نمو ڈرون دیدیوں کے ذریعہ زرعی ڈرونز کے مظاہرے کا مشاہدہ کیا
1,000 نمو ڈرون دیدیوں کو ڈرون سونپے
انہوں نےایس ایچ جیز(خود امدادی گروپس) کو تقریباً 8,000 کروڑ روپے کے بینک قرض اور 2,000 کروڑ روپے کیپٹلائزیشن سپورٹ (سرمایہ کو تقویت دینے والے)فنڈ تقسیم کئے
لکھ پتی دیدیوں کی ستائش کی
’’ڈرون دیدیاں اور لکھپتی دیدیاں کامیابی کے نئے باب رقم کر رہی ہیں‘‘
’’کوئی بھی معاشرہ صرف مواقع پیدا کرنے کے ذریعہ اور ناری شکتی کے وقار کو یقینی بنا کر ہی ترقی کر سکتا ہے‘‘
’’میں پہلا وزیر اعظم ہوں جس نے بیت الخلاء، سینیٹری پیڈ، دھوئیں سے بھرے کچن، نلکے سے آنے والے پانی جیسے مسائل کو لال قلعہ کی فصیل سے اٹھایا‘‘
’’مودی کی حساسیت اور مودی کی اسکیمیں روزمرہ کی زندگی میں جڑیں رکھنے والےتجربات سے اُبھری ہیں‘‘
’’زراعت میں ڈرون ٹیکنالوجی کے انقلاب آمیز نتائج قوم کی خواتین کے ذریعے پیش کئے جا رہا ہے‘‘
’’مجھے پورا یقین ہے کہ ناری شکتی ملک میں ٹیکنالوجی کے انقلاب کی قیادت کرے گی‘‘
’’گزشتہ دہائی کے دوران ہندوستان میں سیلف ہیلپ گروپس کی توسیع قابل ذکر رہی ہے۔ ان گروپوں نے ملک میں خواتین کو بااختیار بنانے کی داستان کو دوبارہ سے رقم کیا ہے‘‘

مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی  جناب گری راج سنگھ جی،  جناب ارجن منڈا جی، جناب منسکھ مانڈویا جی اور  ملک  کے الگ الگ حصوں سے آئی ہوئی،  وسیع تعداد میں یہاں  بیٹھی ہوئی اور آپ کے  ساتھ ساتھ ویڈیو کے  ذریعے سے بھی  ، ملک بھر میں لاکھوں دیدی آج ہمارے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ میں آپ سب کا  خیر مقدم کرتا ہوں،  مبارکباد دیتا ہوں    ۔  اور اس  جلسہ گاہ میں تو میں دیکھ رہا ہوں کہ شاید یہ  چھوٹا بھارت ہے۔ بھارت کی ہر  زبان ، ہر کونے کے لوگ یہاں نظر آ رہے ہیں۔ تو آپ سب کو بہت بہت  مبارکباد ۔

آج کا یہ پروگرام خواتین  کو تفویض اختیارات کے لحاظ سے بہت تاریخی ہے۔ آج مجھے نمو ڈرون دیدی مہم کے تحت، 1000  جدید  ڈرون،  خواتین کے خود امدادی  گروپوں کو سونپنے کا  موقع ملا ہے۔ ملک میں جو 1 کروڑ سے زیادہ بہنیں، پچھلے دنوں الگ الگ  اسکیموں اور لاکھ کوششوں کی وجہ سے ، 1 کروڑ بہنیں لکھ پتی دیدی بن چکی ہیں۔ یہ آنکڑا چھوٹا نہیں ہے اور ابھی جب میں بات کر رہا تھا تو وہ کشوری بہن مجھے کہہ رہی تھی، وہ تو ہر مہینے 60-70 ہزار، 80 ہزار تک پہنچ جاتی ہے،  بولے کمانے میں۔ اب ملک کے نوجوانوں کو بھی تحریک دے سکتے ہیں، گاؤں میں ایک بہن اپنے  کاروبار  سے ہر مہینے 60 ہزار، 70 ہزار روپیہ کماتی ہے۔ ان کی خود اعتمادی دیکھیے، ہاں کشوری وہاں بیٹھی ہے، ہاتھ اوپر کر رہی ہے۔ اور جب میں یہ سنتا ہوں، دیکھتا ہوں تو میرا  یقین بہت بڑھ جاتا ہے۔ آپ کو  تعجب ہوگا کبھی کبھی آپ جیسے لوگوں سے چھوٹی موٹی باتے سننے کو ملتی ہے نا، تو مجھے  یقین بڑھ جاتا۔۔۔  ہاں یار ہم صحیح ملک میں ہیں، ملک کا ضرور کچھ بھلا ہوگا۔ کیونکہ ہم اسکیم تو بنائے، لیکن اس اسکیم کو پکڑکر کے آپ جو لگ جاتے ہیں نا۔۔۔  اور آپ  نتیجہ دکھاتے ہیں۔ اور اس  نتیجے کی وجہ سے سرکاری بابوؤں کو بھی لگتا ہے۔۔۔  ہاں یار کچھ اچھا ہو رہا ہے، تو کام تیزی سے بڑھتا ہے۔ اور اسی کی وجہ سے  ،  جب میں نے فیصلہ لیا کہ مجھے اب 3 کروڑ لکھ پتی دیدی کے آنکڑوں کو پار کرنا ہے۔ اور اسی  مقصد  سے آج 10 ہزار کروڑ روپئے کی رقم بھی، ان دیدیوں کے کھاتے میں ٹرانسفر کی گئی ہے۔ اور میں  ، آپ سبھی بہنوں کو بہت بہت  مبارکباد دیتا ہوں۔

 

