عزت مآب صدر جمہوریہ ،عزت مآب اسپیکر محترم!اسٹیج پر تشریف فرما سبھی سینئر آزمودہ کار حضرات اور ملک کے140کروڑ عوام کے نمائندہ سبھی قابل احترام ارکان پارلیمنٹ۔
آپ کو اور ملک کے عوام کو گنیش چترتھی کی بہت بہت مبارکباد۔ آج پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں ہم سب مل کر نئے مستقبل کا افتتاح کررہے ہیں۔ آج ہم یہاں ترقی یافتہ بھارت کا عزم دوہرانے ، پھر ایک بار عہد بستہ ہونے اور اس کو حقیقت میں بدلنے کے لئے جی جان سے خود کو وقف کردینے کے ارادے سے نئی عمارت کی طرف پیش قدمی کررہے ہیں۔ قابل احترام ایوان، یہ عمارت اور اس میں بھی یہ سینٹرل ہال ایک طرح ہمارے جذبات سے پُر ہے۔ہمیں جذباتی بھی بناتا ہے اور ہمیں اپنے فرض کے لئے تحریک بھی دیتا ہے۔آزادی سے پہلے یہ جگہ ایک طرح لائبریری کی شکل میں استعمال ہوتی ہے، لیکن بعد میں سموددھان سبھا کی نشست یہاں شروع ہوئی اور سمودھان سبھا کی نشستوں کے ذریعے سنجیدہ مذاکرات اور غور و فکر کرکے ہمارے آئین نے یہیں پر تشکیل پائی۔یہیں پر 1947 میں انگریزی حکومت نے اقتدار منتقل کیا، اس عمل کا بھی چشم دید گواہ ہمارا یہ سینٹرل ہال ہے۔ اسی سینٹر ہال میں بھارت کے ترنگے کو اپنایاگیا، ہمارے قومی ترانے کو اپنایاگیا اور تاریخی موقعوں پر آزادی کے بعد بھی سبھی سرکاروں کے درمیان بہت سے موقعے آئے، جب دونوں ایوانوں نے مل کر بھارت کے قسمت کو تشکیل دینے کی بات پر غوروفکر کیا، اتفاق رائے پیدا کیا اور فیصلہ بھی کیا۔
1952 کے بعد دنیا کے قریب 41سربراہان مملکت نے اس مرکزی ہال میں ہمارے سبھی معززارکان پارلیمنٹ سے خطاب کیا ہے۔ ہمارے صدور جمہوریہ نے86مرتبہ یہاں خطاب کیا ہے۔ گزشتہ 7دہائیوں میں جو بھی ساتھی اِن ذمہ داریوں سے گزرے ہیں، ذمہ داریوں کو سنبھالا، بہت سے قوانین ، بہت سی ترامیم اور بہت سی اصلاحات کا حصہ رہے ہیں۔ابھی تک لوک سبھا اور راجیہ سبھا نے مل کر قریب قریب 4ہزار سے زیادہ قانون منظور کئے ہیں اور کبھی ضرورت پڑی تو مشترکہ اجلاس کے وسیلے سے بھی قانون منظور کرنے کی سمت میں حکمت عملی بنانا پڑی اور اس کے تحت بھی جہیز روک تھام قانون ہو، بینکنگ سروس کمیشن بل ہو، دہشت گردی سے لڑنے کے لئے قانون ہو، یہ مشترکہ اجلاس میں منظور کئے گئے ہیں۔ اسی عمارت میں منظور کئے گئے ہیں۔ اسی پارلیمنٹ میں مسلم بہن بیٹیوں کو انصاف کا جو انتظار تھا، شاہ بانو کیس کے سبب گاڑی کچھ الٹی پٹری پر چل گئی تھی، اسی ایوان نے ہماری اُن غلطیوں کو ٹھیک کیا اور تین طلاق کے خلاف قانون ہم سب نے مل کر منظور کیا۔ پارلیمنٹ نے پچھلے برسوں میں ٹرانس جینڈر کو انصاف دلانے والے قوانین کی بھی تشکیل کی۔ اس کے وسیلے سے ہم ٹرانس جینڈر کے تئیں خیر خواہی اور احترام کے جذبے کے ساتھ ان کو ملازمت ، تعلیم، صحت اور باقی جو سہولیات ہیں، ایک وقار کے ساتھ حاصل کرسکیں، اس کی سمت میں ہم آگے بڑھے ہیں۔ ہم سبھی نے مل کر اپنے معذور افراد کے لئے بھی ، ان کی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے ، ان کی امنگوں کو دیکھتے ہوئے ایسے قوانین کو تشکیل دیا، جو ان کے تابناک مستقبل کی ضمانت بن گئے۔ دفعہ 370 سے ہٹانے سے لے کر وہ موضوع ایسا رہا ، شاید ہی کوئی دہائی ایسی ہوگی، جس میں ذکر نہ ہوا ہو، فکر نہ ہوئی اور مطالبہ نہ ہوا ہو، غصہ بھی ظاہر کیا گیا، ایوان میں بھی ہوا، ایوان کے باہر بھی ہوا، لیکن ہم سب کی خوش قسمتی ہے کہ ہمیں اس ایوان میں دفعہ 370 سے آزادی حاصل کرنے کا ، شورش پسندی دہشت گردی کے خلاف لڑائی لڑنے کا ایک بڑا ہی اہم قدم اور اس اہم کام میں معزز ارکان پارلیمنٹ کا بہت بڑا رول ہے۔ جموں وکشمیر میں اسی ایوان میں تخلیق کیا گیا آئین، ہمارے آبا ء و اجداد نے جسے دیا ، وہ بیش بہا دستاویز ، جموں وکشمیر میں لاگو کرتے ہیں تو اس مٹی کو سلام کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔
آج جموں و کشمیر امن اور ترقی کے راستے پر چلنے کے لئے عہد بستہ ہوا ہے اور نئی امنگ ، نئے حوصلے اور نئے عزم کے ساتھ جموں و کشمیر کے لوگ آگے بڑھنے کا کوئی موقع اب چھوڑنا نہیں چاہتے ہیں۔ یہ دکھاتا ہے کہ پارلیمنٹ کے ارکان نے مل کر پارلیمنٹ کے ایوان میں کتنے اہم کام کئے ہیں۔ معززارکان لال قلعے سے میں نے کہا تھا ، یہی وقت ہے ، یہی وقت ہے۔ ایک کے بعد ایک واقعات کی طرف ہم نظر کریں گے، ہر واقعہ اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ آج بھارت ایک تازہ بیداری کے ساتھ نئے سرے سے بیدار ہوچکا ہے۔ بھارت نئی توانائی سے بھر چکا ہے اور یہی بیداری ، یہی توانائی اس ملک کے کروڑوں عوام کے خوابوں کو عزم میں بدل سکتی ہے اور عزم کو ، محنت کی انتہا کرکے ثابت کرنے تک پہنچا سکتی ہے، یہ ہم دیکھ سکتے ہیں اور میرا یقین ہے کہ ملک جس سمت چل پڑا ہے، مقررہ نتائج یقینا حاصل ہوں گے۔ہم رفتار جتنی تیز کریں گے، نتائج اتنی جلد ملیں گے۔
