پوری اور ہاوڑہ کے درمیان وندے بھارت ایکسپریس کو ہری جھنڈی دکھا کر روانہ کیا
اوڈیشہ میں ریل نیٹ ورک کی 100 فیصد برقیکاری کے لیے سنگ بنیاد رکھا
" جب بھی وندے بھارت ٹرین چلتی ہے تو بھارت کی رفتار اور ترقی دیکھی جاسکتی ہے"
"بھارتی ریلوے سب کو جوڑتا ہے اور ایک دھاگے میں پروتاہے"
"بھارت نے انتہائی ناموافق عالمی حالات کے باوجود اپنی ترقی کی رفتار کو برقرار رکھا ہے"
"نیا بھارت مقامی طور پر ٹکنالوجی تخلیق کر رہا ہے اور اسے ملک کے کونے کونے تک لے جا رہا ہے"
"اوڈیشہ ملک کی ان ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں ریل لائنوں کی 100 فیصد برقیکاری حاصل کی گئی ہے "
"بنیادی ڈھانچہ نہ صرف لوگوں کی زندگی کو آسان بناتا ہے بلکہ معاشرے کو بھی بااختیار بناتا ہے"
"ملک 'جن سیوا ہی پربھو سیوا' کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے - لوگوں کی خدمت بھگوان کی عبادت ہے "
"بھارت کی تیز رفتار ترقی کے لیے ریاستوں کی متوازن ترقی ضروری ہے"
"مرکزی حکومت اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پوری توجہ دے رہی ہے کہ اوڈیشہ قدرتی آفات کا کامیابی سے مقابلہ کرسکے"
وزیر اعظم نے بتایا کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں 15 وندے بھارت ٹرینیں پہلے ہی چل رہی ہیں جس سے ملک کی معیشت کو تقویت مل رہی ہے۔

جئے جگناتھ

اڈیشہ کے گورنر جناب گنیشی لال جی، وزیر اعلیٰ جناب نوین پٹنائک جی، کابینہ میں میرے دوست اشونی وشنو جی، دھرمیندر پردھان جی، بشویشور توڈو جی، دیگر تمام معززین، اور مغربی بنگال اور اڈیشہ کے میرے تمام بھائیو اور بہنو!

آج اڈیشہ اور مغربی بنگال کے لوگوں کو وندے بھارت ٹرین کا تحفہ مل رہا ہے۔ وندے بھارت ٹرین جدید بھارت  اور خواہشمند بھارتی دونوں کی علامت بن رہی ہے۔ آج جب وندے بھارت ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر  طے کرتی ہے تو اس میں بھارت  کی رفتار نظر آتی ہے اور بھارت  کی ترقی بھی نظر آتی ہے۔

اب وندے بھارت کی یہ رفتار اور ترقی بنگال اور اڈیشہ میں دستک دینے والی ہے۔ اس سے ریل سفر کا تجربہ بھی بدل جائے گا اور ترقی کے معنی بھی بدل جائیں گے۔ اب چاہے درشن کے لیے کولکتہ سے پوری جانا ہو یا کسی کام کے لیے پوری سے کولکاتہ جانا ہو، اس سفر میں صرف ساڑھے 6 گھنٹے لگیں گے۔ اس سے وقت بھی بچے گا، تجارت اور کاروبار بھی بڑھے گا اور نوجوانوں کے لیے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ میں اس کے لیے اوڈیشہ اور مغربی بنگال کے لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔

 

ساتھیوں،

جب بھی کسی کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ کہیں دور سفر کرنا ہوتا ہے تو ریل اس کی پہلی پسند ہوتی ہے، اس کی ترجیح ہوتی ہے۔ آج، اڈیشہ کی ریل کی ترقی کے لیے بہت سے دوسرے بڑے کام کیے گئے ہیں۔ پوری اور کٹک ریلوے اسٹیشنوں کی جدید کاری کا سنگ بنیاد رکھنا ہو، ریلوے لائنوں کو دوگنا کرنا ہو، یا اڈیشہ میں ریلوے لائنوں کی 100فیصد برق کاری  کا نشانہ ہو، میں ان سب کے لیے اڈیشہ کے لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔

ساتھیوں،

یہ آزادی کے سنہری دور کا وقت ہے، یہ بھارت  کے اتحاد کو مزید مضبوط کرنے کا وقت ہے۔ جتنا زیادہ اتحاد ہوگا، بھارت  کی اجتماعی طاقت اتنی ہی بلند ہوگی۔ یہ وندے بھارت ٹرینیں بھی اسی جذبے کی عکاس ہیں۔ اس امرت کال میں وندے بھارت ٹرینیں بھی ترقی کا انجن بن رہی ہیں، اور ’ایک بھارت، شریشٹھ بھارت‘ کے جذبے کو بھی آگے بڑھا رہی ہیں۔

بھارتی ریلوے سب کو جوڑتی ہے، ایک دھاگے میں باندھتی ہے۔ وندے بھارت ٹرین بھی اسی طرز پر آگے بڑھے گی۔ یہ وندے بھارت ہاوڑہ اور پوری، بنگال اور اڈیشہ کے درمیان روحانی اور ثقافتی رشتوں کو مزید مضبوط کرے گی۔ آج ملک کی مختلف ریاستوں میں تقریباً 15 ایسی وندے بھارت ٹرینیں چل رہی ہیں۔ یہ جدید ٹرینیں ملکی معیشت کو بھی فروغ دے رہی ہیں۔

ساتھیوں،

گذشتہ برسوں کے دوران، بھارت  نے سخت ترین عالمی حالات میں بھی اپنی ترقی کی رفتار کو برقرار رکھا ہے۔ اس کے پیچھے ایک بڑی وجہ ہے کہ اس ترقی میں ہر ریاست کی شرکت ہے، ملک ہر ریاست کو ساتھ لے کر آگے بڑھ رہا ہے۔ ایک وقت تھا، جب کوئی نئی ٹیکنالوجی آتی تھی یا کوئی نئی سہولت بنتی تھی، وہ صرف دلی یا کچھ بڑے شہروں تک ہی محدود رہتی تھی۔ لیکن آج کا بھارت  اس پرانی سوچ کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ رہا ہے۔

آج کا نیا بھارت  بھی خود ٹیکنالوجی بنا رہا ہے اور تیزی سے نئی سہولیات کو ملک کے کونے کونے تک پہنچا رہا ہے۔ یہ وندے بھارت ٹرین، بھارت نے خود ہی بنائی ہے۔ آج، بھارت  اپنے طور پر 5 جی  ٹیکنالوجی تیار کر  کے اسے ملک کے دور دراز علاقوں تک لے جا رہا ہے۔

بھارت نے بھی کورونا جیسی وبا کے لیے دیسی ویکسین تیار کر کے دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ اور ان تمام کوششوں میں مشترک بات یہ ہے کہ یہ تمام سہولتیں کسی ایک شہر یا ایک ریاست تک محدود نہیں تھیں بلکہ ہر کسی کو پہنچیں، تیزی سے پہنچیں۔ ہماری وندے بھارت ٹرینیں بھی اب شمال سے جنوب، مشرق سے مغرب تک ملک کے ہر کونے کو چھوتی ہیں۔

 

بھائیو اور بہنو،

’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کی اس پالیسی کا سب سے بڑا فائدہ ملک کی ان ریاستوں کو مل رہا ہے جو ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئی تھیں۔ پچھلے 9-8 سال میں، اڈیشہ میں ریل پروجیکٹوں کے بجٹ میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ 2014 سے پہلے پہلے 10 سال میں یہاں ہر سال اوسطاً صرف 20 کلومیٹر ریل لائنیں بچھائی جاتی تھیں۔ جبکہ سال23-2022میں یعنی صرف ایک سال میں یہاں تقریباً 120 کلومیٹر نئی ریل لائنیں بچھائی گئی ہیں۔

2014 سے پہلے کے 10 سال میں، اوڈیشہ میں یہاں 20 کلومیٹر سے بھی کم لائنوں کو دوگنا کیا گیا تھا۔ گذشتہ سال یہ تعداد بھی بڑھ کر 300 کلومیٹر تک پہنچ گئی ہے۔ اڈیشہ کے لوگ جانتے ہیں کہ تقریباً 300 کلومیٹر طویل کھوردھا -بولانگیر پروجیکٹ کئی سال سے زیر التوا تھا۔ آج اس منصوبے پر کام بھی تیزی سے جاری ہے۔ ہری داس پور-پارادیپ نئی ریلوے لائن ہو، ٹٹلاگڑھ-رائے پور لائن کو دوگنا کرنا اور برق کاری ہو،  جیسے کاموں میں اڈیشہ کے لوگوں کو  برسوں سے انتظار  تھا وہ مکمل ہو رہے ہیں۔

آج، اڈیشہ ملک کی ان ریاستوں میں شامل ہے، جہاں ریل نیٹ ورک کی 100 فیصد برق کاری کی گئی ہے۔ مغربی بنگال میں بھی 100 فیصد برق کاری کا کام تیزی سے جاری ہے۔ جس کی وجہ سے ٹرینوں کی رفتار میں اضافہ ہوا ہے اور مال گاڑیوں کا وقت بھی بچ گیا ہے۔ اڈیشہ جیسی ریاست، جو معدنی دولت کا اتنا بڑا ذخیرہ ہے، مرکز ہے، اسے ریلوے  کی برق کاری سے زیادہ فائدہ ملے گا۔ اس سے صنعتی ترقی کی رفتار تیز ہونے کے ساتھ ساتھ ڈیزل سے ہونے والی آلودگی سے بھی نجات ملے گی۔

ساتھیوں،

بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کا ایک اور پہلو بھی ہے، جس کے بارے میں زیادہ بات نہیں کی جاتی۔ بنیادی ڈھانچہ نہ صرف لوگوں کی زندگی آسان بناتا ہے بلکہ یہ معاشرے کو بااختیار بھی بناتا ہے۔ جہاں بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے وہاں عوام کی ترقی بھی پیچھے رہ جاتی ہے۔ جہاں بنیادی ڈھانچے کی ترقی ہوتی ہے وہیں لوگوں کی تیز رفتار ترقی بھی ہوتی ہے۔

آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ پی ایم سوبھاگیہ یوجنا کے تحت حکومت ہند نے 2.5 کروڑ سے زیادہ گھرانوں کو مفت بجلی کنکشن دیے ہیں۔ اس میں اڈیشہ میں تقریباً 25 لاکھ گھر اور بنگال میں 7.25 لاکھ گھر بھی شامل ہیں۔ اب آپ سوچیں کہ اگر یہ ایک منصوبہ شروع نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ آج 21ویں صدی میں بھی ڈھائی کروڑ گھروں کے بچے اندھیرے میں تعلیم حاصل کرنے اور اندھیرے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ۔ وہ خاندان جدید رابطوں اور بجلی آنے پر دستیاب تمام سہولیات سے منقطع رہتے ہیں۔

ساتھیوں،

آج ہم ہوائی اڈوں کی تعداد 75 سے بڑھا کر 150 کے قریب کرنے کی بات کرتے ہیں۔ یہ بھارت  کی بڑی کامیابی ہے، لیکن اس کے پیچھے کی سوچ اسے اور بھی بڑا بناتی ہے۔ آج وہ شخص بھی ہوائی جہاز میں سفر کر سکتا ہے، جس کے لیے یہ کبھی زندگی کا سب سے بڑا خواب تھا۔ آپ نے سوشل میڈیا پر ایسی کئی تصاویر دیکھی ہوں گی، جن میں ملک کے عام شہری ایئرپورٹ کے اپنے تجربات بتا رہے ہیں۔ جب ان کا بیٹا یا بیٹی پہلی بار انہیں ہوائی جہاز کی سواری پر لے جاتا ہے تو اس خوشی کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔

 

ساتھیوں،

بنیادی ڈھانچے سے متعلق بھارت  کی یہ کامیابیاں بھی آج مطالعہ کا موضوع ہیں۔ جب ہم بنیادی ڈھانچے کی تخلیق کے لیے 10 لاکھ کروڑ روپے مختص کرتے ہیں تو اس سے لاکھوں ملازمتیں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ جب ہم کسی علاقے کو ریل اور ہائی وے جیسے رابطے سے جوڑتے ہیں تو اس کا اثر صرف سفر کی سہولت تک محدود نہیں ہوتا۔ یہ کسانوں اور کاروباری افراد کو نئی منڈیوں سے جوڑتا ہے، یہ سیاحوں کو سیاحتی مقامات سے جوڑتا ہے۔ یہ طلباء کو ان کی پسند کے کالج سے جوڑتا ہے۔ اسی سوچ کے ساتھ آج بھارت  جدید بنیادی ڈھانچے پر ریکارڈ سرمایہ کاری کر رہا ہے۔

