مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی، جناب منوہر لال جی، سی آر۔ پاٹل جی،توکھن ساہو جی، راج بھوشن جی، دیگر تمام معززین، خواتین و حضرات!
آج قابل احترام باپو اور لال بہادر شاستری جی کا یوم پیدائش ہے۔ میں بھارت ماتا کے بیٹوں کو بڑے احترام سے خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ آج کا دن ہمیں ہندوستان کے اس خواب کو پورا کرنے کی ترغیب دیتا ہے جس کا خواب گاندھی جی اور ملک کی دیگر عظیم شخصیات نے دیکھا تھا۔
ساتھیو
آج، 2 اکتوبر کو، میں فرض کے احساس سے بھرا ہوا ہوں اور اتنا ہی جذباتی بھی ہوں۔ آج ہم سوچھ بھارت مشن اور اس کے سفر کے 10 سال کے سنگ میل پر پہنچ چکے ہیں۔ سوچھ بھارت مشن کا یہ سفر کروڑوں ہندوستانیوں کےعزم کی علامت ہے۔ پچھلے 10برسوں میں لاکھوں ہندوستانیوں نے اس مشن کو اپنایا ہے، اسے اپنا مشن بنایا ہے، اسے اپنی زندگی کا حصہ بنایا ہے۔ آج اپنے 10 سال کے سفر کے اس مرحلے پر، میں ملک کے ہرباشندے، ہمارے صفائی متر ، ہمارے مذہبی رہنما، ہمارے کھلاڑی، ہماری مشہور شخصیات، این جی اوز، میڈیا کے ساتھی… ان سب کی تعریف اور ستائش کرتا ہوں۔ آپ سب نے مل کر سوچھ بھارت مشن کو اتنی بڑی عوامی تحریک بنا دیا۔ میں صدر جمہوریہ، نائب صدر، سابق صدر، سابق نائب صدر، انہوں نے بھی اس صفائی مہم میں اپنا اہم کردار ادا کیا اور ملک کو اس عظیم تحریک کی ترغیب دی۔ آج میں صدر اور نائب صدر کو بھی تہہ دل سے خیر مقدم کرتا ہوں اور شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آج ملک بھر میں صفائی سے متعلق پروگرام ہو رہے ہیں۔ لوگ اپنے گاؤں، شہر، محلے چاہے وہ چال ہوں، فلیٹ ہوں یا سوسائٹی بڑے جوش و خروش کے ساتھ صفائی مہم کے تحت اُسے صاف کر رہے ہیں۔ کئی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ، وزراء اور دیگر عوامی نمائندے بھی اس پروگرام کا حصہ بنے اور اس پروگرام کی قیادت کی۔ پچھلے پندرہ دن میں، میں اس پندرہ دن کی بات کر رہا ہوں، ملک بھر میں کروڑوں لوگوں نے سوچھتا ہی سیوا پروگراموں میں حصہ لیا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ سیوا پکھواڑا کے 15 دنوں میں ملک بھر میں 27 لاکھ سے زیادہ پروگرام منعقد کیے گئے، جن میں 28 کروڑ سے زیادہ لوگوں نے حصہ لیا ۔ مسلسل کوششوں سے ہی ہم اپنے ہندوستان کو صاف ستھرا بنا سکتے ہیں۔ میں ہر ایک، ہر ہندوستانی کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
ساتھیو
آج کے اس اہم منزل تک … صفائی سے متعلق تقریباً 10 ہزار کروڑ روپے کے منصوبے بھی شروع کیے گئے ہیں۔ مشن امرت کے تحت ملک کے کئی شہروں میں پانی اور سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس بنائے جائیں گے۔ چاہے وہ نمامی گنگے سے متعلق کام ہو یا فضلہ سے بائیو گیس بنانے والے گوبردھن پلانٹ ۔یہ کام سوچھ بھارت مشن کو ایک نئی بلندی پر لے جائے گا، اور جتنا زیادہ سوچھ بھارت مشن کامیاب ہوگا، ہمارا ملک اتنا ہی روشن ہوگا۔
