بھارت ماتا کی جے !!!
بھارت ماتا کی جے !!!
آواز پہاڑی کے اُس پار سنائی دینی چاہیئے ۔
بھارت ماتا کی جے !!!
بھارت ماتا کی جے !!!
لداخ کے لیفٹیننٹ گورنر بی ڈی مشرا جی، مرکزی وزیر سنجے سیٹھ، چیف آف ڈیفنس اسٹاف، جنرل انیل چوہان، تینوں افواج کے چیف آف آرمی اسٹاف، کرگل جنگ کے دوران آرمی چیف جنرل وی پی ملک جی، سابق آرمی چیف جنرل منوج پانڈے جی، بہادری کا انعام حاصل کرنے والے موجودہ اور ریٹائرڈ فوجیوں، کرگل جنگ کے بہادروں کی مائیں، بہادر خواتین اور ان کے تمام اہل خانہ،
فوج کے بہادر جوانوں اور میرے پیارے ہم وطنو!
آج لداخ کی یہ عظیم سرزمین ، کرگل فتح کے 25 سال مکمل ہونے کی گواہی دے رہی ہے۔ کرگل وجے دِوس ہمیں بتاتا ہے کہ ملک کے لیے دی گئی قربانیاں لازوال ہوتی ہیں۔ دن، مہینے، سال گزرتے ہیں، دہائیاں گزرتی ہیں، صدیاں بھی گزرتی ہیں، موسم بھی بدلتے ہیں، لیکن ملک کی حفاظت کے لیے اپنی جان کی بازی لگانے والوں کے نام انمٹ رہتے ہیں۔ یہ ملک ہمیشہ ہماری فوج کے عظیم ہیروز کا مقروض ہے۔ یہ ملک ان کا احسان مند ہے۔
ساتھیو ،
میری خوش قسمتی ہے کہ کرگل جنگ کے دوران میں ، ایک عام شہری کے طور پر اپنے فوجیوں کے درمیان تھا۔ آج جب میں پھر کرگل کی سرزمین پر آیا ہوں تو فطری بات ہے کہ وہ یادیں میرے ذہن میں تازہ ہوگئی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ہماری افواج نے اتنی اونچائی پر کیسے مشکل جنگی کارروائیاں انجام دی تھیں۔ میں ، احترام کے ساتھ ایسے تمام بہادروں کو سلام کرتا ہوں ، جنہوں نے ملک کو فتح دلائی۔ میں ، ان شہیدوں کو سلام پیش کرتا ہوں ، جنہوں نے کرگل میں مادر وطن کی حفاظت کے لیے اپنی عظیم قربانیاں دیں۔
ساتھیو ،
کرگل میں ہم نے نہ صرف جنگ جیتی بلکہ ‘سچ، تحمل اور طاقت ’ کی شاندار مثال بھی پیش کی۔ آپ جانتے ہیں کہ بھارت اس وقت امن کی کوشش کر رہا تھا۔ بدلے میں پاکستان نے ایک بار پھر اپنا بے اعتماد چہرہ دکھایا۔ لیکن سچ کے سامنے جھوٹ اور دہشت کو شکست ہوئی۔
ساتھیو ،
پاکستان نے ماضی میں جتنی بھی ناپاک کوششیں کیں ، اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ لیکن پاکستان نے اپنی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ وہ دہشت گردی کی مدد سے اپنے آپ کو موزوں بنائے رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن، آج جب میں ایک ایسی جگہ سے بول رہا ہوں، جہاں دہشت گردی کے آقا میری آواز براہ راست سن سکتے ہیں۔ میں دہشت گردی کے ، ان سرپرستوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ان کے مذموم عزائم کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ ہمارے بہادر جوان ، دہشت گردی کو پوری قوت سے کچل دیں گے اور دشمن کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
ساتھیو ،
لداخ ہو یا جموں و کشمیر، بھارت ترقی کو درپیش ہر چیلنج کو ضرور شکست دے گا۔ چند دنوں کے بعد ، اس 5 اگست کو آرٹیکل 370 کے خاتمے کو 5 سال پورے ہونے جا رہے ہیں۔ آج جموں و کشمیر ایک نئے مستقبل کی بات کر رہا ہے، بڑے خوابوں کی بات کر رہا ہے۔ جموں و کشمیر کو جی – 20 جیسے عالمی سربراہی اجلاسوں کے اہم اجلاسوں کی میزبانی کے لیے پہچانا جا رہا ہے۔ بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے ساتھ ساتھ جموں-کشمیر-لیہہ-لداخ میں سیاحت کا شعبہ بھی تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ کشمیر میں کئی دہائیوں بعد سنیما ہال کھلا ہے ۔ ساڑھے تین دہائیوں کے بعد پہلی بار سری نگر میں تعزیہ نکلا ہے ۔ زمین پر ہماری جنت تیزی سے امن اور ہم آہنگی کی طرف بڑھ رہی ہے۔
ساتھیو ،
آج لداخ میں بھی ترقی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے، ‘ شِنکُن لا ٹنل ’ کی تعمیر کا کام شروع ہو گیا ہے۔ لداخ ، شنکن لا ٹنل کے ذریعے سال بھر کے ہر موسم میں ملک سے جڑا رہے گا۔ یہ سرنگ لداخ کی ترقی اور بہتر مستقبل کے لیے نئے امکانات کی نئی راہیں کھولے گی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ لداخ کے لوگوں کو سخت موسم کی وجہ سے کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شنکن لا ٹنل کی تعمیر سے یہ مشکلات بھی کم ہو جائیں گی۔ میں ، خاص طور پر لداخ کے اپنے بھائیوں اور بہنوں کو ، اس سرنگ کا کام شروع ہونے پر مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیو ،
لداخ کے لوگوں کا مفاد ہمیشہ سے ہماری ترجیح رہی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ کورونا کے وقت کرگل کے علاقے سے ہمارے بہت سے لوگ ایران میں پھنس گئے تھے۔ میں نے انہیں واپس لانے کے لیے ذاتی سطح پر بہت کوششیں کیں۔ انہیں ایران سے لا کر جیسلمیر میں رکھا گیا اور صحت کے نقطہ نظر سے مکمل طور پر تسلی بخش رپورٹ ملنے کے بعد ، ان سب کو ان کے گھروں تک پہنچا دیا گیا۔ ہم مطمئن ہیں کہ ہم بہت سی جانیں بچانے میں کامیاب رہے۔ حکومت ہند یہاں کے لوگوں کی سہولیات اور زندگی میں آسانی بڑھانے کے لیے مسلسل کوششیں کر رہی ہے۔
صرف پچھلے 5 سالوں میں ہم نے لداخ کا بجٹ 1100 کروڑ روپے سے بڑھا کر 6 ہزار کروڑ روپے کر دیا ہے۔ یعنی تقریباً 6 گنا اضافہ! آج یہ پیسہ لداخ کے لوگوں کی ترقی اور یہاں کی سہولیات کو بڑھانے میں استعمال ہو رہا ہے۔ آپ دیکھیں - سڑکیں، بجلی، پانی، تعلیم، پاور سپلائی ، روزگار… ہر طرف لداخ کا منظر بدل رہا ہے، منظر نامہ بھی بدل رہا ہے۔ پہلی بار یہاں جامع منصوبہ بندی کے ساتھ کام کیا جا رہا ہے۔ جل جیون مشن کی وجہ سے ، اب لداخ کے 90 فی صد سے زیادہ گھروں کو پائپ سے پینے کا پانی مل رہا ہے۔ لداخ کے نوجوانوں کو معیاری اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے کے لیے یہاں سندھو سنٹرل یونیورسٹی تعمیر کی جا رہی ہے۔ پورے لداخ خطے کو 4 جی نیٹ ورک سے جوڑنے کا کام بھی چل رہا ہے۔ 13 کلو میٹر طویل زوجیلا ٹنل کا کام بھی جاری ہے۔ اس کی تعمیر کے ساتھ ہی قومی شاہراہ نمبر ایک پر بھی آل ویدر کنیکٹیویٹی ہو جائے گی ۔
ساتھیو ،
ہم نے ملک کے سرحدی علاقوں میں ترقی کے غیر معمولی اہداف مقرر کیے ہیں اور چیلنجنگ کام اپنے ہاتھ میں لیے ہیں۔ بارڈر روڈز آرگنائزیشن- بی آر او نے ایسے اہداف کو پورا کرنے کے لیے بے مثال رفتار سے کام کیا ہے۔ بی آر او نے پچھلے تین سالوں میں 330 سے زیادہ بنیادی ڈھانچے کے پروجیکٹ مکمل کیے ہیں۔ اس میں لداخ میں ترقیاتی کام اور شمال مشرق میں سیلا ٹنل جیسے پروجیکٹ بھی شامل ہیں۔ دشوار گزار خطوں میں ترقی کی یہ رفتار نئے بھارت کی صلاحیت اور سمت دونوں کو ظاہر کرتی ہے۔
ساتھیو ،
آج کے عالمی حالات پہلے سے مختلف ہیں۔ اس لیے ہماری افواج کو ہتھیاروں اور آلات کے ساتھ ساتھ کام کرنے کے انداز اور نظام میں بھی جدید ہونا چاہیے۔ اس لیے ملک کئی دہائیوں سے دفاعی شعبے میں بڑی اصلاحات کی ضرورت محسوس کر رہا تھا۔ فوج خود برسوں سے یہ مطالبہ کر رہی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے پہلے اسے اتنی اہمیت نہیں دی گئی۔ گزشتہ 10 سالوں میں ہم نے دفاعی اصلاحات کو دفاعی شعبے کی پہلی ترجیح بنایا ہے۔ ان اصلاحات کی وجہ سے آج ہماری افواج زیادہ قابل ہو گئی ہیں اور آتم نربھر ہو رہی ہیں۔ آج دفاعی خریداری میں بڑا حصہ بھارتی دفاعی صنعت کو دیا جا رہا ہے۔ دفاع میں تحقیقی اور ترقیاتی بجٹ کا 25 فی صد نجی شعبے کے لیے بھی مختص کیا گیا ہے۔ ان کوششوں کا نتیجہ ہے کہ بھارت کی دفاعی پیداوار اب 1.25 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ ہو گئی ہے۔ بھارت کبھی اسلحہ درآمد کرنے والا ملک شمار ہوتا تھا۔ اب بھارت ایک برآمد کنندہ کے طور پر اپنی شناخت بنا رہا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہماری افواج نے 5000 سے زائد ہتھیاروں اور فوجی سازوسامان کی فہرست بنا لی ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ اب یہ 5000 اشیاء باہر سے درآمد نہیں کی جائیں گی۔ میں اس کے لیے فوج کی قیادت کو مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیو ،
میں ، دفاعی شعبے میں اصلاحات کے لیے بھارتی مسلح افواج کی بھی تعریف کرنا چاہتا ہوں۔ ہماری افواج نے گزشتہ برسوں میں بہت سے جرات مندانہ فیصلے کیے ہیں۔ اگنی پتھ اسکیم بھی فوج کی طرف سے کی گئی ضروری اصلاحات کی ایک مثال ہے۔ کئی دہائیوں سے پارلیمنٹ سے لے کر مختلف کمیٹیوں تک میں افواج کو جوان بنانے پر بحث ہوتی رہی ہے۔ بھارتی فوجیوں کی اوسط عمر عالمی اوسط سے زیادہ ہونا ہم سب کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ اس لیے یہ موضوع برسوں سے کئی کمیٹیوں میں اٹھایا جاتا رہا ہے۔ لیکن ملک کی سلامتی سے متعلق اس چیلنج کو حل کرنے کے لیے پہلے کوئی عزم نہیں دکھایا گیا۔ شاید کچھ لوگوں کی ذہنیت ایسی تھی کہ فوج کا مطلب لیڈروں کو سلام کرنا اور پریڈ کرنا ہے۔ ہمارے لیے فوج کا مطلب 140 کروڑ ہموطنوں کا اعتقاد ہے۔ ہمارے لیے فوج کا مطلب 140 کروڑ ہموطنوں کے امن کی گارنٹی ہے۔ ہمارے لیے فوج کا مطلب ملک کی سرحدوں کی حفاظت کی گارنٹی ہے۔
ملک نے اگنی پتھ اسکیم کے ذریعے ، اس اہم خواب کو پورا کیا ہے۔ اگنی پتھ کا مقصد فوجوں کو جوان بنانا ہے، اگنی پتھ کا مقصد فوجوں کو جنگ کے لیے مسلسل فٹ رکھنا ہے۔ بدقسمتی سے کچھ لوگوں نے قومی سلامتی سے متعلق اتنے حساس موضوع کو سیاست کا موضوع بنا لیا ہے۔ فوج کی اس اصلاح پر بھی کچھ لوگ اپنے ذاتی مفاد میں جھوٹ کی سیاست کر رہے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں ، جنہوں نے افواج میں ہزاروں کروڑ کے گھوٹالے کرکے ہماری افواج کو کمزور کیا۔ یہ وہی لوگ ہیں ، جو چاہتے تھے کہ فضائیہ کو کبھی بھی جدید لڑاکا طیارے نہ ملیں۔ یہ وہی لوگ ہیں ، جنہوں نے تیجس لڑاکا طیارے کو ایک ڈبے میں بند کرنے کی تیاری کرلی تھی۔
ساتھیو ،
سچ تو یہ ہے کہ اگنی پتھ اسکیم سے ملک کی طاقت میں اضافہ ہوگا اور ملک کے قابل نوجوان بھی مادر وطن کی خدمت کے لیے آگے آئیں گے۔ پرائیویٹ سیکٹر اور نیم فوجی دستوں میں اگنی ویروں کو ترجیح دینے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ میں حیران ہوں کہ کچھ لوگوں کی سمجھ کو کیا ہوگیا ہے۔ ان کی سوچ کو کیا ہوگیا ہے؟ وہ یہ بھرم پھیلا رہے ہیں کہ حکومت پنشن کی رقم بچانے کے لیے یہ اسکیم لے کر آئی ہے۔ مجھے ایسے لوگوں کی سوچ پر شرم آتی ہے، لیکن ایسے لوگوں سے پوچھنا چاہیے، ذرا بتائیے، کیا مودی کے دور میں آج بھرتی ہونے والوں کو پنشن ملنی چاہیے؟ اس کو پنشن دینے کا وقت 30 سال بعد آئے گا اور تب تو مودی 105 سال کا ہو گیا ہوگا اور تب بھی کیا مودی کی حکومت ہوگی؟ کیا مودی ، جب 105 سال کا ہو گا ، 30 سال کے بعد جب پنشن بنے گی ، اُس کے لیے یہ مودی ایسا سیاستدان ہے ، جو آج گالیاں کھائے گا ۔ یہ آپ کر کیا رہے ہیں ۔ لیکن ساتھیوں ، میرے لیے پارٹی نہیں ، ملک سب سے اوپر ہے اور ساتھیوں ، آج میں فخر سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نے فوج کے فیصلے کا احترام کیا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ ہم سیاست کے لیے نہیں ، راشٹر نیتی کے لیے کام کرتے ہیں ۔ ہمارے لیے ملک کی سلامتی سب سے اہم ہے۔ ہمارے لیے 140 کروڑ کا امن ، یہ سب سے پہلے ہے۔
ساتھیو ،
جو لوگ ، ملک کے نوجوانوں کو گمراہ کر رہے ہیں ، ان کی تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے فوجیوں کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ یہ وہی لوگ ہیں ، جنہوں نے ایک معمولی رقم 500 کروڑ روپے دکھا دکھا کر ‘ون رینک ون پنشن ’پر جھوٹ بولاتھا ۔ یہ ہماری حکومت ہے ، جس نے ون رینک ون پنشن کو نافذ کیا ہے اور سابق فوجیوں کو 1.25 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ دیے ہیں۔ کہاں 500 کروڑ روپے اور کہاں 1.25 لاکھ کروڑ روپے! اتنے جھوٹ اور ملک کے سپاہیوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا گناہ! یہ وہی لوگ ہیں ، جنہوں نے آزادی کی 7 دہائیوں کے بعد بھی فوج کے مطالبات اور بہادر سپاہیوں کے اہل خانہ کے مطالبات کے باوجود ہمارے شہداء کے لیے وار میموریل نہیں بنایا ، اسے ٹالتے رہے، کمیٹیاں بناتے رہے، نقشے دکھاتے رہے ۔ یہ وہی لوگ ہیں ، جنہوں نے سرحد پر تعینات ہمارے فوجیوں کو بلٹ پروف جیکٹس بھی فراہم نہیں کی تھیں اور ساتھیوں ، یہ وہی لوگ ہیں ، جو کرگل وجے دِوس کو نظر انداز کرتے رہے۔ یہ ملک کے کروڑوں عوام کی مہربانی ہے کہ مجھے تیسری بار حکومت بنانے کا موقع ملا اور اسی وجہ سے آج ہم اس اہم تاریخی واقعہ کو یاد کرنے کے قابل ہیں۔ ورنہ اگر وہ آجاتے تو اس جنگی فتح کی سواری کو یاد نہ کرتے ۔
ساتھیو ،
کرگل کی جیت کسی حکومت کی جیت نہیں تھی، کرگل کی جیت کسی پارٹی کی نہیں جیت تھی۔ یہ جیت ملک کی تھی، یہ جیت ملک کی وراثت ہے۔ یہ ملک کے فخر اور عزت نفس کا تہوار ہے۔ میں ایک بار پھر، 140 کروڑ ہموطنوں کی طرف سے، اپنے بہادر سپاہیوں کو احترام کے ساتھ سلام پیش کرتا ہوں۔ میں ایک بار پھر تمام ہموطنوں کو کرگل وجے کے 25 سال پر نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ میرے ساتھ بولو – بھارت ماتا کی جئے!!! یہ بھارت ماتا کی جئے میرے ان بہادر شہیدوں کے لیے ہے، میری بھارت ماتا کے بہادر بیٹوں کے لیے ہے۔
بھارت ماتا کی جے !!!
بھارت ماتا کی جے !!!
بھارت ماتا کی جے !!!
بہت بہت شکریہ۔