ساتھیوں،

آج ملک صرف عوامی خدمت کی ثقافتی سوچ سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ہمارے روحانی نظام نے صدیوں سے اس خیال کی پرورش کی ہے۔ پوری جیسی یاترا، جگناتھ مندر جیسے مقدس مقامات اس کے مراکز رہے ہیں۔ کئی غریب لوگ صدیوں سے بھگوان جگن ناتھ کے مہا پرساد سے کھانا حاصل کر رہے ہیں۔

اسی جذبے کے ساتھ، آج ملک پردھان منتری غریب کلیان یوجنا چلا رہا ہے، جس میں 80 کروڑ لوگوں کو مفت راشن دیا جا رہا ہے۔ آج اگر کسی غریب کو علاج کی ضرورت ہے تو اسے آیوشمان کارڈ کے ذریعے 5 لاکھ روپے تک کا مفت علاج ملتا ہے۔ پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت کروڑوں غریبوں کو پکے مکان ملے ہیں۔ گھر میں اجولا گیس سلنڈر ہو یا جل جیون مشن کے تحت پانی کی فراہمی، آج غریبوں کو وہ تمام بنیادی سہولتیں بھی مل رہی ہیں، جن کے لیے انہیں برسوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔

ساتھیوں،

بھارت  کی تیز رفتار ترقی کے لیے بھارت  کی ریاستوں کی متوازن ترقی بھی اتنی ہی ضروری ہے۔ آج ملک کی یہ کوشش ہے کہ کوئی بھی ریاست وسائل کی کمی کی وجہ سے ترقی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہے۔ اسی لیے 15ویں مالیاتی کمیشن میں اوڈیشہ اور بنگال جیسی ریاستوں کے لیے پہلے سے زیادہ بجٹ کی سفارش کی گئی۔ اوڈیشہ جیسی ریاست کو بھی اتنی وسیع قدرتی دولت سے نوازا گیا ہے۔ لیکن اس سے قبل غلط پالیسیوں کی وجہ سے ریاستوں کو اپنے وسائل سے محروم ہونا پڑا۔

ہم نے معدنی دولت کو مدنظر رکھتے ہوئے کانکنی پالیسی میں اصلاحات کیں۔ اس کی وجہ سے معدنی دولت رکھنے والی تمام ریاستوں کی آمدنی میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ جی ایس ٹی لاگو ہونے کے بعد ٹیکس سے ہونے والی آمدنی میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔ آج ان وسائل کو ریاست کی ترقی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور گاؤں میں غریبوں کی خدمت میں استعمال ہو رہا ہے۔ مرکزی حکومت اس بات کو یقینی بنانے پر پوری توجہ دے رہی ہے کہ اڈیشہ قدرتی آفات کا کامیابی سے مقابلہ کر سکے۔ ہماری حکومت نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور این ڈی آر ایف کے لیے اوڈیشہ کو 8 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ رقم  دی ہے ۔ اس سے طوفان کے دوران  جان و مال دونوں کی حفاظت میں مدد ملی ہے۔

ساتھیوں،

مجھے یقین ہے کہ آنے والے وقتوں میں اڈیشہ، بنگال اور پورے ملک کی ترقی کی یہ رفتار مزید آگے بڑھے گی۔ بھگوان جگناتھ، ماں  کالی کی مہربانی سے، ہم یقینی طور پر ایک نئے اور ترقی یافتہ بھارت  کے ہدف تک پہنچیں گے۔ اس خواہش کے ساتھ، آپ سب کا بہت بہت شکریہ! ایک بار پھر سب کو جئے جگناتھ!

 

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM Modi's address at the Parliament of Guyana
November 21, 2024

Hon’ble Speaker, मंज़ूर नादिर जी,
Hon’ble Prime Minister,मार्क एंथनी फिलिप्स जी,
Hon’ble, वाइस प्रेसिडेंट भरत जगदेव जी,
Hon’ble Leader of the Opposition,
Hon’ble Ministers,
Members of the Parliament,
Hon’ble The चांसलर ऑफ द ज्यूडिशियरी,
अन्य महानुभाव,
देवियों और सज्जनों,