ماؤں بہنوں،

کوئی بھی ملک ہو، کوئی بھی سماج ہو، وہ  ناری شکتی کا احترام بڑھاتے ہوئے، ان کے لیے نئے  مواقع بناتے ہوئے ہی آگے بڑھ سکتا ہے۔ لیکن  بدقسمتی سے ملک میں پہلے  جو سرکاریں رہیں، ان کے لیے آپ سبھی  خواتین کی زندگی ، آپ کی مشکلیں، کبھی  ترجیح نہیں رہیں، اور آپ کو، آپ کے  نصیب پر چھوڑ دیا۔ میرا  تجربہ یہ ہے کہ اگر ہماری ماؤں بہنوں کو تھوڑا اگر  موقع مل جائے، تھوڑا ان کو سہارا مل جائے تو پھر ان کو سہارے کی ضرورت نہیں رہتی ہے، وہ خود لوگوں کا سہارا بن جاتی ہے۔ اور  یہ میں نے تب زیادہ محسوس کیا، جب لال  قلعہ  سے میں نے  خواتین کو با اختیار بنانے کے بارے میں بات کرنی شروع کی۔ میں پہلا  وزیر اعظم ہوں  ، جس نے  لال قلعہ  سے ہماری ماؤں بہنوں کے لیے  بیت الخلاء ہ نہ  ہونے کے  بارے میں  ، جو مشکلیں ہوتی ہیں، اس  درد کو میں نے بیان کیا تھا کہ کیسے گاؤں کی بہنیں، کیسے زندگی جیتی ہیں۔

میں پہلا  وزیر اعظم ہوں  ، جس نے لال قلعے سے سینیٹری پیڈس کا  موضوع  اٹھایا تھا۔ میں پہلا وزیر اعظم ہوں  ، جس نے لال قلعے سے کہا کہ رسوئی میں لکڑی پر کھانا بناتی ہماری مائیں بہنیں 400 سگریٹ کا جتنا دھواں ہوتا ہے نا۔۔۔ ہر روز برداشت کرتی ہیں، اپنے  جسم  میں لے جاتی ہیں۔ میں پہلا وزیر اعظم ہوں  ، جس نے گھر میں نل سے جل نہ  آنے پر آپ سبھی  خواتین کو ہونے والی پریشانی کا ذکر کیا، اس کے لیے جل جیون مشن کا اعلان کیا۔ میں پہلا وزیر اعظم ہوں  ، جس نے لال قلعے سے ہر  خاتون  کے پاس بینک کھاتے ہونے کی ضرورت پر بات کہی۔ میں پہلا وزیر اعظم ہوں  ، جس نے لال قلعے سے آپ  خواتین کے خلاف بولے جانے والے  ہتک آمیز  لفظوں کا موضوع  اٹھایا۔

میں پہلا وزیر اعظم ہوں  ، جس نے کہا کہ بیٹی تو اگر دیر سے گھر آتی ہے شام کو تو ماں، باپ، بھائی سب پوچھتے ہیں کہ کہا ں گئی تھی، کیوں دیر ہو گئی۔ لیکن یہ بدقسمتی  ہے کہ کوئی ماں باپ اپنا بیٹا دیر سے آتا ہے تو پوچھتا نہیں کہ بیٹا کہا گیا تھا، کیوں؟ بیٹے کو بھی تو پوچھو۔ اور یہ بات میں نے لال قلعے سے اٹھائی تھی۔ اور میں آج ملک کی ہر  خاتون ، ہر بہن، ہر بیٹی کو یہ بتانا چاہتا ہوں۔ جب جب میں نے لال قلعے سے آپ  کو با  اختیار بنائے جانے  کی بات کی،  بد قسمتی  سے کانگریس جیسی ملک کی سیاسی پارٹیان  ، انہوں نے میرا مذاق اڑایا، میرے لیے ہتک آمیز باتیں کہیں ۔

 

ساتھیوں،

مودی کی  ہمدردی اور مودی کی اسکیمیں، یہ زمین سے جڑی زندگی کے  تجربے سے نکلی ہیں۔ بچپن میں   ، جو اپنے گھر میں دیکھا، اپنے آس پاس، پڑوس میں دیکھا، پھر ملک کے گاؤں گاؤں میں  بے شمار خاندانوں کے ساتھ رہ کر کے  محسوس کیا، وہی آج مودی کی  ہمدردیوں اور اسکیموں میں جھلکتا ہے۔ اس لئے یہ اسکیمیں میری ماؤں بہنوں بیٹیوں  کی زندگی کو آسان بناتی ہیں، ان کی مشکلیں کم کرتی ہیں۔ صرف اپنے  خاندان کے لیے سوچنے والے،  کنبہ پرور لیڈروں کو یہ بات قطعی سمجھ نہیں آ سکتی ہے۔ ملک کی کروڑوں   کو مشکلوں سے، ماؤں بہنوں کو   آزادی دلانے کی سوچ، یہ ہماری  حکومت کی  بہت سی اسکیموں  کی بنیاد رہی ہے۔

میری ماؤں بہنوں،

پہلے کی سرکاروں نے ایک دو اسکیمیں شروع کرنے کو ہی  خواتین کو تفویض اختیارات کا نام دے دیا تھا۔ مودی نے اس  سیاسی سوچ کو ہی بدل دیا۔ 2014 ء میں  حکومت میں آنے کے بعد  ، میں نے آپ  خواتین کی زندگی  کے دور کے ہر پڑاؤ کے لیے اسکیمیں بنائیں، انہیں  کامیابی  کے ساتھ نافذ کیا۔ آج پہلی سانس سے لیکر آخری سانس تک مودی کوئی نا کوئی اسکیم لیکر کے بھارت کی بہن بیٹیوں کی  خدمت میں حاضر ہو جاتا ہے۔  حمل میں بیٹی کی ہلاکت نہ ہو، اس کے لیے ہم نے بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ  مہم شروع کی ۔  حمل کی  دوران ماں کو  صحیح  غذا ملے، اس کے لیے ہر  حاملہ  کو 6 ہزار روپئے کی  اقتصادی مدد دی۔ پیدائش کے بعد بیٹی کو پڑھائی میں مشکل نہ ہو، اس کے لیے زیادہ سے زیادہ،  سود دینے والی سکنیہ سمردھی اسکیم شروع کی۔ بڑی ہوکر بیٹی کام کرنا چاہے تو آج اس کے پاس مدرا  یوجنا کا اتنا بڑا  ذریعہ ہے۔ بیٹی کے کریئر  پر  اثر  نہ  پڑے، اس کے لیے ہم نے  زچگی کی چٹھیوں کو بھی بڑھاکر 26 ہفتے کر دیا۔ 5 لاکھ روپئے تک کا مفت علاج دینے والی آیوشمان اسکیم ہو، 80  ف صد  ڈسکاؤنٹ پر سستی دوا دینے والے جن اوشدھی کیندر ہوں، ان سب کا سب سے زیادہ فائدہ آپ  ماؤں بہنوں بیٹیو کو ہی تو ہو رہا ہے۔

