان کررہی تھیں اور وہاں لوگوں نے آپ پر فخر کیا۔اچھا اسکول سے اولمپک تک کا سفر اور اس تعلق سے بہت ساری چیزیں نوجوان آ پ کے سفر کو جاننا چاہیں گے ۔دیکھئے میں منی نگر کا رکن اسمبلی تھا اور آپ منی نگر میں رہتی ہیں اور جب میں کھوکھرا میں میرے حلقہ اسمبلی میں جب میں نے اسپورٹس اکادمی شروع کی تو آپ وہاں کھیلنے آتی تھیں ،اس وقت آپ بہت چھوٹی تھی ،آج مجھے تمہیں دیکھنے کے بعد بڑا فخر محسوس ہورہا ہے ،آپ اپنی کچھ بات ہم سے شیئر کریں۔
ایلا وینل: سر،میری شوٹنگ کی پروفیشنل جرنی سنسکار دھام سے ہی شروع ہوئی تھی جب میں دسویں کلاس میں تھی تو والدین کی رضامندی تھی کی آپ کھیلوں میں دلچسپی لیجئے اگر آپ کو کھیلوں میں دلچسپی ہے تو انہوں نے کہا تھا کہ اسپورٹس اتھارٹی آف گجرات اور گن فور گلوری شوٹنگ اکادمی سے جو مفاہمت نامہ میں دستخط ہوئے تھے اور وہیں سے ضلعی سطح پر ہم نے اپنے کھیل کو شروع کیا تھا۔میری پڑھائی بھی ادھر ہی ہوتی تھی اور پورے دن ٹریننگ بھی ادھر ہی ہوتی تھی ۔سر،میرا وہ سفر کافی خوشگوار رہا کیونکہ وہیں سے میں نے اپنا سفر شروع کیا تھا ،اب جب میں پہلا اولمپک کھیلنے کیلئے جارہی ہوں تو بہت فخر محسوس ہوتا ہے ،لوگوں کی اتنی مدد ،لوگوں کا اتنا تعاون اور رہنمائی یہ سب کافی اچھا محسوس ہوتا ہے ۔
وزیر اعظم : ایلا وینل،ابھی آپ گریجویشن کررہی ہیں ،شوٹنگ کیریئر اور اکیڈمکس میں آپ کیسے توازن برقرار رکھتی ہیں ۔
ایلا وینل: سر، میں اس کیلئے گجرات یونیورسٹی اور ہمارے کالج بھون راج کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی ،کیونکہ کبھی بھی ایسا نہیں ہوا ہے کہ انہوں نے مجھ سے کہا ہو کہ آپ کو ہر حالت میں یہ چیز یہاں آکر کرنی پڑے گی ،انہوں نے مجھے کافی چھوٹ دی ،امتحانات کیلئے بھی وہ خصوصی انتظامات کروادیتے تھے ، میرے لئے سیمینارز کا بھی الگ سے انعقاد کرادیتے تھے ،انہوں نےمیرا کافی تعاون کیا ،انہوں نے مجھے میرے پورے سفر میں کافی مدد کی اور میرے اسکول نے بھی میرا ہر طرح سے خیال رکھا ۔
وزیر اعظم: ایلا وینل ، آپ کی یہ جنریشن بہت پرجوش بھی ہے اور بہت سنجیدہ بھی ،آپ نے اتنی کم عمر میں عالمی سطح پر کامیابی حاصل کی ، ایسے میں ملک کو امید ہے کہ کھیل کے سب سے بڑے منچ پر بھی آپ اس سفر کو جاری رکھیں گی ، میری طرف سے آپ کو نیک خواہشات ،آپ کے والدین کو بھی میرا پرنام ،وڑککم۔
وزیر اعظم :آیئے ہم سوربھ جی سے بات کرتے ہیں ،سوربھ جی نمستے!