गयाना की इस ऐतिहासिक पार्लियामेंट में, आप सभी ने मुझे अपने बीच आने के लिए निमंत्रित किया, मैं आपका बहुत-बहुत आभारी हूं। कल ही गयाना ने मुझे अपना सर्वोच्च सम्मान दिया है। मैं इस सम्मान के लिए भी आप सभी का, गयाना के हर नागरिक का हृदय से आभार व्यक्त करता हूं। गयाना का हर नागरिक मेरे लिए ‘स्टार बाई’ है। यहां के सभी नागरिकों को धन्यवाद! ये सम्मान मैं भारत के प्रत्येक नागरिक को समर्पित करता हूं।

साथियों,

भारत और गयाना का नाता बहुत गहरा है। ये रिश्ता, मिट्टी का है, पसीने का है,परिश्रम का है करीब 180 साल पहले, किसी भारतीय का पहली बार गयाना की धरती पर कदम पड़ा था। उसके बाद दुख में,सुख में,कोई भी परिस्थिति हो, भारत और गयाना का रिश्ता, आत्मीयता से भरा रहा है। India Arrival Monument इसी आत्मीय जुड़ाव का प्रतीक है। अब से कुछ देर बाद, मैं वहां जाने वाला हूं,

साथियों,

आज मैं भारत के प्रधानमंत्री के रूप में आपके बीच हूं, लेकिन 24 साल पहले एक जिज्ञासु के रूप में मुझे इस खूबसूरत देश में आने का अवसर मिला था। आमतौर पर लोग ऐसे देशों में जाना पसंद करते हैं, जहां तामझाम हो, चकाचौंध हो। लेकिन मुझे गयाना की विरासत को, यहां के इतिहास को जानना था,समझना था, आज भी गयाना में कई लोग मिल जाएंगे, जिन्हें मुझसे हुई मुलाकातें याद होंगीं, मेरी तब की यात्रा से बहुत सी यादें जुड़ी हुई हैं, यहां क्रिकेट का पैशन, यहां का गीत-संगीत, और जो बात मैं कभी नहीं भूल सकता, वो है चटनी, चटनी भारत की हो या फिर गयाना की, वाकई कमाल की होती है,

साथियों,

बहुत कम ऐसा होता है, जब आप किसी दूसरे देश में जाएं,और वहां का इतिहास आपको अपने देश के इतिहास जैसा लगे,पिछले दो-ढाई सौ साल में भारत और गयाना ने एक जैसी गुलामी देखी, एक जैसा संघर्ष देखा, दोनों ही देशों में गुलामी से मुक्ति की एक जैसी ही छटपटाहट भी थी, आजादी की लड़ाई में यहां भी,औऱ वहां भी, कितने ही लोगों ने अपना जीवन समर्पित कर दिया, यहां गांधी जी के करीबी सी एफ एंड्रूज हों, ईस्ट इंडियन एसोसिएशन के अध्यक्ष जंग बहादुर सिंह हों, सभी ने गुलामी से मुक्ति की ये लड़ाई मिलकर लड़ी,आजादी पाई। औऱ आज हम दोनों ही देश,दुनिया में डेमोक्रेसी को मज़बूत कर रहे हैं। इसलिए आज गयाना की संसद में, मैं आप सभी का,140 करोड़ भारतवासियों की तरफ से अभिनंदन करता हूं, मैं गयाना संसद के हर प्रतिनिधि को बधाई देता हूं। गयाना में डेमोक्रेसी को मजबूत करने के लिए आपका हर प्रयास, दुनिया के विकास को मजबूत कर रहा है।

साथियों,

डेमोक्रेसी को मजबूत बनाने के प्रयासों के बीच, हमें आज वैश्विक परिस्थितियों पर भी लगातार नजर ऱखनी है। जब भारत और गयाना आजाद हुए थे, तो दुनिया के सामने अलग तरह की चुनौतियां थीं। आज 21वीं सदी की दुनिया के सामने, अलग तरह की चुनौतियां हैं।
दूसरे विश्व युद्ध के बाद बनी व्यवस्थाएं और संस्थाएं,ध्वस्त हो रही हैं, कोरोना के बाद जहां एक नए वर्ल्ड ऑर्डर की तरफ बढ़ना था, दुनिया दूसरी ही चीजों में उलझ गई, इन परिस्थितियों में,आज विश्व के सामने, आगे बढ़ने का सबसे मजबूत मंत्र है-"Democracy First- Humanity First” "Democracy First की भावना हमें सिखाती है कि सबको साथ लेकर चलो,सबको साथ लेकर सबके विकास में सहभागी बनो। Humanity First” की भावना हमारे निर्णयों की दिशा तय करती है, जब हम Humanity First को अपने निर्णयों का आधार बनाते हैं, तो नतीजे भी मानवता का हित करने वाले होते हैं।