ماؤں بہنوں،

مودی  مسائل کو ٹالتا نہیں، ان سے ٹکراتا ہے، ان کے  مستقل حل کے لیے کام کرتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ بھارت میں  خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے ہمیں  ، ان کی  اقتصادی ساجھیداری بڑھانی ہوگی۔ اس لئے ہم نے اپنی  حکومت کے ہر  فیصلے میں، ہر اسکیم میں اس پہلو کا دھیان رکھا۔ میں آپ ماؤں بہنوں کو ایک  مثال دیتا ہوں۔ آپ بھی جانتی ہیں کہ ہمارے یہاں،  جائیداد ہوتی تھی تو  مردوں کے نام پر ہوتی تھی۔ کوئی زمین خریدتا تھا۔۔۔   تو مرد کے نام پر۔۔ دکان خریدی جاتی تھی۔۔۔  تو مرد کے نام پر۔۔۔  گھر کی  خاتون کے نام پر کچھ بھی نہیں ہوتا تھا؟ اس لئے ہم نے پی ایم آواس کے تحت ملنے والے گھر خواتین کے نام رجسٹر کئے۔ آپ نے تو خود دیکھا ہے کہ پہلے نئی گاڑی آتی تھی، ٹریکٹر آتا تھا، تو زیادہ تر  مرد ہی چلاتے تھے۔ لوگ سوچتے تھے کہ کوئی بٹیہ اسے کیسے چلا پائے گی؟ گھر میں کوئی نیا  سامان آتا تھا، نیا ٹی وی آتا تھا، نیا فون آتا تھا، تو  مرد ہی خود کو اس کا فطری جان کار مانتے تھے۔ ان  صورت حال سے، اس پرانی سوچ سے اب ہمارا  معاشرہ آگے نکل رہا ہے۔ اور آج کا یہ پروگرام اس کی  ایک اور  مثال بنا ہے کہ بھارت کی زراعت کو نئی  سمت دینے والی ڈرون ٹیکنا لوجی کی پہلی پائلٹ یہ میری بیٹیاں ہیں، یہ میری بہنیں ہیں۔

 

ہماری بہنیں ملک کو سکھائیں گی کہ ڈرون سے  جدید کھیتی کیسے ہوتی ہے۔ ڈرون پائلٹ، نمو ڈرون دیدیوں کی صلاحیت  ، ابھی میں میدان میں جاکر کے دیکھ کر آیا ہوں۔ میرا  یقین ہے اور میں کچھ دن پہلے ’ من کی بات ‘  میں ایسی ہی ایک ڈرون دیدی سے بات کرنے کا موقع ملا تھا۔ اس  نے کہا  ، میں ایک دن میں اتنے کھیت میں کام کرتی ہوں، ایک دن میں اتنے کھیت میں، میری اتنی کمائی ہوتی ہے۔ اور بولے میرا اتنا  اعتماد بڑھ گیا ہے اور گاؤں میں میرا اتنا احترام بڑھ گیا ہے، گاؤں میں اب میری پہچان بدل گئی ہے۔ جس کو سائیکل چلانا بھی نہیں آتا ہے، اس کو گاؤں والے پائلٹ کہہ کر کے بلاتے ہیں۔ میرا  یقین ہے  کہ ملک کی ناری شکتی، 21ویں صدی کے بھارت کی تکنیکی  انقلاب کی قیادت کر سکتی ہے۔ آج ہم اسپیس سیکٹر میں دیکھتے ہیں، آئی ٹی  سیکٹر میں دیکھتے ہیں، سائنس کے  شعبے میں دیکھتے ہیں، کیسے بھارت کی  خواتین اپنا پرچم لہرا رہی ہیں۔ اور بھارت تو  خواتین کمرشیل پائیلٹس کے معاملے میں  ، دنیا کا نمبر ون ملک ہے۔ ہوائی جہاز اڑانے والی بیٹیوں کی  تعداد ہماری سب سے زیادہ ہے۔ آسمان میں کمرشیل  پائلٹ ہو یا کھیتی کسانی میں ڈرونس، بھارت کی بیٹیاں کہیں بھی کسی سے بھی پیچھے نہیں ہیں۔ اور اس بار تو 26 جنوری آپ نے دیکھا ہوگا  ٹی وی  پے، 26 جنوری کے پروگرام میں کرتویہ پتھ پر سارا بھارت دیکھ رہا تھا، ناری  - ناری  - ناری  - ناری کی ہی طاقت کا جلوہ تھا وہاں پر۔

ساتھیوں،

آنے والے برسوں میں ملک میں ڈرون ٹیکنا لوجی  میں بہت  توسیع ہونے والی ہے۔ چھوٹی چھوٹی  مقدار میں دودھ سبزی اور دوسری اشیاء  ،  اگر نزدیک کے مارکیٹ تک پہنچانا ہیں، تو ڈرون ایک  اہم ذریعہ بننے والا ہے۔ دوائی کی ڈلیوری ہو، میڈیکل ٹیسٹ کے سیمپل کی ڈلیوری ہو، اس میں بھی ڈرون بہت بڑا کردار نبھاتے ہیں۔ یعنی نمو ڈرون دیدی اسکیم سے  ، جو بہنیں ڈرون پائلٹ بن رہی ہیں، ان کے لیے  مستقبل میں  انگنت امکانات کے دروازے  کھلنے جا رہے ہیں۔

 

