جئے ماں کیلا دیوی، جئے ماں کیلا دیوی، جئے ماں کیلا دیوی!
جئے بوڑھے بابا کی، جئے بوڑھے بابا کی!
بھارت ماتا کی جئے، بھارت ماتا کی جے!
تمام سنتوں سے گزارش ہے کہ اپنی جگہ لے لیں۔ اتر پردیش کے پرجوش وزیر اعلیٰ جناب یوگی آدتیہ ناتھ جی، قابل احترام شری اودھیشانند گری جی، کلکی دھام کے سربراہ آچاریہ پرمود کرشنم جی، قابل احترام سوامی کیلاشانند برہم چاری جی، قابل احترام سدگرو شری رتیشور جی اور ہندوستان کے کونے کونے سے بڑی تعداد میں تشریف لائے ہوئے قابل احترام سنت صاحبان اور میرے پیارے عقیدت مند بھائیو اور بہنو!
آج اترپردیش کی سرزمین سےپربھو رام اور پربھو کرشن کی سرزمین سے عقیدت، جذبات اور روحانیت کی ایک اور لہر بہنے کو بے چین ہے۔ آج قابل احترام سنتوں کی سادھنا اور عوام الناس کے جذبے سے ایک اور مقدس دھام کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔ ابھی آپ سنتوں اور آچاریوں کی موجودگی میں مجھے عظیم الشان کلکی دھام کا سنگ بنیاد رکھنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کلکی دھام ہندوستانی عقیدے کے ایک اور عظیم مرکز کے طور پر ابھر کر سامنے آئے گا۔ میں تمام ہم وطنوں اور دنیا کے تمام عقیدت مندوں کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ ابھی آچاریہ جی کہہ رہے تھے کہ 18 سال کے انتظار کے بعد آج یہ موقع آیا ہے۔ ویسے بھی آچاریہ جی، کئی ایسے کام ہیں ، جو کچھ لوگوں نے صرف میرے لیے چھوڑے ہیں اور آئندہ جو بھی اچھا کام رہ جائے گا ہم اسےسنتوں اور عوام الناس کے آشیرواد سے بنا کر مکمل کریں گے۔
ساتھیو،
آج چھترپتی شیواجی مہاراج کا یوم پیدائش بھی ہے۔ اس لیےیہ دن زیادہ مقدس اور زیادہ متاثر کن ہو جاتا ہے۔ آج ہم ملک میں جو ثقافتی احیاء دیکھ رہے ہیں، اپنی شناخت پر فخر اور اس کے قیام میں جو اعتماد ہے، اس کی تحریک ہمیں چھترپتی شیواجی مہاراج سے ہی ملتی ہے۔ اس موقع پر میں چھترپتی شیواجی مہاراج کے قدموں میں عقیدت مندانہ سلام پیش کرتا ہوں۔ میں انہیں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو،
حال ہی میں، جب پرمود کرشنم جی مجھے مدعو کرنے آئے تھے۔ انہوں نے جو کچھ بتایا اس کی بنیاد پر میں کہہ رہا ہوں کہ آج جتنی خوشی انہیں ہو رہی ہے، اس سے کئی گنا زیادہ خوشی ان کی قابل احترام ماتا جی کی روح کو بھی ہو رہی ہوگی۔ پرمود جی نے دکھایا ہے کہ ایک بیٹا اپنی ماں کے وعدے کو پورا کرنے کے لیے اپنی زندگی کس طرح کھپا سکتا ہے۔یہ پرمود کرشنم جی نے دکھا دیا ہے۔ پرمود کرشنم جی بتا رہے تھے کہ کئی ایکڑ پر پھیلا یہ بہت بڑا دھام کئی معنوں میں خاص ہونے والا ہے۔ یہ ایک ایسا مندر ہو گا، جیسا کہ انہوں نے مجھے بتایا ہے، جس میں 10 گربھ گرہ ہوں گے اور بھگوان کے تمام 10 اوتار وں کو براجمان کیا جائے گا۔ 10 اوتاروں کے ذریعے، ہمارے شاستروں نے نہ صرف انسانوں کو بلکہ الگ الگ شکلوں میں ایشور کے اوتاروں کو پیش کیا گیاہے۔ یعنی ہم نے ہر زندگی میں ایشور کے ہی شعور کا درشن کیا ہے۔ ہم نے ایشور کی شکل کو سنگھ میں بھی دیکھا، وراہ میں بھی دیکھا اور کچھپ میں بھی دیکھاہے۔ ان تمام شکلوں کو ایک ساتھ قائم کرنے سے ہمارے عقائد کی ایک جامع تصویر سامنے آئے گی۔ یہ ایشور کا کرم ہے کہ انہوں نے اس مقدس یگیہ میں مجھے ذریعہ بنایا ہے اور مجھے سنگ بنیاد رکھنے کا موقع دیا ہے اور ابھی جب وہ خطبہ استقبالیہ دے رہے تھے ، تب انہوں نے کہا کہ ہر کسی کے پاس کچھ نہ کچھ دینے کو ہوتاہے، میرے پاس کچھ نہیں ہے، میں صرف اپنے جذبات کا اظہار کرسکتا ہوں۔ پرمود جی، اچھا ہوا کہ کچھ نہیں دیا گیا، ورنہ زمانہ اس طرح بدل گیا ہے کہ آج کے دور میں اگر سداما نے شری کرشن کو پوٹلی میں چاول دیا ہوتا تو ویڈیو سامنے آتی، سپریم کورٹ میں پی آئی ایل دائر ہوتی اور فیصلہ آتا کہ بھگوان کرشن کو کرپشن میں کچھ دیا گیا اور بھگوان کرشن کرپشن کر رہے تھے۔ اس وقت ہم جو کر رہے ہیں، بہتر ہے کہ آپ نے اپنے جذبات کا اظہار کیا اور کچھ نہ دیا۔ میں ان تمام سنتوں کو بھی خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جو اس نیک کام میں میری رہنمائی کے لیے آئے ہیں۔ میں آچاریہ پرمود کرشنم جی کو بھی مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیو،
آج ہم سنبھل میں جس موقع کا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ ہندوستان کی ثقافتی نشاۃ ثانیہ کا ایک اور شاندار لمحہ ہے۔ ابھی پچھلے مہینے، 22 جنوری کو، ملک نے ایودھیا میں انتظار کے 500 سال پورے ہوتے دیکھے۔ رام للا کے براجمان ہونے کا وہ مافوق الفطرت تجربہ، وہ روحانی احساس، ہمیں اب بھی جذباتی بنا دیتا ہے۔ دریں اثنا، ہم نے ملک سے سینکڑوں کلومیٹر دور عرب سرزمین پر ابوظہبی میں پہلے بڑے مندر کے افتتاح کا بھی مشاہدہ کیا ہے۔ جو پہلے تصور سے باہر تھا وہ اب حقیقت بن چکا ہےاور اب ہم یہاں سنبھل میں عظیم الشان کلکی دھام کا سنگ بنیاد رکھنے کا گواہ بن رہے ہیں۔
بھائیو اور بہنو،
اس سے بڑی خوش قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس طرح کے روحانی تجربات، ثقافتی فخر کے یہ لمحات یکے بعد دیگرے، ہماری نسل کے عہد آتے رہے ہیں۔ اسی عہد میں ہم نے کاشی کی سرزمین پر وشوناتھ دھام کی شان کو پھلتا پھولتا دیکھا ہے۔ اسی عرصے کے دوران ہم کاشی کا احیا ہوتے ہوئے بھی دیکھ رہے ہیں۔ اس دور میں ہم نے مہاکال کی عظمت اور رفعت بھی دیکھی ہے۔ ہم نے سومناتھ کی ترقی، کیدار وادی کی تعمیر نو بھی دیکھی ہے۔ ہم ترقی کے ساتھ ساتھ وراثت کے اس منتر کو بھی اپنا رہے ہیں۔ آج ایک طرف ہماری زیارت گاہوں کی ترقی ہو رہی ہیں تو دوسری طرف شہروں میں ہائی ٹیک انفراسٹرکچر بھی بنایا جا رہا ہے۔ اگر آج مندر بن رہے ہیں تو ملک بھر میں نئے میڈیکل کالج بھی بن رہے ہیں۔ آج ہماری قدیم مورتیاں بھی بیرون ملک سے واپس لائی جا رہی ہیں اور غیر ملکی سرمایہ کاری بھی ریکارڈ تعداد میں آ رہی ہے۔ دوستو یہ تبدیلی اس بات کا ثبوت ہے کہ وقت کا پہیہ گھوم گیا ہے۔ آج ایک نیا دور ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ یہ وقت ہے، ہم اس آمد کا کھلے دل سے خیرمقدم کریں۔ اسی لیے لال قلعہ سے میں نے ملک کو یقین دلایاتھا کہ یہی وقت ہے، یہی صحیح وقت ہے۔
ساتھیو،
جس دن ایودھیا میں رام مندر کی پران پرتشٹھا ہوئی، میں نے ای اور بات کہی تھی۔ 22 جنوری سے ایک نیا دور شروع ہوا ہے۔ جب بھگوان شری رام نے حکومت کی تو اس کا اثر ہزاروں سال تک رہا۔ اسی طرح رام للا کے براجمان ہونے کے ساتھ ہی ہندوستان کے لیے اگلے ایک ہزار سال کے لیے ایک نئے سفر کا آغاز ہو رہا ہے۔ امرت کال میں قوم کی تعمیر کے لیے پورے ہزار سال کی یہ عہد صرف ایک خواہش بھرنہیں ہے۔ یہ ایک ایسا عہد ہے جسے ہماری ثقافت نے ہر دور میں جی کر دکھایا ہے۔ آچاریہ پرمود کرشنم جی نے بھگوان کلکی کے بارے میں گہرا مطالعہ کیا ہے۔ آچاریہ پرمود کرشنم جی مجھے بہت سے حقائق بتا رہے تھے اور بھگوان کلکی کے اوتار سے متعلق کلاسیکی معلومات بھی۔ جیسا کہ انہوں نے بتایا کہ یہ کلکی پران میں لکھا ہے - شمبھلے وس-تستسہ سہسرپریوتسرا۔ یعنی بھگوان رام کی طرح ہی کلکی کا اوتار بھی ہزاروں سال کا خاکہ طے کرے گا۔
اس لیے بھائیو اور بہنو،
ہم کہہ سکتے ہیں کہ کلکی عہد کی تبدیلی کے متحرک بھی ہیں اور تحریک کا ذریعہ بھی ہیں اور شاید اسی لیے کلکی دھام ایک ایسی جگہ بننے جا رہا ہے جو ان بھگوان کے لیے وقف ہے جن کا ابھی اوتار ہونا باقی ہے۔ ذرا تصور کریں، مستقبل کے حوالے سے اس قسم کا تصور سینکڑوں اور ہزاروں سال پہلے ہمارے صحیفوں میں لکھا گیا تھا۔ ہزاروں سال بعد کے واقعات پر بھی سوچا گیا۔ یہ بہت حیرت انگیز ہے اور یہ بھی کس قدر حیرت انگیز ہے کہ آج پرمود کرشنم جیسے لوگ پورے یقین کے ساتھ ان اعتقادات کو آگے بڑھا رہے ہیں اور اس کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر رہے ہیں۔ وہ بھگوان کلکی کے لیے مندر بنا رہے ہیں اور ان کی آرادھنا کر رہے ہیں۔ ہزاروں سال بعد کا اعتقاد اور اس کے لیے ابھی سے تیاری کا مطلب ہے کہ ہم مستقبل کے لیے کتنے تیار ہیں۔ اس کے لیے پرمود کرشنم جی واقعی تعریف کے مستحق ہیں۔ میں پرمود کرشنم جی کو دور سے ایک سیاسی شخص کے طور پر جانتا تھا،میرا ان سے کوئی تعارف نہیں تھا۔ لیکن ابھی چند دن پہلے جب میری ان سے پہلی بار ملاقات ہوئی، تو مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ اس طرح کے مذہبی و روحانی کاموں میں کتنی محنت کرتے ہیں۔ کلکی مندر کے لیے انہیں پچھلی حکومتوں سے طویل جنگ لڑنی پڑی۔ عدالت کے چکر بھی لگانے پڑے! وہ بتا رہے تھے کہ ایک زمانے میں ان سے کہا جا رہا تھا کہ مندر بنانے سے امن و امان خراب ہو جائے گا۔ آج ہماری حکومت میں پرمود کرشنم جی اس کام کو ذہنی سکون کے ساتھ شروع کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ مندر اس بات کا ثبوت ہوگا کہ ہم ایک بہتر مستقبل کے بارے میں کس حد مثبت رہنے والے لوگ ہیں۔