ساتھیو
آج سے ایک ہزار سال بعد بھی جب 21ویں صدی کے ہندوستان کا مطالعہ کیا جائے گا تو سوچھ بھارت مہم کو ضرور یاد کیا جائے گا۔ سوچھ بھارت اس صدی میں دنیا کی سب سے بڑی اورسب سے کامیاب عوامی شرکت، اور قیادت والی ایک عظیم عوامی تحریک ہے۔ اس مشن نے مجھے عوامی اور خدا جیسی نظر آنے والی عوامی توانائی بھی دکھائی ہے۔ میرے لیے صفائی عوامی طاقت کے حصول کا تہوار بن گیا ہے۔ آج مجھے بہت یاد آرہا ہے.جب یہ مہم شروع ہوئی...کیسے لاکھوں لاکھوں لوگ صفائی کے لیے نکلتے تھے۔ شادی بیاہ سے لے کر عوامی تقریبات تک ہر مقام پر صفائی کا پیغام پھیلایا گیا... کہیں بوڑھی ماں اپنی بکریوں کو بیچ کر بیت الخلا بنانے کی مہم میں شامل ہوئی... کسی نے اپنا منگل سوتر بیچا... تو کسی نے بیت الخلا بنانے کے لئے اپنی زمین وقف کردی. کہیں کسی ریٹائرڈ ٹیچر نے اپنی پنشن عطیہ کی تو کہیں کسی سپاہی نے ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی رقم صفائی کے لیے وقف کر دی۔ اگر یہ چندہ کسی مندر یا کسی اور تقریب میں دیا جاتا تو شاید اخبارات کی سرخی بن جاتی اور ہفتہ بھر اس کا چرچا رہتا۔ لیکن ملک کو معلوم ہونا چاہیے کہ جن لوگوں کے چہرے کبھی ٹی وی پر نہیں آئے، جن کے نام کبھی اخبار کی سرخیوں میں نہیں آئے، انہوں نے کچھ نہ کچھ عطیہ کیا، چاہے وقت ہو یا جائیداد، جس سے اس تحریک کو ایک نئی طاقت اور توانائی ملی ہے۔ اور یہ میرے ملک کے کردار کا تعارف کراتی ہے۔
جب میں نے سنگل یوز پلاسٹک کو ترک کرنے کی بات کی تو کروڑوں لوگوں نے جوٹ کے تھیلے اور کپڑے کے تھیلے نکال کر خریداری کے لیے بازار جانے کی روایت شروع کی۔ اب میں ان لوگوں کا بھی شکر گزار ہوں، ورنہ اگر میں پلاسٹک اور سنگل یوز پلاسٹک کو روکنے کی بات کرتا تو ممکن تھا کہ پلاسٹک انڈسٹری کے لوگ احتجاج کرتے، بھوک ہڑتال کرتے... لیکن وہ نہیں بیٹھے، انہوں نے تعاون کیا اور اُنہیں مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا اور میں ان سیاسی جماعتوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے یہ سوچا ہو گا کہ مودی نے سنگل یوز پلاسٹک پر پابندی لگا دی ہے، ہزاروں لوگوں کا روزگار ختم کر دیا ہے، نہیں معلوم کہ وہ کیا کیا کردیتے ہیں ۔ میں ان کا بھی شکر گزار ہوں کہ ان کی اس معاملے پر توجہ نہیں گئی ، شاید اس کے بعد ان کا دھیان اس جانب چلا جائے۔
ساتھیو
ہماری فلم انڈسٹری بھی اس تحریک میں پیچھے نہیں رہی… کمرشل مفاد کے بجائے فلم انڈسٹری نے صفائی کا پیغام عوام تک پہنچانے کے لیے فلمیں بنائیں۔ ان 10 سالوں میں اور میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ موضوع ایک بار کرنے کی چیز نہیں ہے، یہ نسل در نسل، ہر لمحہ، ہر دن کرنے کا کام ہے۔ اور جب میں یہ کہتا ہوں، میں اسے زندہ کرتا ہوں۔ اب جیسا کہ آپ کو من کی بات یاد ہے، آپ میں سے بہت سے لوگ من کی بات سے واقف ہیں، ملک کے لوگ اس سے واقف ہیں۔ من کی بات میں میں نے تقریباً 800 بار صفائی کے موضوع کا ذکر کیا ہے۔ لوگوں نے لاکھوں خطوط بھیجے، لوگ صفائی کی کوششوں کو سامنے لاتے رہے۔
ساتھیو
آج جب میں ملک اور اہل وطن کا یہ کارنامہ دیکھ رہا ہوں تو یہ سوال بھی ذہن میں آ رہا ہے کہ آج جو کچھ ہو رہا ہے، پہلے کیوں نہیں ہوا؟ مہاتما گاندھی جی نے تحریک آزادی میں ہی ہمیں صفائی کا راستہ دکھایا تھا… انہوں نے دکھایا بھی تھا اور سکھایا بھی تھا۔ پھر کیا ہوا کہ آزادی کے بعد صفائی پر بالکل توجہ نہیں دی گئی۔ جنہوں نے سالہا سال تک گاندھی جی کے نام پر اقتدار کی راہیں تلاش کیں، گاندھی جی کے نام پر ووٹ حاصل کیا گیا۔ وہ گاندھی جی کے پسندیدہ موضوع کو بھول گئے۔ وہ گندگی اور بیت الخلاء کی کمی کو ملک کا مسئلہ نہیں سمجھتے تھے، ایسا لگتا تھا جیسے انہوں نے گندگی کو ہی زندگی تسلیم کر لیا ہو۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ مجبوراً میں گندگی میں رہنے لگے…اور گندگی ان کی معمول کی زندگی کا حصہ بن گئی… سماجی زندگی میں اس کا ذکر تک نہیں ہوتا ۔ اس لیے جب میں نے لال قلعہ کی فصیل سے یہ مسئلہ اٹھایا تو گویا ملک میں ایک طوفان برپا ہو گیا... کچھ لوگوں نے مجھے طعنہ بھی دیا کہ بیت الخلاء کی بات کرنا وزیر اعظم ہند کا کام نہیں ہے۔ صفائی یہ لوگ اب بھی میرا مذاق اڑاتے ہیں۔
ساتھیو
ہندوستان کے وزیر اعظم کا پہلا کام اپنے ہم وطنوں اور عام لوگوں کی زندگی کو آسان بنانا ہے۔ اسے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے میں نے بیت الخلاء اور سینیٹری پیڈز کے بارے میں بات کی۔ اور آج ہم اس کا نتیجہ دیکھ رہے ہیں۔
ساتھیو
10 سال پہلے تک ہندوستان کی 60 فیصد سے زیادہ آبادی کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور تھی۔ یہ انسانی وقار کے خلاف تھا۔ یہی نہیں بلکہ یہ ملک کے غریبوں، دلتوں، قبائلیوں، پسماندہ لوگوں کی توہین تھی۔ جو نسل در نسل جاری و ساری تھی۔ بیت الخلاء کی کمی کی وجہ سے ہماری بہنوں اور بیٹیوں کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے پاس درد اور تکلیف کو برداشت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اگر انہیں بیت الخلا جانا ہوتا تو اندھیرے کا انتظار کرتی تھیں، دن بھر تکلیف جھیلتی تھیں ، اور رات کو باہر جاتی تھیں،جس سے ان کی حفاظت کو شدید خطرات لاحق تھے، یا تو صبح سورج نکلنے سے قبل جانا پڑتا تھا ، چاہے سردی ہو۔ یا بارش؟ میرے ملک کی کروڑوں مائیں روزانہ اس مصیبت سے گزرتی تھیں۔ کھلے میں رفع حاجت سے پیدا ہونے والی گندگی نے ہمارے بچوں کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈال دیا تھا۔ گندگی بھی بچوں کی موت کی بڑی وجہ تھی۔ گندگی کی وجہ سے دیہات اور شہر کی مختلف بستیوں میں بیماریاں پھیلنا عام بات ہوگئی تھی ۔
ساتھیو
ایسی صورتحال میں کوئی بھی ملک کیسے آگے بڑھ سکتا ہے؟ اور اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ یہ اس طرح جاری نہیں رہے گا۔ اسے ایک قومی اور انسانی چیلنج کے طور پر دیکھتے ہوئے، ہم نے اس کے حل کے لیے ایک مہم شروع کی۔ یہیں سے سوچھ بھارت مشن کا بیج بویا گیا۔ یہ پروگرام، یہ مشن، یہ تحریک، یہ مہم، یہ عوامی بیداری کی کوشش درد کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ اور درد کی کوکھ سے جنم لینے والا مشن کبھی نہیں مرتا۔ اور کچھ ہی وقت میں، کروڑوں ہندوستانیوں نے کمال کر دیا۔ ملک میں 12 کروڑ سے زیادہ بیت الخلاء بنائے گئے۔ ٹوائلٹ کوریج، جو 40 فیصد سے کم تھا، 100 فیصد ہو گیا۔
ساتھیو
سوچھ بھارت مشن نے ملک کے عام لوگوں کی زندگیوں پر جو اثر ڈالا ہے وہ انمول ہے۔ حال ہی میں ایک مشہور بین الاقوامی جریدے کا مطالعہ سامنے آیا ہے۔ یہ مطالعہ انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ واشنگٹن، امریکہ، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اور اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے مشترکہ طور پر کیا ہے۔جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سوچھ بھارت مشن سے ہر سال 60 سے 70 ہزار بچوں کی جانیں بچائی جا رہی ہیں۔ اگر کوئی خون کا عطیہ کرکے کسی کی جان بچا دے تو ایک بہت بڑا واقعہ ہوتا ہے۔ اگر ہم صفائی، کوڑا کرکٹ اور گندگی کو ہٹا کر 60-70 ہزار بچوں کی زندگیاں بچا سکتے ہیں تو اس سے بڑی بھگوان کی اور نعمت کیا ہو سکتی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق 2014 سے 2019 کے درمیان 3 لاکھ جانیں بچائی گئیں جو ہم اسہال کی وجہ سے چلی جاتی تھیں۔ دوستو یہ انسانی خدمت کا مذہب بن گیا ہے۔
یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق گھروں میں بیت الخلاء کی تعمیر کی وجہ سے 90 فیصد سے زیادہ خواتین اب خود کو محفوظ محسوس کر رہی ہیں۔ سوچھ بھارت مشن کی وجہ سے خواتین میں انفیکشن سے ہونے والی بیماریوں میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔ اور یہ صرف یہی نہیں...لاکھوں اسکولوں میں لڑکیوں کے لیے علیحدہ بیت الخلاء کی تعمیر کی وجہ سے اسکول چھوڑنے کی شرح میں کمی آئی ہے۔ یونیسیف کا ایک اور مطالعہ ہے۔ اس کے مطابق صفائی کی وجہ سے گاؤں کے خاندانوں کو ہر سال اوسطاً 50 ہزار روپے کی بچت ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے یہ رقم بار بار بیماریوں کی وجہ سے علاج پر خرچ ہو جاتی تھی یا کوئی کام نہ کرنے یا بیماری کی وجہ سے آمدنی ختم ہو جاتی تھی،جس کو غریب لوگ برداشت نہیں کر پاتے تھے۔
ساتھیو
میں آپ کو ایک اور مثال دیتا ہوں کہ صفائی پر زور دینے سے بچوں کی زندگی کیسے بچ جاتی ہے۔ کچھ سال پہلے تک میڈیا میں بریکنگ نیوز آتی تھی کہ گورکھپور میں دماغی بخار سے، دماغی بخار سے سینکڑوں بچوں کی موت… یہ خبریں ہوا کرتی تھیں۔ لیکن اب گندگی ختم ہونے اور صفائی آنے سے اس طرح خبریں بھی ختم ہوگئیں یہ دیکھیں کی گندگی کے ساتھ کیاکیا جاتا ہے۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ۔۔ سوچھ بھارت مشن سے آئی عوامی بیداری اور یہ صاف صفائی ہے۔
ساتھیو
صفائی کے وقار میں اضافے سے ملک میں بہت بڑی نفسیاتی تبدیلی بھی آئی ہے۔ آج میں اس پر بھی بات کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ صفائی کے کام سے وابستہ لوگوں کو پہلے کس طرح دیکھا جاتا تھا۔ لوگوں کا ایک بہت بڑا طبقہ ایسا تھا جو کوڑا کرکٹ پھینکنا اپنا حق سمجھتا تھا اور کوئی آکر اسے صاف کرے اس کی ذمہ داری مان کر غرور میں ڈوبا ہوتا تھا۔ اوراس کی بھی توہین کرتا تھا۔ لیکن جب سے ہم نے یہ صفائی میں مہم شروع کی تو اسے بھی یہ محسوس ہونے لگا کہ میں جو بھی کر رہا ہوں وہ بہت اچھا کام ہے اور اب وہ بھی میرے ساتھ اس مہم میں شامل ہو رہا ہے،یہ ایک بڑی نفسیاتی تبدیلی ہے اور سوچھ بھارت مشن نے یہ بڑی نفسیاتی تبدیلی لا کر عام خاندانوں اور صفائی ملازمین اور کارکنان کو عزت بخشی ہے ، اور انہیں فخر کا احساس دلایا ہے۔ جس کے سبب آج وہ سماج میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جا رہے ہیں۔ اس بات پر فخر ہے کہ وہ بھی اب یہ ماننے لگا ہے کہ وہ یہ کام صرف اپنا پیٹ بھرنے کے لیے کرتا ہے، یہی نہیں بلکہ اس ملک کو روشن کرنے کے لیے محنت بھی کر رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سوچھ بھارت مہم نے لاکھوں صفائی متروں کو فخر کااحساس کرایا ہے۔ ہماری حکومت صفائی متروں کی جانوں کے تحفظ اور انہیں باوقار زندگی دینے کے لیے پرعزم ہے۔ ہماری یہ بھی کوشش ہے کہ سیپٹک ٹینک مینوئل انٹری سے جو خطرہ پیدا ہوتا ہے ان کو دور کیا جائے۔ اس کے لیے حکومت نجی شعبے اور عوام کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے، بہت سے نئے نئے اسٹارٹ اپس آ رہے ہیں جو نئی نئی ٹیکنالوجیز لے کر آرہے ہیں۔
ساتھیو