ماؤں بہنوں،

گذشتہ  10  برسوں میں  ، جس طرح بھارت میں  خواتین  خود امدادی گروپوں کا  اضافہ ہوا ہے، وہ اپنے آپ میں ایک  مطالعے  کا موضوع ہے۔ ان  خواتین خود امدادی گروپوں نے  ، بھارت میں  خواتین کو تفویض اختیارات کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔ آج اس پروگرام سے  ، میں  خواتین خود امدادی گروپوں کی ہر بہنوں کو  ، ان کی میں ستائش کرتا  ہوں ، ان کو مبارکباد دیتا ہوں ۔ ان کی محنت نے  خواتین خود امدادی گروپوں کو  قوم کی تعمیر کا اہم گروپ بنا دیا ہے۔ آج خواتین کے خود امدادی گروپوں میں  خواتین کی  تعداد  10 کروڑ کو پار کر گئی ہے۔  گذشتہ 10  برسوں میں  ، ہماری  حکومت نے سیلف ہیلپ گروپس کی توسیع ہی نہیں کی بلکہ 98  فی صد گروپوں کے بینک اکاؤنٹ بھی کھلوائے ہیں، یعنی قریب قریب 100  فی صد ۔ ہماری  حکومت نے  گروپوں کو ملنے والی مدد بھی 20 لاکھ روپئے تک بڑھا دی ہے۔ ابھی تک 8 لاکھ کروڑ سے، اب آنکڑا چھوٹا نہیں ہے۔ آپ لوگوں کے ہاتھ میں 8 لاکھ کروڑ روپے سے بھی زیادہ کی مدد بنکوں سے  ، میری ان بہنوں کے پاس پہنچ چکی ہے۔ اتنا پیسہ، سیدھا سیدھا گاؤں میں پہنچا ہے، بہنوں کے پاس پہنچا ہے۔ اور بہنوں کا مزاج  ہوتا ہے، سب سے بڑی خصوصیت ہوتی ہے  ’بچت ‘ ، وہ برباد نہیں کرتی وہ بچت کرتی ہے۔ اور جو بچت کی طاقت ہوتی ہے نا۔۔۔ وہ تابناک مستقبل کی نشانی بھی ہوتی ہے۔ اور میں جب بھی ان دیدیوں سے بات کرتا ہوں تو ایسی ایسی، نئی نئی چیزیں بتاتی ہے وہ، ان کی خود اعتمادی بتاتی ہے۔ یعنی،  عام انسان تصور نہیں کر سکتا ہے۔ اور جو اتنی بڑی سطح پر گاؤں میں  ، آج کل جو سڑکیں بنی ہیں، ہائی وے بنے ہیں، اس کا  فائدہ بھی ان  گروپوں کو ہوا ہے۔ اب لکھ پتی دیدیاں، اپنے  مصنوعات کو شہر میں جاکر آسانی سے بیچ پا رہی ہیں۔ بہتر کنیکٹوٹی کی وجہ سے شہر کے لوگ بھی  ، اب گاؤوں میں جاکر ، ان  گروپوں سے  براہ راست خریداری  کرنے لگے ہیں۔ ایسی ہی  وجوہات کی وجہ سے  گذشتہ  5 برسوں میں  خود امدادی گروپوں کے   ممبروں کی آمدنی میں 3 گنا کا اضافہ ہوا ہے۔

ساتھیوں،

جن بہنوں کو، ان کے  خوابوں کو،  خواہشوں کو محدود کر دیا گیا تھا، آج  وہ قوم کی تعمیر میں اپنے کردار میں توسیع کر رہی ہیں۔ آج گاؤں دیہات میں نئے نئے مواقع بن رہے ہیں، نئے نئے عہدے بنے ہیں۔ آج لاکھوں کی  تعداد میں بینک سکھی، کرشی سکھی، پشو سکھی، متسیہ سکھی اور سروس سیکٹر سے جڑی دیدیاں، گاؤوں میں  خدمات دے رہی ہیں۔ یہ دیدیاں،  صحت  سے لیکر ڈجیٹل انڈیا تک، ملک کی  قومی  مہموں کو نئی  رفتار دے رہی ہیں۔ وزیر اعظم  دیہی ڈجیٹل خواندگی مہم کو چلانے والی  50 فی صد سے  زیادہ خواتین اور 50  فی صد سے  زیادہ  فیض یافتگان بھی  خواتین ہیں۔  کامیابیوں کی یہ  فہرست ہی  خواتین کی قوت پر میرے بھروسے کو اور زیادہ مضبوط کرتی ہے۔ میں ملک کی ہر ماں  -  بہن  - بیٹی کو یہ  یقین دلاتا ہوں کہ ہمارا تیسرا  دور حکومت خواتین کی قوت کے عروج کا نیا باب لکھے گا ۔

 

اور میں دیکھتا ہوں کہ کئی بہنیں شاید خود امدادی گروپ کی اپنی ملے، بیٹھے کا چھوٹا سا  اقتصادی کاروبار ایسا نہیں، کچھ لوگ تو میں نے دیکھا ہے گاؤں میں بہت سی چیزیں کر رہی ہیں۔ کھیل کود  مقابلے کر رہی ہے، خود امدادی گروپ  بہنوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں۔ جو بچیاں پڑھتی ہیں، ان کو بلاکر کے، لوگوں کو بلاکر کے  ، ان سے بات چیت کرواتی ہے۔ کھیل کود میں جو بچیاں گاؤں میں اچھا کام کر رہی ہیں، خود امدادی گروپ کی بہنیں ان کا خیر مقدم – عزت افزائی کرتی ہیں۔ یعنی، میں نے دیکھا ہے کہ کچھ اسکولوں میں  ، ان خود امدادی گروپوں کی بہنوں کو  تقریر کے لیے بلاتے ہیں، ان کو کہتے ہیں  ، آپ کی کامیابی کی وجہ بتائیے ۔ اور اسکول والے بھی بڑےدھیان لگا کر سنتے ہے بچے ، ٹیچر سنتے ہیں۔ یعنی ایک  طرح سے بہت بڑا  انقلاب  آیا ہے۔ اور میں  خود امدادی گروپ  کی دیدی سے کہوں گا، میں ابھی ایک اسکیم لایہ ہوں جیسے ڈرون دیدی ہے نا، وہ تو میں نے آپ ہی کے  قدموں میں رکھ دی ہے اور مجھے یقین ہے، جن ماؤں بہنوں کے  قدموں میں  ، میں نے ڈرون رکھا ہے نا، وہ مائیں بہنیں ڈرون کو آسمان میں تو لے جائیں گی ، ملک کے سنکلپ کو بھی اتنا ہی اونچا لے جائیں گی ۔