وزیرا عظم: آپ نے اتنی کم عمر میں ہی اولمپک کیلئے کوالیفائی کرلیا ،کیسے اور کب آپ کا یہ مشن شروع ہوا؟
سوربھ: سر،2015 میں ہی میں نے اپنی شوٹنگ شروع کر لی تھی ،ہمارے قریب کے گاؤں میں ہی شوٹنگ اکیڈمی ہے وہاں پر میں نے اسے شروع کیا ،میری فیملی نے بھی میری کافی مدد کی ،انہوں نے مجھ سے خود ہی کہا کہ اگر تجھے شوٹنگ کرنا اتنا ہی پسند ہے تو کوشش کرنے میں کیا حرج ہے، میں وہاں گیا اور میں نے کوشش کی ،وہاں مجھے کافی اچھا لگنے لگا ،میں مسلسل شوٹنگ میں مصروف رہا اور دھیرے دھیرے اس کے نتائج اچھے آتے گئے ،حکومت ہند نے ہماری کافی مد دکی ،جس کی وجہ سے آج میں یہاں پر ہوں سر۔
وزیر اعظم : دیکھئے آپ کے والدین بھی فخر سے دیکھ رہے ہیں ،ان کی آنکھوں میں بڑے بڑے سپنے ہیں ، انہیں بھی یقین ہے سوربھ کچھ کمال کرے گا،دیکھئے سوربھ محنت کے ساتھ ساتھ شوٹنگ میں دل و دماغ بھی صحیح رکھنا ہوتا ہے اس کیلئے آپ یوگ وغیرہ کرتے ہیں یا کچھ اور طریقہ ہے آپ کا جو مجھے جاننے میں خوشی ہوگی اور ملک کے نوجوانوں کو بھی ۔
سوربھ: سر،یوگا کرتے ہیں اور شانت رہنے کیلئے تو ہمیں آپ سے جاننا چاہئے کہ آپ کتنے بڑے مطلب پورے ہندوستان کو سنبھال رہے ہیں تو آپ اس کیلئے کیا کرتے ہیں؟
وزیر اعظم: اچھا سوربھ،یہ بتائیے ،آپ کے دوست،ساتھی آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ کے ساتھ سیلفی کلک کرنی ہے ،تو آپ کو کیا لگتا ہے ،پہلے تو ہیں کرتے ہوں گے؟۔
سوربھ: نہیں ، جب میں گھر پر جاتا ہوں تو میرے گاؤں میں پڑوس میں میرے جو دوست ہیں وہ آتے ہیں ، سیلفی لیتے ہیں ۔میری جو پستول ہے اس کے ساتھ سیلفی لیتے ہیں ،بہت اچھا لگتا ہے۔
وزیر اعظم : سوربھ آپ کی باتوں سے لگ رہا ہے کہ آپ بہت ہی focused دکھائی دیتے ہیں جو آپ جیسے نوجوانوں کے لئے بہت اچھی بات ہے۔ شوٹنگ میں بھی اسی فوکس کی ضرورت ہے ۔آپ کو تو ابھی بہت لمبا سفر کرنا ہے ملک کے لئے کئی مقام حاصل کرنے ہیں ۔ ہم اسبھی کو یقین ہے کہ آپ اولمپک میں بہت شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے اور مستقبل میں بہت آگے جائیں گے آپ کو اور آپ کو اہل خانہ کو میرا پرنام۔
وزیرا عظم:آیئے ہم شرت کمال جی سے بات کرتے ہیں ،شرت جی نمستے!
شرت: نمستے جناب!
