بھارت ماتا کی جے!
بھارت ماتا کی جے!
بھارت ماتا کی جے!
سردار صاحب کے زریں اقوال...اسٹیچو آف یونٹی کے قریب یہ عظیم الشان پروگرام...ایکتا نگر کا یہ دلکش نظارہ، اور یہاں کی دلفریب نمائش...منی انڈیا کی یہ جھلک...سب کچھ کتنا شاندار، کس قدر متاثر کن ہے۔ 15 اگست اور 26 جنوری کی طرح 31 اکتوبر کو منعقد ہونے والی یہ تقریب پورے ملک کو نئی توانائی سے بھر دیتی ہے۔ میں تمام ہم وطنوں کو یوم قومی اتحاد کی مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیو!
اس بار راشٹریہ ایکتا دیوس شاندار اتفاق کے ساتھ آیا ہے۔ ایک طرف آج ہم اتحاد کا تہوار منا رہے ہیں تو دوسری طرف دیوالی کا مقدس تہوار بھی آج ہے۔ دیوالی، چراغوں کے ذریعے، پورے ملک کو جوڑتی ہے اور پورے ملک کو پر نور کرتی ہے۔ اور اب تو دیوالی کا تہوار ہندوستان کو دنیا سے بھی جوڑ رہا ہے۔ متعدد بیرونی ممالک میں اسے قومی تہوار کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ میں ملک اور دنیا بھر میں قیام پذیر تمام ہندوستانیوں کو، ہندوستان کے خیر خواہوں کو دیوالی کی بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو!
اس بار کا یوم اتحاد ایک دوسری وجہ سے بھی خاص ہے۔ آج سے سردار پٹیل کا 150 ویں جینتی کا سال بھی شروع ہو رہا ہے۔ آنے والے دو سالوں تک ملک سردار پٹیل کی 150ویں جینتی بھی منائے گا۔ یہ ہندوستان کے لیے ان کی غیر معمولی شراکت کے تئيں ہم وطنوں کا خراج تحسین ہے۔ یہ دو سالہ جشن ایک بھارت، سریشٹھ بھارت کے لیے ہماری عہد بندی کو مضبوط کرے گا۔ اس موقع سے ہمیں یہ سبق ملے گا کہ بظاہر ناممکن نظر آنے والے کاموں کو بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ جب ہندوستان کو آزادی ملی تو دنیا میں کچھ لوگ ایسے تھے جو ہندوستان کے ٹوٹ کر بکھرنے کی توقع کر رہے تھے اور ابھی ہم نے سردار صاحب کی آواز میں ان کا تفصیلی بیان سنا۔ انہیں یہ امید نہیں تھی کہ سیکڑوں نوابی ریاستوں کو اکٹھا کر کے ایک متحدہ ہندوستان دوبارہ بن جائے گا۔ لیکن سردار صاحب نے اسے کر دکھایا۔ یہ اس لیے ممکن ہوا کہ سردار صاحب طرز عمل میں حقیقت پسند، عزم کے سچے، عمل میں انسانیت نواز اور مقصد میں وطن پرست تھے۔
ساتھیو!
آج ہمارے پاس چھترپتی شیواجی مہاراج کی تحریک بھی ہے۔ انہوں نے حملہ آوروں کو کھدیڑنے کے لیے سب کو متحد کیا۔ مہاراشٹر کا یہ رائے گڑھ قلعہ آج بھی وہ کہانی ذاتی طور پر سناتا ہے۔ چھترپتی شیواجی مہاراج نے رائے گڑھ قلعے سے قوم کے مختلف نظریات کو ایک مقصد کے لیے متحد کیا تھا۔ آج یہاں ایکتا نگر میں رائے گڑھ کے اس تاریخی قلعے کی تصویر ہمارے سامنے تحریک کی علامت بن کر کھڑی ہے۔ رائے گڑھ قلعہ پہلے سماجی انصاف، حب الوطنی اور ملک سب سے مقدم کی اقدار کا مقدس میدان رہا ہے۔ آج اسی پس منظر میں ہم ترقی یافتہ ہندوستان کے عزم کو پورا کرنے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں۔
ساتھیو!
گزشتہ 10 سال کا عرصہ ہندوستان کے اتحاد اور سالمیت کے لیے بے مثال حصولیابیوں سے بھرا ہوا ہے۔ آج حکومت کے ہر کام اور ہر مشن میں قومی اتحاد کا ولولہ نظر آتا ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال ہمارا ایکتا نگر ہے… یہاں اسٹیچو آف یونٹی قائم ہے… اور ایسا نہیں ہے کہ صرف اس کے نام میں ہی اتحاد ہے، اس کی تعمیر میں بھی اتحاد ہے۔ اسے بنانے کے لیے ملک کے کونے کونے سے، ملک کے کسانوں سے، کھیتوں میں استعمال ہونے والے اوزاروں کا لوہا ملک بھر سے یہاں لایا گیا تھا، کیونکہ سردار صاحب مرد آہن تھے، کسان کے بیٹے تھے۔ اسی لیے لوہا، اور وہ بھی زراعتی آلات میں استعمال ہونے والا لوہا یہاں لایا گیا۔ ملک کے کونے کونے سے مٹی یہاں لائی گئی ہے۔ اس کی تعمیر اپنے اندر اتحاد کا احساس دلاتی ہے۔ یہاں ایکتا نرسری بنائی گئی ہے۔ یہاں پرعالمی جنگل ہے جہاں دنیا کے ہر براعظم کے درخت اور پودے موجود ہیں۔ یہاں ایک چلڈرن نیوٹریشن پارک ہے، جہاں ایک ہی مقام پر پورے ملک کی صحت مند کھانے کی عادات واطوار دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہاں آروگیہ ون ہے، جہاں ملک کے مختلف علاقوں کی آیورویدک نظام علاج کے پودے شامل ہیں۔ یہی نہیں، سیاحوں کے لیے ایکتا مال بھی واقع ہے، جہاں ملک بھر کی دستکاری کے نمونے ایک ہی چھت کے نیچے دستیاب ہے۔
اور ساتھیو،
ایسا نہیں ہے کہ یہ ایکتا مال صرف یہیں ہے، ملک کی ہر ریاست کے دارالحکومت میں ایکتا مال کی تعمیر کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ اتحاد کے اس پیغام کو ہر سال منعقد ہونے والی ایکتا دوڑ سے بھی تقویت ملتی ہے۔
ساتھیو!
ایک سچے ہندوستانی ہونے کے ناطے ہم سب کا فرض ہے کہ ہم ملک کے اتحاد کے لیے ہر کوشش کو جوش وخروش سے انجام دیں۔ توانائی، خود اعتمادی، ہر لمحہ نئے ولولے، نئی امید، نیا جوش، یہی تو جشن ہے۔ جب ہم ہندوستان کی زبانوں پر زور دیتے ہیں تو اتحاد کا ایک مضبوط رشتہ ہمیں جوڑتا ہے۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں ہم نے ہندوستانی زبانوں میں پڑھائی پر خصوصی زور دیا ہے، اور آپ سب کو پتہ ہے اور ملک نے بھی افتخار محسوس کیا، اسے پوری دنیا میں ایک تہوار کے طور پر منایا گیا، وہ کون سا فیصلہ تھا۔ حال ہی میں حکومت نے مراٹھی زبان، بنگالی زبان، آسامی زبان، پالی زبان اور پراکرت زبان کو کلاسیکی زبانوں کا درجہ دیا ہے۔ سب لوگوں نے حکومت کے اس فیصلے کا تہہ دل سے خیر مقدم کیا ہے۔ اور ہم اپنی زبان کو مادری زبان کہتے ہیں اور جب مادری زبان کی عزت کی جاتی ہے… تو ہماری اپنی ماں کی بھی عزت ہوتی ہے، ہماری دھرتی کی بھی عزت ہوتی ہے، اور مادر ہند کی بھی عزت ہوتی ہے۔ زبان کی طرح آج ملک بھر میں رابطے کا کام بھی ملک کے اتحاد کو مضبوط کر رہا ہے۔ ریل، سڑک، ہائی وے اور انٹرنیٹ جیسے جدید انفراسٹرکچر نے دیہاتوں کو شہروں سے جوڑ دیا ہے۔ جب کشمیر اور شمال مشرق کی راجدھانیاں ریل کے ذریعے جڑی ہوئی ہيں… جب لکشدیپ اور انڈمان ونکوبار جزیرے زیر سمندر کیبلز کے ذریعے تیز رفتار انٹرنیٹ کے ذریعہ جڑے ہوئے ہیں… جب پہاڑوں کے لوگ موبائل نیٹ ورکس سے جڑتے ہیں… تب ترقی کی دوڑ میں پیچھے چھوٹنے کا احساس ختم ہوجاتا ہے۔ آگے بڑھنے کی نئی توانائی خود بخود جنم لیتی ہے۔ ملک کی وحدت کا احساس مضبوط ہوتا ہے۔
ساتھیو!
سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں اور ارادوں میں بھیدبھاؤ کا احساس بھی ملکی وحدت کو کمزور کرتا رہا ہے۔ گزشتہ 10 سالوں میں ملک میں گڈ گورننس کے نئے ماڈل نے ہر قسم کے بھید بھاؤ کو ختم کر دیا ہے... ہم نے سب کا ساتھ، سب کا وکاس کا راستہ اختیار کیا ہے۔ آج ہر گھر جل یوجنا کے ذریعے ہر گھر کو بلا تفریق پانی پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آج سب کو پی ایم کسان سمان ندھی ملتی ہے، تو سب کو بغیر کسی بھید بھاؤ کے ملتی ہے۔ آج پی ایم آواس یوجنا کے گھر ملتے ہیں تو سب کو بلا تفریق ملتا ہے۔ آج آیوشمان یوجنا کے فوائد دستیاب ہیں… اس لیے ہر اہل شخص بغیر کسی بھید بھاؤ کے اس سے فائدہ اٹھاتا ہے… حکومت کے اس طریقہ کار نے کئی دہائیوں سے سماج اور لوگوں میں پھیلے ہوئے عدم اطمینان کو ختم کردیا ہے۔ اس کی وجہ سے حکومت پر لوگوں کا اعتماد بڑھا ہے، ملکی نظام پر اعتماد مضبوط ہو گیا ہے۔ ترقی اور اعتماد کا یہ اجتماع ایک بھارت شریشٹھ بھارت کی تعمیر کو تحریک دیتا ہے۔ اور مجھے پورا یقین ہے کہ ایکتا ہمارے تمام منصوبوں میں، ہماری تمام پالیسیوں میں اور ہمارے تمام ارادوں میں ہے، یہی ہماری قوتِ حیات ہے… یہ دیکھنے اور سننے کے بعد سردار صاحب جہاں کہیں بھی ہوں، ان کی روح ضرور ہمیں آشیرواد دے رہی ہوگی۔
ساتھیو!
