وزیروں کی کونسل کے میرے سبھی ساتھی ، مختلف ریاستوں کے معزز وزرائے اعلیٰ ساتھی، بجلی اور توانائی کے شعبے سے وابستہ دیگر سبھی شخصیتیں، خواتین و حضرات۔
آج کا یہ پروگرام 21ویں صدی کے نئے بھارت کے نئے مقاصد اور نئی حصولیابیوں کا مظہر ہے۔ آزادی کے اس امرت کال میں بھارت نے اگلے 25 سال کے ویژن پر کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ اگلے 25 سال میں بھارت کی ترقی کو رفتار دینے میں توانائی کے شعبے ، بجلی کے شعبے کا بڑا رول ہے۔ توانائی کے شعبے کی مضبوطی کاروبار کو آسان بنانے کے لیے بھی ضروری ہے اور زندگی کو آسان بنانے کے لیے بھی اتنی ہی اہم ہے۔ ہم سبھی نے دیکھا ہے کہ ابھی میری جن مستفیدین سے بات ہوئی ان کی زندگی میں بجلی کتنی بڑی تبدیلی لائی ہے۔
ساتھیو،
آج ہزاروں کروڑ روپے کے جن پروجیکٹس کا آغاز اور افتتاح ہوا ہے ، وہ بھارت کی توانائی کی بچت اور صاف ستھرے مستقبل کی سمت اہم قدم ہے۔ یہ پروجیکٹ قابل تجدید توانائی کے ہمارے مقاصد ، صاف ستھری ٹکنالوجی کے ہمارے عزم اور صاف ستھری نقل و حمل کی ہماری امنگوں کو تقویت دینے والے ہیں۔ ان پروجیکٹس سے ملک میں بڑی تعداد میں صاف ستھرے روزگار کی بھی تشکیل ہوگی۔ یہ پروجیکٹ بھلے ہی تلنگانہ ، کیرالہ، رجستھان، گجرات اور لداخ سے متعلق ہیں لیکن ان کا فائدہ پورے ملک کو ہونے والا ہے۔
ساتھیو ،
ہائیڈروجن گیس سے ملک کی گاڑیوں سے لے کر ملک کی رسوئی تک چلیں، اس کو لے کر گزشتہ برسوں میں بہت تذکرہ ہوا ہے۔ آج اس کے لیے بھارت نے ایک بڑا قدم اٹھایا ہے۔ لداخ اور گجرات میں صاف ستھری ہائیڈروجن ، اس کے دو بڑے پروجیکٹس پر آج سے کام شروع ہو رہا ہے۔ لداخ میں نصب پلانٹ ملک میں گاڑیوں کے لیے صاف ستھری ہائیڈروجن کی پیداوار کرے گا۔ یہ ملک کا پہلا پروجیکٹ ہوگا جو صاف ستھری ہائیڈروجن پر مبنی ٹرانسپورٹ کے کمرشیئل استعمال کو ممکن بنائے گا۔ یعنی لداخ ملک کی پہلی جگہ ہوگی جہاں بہت ہی جلد ایندھن کے سیل والی الیکٹرک گاڑی چلنی شروع ہوگی۔ یہ لداخ کو کاربن سے پاک علاقہ بنانے میں بھی مدد کرے گی۔
ساتھیو،
ملک میں پہلی مرتبہ گجرات میں پائپ کے ذریعے قدرتی گیس میں صاف ستھری ہائیڈروجن ملانے کا بھی پروجیکٹ شروع ہوا ہے۔ ابھی تک ہم نے پیٹرول اور ہوائی ایندھن میں ایتھنول ملائی ہے۔ اب ہم پائپ والی قدرتی گیس میں صاف ستھری ہائیڈروجن ملانے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس سے قدرتی گیس کے لیے غیر ملکی انحصار میں کمی آئے گی اور جو پیسہ بیرون ملک جاتا ہے وہ بھی ملک کے کام آئے گا۔
ساتھیو،
آٹھ سال پہلے ملک کے بجلی کے شعبے کی کیا صورتحال تھی یہ اس پروگرام میں موجود سبھی تجربے کار ساتھیوں کو پتا ہے۔ ہمارے ملک میں گرڈ کے سلسلے میں دقت تھی ، گرڈ فیل ہوا کرتے تھے ، بجلی کی پیداوار گھٹ رہی تھی ، کٹوتی بڑھ رہی تھی ، تقسیم ڈاواں ڈول تھی ایسی صورتح میں آٹھ سال پہلے ہم نے ملک کے بجلی کے شعبے کے ہر پہلو کو یکسر تبدیل کرنے کا بیڑا اٹھایا۔
بجلی کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے چار الگ الگ سمتوں میں ایک ساتھ کام کیا گیا- پیداوار ، ترسیل، تقسیم اور سب سے اہم کنکشن۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ یہ سبھی آپس میں ایک دوسرے سے کس طرح مربوط ہوئے ہیں۔ اگر پیداوار نہیں ہوگی تو ترسیل و تقسیم کا نظام مضبوط نہیں ہوگا۔ کنیکشن دے کر بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا اس لیے زیادہ سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کے لیے پورے ملک میں بجلی کی موثر تقسیم کے لیے ٹرانسمیشن سے مربوط پرانے نیٹ ورک کی جدید کاری کے لیے ملک کے کروڑوں گھروں تک بجلی کنکشن پہنچانے کے لیے ہم نے پوری طاقت لگا دی ہے۔
انہیں سب کوششوں کا نتیجہ یہ ہے کہ آج صرف ملک کے ہر گھر تک بجلی ہی نہیں پہنچ رہی بلکہ زیادہ سے زیادہ گھنٹے بجلی ملنے بھی لگی ہے۔ پچھلے 8 سال میں ملک میں تقریباً ایک لاکھ 70 ہزار میگاواٹ بجلی پیداوارکی صلاحیت کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ایک ملک ایک بجلی گرڈ آج ملک کی طاقت بن چکا ہے۔ پورے ملک کو مربوط کرنے کے لیے تقریباً ایک لاکھ 70 ہزار سرکٹ کلومیٹر ٹرانسمیشن لائینیں بچھائی گئی ہیں۔ سوبھاگیہ یوجنا کے تحت تقریباً تین کروڑ بجلی کنکشن دے کر ہم سیچوریشن کے ہدف تک بھی پہنچ رہے ہیں۔
ساتھیو،
ہمارا بجلی کا شعبہ مستعد ہو ، موثر ہو اور بجلی عام آدمی کی پہنچ میں ہو، اس کے لیے گذشتہ برسوں میں لگاتار ضروری صلاحات کی گئی ہیں۔ آج جو نئی بجلی اصلاح اسکیم شروع ہوئی ہے ، وہ بھی اسی جانب اٹھایا گیا ایک اور قدم ہے۔ اس کے تحت بجلی کا نقصان کم کرنے کے لیے اسمارٹ میٹرنگ جیسے انتظامات بھی کیے جائیں گے۔ جس سے استعداد میں اضافہ ہوگا۔ بجلی کی جو کھپت ہوتی ہے اس سے متعلق شکایتیں ختم ہو جائیں گی۔ ملک بھر کی ڈسکام کو ضروری اقتصادی مدد بھی دی جائے گی تاکہ یہ جدید بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کر سکیں اور اقتصادی طور پر خود کو بااختیار بنانے کے لیے ضروری اصلاح بھی کر سکیں۔ اس میں ڈسکام کی طاقت بڑھے گی اور جنتا کو وافر بجلی مل پائے گی اور ہمارا بجلی کا شعبہ اور مضبوط ہوگا۔
ساتھیو،
اپنی توانائی کی فراہمی کو مضبوط کرنے کے لیے آج بھارت جس طرح قابل تجدید توانائی پر توجہ دے رہا ہے اُس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہم نے آزادی کے 75 سال پورے ہونے تک 175 گیگاواٹ قابل تجدید توانائی ، یہ صلاحیت پیدا کرنے کا عزم کیا تھا۔ آج ہم اس مقصدس کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ ابھی تک غیر روایتی وسائل سے تقریباً 170 گیگاواٹ صلاحیت قائم بھی ہو چکی ہے۔ آج نصب شدہ شمسی صلاحیت کے معاملے میں بھارت دنیا کے سرکردہ چار یا پانچ ملکوں میں ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے شمسی بجلی پلانٹ میں آج بہت سے ایسے ہیں جو بھارت میں ہیں۔اسی سلسلے میں آج دو اور بڑے شمسی پلانٹ ملک کو ملے ہیں۔ تلنگانہ اور کیرالہ میں تعمیر کیے گئے یہ پلانٹ ملک کے پہلے اور دوسرے نمبر کے سب سے بڑے فلوٹنگ شمسی پلانٹس ہیں۔ ان سے صاف ستھری توانائی تو ملے گی ہی ، سورج کی گرمی سے جو پانی بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے، وہ ہی نہیں ہوگا۔ راجستھان میں ایک ہزار میگاواٹ صلاحیت والے سنگل لوکیشن شمسی بجلی پلانٹ کی تعمیر کا بھی آج سے کام شروع ہو چکا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ، یہ پروجیکٹس توانائی کے معاملے میں بھارت کی خود کفالت کی علامتیں بنیں گے۔