آج بھارت پانچویں معیشت کے درجے پر پہنچا ہے، لیکن پہلے تین میں پہنچنے کے عزم کے ساتھ پیش قدمی کررہا ہے اور میں جس مقام پر بیٹھا ہوں، جومعلومات حاصل ہوتی ہے، اس کی بنیاد پر دنیا کے قابل احترام لوگوں سے بات چیت کرتا ہوں، اس کی بنیاد پر میں بڑے یقین سے کہہ رہا ہوں کہ ہم میں سے کچھ لوگوں کو مایوسی ہوسکتی ہے، لیکن دنیا کو یقین ہے کہ یہ بھارت ٹاپ تین میں پہنچ کر رہے گا۔ بھارت کا بینکنگ شعبہ آج اپنی مضبوطی کی وجہ سے پھر ایک بار دنیا میں مثبت ذکر کا مرکز بنا ہو اہے۔ بھارت کا حکمرانی کا طریقہ کار ، یوپی آئی ، ڈیجیٹل اسٹیک ، میں اس جی 20 میں دیکھ رہا تھا ، میں نے بالی میں بھی دیکھا۔ ٹیکنالوجی کی دنیا کو لے کر بھارت کا نوجوان جس طرح آگے بڑھ رہا ہے، پوری دنیا کے لئے مثالی بھی ہے، دلکش بھی ہے اور قابل تسلیم بھی ہے۔ ہم سب ایک ایسے دور میں ہیں۔ میں کہوں گا ہم لوگ خوش قسمت لوگ ہیں، ایسے خوش قسمتی کے دور میں ہمیں کچھ فرائض ادا کرنے کا موقع ملا ہے اور ہماری سب سے بڑی خوش قسمتی ہے کہ آج بھارت کی اُمنگیں اُس اونچائی پر ہے جو شاید پچھلے ہزار سال میں نہیں رہی ہوں گی۔ غلامی کی زنجیروں نے اس کی اُمنگوں کو دبوچ رکھا تھا، اس کے جذبات کو تہس نہس کردیا تھا۔آزاد بھارت میں وہ اپنے خواب دیکھ رہا تھا، چنوتیوں سے نبردآزما ہو رہا تھا، لیکن مل کر آج یہاں پہنچے ہیں، اب وہ وہاں رکنا نہیں چاہتا ہے۔ وہ اُمنگوں بھرے سماج کے ساتھ نئے مقاصد مقرر کرنا چاہتا ہے، جب اُمنگوں والے سماج خواب دیکھتے ہیں ، عزم لے کر نکل پڑے ہوں، تو پرانے قوانین سے نجات حاصل کرکے نئے قوانین کی تخلیق کرکے تابناک مستقبل کے لئے ایک راستہ طے کرنے کی ذمہ داری ہم سبھی ارکان پارلیمنٹ کی اولین ترجیح ہے۔پارلیمنٹ میں بننے والا ہر قانون، پارلیمنٹ میں ہونے والا ہر ذکر ، پارلیمنٹ سے جانے والا ہر اشارہ بھارتی اُمنگوں کو بڑھاوا دینے کے لئے ہی ہونا چاہئے۔ یہ ہم سب کا جذبہ ہے،فرض بھی ہے اوروطن کے ایک ایک شخص کی ہم سے امید بھی ہے۔ ہم جو بھی اصلاح کریں گے، اس کی بنیاد میں بھارتی اُمنگیں اولین ہونی چاہئیں،اولین ترجیحات ہونی چاہئیں، لیکن میں بہت سوچ سمجھ کر کہنا چاہتا ہوں، کیا کبھی چھوٹے کینوس پر کوئی بڑی تصویر بنا سکتا ہے؟ جیسے چھوٹے کینوس پر بڑی تصویر نہیں بن سکتی، ویسے ہم بھی اگر اپنے سوچنے کے کینوس کو بڑا نہیں کرسکتے تو دلکش بھارت کی تصویر بھی ہم نہیں بنا سکتے۔ 75 سال کا ہمارے پاس تجربہ ہے، ہمارے آباء و اجداد جو کچھ بھی راستے بنائے، اس سے ہم نے سیکھا ہے۔ ہمارے پاس ایک بہت بڑی وراثت ہے۔ اس وراثت کے ساتھ اگر ہمارے خواب ، ہمارے عزائم جڑ جائیں، ہمارا سوچنے کا دائرہ بدل جائے، ہمارا کینوس بڑا ہوجائے تو ہم بھی اُس دلکش بھارت کی تصویر کو بناسکتے ہیں، اس تصویر کا خاکہ کھینچ سکتے ہیں، اس میں رنگ بھرنے کا کام ہم بھی کرسکتے ہیں اور آنے والی نسلوں کو وہ دلکشی دیوی ماں بھارتی کی، ہم ان کو سپرد کرسکتے ہیں، دوستو!