साथियों,

हमारी डेमोक्रेटिक वैल्यूज इतनी मजबूत हैं कि विकास के रास्ते पर चलते हुए हर उतार-चढ़ाव में हमारा संबल बनती हैं। एक इंक्लूसिव सोसायटी के निर्माण में डेमोक्रेसी से बड़ा कोई माध्यम नहीं। नागरिकों का कोई भी मत-पंथ हो, उसका कोई भी बैकग्राउंड हो, डेमोक्रेसी हर नागरिक को उसके अधिकारों की रक्षा की,उसके उज्जवल भविष्य की गारंटी देती है। और हम दोनों देशों ने मिलकर दिखाया है कि डेमोक्रेसी सिर्फ एक कानून नहीं है,सिर्फ एक व्यवस्था नहीं है, हमने दिखाया है कि डेमोक्रेसी हमारे DNA में है, हमारे विजन में है, हमारे आचार-व्यवहार में है।

साथियों,

हमारी ह्यूमन सेंट्रिक अप्रोच,हमें सिखाती है कि हर देश,हर देश के नागरिक उतने ही अहम हैं, इसलिए, जब विश्व को एकजुट करने की बात आई, तब भारत ने अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान One Earth, One Family, One Future का मंत्र दिया। जब कोरोना का संकट आया, पूरी मानवता के सामने चुनौती आई, तब भारत ने One Earth, One Health का संदेश दिया। जब क्लाइमेट से जुड़े challenges में हर देश के प्रयासों को जोड़ना था, तब भारत ने वन वर्ल्ड, वन सन, वन ग्रिड का विजन रखा, जब दुनिया को प्राकृतिक आपदाओं से बचाने के लिए सामूहिक प्रयास जरूरी हुए, तब भारत ने CDRI यानि कोएलिशन फॉर डिज़ास्टर रज़ीलिएंट इंफ्रास्ट्रक्चर का initiative लिया। जब दुनिया में pro-planet people का एक बड़ा नेटवर्क तैयार करना था, तब भारत ने मिशन LiFE जैसा एक global movement शुरु किया,

साथियों,

"Democracy First- Humanity First” की इसी भावना पर चलते हुए, आज भारत विश्वबंधु के रूप में विश्व के प्रति अपना कर्तव्य निभा रहा है। दुनिया के किसी भी देश में कोई भी संकट हो, हमारा ईमानदार प्रयास होता है कि हम फर्स्ट रिस्पॉन्डर बनकर वहां पहुंचे। आपने कोरोना का वो दौर देखा है, जब हर देश अपने-अपने बचाव में ही जुटा था। तब भारत ने दुनिया के डेढ़ सौ से अधिक देशों के साथ दवाएं और वैक्सीन्स शेयर कीं। मुझे संतोष है कि भारत, उस मुश्किल दौर में गयाना की जनता को भी मदद पहुंचा सका। दुनिया में जहां-जहां युद्ध की स्थिति आई,भारत राहत और बचाव के लिए आगे आया। श्रीलंका हो, मालदीव हो, जिन भी देशों में संकट आया, भारत ने आगे बढ़कर बिना स्वार्थ के मदद की, नेपाल से लेकर तुर्की और सीरिया तक, जहां-जहां भूकंप आए, भारत सबसे पहले पहुंचा है। यही तो हमारे संस्कार हैं, हम कभी भी स्वार्थ के साथ आगे नहीं बढ़े, हम कभी भी विस्तारवाद की भावना से आगे नहीं बढ़े। हम Resources पर कब्जे की, Resources को हड़पने की भावना से हमेशा दूर रहे हैं। मैं मानता हूं,स्पेस हो,Sea हो, ये यूनीवर्सल कन्फ्लिक्ट के नहीं बल्कि यूनिवर्सल को-ऑपरेशन के विषय होने चाहिए। दुनिया के लिए भी ये समय,Conflict का नहीं है, ये समय, Conflict पैदा करने वाली Conditions को पहचानने और उनको दूर करने का है। आज टेरेरिज्म, ड्रग्स, सायबर क्राइम, ऐसी कितनी ही चुनौतियां हैं, जिनसे मुकाबला करके ही हम अपनी आने वाली पीढ़ियों का भविष्य संवार पाएंगे। और ये तभी संभव है, जब हम Democracy First- Humanity First को सेंटर स्टेज देंगे।