ساتھیو،
اپنی توانائی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے بڑے شمسی پلانٹس لگانے کے ساتھ ہی زیادہ سے زیادہ گھروں میں شمسی پینل لگانے پر بھی زور دے رہا ہے۔ لوگ آسانی سے چھت پر شمسی پروجیکٹ لگا پائیں اس کے لیےآج ایک قومی پورٹل بھی شروع کیا گیا ہے یہ گھر پر ہی بجلی پیدا کرنے اور بجلی کی پیداوار سے آمدنی دونوں طرح سے مدد کرے گا۔
سرکار کا زور بجلی کی پیداوار بڑھانے کےساتھ ساتھ بجلی کی بچت کرنے پر بھی ہے۔ بجلی بچانا یعنی مستقبل سجانا ، یاد رکھیے بجلی بچانا مطلب بجلی بچانا، مستقبل سجانا۔ پی ایم کسوم یوجنا اس کی ایک بہترین مثال ہے ۔ ہم کسانوں کو شمسی پمپ کی سہولت دے رہے ہیں، کھیتوں کے کنارے شمسی پیل لگانے میں مدد کر رہے ہیں۔ اور اس سے انّ داتا ، ارجا داتا بھی بن رہا ہے، کسان کے خرچ میں بھی کمی آئی ہے اور اسے آمدنی کا ایک اضافی وسیلہ بھی ملا ہے۔ ملک کے عام آدمی کا بجلی کا بل کم کرنے میں اُجالا یوجنا میں بھی بڑا رول ادا کیا ہے۔ گھروں میں ایل ای ڈی بلب کی وجہ سے ہر سال غریب اور متوسط طبقے کے بجلی بل میں 50 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ بچ رہے ہیں، ہمارے کنبوں میں 50 ہزار کروڑ روپے بچنا، اپنے آپ میں بہت بڑی مدد ہے۔
ساتھیو،
اس پروگرام سے کئی ریاستوں کے معزز وزرائے اعلیٰ اور دیگر نمائندے وابستہ ہیں۔ اس موقعے پر ایک بہتر ہی سنجیدہ بات اور اپنی بڑی تشویش بھی میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں اور یہ تشویش اتنی بڑی ہے کہ ایک بار ہندوستان کے ایک وزیراعظم کو 15 اگست کو لال قلعہ کی تقریب میں اس تشویش کا سدھار کرنا پڑا تھا۔ وقت کےساتھ ہماری ریاست میں ایک سنجیدہ خامی آتی گئی ہے۔ سیاست میں عوام کو سچ بتانے کی ہمت ہونی چاہیے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ ریاستوں میں اس سے بچنے کی کوشش ہوتی ہے۔ یہ حکمت عملی فوری طور پر اچھی سیاست لگ سکتی ہے لیکن یہ آج کے سچ کو ، آج کے چیلنجوں کو کل کے لیے اپنے بچوں کے لیے اپنی آئندہ نسلوں کے لیے ٹالنے والی منصوبہ بندی ہے، ان کا مستقبل تباہ کرنے والی باتیں ہیں۔ مسئلے کا حل آج تلاش کرنے کے بجائے ان کو یہ سوچ کر ٹال دینا کہ کوئی اور اس کو سمجھے گا ، کوئی اور سلجھائے گا، آنے والا جو کرے گا ، کرے گا، مجھے کیا میں تو پانچ سال – دس سال میں چلا جاؤنگا۔ یہ سوچ ملک کی بھلائی کے لیے مناسب نہیں ہے۔ اسی سوچ کی وجہ سے ملک کی کئی ریاستوں میں آج بجلی کا شعبہ بڑی مشکل میں ہے۔ اور جب کسی ریاست کا بجلی کا شعبہ کمزور ہوتا ہے تو اس کا اثر پورے ملک کے بجلی کے شعبے پر بھی پڑتا ہے۔ اور اس ریاست کے مستقبل کو اندھیرے کی طرف ڈھکیل دیتا ہے۔
