عزت مآب اسپیکرجی،
یہ موقع ایک بار پھر ملک کے 75 سالہ پارلیمانی سفر کو یاد کرنے اور نئے ایوان میں جانے سے پہلے تاریخ کے ان متاثر کن لمحات اور اہم پلوں کو یاد کرتے ہوئے آگے بڑھنے کایہ موقع ہے، ہم سب اس تاریخی عمارت سے وداع لے رہے ہیں ۔آزادی سے پہلے یہ ایوان امپیریل لیجسلیٹو کونسل کی نشست ہوا کرتا تھا۔ آزادی کے بعد اسے پارلیمنٹ ہاؤس کے طور پر تسلیم کیا گیا۔یہ درست ہے کہ اس عمارت کی تعمیر کا فیصلہ غیر ملکی ممبران پارلیمنٹ نے کیا تھا، لیکن ہم اس بات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے اور ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ اس عمارت کی تعمیر میں میرے ہم وطنوں کا پسینہ اور محنت صرف ہوئی تھی اور اس پر پیسہ بھی میرے ملک کے لوگوں کا صرف ہواتھا۔
ہمارے 75 سال کے سفر نے بہت سی جمہوری روایات اور عمل کو بہتر سے بہتر انداز میں جنم دیا ہے۔ اور اس ایوان میں رہتے ہوئے سب نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور بطور گواہ اس کا مشاہدہ بھی کیا ہے۔ ہم بھلے ہی نئی عمارت میں چلے جائیں گے ،لیکن یہ عمارت آنے والی نسلوں کو ہمیشہ تحریک دیتی رہے گی۔ یہ ہندوستان کی جمہوریت کے سنہرے سفر کا ایک اہم باب ہے، جو اس عمارت کے ذریعے پوری دنیا کو ہندوستان کی رگوں میں جمہوریت کی طاقت سے آگاہ کرتا رہے گا۔
عزت مآب اسپیکرجی،
امرت کال کی پہلی صبح کی روشنی، ملک میں ایک نیا اعتماد، نئی خود اعتمادی، نیا جوش، نئے خواب، نئے عزم اور ملک کی نئی طاقت سے معمور ہے۔ آج ہندوستانیوں کی کامیابیوں کی ہر جگہ بحث ہورہی ہے اور فخر سے اس کاچرچا ہو رہا ہے۔یہ ہماری 75 سالہ پارلیمانی تاریخ میں اجتماعی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ جس کی وجہ سے آج دنیا میں اس کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
عزت مآب اسپیکرجی ،
چندریان-3 کی کامیابی سے نہ صرف ہندوستان بلکہ پورا ملک مسحور ہے۔ اور اس میں ہندوستان کی طاقت کا ایک نیا روپ، جو جدت سے جڑا ہوا ہے، جو سائنس سے جڑا ہوا ہے، جو ٹیکنالوجی سے جڑا ہوا ہے، جو ہمارے سائنسدانوں کی طاقت سے جڑا ہوا ہے، جو 140 کروڑ ہم وطنوں کے عزم کی طاقت سے جڑا ہوا ہے۔ وہ ملک اور دنیا پر ایک نیا اثر ڈالنے جا رہا ہے۔ یہ ایوان اور اس ایوان کے ذریعے میں ایک بار پھر ملک کے سائنسدانوں اور ان کے ساتھیوں کو ہزارہامبارکباد پیش کرتا ہو ں اور ان کا استقبال کرتا ہوں۔
عزت مآب اسپیکرجی ،
ماضی میں جب این اے ایم کا سربراہی اجلاس ہوا تھاتو اس ایوان نے متفقہ طور پر قرارداد منظور کی تھی اور ملک نے اس کوشش کو سراہا تھا۔ آج آپ نے متفقہ طور پرجی-20 کی کامیابی کو بھی سراہا ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ آپ نے اہل وطن کا سر فخر سے بلند کیا ہے، میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔جی-20 کی کامیابی 140 کروڑ ہم وطنوں کی کامیابی ہے۔ یہ ہندوستان کی کامیابی ہے، کسی فرد کی کامیابی نہیں ہے، کسی پارٹی کی کامیابی نہیں ہے۔ ہندوستان کے وفاقی ڈھانچےنے، ہندوستان کے تنوع نے 60 مقامات پر 200 سے زیادہ سربراہی اجلاسوں کی میزبانی بڑی شان و شوکت کے ساتھ ہندوستان اور ملک کی مختلف حکومتوں کے مختلف رنگوں میں کی اور اس کا اثر پوری دنیا میں محسوس کیا جا رہا ہے۔یہ ہم سب کے لیے جشن منانے کا موضوع ہے۔ اس سے ملک کا سر فخر سے بلند ہوگا اور جیسا کہ آپ نے ذکر کیا، ہندوستان کو اس بات پر فخر ہوگا کہ افریقی یونین اس وقت ممبر بنا جب ہندوستان کی صدارت تھی ۔ میں وہ جذباتی لمحہ نہیں بھول سکتا جب افریقی یونین کا اعلان ہوا اور افریقی یونین کے صدر نے کہا کہ میری زندگی میں ایسے لمحات آئے کہ شاید میں بولتے ہوئے رو پڑوں۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اتنی بڑی امنگوں اور امیدوں کو پورا کرنا ہندوستان کے نصیب میں آیا ۔
عزت مآب اسپیکرجی،