साथियों,

भारत ने हमेशा principles के आधार पर, trust और transparency के आधार पर ही अपनी बात की है। एक भी देश, एक भी रीजन पीछे रह गया, तो हमारे global goals कभी हासिल नहीं हो पाएंगे। तभी भारत कहता है – Every Nation Matters ! इसलिए भारत, आयलैंड नेशन्स को Small Island Nations नहीं बल्कि Large ओशिन कंट्रीज़ मानता है। इसी भाव के तहत हमने इंडियन ओशन से जुड़े आयलैंड देशों के लिए सागर Platform बनाया। हमने पैसिफिक ओशन के देशों को जोड़ने के लिए भी विशेष फोरम बनाया है। इसी नेक नीयत से भारत ने जी-20 की प्रेसिडेंसी के दौरान अफ्रीकन यूनियन को जी-20 में शामिल कराकर अपना कर्तव्य निभाया।

साथियों,

आज भारत, हर तरह से वैश्विक विकास के पक्ष में खड़ा है,शांति के पक्ष में खड़ा है, इसी भावना के साथ आज भारत, ग्लोबल साउथ की भी आवाज बना है। भारत का मत है कि ग्लोबल साउथ ने अतीत में बहुत कुछ भुगता है। हमने अतीत में अपने स्वभाव औऱ संस्कारों के मुताबिक प्रकृति को सुरक्षित रखते हुए प्रगति की। लेकिन कई देशों ने Environment को नुकसान पहुंचाते हुए अपना विकास किया। आज क्लाइमेट चेंज की सबसे बड़ी कीमत, ग्लोबल साउथ के देशों को चुकानी पड़ रही है। इस असंतुलन से दुनिया को निकालना बहुत आवश्यक है।

साथियों,

भारत हो, गयाना हो, हमारी भी विकास की आकांक्षाएं हैं, हमारे सामने अपने लोगों के लिए बेहतर जीवन देने के सपने हैं। इसके लिए ग्लोबल साउथ की एकजुट आवाज़ बहुत ज़रूरी है। ये समय ग्लोबल साउथ के देशों की Awakening का समय है। ये समय हमें एक Opportunity दे रहा है कि हम एक साथ मिलकर एक नया ग्लोबल ऑर्डर बनाएं। और मैं इसमें गयाना की,आप सभी जनप्रतिनिधियों की भी बड़ी भूमिका देख रहा हूं।

साथियों,

यहां अनेक women members मौजूद हैं। दुनिया के फ्यूचर को, फ्यूचर ग्रोथ को, प्रभावित करने वाला एक बहुत बड़ा फैक्टर दुनिया की आधी आबादी है। बीती सदियों में महिलाओं को Global growth में कंट्रीब्यूट करने का पूरा मौका नहीं मिल पाया। इसके कई कारण रहे हैं। ये किसी एक देश की नहीं,सिर्फ ग्लोबल साउथ की नहीं,बल्कि ये पूरी दुनिया की कहानी है।
लेकिन 21st सेंचुरी में, global prosperity सुनिश्चित करने में महिलाओं की बहुत बड़ी भूमिका होने वाली है। इसलिए, अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान, भारत ने Women Led Development को एक बड़ा एजेंडा बनाया था।