قابل احترام باپو مہاتما گاندھی کہا کرتے تھے… "تنوع میں وحدت کے ساتھ جینے کی ہماری کوششوں کا مستقل امتحان ہوگا… گاندھی جی نے یہ کہا تھا اور مزید کہا تھا… ہمیں ہر قیمت پر اس امتحان کو پاس کرتے رہنا ہے"۔ گزشتہ 10 سالوں میں، ہندوستان نے تنوع میں وحدت کی ہر کوشش میں کامیابی حاصل کی ہے۔ حکومت نے اپنی پالیسیوں اور فیصلوں میں ون انڈیا کے جذبے کو مسلسل تقویت دی ہے۔ آج ہم سب ون نیشن، ون آئیڈنٹیٹی… یعنی آدھار کی کامیابی دیکھ رہے ہیں اور دنیا بھی اس کے بارے میں بات کر رہی ہے۔ اس سے پہلے ہندوستان میں ٹیکس کے مختلف نظام تھے۔ ہم نے ون نیشن، ون ٹیکس سسٹم… جی ایس ٹی بنایا۔ ہم نے ون نیشن، ون پاور گرڈ سے ملک کے پاور سیکٹر کو مضبوط کیا، ورنہ ایک وقت تھا کہ کہیں بجلی تھی، کہیں اندھیرا تھا، لیکن بجلی فراہم کرنے والے گرڈ ٹکڑوں میں بٹی پڑی تھی، ہم نے ون نیشن، ون گرڈ بنا کر اس عزم کو پورا کیا۔ ہم نے ون نیشن، ون راشن کارڈ کے ذریعے غریبوں کو فراہم کی جانے والی سہولیات کو یکجا اور مربوط کیا ہے۔ آیوشمان بھارت کی شکل میں ہم نے ملک کے لوگوں کو ون نیشن، ون ہیلتھ انشورنس کی سہولت فراہم کی ہے۔
ساتھیو!
اتحاد کے لیے ہماری کوششوں کے ضمن میں ہی، ہم اب ون نشین، ون الیکشن پر کام کر رہے ہیں، جس سے ہندوستان کی جمہوریت مضبوط ہوگی، جس سے ہندوستان کے وسائل کا بہترین نتیجہ ملے گا، اور ملک کو ترقی یافتہ ہندوستان کے خواب کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔ رفتار اور خوشحالی پیدا ہوگی۔ آج ہندوستان ون نیشن، ون سول کوڈ… یعنی سیکولر سول کوڈ کی طرف بھی بڑھ رہا ہے۔ اور اس کا ذکر میں نے لال قلعہ سے کیا تھا۔ سماجی اتحاد کے حوالے سے سردار صاحب کے اقوال بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ اس سے مختلف سماجی طبقات میں بھید بھاؤ کی شکایات کو دور کرنے میں مدد ملے گی، ملک کا اتحاد مضبوط ہو گا، ملک مزید ترقی کرے گا اور اتحاد کے ذریعے ملک اپنے عزائم کو پورا کرے گا۔
ساتھیو!
آج پورا ملک خوش ہے کہ آزادی کی 7 دہائیوں کے بعد ایک ملک، ایک آئین کا عزم بھی پورا ہوا ہے، یہ سردار صاحب کی روح کو میرا سب سے بڑا خراج عقیدت ہے۔ اہل وطن نہیں جانتے کہ بابا صاحب امبیڈکر کا آئین 70 سال تک پورے ملک میں نافذ نہیں ہوسکا تھا۔ آئین کا مالا جپنے والوں نے آئین کی اتنی بڑی توہین کی... کیا وجہ تھی؟ جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کی دیوار، آرٹیکل 370 جو ملک میں دیوار کی طرح کھڑی تھی، آئین یہاں روک دیتی تھی؟، وہاں کے لوگوں کو اپنے حقوق سے محروم کرنے والے آرٹیکل 370 کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا گیا ہے۔ پہلی بار اس اسمبلی الیکشن میں بلا بھید بھاؤ کے ووٹ ڈالے گئے۔ جموں و کشمیر میں آزادی کے 75 سال بعد پہلی بار وزیر اعلیٰ نے ہندوستان کے آئین پر حلف لیا ہے۔ یہ منظر بذات خود آئین ہند کے معماروں کو بے حد اطمینان بخشنے والا ہے، ان کی روحوں کو سکون ملتا ہوگا اور یہ آئین کے معماروں کو ہمارا عاجزانہ خراج عقیدت بھی ہے۔ میں اسے ہندوستان کے اتحاد کے لیے بہت بڑا اور بہت مضبوط سنگ میل سمجھتا ہوں۔ جموں و کشمیر کے محب وطن عوام نے علیحدگی پسندی اور دہشت گردی کے پرانے ایجنڈے کو مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے ہندوستان کے آئین اور ہندوستان کی جمہوریت کو فتح مند بنایا ہے۔ اپنے اپنے ووٹوں سے 70 سال سے جاری پروپیگنڈے کو تہس نہس کر دیا ہے۔ آج، یومِ قومی اتحاد کے موقع پر، میں جموں و کشمیر کے محب وطن لوگوں، آئین ہند کا احترام کرنے والے لوگوں کو احترام کے ساتھ سلام کرتا ہوں۔
ساتھیو!