بہت سے لوگوں میں ہندوستان کے بارے میں شک کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے اور یہ آزادی کے بعد سے جاری ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی تھا۔ کوئی اعلان نہیں ہوگا، یہ ناممکن ہے۔ لیکن یہ ہندوستان کی طاقت ہے، وہ بھی ہوا اور دنیا نے اتفاق رائے سے ایک مشترکہ منشور لے کر اور مستقبل کا روڈ میپ لے کر یہاں سے شروعات کی ہے۔
عزت مآب اسپیکرجی،
آپ کی قیادت میں، کیونکہ ہندوستان کی صدارت نومبر کے آخری دن تک ہے، اس لیے ہم اس وقت کو بروئے کار لانے جا رہے ہیں جو ہمارے پاس ہے، اور آپ کی قیادت میں، دنیا بھر سے جی-20 کے یہ اراکین ہیں ،پی-20 پارلیمنٹ کے اسپیکرس کا اجلاس جس کا اعلان آپ نے کیا حکومت آپ کی کوششوں کی مکمل حمایت اور تعاون کرے گی۔
عزت مآب اسپیکرجی،
یہ ہم سب کے لیے فخر کی بات ہے، آج ہندوستان ایک عالمی دوست کے طور پر اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہا ہے۔ پوری دنیاہندوستان میں اپنا دوست تلاش کررہی ہے ، پوری دنیاہندوستان کی دوستی کا تجربہ کر رہی ہے۔ اور اس کی بنیادی وجہ ہماری اقدار ہیں، جو ہمیں ویدوں سے لے کر وویکانند تک سے ملی ہیں،‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس’ کا منتر آج ہمیں ایک ساتھ لانے میں دنیا کو جوڑ رہا ہے۔
عزت مآب اسپیکرجی،
اس ایوان سے جدا ہونا بہت ہی جذباتی لمحہ ہے، اگر خاندان بھی پرانا گھر چھوڑ کر نئے گھر میں چلا جائے تو چند لمحوں کے لیے بہت سی یادیں اسے جھنجھوڑ کررکھ دیتی ہیں اور جب ہم اس ایوان کو چھوڑ کر جارہے ہیں تو ہمارادل و دماغ بھی اسی طرح کے جذبہ سے بھرا ہوا ہے۔ تلخ اورشییریں تجربے بھی ہوئے ہیں،نوک جھونک بھی رہی ہے، کبھی تصادم کابھی ماحول رہا ہے اور کبھی اس ایوان میں جشن اور جوش و خروش کا ماحول بھی رہا ہے۔ یہ تمام یادیں ہم سب کی مشترکہ یادیں ہیں، یہ ہم سب کا مشترکہ ورثہ ہے اس لیے اس کا فخر بھی ہم سب کے لیے مشترکہ ہے۔ ہم نے ان 75 سالوں میں آزاد ہندوستان کی تعمیر نو سے متعلق بہت سے واقعات کو یہیں ایوان میں شکل اختیار کرتے دیکھا ہے۔ آج جب ہم اس ایوان کو چھوڑ کر نئے ایوان کی طرف بڑھنے والے ہیں تو یہ بھی ایک موقع ہے کہ اس احترام اور عزت کے اظہار کا جو ہندوستان کے عام آدمی کے جذبات کو ملا ہے۔
اور اسی لئےعزت مآب اسپیکرجی،
جب میں پہلی بار پارلیمنٹ کا رکن بنا اور اس عمارت میں بطور رکن پارلیمنٹ داخل ہوا تو میں نے قدرتی طور پر اپنا سر جھکا کر اس پارلیمنٹ ہاؤس کے دروازے پر قدم رکھ کر جمہوریت کے اس مندر کو خراج عقیدت پیش کیا تھا۔ وہ لمحہ میرے لیے جذبات سے بھرا ہوا تھا، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا لیکن یہ ہندوستانی جمہوریت کی طاقت ہے، یہ ہندوستان کے عام آدمی کے جمہوریت کے تئیں یقین کی عکاسی ہے کہ ریلوے پلیٹ فارم پر رہنے والے ایک غریب گھرانے کا بچہ پارلیمنٹ تک پہنچ سکتاہے۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ ملک میری اتنی عزت کرے گا، مجھے اتنا نوازے گا، مجھ سے اتنا پیار کرے گا، اسپیکر جی۔
عزت مآب اسپیکرجی،
ہمارے درمیان بہت سے لوگ ایسے ہیں جو پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر لکھی ہوئی چیزیں پڑھتے رہتے ہیں اور کبھی کبھی ان کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ یہاں ہمارے پاس پارلیمنٹ ہاؤس کے دروازے پر چانگ دیو کے اُپدیش کا ایک جملہ ہے، مکمل جملہ ہے ‘لوک دوارم’ یعنی عوام کے لیے دروازے کھولیں اور دیکھیں کہ انہیں ان کے حقوق کیسے ملتے ہیں،یہ بات ہمارے رشی اور منیوں نے کہی ہے۔یہ ہمارے داخلہ دروازے پر لکھا ہے۔ ہم سب اور جو ہم سے پہلے یہاں رہے ہیں وہ بھی اس سچائی کے گواہ ہیں۔
عزت مآب اسپیکرجی،
