ہرے کرشن! آج کے اس مقدس موقع پر ہمارے ساتھ جڑ رہے ملک کے وزیر ثقافت جناب کشن ریڈی، اسکان بیورو کے صدر جناب گوپال کرشن گوسوامی جی، اور دنیا کے الگ الگ ملکوں سے ہمارے ساتھ جڑے ہوئے سبھی ساتھی، کرشن کے عقیدت مندو!
پرسوں شری کرشن جنماشٹمی تھی اور آج ہم شریل پربھو پاد جی کا 125واں یوم پیدائش ما رہے ہیں۔ یہ ایسا ہے جیسے سادھنا کی خوشی اور تسکین دونوں ایک ساتھ میسر ہو جائے۔ اسی جذبے کو آج پوری دنیا میں شریل پربھو پاد سوامی نے لاکھوں کروڑوں پیروکاروں، اور لاکھوں کروڑوں کرشن بھکت محسوس کر رہے ہیں۔ میں سامنے اسکرین پر الگ الگ ملکوں سے آپ سبھی عقیدت مندوں کو دیکھ رہا ہوں۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے لاکھوں من ایک جذبے سے بندھے ہوں، لاکھوں جسم ایک مشترکہ شعور سے جڑے ہوںٍ! یہ وہ کرشن کا شعور ہے جسے پربھو پاد سوامی جی نے پوری دنیا تک پہنچایا ہے۔
ساتھیوں،
ہم سب جانتے ہیں کہ پربھو پاد سوامی روحانی کرشن بھکت تو تھے ہی، ساتھ ہی وہ ایک عظیم بھارت بھکت بھی تھے۔ انہوں نے ملک کی آزادی کی لڑائی لڑی تھی۔ انہوں نے عدم تعاون تحریک کی حمایت میں اسکاٹش کالج سے اپنا ڈپلومہ تک لینے سے منع کر دیا تھا۔ آج یہ حسن اتفاق ہے کہ ملک ایسے عظیم دیش بھکت کا 125واں یوم پیدائش ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب بھارت اپنی آزادی کے 75 سال کا جشن – امرت مہوتسو منا رہا ہے۔ شریل پربھو پاد سوامی ہمیشہ کہتے تھے کہ وہ دنیا کے ممالک میں اس لیے گھوم رہے ہیں کیوں کہ وہ بھارت کی سب سے قیمتی دولت دنیا کو دینا چاہتے ہیں۔ بھارت کا جو علم و سائنس ہے، ہماری زندگی کی جو تہذیب و روایات ہیں، اس کا جذبہ رہا ہے- اتھ بھوت دیام پرتی یعنی جاندار کے لیے، جاندار کی فلاح کے لیے! ہماری پوجا کا بھی آخری منتر یہی ہوتا ہے- اِدم نا ممم یعنی، یہ میرا نہیں ہے۔ یہ پوری کائنات کے لیے ہے، پوری تخلیق کے مفاد کے لیے ہے اور اسی لیے، سوامی جی کے پوجیہ گروجی شریل بھکتی سدھانت سرسوتی جی نے ان کے اندر وہ صلاحیت دیکھی، انہیں ہدایت دی کہ وہ بھارت کی فکر اور فلسفہ کو دنیا تک لیکر جائیں۔ شریل پربھو پاد جی نے اپنے گرو کے اس حکم کو اپنا مشن بنا لیا، اور ان کی تپسیا کا نتیجہ آج دنیا کے کونے کونے میں نظر آتا ہے۔
امرت مہوتسو میں بھارت نے بھی سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس کے منتر کے ساتھ ایسے ہی عزائم کو اپنے آگے کے سفر کی بنیاد بنایا ہے۔ ہمارے ان عزائم کے مرکز میں، ہمارے ان مقاصد کی بنیاد میں بھی عالمی فلاح کا ہی جذبہ ہے۔ اور آپ سبھی اس کے گواہ ہیں کہ ان عزائم کو پورا کرنے کے لیے سب کی کوشش کتنی ضروری ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اگر پربھو پاد جی نے اکیلے دنیا کو اتنا کچھ دیا ہے، تو جب ہم سب ان کے آشیرواد سے ایک ساتھ کوشش کریں گے، تو کیسے نتائج آئیں گے؟ ہم ضروری انسانی شعور کی اس بلندی تک پہنچیں گے جہاں سے ہم دنیا میں اور بڑا رول نبھا سکیں، محبت کے پیغام کو ایک ایک انسان تک پہنچا سکیں۔
ساتھیوں،
انسانیت کے حق میں بھارت دنیا کو کتنا کچھ دے سکتا ہے، آج اس کی ایک بہت بڑی مثال ہے دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہمارا یوگ کا علم! ہماری یوگ کی روایت! بھارت کی جو مستحکم طرز زندگی ہے، آیوروید جیسے جو سائنس ہیں، ہمارا عہد ہے کہ اس کا فائدہ پوری دنیا کو ملے۔ خود انحصاریت کے بھی جس منتر کی شریل پربھو پاد اکثر چرچہ کرتے تھے، اسے بھارت نے اپنا مقصد بنایا ہے، اور اس سمت میں ملک آگے بڑھ رہا ہے۔ میں کئی بار جب آتم نربھر بھارت اور میک ان انڈیا کے اہداف کی بات کرتا ہوں، تو میں اپنے افسروں کو، بزنس مین کو اسکان کے ہرے کرشن موومنٹ کی کامیابی کی مثال دیتا ہوں۔ ہم جب بھی کسی دوسرے ملک میں جاتے ہیں، اور وہاں جب لوگ ’ہرے کرشن‘ بول کر ملتے ہیں، تو ہمیں کتنا اپناپن لگتا ہے، کتنا فخر بھی ہوتا ہے۔ تصور کیجئے، یہی اپنائیت جب ہمیں میک ان انڈیا مصنوعات کے لیے ملے گی، تو ہمیں کیسا لگے گا! اسکان سے سیکھ کر ہم ان مقاصد کو بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
ساتھیوں،
بھگوان کرشن نے ارجن سے کہا تھا- نہ ہی گیانین سدرشم پوتر مہ ودیتے
یعنی، علم جیسا مقصد کچھ بھی نہیں ہے۔ علم کو اعلی ترجیح دینے کے بعد انہوں نے ایک اور بات کہی تھی- مییو من آدتسو میی بدھم نویشم یعنی، علم و سائنس کو حاصل کرنے کے بعد اپنے من کو، عقل کو کرشن میں لگا دو، ان کی بھکتی میں وقف کر دو۔ یہ اعتماد، یہ طاقت بھی ایک یوگ ہے، جسے گیتا کے 12ویں باب میں بھکتی یوگ کہا گیا ہے۔ اور اس بھکتی یوگ کی طاقت بہت بڑی ہوتی ہے۔ ہندوستان کی تاریخ بھی اس کی گواہ ہے۔ جب بھارت غلامی کے اندھیرے میں پھنس گیا تھا، نا انصافی، ظلم اور استحصال سے متاثر بھارت اپنے علم اور طاقت پر دھیان نہیں لگا پا رہا تھا، بھارت کی شناخت کو الگ رکھا۔ آج دانشور اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ اگر بھکتی کے دور کا سماجی انقلاب نہیں ہوتا تو بھارت نہ جانے کہاں ہوتا، کس شکل میں ہوتا! لیکن، اس مشکل دور میں چیتنیہ مہا پربھو جیسے سنتوں نے ہمارے سماج کو بھکتی کے جذبے سے باندھا، انہوں نے ’اعتقاد سے اعتماد‘ کا منتر دیا۔ عقیدت کی تفریق، سماجی اونچ نیچ، حق اور حق تلفی، بھکتی نے ان سب کو ختم کرکے شیو اور جیو کے درمیان ایک سیدھا رابطہ قائم کر دیا۔
ساتھیوں،
ہندوستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں، تو آپ یہ بھی پائیں گے کہ بھکتی کی اس ڈور کو تھامے رہنے کے لیے الگ الگ دور میں رشی مہرشی اور منیشی سماج میں آتے رہے۔ ایک دور میں اگر سوامی وویکانند جیسے منیشی آئے جنہوں نے وید ویدانت کو مغرب تک پہنچایا، تو وہیں دنیا کو جب بھکتی یوگ دینے کی ذمہ داری آئی تو شریل پربھو پاد جی اور اسکان نے اس عظیم کام کا بیڑہ اٹھایا۔ انہوں نے بھکتی ویدانت کو دنیا کے شعور سے جوڑنے کا کام کیا۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں تھا۔ انہوں نے تقریباً 70 سال کی اس عمر میں اسکان جیسا عالمی مشن شروع کیا، جب لوگ اپنی زندگی کا دائرہ اور سرگرمی کم کرنے لگتے ہیں۔ یہ ہمارے سماج کے لیے اور ہر شخص کے لیے ایک بڑے حوصلہ کا باعث ہے۔ کئی بار ہم دیکھتے ہیں، لوگ کہنے لگتے ہیں کہ عمر ہو گئی نہیں تو بہت کچھ کرتے! یا پھر ابھی تو صحیح عمر نہیں ہے یہ سب کام کرنے کی! لیکن پربھو پاد سوامی اپنے بچپن سے لیکر پوری زندگی تک اپنے عزائم کے لیے سرگرم رہے۔ پربھو پاد جی سمندری جہاز سے جب امریکہ گئے، تو وہ تقریباً خالی جیب تھے، ان کے پاس صرف گیتا اور شریمد بھاگوت کی پونجی تھی! راستے میں انہیں دو دو بار ہارٹ اٹیک آیا! سفر کے درمیان! جب وہ نیویارک پہنچے تو ان کے پاس کھانے کا انتظام نہیں تھا، رہنے کا تو ٹھکانہ ہی نہیں تھا۔ لیکن اس کے اگلے 11 سالوں میں دنیا نے جو کچھ دیکھا، جناب اٹل جی کے الفاظ میں کہیں تو اٹل جی نے ان کے بارے میں کہا تھا- وہ کسی چمتکار سے کم نہیں تھا۔
آج دنیا کے الگ الگ ملکوں میں سینکڑوں اسکان مندر ہیں، کتنے ہی گروکل ہندوستانی ثقافت کو زندہ بنائے ہوئے ہیں۔ اسکان نے دنیا کو بتایا ہے کہ بھارت کے لیے عقیدت کا مطلب ہے- خوشی، جوش و خروش اور انسانیت پر اعتماد۔ آج اکثر دنیا کے الگ الگ ملکوں میں لوگ ہندوستانی لباس میں کیرتن کرتے نظر آ جاتے ہیں۔ کپڑے سادہ ہوتے ہوں، ہاتھ میں ڈھولک منجیرا جیسے ساز ہوتے ہیں، ہرے کرشن کا مترنم کیرتن ہوتا ہے، اور سب ایک روحانی تسکین میں جھوم رہے ہوتے ہیں۔ لوگ دیکھتے ہیں تو انہیں یہی لگتا ہے کہ شاید کوئی جشن یا پروگرام ہے۔ لیکن ہمارے یہاں تو یہ کیرتن، یہ انعقاد زندگی کا اٹوٹ حصہ ہے۔ عقیدہ کی یہ پرسکون شکل لگاتار پوری دنیا میں لوگوں کو متوجہ کرتی رہی ہے، یہ خوشی آج تناؤ سے دبی دنیا کو نئی امید دے رہی ہے۔
ساتھیوں،
گیتا میں بھگوان کرشن کا قول ہے-
ادویشٹا سرو-بھوتانامیترہ کرون ایو چہ۔
نرم مونیر-ہنکارہ سم دکھ سکھ چھمی۔
یعنی، جو صرف زندگی سے محبت کرتا ہے، ان کے لیے رحمدلی اور محبت رکھتا ہے، کسی سے دشمنی نہیں کرتا، وہی بھگوان کو عزیز ہے۔ یہی منتر ہزاروں سالوں سے بھارت کی فکر کی بنیاد رہی ہے۔ اور اس فکر کو سماجی بنیاد عطام کرنے کا کام مندروں نے کیا ہے۔ اسکان مندر آج اسی خدمت کے جدید مرکز بن کر ابھرے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب کچھ میں زلزلہ آیا تھا، تو کس طرح اسکان نے لوگوں کی خدمت کے لیے آگے بڑھ کر کام کیا تھا۔ جب بھی ملک میں کوئی آفت آئی ہے، چاہے وہ اتھراکھنڈ کا سانحہ ہو، یا اوڈیشہ اور بنگال میں سائیکلون کی تباہی، اسکان نے سماج کا حوصلہ بننے کا کام کیا ہے۔ کورونا وبائی مرض میں بھی آپ کروڑوں مریضوں، ان کے اہل خانہ اور مہاجرین کے لیے لگاتار کھانا اور دوسری ضرورتوں کا انتظام کرتے آ رہے ہیں۔ وبائی مرض کے علاوہ بھی، لاکھوں غریبوں کے کھانے اور خدمت کا پروگرام آپ کے ذریعے لگاتار چلتا رہتا ہے۔ جس طرح سے اسکان نے کووڈ مریضوں کے لیے اسپتال بنائے، اور اب ویکسین مہم میں بھی شراکت داری نبھا رہے ہیں، اس کی بھی جانکاری مجھے لگاتار ملتی رہتی ہے۔ میں اسکان کو، اس سے جڑے سبھی بھکتوں کو آپ کے اس سیوا یگیہ کے یے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیوں،
آج آپ سچائی، خدمت اور سادھنا کے منتر کے ساتھ نہ صرف کرشن سیوا کر رہے ہیں، بلکہ پوری دنیا میں ہندوستانی اصول اور اخلاقیات کے برانڈ امبیسڈر کا بھی رول نبھا رہے ہیں۔ بھارت کی تہذیب ہے: سروے بھونتو سکھینہ، سروے سنتو نرامیہ۔ یہی سوچ اسکان کے ذریعے آج آپ سبھی کا، لاکھوں کروڑوں لوگوں کا عزم بن چکا ہے۔ ایشور کے تئیں محبت، اور زندگی میں ایشور کے درشن، یہی اس عزم کو حاصل کرنے کا راستہ ہے۔ یہی راستہ ہمیں وبھوتی یوگ کے باب میں بھگوان نے بتایا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ’واسودیوہ سروم‘ کا یہ منتر ہم اپنی زندگی میں بھی اتاریں گے اور انسانوں کو بھی اس اتحاد کا احساس کرائیں گے۔ اسی جذبے کے ساتھ، آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ!
ہرے کرشن!