साथियों,

भारत में हमने हर सेक्टर में, हर स्तर पर, लीडरशिप की भूमिका देने का एक बड़ा अभियान चलाया है। भारत में हर सेक्टर में आज महिलाएं आगे आ रही हैं। पूरी दुनिया में जितने पायलट्स हैं, उनमें से सिर्फ 5 परसेंट महिलाएं हैं। जबकि भारत में जितने पायलट्स हैं, उनमें से 15 परसेंट महिलाएं हैं। भारत में बड़ी संख्या में फाइटर पायलट्स महिलाएं हैं। दुनिया के विकसित देशों में भी साइंस, टेक्नॉलॉजी, इंजीनियरिंग, मैथ्स यानि STEM graduates में 30-35 परसेंट ही women हैं। भारत में ये संख्या फोर्टी परसेंट से भी ऊपर पहुंच चुकी है। आज भारत के बड़े-बड़े स्पेस मिशन की कमान महिला वैज्ञानिक संभाल रही हैं। आपको ये जानकर भी खुशी होगी कि भारत ने अपनी पार्लियामेंट में महिलाओं को रिजर्वेशन देने का भी कानून पास किया है। आज भारत में डेमोक्रेटिक गवर्नेंस के अलग-अलग लेवल्स पर महिलाओं का प्रतिनिधित्व है। हमारे यहां लोकल लेवल पर पंचायती राज है, लोकल बॉड़ीज़ हैं। हमारे पंचायती राज सिस्टम में 14 लाख से ज्यादा यानि One point four five मिलियन Elected Representatives, महिलाएं हैं। आप कल्पना कर सकते हैं, गयाना की कुल आबादी से भी करीब-करीब दोगुनी आबादी में हमारे यहां महिलाएं लोकल गवर्नेंट को री-प्रजेंट कर रही हैं।

साथियों,

गयाना Latin America के विशाल महाद्वीप का Gateway है। आप भारत और इस विशाल महाद्वीप के बीच अवसरों और संभावनाओं का एक ब्रिज बन सकते हैं। हम एक साथ मिलकर, भारत और Caricom की Partnership को और बेहतर बना सकते हैं। कल ही गयाना में India-Caricom Summit का आयोजन हुआ है। हमने अपनी साझेदारी के हर पहलू को और मजबूत करने का फैसला लिया है।

साथियों,

गयाना के विकास के लिए भी भारत हर संभव सहयोग दे रहा है। यहां के इंफ्रास्ट्रक्चर में निवेश हो, यहां की कैपेसिटी बिल्डिंग में निवेश हो भारत और गयाना मिलकर काम कर रहे हैं। भारत द्वारा दी गई ferry हो, एयरक्राफ्ट हों, ये आज गयाना के बहुत काम आ रहे हैं। रीन्युएबल एनर्जी के सेक्टर में, सोलर पावर के क्षेत्र में भी भारत बड़ी मदद कर रहा है। आपने t-20 क्रिकेट वर्ल्ड कप का शानदार आयोजन किया है। भारत को खुशी है कि स्टेडियम के निर्माण में हम भी सहयोग दे पाए।

साथियों,

डवलपमेंट से जुड़ी हमारी ये पार्टनरशिप अब नए दौर में प्रवेश कर रही है। भारत की Energy डिमांड तेज़ी से बढ़ रही हैं, और भारत अपने Sources को Diversify भी कर रहा है। इसमें गयाना को हम एक महत्वपूर्ण Energy Source के रूप में देख रहे हैं। हमारे Businesses, गयाना में और अधिक Invest करें, इसके लिए भी हम निरंतर प्रयास कर रहे हैं।

साथियों,

आप सभी ये भी जानते हैं, भारत के पास एक बहुत बड़ी Youth Capital है। भारत में Quality Education और Skill Development Ecosystem है। भारत को, गयाना के ज्यादा से ज्यादा Students को Host करने में खुशी होगी। मैं आज गयाना की संसद के माध्यम से,गयाना के युवाओं को, भारतीय इनोवेटर्स और वैज्ञानिकों के साथ मिलकर काम करने के लिए भी आमंत्रित करता हूँ। Collaborate Globally And Act Locally, हम अपने युवाओं को इसके लिए Inspire कर सकते हैं। हम Creative Collaboration के जरिए Global Challenges के Solutions ढूंढ सकते हैं।

साथियों,

गयाना के महान सपूत श्री छेदी जगन ने कहा था, हमें अतीत से सबक लेते हुए अपना वर्तमान सुधारना होगा और भविष्य की मजबूत नींव तैयार करनी होगी। हम दोनों देशों का साझा अतीत, हमारे सबक,हमारा वर्तमान, हमें जरूर उज्जवल भविष्य की तरफ ले जाएंगे। इन्हीं शब्दों के साथ मैं अपनी बात समाप्त करता हूं, मैं आप सभी को भारत आने के लिए भी निमंत्रित करूंगा, मुझे गयाना के ज्यादा से ज्यादा जनप्रतिनिधियों का भारत में स्वागत करते हुए खुशी होगी। मैं एक बार फिर गयाना की संसद का, आप सभी जनप्रतिनिधियों का, बहुत-बहुत आभार, बहुत बहुत धन्यवाद।