بھارت ماتا کی جئے!

بھارت ماتا کی جئے!

نمسکار! کیم چھو! ونکم! ست سری اکال! جن دوبرے!

یہ نظارہ واقعی حیرت انگیز ہے اور آپ کایہ جوش و خروش بھی حیرت انگیز ہے۔ جب سے میں نے یہاں قدم رکھا ہے آپ تھکتے ہی نہیں ۔ آپ سب پولینڈ کے مختلف حصوں سے آئے ہیں، ہر ایک کی زبانیں، بولیاں، کھانے کی عادات مختلف ہیں۔ لیکن ہر کوئی ہندوستانیت کے احساس سے جڑا ہوا ہے۔ آپ نے میرا یہاں اتنا شاندار استقبال کیا، میں اس استقبال کے لیے آپ سب کا، پولینڈ کے لوگوں کا بہت مشکور ہوں۔

دوستو،

پچھلے ایک ہفتے سے آپ لوگ ہندوستان کی میڈیا میں خبروں میں ہیں، پولینڈ کے لوگوں کا بہت چرچا ہو رہا ہے، اور پولینڈ کے بارے میں بھی بہت کچھ بتایا جا رہا ہے۔ اور ایک اور سرخی چل رہی ہے اور میڈیا میں بتایا جا رہا ہے کہ 45 سال بعد کوئی ہندوستانی وزیر اعظم پولینڈ آیا ہے۔ میری قسمت میں بہت سی اچھی چیزیں ہیں۔ ابھی چند ماہ پہلے میں آسٹریا گیا تھا۔ وہاں بھی کوئی ہندوستانی وزیر اعظم چار دہائیوں بعد پہنچا تھا۔ کئی ممالک ایسے ہیں جہاں دہائیوں سے ہندوستان کا کوئی وزیر اعظم نہیں پہنچا۔ لیکن اب حالات مختلف ہیں۔ کئی دہائیوں سے ہندوستان کی پالیسی تمام ممالک سے مساوی فاصلہ برقرار رکھنے کی تھی۔ آج کے ہندوستان کی پالیسی تمام ممالک کے  ساتھ یکساں  طورپرقریب رہنے کی ہے۔آج کا ہندوستان سب کے ساتھ جڑنا چاہتا ہے، آج کا ہندوستان سب کی ترقی کی بات کرتا ہے، آج کا ہندوستان سب کے ساتھ ہے، سب کی بھلائی کے بارے میں سوچتا ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ آج دنیا ہندوستان کو وشو بندھو کے طورپر اعزازدے رہی ہے۔ آپ کو یہاں بھی یہی تجربہ ہو رہا ہےنا، کیا میری معلومات درست ہیں؟

دوستو،

ہمارے لیے یہ جغرافیائی سیاست کا نہیں بلکہ اقدار اورروایتوں کا معاملہ ہے۔ جنہیں کہیں جگہ نہیں ملی، ہندوستان نے انہیں اپنے دل میں اور اپنی سرزمین پر جگہ دی ہے۔ یہ ہمارا ورثہ ہے جس پر ہر ہندوستانی کو فخر ہے۔ پولینڈ ہندوستان کے اس سناتن جذبے کا گواہ رہا ہے۔ آج بھی پولینڈ میں ہر کوئی ہمارے جام صاحب کو دوبرے یعنی اچھے مہاراجہ کے نام سے جانتا ہے۔دوسری جنگ عظیم کے دوران جب پولینڈ مشکلات میں گھرا ہوا تھا،جب پولینڈ کی ہزاروں عورتیں اور بچے پناہ کے لیے جگہ جگہ بھٹک رہے تھے، تب جام صاحب، دگ وجے سنگھ رنجیت سنگھ جڈیجہ جی آگے آئے۔ اس نے پولش خواتین اور بچوں کے لیے ایک خصوصی کیمپ قائم کیا تھا ۔جام صاحب نے کیمپ کے پولش بچوں سے کہا تھاکہ جس طرح نواں نگر کے لوگ مجھے باپو کہتے ہیں، اسی طرح میں بھی تمہارا باپو ہوں۔

 

|

دوستو،

جام صاحب کے خاندان سے میرا بہت رابطہ رہا ہے، وہ مجھ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ چند ماہ پہلے بھی میں  موجودہ جام صاحب سے ملنے گیا تھا۔ان کے کمرے میں پولینڈ سے متعلق ایک تصویر اب بھی موجود ہے۔ اور مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ پولینڈ نے جام صاحب کے بنائے ہوئے راستے کو آج بھی زندہ رکھا ہوا ہے۔ دو دہائیاں قبل، جب گجرات میں ایک زبردست زلزلہ آیا تھا، جس نے جام نگر کو بھی متاثر کیا تھا، پولینڈ مدد کے لیے پہنچنے والے اولین ممالک میں سے ایک تھا۔ یہاں تک کہ پولینڈ میں بھی لوگوں نے جام صاحب اور ان کے خاندان کو پوری عزت دی ہے۔ وارسا کے گڈ مہاراجہ اسکوائر میں یہ محبت صاف نظر آتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے مجھے ڈوبرے مہاراجہ میموریل اور کولہاپور میموریل دیکھنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ اس ناقابل فراموش لمحے میں، میں ایک معلومات  بھی آپ کو دینا چاہتا ہوں۔ ہندوستان جام صاحب میموریل یوتھ ایکسچینج پروگرام شروع کرنے جا رہا ہے۔ اس کے تحت ہندوستان ہر سال پولینڈ کے 20 نوجوانوں کو ہندوستان آنے کی دعوت دے گا۔ اس سے پولینڈ کے نوجوانوں کو ہندوستان کے بارے میں مزید جاننے کا موقع ملے گا۔