گزشتہ 10 سالوں میں ہندوستان نے ایسے متعدد مسائل حل کیے ہیں جو قومی یکجہتی کے لیے خطرہ تھے۔ آج دہشت گردوں کے آقا جان چکے ہیں کہ اگر انہوں نے ہندوستان کو نقصان پہنچایا تو ہندوستان انہیں نہیں بخشے گا۔ آپ نے دیکھا کہ شمال مشرق میں بحران کتنا بڑا تھا۔ ہم نے بات چیت، ترقی اور اعتماد کے ذریعے علیحدگی پسندی کی آگ کو بجھا دیا۔ بوڈو معاہدے نے آسام میں 50 سال سے جاری تنازعات کو ختم کر دیا ہے...برو ریانگ معاہدہ اس کی وجہ سے کئی دہائیوں کے بعد ہزاروں بے گھر لوگ اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئے ہیں۔ نیشنل لبریشن فرنٹ آف تریپورہ کے ساتھ معاہدے سے طویل عرصے سے جاری بدامنی ختم ہو گئی ہے۔ ہم نے آسام اور میگھالیہ کے درمیان سرحدی تنازعہ کو کافی حد تک حل کر لیا ہے۔
ساتھیو!
جب 21ویں صدی کی تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں ایک سنہرا باب یہ ہوگا کہ کیسے ہندوستان نے دوسری اور تیسری دہائی میں نکسل ازم جیسی خوفناک بیماری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے۔ آپ کو وہ وقت یاد ہے جب نیپال کے پشوپتی سے ہندوستان کے تروپتی تک ریڈ کوریڈور بنایا گیا تھا۔ وہ قبائلی سماج جس نے لارڈ برسا منڈا جیسے محب وطن دیے… جس نے ہمارے محدود وسائل کے باوجود ملک کے کونے کونے میں میرے قبائلی بھائیوں اور بہنوں نے آزادی کے لیے انگریزوں سے جنگ لڑی… ایسے قبائلی معاشرے میں سوچی سمجھی سازش کے تحت نکسل ازم کے بیج بوئے گئے، نکسل ازم کی آگ بھڑکائی گئی۔ یہ نکسل ازم ہندوستان کے اتحاد اور سالمیت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا تھا۔ مجھے اطمینان ہے کہ گزشتہ 10 سالوں کی انتھک کوششوں کے نتیجے میں آج نکسل ازم بھی ہندوستان میں اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ آج جس ترقی کا میری قبائلی برادری کئی دہائیوں سے انتظار کر رہی تھی وہ ان کی دہلیز پر پہنچ رہی ہے اور ایک بہتر مستقبل کا اعتماد بھی پیدا ہو گیا ہے۔
ساتھیو!
آج ہمارے سامنے ایک ایسا ہندوستان ہے... جس کے پاس وژن اور سمت بھی ہے، اور صرف یہی نہیں، اس کے ساتھ جوی ہے جو ضروری ہے... مضبوطی ہو، سمت ہو، لیکن اسے ضرورت ہوتپی عزم کی مضبوطی کی... آج ملک کے پاس نقطہ نظر ہے، سمت اور پختہ عزم بھی ہے. ایک ایسا ہندوستان جو مضبوط بھی ہے، ایسا ہندوستان جو ہم آہنگ بھی ہے، ایسا ہندوستان جو حساس بھی ہے، ایسا ہندوستان جو چوکنا بھی، جو ملنسار بھی ہے اور ترقی یافتہ ہونے کی راہ پر ہے، ایسا ہندوستان جو طاقت اور امن وشانتی دونوں کی اہمیت کو جانتا ہے۔ دنیا بھر میں زبردست ہلچل کے درمیان تیز رفتاری سے بڑھنا معمول کی بات نہیں ہے۔ جب مختلف علاقوں میں جنگیں ہو رہی ہوں...جنگ کے دوران بودھ کے پیغامات کو پہنچانا معمول کی بات نہیں ہے۔ جب دنیا کے مختلف ممالک کے درمیان تعلقات میں بحران ہو تو ہندوستان کا وشوبندھو بن کر ابھرنا معمولی بات نہیں ہے۔ دنیا میں جب ایک ملک سے دوسرے ملک کی دوری بڑھ رہی ہے تو دنیا کے ممالک ہندوستان سے اپنی قربتیں بڑھا رہے ہیں۔ یہ معمولی بات نہیں ہے... یہ نئی تاریخ رقم کی جا رہی ہے۔ آخر بھارت نے ایسا کیا کیا ہے؟
ساتھیو!
آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ ہندوستان کیسے عزم کے ساتھ اپنے مسائل کو حل کر رہا ہے۔ آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ ہندوستان، متحد ہوکر، کیسے دہائیوں پرانے چیلنجوں کو ختم کر رہا ہے... اور اس لیے... ہمیں اس اہم وقت میں اپنے اتحاد کو بچانا ہے، ہمیں اسے برقرار رکھنا ہے... ہم نے اتحاد کا جو حلف لیا اسے بار بار یاد رکھنا ہے، ہمیں اس حلف کو برتنا ہے، اگر ضروری ہو تو اس حلف کے لیے لڑنا ہے۔ آپ کو ہر لمحہ اس حلف کی روح کو اپنے اندر بھرتے رہنا ہے۔
ساتھیو!
ہندوستان کی بڑھتی ہوئی طاقت سے کچھ طاقتیں، کچھ منفی خیالات، کچھ بگڑی ہوئی ذہنیت کے لوگ، بہت پریشان ہیں... ہندوستان کے اندر اور ہندوستان سے باہر بھی ایسے لوگ ہندوستان میں عدم استحکام اور انارکی پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ ہندوستان کے معاشی مفادات کو چوٹ پہنچانے میں مصروف ہیں۔ وہ طاقتیں چاہتی ہیں کہک دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو غلط پیغام جائے، ہندوستان کی منفی شبیہ ابھرے... یہ لوگ ہندوستان فوج تک کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، غلط معلومات کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ وہ فوجوں میں پھوٹ پیدا کرنا چاہتے ہیں... یہ لوگ ذات پات کے نام پر ہندوستان میں پھوٹ پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔ ان کی ہر کوشش کا ایک ہی مقصد ہے - ہندوستانی معاشرہ کمزور ہو جائے... ہندوستان کا اتحاد کمزور پڑ جائے۔ یہ لوگ کبھی نہیں چاہتے کہ ہندوستان ترقی کرے... کیونکہ کمزور ہندوستان کی سیاست... غریب ہندوستان کی سیاست ایسے لوگوں کو سوٹ کرتی ہے۔ یہ گندی، مکروہ سیاست 5-5 دہائیوں تک چلائی گئی، ملک کو کمزور کیا گیا۔ اس لیے یہ لوگ آئین اور جمہوریت کا نام لے کر ہندوستان کے لوگوں میں ہندوستان کو توڑنے کا کام کر رہے ہیں۔ ہمیں شہری نکسلائٹس کے اس گٹھ جوڑ پہچاننا ہوگا، اور میرے ہم وطنوں جنگلوں میں پروان چڑھنے والی نکسل ازم، بم بندوق سے آدوی واسی نوجوانوں کو گمراہ کرنے والا نکسلزم جیسے ختم ہوتا گیا… شہری نکسل ازم کا ایک نیا ماڈل ابھرتا گیا۔ ہمیں ملک کو توڑنے کا خواب دیکھنے والوں، ملک کو تباہ کرنے کا خیال رکھنے والوں اور چہروں پر جھوٹے نقاب اوڑھنے والوں کو پہچان کر ان کا مقابلہ کرنا ہو گا۔
ساتھیو!
آج حالت یہ ہوگئی کہ آج کل اتحاد کی بات کرنا بھی جرم بنا دیا گیا ہے۔ ایک وقت تھا جب ہم اسکول، کالج، گھر اور باہر بڑے فخر سے اتحاد کے گیت گاتے تھے۔ جو لوگ بوڑھے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہم کون سے گیت گاتے تھے… ہند دیش کے نواسی سبھی جن ایک ہیں۔ رنگ، روپ، ویش، بھاشا چاہے انیک ہیں۔ یہ گیت گائے جاتے تھے۔ اگر آج کی تاریخ میں کوئی یہ گیت گائے گا تو اس کو شہری نکسلیوں کا گروہ گالی دینے کا موقع بنالے گا۔ اور آج اگر کوئی کہے کہ ہم متحد ہیں تو محفوظ ہیں... تو یہ لوگ اس کو بھی غلط سے تشریح کرنے لگیں گے... جو لوگ ملک کو توڑنا چاہتے ہیں، جو سماج کو بانٹنا چاہتے ہیں، ان کے لیے ملک کی وحدت باعث فکر ہے۔ اور اسی لیے اے میرے ہم وطنو، ہمیں ایسے لوگوں، ایسے خیالات، ایسے رجحانات، ایسے رویوں کے بارے میں پہلے سے زیادہ ہوشیار رہنا ہے۔
ساتھیو!
ہم سب سردار صاحب کی پیروی کرنے والے اور ان کے خیالات پر چلنے والے لوگ ہیں۔ سردار صاحب کہا کرتے تھے – ہندوستان کا سب سے بڑا مقصد متحد اور مضبوط طاقت بننا ہونا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہے، ہندوستان تنوع کا ملک ہے۔ جب ہم تنوع کا جشن منائیں گے تب ہی اتحاد مضبوط ہوگا۔ آنے والے 25 سال اتحاد کے لحاظ سے بہت اہم ہیں۔ اس لیے ہمیں اتحاد کے اس منتر کو کبھی کمزور نہیں ہونے دینا ہے، ہمیں ہر جھوٹ کا مقابلہ کرنا ہے، ہمیں اتحاد کے منتر کو جینا ہے… اور یہ منتر، یہ اتحاد، تیز رفتار اقتصادی ترقی کے لیے بھی، اور ترقی یافتہ ہندوستان بنانے کے لیے بھی، خوشحال ہندوستان بنانے کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔ یہ اتحاد سماجی ہم آہنگی کی جڑی بوٹی ہے، یہ سماجی ہم آہنگی کے لیے بہت ضروری ہے۔ اگر ہم حقیقی سماجی انصاف کے لیے وقف ہیں، اگر سماجی انصاف ہماری ترجیح ہے تو اس کے لیے اتحاد پہلی شرط ہے… اتحاد کو برقرار رکھنا ہوگا۔ یہ بہتر سہولیات کی تعمیر کے لیے اتحاد کے بغیر یہ گاڑی نہیں چل سکتی ہے۔ یہ ملازمتوں کے لیے...سرمایہ کاری کے لیے ضروری ہے۔ آئیے ہم متحد ہو کر ایک ساتھ آگے بڑھیں۔ ایک بار پھر، یوم قومی اتحاد کے موقع پر آپ سب کو میری ڈھیر ساری نیک خواہشات۔
میں کہوں گا، سردار صاحب، آپ سب بولیے – امر رہے، امر رہے۔
سردار صاحب امر رہے ... امر رہے!
سردار پٹیل امر رہے ... امر رہے!
سردار پٹیل امر رہے ... امر رہے!
سردار پٹیل امر رہے ... امر رہے!
بھارت ماتا کی جے!
بھارت ماتا کی جے!
بھارت ماتا کی جے!