لیکن ایک اسکیم ایسی ہے  ، جس میں ہماری  خود امدادی گروپ  کی بہنیں آگے آئیں ۔ میں نے ایک اسکیم بنائی ہے  ’پی ایم سوریہ گھر ‘ ۔ یہ  ’پی ایم سوریہ گھر ‘ کی  خاصیت یہ ہے، ایک  طرح سے مفت بجلی کی یہ اسکیم ہے۔ بجلی کا بل زیرو۔ اب آپ یہ کام کر سکتے ہیں کہ نہیں کر سکتے ہیں ؟ کر سکتے ہیں کہ نہیں کر سکتے ہیں ؟ سب بتائے تو میں بولوں ۔۔۔کر سکتے ہیں۔۔۔  پکا کر سکتے ہیں۔ ہم نے طے کیا ہے کہ ہر جو  خاندان میں چھت ہوتی ہے  ، اس پر  ’سولر پینل ‘ لگانا، سورج کی  کرنوں  سے بجلی پیدا کرنا، اور اس بجلی کا گھر میں  استعمال  کرنا۔ 300 یونٹ سے زیادہ بجلی کا  استعمال کرنے والے  خاندان  بہت کم ہوتے ہیں۔ پنکھا ہو، ایئر کنڈیشن ہو، گھر میں فرج ہو، واشنگ مشین ہو تو 300 یونٹ میں گاڑی چل جاتی ہے۔ مطلب آپ کا زیرو بل آئے گا، زیرو بل۔ اتنا ہی نہیں، اگر آپنے زیادہ بجلی پیدا کی، آپ کہیں گے  ، بجلی پیدا تو بڑے بڑے کارخانے میں بجلی پیدا ہوتی ہے، بڑے بڑے امیر لوگ بجلی پیدا کر سکتے ہیں، ہم غریب کیا کر سکتے ہیں۔ یہی تو مودی کرتا ہے، اب غریب بھی بجلی پیدا کرے گا، اپنے گھر پر ہی بجلی کا کارخانہ لگ جائے گا۔ اور  اضافی  ، جو بجلی بنے گی، وہ بجلی  حکومت خرید لے گی۔ اس سے بھی ہماری  ، ان بہنوں کو،  خاندان کو آمدنی ہو گی۔

تو آپ یہ پی ایم سوریہ گھر، اس کو آپ اگر، آپ کے  یہاں کامن سبھی سینٹر میں جا ئیں  گے تو وہاں پر اپلائی کر سکتے ہیں۔ میں سب بہنوں کو کہوں گا  ، خود امدادی گروپوں کی بہنوں سے کہوں گا کہ آپ میدان میں آئیے اور اس اسکیم کو گھر گھر پہنچائیے۔ آپ اس کا  کاروبار ہاتھ میں لے لیجئے۔ آپ دیکھیے  ، کتنا بڑا بجلی کا کام اب میری بہنوں کے  ذریعے ہو سکتا ہے اور مجھے  یہ پورا یقین ہے، ہر گھر میں جب زیرو یونٹ بجلی کا بل ہو جائے گا نا۔۔۔  پورا زیرو بل تو وہ آپ کو آشیرواد دینگے کہ نہیں دیں گے۔ اور ان کا جو پیسہ بچے  گا  ، وہ اپنے  خاندان کے کام آئے گا کہ نہیں آئے گا۔ تو یہ اسکیم کا سب سے زیادہ  فائدہ ل ہماری خود امدادی گروپوں کی جو بہنیں ہیں ، اس کی قیادت کرکے اپنے گاؤں میں کروا سکتی ہیں۔ اور میں نے حکومت کو بھی کہا ہے کہ جہاں جہاں خود امدادی گروپوں کی بہنیں ، اس کام کے لیے آگے آتی ہیں، ہم ان کو  ترجیح دیں گے اور زیرو بل بجلی کا  ، اس ابھیان کو بھی  کامیابی سے مجھے آگے بڑھانا ہے۔ میں پھر ایک بار آپ کو بہت بہت  نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

 بہت بہت  شکریہ ۔

 

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
India’s Biz Activity Surges To 3-month High In Nov: Report

Media Coverage

India’s Biz Activity Surges To 3-month High In Nov: Report
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM’s address at the Odisha Parba
November 24, 2024
Delighted to take part in the Odisha Parba in Delhi, the state plays a pivotal role in India's growth and is blessed with cultural heritage admired across the country and the world: PM
The culture of Odisha has greatly strengthened the spirit of 'Ek Bharat Shreshtha Bharat', in which the sons and daughters of the state have made huge contributions: PM
We can see many examples of the contribution of Oriya literature to the cultural prosperity of India: PM
Odisha's cultural richness, architecture and science have always been special, We have to constantly take innovative steps to take every identity of this place to the world: PM
We are working fast in every sector for the development of Odisha,it has immense possibilities of port based industrial development: PM
Odisha is India's mining and metal powerhouse making it’s position very strong in the steel, aluminium and energy sectors: PM
Our government is committed to promote ease of doing business in Odisha: PM
Today Odisha has its own vision and roadmap, now investment will be encouraged and new employment opportunities will be created: PM

जय जगन्नाथ!

जय जगन्नाथ!

केंद्रीय मंत्रिमंडल के मेरे सहयोगी श्रीमान धर्मेन्द्र प्रधान जी, अश्विनी वैष्णव जी, उड़िया समाज संस्था के अध्यक्ष श्री सिद्धार्थ प्रधान जी, उड़िया समाज के अन्य अधिकारी, ओडिशा के सभी कलाकार, अन्य महानुभाव, देवियों और सज्जनों।

ओडिशा र सबू भाईओ भउणी मानंकु मोर नमस्कार, एबंग जुहार। ओड़िया संस्कृति के महाकुंभ ‘ओड़िशा पर्व 2024’ कू आसी मँ गर्बित। आपण मानंकु भेटी मूं बहुत आनंदित।

मैं आप सबको और ओडिशा के सभी लोगों को ओडिशा पर्व की बहुत-बहुत बधाई देता हूँ। इस साल स्वभाव कवि गंगाधर मेहेर की पुण्यतिथि का शताब्दी वर्ष भी है। मैं इस अवसर पर उनका पुण्य स्मरण करता हूं, उन्हें श्रद्धांजलि देता हूँ। मैं भक्त दासिआ बाउरी जी, भक्त सालबेग जी, उड़िया भागवत की रचना करने वाले श्री जगन्नाथ दास जी को भी आदरपूर्वक नमन करता हूं।

ओडिशा निजर सांस्कृतिक विविधता द्वारा भारतकु जीबन्त रखिबारे बहुत बड़ भूमिका प्रतिपादन करिछि।

साथियों,

ओडिशा हमेशा से संतों और विद्वानों की धरती रही है। सरल महाभारत, उड़िया भागवत...हमारे धर्मग्रन्थों को जिस तरह यहाँ के विद्वानों ने लोकभाषा में घर-घर पहुंचाया, जिस तरह ऋषियों के विचारों से जन-जन को जोड़ा....उसने भारत की सांस्कृतिक समृद्धि में बहुत बड़ी भूमिका निभाई है। उड़िया भाषा में महाप्रभु जगन्नाथ जी से जुड़ा कितना बड़ा साहित्य है। मुझे भी उनकी एक गाथा हमेशा याद रहती है। महाप्रभु अपने श्री मंदिर से बाहर आए थे और उन्होंने स्वयं युद्ध का नेतृत्व किया था। तब युद्धभूमि की ओर जाते समय महाप्रभु श्री जगन्नाथ ने अपनी भक्त ‘माणिका गौउडुणी’ के हाथों से दही खाई थी। ये गाथा हमें बहुत कुछ सिखाती है। ये हमें सिखाती है कि हम नेक नीयत से काम करें, तो उस काम का नेतृत्व खुद ईश्वर करते हैं। हमेशा, हर समय, हर हालात में ये सोचने की जरूरत नहीं है कि हम अकेले हैं, हम हमेशा ‘प्लस वन’ होते हैं, प्रभु हमारे साथ होते हैं, ईश्वर हमेशा हमारे साथ होते हैं।

साथियों,

ओडिशा के संत कवि भीम भोई ने कहा था- मो जीवन पछे नर्के पडिथाउ जगत उद्धार हेउ। भाव ये कि मुझे चाहे जितने ही दुख क्यों ना उठाने पड़ें...लेकिन जगत का उद्धार हो। यही ओडिशा की संस्कृति भी है। ओडिशा सबु जुगरे समग्र राष्ट्र एबं पूरा मानब समाज र सेबा करिछी। यहाँ पुरी धाम ने ‘एक भारत श्रेष्ठ भारत’ की भावना को मजबूत बनाया। ओडिशा की वीर संतानों ने आज़ादी की लड़ाई में भी बढ़-चढ़कर देश को दिशा दिखाई थी। पाइका क्रांति के शहीदों का ऋण, हम कभी नहीं चुका सकते। ये मेरी सरकार का सौभाग्य है कि उसे पाइका क्रांति पर स्मारक डाक टिकट और सिक्का जारी करने का अवसर मिला था।

साथियों,

उत्कल केशरी हरे कृष्ण मेहताब जी के योगदान को भी इस समय पूरा देश याद कर रहा है। हम व्यापक स्तर पर उनकी 125वीं जयंती मना रहे हैं। अतीत से लेकर आज तक, ओडिशा ने देश को कितना सक्षम नेतृत्व दिया है, ये भी हमारे सामने है। आज ओडिशा की बेटी...आदिवासी समुदाय की द्रौपदी मुर्मू जी भारत की राष्ट्रपति हैं। ये हम सभी के लिए बहुत ही गर्व की बात है। उनकी प्रेरणा से आज भारत में आदिवासी कल्याण की हजारों करोड़ रुपए की योजनाएं शुरू हुई हैं, और ये योजनाएं सिर्फ ओडिशा के ही नहीं बल्कि पूरे भारत के आदिवासी समाज का हित कर रही हैं।

साथियों,

ओडिशा, माता सुभद्रा के रूप में नारीशक्ति और उसके सामर्थ्य की धरती है। ओडिशा तभी आगे बढ़ेगा, जब ओडिशा की महिलाएं आगे बढ़ेंगी। इसीलिए, कुछ ही दिन पहले मैंने ओडिशा की अपनी माताओं-बहनों के लिए सुभद्रा योजना का शुभारंभ किया था। इसका बहुत बड़ा लाभ ओडिशा की महिलाओं को मिलेगा। उत्कलर एही महान सुपुत्र मानंकर बिसयरे देश जाणू, एबं सेमानंक जीबन रु प्रेरणा नेउ, एथी निमन्ते एपरी आयौजनर बहुत अधिक गुरुत्व रहिछि ।

साथियों,

इसी उत्कल ने भारत के समुद्री सामर्थ्य को नया विस्तार दिया था। कल ही ओडिशा में बाली जात्रा का समापन हुआ है। इस बार भी 15 नवंबर को कार्तिक पूर्णिमा के दिन से कटक में महानदी के तट पर इसका भव्य आयोजन हो रहा था। बाली जात्रा प्रतीक है कि भारत का, ओडिशा का सामुद्रिक सामर्थ्य क्या था। सैकड़ों वर्ष पहले जब आज जैसी टेक्नोलॉजी नहीं थी, तब भी यहां के नाविकों ने समुद्र को पार करने का साहस दिखाया। हमारे यहां के व्यापारी जहाजों से इंडोनेशिया के बाली, सुमात्रा, जावा जैसे स्थानो की यात्राएं करते थे। इन यात्राओं के माध्यम से व्यापार भी हुआ और संस्कृति भी एक जगह से दूसरी जगह पहुंची। आजी विकसित भारतर संकल्पर सिद्धि निमन्ते ओडिशार सामुद्रिक शक्तिर महत्वपूर्ण भूमिका अछि।