سوچھ بھارت مہم صرف صفائی کا پروگرام ہے، کافی نہیں ہے۔ اس کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے۔ اب صفائی خوشحالی کا نیا راستہ بنا رہی ہے۔ سوچھ بھارت مہم ملک میں بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع بھی پیدا کر رہی ہے۔ کئی سالوں میں، کروڑوں بیت الخلاء کی تعمیر سے کئی شعبوں کو فائدہ ہوا ہے...لوگوں کو وہاں نوکریاں ملی ہیں...گاؤں میں راج مستری، پلمبر، مزدور جیسے بہت سے لوگوں کو روزگار کے نئے مواقع ملے ہیں۔ یونیسیف کا اندازہ ہے کہ اس مشن کی وجہ سے تقریباً 1.25 کروڑ لوگوں کو کوئی نہ کوئی معاشی فائدہ یا کچھ کام ملا ہے۔ خاص طور پر خواتین مستریوں کی نئی نسل اس مہم کی دین ہے ۔ اس سے پہلے میں نے کبھی کسی خاتون راج مستری کا نام نہیں سنا تھا، ان دنوں خواتین راج مستری آپ کو کام کرتے ہوئے نظر آجائیں گی ۔
اب ہمارے نوجوانوں کو کلین ٹیک کے ذریعے بہتر روزگار اور بہتر مواقع مل رہے ہیں۔ آج کلین ٹیک سے متعلق تقریباً 5 ہزار اسٹارٹ اپس رجسٹرڈ ہیں۔ مال کی بربادی، فضلہ کو جمع کرنے اور اس کی نقل و حمل، پانی کا دوبارہ استعمال اور ری سائیکلنگ... پانی اور صفائی کے شعبے میں ایسے بہت سے مواقع پیدا کیے جا رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس دہائی کے آخر تک اس شعبے میں 65 لاکھ نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ اور سوچھ بھارت مشن یقینی طور پر اس میں بڑا کردار ادا کرے گا۔
ساتھیو
سوچھ بھارت مشن نے سرکلر اکانومی کو بھی نئی تحریک دی ہے۔ آج، گھر سے نکلنے والے کچرے سے کمپوسٹ (کھاد) ، بائیو گیس ،بجلی اور سڑکوں پر بچھانے کے لیے تار کول جیسی مصنوعات بنائی جا رہی ہیں۔ آج گوبردھن یوجنا گاؤں اور شہروں میں بڑی تبدیلیاں لا رہی ہے۔ اس ا سکیم کے تحت دیہاتوں میں سینکڑوں بائیو گیس پلانٹ لگائے جا رہے ہیں۔ جانوروں کو پالنے والے کسانوں کے لیے بعض اوقات بوڑھے ہونے والے جانوروں کی دیکھ بھال کرنا بہت بڑا مالی بوجھ بن جاتا ہے۔ اب گوبردھن یوجنا کی وجہ سے جو جانور دودھ بھی نہیں دیتے ہیں یا کھیتوں پر کام نہیں کر سکتے، وہ بھی کمائی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ایسی سہولیات اس گوبر دھن یوجنا میں اس کے علاوہ ملک میں سینکڑوں سی بی جی پلانٹس بھی لگائے گئے ہیں۔ آج ہی ایک نئے پلانٹ کا افتتاح ہوا ہے اور اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔
ساتھیو
اس تیزی سے بدلتے وقت میں ہمارے لیے صفائی سے متعلق چیلنجوں کو سمجھنا اور جاننا ضروری ہے۔ جیسے جیسے ہماری معیشت ترقی کرے گی، شہری کاری بڑھے گی، فضلہ پیدا ہونے کے امکانات بھی بڑھیں گے، مزید کچرا پیدا ہوگا۔ اور آج کل اکانومی کا جو ماڈل یوز اینڈ تھرو ہے وہ بھی ایک وجہ بننے جا رہا ہے۔ نئی قسم کا کچرا آنے والا ہے، الیکٹرانک ویسٹ آنے والا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنی مستقبل کی حکمت عملی کو مزید بہتر بنانا ہوگا۔ آنے والے وقتوں میں ہمیں تعمیرات کے شعبے میں ایسی ٹیکنالوجی تیار کرنی ہو گی تاکہ ری سائیکلنگ کے لیے زیادہ سے زیادہ مواد استعمال کیا جا سکے۔ ہماری کالونیاں، اپنے ہاؤسنگ کمپلیکس، ہمیں ان کو اس طرح سے ڈیزائن کرنا ہے کہ کم از کم ہم صفر تک پہنچ سکیں، یہ بہت اچھا ہو گا اگر ہم زیرو تک پہنچ سکیں۔ لیکن زیرو سے کم فرق بچے۔
ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ پانی کا غلط استعمال نہ ہو اور گندے پانی کو صاف اور استعمال کرنے کے طریقے آسان ہو جائیں۔ ہمارے سامنے نمامی گنگے مہم ایک ماڈل ہے۔ اس کی وجہ سے آج گنگا جی بہت صاف ستھری ہو گئی ہیں۔ امرت مشن اور امرت سروور مہم سے بھی ایک بڑی تبدیلی آنے والی ہے۔ یہ حکومت اور عوامی شراکت کے ذریعے تبدیلی لانے کے بہترین نمونے ہیں۔ لیکن میں یہ مانتا ہو کہ اتنا ہی اکیلے کافی نہیں ۔ آبی تحفظ،پانی کی صفائی اور دریاؤں کی صفائی کے لیے نئی ٹیکنالوجیز میں ہمیں مسلسل سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ صفائی کا سیاحت سے کتنا گہرا تعلق ہے۔ اور اس لیے ہمیں اپنے سیاحتی مقامات، اپنے مقدس مقامات، اپنے ورثے کو بھی صاف رکھنا ہے۔
ساتھیو
ہم نے ان 10 سالوں میں صفائی کے حوالے سے بہت کچھ کیا اور بہت کچھ حاصل کیا۔ لیکن جس طرح گندگی کرنا روز کا کام ہے ویسے ہی صفائی کرنا بھی روز کا کام ہونا چاہئے۔ کوئی انسان، کوئی جاندار ایسا نہیں ہو سکتا جو یہ کہہ سکے کہ وہ گندگی نہیں کرے گا، یا اس سے گندگی ہوگی ہی نہیں اگر ہوتی ہے تو پھر صفائی بھی کرنا پڑے گی اور یہ ایک دن ، ایک لمحہ اور ایک نسل کو نہیں بلکہ ہر نسل کو کرنا پڑے گی، یہ کام ہر وقت ہر زمانے میں اور ہر مقام پر کرنا ہوگا۔ جب ہر وطن عزیز صفائی کو اپنی ذمہ داری اور فرض سمجھتا ہے تو مجھے اہل وطن پر پورا اعتماد ہے کہ وہ تبدیلی کو ضرور یقینی بنائیں گے اورملک کا چمکنا یقینی ہے۔
صفائی کا مشن صرف ایک دن کا نہیں ہے، یہ پوری زندگی کے لئے ہے۔ ہمیں اسے نسل در نسل آگے بڑھانا ہے۔ صفائی ہر شہری کی جبلت ہونی چاہیے۔ ہمیں یہ ہر روز کرنا چاہئے، ہمارے اندر گندگی کے تئیں نفرت پیدا ہونی چاہئے، ہم گندگی کو برداشت نہ کریں ، اسے دیکھیں ہمیں اپنی فطرت میں خصوصیت پیدا کرنی چاہئے۔ صرف گندگی سے نفرت ہی ہمیں صفائی کے لئے مجبور اور مضبوط کرسکتی ہے ۔
ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح گھروں میں چھوٹے بچے بڑوں کو صفائی کے لئے ترغیب دیتے ہیں، بہت سے لوگ مجھے کہتے ہیں کہ میرا پوتا مجھے روکتا اور ٹوکتا رہتا ہے کہ دیکھو مودی جی نے کیا کہا،تم کیوں کچڑا ڈالتے ہو جب گاڑی میں جا رہے ہو تے ہے تو وہ پوچھتا کہ آپ بوتل کو باہر کیوں پھینکتے ہیں، وہ گاڑی رکوا دیتا ہے ۔یہ اس تحریک کی کامیابی اس میں بھی صفائی کے تئیں بیداری کا بیج بو رہی ہے۔ اور اس لیے آج میں ملک کے نوجوانوں سے...اپنی آنے والی نسل کے بچوں سے کہوں گا - آئیے ہم سب مل کر صفائی کے لئے ڈٹے رہیں ، آئیے ڈٹے رہیں ۔ دوسروں کو سمجھاتے رہیں، دوسروں کو جوڑتے رہیں۔ ہمیں ملک کو صاف ستھرا بنائے بغیر نہیں رکنا چاہیے۔ 10 سال کی کامیابی نے دکھایا ہے کہ اب یہ آسان ہو سکتا ہے، ہم حاصل کر سکتے ہیں، اور ہم گندگی سے بھارت ماں کو بچا سکتے ہیں۔
ساتھیو
آج میں ریاستی حکومتوں سے بھی گزارش کروں گا کہ اس مہم کو ضلع، بلاک، گاؤں، محلہ اور گلیوں کی سطح تک لے جائیں۔ مختلف اضلاع اور بلاکس میں صاف ستھرے اسکول کا مقابلہ، صاف ہسپتال کا مقابلہ، صاف دفتر کا مقابلہ، صاف ستھرے محلے کا مقابلہ، صاف تالاب کا مقابلہ، صاف کنواں کا مقابلہ ہوجس کے تحت ہرمہینے تین مہینے میں انعام اورسرٹیفکیٹ دیئے جائیں۔ حکومت ہند کو صرف مقابلہ کرنا چاہئے اور 4-2 شہروں کو سوچھ شہر، دوچار ضلعوں کو صاف ضلع، صرف اتنا کچھ سے بہت کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ ہمیں ہر علاقے پر نظر رکھنی ہوگی ۔ ہماری میونسپلٹیوں کو بھی مسلسل دیکھنا چاہیے کہ عوامی بیت الخلاء کی دیکھ بھال اچھی طرح سے ہو رہی ہے، آئیے چلو انہیں انعام دیں۔ اس سے برا کیا ہو سکتا ہے کہ اگر کسی شہر کا نظام پرانے طریقوں پر لوٹ آئے۔ میں تمام بلدیاتی اداروں اور لوکل باڈیز سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ وہ بھی سوچھتا کو ترجیح دیں ،اورسوچھتا کو سب سے اہم سمجھیں۔
آئیے--- ہم سب مل کر حلف لیں، میں اہل وطن سے گزارش کرتا ہوں کہ ہم جہاں بھی رہیں چاہے وہ ہمارا گھر ہو، محلہ ہو یا کام کی جگہ، ہم نہ گندگی کریں گے اور نہ گندگی ہونے دیں گے۔ اور صفائی ستھرائی کو اپنی فطرت میں برقرار رکھیں گے۔ جس طرح ہم اپنی عبادت گاہ کو صاف ستھرا رکھتے ہیں، ہمیں اپنے اردگرد کے ماحول کے لیے بھی وہی احساس پیدا کرنا ہوگا۔ ترقی یافتہ ہندوستان کے اس سفر میں ہماری ہر کوشش صفائی سے خوشحالی کے منتر کو مضبوط کرے گی۔ میں ایک بار پھر ہم وطنوں سے کہتا ہوں، جس طرح پچھلے 10 سالوں میں اس سفر نے ایک نیا اعتماد پیدا کیا ہے، اب ہم مزید کامیابی کے ساتھ، زیادہ طاقت کے ساتھ نتائج حاصل کرسکتے ہیں ، اور اس لیے آئیے ایک نئی امنگ اور نئے جوش اور اعتماد کے ساتھ قابل احترام باپو کو سچی خراج عقیدت کا کام لے کر چل پڑیں اور اس ملک کو چمکانے کے لیے گندگی نہ کرنے کا حلف لیتے ہوئےسوچھتا کے لئے جو بھی کرسکتے ہیں اس سے روگردانی نہ کریں ۔ میں آپ سب کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔
بہت بہت شکریہ