انٹرنیشنل بگ کیٹس الائنس کا آغاز
شیروں کی 3167 کی تعدادمیں ہونے کا اعلان کیا
شیروں کے تحفظ کے بارے میںیادگاری سکے اور کئی اشاعتیں جاری کیں
’’پروجیکٹ ٹائیگر کی کامیابی نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کے لیے فخر کا لمحہ ہے‘‘
’’ہندوستان، ماحولیات اور معیشت کے درمیان تنازعہ پر یقین نہیں رکھتا، وہ دونوں کے بقائے باہمی کو یکساں اہمیت دیتا ہے‘‘
’’ہندوستان ایک ایسا ملک ہے، جہاں فطرت کی حفاظت کرنا، ثقافت کا حصہ ہے‘‘
’’بڑی بلیوں کی موجودگی نے ہر جگہ مقامی لوگوں کی زندگیوں اور ماحولیات پر مثبت اثر ڈالا ہے‘‘
’’جنگلی حیاتیات کا تحفظ کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے‘‘
’’بین الاقوامی بڑی بلیوں کے اتحاد کی توجہ، دنیا کی7 بڑی بڑی بلیوں کے تحفظ پر ہو گی‘‘
’’انسانیت کا بہتر مستقبل اسی وقت ممکن ہے جب ماحول محفوظ رہے اور حیاتیاتی تنوع میں توسیع ہوتی رہے‘‘

مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی جناب بھوپیندر یادو، جناب اشونی کمار چوبے، دیگر ممالک سے آئے محترم وزراء، ریاستوں کے وزراء، دیگر نمائندے، خواتین و حضرات!

سب سے پہلے تو میں آپ سب سے معذرت خواہ ہوں کہ میں صبح 6 بجے چلا گیا تھا، میں نے سوچا تھا کہ میں وقت پر جنگلوں کی سیر کر کے واپس آجا ؤں گا، لیکن مجھے آنے میں ایک گھنٹہ کی تاخیر ہوگئی۔ آپ سب کو انتظار کرنا پڑا، اس کے لئے میں آپ سب سے معافی چاہتا ہوں۔ میری بات، سب سے پہلے ہم نے جو ٹائیگرز کی تعداد کے ہندسے کو چھو ا ہے، جو دیکھا ہے، ہمارا یہ پریوار بڑھ رہا ہے، یہ ایک قابل فخر لمحہ ہے۔ میری آپ سب سے گزارش ہے کہ ان زکے اعزاز میں اپنی جگہ پر کھڑے ہو کر ہم ٹائیگرز کو سلامی دیں۔ شکریہ!

آج ہم سب ایک انتہائی اہم سنگ میل  کے گواہ بن  رہے ہیں۔ پروجیکٹ ٹائیگر کو 50 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ پروجیکٹ ٹائیگر کی کامیابی نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کے لیے فخر کی بات ہے۔ ہندوستان نے نہ صرف ٹائیگرزکو بچایا ہے بلکہ انہیں  پھلنے پھولنے کے لیے ایک بہترین ماحولیاتی نظام بھی دیا ہے۔ یہ بات ہمارے لیے اور بھی خوشگوار ہے کہ جب ہم اپنی آزادی کے 75 سال مکمل کر چکے ہیں، اسی وقت دنیا کی تقریباً 75 فیصد شیروں کی آبادی ہندوستان میں ہے۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ بھارت میں ٹائیگر ریزرو کا رقبہ بھی 75 ہزار مربع کلومیٹر ہے اور پچھلے 10-12 سالوں میں ٹائیگرزکی آبادی میں بھی 75 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ سب کی کوششوں سے ممکن ہوا ہے اور اس کے لیے میں پورے ملک کو مبارکباد دیتا ہوں۔

 