وزیراعظم: شرت جی، آپ نے تین اولمپکس میں حصہ لیا ہے۔ آپ کو کافی مشہور و مقبول کھلاڑی ہیں۔ آپ ان نوجوان کھلاڑیوں کو کیا مشورہ دیں گے جو پہلی بار اولمپک میں ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں؟
شرت: اس بار جو اولمپک ہے ،یہ کافی ایک نیا سچویشن بلکہ یہ کووڈ -19 میں رہا ہے ۔تو پچھلے 3 جو اولمپک تھے ایسا تجربہ کچھ بھی نہیں تھا، جو ہماری پوری سیفٹی کیلئے ہے جو پروٹوکولس مینٹین کرنا ہے ، اس پر دھیان رکھنا ہے ،مگر اس بار اسپورٹس کے علاوہ ہمیں باقی اس میں دھیان دینا ہوگا۔ میں یہیں بولوں گا کہ جو نئے جارہے ہیں پہلے اولمپک میں وہاں جانے سے پہلے مطلب اسپورٹس بہت important but at the same time اگر ہم پروٹوکولس اور یہ سب صحیح مینٹین نہیں کریں گے تو ہم گیم سے ہی باہر ہوسکتے ہیں we have to maintain the protocols اور جیسے ہی ہم اولمپک چلے جاتے ہیں تو ہمارا پورا دھیان ہمارے اسپورٹس میں ہی ہونا چاہئے۔ جب تک ہم جائیں گے ٹھیک ہے کوشش کریں گے کہ اسپورٹس میں بھی رکھتے ہیں اور پروٹوکولس میں بھی رکھتے ہیں مگر جیسے ہی وہاں پر چلے گئے ہم اسپورٹس پر پورا دھیان دینا چاہئے۔
وزیر اعظم: سوربھ جی ،آپ نے جب کھیلنا شروع کیا تھا ت باور اب ، آپ کو لگتا ہے کہ ٹیبل ٹینس کو لیکر کچھ بدلاؤ آئے ہیں؟،اسپورٹس سے جڑے سرکاری ڈیپارٹمنٹ کی اپروچ میں آپ نے کچھ بدلاؤ محسوس کیا ہے؟۔
شرت: بہت کچھ،بہت سارے فرق ہوئے ہیں ،جیسے 2006 میں جب میں پہلی بار کومن ویلتھ میں گولڈ میڈل جیتا تھا اور اب کی بار 2018 میں جب ہم سب مل کر گولڈ جیتے تھے ۔2006 میں اور 2018 میں بہت فرق تھا ۔ اصل چیز یہ تھی کہ اسپورٹس ایک پروفیشنل فیلڈ بنا تھا ،2006 میں جب میں جیتا تھا تب اسپورٹس میں اتنا پروفیشنلزم نہیں تھا ،مطلب پڑھائی زیادہ اہم تھی ، اسپورٹس کو کنارہ ہی رکھا جاتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہے اب کھیلوں کو بہت زیادہ اہمیت دی جارہی ہے۔حکومت اور نجی ادارے بھی کھیلوں کو بہت زیادہ اہمیت د ے رہے ہیں اور ٹھیک جس طرح کے مواقع ابھی ہیں کیرئیر بنانے کے تعلق سے اسپورٹس کے پروفیشنل بننے میں ، وہ ابھی بہت زیادہ ہیں اور بہت سارے بچے اور ان کے والدین کو بھی اس شعبے میں بہت زیادہ گارنٹی ملتی ہے ۔ گارنٹی سے زیادہ ایک طرح کا حوصلہ بھی ملتا ہے کہ میرا بچہ اگر اسپورٹس میں آئے گا تو وہ پنی زندگی کو بھی بہتر بناستکا ہے تو میری طرف سے یہ بہت بڑی ذہنی تبدیلی آئی ہے۔
وزیر اعظم: شرت جی ، آپ کے پاس صرف ٹیبل ٹینس ہی نہیں بلکہ بڑی تقریبات کا بھی بہت طویل تجربہ ہے ۔مجھے لگتا ہے کہ یہ تجربات آپ کے کام تو آئیں گے ہی ساتھ ہی ٹوکیو اولمپک میں حصہ لے رہی دیش کی پوری ٹیم کے بھی کام آنے والا ہے ، آپ ایک بڑے کردار میں اس بار ایک طرح سے پوری ٹیم کو ایک خاص رول بھی آپ کے سامنے آیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ آپ اپنے کھیل کے ساتھ ساتھ اس پوری ٹیم کو سنبھال نے میں بھی آپ کا بہت بڑا کردار ہوگا اور آپ اسے بخوبی نبھائیں گے ،مجھے پورا یقین ہے میری طرف سے آپ کو اور آپ کی پوری ٹیم کو مبارکباد اور نیک خواہشات۔
وزیر اعظم: آئیےمنیکا بترا جی سے بات کرتے ہیں، منیکا جی نمستے
منیکا : نمستے سر
وزیر اعظم: منیکا ، مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ ٹیبل ٹینس کھیلنے کے ساتھ ہی غریب بچوں کو یہ کھیل سکھاتی بھی ہیں ۔ان کی مدد بھی کرتی ہیں آپ خود بھی نوجوان ہیں ،آپ کو یہ خیال کیسے آیا؟
منیکا: سر، جب میں پہلی بار یہاں پونے آئی تھی اور یہاں کھیلنا شروع کیا تو جو بہت زیادہ غریب اور یتیم بچے تھے وہ بہت اچھا کھیل رہے تھے اور یہاں کے سینٹر بھی ا ن کو سکھا رہے تھے ،یہ میرے لئے ایک خوشگوار احساس تھا اور مجھے ایسا لگا کہ انہیں جو چیزیں نہیں ملی یا وہ جو کچھ پہلے نہیں کرپائے ان کی مدد کرنی چاہئے اور وہ میری تقلید کرکے اچھے کھلاڑی بن سکیں،یہ بچے جیسے کھیلتے ہیں مجھے انہیں دیکھ کر حوصلہ ملتا ہے کہ اتنی چھوٹی عمر میں وہ اتنا اچھا کھیل رہےہیں کسی کی مدد کے بغیر تو یہ دیکھ کر بہت اچھا لگتا ہے ۔
وزیر اعظم : منیکا،میں نے دیکھا ہے کہ آپ کبھی کبھی اپنے ہاتھ پر ترنگا پرنٹ کرتی ہیں اس کی پیچھے کی سوچھ اور اپنے حوصلے کے بارے میں بتائیے ۔
منیکا : لڑکی ہونے کے طور پر مجھے یہ سب چیزیں پسند ہے اور ہندوستان کا پرچم اپنے پاس رکھنا یہ مجھے اچھا لگتا ہے اور خاص طور پر جب میں کھیل کے دوران سروس کرتی ہوں تو میرا بایاں ہاتھ مجھے نظر آتا ہے اور وہاں پر پرنٹ کیا بھارت کا پرچم بھی ،تو یہ چیز میرے لئے حوصلے کا باعث ہوتی ہے اس لئے جب میں میں اپنے ملک کیلئے کھیلنے جاتی ہوں تو میں ہمیشہ ایک نہ ایک چیز رکھتی ہوں اور میرا یہ احساس ہوتا ہے کہ کچھ نہ کچھ فلیگ یا کچھ بھی اپنے ملک کا میرے پاس ، میرے دل سے جڑا رہے۔
وزیراعظم: منیکا، مجھے بتایا گیا کہ آپ کو ڈانسنگ کا بھی بہت شوق ہے۔ کیا ڈانسنگ کاشوق آپ کے لئے اسٹریس بسٹر کی طرح کام کرتا ہے؟
منیکا: ہاں سر، کیوں کہ جیسے کسی کسی کا ہوتا ہے میوزک سننا، ڈانس کرنا تو میرا ڈانس کرنا اسٹریس بسٹر کا کام کرتا ہے جب بھی میں ٹورنامنٹ میں جاتی ہوں یا کچھ جب خالی ٹائم ہوتا ہے تو روم پر آتی ہوں ناچ کر یا میچ کھیل کر تو میں ڈانس کرکے جاتی ہوں کیو ں کہ مجھے اچھا لگتا ہے اور کنفیڈینس آتا ہے۔
وزیراعظم: میں ایسے سوال کررہا ہوں، تمہارے گھر والے ، تمہارے دوست سب ہنس رہے ہیں۔
وزیراعظم: منیکا، آپ بین الاقوامی سطح کی چمپئن ہیں۔ آپ بچوں کو بھی اپنے کھیل سے جوڑ رہی ہیں۔ آپ کی کامیابی صرف انہی بچوں کے لئے نہیں بلکہ ملک کے سبھی ٹیبل ٹینس نوجوان کھلاڑیوں کومتاثر کرے گی۔ میری آپ کو بہت مبارکباد ہے، آپ کے سبھی ساتھیوں کو سب بڑے جوش وجذبہ سے آج کے اس پروگرام میں حصہ لے رہے ہیں۔ آپ کے گھر والے سب دیکھ رہے ہیں۔ آپ کو میری طرف سے بہت بہت مبارکبات۔ بہت بہت شکریہ۔
وزیراعظم: آئیے اب ہم ونیش فوگاٹ جی سے ملتے ہیں، وجیش نمستے۔
ونیس: سر نمستے!
وزیراعظم: ونیش، آپ فوگاٹ پریوار سے ہیں۔ آپ کے پورے پریوار نے کھیلوں کے لئے اتنا کچھ ملک کو دیا ہے۔ اس پہچان کی وجہ سے تھوڑا ایکسٹرا پریشر، تھوڑی زیادہ ذمہ داری تو نہیں آجاتی ہے؟
ونیش: سرجی ذمہ داری تو بالکل آتی ہے کیوں کے فیملی نے جوکام شروع کیا ہے تو وہ ختم کرنا ہے اور وہ جو خواب اولمپک کا لے کر شروع کیا تھا وہ جب میڈل آئے گا تو اس کے بعد ہی شاید ختم ہوگا۔ تو امید تو ہے سر پورے ملک کی امیدیں ہیں، فیملی کی بھی امیدیں ہیں۔ اور مجھے لگتا ہے کہ امیدیں ضروری ہیں ہمارے لئے کیوں کہ جب امیدیں نظر آتی ہیں تبھی ہم تھوڑا سا ایکسٹرا پش کرتے ہیں ایک لیول پر جانے کے بعد میں تو اچھا لگتا ہے کہ سر کوئی پریشر نہیں ہے، اچھے سے کھیلیں گے اور ملک کو فخر کرنے کا ضرور موقع دیں گے۔
وزیراعظم: دیکھئے پچھلی بار آپ کو ریو اولمپلک میں چوٹ کی وجہ سے ہٹنا پرا تھا، پچھلے سال بھی آپ بیمار تھیں۔ آپ نے ان ساری اڑچنوں کو پار کرکے شاندار مظاہرہ کیا ہے۔ اتنے اسٹریس کو کامیابی میں بدلنا یہ اپنے آپ میں بہت بڑی بات ہے یہ کیسے کیا آپ نے؟
ونیش: سر دشواری ہوتی ہے کافی پر وہی ہے کہ ایتھلیٹ ہونے کے ناطے ہم ایتھلیٹ ٹاپ لیول پر اگر ہمیں پرفارم کرنا ہے تو ہمیں منٹلی اسٹرانگ رہنا پڑتا ہے اور ایتھلیٹ ہونے کے ناطے میں سوچتی ہوں کہ یہ ضرور ہمیں اسے لیول پر لے جانے کے لئے اور پش کرنے کے لئے اس لئے فیملی کا ایک بہت بڑا رول رہتا ہے آپ کے پیچھے۔ تو فیملی کا تعاون رہتا ہے ہمیشہ اور جو بھی ہماری فیڈریشن ہے، سبھی لوگ پوری ایمانداری کے ساتھ لگے ہوئے رہتے ہیں۔ تو ایک رہتا ہے کہ ان لوگوں کو مایوس نہیں کرنا ہے جو لوگ اتنا سب ہمارے لئے لگارہے ہیں امیدوں کے ساتھ میں، تو ایسے کہیں پر رکنا نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ رکنا نہیں ہے اس لئے وہ ہمیں پش کررہے ہیں، وہ کافی چیزیں ہیں جو ہمیں اس ٹائم پر یاد آتی ہیں تو ہم اس کے لئے لگے رہتے ہیں، چاہے انجری ہو، چاہے کوئی بھی چیز آئے۔
وزیراعظم: مجھے تو پورا یقین ہے کہ آپ ٹوکیو میں بہت شاندار مظاہرہ کرنے والی ہیں۔ کیا ہم امید کریں کہ اب آگے آپ پر بھی ایک فلم آنے والی ہے؟
ونیش: سر بس آپ لوگوں کی دعا ہے۔ اور چاہیں گے کہ ہم جتنے بھی ایتھلیٹس جارہے ہیں اپنے ملک کو تھوڑا موقع دیں۔ میڈل آرہے ہیں۔ اور پورا ملک جو امیدیں لگائے بیٹھا انہیں ہم مایوس نہیں کریں۔
وزیراعظم: مجھے تو پورا یقین ہے کہ آپ ٹوکیو میں بہت شاندار مظاہرہ کرنے والی ہیں۔ کیا ہم امید کریں کہ اب آگے آپ پر بھی ایک فلم آنے والی ہے؟
ونیش: سر بس آپ لوگوں کی دعا ہے۔ اور چاہیں گے کہ ہم جتنے بھی ایتھلیٹس جارہے ہیں اپنے ملک کو تھوڑا موقع دیں۔ میڈل آرہے ہیں۔ اور پورا ملک جو امیدیں لگائے بیٹھا انہیں ہم مایوس نہیں کریں۔