ساتھیو،
ہندوستان ایک ایسی قوم ہے جو ہار سے بھی جیت چھین لیتی ہے۔ ہم نے سینکڑوں سالوں تک بہت سے حملوں کا سامنا کیا۔ اگر یہ کوئی اور ملک ہوتا، کوئی دوسرا معاشرہ ہوتا تو اتنے مسلسل حملوں کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہوتا۔ پھر بھی، ہم نہ صرف ثابت قدم رہے، بلکہ اور بھی مضبوط ہو کر سامنے آئے۔ آج صدیوں کی وہ قربانیاں رنگ لا رہی ہیں۔ جیسے ایک بیج برسوں سے قحط سالی میں پڑا رہا ہو، لیکن جب برسات کا موسم آتا ہے تو وہ بیج اگتا ہے۔ اسی طرح آج ہندوستان کے امرت کال میں ہندوستان کے وقار، ہندوستان کی ترقی اور ہندوستان کی اہلیت کے بیج پھوٹ رہے ہیں۔ ایک کے بعد ایک، ہر شعبے میں بہت کچھ نیا ہو رہا ہے، جیسے ملک کے سنت اور آچاریہ نئے مندر بنا رہے ہیں، اسی طرح بھگوان نے مجھے ایک قوم کی شکل میں نئے مندر بنانے کی ذمہ داری سونپی ہے۔ میں دن رات ملک کے اس مندر کو شان و شوکت دینے اور اس کی شان کو بڑھانے میں مصروف رہتا ہوں۔ اس عقیدت کے نتائج ہمیں اسی رفتار سے مل رہے ہیں۔ آج، پہلی بار، ہندوستان ایک ایسے مقام پر ہے جہاں ہم پیروی نہیں کر رہے، ہم ایک مثال قائم کر رہے ہیں۔ آج، پہلی بار، ہندوستان کو ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے میدان میں امکانات کے مرکز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ہمیں اختراعی مرکز کے طور پر پہچانا جا رہا ہے۔ پہلی بار، ہم دنیا کی 5ویں بڑی معیشت کے طور پر اتنے بڑے سنگ میل پر پہنچے ہیں۔ ہم چاند کے قطب جنوبی تک پہنچنے والا پہلا ملک بن گئے ہیں۔ بھارت میں پہلی بار وندے بھارت اور نمو بھارت جیسی جدید ٹرینیں چل رہی ہیں۔ بھارت میں پہلی بار بلٹ ٹرین چلانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ پہلی بار، ملک میں ہائی ٹیک ہائی ویز اور ایکسپریس ویز کا اتنا بڑا نیٹ ورک اور اس کی طاقت ہے۔ پہلی بار، ایک ہندوستانی شہری، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی ملک میں کیوں نہ ہو، اتنا فخر محسوس کرتا ہے۔ مثبت سوچ اور اعتماد کی جو لہر ہم ملک میں دیکھ رہے ہیں وہ ایک شاندار احساس ہے۔ اسی لیے آج ہماری طاقت بھی لامحدود ہے اور ہمارے لیے امکانات بھی بے پناہ ہیں۔
ساتھیو،