ساتھیو،

آج دنیا بھر کے جنگلی حیات سے محبت کرنے والوں کے ذہنوں میں یہ سوال ہے کہ جب کئی ممالک میں ان کی آبادی مستحکم ہے یا کم ہو رہی ہے تو پھر بھارت میں یہ تیزی سے کیوں بڑھ رہی ہے؟اس کا  جواب  ہے ہندوستان کی روایت، ہندوستان کی ثقافت اور ہندوستان کے معاشرہ  میں حیاتیاتی تنوع کو لے کر،ماحولیات کو لے کر،جو ہماری فطری خواہش ہے وہی اس کامیابی کے اندر پوشیدہ ہے۔ ہم ماحولیات اور معیشت کے درمیان تصادم پر یقین نہیں رکھتے ،دونوں کے درمیان بقائے باہم کو اہمیت دیتے ہیں۔ ہمارے پاس ٹائیگرز سے متعلق ہزاروں سال پرانی تاریخ ہے۔ مدھیہ پردیش میں پائے جانے والے 10 ہزار سال پرانے راک آرٹس میں ٹائیگر کی تصویریں ملی ہیں۔ ملک کی بہت سی برادریاں، جیسے وسطی ہندوستان میں رہنے والے بھا ریا اور مہاراشٹر میں رہنے والے ورلی، ٹائیگر  کی پوجا کرتے ہیں۔ یہاں کے کئی قبائل میں ٹائیگر کو اپنا بھائی سمجھا جاتا ہے۔ اور، ٹائیگر ،ماں درگا اور بھگوان ایپا  کی سواری تو ہے ہی۔

دوستو

ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں فطرت کی حفاظت ثقافت کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے جنگلی حیات کے تحفظ میں کئی منفرد کامیابیاں حاصل  ہوئی ہیں۔ دنیا کے صرف 2.4 فیصد زمینی رقبے کے ساتھ، ہندوستان معروف عالمی حیاتیاتی تنوع میں تقریباً 8 فیصد حصہ ڈالتا ہے۔ ہندوستان دنیا میں ٹائیگر رینج کا سب سے بڑا ملک ہے۔ تقریباً تیس ہزار ہاتھیوں کے ساتھ، ہم دنیا کا سب سے بڑا ایشیائی ہاتھیوں کا ملک ہیں ! تقریباً تین ہزار کی ہماری گینڈوں کی آبادی ہمیں دنیا کا سب سے بڑا سنگل ہارن گینڈوں کا ملک بناتی ہے۔ ہم دنیا کا واحد ملک ہیں جہاں ایشیائی شیر ہیں۔ شیروں کی آبادی 2015 میں 525 کے لگ بھگ تھی جو 2020 میں 675 کے لگ بھگ ہو گئی ہے۔ ہمارے چیتے کی آبادی صرف 4 سالوں میں 60 فیصد سے زیادہ ہو گئی۔ گنگا جیسی ندیوں کو صاف کرنے کے لیے کیے جانے والے کام سے حیاتیاتی تنوع میں مدد ملی ہے۔ کچھ آبی انواع جو خطرے میں سمجھی جاتی تھیں ان میں بہتری آئی ہے۔ یہ تمام کامیابیاں لوگوں کی شرکت ،تحفظ کے کلچر ، سب کی کوشش کی وجہ سے ہیں۔

 

جنگلی حیات کے پھلنے پھولنے کے لیے، ماحولیاتی نظام کا پھلنا پھولنا ضروری ہے۔ ہندوستان میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ آزادی کے 75 سال کا جشن مناتے ہوئے، بھارت نے اپنے رام سر سائٹس کی فہرست میں گیارہ گیلے علاقوں (ویٹ لینڈ)کو شامل کیا ہے ۔ اس سے رام سر سائٹس کی کل تعداد 75 ہو گئی ہے ۔ جنگلات اور درختوں کے کور یج میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ہندوستان نے 2019 کے مقابلے میں 2021 تک دو ہزار دو سو مربع کلومیٹر جنگلات اور درختوں کے احاطہ کا اضافہ کیا۔ پچھلی دہائی میں، کمیونٹی ریزرو کی تعداد تینتالیس سے بڑھ کر ایک سو سے زیادہ ہو گئی۔ ایک دہائی میں، نیشنل پارکوں  اور محفوظ مقامات کی تعداد جن کے ارد گرد ایکو حساس زونز کو نوٹیفائی کیا گیا ہو ، نو سے بڑھ کر چار سو اڑسٹھ ہو گئے۔

