پروگرام میں موجود راجستھان کے گورنر شری ہری بھاؤ کرشن راؤ باگڑے جی، راجستھان کے مقبول عام وزیر اعلیٰ جناب بھجن لال شرما، جسٹس جناب سنجیو کھنہ جی، ملک کے وزیر قانون جناب ارجن رام میگھوال جی، راجستھان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب منندرا موہن سریواستو جی، دیگر تمام معزز جج صاحبان، انصاف کی دنیا کے تمام معززین، خواتین و حضرات !
سب سے پہلے میں آپ سب سے معافی چاہتا ہوں۔ کیونکہ مجھے یہاں پہنچنے میں تقریباً 10 منٹ کی تاخیر ہوئی تھی۔ کیونکہ میں مہاراشٹر سے نکلا تھا، لیکن موسم کی وجہ سے وقت پر نہیں پہنچ سکا اور اس کے لیے میں آپ سب سے معذرت خواہ ہوں۔
ساتھیو،
مجھے خوشی ہے کہ مجھے آج راجستھان ہائی کورٹ کی پلاٹینم جوبلی تقریب میں آپ کے درمیان موجود ہونے کا موقع ملا ہے۔ راجستھان ہائی کورٹ نے ایسے وقت میں 75 سال مکمل کر لیے ہیں جب ہمارا آئین بھی 75 سال مکمل کرنے جا رہا ہے۔ لہذا، یہ بہت سے عظیم لوگوں کے انصاف و تعاون کو منانے کا تہوار بھی ہے۔ یہ آئین پر ہمارے یقین کی ایک مثال بھی ہے۔ میں آپ تمام ماہرین قانون اور راجستھان کے لوگوں کو اس موقع پر مبارکباد دیتا ہوں اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔
ساتھیو،
ہماری قوم کے اتحاد کی تاریخ راجستھان ہائی کورٹ کے وجود سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ جب سردار ولبھ بھائی پٹیل نے 500 سے زیادہ ریاستوں کو متحد کر کے ملک کو متحد کیا تو راجستھان کی کئی ریاستیں بھی اس میں شامل تھیں۔ جے پور، ادے پور اور کوٹا جیسی کئی ریاستوں کی اپنی ہائی کورٹس بھی تھیں۔ ان کے انضمام سے راجستھان ہائی کورٹ وجود میں آئی۔ یعنی قومی یکجہتی ہمارے عدالتی نظام کی بنیاد بھی ہے۔ یہ سنگ بنیاد جتنا مضبوط ہوگا ہمارا ملک اور اس کا نظام اتنا ہی مضبوط ہوگا۔
ساتھیو،
مجھے یقین ہے کہ انصاف ہمیشہ سادہ اور واضح ہوتا ہے۔ لیکن بعض اوقات ضوابط اسے مشکل بنا دیتے ہیں۔ انصاف کو ہر ممکن حد تک آسان اور واضح بنانا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اور میں مطمئن ہوں کہ ملک نے اس سمت میں بہت سے تاریخی اور فیصلہ کن قدم اٹھائے ہیں۔ ہم نے سینکڑوں نوآبادیاتی قوانین کو منسوخ کر دیا ہے جو مکمل طور پر فرسودہ ہو چکے تھے۔ آزادی کی اتنی دہائیوں کے بعد غلامی کی ذہنیت سے نکل کر ملک نے تعزیرات ہند کی جگہ بھارتی نیائے سنہیتا کو اپنایا ہے۔ سزا کے بجائے انصاف، یہ بھی بھارتی سوچ کی بنیاد ہے۔ بھارتی نیائے سنہیتا اس انسانی سوچ کو آگے لے جاتی ہے۔ ہندوستانی عدالتی ضابطہ ہماری جمہوریت کو نوآبادیاتی ذہنیت سے آزاد کرتا ہے۔ اب یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ضابطہ انصاف کے اصولوں کو ہر ممکن حد تک موثر بنائیں۔
ساتھیو،