وزیراعظم: آپ کے ماں باپ بھی جڑے ہیں۔ آپ کے ماں باپ گورو بھی ہیں ایک طرح سے۔ ذرا پتاجی سے بات ضرور کرنا چاہوں گا۔ وجیش کے ماں باپ بھی ساتھ میں جڑے ہیں۔ نمسکار! آپ سے میرا سوال تھوڑا ہٹ کر ہے۔ جب کوئی فٹ اور تندرست ہوتا ہے توہمارے ملک میں کہتے ہیں- کونسی سی چکی کا آٹا کھاتے ہو؟ تو فوگاٹ فیملی اپنی بیٹیوں کو کونسی چکی کا آٹا کھلاتی ہے؟ ویسے یہ بھی بتائیے، ونیش کو کیا ہدایت دے کر ٹوکیو بھیج رہے ہیں؟
سرپرست: دیکھئے جو چکی کے آٹے کی بات ہے اپنے گاؤں کی چکی کا آٹا کھاتے ہیں۔ اور گائے بھینس رکھتے ہیں۔ ان گائے بھینس کا دودھ، دہی، گھی، مکھن۔ اور ونیش کے ساتھ جو 2016 میں جو ٹ لگی تھی میں پورے ملک کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آج جو میری بیٹی سے آس۔ امید لگائے ہے۔ میں ان سے ایک ہی وعدہ کیا تھا۔ اگر اولمپلک میں گولڈ میڈل لے کر آؤگے تو میں ایئر پورٹ پر لینے آؤں گا۔ نہیں لائے تو آؤں گا نہیں۔ آج بھی میں لگا ہوں اس چیز پر۔ اس سےپہلے تو میری بیٹی رہ گئی تھی، لیکن اس مرتبہ اولمپک میں میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں۔ آپ اس کے پرانے ٹورنامنٹ دیکھ لو۔ اب کی بار مجھے اپنی بیٹی پر پورا یقین و بھروسہ ہے۔ اب کی بار تو وہ گولڈ میڈل لے کرآئے گی۔ میرا خواب پورا کرے گی۔
وزیراعظم: آپ کے والدین کی باتوں سے مجھے یقین ہوگیا ہے کہ ونیش آپ ضرور کامیاب ہوں گی۔ آپ لڑتی ہیں، گرتی ہیں، جوجھتی ہیں مگر ہار نہیں مانتی ہیں۔ آپ نے اپنے گھر والوں سے جو سیکھا ہے ، ضرور وہ اس اولمپک میں ملک کے کام آئے گا۔ آپ کو بہت بہت مبارکباد۔
وزیراعظم: آیئے ساجن پرکاش جی سے بات کرتے ہیں۔ ساجن جی نمستے!
وزیراعظم: آئیے ساجن پرکاش جی سے بات کرتے ہیں ۔ ساجن جی نمستے، مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ کی تو ماں نے بھی ایتھلیٹکس میں ملک کا نام روشن کیا ہے۔ اپنی ماں سے بھی آپنے کیا کیا سیکھا ہے؟
ساجن پرکاش: جناب، میری والدہ میرے لیے سب کچھ ہیں اور وہ پہلے سے ہی کھیلوں میں سرگرم ہیں کیوں کہ وہ بھی ایک اسپورٹس پرسن ہیں اور انہوں نے مجھے کامیابیاں حاصل کرنے ،تمام ترجدوجہداور رکاوٹوں کا مقابلہ کرنے میں میری بھرپور مدد کی۔مجھے ان سے بہت تحریک حاصل ہوئی۔
وزیراعظم: مجھے بتایا گیا کہ آپ کو گہرا زخم بھی لگا تھا۔ آپ اس سے کیسے باہر آئے؟
ساجن پرکاش: 18 ماہ کے کورونا کی وجہ سے پول کو بند کر دیا گیا جس کے بعد ہمیں بہت جدوجہد کرنی پڑی اور چوٹ کے ساتھ ہم اتنے عرصے تک پول میں پریکٹس نہیں کر سکے۔ وہ وقت میرے لیے یہ بہت مایوس کن اور افسردہ کرنے والاتھا لیکن اس کھیل سے جڑے لوگوں اور میرے کوچ کی حمایت بالخصوص گوری آنٹی اور کیرالہ پولس، ہندوستان کی تیراکی کے ادارے نے میری درخواست پر توجہ دی۔ ہر حالات میں میرا ساتھ دیا اور میری مدد کی۔ مجھے لگتا ہے کہ اس وقت نے مجھے ذہنی طور پر مضبوطی فراہم کرانے اور اس تکلیف اور پریشانی سے نکلنے میں بھرپور مدد کی۔