امرت کال کے 25برسوں میں بھارت کو اب بڑے کینوس پر کام کرنا ہی ہوگا۔ اب ہمارے لئے چھوٹی چھوٹی چیزوں میں الجھنا ، وہ وقت چلا گیا ہے۔ ہمیں خود کفیل بھارت بنانے کے مقصد کو مقدم رکھنا چاہئے اور ہم سے شروعات ہوتی ہے، ہر شہری سے شروعات ہوتی ہے اور آج دنیا میں بھی ایک وقت ایسا تھا کہ لوگ مجھے کہتے تھے۔ ہمارے بڑے بڑے دانشور اور معیشت داں لکھتے تھے کہ مودی خود کفالت کی بات کرتا ہے، تو کثیر ملکی نظام کے سامنے چیلنج تو بن نہیں جائے گا۔ عالمی معیشت کے زمانے میں ٹھیک تو نہیں ہوگا،، لیکن پانچ سال کے اند راندر دیکھا، دنیا بھارت کے خود کفالت کے ماڈل کا ذکر کرنے لگی ہے اور کون بھارتی نہیں چاہے گا کہ دفاع کے شعبے میں خود کفیل ہوں، توانائی کے شعبے میں ہم خود کفیل ہوں، ایڈیبل ہو ہی، کیا اس ملک کو خود کفیل نہیں ہونا چاہئے۔ کاشت کاری پر مرکوز ملک ہم کہہ سکتے ہیں۔ کھانے کا تیل کیا اب ملک باہر سے لائے گا؟ وقت کی مانگ ہے کہ خود کفیل بھارت کے عزم کو پورا کرنا، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے، اس میں پارٹی آڑے نہیں آتی ہے، صرف دل چاہئے، ملک کے لئے چاہئے۔
اب ہمیں مینوفیکچرنگ سیکٹر میں دنیا میں سرفہرست پوزیشن حاصل کرنے کی طرف قدم اٹھانا ہوگا۔ اور میں نے ایک بار لال قلعہ سے کہا تھا کہ صفر نقص ہونا چاہیے، صفرمنفی اثر ہونا چاہیے، ہماری مصنوعات میں کوئی خرابی نہیں ہونی چاہیے، ہمارے عمل میں ماحولیات پر کوئی اثر نہیں ہونا چاہیے، ہمیں مینوفیکچرنگ کے شعبے میں اس طرح کے صفر عیب، صفر منفی اثر کے ساتھ دنیا کے سامنے جانا ہو گا۔ ہمارے ڈیزائنرز، ہمارے یہاں تیار ہونے والے ڈیزائن، ہمارے سافٹ ویئر، ہماری زرعی مصنوعات، ہماری دستکاری، ہر شعبے میں ہمیں اب عالمی معیارات کو پیچھے چھوڑنے کی نیت سے آگے بڑھنا چاہیے، تب ہی ہم دنیا میں اپنا پرچم لہرا سکتے ہیں۔ یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ میں اپنے گاؤں میں سب سے اچھی شہرت رکھتا ہوں، میری بہترین پروڈکٹ کو میری ریاست میں قبول نہیں کیا جائے گا، میری بہترین پروڈکٹ کو میرے ملک میں قبول نہیں کیا جائے گا، میری پروڈکٹ دنیا میں سب سے اچھی ہوگی،ہمیں اس احساس کو پیدا کرنا ہوگا۔ ہمارییونیورسٹیاں دنیا میں ٹاپ رینکنگ میں آ گئی ہیں، اب ہمیں اس میں پیچھے نہیں رہنا ہے۔ ہماری تعلیمی دنیا کو ایک نئی قومی تعلیمی پالیسی ملی ہے، یہ کھلی ہوئی ہے، اسے سب نے قبول کر لیا ہے۔ اب ہمیں اس کی مدد سے آگے بڑھنا ہے اور دنیا کی ان اعلیٰیونیورسٹیوں میں حال ہی میں جب جی-20 میں دنیا کے مہمان آئے تو میں نے وہاں نالندہ کی تصویر رکھی تھی اور جب میں دنیابھر کے نمائندوں کو بتاتا تھا کہ 1500 برسوں پہلے میرے ملک میں دنیا کی سب سے اچھییونیورسٹی ہوا کرتی تھی تو وہ سکتے کے عالم سنتے ہی رہ جاتے تھے۔ لیکن ہمیں اس سے نہ صرف تحریک لینی ہے بلکہ ہمیں اسے ابھی حاصل کرنا ہے، یہ ہمارا عزم ہے۔
آج ہمارے ملک کے نوجوان کھیلوں کی دنیا میں اپنی شناخت بنا رہے ہیں۔ ٹائر-2، ٹائر-3 شہروں سے، دیہاتوں کے غریب خاندان، ملک کے نوجوان، ملک کے بیٹے اور بیٹیاں آج کھیل کی دنیا میں ہمارا نام فخر سے بلند کر رہے ہیں۔ لیکن ملک چاہتا ہے اور ملک کا عزم ہونا چاہیے کہ اب ہمارا ترنگا بھی ہر کھیل کے پوڈیم پر لہرائے گا۔ اب ہمیں اپنے پورے ذہن کو معیار پر مرکوز کرنا ہے، تاکہ ہم دنیا کی توقعات پر پورا اتر سکیں اور معیار زندگی کے حوالے سےجو امنگ ہندوستان کے عام لوگوں کی زندگیوں میں بڑھی ہے،اس کو پورا کرسکیں۔ اور جیسا کہ میں نے کہا، ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم ایک ایسے وقت میں کام کر رہے ہیں جب معاشرہ خود ایک پُرامنگ معاشرہ ہے۔ ہماری ایک اور خوش قسمتییہ ہے کہ ہم ایسے وقت میں موجود ہیں جب ہندوستان ایک نوجوان ملک ہے۔ ہم دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن گئے ہیں لیکنیہ پہلی بار ہوا ہے کہ ہمارے پاس نوجوانوں کی سب سے زیادہ آبادی ہے۔ اگر کسی ملک میں نوجوانوں کییہ طاقت ہے، نوجوانوں کی صلاحیت ہے، تو ہمیں اس کی صلاحیتوں پر بھروسہ ہے، ہمیں اس کے عزم پر یقین ہے، ہمیں اس کی ہمت پر یقین ہے اور اسی لیے ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستان کے نوجوان اگلی صف میں نظر آئیں۔ دنیا میں ایسی صورت حال پیدا ہونی چاہیے۔ آج پوری دنیا کو ہنر مند افرادی قوت کی بہت ضرورت ہے اور ہندوستان دنیا کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے خود کووسائل سے آراستہ کرسکتا ہے اور ان ضروریات کو پورا کرکے دنیا میں اپنا مقام بھی بنا سکتا ہے۔ اور اس لیے دنیا میں ان کی ضروریات کے لیے کس قسم کی افرادی قوت کی ضرورت ہے، کس قسم کے انسانی وسائل کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے اسکل میپنگ کا کام بھی جاری ہے اور اس اسکل میپنگ کے مطابق ہم ہندوستان کے اندر ہنرمندی کی ترقی پر زور دے رہے ہیں اور جتنا زیادہ ہم اسکل ڈیولپمنٹ پر زور دیں گے، ہندوستان کے نوجوانوں کی صلاحیت دنیا میں اپنا ڈنکابجانےمیں کوئی کمی نہیں رکھے گی۔ اور جہاں بھی کوئی ہندوستانی گیا ہے، اس نے اچھائی کا، کچھ کرنے کا تاثر چھوڑا ہے۔ یہ صلاحیت ہمارے اندر پہلے سے موجود ہے اور جو ہم سے پہلے وہاں جاچکے ہیں انہوں نے بھی اپنی صلاحیت کے اظہار کے ساتھیہ شبیہ قائم کی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ حال ہی میں ایک ساتھ تقریباً 150 نرسنگ کالج کھولنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ پوری دنیا میں نرسنگ کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ہماری بہنیں، ہماری بیٹیاں، ہمارے بیٹے اس شعبےکے حوالےسے دنیا بھر میں پہنچ سکتے ہیں، آسانی سے پہنچ سکتے ہیں، پوری دنیا کو اس کیضرورت ہے اور یہ انسانیت کا کام ہے جس میں ہم پیچھے نہیں رہیں گے۔ آج اتنے بڑے پیمانے پر میڈیکل کالجز کی تعمیر نہ صرف ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے بلکہ دنیا کی ضروریات میں بھی اپنا کردار اداکرسکتی ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ہر چھوٹی چھوٹی بات پر پوریتوجہ دے کر اور اس پر اپنی پوری مرکوز کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔ ہمیں مستقبل کے لیے بھی صحیح وقت پر درست فیصلے کرنا ہوں گے۔ ہم فیصلے ملتوی نہیں کر سکتے۔ ہم اپنے آپ کو سیاسی فائدے اور نقصانات کا یرغمال نہیں بنا سکتے۔ ملک کے عزم وحوصلے کے لیے ہمت کے ساتھ نئے فیصلے لینے ہوں گے۔
آج شمسی توانائی کی کامیاب تحریک ہماری آنے والی نسلوں کے لیے توانائی کے بحران سے آزادی کی ضمانت دے رہی ہے۔ آج، مشن ہائیڈروجن آنے والے دنوں میں ماحولیاتی خدشات اور ٹیکنالوجی میں تبدیلیوں کا حل فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ آج ہمارا سیمی کنڈکٹر ہماری زندگی کو چلانے کے لیے ہمارے دل کے لیے ضروری ہے، اسی طرح آج ہماری ٹیکنالوجی چپس کے بغیر نہیں چل سکتی اور اس کے لیے سیمی کنڈکٹر بہت ضروری ہے، ہمیں اس سمت میں آگے بڑھنا چاہیے تاکہ الیکٹرانک مینوفیکچرنگ میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔اور زندگی کہیں اٹک نہ جائے اس کے لیے ہم ہر ضلع میں جل جیون مشن، 75 امرت سروورپر بہت بڑے پیمانے پر کام کر رہے ہیں۔ آج ہم پریشان ہیں کہ ہماری آنے والی نسل، ہمارے بچوں، ان کے بچوں کو پانی کے بغیر کبھی تکلیف نہ اٹھانی پڑے۔ ہمارے ہر کاروبار کو عالمی منڈی تک پہنچنا چاہیے اورہمیں مسابقتی طاقت کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ہم اس سمت میں بہت سی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں تاکہ لاجسٹک نظام کو زیادہ کفایت شعار اور موثر بنایا جا سکے۔ آج وقت کی ضرورت ہے کہ ہم ایک ایسا ہندوستان بنائیں جس میں علم کی اختراع ہو۔ اور ہمارے لیے دنیا میں صف اوّل تک پہنچنے کا بھییہی طریقہ ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں قومی تعلیمی پالیسی کے ساتھ ساتھ ہم نے ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے تحقیق اور اختراع کا قانون بھی پاس کیا ہے۔اس کا نتیجہ ہے کہ اس اختراع اور چندریان 3 کی کامیابی کے بعد ہمارے ملک کے نوجوانوں کے ذہنوں میں سائنس کی طرف کشش بڑھ رہی ہے، ہمیں اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو تحقیق اور اختراع کے بھرپور مواقع فراہم کرنے والے ہوں گے۔ اور اس ماحولیاتی نظام کو وضع کرکے ہم نے روشن مستقبل کی تعمیر کی بنیاد رکھی ہے۔
محترم بھائیو،
سماجی انصاف، یہ ہماری پہلی شرط ہے۔ سماجی انصاف کے بغیر، توازن کے بغیر، مساوات کے بغیر،برابری کے بغیر ہم گھر کے اندر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکتے۔ لیکن سماجی انصاف کی بحث بہت محدود رہی ہے، ہمیں اسے جامع انداز میں دیکھنا ہوگا۔ اگر ہم کسی غریب کو کوئی سہولت دیں، معاشرے کے کسی مظلوم کو کوئی سہولت دیں تو یہ سماجی انصاف کا عمل ہے، لیکن اگر اس کے گھر تک کنکریٹ کی سڑک بنائی جائے تو اس سے سماجی انصاف کے لیے بھی تقویت ملتی ہے۔ اگر اس کے گھر کے قریب بچوں کے لیے اسکول کھولے جائیں تو اس سے اسے سماجی انصاف کے لیے بھیتقویت ملتی ہے۔ اگر ہم اسے بغیر کسی خرچ کے، ضرورت کے وقت صحت کی دیکھ بھال میں لوگوں تک پہنچادیں، تب ہی سماجی انصاف کو تقویت ملے گی۔ اور اس لیے جس طرح سماجی نظام میں سماجی انصاف کی ضرورت ہے، اسی طرح قومی نظام میں سماجی انصاف کی ضرورت ہے۔ اب اگر ملک کا کوئی حصہ پیچھے رہ جائے، پسماندہ رہ جائے تو یہ سماجی انصاف کے بھی خلاف ہے۔ بدقسمتی سے ملک کا مشرقی حصہ یعنی ہندوستان کا مشرقی حصہ جو کہ خوشحالی سے بھرا ہوا ہے لیکن وہاں کے نوجوانوں کو روزگار کے لیے دوسرے علاقوں میں جانا پڑتا ہے، ہمیں اس صورتحال کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں اپنے ملک کے مشرقی حصے کے علاقے کو خوشحال بنا کر سماجی انصاف کو بھی مضبوط کرنا ہے۔ غیر متوازن نشوونما، جسم کتنا ہی صحت مند کیوں نہ ہو، اگر ایک انگلی بھی مفلوج ہو جائے تو جسم صحت مند نہیں سمجھا جاتا۔ ہندوستان خواہ کتنا ہی خوشحال کیوں نہ ہو، اگر اس کا کوئی حصہ کمزور رہتا ہے، تو ہمیںیہ ماننا پڑے گا کہ ہندوستان خوشحالی میں بہت پیچھے ہے اور اس لیے ہمیں ہمہ جہتی ترقی کے حق میں سماجی انصاف کی اس بلندی کو حاصل کرنے کی سمت میں آگے بڑھنا ہوگا۔ مشرقی ہندوستان ہو یا شمال مشرقی، ہمیں ان چیزوں کو حاصل کرنا ہے اور اس کے لیے حکمت عملی بہت کامیاب رہی ہے، 100 خواہش مند اضلاع پر خصوصی کام کیا گیا، نوجوان افسروں کی تقرری کی گئی، حکمت عملی بنائی گئی، آج دنیا اسی ماڈل پر گفتگو اور مباحثے کررہی ہے۔ اور آج جو 100 اضلاع ملک کے کونے کونے میں پیچھے سمجھے جاتے تھے، بوجھ سمجھے جاتے تھے، آج صورتحال ایسی بن گئی ہے کہ وہ 100 اضلاع ریاست کی اوسط سے اوپر جا کر اپنی اپنی ریاستوں میں آگے ہیں۔ اور اس کامیابی کو دیکھ کر سماجی انصاف کے اس جذبے کو پرجوش اضلاع کے طور پر شناخت کرنے اور ان کو خواہش مند اضلاع کے طور پر شناخت کرکے انہیں 100 اضلاع سے حقیقی عملی سطح تک لے جانے کے لیے کام جاری ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ یہ خواہش مند بلاکس ترقی کا ایک نیا ماڈل بننے جا رہے ہیں۔ ایک طرح سے ان میں ملک کی ترقی کے لیے توانائی کا ایک نیا مرکز بننے کی صلاحیت ہے اور ہم اس سمت میں بھی آگے بڑھ رہے ہیں۔
محترم ارکان پارلیمنٹ ،
آج دنیا کی نظر بھارت پر ہے۔سرد جنگ کے دوران ہماری شناخت ناوابستہ ملک کی شکل میں رہی ہے ،لیکن اب بھارت کا مقام کچھ اور بنا ہے۔ اور اس لئے اس وقت ناوابستگی کی ضرورت ضرور رہی ہوگی،آج ہم اس پالیسی کو لے کر چل رہے ہیں ، جس پالیسی کو اگر ہمیں شناخت کرنا ہے تو دنیا کے دوست کی شکل میں ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہم دنیا سے دوستی کررہے ہیں۔ دنیا ہمارے اندر دوست کی تلاش کررہی ہے۔ یہ شاید دنیا میں ، بھارت میں اور دوری نہیں ، جتنا ہوسکے ، اتنی نزدیکی ذریعہ اس راستے پر چل کر ہم اپنے دنیا کے دوست کے جذبے کو آج کامیابی کے ساتھ آگے بڑھا رہے ہیں۔ اور مجھے لگتا ہے کہ اس کا فائدہ آج بھارت کو ہورہا ہے۔بھارت آج دنیا کے لئے ایک پائیدار سپلائی چین کی شکل میں ابھر رہا ہے ۔اور آج دنیا کی یہ ضرورت ہے اور اس ضرورت کو پورا کرنے کا کام جی 20 میں بھارت گلوبل ساؤتھ کی آواز بن کر ابھرا ہے ۔یہ بیج ،جی 20 سمٹ میں جس کو بویا گیا ہے، میرے اہل وطن آنے والے وقت میں دیکھیں گے ۔ وہ ایسا برگد بننے والا ہے ،اعتماد کا ایسا برگد بننے والا ہے،جس کے سائے میں آنے والی نسلیں صدیوں تک فخر کے ساتھ اپنا سینہ تان کر کے کھڑی رہیں گی ، یہ مجھے یقین ہے ۔
اس جی 20 میں ایک بہت بڑا کام ہم نے کیا ہے ، بایو فیول الائنس کا ہم دنیا کی قیادت کررہے ہیں ،اس کو سمت فراہم کررہے ہیں۔اور دنیا کو بایو فیول الائنس میں دنیا کے تمام دوست ممالک دیکھتے ہی دیکھتے اس کی رکنیت لے رہے تھے۔ اور ایک بہت بڑی تحریک کھڑی ہونے جارہی ہے۔اور جس کی قیادت یہ ہمارا بھارت کررہا ہے ۔چھوٹے چھوٹے براعظم ان کے ساتھ بھی اقتصادی کاریڈور بنانے کی سمت میں ہم نے بڑی مضبوطی کے ساتھ قدم اٹھائے ہیں۔
محترم بھائیو،قابل احترام نائب صدر جی ، محترم اسپیکر ،
آج ہم یہاں سے وداع لے کر، نئے ایوان میں جارہے ہیں۔ پارلیمنٹ کے نئے ایوان میں بیٹھنے والے ہیں اور یہ مبارک ہے کہ گنیش چترتھی کے دن بیٹھ رہے ہیں۔لیکن میں آپ دونوں معززین سے ایک درخواست کررہاہوں ، ایک خیال آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں ، میں امید کرتا ہوں کہ آپ دونوں مل کر کے اس خیال پر جہاں بھی ضرورت پڑے غووخوض کرکے کچھ فیصلہ ضرور کیجئے ۔ اور میری درخواست ہے ، میری تجویز ہے کہ اب ہم جب نئے ایوان میں جارہے ہیں تو اس کی عظمت کبھی بھی کم نہیں ہونی چاہئے ۔ اسے محض پرانی پارلیمنٹ کہہ کر چھوڑدیں ،ایسا نہیں ہونا چاہئے ۔اور اس لئے میری درخواست ہے کہ مستقبل میں اگر آپ متفق ہوں ، دونوںمعززین تو اس کو آئینی ایوان کی شکل میں جانا جائے تاکہ یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہماری زندگی کی لئے تحریک بنارہے۔ اور جب آئینی ایوان کہیں گے تو اُن عظیم لوگو ں کی یاد اس کے ساتھ وابستہ ہوجائے گی ، جو کبھی آئین ساز اسمبلی میں یہاں بیٹھا کرتے تھے۔عظیم لوگ بیٹھا کرتے تھے اور اس لئے مستقبل کی نسل کو یہ تحفہ بھی دینے کا موقع ہمیں ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئے ۔
میں پھر ایک بار اس مقدس سرزمین کو سلام کرتا ہوں ۔ یہاں پر جو تپسیا ہوئی ہے ،عوامی بہبود کے لئے عزائم کئے گئے ہیں، ان کو پورا کرنے کے لئے سات دہائیوں سے بھی زیادہ مدت میں جو کوششیں ہوئی ہیں ، ان سب کو سلام کرتے ہوئے میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں اور نئے ایوان کے لئے آپ سب کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں ۔
بہت بہت شکریہ !