دوستو،

یہا ں کاکولہاپور میموریل بھی کولہاپور کے عظیم شاہی خاندان کے تئیں پولش لوگوں کا ایک خراج عقیدت ہے۔’ مہاراشٹرچیاانی مراٹھی سنسکرت چیا پرتی پولینڈ چیا ناگرکانی ویکت کے لیلا ہاسنمان آہے ۔مراٹھی سنسکرتیت مانودھرم آچرنالا ادھک پربھانئہ آہے ‘۔  (جس کا اظہار پولینڈ کے شہریوں نے مہاراشٹر کے شہریوں اور مراٹھی ثقافت کے تئیں کیا ہے۔ مراٹھی تہذیب یافتہ انسانی مذہبی طرز عمل کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے)۔ چھترپتی شیواجی مہاراج کی ترغیب سے کولہاپور کے شاہی خاندان نے پولش خواتین اور بچوں کو والیوڈے میں پناہ دی تھی۔ وہاں  بھی ایک بہت بڑا کیمپ بنایا گیا تھا۔ مہاراشٹر کے لوگوں نے دن رات کام کیا تاکہ پولینڈ کی خواتین اور بچوں کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

دوستو،

آج مجھے مونٹی کیسینو میموریل پر بھی خراج عقیدت پیش کرنے کا موقع ملا۔ یہ یادگار ہمیں ہزاروں ہندوستانی فوجیوں کی قربانیوں کی بھی یاد دلاتا ہے۔ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ ہندوستانیوں نے دنیا کے کونے کونے میں کس طرح اپنا فرض ادا کیا ہے۔

دوستو،

21ویں صدی کا آج کا ہندوستان اپنی پرانی اقدار اور اپنے ورثے پر فخر کرتے ہوئے ترقی کی راہ پر آگے بڑھ رہا ہے۔آج دنیا ہندوستان کو ان خوبیوں کی وجہ سے جانتی ہے جو ہندوستانیوں نے پوری دنیا کو ثابت کرکے دکھایا ہے۔ ہم ہندوستانیوں کوکوششوں، عمدگی اور ہمدردی کے لیے جانا جاتا ہے ۔ ہم دنیا میں جہاں بھی جاتے ہیں، ہم ہندوستان کے لوگ زیادہ سے زیادہ کوششیں کرتے نظر آتے ہیں۔ چاہے وہ تجارت ہو ، دیکھ بھال کرنے والے  ہوں یا ہمارا خدمات کا شعبہ ہو ۔ ہندوستانی اپنی کوششوں سے خود کا اور اپنے ملک کا سر فخر سے بلند کر رہے ہیں۔یہ  میں آپ کی بات بتا رہا ہوں۔ آپ کو لگتا ہوگا کہ میں کسی تیسرے ملک کی بات کر رہا ہوں۔پوری دنیا میں ہندوستانی  اپنی کارکردگی کے لئے بھی پہچانے جاتے ہیں۔آئی ٹی کا شعبہ ہو یا ہندوستان کے ڈاکٹرزہوں، ہر کوئی ان کی شاندار کارکردگی سے متاثر ہے۔ اور کتنا بڑا گروہ تو میرے سامنے ہی موجود ہے۔

 

|

دوستو،

ہمدردی بھی ہم ہندوستانیوں کی ایک پہچان ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں جب کوئی بحران آتا ہے تو ہندوستان پہلا ملک ہوتا ہے جو مدد کا ہاتھ بڑھاتا ہے۔جب کووڈ آیا، 100 سال کی سب سے بڑی آفت آئی تو ہندوستان نے کہا- انسانیت پہلے۔ ہم نے دنیا کے 150 سے زیادہ ممالک میں ادویات اور ویکسین بھیجی ہیں۔ دنیا میں جہاں بھی زلزلے آئے یا کوئی قدرتی آفت آئی، ہندوستان کا ایک ہی منتر ہے - انسانیت سب سے پہلے۔ اگر کہیں جنگ ہوتی ہے تو ہندوستان کہتا ہے - انسانیت پہلے اور اسی جذبے کے تحت ہندوستان پوری دنیا کے شہریوں کی مدد کرتا ہے۔ ہندوستان ہمیشہ پہلے جواب دہندہ کے طور پر آگے آتا ہے۔

دوستو،

ہندوستان بدھ کی میراث کی سرزمین ہے۔ اور جب بدھ کی بات آتی ہے تو وہ امن میں یقین رکھتی ہے نہ کہ جنگ میں۔اس لیے بھارت اس خطے میں بھی دیرپا امن کا بہت بڑا حامی ہے۔بھارت کا نقطہ نظر بہت واضح ہے - یہ جنگ کا دور نہیں ہے۔ یہی وقت ہے کہ مل جل کر ان چیلنجوں سے نمٹنے کا جو انسانیت کے لیے سب سے بڑے خطرات کا باعث ہیں۔ اس لیے بھارت سفارت کاری اور بات چیت پر زور دے رہا ہے۔

