نم: پاروتی پتیے...، ہر ہر مہادیو!
اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ جی، کاشی ودوت پریشد کے چیئرمین پروفیسر وششٹھ ترپاٹھی جی، کاشی وشوناتھ ٹرسٹ کونسل کے چیئرمین پروفیسر ناگیندر جی، ریاستی حکومت کے وزراء اور دیگر عوامی نمائندے، معزز اسکالر ، شریک دوست،دیویوں اور سجنوں۔
آپ سب پریوار کے لوگن کے ہمار پرنام ! مہامنا کے اس آنگن میں تمام اہل علم اور خاص کر نوجوان اسکالرز کے درمیان آکر علم کی گنگا میں ڈبکی لگانے کا احساس ہورہا ہے۔ جو کاشی ابدی ہے، جو کاشی وقت سے بھی قدیم کہی جاتی ہے، جس کی شناخت ہماری جدید نوجوان نسل ذمہ داری سے مضبوط کر رہی ہے، یہ منظر دل کو اطمینان بھی دیتا ہے، فخر کا احساس بھی کراتا ہے اور یہ اعتماد بھی دلاتا ہے کہ امرت کال میں آپ سبھی نوجوان ملک کو نئی بلندیوں پر لے جائیں گے اور کاشی علم کا سرمایہ ہے۔ آج کاشی کی وہ طاقت اور اس کی شکل، پھر سے ابھر رہی ہے۔ یہ پورے ہندوستان کے لیے فخر کی بات ہے اور اب مجھے کاشی سنسد سنسکرت پرتی یوگیتا، کاشی سنسد علمی مقابلہ، اور کاشی سنسد فوٹوگرافی مقابلہ کے فاتحین کو انعامات دینے کا موقع ملا ہے۔ میں تمام جیتنے والوں کو ان کی محنت، ان کی صلاحیتوں کے لیے مبارکباد دیتا ہوں، میں ان کے اہل خانہ اور ان کے گروؤں کو بھی مبارکباد دیتا ہوں اور جو نوجوان کامیابی سے چند قدم دور ہیں، کچھ 4 پرآکر پھنس گئے ہیں، میں ان کو بھی مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ کاشی کی علمی روایت کا حصہ بنے اور اس کے مقابلے میں بھی حصہ لیں۔ یہ اپنے آپ میں بڑے فخر کی بات ہے۔ آپ میں سے کوئی بھی ساتھی ہارا نہیں ہے اور نہ ہی پیچھے رہا ہے۔ آپ اس شرکت کے ذریعے بہت سی نئی چیزیں سیکھ کر کئی قدم آگے آئے ہیں۔ اس لیے ان مقابلوں میں حصہ لینے والے ہر شخص مبارکباد کے مستحق ہیں۔ میں اس تقریب کے انعقاد کے لیے شری کاشی وشوناتھ مندر ٹرسٹ، کاشی ودوت پریشد اور تمام اسکالرز کا بھی احترام کے ساتھ شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ نے کاشی کے سنسد کے طور پر میرے وژن کو پورا کرنے میں بہت بڑا رول ادا کیا ہے اور بے مثال تعاون فراہم کیا ہے۔ کاشی میں گزشتہ 10 سالوں میں ہوئے ترقیاتی کاموں اور کاشی کے بارے میں مکمل معلومات پر آج یہاں دو کتابوں کا اجراء بھی کیا گیا ہے۔ کاشی نے گزشتہ 10 سالوں میں ترقی کا جو سفر طے کیا ہے، اس کے ہر مرحلے اور یہاں کی ثقافت کو بھی ان کافی ٹیبل بک میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کاشی میں منعقد ہونے والے تمام سنسدی مقابلوں پر چھوٹی کتابیں بھی لانچ کی گئی ہیں۔ میں اس کے لیے کاشی کے تمام لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔
لیکن ساتھیوں،
آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہم سب صرف ایک واسطہ ہیں۔ کاشی میں کام کرنے والے صرف مہادیو اور اس کے پیروکار ہیں۔ ‘جہاں مہادیو کا کرپا ہو جالا، او دھرتی اپنے ایسے ہی سمردھ ہو جالے، اس وقت مہادیواتی آنند میں ہیں،خوب پرسن ہیں مہادیو’(جہاں بھی مہادیو کا آشیرواد ہوتا ہے، زمین خوشحال ہوجاتی ہے، اس وقت مہادیو بہت خوشی میں ہے، مہادیو بہت خوش ہیں)۔ یہی وجہ ہے کہ مہادیو کے آشیرواد سے گزشتہ 10 سالوں میں کاشی میں ہر جگہ ترقی کا ڈھول بجا ہے۔ آج ایک بار پھر... کاشی کے ہمارے خاندان کے لوگوں (لوگن) کے لیے کروڑوں روپے کی اسکیم کا افتتاح کیا جا رہا ہے۔ شیو راتری اور رنگ بھری اکادشی سے پہلے آج کاشی میں ترقی کا تہوار منایا جا رہا ہے(وکاس کا اتسو منے جات ہو)۔ اسٹیج پر آنے سے ذرا پہلے میں کاشی سنسد فوٹوگرافی مقابلہ کی گیلری دیکھ رہا تھا۔ پچھلے 10 سالوں میں ترقی کی گنگا نے کاشی کو سیراب کیا ہے، آپ سب نے خود دیکھا ہوگا کہ کاشی کتنی تیزی سے بدلی ہے۔ آپ سب نے خود دیکھا ہے۔میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نہ، اس لیے آپ مجھے بتائیں کہ کیا صحیح میں تبدیلی آئی ہے، اطمینان ہے۔ لیکن جن چھوٹے بچوں نے پہلے کاشی نہیں دیکھا ؛ وہ اب ایک شاندار کاشی دیکھ رہے ہوں گے۔ یہ میری کاشی کی طاقت ہے، اور یہ کاشی کے لوگوں کا احترام ہے، یہ مہادیو کی کرپاکی طاقت ہے۔ بابا جون چاہ جالن، او کے کے روک پاویلا؟ اے ہی لیے بنارس میں جب بھی کچھ شبھ ہولا! لوگ ہاتھ اٹھا کے بولن – نم : پاروتی پتیے، ہر ہر مہادیو!
ساتھیوں،
کاشی نہ صرف ہمارے عقیدے کا تیرتھ ہےبلکہ یہ ہندوستان کے ابدی شعور کو بیدار کرنے والا مرکز ہے۔ ایک وقت تھا جب ہندوستان کی خوشحالی کی داستان پوری دنیا میں سنی جاتی تھی۔ اس کے پیچھے صرف ہندوستان کی معاشی طاقت ہی نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے ہماری ثقافتی خوشحالی، سماجی اور روحانی خوشحالی بھی تھی۔ کاشی جیسی ہماری زیارت گاہیں اور وشوناتھ دھام جیسے مندر ملک کی ترقی کے لیے یگ شالا ہوا کرتے تھے۔ یہاں سادھنا بھی کی جاتی تھی اور صحیفے بھی ہوتے تھے۔ یہاں مکالمہ اور تحقیق ہوتی تھی۔ یہاں ثقافت کے ذرائع بھی تھے، ادب اور موسیقی کے سلسلے بھی۔ اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ ہندوستان نے جتنے بھی نئے نظریات اور نئے علوم دیے ہیں ان کا تعلق کسی نہ کسی ثقافتی مرکز سے ہے۔ کاشی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ کاشی شیو کا شہر بھی ہے، یہ بدھ کی تعلیمات کی سرزمین بھی ہے۔ کاشی جین تیرتھ کروں کی جائے پیدائش بھی ہے اور آدی شنکراچاریہ کو بھی یہیں سے بودھ ملا تھا ۔ ملک بھر سے اور یہاں تک کہ دنیا کے گوشے گوشے سے لوگ علم، تحقیق اور امن کی تلاش میں کاشی آتے ہیں۔ ہر صوبے، ہر زبان، ہر بولی، ہر رسم و رواج کے لوگ کاشی میں آکر آباد ہیں۔ جس جگہ اتنا تنوع ہو، وہاں نئے خیالات جنم لیتے ہیں۔ جہاں نئے خیالات پروان چڑھتے ہیں وہاں ترقی کے امکانات پنپتے ہیں۔
اس لیے بھائیو–بہنوں ،