کسی قوم کی کامیابی کی توانائی اجتماعیت سے آتی ہے۔ ہمارے وید کہتے ہیں –‘ سہسر شیرشا پروش: سہسراکش:سہسر پات’۔ یعنی تعمیر کے لیے ہزاروں، لاکھ، کروڑ ہاتھ ہیں۔ چلنے کے لیے ہزاروں، لاکھوں، اربوں قدم ہیں۔ آج ہم ہندوستان میں وہی وسیع شعور دیکھ رہے ہیں۔ 'سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس، اور سب کا پریاد’ کے جذبے میں، ملک کا ہر باشندہ ایک احساس اور ایک عزم کے ساتھ ملک کے لیے کام کر رہا ہے۔ اگر آپ پچھلے 10 سالوں میں کاموں کی وسعت کو دیکھیں تو پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت 4 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو پکے مکان ملے ہیں، 11 کروڑ خاندانوں کو بیت الخلاء یعنی عزت گھر، 2.5 کروڑ خاندانوں کو گھر میں بجلی ملی ہے، 10 کروڑوں سے زیادہ خاندانوں کو پانی کے لئے کنکشن ملا، 80 کروڑ لوگوں کو مفت راشن، 10 کروڑ خواتین کو کم قیمت پر گیس سلنڈر، 50 کروڑ لوگوں کو صحت مند زندگی کے لیے آیوشمان کارڈ، تقریباً 10 کروڑ کسانوں کو کسان سمان ندھی، کورونا کے عہد میں ملک کے ہر شہری کو مفت ویکسین، سووچھ بھارت جیسی بڑی مہم، آج پوری دنیا میں ہندوستان کے ان کاموں کا چرچا ہو رہا ہے۔ اس پیمانے پر کام کیا جا سکتا ہے کیونکہ حکومت کی ان کوششوں سے اہل وطن کو تقویت ملی ہے۔ آج لوگ حکومت کی اسکیموں کا فائدہ دلانے کے لئے غریبوں کی مدد کر رہے ہیں۔ لوگ صد فیصد تکمیلیت کی مہم میں حصہ بن رہے ہیں۔ غریب کی خدمت کا یہ جذبہ سماج کو ‘نرمیں نارائن’ کی تحریک دینے والی ہماری روحانی اقدار سے ملی ہے۔ اس لئے ملک نے ‘وکست بھارت کی تعمیر’ اور اپنی ‘وراثت پر فخر’ کے پنچ پرن کا عہد لیا ہے۔
ساتھیو،
ہندوستان جب بھی بڑے عہد کرتا ہے، اس کی رہنمائی کے لئے ایشور کی طرف سے مدد کسی نہ کسی شکل میں ہمارے درمیان ضرور آتی ہے۔ اسی لئے گیتا میں بھگوان شری کرشن نے کہا کہ ‘ سمبھا وامی یُگے-یگے’ کا یقین دیا ہے، لیکن اس وچن کے ساتھ ہی ہمیں یہ حکم بھی دیتے ہیں کہ ‘‘کرمنئے وادھیکا رستے ما فلیشو کداچَن’’ یعنی ہمیں پھل کی فکر کے بغیر فرض کے جذبے کے ساتھ کام کرنا ہے۔ بھگوان کا یہ وچن ، ان کا یہ حکم، آج 140 کروڑ ملک کے شہریوں کے لئے زندگی کے اصول کی طرح ہے۔ اگلے 25 برسوں کے اس فرض کے عہد میں ہمیں محنت کا نیا باب رقم کرنا ہے۔ ہمیں بے لوث جذبے سے ملک کی خدمت کو سامنے رکھ کر کام کرنا ہے۔ ہماری ہر کوشش میں ، ہمارے ہر کام سے ملک کو کیا فائدہ ہوگا، یہ سوال ہمارے ذہن میں سب سے پہلے آنا چاہئے۔ یہی سوال ملک کے اجتماعی چیلنجوں کے حل بھی پیش کرے گا۔ مجھے یقین ہے کہ بھگوان کلکی کے آشیرواد سے عہدوں کا یہ ہمارا سفر وقت سے پہلے ہی کامیابی تک پہنچ جائے گا۔ ہم طاقت ور اور اہل ہندوستان کے خواب کوصد فیصد پورا ہوتا ہوا دیکھیں گے۔ اسی امید کے ساتھ میں آپ سب کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس عظیم الشان تقریب کے لئے اور اتنی بڑی تعداد میں سنتوں کا آشیرواد حاصل کرنے کے لئے، میں دل سے اپنی ممنونیت کا اظہار کرتے ہوئے اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں۔ میرے ساتھ بولئے
بھارت ماتا کی جئے، بھارت ماتا کی جئے،
بھارت ماتا کی جئے،
بہت بہت شکریہ!