جیسے جیسے وقت بدلا ہے، ہمارے ایوان کا ڈھانچہ بھی مسلسل بدل رہا ہے اور یہ مزید جامع ہوتا جا رہا ہے۔ تنوع سے بھرے اس ایوان میں سماج کے ہر طبقے کے نمائندے نظر آتے ہیں، کئی زبانیں ہیں، کئی بولیاں ہیں، کھانے پینے کی الگ الگ بہت سی چیزیں ہیں، ایوان کے اندر ہر چیز موجود ہے اور سماج کے ہر طبقے کے لوگ خواہ ان کی سماجی ساخت کچھ بھی ہو۔ کسی بھی معاشی پس منظر کا ہو، چاہے گاؤں کا ہو یا شہر کا، مکمل طور پر جامع ماحول میں، ایوان میں عام لوگوں کی خواہشات اور امنگوں کا پوری قوت سے اظہار کیا گیا ہے۔ دلت ہوں، مظلوم ہوں، قبائلی ہوں، پسماندہ لوگ ہوں، خواتین ہوں، ہر ایک کا حصہ آہستہ آہستہ بڑھتا گیا ہے۔
عزت مآب اسپیکرجی،
ابتدا میں خواتین کی تعداد کم تھی لیکن رفتہ رفتہ ماؤں بہنوں نے بھی اس ایوان کے وقار میں اضافہ کیا ہے، انہوں نے اس ایوان کے وقار میں بڑی تبدیلی لانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
عزت مآب اسپیکرجی،
شروع سے اب تک ایک موٹے اندازے کے مطابق ان تمام سالوں میں تقریباًساڑھے سات ہزار سے زائد عوامی نمائندوں نے دونوں ایوانوں میں ایک ساتھ حصہ ڈالا ہے۔ اس دوران تقریباً 600 خاتون ارکان پارلیمنٹ نے بھی دونوں ایوانوں میں ایوان کے وقار میں اضافہ کیا ہے۔
اورعزت مآب اسپیکرجی،
ہم جانتے ہیں کہ محترم اندراجیت گپتا جی 43 سال تک ایوان میں موجودرہے، اگر یہ میری غلطی نہیں ہے تو انہیں اس ایوان میں طویل عرصے تک بیٹھنے اور 43 سال تک اس کا گواہ بننے کا شرف حاصل ہوا۔ اور یہ وہی ایوان ہے، عزت مآب اسپیکرجی، جہاں 93 سال کی عمر میں بھی شتیگر رحمن جی ایوان میں اپناتعاون دیتے رہے۔ اورعزت مآب اسپیکرجی،یہ ہندوستان کی جمہوریت کی طاقت ہے کہ 25 سالہ چندرامنی مرمو اس ایوان کی رکن بنیں، وہ صرف 25 سال کی عمر میں اس ایوان کی سب سے کم عمر رکن بنیں۔
عزت مآب اسپیکرجی،
ہم سب نے دلائل، تنازعات، طنز کا تجربہ کیا ہے، ہم سب نے ان کی شروعات کی ہے اور کوئی بھی نہیں بچا ہے۔ لیکن اس کے باوجود جو خاندانی جذبے کا احساس ہمارے درمیان رہا ہے، وہ ہم سے پہلے کی نسلوں میں بھی رہا ہے، جو لوگ تشہیری ذرائع سے ہمارے یہاں کی شکل دیکھتے ہیں، باہر نکلتے ہی ہمارے درمیان جو اپنا پن ہوتا ہے وہ لوگوں کو ایک الگ بلندی پر لے جاتا ہے، یہ بھی اس ایوان کی طاقت ہے۔ ایک خاندانی احساس اور اس کے ساتھ ہم کبھی تلخی کے پل لے کر کے باہر نہیں جاتے،ایوان چھوڑنے کے بعد بھی اگر برسوں بعد ہم مل جائیں تو اس پیار کو کبھی نہیں بھولتے ہیں ، ان محبت بھرے دنوں کو نہیں بھولتے ہیں ۔
عزت مآب اسپیکرجی،
ماضی اور حال میں ہم نے کئی بار دیکھا ہے کہ بہت سے بحرانوں کے باوجود، بہت سی تکالیف کے باوجود اراکین پارلیمنٹ ایوان میں آئے ہیں اور اگر انہیں جسمانی تکلیف ہو تو بھی انہوں نے بطور رکن پارلیمنٹ ایوان میں اپنا فرض ادا کیا ہے۔ ایسے بہت سے واقعات آج ہمارے سامنے ہیں۔ شدید بیماریوں کے باوجود کسی کو وہیل چیئر پر آنا پڑا، کسی کو ڈاکٹروں کو باہر کھڑا کر کے اندر آنا پڑا، لیکن تمام اراکین پارلیمنٹ نےاپنا کردار ادا کیا۔
کورونا کا دور ہمارے سامنے ایک مثال ہے کہ ہر خاندان میں یہ خوف رہتا تھا کہ اگر کوئی فرد باہر گیا تو موت کو بلاوا نہ دے دے ۔ اس کے باوجود دونوں ایوانوں میں ہمارے معزز ارکان پارلیمنٹ کورونا کے دور کی اس مشکل گھڑی میں بھی ایوان میں آئے اور اپنا فرض ادا کیا۔ ہم نے ملک کے کام کو رکنے نہیں دیا، ضرورت پڑی تو فاصلہ برقرار رکھنا پڑا اور بار بارجانچ کروانی پڑتی تھی۔ ایوان میں آتے تھے لیکن ماسک پہننا پڑتا تھا۔ بیٹھنے کا انتظام بھی بدل دیا گیا تھااور اوقات بھی بدل گئے تھے۔ اس احساس کے ساتھ کہ قوم کا کام نہیں رکنا چاہیے، تمام اراکین نے اس ایوان کو اپنے فرائض کا اہم حصہ سمجھا۔ پارلیمنٹ کو چلائے رکھااور میں نے دیکھا ہے کہ لوگوں کا ایوان سے اتنا لگاؤ ہے کہ پہلے ہم دیکھتے تھے کہ کوئی تیس سال پہلے کاایم پی رہا ہوگا، کوئی پینتیس سال پہلے ایم پی رہا ہوگا، لیکن وہ سینٹرل ہال میں ضرور آئیں گے۔جس طرح ان کو مندر جانے کی عادت ہوتی ہے، اسی طرح ایوان آنے کی عادت پڑ جاتی ہے، وہ اس جگہ سے جڑ جاتے ہیں۔ ایک گہرا تعلق ہوجاتا ہے اور بہت سے بوڑھے لوگ ہیں جو آتے ہیں وہ اس احساس کے ساتھ آتے ہیں کہ چلو ایک چکر لگا آتے ہیں ، آج ان پر عوامی نمائندے کی ذمہ داری نہیں ہے لیکن زمین سے جولگاؤ ہوجاتا ہے وہ کبھی ختم نہیں ہوتا،یہ اس ایوان کی طاقت ہے۔
عزت مآب اسپیکرجی،
آزادی کے بعد کئی نامور دانشوروں نے بہت سے خدشات کا اظہار کیا تھاکہ پتہ نہیں ملک کا کیا بنے گا، چل سکے گا یا نہیں، ایک رہے گا یا بکھر جائے گا، جمہوریت باقی رہے گی یا نہیں ، لیکن اس ملک کی پارلیمنٹ کی طاقت ہے کہ اس نے ثابت کر دیا ہےکہ پوری دنیا غلط تھی اور یہ ملک پوری توانائی کے ساتھ آگے بڑھتا رہا ہے۔ اس یقین کے ساتھ کہ بھلے ہی شکوک و شبہات ہوں، گہرے سیاہ بادل ہو سکتے ہیں لیکن ہم کامیابی حاصل کرتے رہیں گے اور ہم سب لوگوں نے ، ہماری پرانی نسل نے مل کر اس کام کو کرکے دکھایا ہے۔اس کی ستائش کرنے کا یہ موقع ہے ۔
عزت مآب اسپیکرجی،
اس عمارت میں دستور ساز اسمبلی کے اجلاس دو سال اور گیارہ ماہ تک ہوتے رہے۔ اور اس نے ہمیں اس ملک کے لیے ایک رہنما دیا جو آج بھی ہمیں چلا رہا ہے اور جو آئین ہمیں 26 نومبر 1949 کو ملا وہ 26 جنوری 1950 کو نافذ ہوا۔ ان 75 سالوں میں جو سب سے بڑی حصولیابی ہے وہ یہ ہے کہ اس پارلیمنٹ پر ملک کے عام لوگوں کا اعتماد بڑھا ہے۔ اور جمہوریت کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ اس عظیم ادارے کے تئیں ، اس نظام کے تئیں ہمارا یقین اور اعتماد اٹل رہے، ان کا ایمان برقرار رہے۔ ان 75 سالوں میں ہماری پارلیمنٹ بھی عوامی جذبات کے اظہار کا ایوان بن چکی ہے۔ یہاں عوامی جذبات کا بھرپور اظہار ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ راجندر بابو سے لے کر ڈاکٹر کلام، رام ناتھ جی کووند اور اب دروپدی مرمو جی تک، ان سب کے خطابات کا فائدہ ہمارے ایوانوں نے اٹھایا ہے، ان کی رہنمائی حاصل رہی ہے۔
عزت مآب اسپیکرجی،
پنڈت نہرو جی، شاستری جی سے لے کر کے اٹل جی، منموہن جی تک، ایک بہت بڑے سلسلے نے اس ایوان کی قیادت کی ہے اور ایوان کے ذریعے ملک کو سمت دی ہے۔ انہوں نے ملک کو ایک نئی شکل دینے کے لیے سخت محنت کی ہے اور کوششیں کی ہیں۔ آج ان سب کی خدمات کو یاد کرنے اور ان کی تعریف کرنے کا موقع ہے۔
عزت مآب اسپیکرجی،
سردار ولبھ بھائی پٹیل، لوہیا جی، چندر شیکھر جی، اڈوانی جی، ایسے بے شمار نام جنہوں نے ہمارے ایوان کو مالا مال کرنے، بحث کو تقویت بخشنے اور ملک کے عام آدمی کی آواز کو طاقت بخشنے میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ دنیا بھر کے کئی سربراہان مملکت کو بھی ہمارے ان ایوانوں سے خطاب کرنے کا موقع ملا اور ان کے الفاظ میں ہندوستان کی جمہوریت کے احترام کا اظہار بھی ہوا۔
عزت مآب اسپیکرجی،
خوشی اور جوش کے لمحات کے درمیان ایوان کی آنکھوں سے کبھی آنسو بھی رواں ہوئے ہیں۔یہ ایوان اس وقت درد سے بھر گیا جب ملک کو اپنے تین وزرائے اعظم کوان کی مدت کار میں کھونا پڑا ۔ نہرو جی، شاستری جی، اندرا جی، پھر یہ ایوان آنسو بھری آنکھوں سے انہیں الوداع کہہ رہا تھا۔
عزت مآب اسپیکرجی،
بہت سے چیلنجوں کے باوجود، ہر اسپیکر، ہر چیئرمین نے دونوں ایوانوں کو احسن طریقے سے چلایا ہے اور اپنے دور میں جو فیصلے لئے ہیں، وہ فیصلے ماولنکر جی کے دور یا سمترا جی کے دور یا برلا جی کے دور سے شروع ہوئے ہوں گے۔ آج بھی ان فیصلوں کو ریفرنس پوائنٹ سمجھا جاتا ہے۔ یہ کام ہمارے تقریباً 17 اسپیکر نے کیا ہے اور ان میں سے ہماری دو خواتیناسپیکر اور ماؤلنکر جی سے لے کر کے سمترا تائی اور برلا جی تک، ہم آج بھی اسے حاصل کر رہے ہیں۔ ہر ایک کا اپنا انداز ہوتا ہے۔ لیکن انہوں نے ہر کسی کو ساتھ لے کر اور اصول و ضوابط پر عمل کرتے ہوئے اس ایوان کو ہمیشہ توانا رکھا ہے۔ آج میں ان تمام اسپیکرزکو بھی سلام اور مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