وزیراعظم: ساجن آپ اولمپک میں جانے سے پہلے ہی ہندوستانی کھیلوں کے سنہری تاریخ میں جگہ بنارہے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ اپنے کھیل سے اس حصولیابی کو مزید سنہرا بنائیں گے۔
وزیراعظم: من پریت، مجھے بتایا گیا کہ کورونا کی پہلی وبا کے دوران آپ سبھی ساتھی بنگلورو میں ایک ساتھ رہے، سب نے مل کر کورونا کا مقابلہ کیا۔ اس سے ٹیم اسپرٹ پر کیا اثر پڑا؟
من پریت: سر اس وقت میں یہ کہنا چاہوں گا کہ حکومت کا بہت زیادہ تعاون رہا تھا۔ کیوں کہ ہم لوگ یہاں بنگلور میں تھے۔ اس وقت ہمیں یہ تھا کہ کیسے ہم اپنی ٹیم کو مضبوط کرسکتے ہیں، اس پر کام کیا۔ ہم لوگوں نے متحد ہو کر کام کیا۔ ہم کھلاڑیوں نے ایک دوسرے کے بیک گراؤنڈ کے بارے میں بھی جانا کہ کیسے کھلاڑیوں نے اپنا بیک گراؤنڈکہ کیسے ان کی فیملی نے سیکریفائس کیا اپنے بیٹوں اور بچوں کو یہاں تک پہنچانے کے لئے۔ ان چیزوں کے بارے میں جانا جس سے ہماری ٹیم بونڈگ اور مزیداسٹرانگ ہوگی۔ اور سر، ہم نے یہی مانا تھا کہ ابھی ہمارے پاس ابھی تک ایک سال باقی ہے تو ہم لوگ اپنے آپ کو اور کیسے بہتر کرسکتے ہیں، تو ہم نے دوسری ٹیم کے بارے میں اسٹڈی کی کہ کیسے ان کا کیا پلس پوائنٹ ہے کیا کمزورپوائنٹ ہے۔ کہاں پر ہم لوگ ان کو ہرٹ کرسکتے ہیں۔ یہ ہمارے مددگار ثابت ہوگی۔
وزیراعظم:اولپمک میں ہاکی میں ہمارے ملک کی بہت شاندار تاریخ رہی ہے۔ ایسے میں فطری ہے ، تھوڑی زیادہ ذمہ داری محسوس ہونے لگتی ہوگی کہ ریکارڈ بناکر رکھنا ہے۔ اور اس کی وجہ سے کھیل کے دوران آپ لوگوں کو کوئی اضافی تناؤ کا ماحول تو نہیں ہوتا ہے؟
من پریت: نہیں سر، بالکل نہیں۔ کیوں کہ دیکھا جائے تو ہاکی میں ابھی تک 8 گولڈ جیتے ہیں۔ سب سے زیادہ میڈل جیتے ہیں۔ تو ہم اس چیز پرفخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم لوگ اسی اسپورٹس کو کھیل رہے ہیں اور جب بھی ہم لوگ اولمپکس میں جاتے ہیں تو یہی کوشش کرتے ہیں کہ ہم اچھا مظاہرہ کریں اوربھارت کے لئے میڈیل جیتیں۔
وزیراعظم: چلئے آپ کے گھر والے بھی مجھے نظر آرہے ہیں۔ میں ان کو سلام کرتا ہوں۔ان کی نیک خواہشات آپ کے ساتھ رہتی ہیں، اور ملک کے باشندوں کی نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں۔
وزیراعظم: من پریت آپ سے بات کرتے ہوئے مجھے میجردھیان چند، کے ڈی سنگھ بابو، محمد شاہد جیسے عظیم ہاکی کھلاڑیوں کی یاد آرہی ہے۔ آپ ہاکی کی عظیم تاریخ کو مزید روشن کریں گے ایسا میرا اور پورے ملک کا یقین ہے۔