साथियों,

ओडिशा को नई ऊंचाई तक ले जाने के लिए 10 साल से चल रहे अनवरत प्रयास....आज ओडिशा के लिए नए भविष्य की उम्मीद बन रहे हैं। 2024 में ओडिशावासियों के अभूतपूर्व आशीर्वाद ने इस उम्मीद को नया हौसला दिया है। हमने बड़े सपने देखे हैं, बड़े लक्ष्य तय किए हैं। 2036 में ओडिशा, राज्य-स्थापना का शताब्दी वर्ष मनाएगा। हमारा प्रयास है कि ओडिशा की गिनती देश के सशक्त, समृद्ध और तेजी से आगे बढ़ने वाले राज्यों में हो।

साथियों,

एक समय था, जब भारत के पूर्वी हिस्से को...ओडिशा जैसे राज्यों को पिछड़ा कहा जाता था। लेकिन मैं भारत के पूर्वी हिस्से को देश के विकास का ग्रोथ इंजन मानता हूं। इसलिए हमने पूर्वी भारत के विकास को अपनी प्राथमिकता बनाया है। आज पूरे पूर्वी भारत में कनेक्टिविटी के काम हों, स्वास्थ्य के काम हों, शिक्षा के काम हों, सभी में तेजी लाई गई है। 10 साल पहले ओडिशा को केंद्र सरकार जितना बजट देती थी, आज ओडिशा को तीन गुना ज्यादा बजट मिल रहा है। इस साल ओडिशा के विकास के लिए पिछले साल की तुलना में 30 प्रतिशत ज्यादा बजट दिया गया है। हम ओडिशा के विकास के लिए हर सेक्टर में तेजी से काम कर रहे हैं।

साथियों,

ओडिशा में पोर्ट आधारित औद्योगिक विकास की अपार संभावनाएं हैं। इसलिए धामरा, गोपालपुर, अस्तारंगा, पलुर, और सुवर्णरेखा पोर्ट्स का विकास करके यहां व्यापार को बढ़ावा दिया जाएगा। ओडिशा भारत का mining और metal powerhouse भी है। इससे स्टील, एल्युमिनियम और एनर्जी सेक्टर में ओडिशा की स्थिति काफी मजबूत हो जाती है। इन सेक्टरों पर फोकस करके ओडिशा में समृद्धि के नए दरवाजे खोले जा सकते हैं।

साथियों,

ओडिशा की धरती पर काजू, जूट, कपास, हल्दी और तिलहन की पैदावार बहुतायत में होती है। हमारा प्रयास है कि इन उत्पादों की पहुंच बड़े बाजारों तक हो और उसका फायदा हमारे किसान भाई-बहनों को मिले। ओडिशा की सी-फूड प्रोसेसिंग इंडस्ट्री में भी विस्तार की काफी संभावनाएं हैं। हमारा प्रयास है कि ओडिशा सी-फूड एक ऐसा ब्रांड बने, जिसकी मांग ग्लोबल मार्केट में हो।

साथियों,

हमारा प्रयास है कि ओडिशा निवेश करने वालों की पसंदीदा जगहों में से एक हो। हमारी सरकार ओडिशा में इज ऑफ डूइंग बिजनेस को बढ़ावा देने के लिए प्रतिबद्ध है। उत्कर्ष उत्कल के माध्यम से निवेश को बढ़ाया जा रहा है। ओडिशा में नई सरकार बनते ही, पहले 100 दिनों के भीतर-भीतर, 45 हजार करोड़ रुपए के निवेश को मंजूरी मिली है। आज ओडिशा के पास अपना विज़न भी है, और रोडमैप भी है। अब यहाँ निवेश को भी बढ़ावा मिलेगा, और रोजगार के नए अवसर भी पैदा होंगे। मैं इन प्रयासों के लिए मुख्यमंत्री श्रीमान मोहन चरण मांझी जी और उनकी टीम को बहुत-बहुत बधाई देता हूं।

साथियों,

ओडिशा के सामर्थ्य का सही दिशा में उपयोग करके उसे विकास की नई ऊंचाइयों पर पहुंचाया जा सकता है। मैं मानता हूं, ओडिशा को उसकी strategic location का बहुत बड़ा फायदा मिल सकता है। यहां से घरेलू और अंतर्राष्ट्रीय बाजार तक पहुंचना आसान है। पूर्व और दक्षिण-पूर्व एशिया के लिए ओडिशा व्यापार का एक महत्वपूर्ण हब है। Global value chains में ओडिशा की अहमियत आने वाले समय में और बढ़ेगी। हमारी सरकार राज्य से export बढ़ाने के लक्ष्य पर भी काम कर रही है।

साथियों,

ओडिशा में urbanization को बढ़ावा देने की अपार संभावनाएं हैं। हमारी सरकार इस दिशा में ठोस कदम उठा रही है। हम ज्यादा संख्या में dynamic और well-connected cities के निर्माण के लिए प्रतिबद्ध हैं। हम ओडिशा के टियर टू शहरों में भी नई संभावनाएं बनाने का भरपूर हम प्रयास कर रहे हैं। खासतौर पर पश्चिम ओडिशा के इलाकों में जो जिले हैं, वहाँ नए इंफ्रास्ट्रक्चर से नए अवसर पैदा होंगे।

साथियों,

हायर एजुकेशन के क्षेत्र में ओडिशा देशभर के छात्रों के लिए एक नई उम्मीद की तरह है। यहां कई राष्ट्रीय और अंतर्राष्ट्रीय इंस्टीट्यूट हैं, जो राज्य को एजुकेशन सेक्टर में लीड लेने के लिए प्रेरित करते हैं। इन कोशिशों से राज्य में स्टार्टअप्स इकोसिस्टम को भी बढ़ावा मिल रहा है।