عزت مآب اسپیکرجی،
یہ درست ہے کہ ہم عوامی نمائندے اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں لیکن تسلسل کے ساتھ ہمارے درمیان بیٹھنے والے اس ٹولی کی کئی نسلیں بھی بدل چکی ہیں۔ کبھی کاغذات لے کر دوڑتے آتے ہیں، ان کا تعاون بھی کم نہیں۔ وہ کاغذات ہم تک پہنچانے کے لیے دوڑتے ہیں، وہ چوکس رہتے ہیں کہ ایوان میں کوئی غلطی نہ ہو، اس کے فیصلے میں کوئی غلطی نہ ہو۔ ان کی طرف سے کئے گئے کام نے ایوان کی حکمرانی کے معیار کو بہتر بنانے میں بھی کافی مدد کی ہے۔ میں ان تمام ساتھیوں اور ان سے پہلے آنے والوں کو دل کی گہرائیوں سے خیرمقدم کرتا ہوں۔ یہی نہیں، ایوان کا مطلب خود اس حصے سے نہیں ہے۔ اس پورے کمپلیکس میں بہت سے لوگوں نے ہمیں چائے پلائی ہو گی، کسی نے پانی پلایا ہو گا، کسی نے رات بھر گھر چلا رکھا ہو گا اور کوئی بھوکا نہیں رہا ہو گا، کئی طرح کی خدمتیں کی ہوں گی۔ کسی باغبان نے اس کے باہر کے ماحول کا خیال رکھا ہوگا، کسی نے اسے صاف کیا ہوگا، کون جانے کتنے ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے ہم سب کو اچھے طریقے سے کام کرنے میں مدد کی اور یہاں ہونے والا کام ملک کو آگے لے جانے کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید ہے۔ میری طرف سے اور اس ایوان کی طرف سے، میں خاص طور پر ان لوگوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے ماحول بنانے اور اس کے جلد ہونے کے انتظامات کرنے میں تعاون کیا۔
عزت مآب اسپیکرجی،
جمہوریت کے اس گھر پر دہشت گردانہ حملہ ہوا۔ پوری دنیا میںیہ دہشت گردانہ حملہ کسی عمارت پر نہیں ہوا۔ یہ جمہوریت کی ماں، ہماری روح پر حملہ تھا۔ یہ ملک اس واقعے کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا لیکن آج میں ان لوگوں کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے ایوان کو بچانے اور ہر رکن کو بچانے کے لیے دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے اپنے سینے پر گولیوں کا سامنا کیا۔ وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن انہوں نے بہت بڑی حفاظت کی ہے۔
عزت مآب اسپیکرجی،
آج جب ہم اس ایوان سے رخصت ہو رہے ہیں تو میں ان صحافی دوستوں کو بھییاد کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اپنی پوری زندگی اپنے دور میں پارلیمنٹ کے کام کی رپورٹنگ کرتے ہوئے گزاری۔ ایک طرح سے وہ زندہ گواہ رہے ہیں۔ اس نے ہر لمحہ کی معلومات ملک میں پھیلائی ہیں اور یہ ساری ٹیکنالوجی اس وقت دستیاب نہیں تھی۔ اس وقت یہ وہ لوگ تھے جو یہاں کی خبریں پہنچاتے تھے اور ان میں اندر کی معلومات بھی پہنچانے کی صلاحیت تھی اور میں نے دیکھا کہ جن صحافیوں نے پارلیمنٹ کی کوریج کی، ان کے نام تو شاید معلوم نہ ہوں لیکن ان کا کوئی نہیں جانتا۔ کام بھول جاؤ. اور خبروں کے لیے نہیں، انھوں نے پارلیمنٹ ہاؤس سے ہندوستان کے اس ترقی کے سفر کو سمجھنے کے لیے اپنی توانائی صرف کی تھی۔ آج بھی میں پرانے صحافی دوستوں سے ملتا ہوں جنہوں نے کبھی پارلیمنٹ کی کوریج کی ہے اور وہ مجھے ایسی نامعلوم باتیں بتاتے ہیں جو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی اور اپنے کانوں سے سنی ہیں جو حیران کن ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرح سے یہاں کی دیواروں کی مضبوطی ان کے قلم میں آئی ہے اور اس قلم کے ذریعے انہوں نے ملک کے اندر پارلیمنٹ اور اراکین پارلیمنٹ کے تئیں فخر کا جذبہ بیدار کیا ہے۔ میں شاید آج بہت سے صحافی بھائیوں کی طرح وہاں موجود نہ ہوں، لیکن چونکہ اس ایوان سے نکلنا میرے لیے ایک جذباتی لمحہ ہے، مجھے پختہ یقین ہے کہ اس ایوان سے نکلنا ان صحافی بھائیوں کے لیے بھی اتنا ہی جذباتی لمحہ ہوگا کیونکہ ان کی اس ایوان سے محبت زیادہ رہی ہے۔ ہم سے. ہمارے درمیان کچھ ایسے صحافی ضرور ہوں گے جنہوں نے ہمارے ساتھ بچپن سے کام کیا ہو گا۔ آج جمہوریت کی ایک اہم قوت بننے میں ان کے تعاون کو یاد کرنے کا بھی موقع ہے۔
عزت مآب اسپیکرجی،
جب ہم گھر کے اندر آتے ہیں۔ ہمارے پاس ناتھ برہما کا تصور ہے۔ یہ ہمارے صحیفوں میں مانا جاتا ہے۔ اگر کسی جگہ کو ایک ہی تال میں کئی بار پڑھا جائے تو وہ زیارت گاہ بن جاتی ہے۔ اس کا ایک مثبت جذبہ ہے۔ آواز کی ایک طاقت ہے، جو کسی جگہ کو ایک بہترین جگہ میں بدل دیتی ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اس ایوان میں بھی وہ الفاظ اور آوازیں جو بار بار سات سات ہزار عوامی نمائندوں کی طرف سے گونجتی رہی ہیں، ہم اس ایوان میں بیٹھ کر مزید بحث کریںیا نہ کریں، لیکن اس کی گونج اسے زیارت گاہ بنا دیتی ہے۔ ہاں، یہ ایک بیدار جگہ بن جاتی ہے۔ آج سے 50 سال بعد بھی جب جمہوریت پر یقین رکھنے والا ہر شخص اس جگہ کو دیکھنے آئے گا تو وہ اس گونج کو محسوس کرے گا کہ ہندوستان کی روح کی آواز ایک بار یہاں گونجتی تھی۔
اور اسی طرح عزت مآب اسپیکرجی،
یہ وہی گھر ہے جہاں کبھی بھگت سنگھ، بٹوکیشور دت نے اپنی بہادری اور طاقت سے برطانوی سلطنت کو بموں سے جلا دیا تھا۔ وہ بم کی گونج بھی ملک کی بھلائی کے خواہشمندوں کو سونے نہیں دیتی۔
عزت مآب اسپیکرجی،
یہ وہ ایوان ہے جہاں پنڈت جی کو اسی وجہ سے یاد کیا جاتا تھا، وہ بہت سی چیزوں کے لیےیاد کیے جاتے تھے، لیکن ہم انہیں ضرور یاد رکھیں گے۔ اس ایوان میں پنڈت نہرو کے ایٹ دی اسٹروک آف مڈ نائٹ کی گونج ہم سب کو متاثر کرتی رہے گی۔ اور اس ایوان میں اٹل جی نے کہا تھا، وہ الفاظ آج بھی اس ایوان میں گونج رہے ہیں۔ حکومتیں آتی جاتی رہیں گی، پارٹیاں بنیں گی، بگڑیں گی، لیکن یہ ملک قائم رہنا چاہیے۔
عزت مآب اسپیکرجی،
پنڈت نہرو کیجو وزراء کی ابتدائی کونسل تھی۔ بابا صاحب امبیڈکر جی وزیر کے روپ میں تھے۔ وہ دنیا کے بہترین طریقوں کو ہندوستان میں لانے پر بہت زور دیتے تھے۔ بابا صاحب فیکٹری لاء میں بین الاقوامی سہولیات کو شامل کرنے پر سب سے زیادہ اصرار کرتے تھے جس کے نتیجے میں آج ملک فائدہ اٹھا رہا ہے۔ بابا صاحب امبیڈکر نے نہرو جی کی حکومت میں ملک کو پانی کی پالیسی دی تھی۔ اور بابا صاحب امبیڈکر نے اس پانی کی پالیسی بنانے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔
عزت مآب اسپیکرجی،
ہم جانتے ہیں کہ بابا صاحب امبیڈکر ہندوستان میں ہمیشہ ایک بات کہتے تھے کہ ہندوستان میں سماجی انصاف کے لیے ہندوستان کی صنعت کاری بہت ضروری ہے۔ کیونکہ ملک کے دلتوں اور پسماندہ طبقات کے پاس زمین نہیں ہے تو وہ کیا کریں گے؟صنعت کاری ہونی چاہیے۔ اور بابا صاحب کے اس بیان کو قبول کرتے ہوئے ڈاکٹر شیام پرساد مکھرجی جو پنڈت نہرو کے وزیر تھے، اس ملک میں صنعت کی پالیسی لائے، پہلے وزیر تجارت اور پھر وزیر صنعت کے طور پر انہوں نے انڈسٹری پالیسی لائے۔ آج بھی انڈسٹری کی جتنی بھی پالیسیاں بنائی جائیں اس کی روح وہی رہتی ہے جو پہلی حکومت نے دی تھی اور اس میں اس کا بھی بڑا تعاون تھا۔
عزت مآب اسپیکرجی،
اسی ایوان سے ہی لال بہادر شاستری جی نے ہمارے ملک کے سپاہیوں کو 65 کی جنگ کے دوران اپنے حوصلے بلند کرنے اور اپنی توانائیاں پوری طرح سے قوم کے کام کے لیے وقف کرنے کی ترغیب دی تھی۔ یہیں سے لال بہادر شاستری نے ’سبز انقلاب‘ کی مضبوط بنیاد رکھی۔
عزت مآب اسپیکرجی،
بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک کو بھی اندرا گاندھی کی قیادت میں اسی ایوان کی حمایت حاصل تھی۔ اس ایوان نے ایمرجنسی کے دوران جمہوریت پر حملہ بھی دیکھا تھا اور اس ایوان نے ایک مستحکم جمہوریت کی واپسی بھی دیکھی تھی، جس سے ہندوستانی عوام کو اس کی طاقت کا احساس ہوا تھا۔ اس نے قومی بحران بھی دیکھا تھا، یہ طاقت بھی دیکھی تھی۔
عزت مآب اسپیکرجی،
یہ ایوان ہمیشہ اس بات کا مقروض رہے گا کہ اسی ایوان میں ہمارے سابق وزیر اعظم چرن سنگھ نے دیہی وزارت - دیہی ترقی کی وزارت بنائی تھی۔ اسی ایوان میں ووٹ ڈالنے کی عمر 21 سے 18 سال کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور ملک کی نوجوان نسل کو اپنی حصہ رسدی کرنے کی ترغیب دی گئی۔ ہمارے ملک نے مخلوط حکومتیں دیکھی ہیں۔ وی پی سنگھ جی اور چندر شیکھر جی اور بعد میں ایک سلسلہ چلا۔ ملک ایک لمبے عرصے سے ایک سمت میں جا رہا تھا۔ ملک معاشی پالیسیوں کے بوجھ تلے دب گیا۔ لیکن یہ نرسمہا راؤ کی حکومت تھی، جس نے ہمت کے ساتھ پرانی اقتصادی پالیسیوں کو چھوڑ کر نیا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے آج ملک کو نتائج مل رہے ہیں۔
ہم نے اس ایوان میں اٹل بہاری واجپائی کی حکومت بھی دیکھی۔ آج ملک میں سرو شکشا ابھیان اہم ہو گیا ہے۔ قبائلی وزارت اٹل جی نے بنائی تھی، شمال مشرق کی وزارت اٹل جی نے بنائی تھی۔ ایٹمی تجربہ ہندوستان کی صلاحیت کی علامت بن گیا اور اس ایوان میں منموہن جی کی حکومت کا کیش فار ووٹ اسکینڈل بھی ایوان نے دیکھا ہے۔
عزت مآب اسپیکرجی،
‘سب کا ساتھ سب کا وکاس’ کا منتر، کئی تاریخی فیصلے، دہائیوں سے زیر التوا مسائل، ان کے مستقل حل بھی اس ایوان میں لیے گئے ہیں۔ دفعہ 370، یہ ایوان ہمیشہ فخر کے ساتھ کہے گا کہ یہ ایوان کی میعاد کے دوران ہوا۔ ایک قوم، ایک ٹیکس ‘ایک قوم، ایک ٹیکس’ - جی ایس ٹی پر فیصلہ بھی اسی ایوان نے لیا تھا۔ ون رینک ون پنشن ‘ون رینک، ون پنشن’ او آر او پی کو بھی اس ایوان نے دیکھا۔ غریبوں کو 10 فیصد ریزرویشن اس ملک میں پہلی بار بغیر کسی تنازعہ کے دیا گیا۔
عزت مآب اسپیکرجی،
ہم نے ہندوستان کی جمہوریت میں بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں اور یہ ایوان، جمہوریت کی طاقت ہے، جمہوریت کی مضبوطی کا گواہ ہےاور عوام کے اعتماد کا مرکز رہا ہے۔ اس ایوان کی خاصیت دیکھیں اور دنیا کے لوگ آج بھی حیران ہیں، یہ وہ ایوان ہے جس میں کبھی 4 رکن پارلیمنٹ والی پارٹی اقتدار میں ہوتی تھی اور 100 ممبران والی پارٹی اپوزیشن میں بیٹھا کرتی تھی۔ یہ بھی طاقت ہے۔ یہ ایوان، جمہوریت کی مضبوطی کو ظاہر کرتا ہے۔ اور یہ وہ ایوان ہے جس میں اٹل جی کی حکومت کو ایک ووٹ سے شکست ہوئی اور جمہوریت کا وقار بڑھا، یہ بھی اسی ایوان میں ہوا تھا ۔ آج، بہت سی چھوٹی علاقائی جماعتوں کی نمائندگی، ایک طرح سے، ہمارے ملک کے تنوع اور ہماری ملکی امنگوں کا ایک پرکشش مرکز بن گئی ہے۔
عزت مآب اسپیکرجی،
اس ملک میں دو وزیر اعظم ایسے رہے، مرار جی ڈیسائی، وی پی سنگھ؛ ایک پل لڑتے ہیں، اپنی زندگی کانگریس میں گزاری لیکن کانگریس مخالف حکومت کی قیادت کر رہے تھے، یہ بھی اس کی خاصیت تھی۔ اور ہمارے نرسمہا راؤ جی، وہ تو گھر جانے کی تیاری کر رہے تھے، ریٹائرمنٹ کا اعلان کر چکے تھے لیکن جمہوریت کی طاقت دیکھیں، ایوان کی طاقت دیکھیں کہ انہوں نے 5 سال وزیر اعظم کے طور پر ہماری خدمت کی۔
عزت مآب اسپیکرجی،
ہم نے مشکل ترین کاموں کو بھی سب کی رضامندی سے پورا ہوتے دیکھا ہے۔ 2000 کے ساتھ ہی اٹل جی کی حکومت تھی، اس ایوان نے متفقہ منظوری اور بڑے جوش و خروش کے ساتھ تین ریاستیں بنائیں۔ جب چھتیس گڑھ بنا تو چھتیس گڑھ نے بھی جشن منایا، مدھیہ پردیش نے بھی جشن منایا۔ جب اتراکھنڈ بنا تو اتراکھنڈ نے بھی جشن منایا، اتر پردیش نے بھی جشن منایا۔ جب جھارکھنڈ بنا تو جھارکھنڈ نے بھی جشن منایا، بہار نے بھی جشن منایا۔
یہ ہمارے ایوان کی طاقت ہے کہ اتفاق رائے کا ماحول بنایا جائے لیکن کچھ تلخ یادیں ہیں کہ تلنگانہ کے حقوق کو دبانے کی زبردست کوششیں کی گئیں اور خون کی ندیاں بھی بہیں۔ اب تشکیل کے بعد نہ تو تلنگانہ جشن منایا پایا نہ آندھرا جشن منایایا، تلخی کے بیج بوئے گئے، بہتر ہوتا اگر ہم اسی جوش اور ولولے سے تلنگانہ کی تشکیل کرتے تو تلنگانہ آج ایک نئی بلندی پر پہنچ چکا ہوتا۔
عزت مآب اسپیکرجی،
اس ایوان کی روایت رہی ہے کہ دستور ساز اسمبلی نے اس وقت اپنا یومیہ الاؤنس 45 روپے سے کم کر کے 40 روپے کر دیا تھا، انہیں لگا کہ ہمیں اسے کم کر دینا چاہیے۔
عزت مآب اسپیکرجی،
یہ ہی ایوان ہے ، کینٹین میں جو سبسڈی ملتی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے کھانا بہت کم قیمت پر ملتا تھا، انہی اراکین نے وہ سبسڈی ختم کر دی ہے اور اب پوری رقم ادا کرنے کے بعد کینٹین میں کھانا کھاتے ہیں۔
عزت مآب اسپیکرجی،
جب کورونا کے دور میں ضرورت پڑی تو یہی اراکین پارلیمنٹ تھے، جنہوں نے ایم پی ایل اے ڈی ایس فنڈ چھوڑ دیا اور بحران کی اس گھڑی میں ملک کی مدد کرنے کے لیے آگے آئے۔ یہی نہیں، کورونا کے دور میں اس ایوان کے ارکان پارلیمنٹ نے اپنی تنخواہوں میں 30 فیصد کٹوتی کی اور ملک کو درپیش بحران میں انہوں نے بہت بڑی ذمہ داری نبھائی۔
عزت مآب اسپیکرجی،
ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں، ایوان میں بیٹھے لوگ بھی یہ کہہ سکتے ہیں، جو ہم سے پہلے ایوان میں بیٹھے تھے وہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم وہ ہیں جنہوں نے ہم پر ڈسپلن لانے کے لیے عوامی نمائندگی کا آغاز کیا۔ قانون ہم نے اس وقت سختی کا مظاہرہ کیا، قوانین نافذ کیے، ہم نے خود فیصلہ کیا کہ عوامی نمائندے کی زندگی میں ایسا نہیں ہو سکتا۔ میرا ماننا ہے کہ یہ متحرک جمہوریت کی ایک بہت بڑی مثال ہے اور یہ ایوان نے دیا ہے، یہ وہی ہے جو معزز اراکین پارلیمنٹ نے دیا ہے اور ہماری پرانی نسل کے اراکین پارلیمنٹ نے دیا ہے، اور میرا ماننا ہے کہ کبھی کبھی ان باتوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔
عزت مآب اسپیکرجی،
ہمارے موجودہ اراکین پارلیمنٹ کے لیے یہ خوشی کا ایک خاص موقع ہے، خوش قسمتی کا موقع ہے کیونکہ ہمیں تاریخ اور مستقبل دونوں کی کڑی بننے کا موقع ملا ہے۔ ہمیں کل اور آج سے جڑنے کا موقع مل رہا ہے اور ہم کل کی تعمیر کے لیے ایک نئے اعتماد، نئے جوش اور نئے ولولے کے ساتھ یہاں سے الوداع ہونے جا رہے ہیں۔
عزت مآب اسپیکرجی،
آج کا دن ان تمام ساڑھے سات ہزار عوامی نمائندوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن ہے جنہوں نے اس ایوان میں خدمات انجام دیں۔ ہمیں ان دیواروں سے جو الہام اور نیا ایمان حاصل ہوا ہے اسے اپنے ساتھ لے جانا ہے۔ بہت سی چیزیں ایسی تھیں جو ایوان میں سب کی تعریف کی مستحق تھیں لیکن شاید اس کی راہ میں بھی سیاست آ رہی ہے۔ اگر اس ایوان میں نہرو جی کے تعاون کی تعریف کی جائے تو کون ایسا رکن ہوگا جسے تالیاں بجانے کا احساس نہ ہو۔ لیکن اس کے باوجود یہ ملک کی جمہوریت کے لیے بہت ضروری ہے، ہم سب نے اپنی امیدوں پر ، محترم اسپیکر صاحب، مجھے پورا یقین ہے کہ آپ کی رہنمائی اور ان تجربہ کار معزز اراکین اسمبلی کی طاقت سے ہم جب نئی پارلیمنٹ میں جائیں گے، تو ہم نئے اعتماد کے ساتھ جائیں گے۔
ایک بار پھر، میں آپ سب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے آج کا پورا دن مجھے ان پرانی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے دیا اور مجھے اچھے ماحول میں سب کو یاد کرنے کا موقع دیا۔ اور میں تمام ممبران سے گزارش کروں گا کہ وہ اپنی زندگی کی ایسی پیاری یادیں یہاں بیان کریں تاکہ ملک تک یہ بات پہنچے کہ ہمارا یہ ایوان، ہمارے عوامی نمائندوں کی سرگرمیاں واقعی ملک کے لیے وقف ہیں، یہ احساس عوام تک پہنچنا چاہیے۔ اسی احساس کے ساتھ میں ایک بار پھر اس دھرتی کو سلام کرتا ہوں، میں اس گھر کو سلام کرتا ہوں۔ میں ہندوستان کے مزدوروں کی بنائی ہوئی ہر دیوار کی ہر اینٹ کو سلام کرتا ہوں۔ اور میں ہر اس گرو کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنی تقریر ختم کرتا ہوں جس نے گزشتہ 75 سالوں میں، ہندوستان کی جمہوریت کو نئی طاقت اور قوت دی ہے، یعنی ناد برہما۔ بہت بہت شکریہ