وشوناتھ دھام کے افتتاح کے موقع پر، میں نے کہا تھا، یاد کیجئے میں نے اس وقت کیا کہا تھا، اس وقت میں نے کہا تھا – ‘‘وشوناتھ دھام ہندوستان کو فیصلہ کن سمت دے گا، ہندوستان کو روشن مستقبل کی طرف لے جائے گا’’۔ آج یہ نظر آرہا ہے ۔ وشوناتھ دھام اپنی شاندار شکل میں ایک بار پھر ہندوستان کو فیصلہ کن مستقبل کی طرف لے جانے کے لیے قومی کردار میں واپس آ رہا ہے۔ آج وشوناتھ دھام کمپلیکس میں ملک بھر کے اسکالرز کے ’علمی سیمینار‘ منعقد ہو رہے ہیں۔ وشوناتھ مندر ٹرسٹ بھی شاسترارتھ کی روایت کو زندہ کر رہا ہے۔ کلاسیکی آوازوں کے ساتھ ساتھ صحیفوں پر مبنی مکالمے بھی کاشی میں گونج رہے ہیں۔ اس سے ملک بھر کے اسکالرز کے درمیان علمی تبادلے میں اضافہ ہوگا۔ اس سے قدیم علم محفوظ رہے گا اور نئے خیالات بھی پیدا ہوں گے۔ کاشی سنسد سنسکرت مقابلہ اور کاشی سنسد علمی مقابلہ بھی اسی کوشش کا ایک حصہ ہیں۔ سنسکرت کی تعلیم حاصل کرنے والے ہزاروں نوجوانوں کو کتابیں، کپڑے اور دیگر ضروری وسائل کے ساتھ اسکالرشپ بھی فراہم کی جارہی ہے۔ اساتذہ کو بھی مدد فراہم کی جارہی ہے۔ یہی نہیں،وشوناتھ دھام ، کاشی تمل سنگم اور گنگا پشک رولو مہوتسو جیسے ‘ایک بھارت، شریشٹھ بھارت’کی مہمات کا حصہ بھی بن گیا ہے۔ قبائلی ثقافتی تقریبات کے ذریعے، آستھا کا یہ مرکز، سماجی شمولیت کے عزم کو مضبوط کر رہا ہے۔ جدید سائنس کے نقطہ نظر سے قدیم علم پر کاشی کے اسکالرز اور ودوت پریشد کی طرف سے بھی نئی تحقیق کی جا رہی ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ جلد ہی مندر نیاس، شہر کے کئی مقامات پر مفت کھانے کا انتظام شروع کرنے والا ہے۔ مندر اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ماں ان پورنا کے شہر میں کوئی بھی بھوکا نہ رہےیعنی آستھا کا یہ مرکز سماجی اور قومی عزائم کے لیے توانائی کا مرکز کیسے بن سکتا ہے، نئی کاشی نئے ہندوستان کے لیے ایک تحریک بن کر ابھری ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہاں سے نکلے نوجوان پوری دنیا میں ہندوستانی علم، روایت اور ثقافت کے پرچم بردار بنیں گے۔بابا وشوناتھ کی ای دھرتی ، وشو کلیان کا ساکشی بھومی بنی (بابا وشوناتھ کی یہ سرزمین عالمی فلاح و بہبود کے عزم کی گواہ بن گئی ہے)۔
ساتھیوں،
جن زبانوں نے ہمارے علم، سائنس اور روحانیت کی ترقی میں سب سے زیادہ تعاون کیا ہے، ان میں سنسکرت سب سے نمایاں ہے۔ ہندوستان ایک خیال ہے، سنسکرت اس کا بنیادی اظہار ہے۔ ہندوستان ایک یاترا ہے، سنسکرت اس کی تاریخ کا اہم باب ہے۔ ہندوستان تنوع میں اتحاد کی سرزمین ہے، سنسکرت اس کی اصل ہے۔ اسی لیے یہاں کہا گیا ہے – ‘‘بھارتسیہ پرتیسٹھے دوے سنسکرتم سنسکرتی – ستتھا’’۔ یعنی ہندوستان کے وقار میں سنسکرت کا بڑا کردار ہے۔ ایک وقت تھا جب سنسکرت ہمارے ملک میں سائنسی تحقیق کی زبان تھی اور سنسکرت کلاسیکی فہم کی زبان بھی تھی۔ فلکیات میں سوریہ سدھانت، ریاضی میں آریہ بھٹ اور لیلاوتی، طبی سائنس میں چرک اور سشروتا سمہتا، یا برہت سمہتا جیسی تحریریں، یہ سب سنسکرت میں لکھے گئے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ادب، موسیقی اور فنون کی بہت سی اصناف بھی سنسکرت زبان سے پیدا ہوئی ہیں۔ ہندوستان کو ان اصناف کے ذریعے پہچان ملی ہےجن ویدوں کا پاٹھ کاشی میں ہوتا ہے ، وہی وید پاٹھ ، اسی سنسکرت میں ہمیں کانچی میں سنائی پڑتا ہے ۔ یہ ’ایک بھارت، شریسٹھ بھارت‘ کی لازوال اصوات ہیں، جنہوں نے ہزاروں سالوں سے ہندوستان کو ایک ملک کے طور پر متحد رکھا ہے۔
ساتھیوں،
آج کاشی کو وراثت اور ترقی کے ماڈل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ کس طرح جدیدیت روایات اور روحانیت کی توسیع ہو رہی ہے۔ رام للا کے نئے عظیم الشان مندر میں وراجنے کے بعد اب ایودھیا بھی اسی طرح پھل پھول رہی ہے۔ ملک میں بھگوان بدھ سے منسلک مقامات پر جدید انفراسٹرکچر اور سہولیات بھی تعمیر کی جا رہی ہیں۔ یوپی کو کشی نگر میں بین الاقوامی ہوائی اڈے کا فائدہ ملا ہے۔ آج ملک میں ایسے بہت سے کام ہو رہے ہیں۔ اگلے 5 سالوں میں اس اعتماد کے ساتھ ملک کو ترقی کی نئی رفتار ملے گی اور ملک کامیابی کی نئی اونچائیوں کو چھوے گا اور یہ مودی کی گارنٹی ہے۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ مودی کی گارنٹی کا مطلب پورا ہونے کی گارنٹی ہے۔ اب میں ایم پی ہوں لیکن جب بھی یہاں آتا ہوں ، کچھ نہ کچھ کام لے کر آتا ہوں، میرے لیے اور آپ کے لیے بھی … کروگے نا؟ دیکھئے ، میں نے جو بھی باتیں بتائی تھیں، ان کو یہاں کے لوگوں نے بہت اچھے طریقے سے لیا، سب اس سے جڑ گئے اور نئی نسل میں ایک نیا شعور آیا۔ یہ مقابلے عام نہیں ہیں۔ یہ تمام کوششوں کے ساتھ ایک کامیاب تجربہ ہے۔ آنے والے دنوں میں، میں یہ دیکھنا چاہوں گا کہ ہر سیاحتی مقام پر کیا ہوتا ہے، لوگ پوسٹ کارڈ پرنٹ کرتے ہیں،آگے وہاں کی ایک خصوصی تصویر ہوتی ہے اور پیچھے 2 لائنیں لکھنے کی جگہ ہوتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ کاشی میں تصویری مقابلے میں سب سے بہترین تصویر کے لیے ووٹنگ ہونی چاہیے، لوگ ووٹ ڈالیں اور ووٹنگ میں سب سے بہترین 10 تصویروں کا انتخاب کیا جائے اور اس کا پوسٹ کارڈ چھاپ کر سیاحوں کو فروخت کرنے کا پروگرام بنانا چاہئے اور ہر سال یہ تصویری مقابلہ ہوگا، ہر سال 10 نئی تصاویر آئیں گی۔ لیکن یہ ووٹنگ کے ذریعے ہونا چاہیے، اس تصویر کو آگے لانے کے لیے کاشی کے لوگوں کو ووٹ دینا چاہیے۔
دوسرا کام – جس طرح کی فوٹو گرافی ہوئی ہے اس سے لگتا ہے کہ کچھ لوگوں نے موبائل سے نکال دیا ہوگا، مقابلے میں حصہ لیا ہوگا۔ اب ہم ایک ایسا پروگرام ترتیب دیں جس میں لوگ اپنی مرضی کے مطابق مختلف جگہوں پر بیٹھ کر ایک کاغذ کا سائز مقرر کر کے اس پر خاکہ بنائیں ،اس پر اسکیچ سے ڈرائینگ کریں۔ اس میں بہترین خاکہ نگاری کرنے والوں کو بھی انعامات دیئے جائیں اور بعد میں جو پوسٹ کارڈ نکالیں گے ان کے بھی بہترین 10 پوسٹ کارڈ نکالے جائیں، کیا آپ کریں گے؟ آواز کیوں دب گئی... ہاں.
تیسرا کام – دیکھئے ، اب کاشی میں کروڑوں لوگ آتے ہیں، گائیڈ کی بہت ضرورت ہے، لوگ چاہتے ہیں کہ کوئی انہیں سمجھائے اور بتائےکیوں کہ مسافر بہت مشقت سے یہاں آتا ہے۔ یہ آپ کی زمہ داری ہے کہ وہ کاشی کے اثر سے متاثر ہواور کاشی ان کے دل و دماغ سے غائب نہ ہو۔ اس کے لیے ایک اچھی گائیڈ کی ضرورت ہے اور اسی لیے میں نے کہا ہے کہ بہترین گائیڈز کے درمیان مقابلہ ہونا چاہیے، سب کو آکر گائیڈ کے طور پر کام کرنا چاہیے اور بہترین گائیڈ کو انعام اور سرٹیفکیٹ دینا چاہیے۔ مستقبل میں وہ گائیڈ کے طور پر بھی اپنی روزی روٹی کما سکتا ہے۔ دیکھئے ، جتنی مہارتیں ہمارے اندر پیدا ہو سکتی ہیں، ہونی چاہیے۔ ٹیلنٹ کو ترقی کا ہر موقع دیا جائے۔ پرماتما نے ہر ایک کو ہر قسم کی طاقت دی ہے، کچھ لوگ اسے سنوارتے ہیں، کچھ لوگ اسے ٹھنڈے بکسے میں ڈال کر پڑا رہنے دیتے ہیں۔
کاشی سنورنے والی ہے،یہاں پل ، سڑکیں اور عمارتیں بھی بنیں گی، لیکن مجھے یہاں کے ہر فرد کو سنوارنا ہے، ہر دل کو سنوارنا ہے اور خادم بن کر انہیں سنوارنا ہے، ساتھی بن کر انہیں سنوارنا ہے، انگلی پکڑ کر منزل تک پہنچنا ہے، مقصد حاصل کرنا ہے۔ اس لیے میں تمام فاتحین کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ اگرچہ میں پروگرام کے لیے دیر سے پہنچا لیکن یہ پروگرام ایسا ہے کہ مجھے آپ لوگوں کے درمیان زیادہ وقت گزارنے کامن ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ تصویر کھینچنا چاہتے ہیں، میں بھی آپ کے ساتھ تصویر کھینچوانا چاہتا ہوں۔ تو کیا آپ میری مدد کریں گے؟...دیکھئے ، مدد تب ہو گی جب آپ میری بات پر عمل کروگے۔ جب تک میں یہاں سے نہیں جاتاہوں ، کسی کو کھڑا نہیں ہونا ہے... ٹھیک ہے۔ میں یہاں سے پیچھے آؤں گا اور ہر بلاک میں کھڑا ہوں گا اور تمام کیمرہ مین اسٹیج پر آئیں گے، وہ یہاں سے فوٹو لیں گے… ٹھیک ہے۔ لیکن میں یہ تصویر اپنے ساتھ لے جاؤں گا، آپ کا کیا ہوگا… ؟ اس کا ایک حل ہے، ہم آپ کو بتائیں گے۔ آپ اپنے موبائل پر نمو ایپ پر جائیں گے، نمو ایپ ڈاؤن لوڈ کریں گے، اس میں ایک فوٹو سیکشن ہے، اپنی سیلفی لیں اور اسے اس میں ڈال دیں ، ایک بٹن دبائیں گے تو وہ تمام تصاویر جو آپ کے ساتھ لی گئی ہیں، سب آپ کے پاس اے آئی کے ذریعے سامنے آ جائیں گی۔ ہماری کاشی میں سنسکرت اور سائنس دونوں ہو گی۔ آپ میری مدد ضرور کریں گے… آپ بیٹھے رہیں گے، نا؟ کسی کو کھڑا نہیں ہونا ہے، بیٹھے بیٹھے آپ اپنا سر اٹھا سکتے ہیں تاکہ سب کی تصویر لی جا سکے۔ اور میرے پاس ایسا کیمرہ ہے جس سے مسکرانے والے کی ہی تصویر نکلتی ہے۔
ہر ہر مہادیو!
تو میں نیچے آرہا ہوں، یہ لوگ یہاں بیٹھیں گے، آپ لوگ وہاں بیٹھیں گے۔سب کیمرے والے اوپر آ جائیں۔