साथियों,

ओडिशा अपनी सांस्कृतिक समृद्धि के कारण हमेशा से ख़ास रहा है। ओडिशा की विधाएँ हर किसी को सम्मोहित करती है, हर किसी को प्रेरित करती हैं। यहाँ का ओड़िशी नृत्य हो...ओडिशा की पेंटिंग्स हों...यहाँ जितनी जीवंतता पट्टचित्रों में देखने को मिलती है...उतनी ही बेमिसाल हमारे आदिवासी कला की प्रतीक सौरा चित्रकारी भी होती है। संबलपुरी, बोमकाई और कोटपाद बुनकरों की कारीगरी भी हमें ओडिशा में देखने को मिलती है। हम इस कला और कारीगरी का जितना प्रसार करेंगे, उतना ही इस कला को संरक्षित करने वाले उड़िया लोगों को सम्मान मिलेगा।

साथियों,

हमारे ओडिशा के पास वास्तु और विज्ञान की भी इतनी बड़ी धरोहर है। कोणार्क का सूर्य मंदिर… इसकी विशालता, इसका विज्ञान...लिंगराज और मुक्तेश्वर जैसे पुरातन मंदिरों का वास्तु.....ये हर किसी को आश्चर्यचकित करता है। आज लोग जब इन्हें देखते हैं...तो सोचने पर मजबूर हो जाते हैं कि सैकड़ों साल पहले भी ओडिशा के लोग विज्ञान में इतने आगे थे।

साथियों,

ओडिशा, पर्यटन की दृष्टि से अपार संभावनाओं की धरती है। हमें इन संभावनाओं को धरातल पर उतारने के लिए कई आयामों में काम करना है। आप देख रहे हैं, आज ओडिशा के साथ-साथ देश में भी ऐसी सरकार है जो ओडिशा की धरोहरों का, उसकी पहचान का सम्मान करती है। आपने देखा होगा, पिछले साल हमारे यहाँ G-20 का सम्मेलन हुआ था। हमने G-20 के दौरान इतने सारे देशों के राष्ट्राध्यक्षों और राजनयिकों के सामने...सूर्यमंदिर की ही भव्य तस्वीर को प्रस्तुत किया था। मुझे खुशी है कि महाप्रभु जगन्नाथ मंदिर परिसर के सभी चार द्वार खुल चुके हैं। मंदिर का रत्न भंडार भी खोल दिया गया है।

साथियों,

हमें ओडिशा की हर पहचान को दुनिया को बताने के लिए भी और भी इनोवेटिव कदम उठाने हैं। जैसे....हम बाली जात्रा को और पॉपुलर बनाने के लिए बाली जात्रा दिवस घोषित कर सकते हैं, उसका अंतरराष्ट्रीय मंच पर प्रचार कर सकते हैं। हम ओडिशी नृत्य जैसी कलाओं के लिए ओडिशी दिवस मनाने की शुरुआत कर सकते हैं। विभिन्न आदिवासी धरोहरों को सेलिब्रेट करने के लिए भी नई परम्पराएँ शुरू की जा सकती हैं। इसके लिए स्कूल और कॉलेजों में विशेष आयोजन किए जा सकते हैं। इससे लोगों में जागरूकता आएगी, यहाँ पर्यटन और लघु उद्योगों से जुड़े अवसर बढ़ेंगे। कुछ ही दिनों बाद प्रवासी भारतीय सम्मेलन भी, विश्व भर के लोग इस बार ओडिशा में, भुवनेश्वर में आने वाले हैं। प्रवासी भारतीय दिवस पहली बार ओडिशा में हो रहा है। ये सम्मेलन भी ओडिशा के लिए बहुत बड़ा अवसर बनने वाला है।

साथियों,

कई जगह देखा गया है बदलते समय के साथ, लोग अपनी मातृभाषा और संस्कृति को भी भूल जाते हैं। लेकिन मैंने देखा है...उड़िया समाज, चाहे जहां भी रहे, अपनी संस्कृति, अपनी भाषा...अपने पर्व-त्योहारों को लेकर हमेशा से बहुत उत्साहित रहा है। मातृभाषा और संस्कृति की शक्ति कैसे हमें अपनी जमीन से जोड़े रखती है...ये मैंने कुछ दिन पहले ही दक्षिण अमेरिका के देश गयाना में भी देखा। करीब दो सौ साल पहले भारत से सैकड़ों मजदूर गए...लेकिन वो अपने साथ रामचरित मानस ले गए...राम का नाम ले गए...इससे आज भी उनका नाता भारत भूमि से जुड़ा हुआ है। अपनी विरासत को इसी तरह सहेज कर रखते हुए जब विकास होता है...तो उसका लाभ हर किसी तक पहुंचता है। इसी तरह हम ओडिशा को भी नई ऊचाई पर पहुंचा सकते हैं।

साथियों,

आज के आधुनिक युग में हमें आधुनिक बदलावों को आत्मसात भी करना है, और अपनी जड़ों को भी मजबूत बनाना है। ओडिशा पर्व जैसे आयोजन इसका एक माध्यम बन सकते हैं। मैं चाहूँगा, आने वाले वर्षों में इस आयोजन का और ज्यादा विस्तार हो, ये पर्व केवल दिल्ली तक सीमित न रहे। ज्यादा से ज्यादा लोग इससे जुड़ें, स्कूल कॉलेजों का participation भी बढ़े, हमें इसके लिए प्रयास करने चाहिए। दिल्ली में बाकी राज्यों के लोग भी यहाँ आयें, ओडिशा को और करीबी से जानें, ये भी जरूरी है। मुझे भरोसा है, आने वाले समय में इस पर्व के रंग ओडिशा और देश के कोने-कोने तक पहुंचेंगे, ये जनभागीदारी का एक बहुत बड़ा प्रभावी मंच बनेगा। इसी भावना के साथ, मैं एक बार फिर आप सभी को बधाई देता हूं।

आप सबका बहुत-बहुत धन्यवाद।

जय जगन्नाथ!