گذشتہ ایک دہائی میں ہمارا ملک تیزی سے تبدیل ہوا ہے۔ کبھی ہم 10 سال پہلے 10ویں پوزیشن سے اوپر اٹھ کر دنیا کی پانچویں وسیع تر معیشت بن گئے ہیں۔ آج ملک کے خواب بھی بڑے ہیں، اہل وطن کی امنگیں بھی بڑی ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم نئے بھارت کے حساب سے نئی اختراعات انجام دیں، اور اپنے نظام کو جدید تر بنائیں۔ یہ سب کے لیے انصاف، اس کے لیے بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج تکنالوجی ہمارے نظام قانون میں اتنا اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ آئی ٹی انقلاب سے کتنی بڑی تبدیلی رونما ہو سکتی ہے، ہمارا ای۔کورٹس پروجیکٹ اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ آج ملک میں 18 ہزار سے زیادہ عدالتیں کمپیوٹرائزڈ ہو چکی ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ نیشنل جوڈیشل ڈیٹا گرڈ سے 26 کروڑ سے زائد مقدمات کی معلومات ایک مرکزی آن لائن پلیٹ فارم سے مربوط ہو چکی ہے۔ آج پورے ملک کی 3 ہزار سے زائد کورٹ کامپلیکسوں اور 1200 سے زائد جیلوں کو ویڈیو کانفرنسنگ سہولت سے آراستہ کیا گیا ہے۔ اور مجھے خوشی ہے کہ راجستھان بھی اس سمت میں کافی تیزی سے کام کر رہا ہے۔ یہاں سینکڑوں عدالتیں کمپوٹرائزڈ ہو چکی ہیں۔ کاغذوں سے مبرا عدالتیں، ای۔فائلنگ، عدالت میں طلبی کے حکم نامے کے لیے الیکٹرانک سروس، ورچووَل ہائرنگ کا نظام، یہ کوئی معمولی تبدیلیاں نہیں ہیں۔ ہم ایک عام شہری کے نظریے سے سوچیں تو دہائیوں سے ہمارے یہاں عدالت کے آگے ’چکر‘ لفظ کوئی برا مت ماننا، چکر لفظ لازمی ہوگیا تھا۔ کورٹ کا چکر، مقدمے کا چکر، یعنی ایک ایسا چکر جس میں پھنس گئے تو کب نکلیں گے کچھ پتہ نہیں! آج دہائیوں بعد اس عام شہری کے درد کو ختم کرنے، اس چکر کو ختم کرنے کے لیے ملک نے مؤثر اقدامات کیے ہیں۔ اس سے انصاف کو لے کر نئی امید جاگی ہے۔ اس امید کو ہمیں برقرار رکھنا ہے، مسلسل اپنے قانونی نظام میں اصلاح کرتے چلنا ہے۔
ساتھیو،
پچھلے کئی پروگراموں میں، میں نے آپ سب کے درمیان ہمارے پرانے نظامِ ثالثی کا بار بار ذکر کیا ہے۔ آج، ملک میں کم خرچ اور فوری فیصلوں کے لیے متبادل تنازعات کا طریقہ کار ایک بہت اہم طریقہ بنتا جا رہا ہے۔ متبادل تنازعات کے طریقہ کار کا یہ نظام ملک میں زندگی کی آسانی کے ساتھ ساتھ انصاف کی آسانی کو فروغ دے گا۔ حکومت نے قوانین میں تبدیلیاں کرکے اور نئی دفعات شامل کرکے اس سمت میں بہت سے قدم اٹھائے ہیں۔ عدلیہ کے تعاون سے یہ نظام مزید طاقتور ہو جائیں گے۔
ساتھیو،
ہماری عدلیہ نے قومی موضوعات پر چوکنا اور متحرک رہنے کی اخلاقی ذمہ داری کو مسلسل نبھایا ہے۔ کشمیر سے آرٹیکل 370 کو ہٹانے اور ملک کے آئینی ارتباط کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ سی اے اے جیسے انسانی قانون کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایسے معاملات پر قومی مفاد میں فطری انصاف کیا کہتا ہے یہ ہماری عدالتوں کے فیصلوں سے بالکل واضح ہو گیا ہے۔ ہائی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک، عدلیہ نے کئی مرتبہ ایسے معاملات پر 'ملک کو اولیت' کے عزم کو مضبوط کیا ہے۔ جیسا کہ آپ کو یاد ہوگا، میں نے 15 اگست کو ہی لال قلعہ سے سیکولر سول کوڈ کی بات کی تھی۔ اگرچہ پہلی مرتبہ کسی حکومت نے اس معاملے پر اتنی آواز اٹھائی ہے، تاہم ہماری عدلیہ کئی دہائیوں سے اس کی وکالت کر رہی ہے۔ قومی یکجہتی کے معاملے پر عدلیہ کا یہ واضح موقف عدلیہ پر اہل وطن کے اعتماد میں مزید اضافہ کرے گا۔
ساتھیو،
21ویں صدی میں ہندوستان کو آگے لے جانے میں جو لفظ بڑا کردار ادا کرنے والا ہے وہ ہے انٹیگریشن ۔ نقل و حمل کے طریقوں کا انٹیگریشن، ڈیٹا کا انٹیگریشن، صحت کے نظام کا انٹیگریشن۔ ہمارا وژن یہ ہے کہ ملک کے تمام آئی ٹی نظام جو الگ الگ کام کر رہے ہیں ان کو مربوط کیا جائے۔ پولیس، فارنسک، پراسیس سروس میکنزم اور سپریم کورٹ سے لے کر ضلعی عدالتوں تک سب کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ آج راجستھان کی تمام تر ضلعی عدالتوں میں ارتباط کا یہ منصوبہ شروع کر دیا گیا ہے۔ میں آپ سب کو اس پروجیکٹ کی کامیابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔
ساتھیو،
ٹیکنالوجی کا استعمال آج کے ہندوستان میں غریبوں کو بااختیار بنانے کے لیے ایک آزمودہ فارمولا بنتا جا رہا ہے۔ گذشتہ 10 برسوں میں کئی عالمی ایجنسیوں اور تنظیموں نے اس کے لیے ہندوستان کی تعریف کی ہے۔ ڈی بی ٹی سے لے کر یو پی آئی تک، کئی شعبوں میں ہندوستان کا کام عالمی ماڈل کے طور پر ابھرا ہے۔ ہمیں اپنے اسی تجربے کو نظام عدل میں بھی نافذ کرنا ہوگا۔ اس سمت میں ٹیکنالوجی اور ان کی اپنی زبان میں قانونی دستاویزات تک رسائی غریبوں کو بااختیار بنانے کا سب سے موثر ذریعہ بن جائے گی۔ حکومت اس کے لیے ’دِشا‘ نام کے ایک اختراعی حل کو بھی فروغ دے رہی ہے۔ ہمارے قانون کے طلباء اور دیگر قانونی ماہرین اس مہم میں ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو قانونی دستاویزات اور فیصلے ملک کی مقامی زبانوں میں مل سکیں، اس کے لیے بھی کام ہونے ہیں۔ ہماری سپریم کورٹ نے اس کا آغاز کیا ہے۔ سپریم کورٹ کی رہنمائی میں ایک سافٹ ویئر بنایا گیا ہے جس کے ذریعے عدالتی دستاویزات کا 18 زبانوں میں ترجمہ کیا جا سکتا ہے۔ میں ایسی تمام کوششوں کے لیے ہماری عدلیہ کی بھی تعریف کرتا ہوں۔
ساتھیو،
مجھے یقین ہے کہ ہماری عدالتیں انصاف کی آسانی کو اولین ترجیح دیتی رہیں گی۔ ہم جس وکست بھارت کا خواب لے کر آگے بڑھ رہے ہیں، اس میں ہر کسی کے لیے آسان اور قابل رسائی انصاف کی گارنٹی ہو، یہ بہت ضروری ہے۔ اسی امید کے ساتھ، آپ سبھی کو ایک مرتبہ پھر راجستھان ہائی کورٹ کی پلیٹنم جوبلی کی میں تہہ دل سے مبارکباد دیتا ہوں، ڈھیر ساری نیک خواہشات دیتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ!