ہندوستان کے چیف جسٹس جناب ڈی وائی چندر چوڑ جی، مرکزی وزیر قانون، میرے ساتھی جناب ارجن رام میگھوال جی، برطانیہ کے لارڈ چانسلر مسٹر ایلکس چاک، اٹارنی جنرل، سالیسٹر جنرل، سپریم کورٹ کے دیگر تمام معزز جج صاحبان، چیئرمین اور بار کونسل کے ممبران، مختلف ممالک کے نمائندے، ریاستوں سے آئے ہوئے نمائندے، خواتین و حضرات۔
دنیا بھر کی قانونی برادری کی اہم شخصیات سے ملنا اور ان سے روبرو ہونا میرے لیے ایک خوشگوار تجربہ ہے۔ ہندوستان کے کونے کونے سے لوگ آج یہاں موجود ہیں۔ انگلینڈ کے لارڈ چانسلر اور انگلینڈ کی بار ایسوسی ایشنز کے مندوبین بھی اس کانفرنس میں ہمارے درمیان ہیں۔ اس میں دولت مشترکہ کے ممالک اور افریقی ممالک کے نمائندے بھی شرکت کر رہے ہیں۔ ایک طرح سے بین الاقوامی وکلا کانفرنس ہندوستان کے وسودھیو کٹمبکم کے جذبے کی علامت بن گئی ہے۔ میں اس پروگرام میں آنے والے تمام بین الاقوامی مہمانوں کا ہندوستان میں تہہ دل سے خیرمقدم کرتا ہوں۔ میں بار کونسل آف انڈیا کو بھی خصوصی طور پر مبارک باد پیش کرتا ہوں جو اس تقریب کے انعقاد کی ذمہ داری کو نہایت ہی خوش اسلوبی سے نبھا رہی ہے۔
ساتھیوں،
کسی بھی ملک کی تعمیر میں وہاں کی قانونی برادری بہت بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ ہندوستان میں عدلیہ اور بار برسوں سے ہندوستانی عدالتی نظام کے محافظ رہے ہیں۔ میں ایک بات خاص طور پر اپنے ان غیر ملکی مہمانوں کو بتانا چاہتا ہوں جو یہاں موجود ہیں۔ حال ہی میں ہندوستان نے اپنی آزادی کے 75 سال مکمل کیے ہیں اور قانونی پیشہ ور افراد نے آزادی کی اس لڑائی میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ جد و جہد آزادی کے دوران بہت سے وکلا نے قانون کی پریکٹس چھوڑ کر قومی تحریک کا راستہ اختیار کیا۔ ہمارے بابائے قوم مہاتما گاندھی، ہمارے آئین کے اہم معمار بابا صاحب امبیڈکر، ملک کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد، ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو، ملک کے پہلے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل، آزادی کے وقت ملک کو سمت دینے والے لوک مانیہ تلک، ایسی کئی عظیم ہستیاں بھی وکیل تھیں۔ یعنی قانونی ماہرین کے تجربے نے آزاد ہندوستان کی بنیاد کو مضبوط کرنے کا کام کیا۔ اور آج جب ہندوستان پر دنیا کا اعتماد بڑھ رہا ہے، ہندوستان کے غیر جانبدار اور آزاد عدالتی نظام کا اس میں ایک نمایاں کردار ہے۔
آج یہ کانفرنس ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب بھارت کئی تاریخی فیصلوں کا گواہ بن چکا ہے۔ صرف ایک دن پہلے، ہندوستان کی پارلیمنٹ نے لوک سبھا اور اسمبلیوں میں خواتین کو 33 فیصد ریزرویشن دینے کا قانون پاس کیا ہے۔ ناری شکتی وندن ایکٹ ہندوستان میں خواتین کی قیادت میں ترقی کو ایک نئی سمت اور نئی توانائی دے گا۔ ابھی چند دن پہلے جی-20 کے تاریخی ایونٹ میں دنیا نے ہماری جمہوریت، ہماری ڈیموگرافی اور ہماری ڈپلومیسی کی جھلک دیکھی ہے۔ ایک ماہ قبل اسی دن ہندوستان چاند کے قطب جنوبی کے قریب پہنچنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا تھا۔ ایسی بہت سی کامیابیوں کے ساتھ ہندوستان آج 2047 تک ترقی کے ہدف کے لیے سخت محنت کر رہا ہے۔ اور یقینی طور پر اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہندوستان کو ایک مضبوط، غیر جانبدارانہ، آزاد عدالتی نظام کی بنیاد کی ضرورت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بین الاقوامی وکلا کانفرنس اس سمت میں ہندوستان کے لیے بہت مفید ثابت ہوگی۔ مجھے امید ہے کہ اس کانفرنس کے دوران تمام ممالک ایک دوسرے کے بہترین طریقوں سے بہت کچھ سیکھ سکیں گے۔
دوستوں،
اکیسویں صدی میں آج ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جو گہرائی کے ساتھ باہم مربوط ہے۔ ہر قانونی ذہن یا ادارہ اپنے دائرہ اختیار کے بارے میں بہت باشعور ہے۔ لیکن بہت سی قوتیں ہیں جن کے خلاف ہم لڑ رہے ہیں، انہیں سرحدوں یا دائرہ اختیار کی کوئی پرواہ نہیں۔ اور جب خطرات عالمی ہوں تو ان سے نمٹنے کا طریقہ بھی عالمی ہونا چاہیے۔ سائبر دہشت گردی ہو، منی لانڈرنگ ہو، مصنوعی ذہانت اور اس کے غلط استعمال کی بے پناہ صلاحیت ہو، ایسے مسائل پر تعاون کے لیے عالمی فریم ورک بنانا کسی ایک حکومت کے بس کا معاملہ نہیں ہے۔ اس کے لیے مختلف ممالک کے قانونی فریم ورک کو بھی ایک دوسرے سے جوڑنا ہوگا۔ جیسا کہ ہم ایئر ٹریفک کنٹرول کے لیے مل کر کام کرتے ہیں۔ کوئی ملک یہ نہیں کہتا کہ یہاں تمہارا قانون ہے، میرا قانون یہاں ہے، نہیں، پھر کسی کا جہاز نہیں اترے گا۔ ہر کوئی عام اصول و ضوابط، پروٹوکول پر عمل کرتا ہے۔ اسی طرح ہمیں مختلف ڈومین میں عالمی فریم ورک تیار کرنا ہوگا۔ بین الاقوامی وکلا کانفرنس کو اس سمت میں غور و فکر کرنا چاہیے اور دنیا کو ایک نئی سمت دینا چاہیے۔
ساتھیوں،
ایک اہم موضوع متبادل تنازعہ کا حل (ADR) کا ہے، تشار جی نے بھی اسے وسیع پیمانے پر بیان کیا۔ تجارتی لین دین کی بڑھتی ہوئی پیچیدگی کے ساتھ، ADR کی مشق بھی پوری دنیا میں تیزی سے بڑھی ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس کانفرنس میں اس موضوع پر بھی تفصیلی بات کی جائے گی۔ ہندوستان میں صدیوں سے پنچایت کے ذریعے تنازعات کے حل کا نظام رہا ہے، یہ ہماری ثقافت میں ہے۔ اس غیر رسمی نظام کو ایک منظم شکل دینے کے لیے حکومت ہند نے ثالثی ایکٹ بھی نافذ کیا ہے۔ ہندوستان میں لوک عدالت کا نظام بھی تنازعات کو حل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ اور مجھے یاد ہے کہ جب میں گجرات میں تھا تو اوسطاً ایک کیس کا فیصلہ کرنے کا خرچ صرف 35 پیسے تھا۔ یعنی یہ نظام ہمارے ملک میں موجود ہے۔ گزشتہ 6 سالوں میں لوک عدالتوں میں تقریباً 7 لاکھ معاملوں کو حل کیا گیا ہے۔
ساتھیوں،
انصاف کی فراہمی کا ایک اور بڑا پہلو بھی ہے، جس پر بہت کم گفتگو ہوتی ہے، وہ ہے زبان اور قانون کی سادگی۔ اب ہم حکومت ہند میں بھی یہ سوچ رہے ہیں کہ قانون کو دو طرح سے پیش کیا جائے، ایک اس زبان میں جس کے آپ عادی ہیں اور دوسری ایسی زبان میں جسے ملک کا عام آدمی سمجھ سکے۔ جس زبان میں قوانین لکھے جا رہے ہیں اور جس زبان میں عدالتی کارروائی چل رہی ہے وہ انصاف کو یقینی بنانے میں بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ پہلے کسی بھی قانون کا مسودہ بہت پیچیدہ ہوتا تھا۔ ایک حکومت کے طور پر، ہم اب ہندوستان میں نئے قوانین متعارف کرانے کی سمت میں بہت مخلصانہ کوششیں کر رہے ہیں، جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا، دو طریقوں سے اور انہیں جتنا زیادہ سے زیادہ آسان بنا سکیں اور انہیں جتنا زیادہ سے زیادہ ہندوستانی زبانوں میں دستیاب کرا سکیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ڈیٹا کے تحفظ کے قانون میں بھی ہم نے آسانیاں پیدا کرنے کی پہلی شروعات کی ہے اور مجھے پختہ یقین ہے کہ عام آدمی کو اس تعریف میں سہولت ملے گی۔ میرے خیال میں یہ ہندوستان کے عدالتی نظام میں بہت بڑی تبدیلی ہے۔ اور میں نے چندر چوڑ جی کو ایک بار عوامی طور پر مبارکباد دی تھی کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ اب ہم عدالتی فیصلے کا آپریٹو حصہ مدعی کی زبان میں دستیاب کرائیں گے۔ دیکھیں اس کام کو مکمل کرنے میں 75 سال لگے اور اس کے لیے بھی مجھے آنا پڑا۔ میں سپریم کورٹ آف انڈیا کو بھی مبارک باد دینا چاہوں گا کہ اس نے اپنے فیصلوں کا کئی مقامی زبانوں میں ترجمہ کرنے کا انتظام کیا۔ اس سے ہندوستان کے عام آدمی کو بھی بہت مدد ملے گی۔ کوئی مریض ہو، اگر ڈاکٹر بھی مریض کی زبان میں بات کرے تو آدھا مرض یوں ہی ٹھیک ہو جاتا ہے، بس یہاں یہ معاملہ باقی ہے۔
ساتھیوں،
ہم ٹیکنالوجی سے، اصلاحات اور نئے عدالتی طریقوں کے ذریعے قانونی عمل کو کس طرح بہتر بنا سکتے ہیں، اس پر مسلسل کام ہونا چاہیے۔ تکنیکی ترقی نے عدلیہ کے نظام کے لیے بڑے مواقع پیدا کیے ہیں۔ تھوڑی سی تکنیکی ترقی نے ہماری تجارت، سرمایہ کاری اور تجارت کے شعبے کو بہت بڑا فروغ دیا ہے۔ ایسے میں قانونی پیشے سے وابستہ لوگوں کو بھی اس تکنیکی اصلاحات سے زیادہ سے زیادہ جڑنا ہوگا۔ مجھے امید ہے کہ بین الاقوامی وکلا کانفرنس عدالتی نظام پر پوری دنیا کا اعتماد بڑھانے میں مددگار ثابت ہوگی۔ میں اس تقریب سے وابستہ تمام لوگوں کو ایک کامیاب تقریب کے لیے اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ۔