وزیراعظم: سانیا جی، آپ نے کئی گرینڈ سلم جیتے ہیں، بڑے بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ آپ نے کھیلا ہے۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ ٹینس کا چمپئن بننے کے لئے کیا خوبیاں ہونی چاہئیں؟ کیوں کہ آج کل میں نے دیکھا ہے کہ ٹیئر ٹو ٹیئر تھری سٹی میں بھی آپ لوگ ان کی ہیرو ہیں اور وہ ٹینس سیکھنا چاہتے ہیں۔
سانیا: جی سر، آئی تھنک ٹینس ایک ایسا گلوبل کھیل ہے جس میں جب میں نے شروعات کی تھی 25 سال پہلے تب زیادہ لوگ ٹینس کھیلتے نہیں تھے، لیکن آج جیسے آپ کہہ رہے ہیں بہت سارے ایسے بچے ہیں جو ٹینس ریکیٹ اٹھانا چاہتے ہیں اور جو پروفیشنل بننا چاہتے ہیں اور جو یقین کرتی ہیں کہ وہ ٹینس میں ایک بڑے کھلاڑی بن سکتے ہیں۔ اس کے لئے ؔاہر سی بات ہے کہ آپ کو ضرورت ہوتی ہے سپورٹ، لگن اور بہت بہت ساری تھنک ڈسٹینی بھی ایک رول پلے کرتی ہے اس میں لیکن محنت اور ٹیلنٹ کے بغیر کوئی بھی چیز میں کچھ ممکن نہیں ہوتا۔ چاہے وہ ٹینس ہو یا کوئی بھی کھیل ہو۔ اگر اب توسہولیات بھی کافی بہتر ہوگئی ہیں۔ اس سے 25 سال پہلے سے اب تک بہت سارے اچھے اسٹیڈیم بن گئے ہیں۔ ہارڈ کورٹس ہیں، تو امید یہی ہے کہ بہت سارے ٹینس کھلاڑی نکلیں گے انڈیا سے۔
وزیراعظم: اولمپک میں آپ کی ساتھی انکتا رینا کے ساتھ آپ کی پارٹنرشپ کیسی چل رہی ہے؟ آپ دونوں کی تیاری کیسی ہے؟
سانیا:انکتا ایک نوجوان کھلاڑی ہے، بہت اچھا کھیل رہی ہے۔ اورمیں بہت پرجوش ہوں اس کے ساتھ کھیلنے میں اور ہم گزشتہ سال کھیلے تھے فروری میں۔ جو فیڈکپ کے میچ ہوئے تھے۔ اوراس میں ہم نے کافی اچھا مظاہرہ کیا تھا۔ لیکن ہم آگے کے اولمپک کی طرف دیکھ رہے ہیں اورجیسے یہ میرا چوتھا اولمپک ہے۔ اس کا پہلا اولمپک ہے تو تھوڑا سا ابھی میرے عمر کے ساتھ ینگ پیروں کی ضرورت ہے ، تو میرے خیال سے کہ وہ پرووائڈر کرسکتی ہے۔
وزیراعظم: سانیا: آپ نے پہلے بھی اسپورٹس کے لئے سرکاری محکموں کے کام کاج کو دیکھا ہے ۔ گزشتہ 5-6 سال میں آپ کیا تبدیلی محسوس کررہی ہیں؟
سانیا: جیسے کہ میں نے کہاکہ 5-6 سال نہیں اب جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ جب سے ہمارے پاس کامن ویلتھ گیمس ہوا ہے سر تب سے میرے خیال سے جو ہمارے ملک میں سے کرکیٹرس کے علاوہ باقی بہت سارے ایسے کھلاڑی ہیں جو ملک کے لئے نام کماتے ہیں اور ملک کے لئے بہت اچھے مقام پر پہنچتے ہیں اورمیرے خیال سے وہ یقین دھیرے دھیرے پانچ۔ چھ سال میں بڑھ گیا ہے اورآپ تو حکومت سے ہمیں ہمیشہ ہی سپورٹ ملتا ہے۔ میں آپ سے جب ذاتی طور پر ملی ہوں۔ آپ نے ہمیشہ مجھے یہی کہا ہے کہ آپ ہر چیز میں ساتھ دیں گے۔ تو اسی طرح 5-6 سال میں بہت کچھ ہوا اور گزشتہ اولمپک سے ا س اولمپک تک کافی کچھ فرق ہے۔
وزیراعظم: سانیا آپ چمپئن بھی ہیں، فائٹر بھی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس اولمپک میں زیادہ بہترین اور کامیاب کھلاڑی بن کر ابھریں گی۔ میری طرف سے آپ کو بہت بہت مبارکباد۔