دوستو،

جس طرح آپ نے یوکرین میں پھنسے ہوئے ہمارے بچوں کی مدد کی وہ بھی ہم سب نے دیکھا ہے۔آپ نے اس کی بہت خدمت کی۔ آپ نے لنگر لگائے، آپ نے اپنے گھروں کے دروازے کھولے،آپ  نے اپنے ریستوران کھولے۔ پولینڈ حکومت نے ہمارے طلباء کے لیے ویزا جیسی پابندیاں بھی ہٹا دی تھیں۔اس کا مطلب ہے کہ پولینڈ نے دل سے ہمارے بچوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے۔ آج بھی جب میں یوکرین سے واپس آنے والے بچوں سے ملتا ہوں تو وہ پولینڈ کے لوگوں اور آپ کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ تو آج، 140 کروڑ ہندوستانیوں کی طرف سے، میں آپ سب کو، پولینڈ کے لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں، میں آپ کو سلام کرتا ہوں۔

دوستو،

ہندوستان اور پولینڈ کے معاشروں میں بہت سی مماثلتیں ہیں۔ ہماری جمہوریت میں بھی بڑی مماثلت ہے۔ ہندوستان نہ صرف جمہوریت کی ماں ہے بلکہ یہ ایک شراکت دار اور متحرک جمہوریت بھی ہے۔ ہندوستان کے عوام کا جمہوریت پر اٹل اعتماد ہے۔ یہ اعتماد ہم نے حالیہ انتخابات میں بھی دیکھا ہے۔ یہ تاریخ کے سب سے بڑے انتخابات تھے۔ یورپی یونین کے انتخابات بھی حال ہی میں ہوئے ہیں۔ اس میں تقریباً 180 ملین ووٹرز نے اپنا ووٹ ڈالا۔ بھارت میں، اس تعداد سے 3 گنا زیادہ، تقریباً 640 ملین ووٹرز نے ووٹ ڈالے۔ ہندوستان کے ان انتخابات میں ہزاروں سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا۔تقریباً 8 ہزار امیدوار میدان میں تھے۔ 50 لاکھ سے زیادہ ووٹنگ مشینیں، 10 لاکھ سے زیادہ پولنگ اسٹیشن، 15 ملین سے زیادہ ملازمین، اس پیمانے کا انتظام، اتنی کارکردگی، اور انتخابات پر اس سطح کا اعتماد، یہ ہندوستان کی بڑی طاقت ہے۔ دنیا کے لوگ جب یہ اعداد و شمار سنتے ہیں تو ان کا دماغ گھوم جاتا ہے۔

دوستو،

ہم ہندوستانی  تنوع کو جینا بھی جانتے ہیں ،اس کا جشن منانا بھی جانتے ہیں۔اور اسی وجہ سے، ہم آسانی سے ہر معاشرے میں ضم ہو جاتے ہیں۔پولینڈ میں ہندوستان کے بارے میں جاننے، سمجھنے اور پڑھنے کی پرانی روایت رہی ہے۔ یہ ہم یہاں کی یونیورسٹیوں میں بھی دیکھتے ہیں۔ آپ میں سے بہت سوں نے وارسا یونیورسٹی کی مین لائبریری کا دورہ کیا ہوگا۔ وہاں بھگوت گیتا اور اپنشد کے مثالی جملے ہم سب کو خوش آمدید کہتے ہیں۔تمل ہو، سنسکرت ہو، یہاں بہت سے لوگ ہیں جو ایسی کئی ہندوستانی زبانوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہاں کی بہترین یونیورسٹیوں میں انڈیا اسٹڈیز سے متعلق چیئرس ہیں۔ پولینڈ اور ہندوستانیوں کا بھی کبڈی سے تعلق ہے۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہندوستان کے ہر گاؤں میں کبڈی کھیلی جاتی ہے۔ یہ کھیل ہندوستان سے پولینڈ پہنچا ہے۔ اور پولینڈ کے لوگ کبڈی کو نئی بلندیوں پر لے گئے ہیں۔پولینڈ مسلسل 2 سال سے یوروپی کبڈی چیمپئن رہاہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ 24 اگست سے ایک بار پھر کبڈی چیمپئن شپ ہونے جا رہی ہے اور پہلی بار پولینڈ اس کی میزبانی کر رہا ہے۔ آج آپ کے توسط سے میں پولینڈکی کبڈی ٹیم کے لیے بھی نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔

 

|

دوستو،

آپ نے ابھی کچھ دن پہلے یہاں جشن آزادی منایا تھا۔تحریک آزادی کے دوران ہمارے مجاہدین آزادی نے ایک خوشحال ہندوستان کا خواب دیکھا تھا۔ آج ہر ہندوستانی اس خواب کو پورا کرنے کے لیے سخت محنت کر رہا ہے۔ ہندوستان نے ایک ہدف مقرر کیا ہے کہ 2047 تک ہمارا ملک خود کووکست بھارت بنانے کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اس لیے آج کا ہندوستان بے مثال پیمانے،رفتار اور حل پر کام کر رہا ہے۔آج ہندوستان میں جس پیمانے اور رفتار سے تبدیلی ہو رہی ہے، آپ کوبھی یہ سن کر فخر ہو گا۔ کیا بتاؤں...؟ ہندوستان میں پچھلے 10 سالوں میں 250 ملین لوگ غربت سے باہر آئے ہیں۔ اور 250 ملین یعنی یہ تعداد فرانس، جرمنی اور برطانیہ کی کل آبادی سے زیادہ ہے۔ 10 سالوں میں ہم نے غریبوں کے لیے 40 ملین پکے گھر بنائے ہیں، مزید 30 ملین گھر بنانے جا رہے ہیں۔ اور اگر آج پولینڈ میں 14 ملین گھرانے ہیں تو ہم نے صرف ایک دہائی میں تقریباً 3 نئے پولینڈآبادکئے ہیں۔ ہم مالی شمولیت کو اگلے درجے پر لے گئے ہیں۔ 10 سالوں میں ہندوستان میں 500 ملین جن دھن بینک اکاؤنٹس کھولے گئے ہیں۔ یہ تعداد پوری یورپی یونین کی آبادی سے زیادہ ہے۔ یوروپی یونین کی آبادی کے برابرہی  ہندوستان میں یو پی آئی کے ذریعے روزانہ ڈیجیٹل لین دین ہوتے ہیں۔حکومت یورپی یونین کی کل آبادی سے زیادہ ہندوستانیوں کو 5 لاکھ روپے کا مفت ہیلتھ انشورنس فراہم کرتی ہے۔ پچھلی دہائی میں ہندوستان میں براڈ بینڈ استعمال کرنے والوں کی تعداد بھی 60 ملین سے بڑھ کر 940 ملین سے زیادہ ہو گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر ہم یورپ اور امریکہ کی آبادی کو ملاتے ہیں تو آج ہندوستان میں تقریباً اتنے ہی لوگ براڈ بینڈ استعمال کرتے ہیں۔ پچھلی دہائی میں تقریباً 7 لاکھ کلومیٹر آپٹیکل فائبر بچھایا جا چکا ہے۔ یہ ہمارےکرۂ ارض کے گرد ستر بارچکر لگانے کے برابر ہے۔ 2 سال کے اندرہی ہندوستان نے 5جی نیٹ ورک کو ملک کے ہر ضلع تک بڑھا دیا ہے۔ اب ہم میڈ ان انڈیا 6جی نیٹ ورک پر کام کر رہے ہیں۔

دوستو،

ہندوستان کی تبدیلی کا یہ پیمانہ پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی نظر آتا ہے۔ 2014 میں، ہندوستان کے 5 شہروں میں آپریشنل میٹرو تھے۔ آج 20 شہروں میں میٹرو چل رہی ہے۔ آج، پولینڈ کی ایک تہائی آبادی کے برابر لوگ ہندوستان میں روزانہ میٹرو ٹرین سے سفر کرتےہیں ۔

دوستو،

ہندوستان جو بھی کرتا ہے، وہ ایک نیا ریکارڈ بن جاتا ہے، تاریخ بن جاتی ہے۔آپ نے دیکھا ہوگا، ہندوستان نے بیک وقت 100 سے زیادہ سیٹلائٹ لانچ کیے تھے۔ یہ بھی اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ قومی خلائی دن صرف دو دن بعد 23 اگست کو ہے۔آپ بھی جانتے ہو، یاد ہے نا؟ اسی دن ہندوستان نے اپنا چندریان چاند کے جنوبی قطب میں اتارا۔ جہاں کوئی دوسرا ملک نہیں پہنچ سکا، ہندوستان وہاں پہنچ گیا ہے۔ اور اس جگہ کا نام ہے - شیو شکتی۔ اس جگہ کا نام شیو شکتی ہے۔ ہندوستان دنیا کا تیسرا سب سے بڑا اسٹارٹ اپ ماحولیاتی نظام ہے۔

دوستو،

دنیا کی آبادی میں ہندوستان کا حصہ تقریباً 16-17 فیصد رہا ہے، لیکن آبادی کے لحاظ سے عالمی ترقی میں ہندوستان کا حصہ اتنا پہلے نہیں تھا۔ اب حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ سال 2023 میں عالمی ترقی میں ہندوستان کا حصہ 16 فیصد سے زیادہ ہے۔ آج دنیا کی ہر ایجنسی، ہر ادارہ ہندوستان کے شاندارمستقبل کی پیشین گوئیاں کر رہا ہے، اور وہ  کوئی نجومی نہیں ہیں، وہ اعداد و شمار کی بنیاد پر حساب لگاتے ہیں، وہ زمینی حقائق کی بنیاد پر حساب لگاتے ہیں۔ اب ہندوستان دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے سے زیادہ دور نہیں ہے۔ میں نے ملک کے لوگوں سے وعدہ کیا ہے کہ میری تیسری مدت میں ہندوستان نمبر تین معیشت  بن کررہے گا۔ دنیا آنے والے برسوں میں ہندوستان کی زبردست اقتصادی ترقی کو دیکھنے والی ہے۔’نیسکام‘ کا اندازہ ہے کہ ہندوستان اس دہائی کے آخر تک اپنے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی وجہ سے  8 ٹریلین ڈالر کی معیشت بن جائے گا۔نیسکام اوربوسٹن کنسلٹنگ گروپ کا اندازہ ہے کہ آنے والے 3-4 سالوں میں ہندوستان کی اےآئی مارکیٹ تقریباً 30-35 فیصد کی رفتار سے بڑھے گی۔ یعنی ہندوستان کے بارے میں ایک بے مثال مثبتیت چاروں طرف دکھائی دے رہی ہے۔ آج ہندوستان سیمی کنڈکٹر مشن، ڈیپ اوشین مشن، نیشنل گرین ہائیڈروجن مشن، نیشنل کوانٹم مشن اور اے آئی مشن پر کام کر رہا ہے تاکہ آنے والی کئی دہائیوں تک ہندوستان آگے رہے۔ بھارت آنے والے برسوں میں اپنا خلائی سٹیشن بھی قائم کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اور وہ دن دور نہیں جب آپ ہندوستانی خلابازوں کو میڈ ان انڈیا گگن یان میں خلا میں جاتے ہوئے دیکھیں گے۔

دوستو،

آج ہندوستان کی پوری توجہ معیاری مینوفیکچرنگ اور معیاری افرادی قوت پر مرکوز ہے۔ یہ دو چیزیں ایسی  ہیں جو عالمی سپلائی چین کے لیے بہت ضروری ہیں۔حالیہ بجٹ میں ہم نے اپنے نوجوانوں کی ہنر مندی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر بہت زور دیا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کی بڑی تعداد یہاں تعلیم حاصل کرنے آئی ہے۔ ہم ہندوستان کو تعلیم، تحقیق اور اختراع کا ایک بڑا مرکز بنانے میں بھی مصروف ہیں۔

 

|

دوستو،

ٹکنالوجی ہو، طبی دیکھ بھال ہو، تعلیم ہو، ہندوستان نے ہر شعبے میں دنیا کے لیے ہنر مند افرادی قوت پیدا کرنے میں سبقت لی ہے۔ میں آپ کو صحت کے شعبے کی ایک مثال دوں گا۔ پچھلے 10 سالوں میں، ہم نے ہندوستان میں 300 سے زیادہ نئے میڈیکل کالج بنائے ہیں۔ ہندوستان میں میڈیکل سیٹیں اب پچھلے 10 سالوں میں دوگنی ہو گئی ہیں، 10 سالوں میں دوگنی۔ ان 10 سالوں میں ہم نے اپنے میڈیکل سسٹم میں 75 ہزار نئی سیٹیں شامل کی ہیں۔ اب، آنے والے 5 سالوں میں، ہمارا مقصد 75 ہزار نئی میڈیکل سیٹیں شامل کرنا ہے۔ اس سے صحت کی معیاری خدمات فراہم کرنے والے کے طور پر ہندوستان کے کردار کو مزید تقویت ملے گی۔ اور ہمارا دنیا کو ایک ہی پیغام ہے کہ وہ دن دور نہیں جب ہم  کہیں گےہیل ان انڈیا - ابھی ہم تیاری کر رہے ہیں۔

دوستو،

اختراع اور نوجوان، ہندوستان اور پولینڈ دونوں کی ترقی کو توانائی فراہم کرنے والے ہیں۔ آج میں آپ کے لیے ایک بڑی خوشخبری لے کر آیا ہوں۔ ہندوستان اور پولینڈ دونوں نے سماجی تحفظ کے معاہدے پر اتفاق کیا ہے۔ جس سے آپ جیسے تمام دوستوں کو فائدہ ہو گا۔

دوستو،

ہندوستان کی حکمت عالمی ہے، ہندوستان کا نقطہ نظر عالمی ہے، ہندوستان کی ثقافت عالمی ہے، دیکھ بھال اور ہمدردی کا جذبہ عالمی ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد نے ہمیں وسودھیو کٹمبکم کا منتر دیا ہے۔ ہم نے پوری دنیا کو ایک خاندان سمجھا ہے۔ اور یہ آج کے ہندوستان کی پالیسیوں اور فیصلوں میں نظر آتا ہے۔ جی-20 کے دوران، ہندوستان نے - ایک زمین، ایک خاندان اور ایک مستقبل کانعرہ دیا تھا ، اسی جذبے میں 21ویں صدی کی دنیا کے بہتر مستقبل کی ضمانت دی گئی ہے۔ ہندوستان ون سن ، ون ورلڈ، ون گرڈ کے تصور سے دنیا کو جوڑنا چاہتا ہے۔یہ صرف ہندوستان ہے – جوون ارتھ، ون ہیلتھ کو ایک صحت مند دنیا کی ضمانت مانتا ہے۔ ہماری توجہ ایک صحت پر ہونی چاہیے یعنی ہمہ گیر صحت، بشمول ہمارے جانور، درخت اور پودے، سب کی صحت کا خیال رکھا جائے۔آج ہم جس قسم کے حالات دیکھ رہے ہیں ان میں ایک صحت کا اصول زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔ ہندوستان نے پوری دنیا کو مشن لائف یعنی ماحولیات کے لیے طرز زندگی کا ایک ماڈل دیا ہے۔ آپ نے بھارت میں ایک بڑی مہم کے بارے میں بھی سنا ہوگا۔ یہ مہم ہے - ماں کے نام پر ایک درخت۔ آج کروڑوں ہندوستانی اپنی ماں کے نام پر درخت لگا رہے ہیں جس نے انہیں جنم دیا تھا اور اسی کے ذریعہ زمین کی حفاظت بھی کی جا رہی ہے۔

دوستو،

معیشت اور ماحولیات کے درمیان توازن آج ہندوستان کی ترجیح ہے۔ یہ صرف ہندوستان ہی ہے جو ایک ترقی یافتہ ملک اور خالص صفر ملک ہونے کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ بھارت سبزمستقبل کے لیے 360 ڈگری اپروچ پر کام کر رہا ہے۔گرین موبلٹی اس کی ایک بہترین مثال ہے۔ہم پیٹرول میں 20 فیصد ایتھنول ملانے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ ہندوستان آج برقی نقل و حرکت کو تیز رفتاری سے بڑھا رہا ہے۔ آج، ہندوستان میں برقی گاڑیوں کی فروخت ہر سال تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ پچھلے سال ای وی کی فروخت میں 40 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب ہندوستان ای وی مینوفیکچرنگ اور اختراع کا عالمی مرکز بن جائے گا۔ آنے والے وقت میں، آپ ہندوستان کو گرین ہائیڈروجن کے ایک بڑے عالمی مرکز کے طور پر دیکھنے جا رہے ہیں۔

 

|

دوستو،

مجھے خوشی ہے کہ نئی ٹیکنالوجی اور شفاف  توانائی جیسے شعبوں میں بھی ہندوستان اور پولینڈ کے درمیان شراکت داری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ کئی ہندوستانی کمپنیوں نے یہاں سرمایہ کاری کی ہے اور ملازمتیں پیدا کی ہیں۔ پولینڈ کی کئی کمپنیوں نے ہندوستان میں مواقع پیدا کیے ہیں۔ کل میں صدر دودا جی اور وزیر اعظم ٹسک جی سے بھی ملنے جا رہا ہوں۔ ان ملاقاتوں سے ہندوستان اور پولینڈ کے درمیان شاندار شراکت داری مزید مضبوط ہونے والی ہے۔ وزیر اعظم ٹسک ہندوستان کے بہت اچھے دوست ہیں۔ میں ان سے کئی بار اس وقت بھی ملا ہوں جب وہ یوروپی کونسل کے صدر تھے۔

دوستو،

آج کا ہندوستان ایک آواز اور ایک جذبے کے ساتھ ایک ترقی یافتہ مستقبل تحریر کرنے میں مصروف ہے۔ آج ہندوستان مواقع کی سرزمین ہے۔ آپ کو بھی ہندوستان کی ترقی کی کہانی سے زیادہ سے زیادہ جڑنا ہوگا۔ اور آپ کو ہندوستان کی سیاحت کا برانڈ ایمبیسیڈر بھی بننا ہے۔ مطلب آپ  کیا کریں گے؟ سوشل میڈیا پر اپنی تصویر پوسٹ کریں گے اور تاج محل کے سامنے بیٹھیں گے۔ برانڈ ایمبیسیڈر کا مطلب ہے کہ آپ کو ہر سال کم از کم پانچ پولینڈ خاندانوں کو ہندوستان دیکھنے کے لیے بھیجنا ہوگا۔ کریں گے؟ مجھے اتنا ہوم ورک  تودینا ہی چاہیے۔ آپ کی ہر کوشش آپ کے ہندوستان کو ایک  وکست بھارت بنانے میں مدد کرے گی۔

دوستو،

ایک بار پھر، میں یہاں آنے کے لیے، اس شاندار استقبال کے لیے آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔میرے ساتھ آواز لگائیں -

بھارت ماتا کی جئے!

بھارت ماتا کی جئے!

بھارت ماتا کی جئے!

آپ کا بہت بہت شکریہ۔

 

  • Jitendra Kumar April 13, 2025

    🙏🇮🇳❤️
  • krishangopal sharma Bjp December 18, 2024

    नमो नमो 🙏 जय भाजपा 🙏🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩,,
  • krishangopal sharma Bjp December 18, 2024

    नमो नमो 🙏 जय भाजपा 🙏🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩,
  • krishangopal sharma Bjp December 18, 2024

    नमो नमो 🙏 जय भाजपा 🙏🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩🚩
  • कृष्ण सिंह राजपुरोहित भाजपा विधान सभा गुड़ामा लानी November 21, 2024

    जय श्री राम 🚩 वन्दे मातरम् जय भाजपा विजय भाजपा
  • Narasingha Prusti October 24, 2024

    Jay shree ram
  • Rampal Baisoya October 18, 2024

    🙏🙏
  • Harsh Ajmera October 14, 2024

    Love from hazaribagh 🙏🏻
  • Vivek Kumar Gupta October 10, 2024

    नमो ..🙏🙏🙏🙏🙏
  • Vivek Kumar Gupta October 10, 2024

    नमो ...............🙏🙏🙏🙏🙏
Explore More
ہر ہندوستانی کا خون ابل رہا ہے: من کی بات میں پی ایم مودی

Popular Speeches

ہر ہندوستانی کا خون ابل رہا ہے: من کی بات میں پی ایم مودی
Railway passengers with e-ticket can avail travel insurance at 45 paisa only

Media Coverage

Railway passengers with e-ticket can avail travel insurance at 45 paisa only
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
India will never compromise on the interests of its farmers: PM Modi
August 07, 2025
QuoteDr. Swaminathan led the movement to make India self-reliant in food production: PM
QuoteDr. Swaminathan went beyond biodiversity and gave the visionary concept of bio-happiness: PM
QuoteIndia will never compromise on the interests of its farmers: PM
QuoteOur government has recognised farmers' strength as the foundation of the nation's progress: PM
QuoteBuilding on the legacy of food security, the next frontier for our agricultural scientists is ensuring nutritional security for all: PM

My Cabinet colleague, Shri Shivraj Singh Chouhan; Chairperson of the M. S. Swaminathan Research Foundation, Dr Soumya Swaminathan; Member of NITI Aayog, Dr Ramesh Chand; I also see that many members of the Swaminathan family are present here—I extend my respectful greetings to them as well. All scientists, distinguished guests, ladies and gentlemen!

There are certain personalities whose contributions are not confined to a specific era or a particular geography. Professor M. S. Swaminathan was one such eminent scientist, a devoted son of Maa Bharati. He transformed science into a medium of public service. He dedicated his life to ensuring the nation’s food security. He awakened a consciousness that will continue to shape Bharat's policies and priorities for centuries to come.

I extend my greetings to all of you on the occasion of the Swaminathan Centenary Celebrations.

|

Friends,

Today, 7th August, also marks National Handloom Day. Over the past ten years, the handloom sector has gained new recognition and strength across the country. I convey my greetings to all of you and to those associated with the handloom sector on this National Handloom Day.

Friends,

My association with Dr Swaminathan dates back many years. Many are aware of the earlier conditions in Gujarat—agriculture there often faced severe challenges due to droughts and cyclones, and the desert of Kutch was steadily expanding. During my tenure as Chief Minister, we began work on the Soil Health Card scheme. I vividly recall that Professor Swaminathan had shown immense interest in the initiative. He generously offered his suggestions and guided us. His contributions greatly helped in the success of this effort. It was nearly twenty years ago that I visited the centre of his research foundation in Tamil Nadu. In 2017, I had the opportunity to release his book 'The Quest for a World Without Hunger'. In 2018, when the Regional Centre of the International Rice Research Institute was inaugurated in Varanasi, we once again benefited from his guidance. Every meeting with him was a learning experience for me. He once said, “Science is not just about discovery, but delivery,” and he demonstrated this through his actions. He did not limit himself to research; he also inspired farmers to adopt new agricultural practices. Even today, his approach and ideas are visible across Bharat's agriculture sector. He was, in the truest sense, a jewel of Maa Bharati. I consider it my honour that our government had the opportunity to confer upon Dr Swaminathan the Bharat Ratna.

Friends,

Dr Swaminathan launched a mission to make Bharat self-reliant in food production. Yet, his identity extended beyond the Green Revolution. He continuously raised awareness among farmers about the rising use of chemicals in farming and the risks of monoculture farming. In other words, while he worked to increase grain production, he was equally concerned about the environment and Mother Earth. To strike a balance between the two and to address these challenges, he introduced the concept of the Green Revolution. He proposed the idea of 'bio-villages', which could empower rural communities and farmers. He promoted concepts like 'community seed banks' and 'opportunity crops'.

|

Friends,

Dr Swaminathan believed that the solution to challenges like climate change and nutrition lies in the very crops we have forgotten. His focus was on drought tolerance and salt tolerance. He began work on millets—Shree Anna—at a time when no one gave them much importance. Years ago, Dr Swaminathan had recommended that the genetic traits of mangroves be transferred to rice, so that crops would become more climate-resilient. Today, as we speak of climate adaptation, we realise just how far ahead he was in his thinking.

Friends,

Today, biodiversity is a global concern, and governments around the world are taking numerous measures to protect it. But Dr Swaminathan went a step further and gave us the idea of 'biohappiness'. Today, we are here to celebrate that very concept. Dr Swaminathan used to say that the power of biodiversity could bring about a significant transformation in the lives of local communities; that through the use of local resources, new means of livelihood could be created. True to his nature, he was an expert at implementing his ideas on the ground. Through his research foundation, he consistently strove to bring the benefits of new discoveries to the farmers. Our small-scale farmers, our fishermen, our tribal communities—all have benefitted immensely from his efforts.

Friends,

Today, I am particularly pleased that the 'M. S. Swaminathan Award for Food and Peace' has been instituted to honour Professor Swaminathan’s legacy. This international award will be presented to individuals from developing countries who have made significant contributions in the field of food security. Food and peace—the relationship between the two is not only philosophical but also deeply practical. In our Upanishads, it is stated: अन्नम् न निन्द्यात्, तद् व्रतम्। प्राणो वा अन्नम्। शरीरम् अन्नादम्। प्राणे शरीरम् प्रतिष्ठितम्। That is, one must not disrespect food. Food supports life.

|

Therefore, friends,

If there is a crisis of food, then there is a crisis of life. And when the lives of lakhs are at risk, global unrest naturally follows. This is why the ‘M. S. Swaminathan Award for Food and Peace’ is of utmost importance. I heartily congratulate the first recipient of this award, the talented scientist from Nigeria, Professor Akinwumi Adesina.

Friends,

Today, Indian agriculture has reached great heights, and I am certain that wherever Dr Swaminathan is, he would be proud. Today, Bharat ranks first in the production of milk, pulses, and jute. Bharat is second in the production of rice, wheat, cotton, fruits, and vegetables. Bharat is also the world's second-largest producer of fish. Last year, Bharat recorded its highest-ever food grain production. We are also setting new records in oilseeds. The production of soybean, mustard, and groundnut has risen to record levels.

Friends,

For us, the welfare of our farmers is of the highest priority. Bharat will never compromise on the interests of its farmers, livestock rearers, and fishermen. And I am fully aware that I may have to pay a very heavy price personally, but I am prepared for it. For the farmers of my country, for the fishermen of my country, for the livestock rearers of my country, Bharat stands ready today. We are continuously working towards increasing farmers’ incomes, reducing their agricultural expenditure, and creating new sources of income.

|

Friends,

Our government has regarded the strength of farmers as the foundation of the nation's progress. That is why the policies framed in recent years have not merely extended assistance, but have also sought to build trust among farmers. The direct financial support provided through the PM-KISAN Samman Nidhi has empowered small farmers with self-confidence. The PM Fasal Bima Yojana has given them protection from risk. Issues related to irrigation have been addressed through the PM Krishi Sinchai Yojana. The creation of 10,000 FPOs has enhanced the collective strength of small farmers. Financial support to cooperatives and self-help groups has given fresh momentum to the rural economy. Thanks to e-NAM, it has become easier for farmers to sell their produce. The PM Kisan Sampada Yojana has accelerated the establishment of new food processing units and storage infrastructure. Recently, the PM Dhan Dhanya Yojana has also been approved. Under this scheme, 100 districts where agriculture has remained backward have been selected. By providing infrastructure and financial assistance to farmers in these districts, a new sense of confidence is being instilled in farming.

Friends,

21st-century Bharat is working with full dedication to become a developed nation. And this goal will be achieved only through the contribution of every class, every profession. Taking inspiration from Dr Swaminathan, our scientists now have yet another opportunity to create history. The scientists of the previous generation ensured food security—now there is a need to focus on nutritional security. We must promote bio-fortified and nutrition-rich crops on a large scale to improve people’s health. We must also demonstrate greater urgency in reducing the use of chemicals and promoting natural farming.

Friends,

You are well aware of the challenges related to climate change. We must develop as many varieties of climate-resilient crops as possible. The focus must be on drought-tolerant, heat-resistant, and flood-adaptive crops. More research is required on crop rotation, and on identifying which crops are best suited to which soil types. Alongside this, we must also develop affordable soil testing tools and effective methods of nutrient management.

|

Friends,

We need to do much more in the field of solar-powered micro-irrigation. We must make drip systems and precision irrigation more widespread and effective. Can we integrate satellite data, AI, and machine learning? Can we develop a system that can forecast crop yields, monitor pests, and guide sowing? Can such a real-time decision support system be made available in every district? All of you must continue guiding agri-tech startups. Today, a large number of innovative young people are working to solve the problems faced in agriculture. If you, with your experience, continue to mentor them, the products they develop will be more impactful and more user-friendly.

Friends,

Our farmers and farming communities possess a treasure trove of traditional knowledge. By integrating traditional Indian agricultural practices with modern science, a holistic knowledge base can be created. Crop diversification is today a national priority. We must explain to our farmers its significance. We must convey what the benefits are, and also what the consequences of not adopting it might be. And in this task, you are best placed to make a real impact.

|

Friends,

Last year, when I visited the Pusa campus on 11th August, I had urged that efforts be increased to take agricultural technology from the 'lab to the land'. I am pleased that the Viksit Krishi Sankalp Abhiyan was launched during May–June. For the first time, scientists' teams—around 2,200 in number—participated across more than 700 districts in the country. Over 60,000 programmes were conducted, and, more importantly, direct engagement was established with around 1.25 crore aware and informed farmers. This effort by our scientists to reach more and more farmers is truly commendable.

Friends,

Dr M. S. Swaminathan taught us that agriculture is not just about crops—agriculture is life itself. The dignity of every individual connected to the field, the well-being of every farming community, and the protection of nature—these form the very strength of our government's agricultural policy. We must weave together science and society, place the interests of the small farmer at the heart of our efforts, and empower the women who work in the fields. Let us move ahead with this very goal in mind, with the inspiration of Dr Swaminathan guiding us all.

Once again, I extend my heartfelt congratulations to all of you on this special occasion.

Thank you very much.