آسام کے گورنر گلاب چند جی کٹاریہ، وزیر اعلیٰ جناب ہمانتا بسوا سرما، میرے رفیق کار مرکزی وزیر قانون جناب کرن رجیجو، اروناچل پردیش کے وزیر اعلیٰ جناب پیما کھانڈو، سپریم کورٹ کے جج جسٹس ہریشی کیش رائے، گوہاٹی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سندیپ مہتا جی، معزز جج صاحبان، دیگر معززین، خواتین و حضرات!
مجھے آج گوہاٹی ہائی کورٹ کی پلاٹینم جوبلی تقریب کا حصہ بننے اور آپ کے درمیان آکر اس یادگار لمحے کا حصہ بننے پر خوشی ہو رہی ہے۔ گوہاٹی ہائی کورٹ کے 75 سال کا یہ سفر ایک ایسے وقت میں مکمل ہوا ہے جب ملک اپنی آزادی کا 75 واں سال بھی مکمل کر چکا ہے۔ یہ ہمارے لیے اب تک کے اپنے تجربات کو جمع کرنے کا بھی وقت ہے، اور نئے اہداف کے تعین اور ضروری تبدیلیوں کے لیے احتساب کا ایک اہم مرحلہ بھی ہے۔ خاص طور پر، گوہاٹی ہائی کورٹ کی اپنی ایک الگ وراثت ہے، اپنی ایک شناخت ہے۔یہ ایک ایسا ہائی کورٹ ہے، جس کا دائرہ اختیار سب سے بڑا ہے۔ آسام کے ساتھ ساتھ، یہ اروناچل پردیش، میزورم اور ناگالینڈ، یعنی مزید 3 ریاستوں کی خدمت کے لیے بھی ذمہ دار ہیں۔ 2013 تک شمال مشرق کی 7 ریاستیں گوہاٹی ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں آتی تھیں۔ اس لیے گوہاٹی ہائی کورٹ کے 75 سال کے اس سفر میں پورے شمال مشرق کا ماضی جڑا ہوا ہے، جمہوری ورثہ جڑا ہے۔ اس موقع پر میں آسام اور شمال مشرق کے تمام لوگوں اور خاص طور پر یہاں کے تجربہ کار قانونی برادری کو اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
ساتھیوں،
آج ایک خوش کن اتفاق ہے کہ آج اور جیسا کہ سب نے ذکر کیا ہے آج ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کا یوم پیدائش بھی ہے۔ بابا صاحب نے ہمارے آئین کو بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آئین میں درج مساوات اور ہم آہنگی کی اقدار جدید ہندوستان کی بنیاد ہیں۔ میں بھی اس پرمسرت موقع پر بابا صاحب کے قدموں میں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
ساتھیوں،
اس بار یوم آزادی پر میں نے لال قلعہ سےہندوستان کی پر عزم سوسائٹی اور سب کے پریاس کے بارے میں تفصیل سے بات کی تھی۔ آج 21ویں صدی میں، ہر ہندوستانی کے خواب اور خواہشات لامحدود ہیں۔ ان کی تکمیل میں جمہوریت کے ستون کے طور پر ہماری مضبوط اور حساس عدلیہ کا کردار بھی اتنا ہی اہم ہے۔ ملک کا آئین بھی ہم سب سے یہ توقع رکھتا ہے کہ ہم معاشرے کے لیے ایک متحرک، مضبوط اور جدید قانونی نظام تشکیل دیں! مقننہ، عاملہ اور عدلیہ، تینوں اداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پرعزم ہندوستان کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کریں۔ ہم کس طرح مل کر کام کر رہے ہیں اس کی ایک مثال فرسودہ اور غیر ضروری قوانین کو منسوخ کرنا ہے۔ آج کئی قانونی روشنیاں یہاں موجود ہیں! آپ جانتے ہیں کہ ہماری بہت سی قانونی دفعات انگریزوں کے دور سے چلی آرہی ہیں۔ ایسے بہت سے قوانین ہیں جو اب مکمل طور پر غیر متعلق ہو چکے ہیں۔ ہم حکومتی سطح پر ان کا مسلسل جائزہ لے رہے ہیں۔ ہم نے ایسے دو ہزار مرکزی قوانین کی نشاندہی کی اور انہیں منسوخ کر دیا ہے جو فرسودہ اور بے کار ہو چکے تھے، ختم ہو چکے تھے۔ ہم نے 40 ہزار سے زائد تعمیلات کو بھی ختم کیا ہے۔ ہم نے کاروبار کے دوران کی گئی بہت سی چھوٹی غلطیوں کو بھی جرم سے پاک کر دیا ہے۔ اس سوچ اور نقطہ نظر نے ملک کی عدالتوں میں مقدمات کی تعداد کو کم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔
ساتھیوں،
حکومت ہو یا عدلیہ، ہر ادارے کی اپنے اپنے کردار میں آئینی ذمہ داری عام آدمی کی زندگی میں آسانی سے وابستہ ہے۔ آج، زندگی میں آسانی کے اس مقصد کے لیے ٹیکنالوجی ایک طاقتور ہتھیار کے طور پر ابھری ہے۔ ہم حکومت کے ہر ممکنہ شعبے میں ٹیکنالوجی کی مکمل صلاحیت کو بروئے کار لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ڈی بی ٹی ہو، آدھار ہو، ڈیجیٹل انڈیا مشن ہو، یہ تمام مہم غریبوں کے لیے ان کے حقوق حاصل کرنے کا ایک بڑا ذریعہ بن گئی ہے۔ آپ سبھی شاید پی ایم سوامیتو یوجنا سے واقف ہوں گے۔ دنیا کے بڑے ممالک حتیٰ کہ ترقی یافتہ ممالک کو جن چیلنجوں کا سامنا ہے ان میں سے ایک پراپرٹی کے حقوق کا مسئلہ ہے۔ جائیداد کے حقوق واضح نہ ہونے سے ملک کی ترقی رک جاتی ہے، عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ہندوستان نے پی ایم سوامیتو یوجنا کے ذریعہ اس میں بڑی برتری حاصل کی ہے۔ آج ملک کے ایک لاکھ سے زیادہ دیہاتوں میں ڈرون کے ذریعہ نقشہ سازی کا کام مکمل ہو چکا ہے اور لاکھوں لوگوں کو پراپرٹی کارڈ بھی دیے گئے ہیں۔ اس مہم سے اراضی سے متعلق تنازعات بھی کم ہوں گے، عوام کی مشکلات بھی کم ہوں گی۔
ساتھیوں،
ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے انصاف کی فراہمی کے نظام کو جدید ترین بنانے میں ٹیکنالوجی کی لامحدود گنجائش موجود ہے۔ سپریم کورٹ کی ای کمیٹی بھی اس سمت میں قابل ستائش کام کر رہی ہے۔ اس کام کو آگے بڑھانے کے لیے اس سال کے بجٹ میں ای کورٹس مشن کےتیسرے مرحلہ کا اعلان کیا گیا ہے۔ شمال مشرقی جیسے پہاڑی اور دور دراز علاقوں کے لیے انصاف کی فراہمی کے نظام میں ٹیکنالوجی کا استعمال اور بھی اہم ہو جاتا ہے۔ آج، کارکردگی کو بڑھانے اور انصاف کو قابل رسائی بنانے کے لیے، دنیا بھر کے قانونی نظاموں میں اے آئی اور مصنوعی ذہانت کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ ہمیں اے آئی کے ذریعہ عام آدمی کے لیے عدالتی کارروائی کو آسان بنانے کے لیے 'انصاف میں آسانی' کی کوششوں کو بھی بڑھانا چاہیے۔
ساتھیوں،
تنازعات کے حل کے متبادل نظام کا عدالتی نظام میں بہت بڑا کردار ہے۔ شمال مشرق میں مقامی عدالتی نظام کی ایک بھرپور روایت ہے اورابھی کرن جی نے اسے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اور مجھے بتایا گیا ہے کہ گوہاٹی ہائی کورٹ کے لاء ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے پلاٹینم جوبلی تقریب کے موقع پر 6 کتابیں شائع کی ہیں۔ یہ کتابیں رواجی قوانین پر لکھی گئی ہیں۔ میرے خیال میں یہ ایک بہت ہی قابل ستائش قدم ہے۔ اس طرح کے طریقوں کو قانون کے اسکول میں بھی پڑھایا جانا چاہئے۔
ساتھیوں،
انصاف کی آسانی کا ایک بڑا حصہ، ملک کے شہریوں کو بھی قانون کے ہر پہلو سے صحیح علم ہونا ضروری ہے۔ اس سے اس کا ملک اور آئینی انتظامات پر اعتماد بڑھتا ہے۔ اس لیے ہم نے حکومت میں ایک اور عمل شروع کیا ہے۔ جب کوئی نیا قانونی مسودہ تیار ہوتا ہے تو اس کا سادہ ورژن بھی تیار کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ کوشش یہ ہے کہ قانون ایسی زبان میں لکھا جائے جسے لوگ آسانی سے سمجھ سکیں۔ ایسا ہی طریقہ ہمارے ملک کی عدالتوں کے لیے بھی بہت مددگار ثابت ہوگا۔ آپ نے دیکھا ہوگا، ہم نے 'بھاشینی' پلیٹ فارم لانچ کیا ہے، تاکہ ہر ہندوستانی اپنی زبان میں انٹرنیٹ اور متعلقہ خدمات تک رسائی حاصل کر سکے۔ میں آپ سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ اس 'ب بھاشینی ' ویب سائٹ کو دیکھیں، یہ بہت طاقتور ہے۔ اس پلیٹ فارم سے مختلف عدالتوں میں بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
ساتھیوں،
ایک اہم مسئلہ، جس کا ذکر ہرشی کیش جی نے بھی کیا، وہ ہے ہماری جیلوں میں غیر ضروری طور پر بند قیدیوں کی تعداد۔ ہمارے مہتا جی نے بھی اس کا ذکر کیا۔ کچھ کے پاس ضمانت کے پیسے نہیں ہیں، کچھ کے پاس جرمانہ ادا کرنے کے پیسے نہیں ہیں اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے پاس سب کچھ ہے لیکن گھر والے لینے کو تیار نہیں۔ یہ تمام لوگ غریب اور کمزور طبقے سے آتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر چھوٹے چھوٹے جرائم میں برسوں سے جیلوں میں بند ہیں۔ حکومت اور عدلیہ دونوں کا فرض ہے کہ وہ ان کے تئیں حساس ہوں۔ اس لیے اس سال کے بجٹ میں ہم نے ایسے قیدیوں کو مالی مدد فراہم کرنے کے لیے الگ سے انتظام کیا ہے۔ مرکزی حکومت یہ بجٹ ریاستی حکومتوں کو دے گی، تاکہ ان قیدیوں کو مالی مدد دے کر انہیں جیل سے باہر نکالا جا سکے۔
ساتھیوں،
ہمارے یہاں کہا جاتا ہے - دھرم رکشت-رکشتہ۔ یعنی جو مذہب کی حفاظت کرتا ہے، مذہب اس کی حفاظت کرتا ہے۔ اس لیے ایک ادارے کے طور پر ہمارا دھرم، ہمارا فرض، ملک کے مفاد میں ہمارا کام سب سے اہم ہونا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارا یہ جذبہ ہمیں ترقی یافتہ ہندوستان کے ہدف تک لے جائے گا۔ میں ایک بار پھر آپ سب کو پلاٹینم جوبلی کی تقریبات کے لیے مبارکباد دیتا ہوں اور اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں۔
بہت بہت شکریہ !۔