آپ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے تقسیم کے شعبے کےنقصانات دو ہندسوں میں ہیں۔ جب کہ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں یہ ایک ہندسے میں برائے نام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے یہاں بجلی کی بربادی بہت ہے اور اس لیے بجلی کی مانگ پوری کرنے کے لیے ہمیں ضرورت سے کہیں زیادہ بجلی پیدا کرنی پڑتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ تقسیم اور ترسیل کے دوران جو نقصان ہوتا ہے اسے کم کرنے کے لیے ریاستوں میں ضروری سرمایہ کیوں نہیں ہوتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ زیادہ تر بجلی کمپنیوں کے پاس فنڈ کی بھاری کمی رہتی ہے ۔ سرکاری کمپنیوں کا بھی یہ حال ہو جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں کئی کئی سال پرانی ترسیلی لائنوں سے کام چلایا جاتا ہے۔ نقصان بڑھتا جاتا ہے اور عوام کو منگی بجلی ملتی ہے۔ اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ بجلی کمپنیاں بجلی تو وافر مقدار میں پیدا کر رہی ہیں لیکن پھر بھی ان کےپاس ضروری فنڈ نہیں رہتا۔ اور زیادہ تر یہ کمپنیاں حکومتوں کی ہیں ۔ اس تلخ حقیقت سے آپ سبھی واقف ہیں۔ شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ تقسیم کار کمپنیوں کا پیسہ انہیں وقت پر ملا ہو۔ ان کے ریاستی سرکاروں پر کافی زیادہ بقایہ جات رہتے ہیں۔ ملک کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ الگ الگ ریاستوں کا ایک لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کا بل بقایہ ہے۔ یہ پیسہ انہیں بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو دینا ہے۔ ان سے بجلی لینی ہے لیکن پیسے نہیں دے رہے۔ بجلی تقسیم کار کمپنیوں کا بہت سے سرکاری محکموں پر مقامی اداروں پر بھی 60 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کا بقایہ ہے اور چیلنج اتنا ہی نہیں ہے الگ الگ ریاستوں میں بجلی پر سبسڈی کا جو عزم کیا گیا ہے وہ پیسہ بھی ان کمپنیوںکو وقت پر اور پورا ہیں مل پاتا ہے بقایہ بھی یہ بڑے بڑے واعدے کر کے جو کیا گیا ہے نہ وہ بھی بقایہ قریب قریب 75 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کا ہے۔ یعنی بجلی بنانے سے لے کر گھر گھر پہنچانے تک کا ذمہ جن کا ہے ان کا تقریباً ڈھائی لاکھ کروڑ روپیہ پھنسا ہوا ہے۔ ایسی صورت میں بنیادی ڈھانچے پر مستقبل کی ضرورتوں پر سرمایہ کاری ہو پائے گی یا نہیں ہو پائے گی۔ کیا ہم ملک کو ، ملک کی آنے والی نسل کو ، اندھیرے میں جینے کے لیے مجبور کر رہے ہیں؟
ساتھیو،
یہ جو پیسہ ہے ، سرکار ہی کمپنیاں ہیں کچھ پرائیویٹ کمپنیاں ہیں ان کی لاگت کا پیسہ ہے۔ اگر وہ بھی نہیں ملے گا تو پھر کمپنیاں نہ ترقی کریں گی، نہ بجلی کی نئی پیداوار ہوگی ، نہ ضرورتیں پوری ہوں گی ، اس لیے ہمیں صورتحال کی سنجیدگی کو سمجھنا ہوگا اور بجلی کے کارخانے لگانا ہے تو پانچ چھ سال کے بعد بجلی آتی ہے۔ کارخانہ لگانے میں پانچ چھ سال چلے جاتے ہیں اس لیے میں سبھی ہم وطنوں سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتا ہوں کہ دیش کے تابناک مستقبل کے لیے دعا کرتا ہوں۔ ہمارا ملک اندھیرے میں نہ جائے۔ اس کےلیے بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ اور اس لیے میں کہتا ہوں کہ یہ سیاست کا نہیں ، قومی پالیسی اور قومی تعمیر کا سوال ہے۔ بجلی سے وابستہ پورے نظام کی حفاظت کا سوال ہے۔ جن ریاستوں میں بقایہ جات زیر التوا ہے، میرا ان سے اصرار ہے کہ وہ جتنا جلد ممکن ہو ان چیزوں کا تشفیہ کریں۔ ساتھ ہی ان وجوہات پر بھی ایمانداری سے غور کریں کہ جب ملک کے لوگ ایمانداری سے اپنا بجلی کا بل چکاتے ہیں تب بھی کچھ ریاستوں کا بار بار بقایہ کیوں رہتا ہے؟ ملک کی سبھی ریاستوں کے ذریعے اس چیلنج کا موزوں حل تلاش کرنا آج وقت کا تقاضہ ہے۔
ساتھیو،
ملک کی تیز ترقی کے لیے بہت ضروری ہے کہ بجلی اور توانائی کے شعبے کا بنیادی ڈھانچہ ہمیشہ مضبوط رہے۔ ہمیشہ جدید ہوتارہے۔ ہم اس صورتحال کا تصور بھی کر سکتے ہیں۔ اگر گزشتہ آٹھ برس میں سب کی کوشش سے اس شعبے کو نہیں بہتر بنایا گیا ہوتا تو آج ہی کتنی مصیبتیں آکر کھڑی ہو گئی ہوتیں۔ بار بار بلیک آؤٹ ہوتے ۔ شہر ہو یا گاؤں کچھ گھنٹے ہی بجلی آتی۔ کھیت میں سینچائی کے لیے کسان ترس جاتے۔ کارخانے تھم جاتے۔ آج ملک کا شہری سہولتیں چاہتا ہے۔ موبائل فون کی چارجنگ جیسی چیزیں اُس کے لیے روٹی ، کپڑا اور مکان جیسی ضرورت بن گئی ہیں۔ بجلی کی صورتحال پہلے جیسی ہوتی تو یہ کچھ بھی ہیں ہو پاتا۔ اس لیے بجلی کے شعبے کی مضبوطی ہر کسی کا عزم ہونا چاہیے ہر کسی کی ذمہ داری ہونی چاہیے۔ ہر کسی کو اس فرض کو نبھانا چاہیے۔ ہمیں یاد رکھنا ہے، ہم اپنے اپنے فرائض پر کھڑے اتریں گے تبھی امرت کال کے ہمارے عزائم پورے ہوں گے۔
آپ لوگ اچھی طرح ، گاؤں کےلوگوں سے اگر میں بات کروں گا تو میں کہوں گا کہ گھر میں سب کو گھی ہو، تیل ہو، آٹا ہو، اناج ہو، مسالحے ہوں، سبزی ہو، سب ہو لیکن چولہا جلنے کا انتظام نہ ہو تو پورا گھر بھوکا رہے گا یا نہیں رہے گا۔ توانائی کے بغیر گاڑی چلے گی کیا؟ نہیں چلے گی۔ جیسے گھر میں اگر چولہا نہیں جلتا ہے، سب بھوکے رہتے ہیں، ملک میں بھی اگر بجلی کی توانائی نہیں آئی تو سب کچھ تھم جائے گا۔
اور اس لیے میں آج ہم وطنوں کے سامنے بہت سنجیدگی سے اور سبھی ریاستی سرکاروں سے استعدعا کرتے ہوئے درخواست کرتا ہوں کہ آیئے ہم سیاست کے راستے سے ہٹ کر قومیت کے راستے پر چل پڑیں۔ ہم مل کر ملک کو مستقبل میں کبھی بھی اندھیرے میں نہ جانا پڑے، اس کے لیے آج سے ہی کام کریں گے۔ کیونکہ برسوں لگ جاتےہیں اس کام کو کرنے میں۔
ساتھیو،
میں توانائی برادری کے سبھی ساتھیوں کو مبارکباد دیتا ہوں اتنے بڑے شاندار انعقاد پر۔ ملک کے کونے کونےمیں بجلی کے سلسلے میں اتنی بڑی بیداری لانے پر۔ ایک بار پھر نئے پروجیکٹ کی بھی میں بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں ، بجلی کے شعبے سے وابستہ سبھی فریقوں کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ میری طرف سے آپ سب کو تابناک مستقبل کی بہت بہت یک خواہشات۔
بہت بہت شکریہ!