ساتھیو،

جنگلی حیات کے تحفظ کی ان تمام کوششوں میں مجھے گجرات کے اپنے طویل تجربے کا فائدہ ملا ہے۔ جب میں گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا تو ہم نے شیروں پر کام کیا۔ وہاں میں نے سیکھا کہ کسی جنگلی جانور کو بچانے کے لیے ہم صرف ایک جغرافیائی علاقے تک محدود نہیں رہ سکتے۔ اس کے لیے ہمیں مقامی لوگوں اور جانور کے درمیان تعلق پیدا کرنا ہوگا۔ یہ رشتہ جذبات کا بھی ہونا چاہیے اور معیشت کا بھی۔ اسی لیے ہم نے گجرات میں وائلڈ لائف دوست پروگرام شروع کیا۔ یہ نظام شکار جیسی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے شروع کیا گیا تھا، اس کے لیے نقد انعام بھی رکھا گیا تھا۔ ہم نے شیروں کے لیے ایک بحالی مرکز بھی کھولا۔ ہم نے گر کے علاقے میں محکمہ جنگلات میں خواتین بیٹ گارڈز اور فارسٹرز کو بھی بھرتی کیا۔ اس سے شیر ہے ہے تو  ہم ہیں، ہم ہیں تو  شیر ہے کے احساس کو مسلسل تقویت ملی۔ آج آپ یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ اب گر میں سیاحت اور ایکو ٹورزم کا ایک بہت بڑا ایکو سسٹم قائم ہو چکا ہے۔

 

ساتھیو،

گر میں اٹھائے گئے اقدامات کی طرح پروجیکٹ ٹائیگر کی کامیابی کی بھی کئی جہتیں ہیں۔ اس کی وجہ سے سیاحوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا اور ہم نے جو بیداری پروگرام چلائے اس کی وجہ سے ٹائیگر ریزرو میں انسانوں اور جانوروں کے تنازعات میں بہت زیادہ کمی آئی۔ بگ کیٹس کی وجہ سے ٹائیگر ریزرو میں سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور اس سے مقامی معیشت مضبوط ہوئی ہے۔ بڑی بلیوں کی موجودگی نے ہر جگہ مقامی لوگوں کی زندگیوں اور ماحولیات پر مثبت اثر ڈالا ہے۔

ساتھیو،

کچھ مہینے پہلے، ہم نے ہندوستان کے حیاتیاتی تنوع کو تقویت دینے کے لیے ایک اور اہم کام کیا ہے۔ بھارت میں کئی دہائیوں پہلے چیتا معدوم ہو گیا تھا۔ ہم اس شاندار بگ کیٹ کو نامبیا  اور جنوبی افریقہ سے ہندوستان لائے ہیں۔ یہ کسی بگ کیٹ کی پہلی کامیاب نین بر اعظمی ٹرانسلوکیشن ہے۔ چند روز قبل کونو نیشنل پارک میں 4 خوبصورت بچوں کی پیدائش ہوئی ہے۔ چیتا تقریباً 75 سال قبل ہندوستان کی سرزمین سے ناپید ہو گیا تھا۔ یعنی تقریباً 75 سال بعد ہندوستان کی سرزمین پر ایک چیتے نے جنم لیا ہے۔ یہ ایک بہت ہی مبارک آغاز ہے۔ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور خوشحالی کے لیے بین الاقوامی تعاون کتنا اہم ہے۔

ساتھیو،

جنگلی حیات کا تحفظ کسی ایک ملک کا نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے۔ اس کے لیے بین الاقوامی اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔ سال 2019 میں، عالمی ٹائیگر ڈے پر، میں نے ایشیا میں غیر قانونی شکار اور جنگلی حیات کی تجارت کے خلاف اتحاد پر زور دیا۔ انٹرنیشنل بگ کیٹ الائنس اسی جذبے کی توسیع ہے۔ اس سے بگ کیٹ سے وابستہ پورے ایکو سسٹم کے لیے مالی اور تکنیکی وسائل کو اکٹھا کرنا آسان ہو جائے گا۔ اس سے تحفظ اور تحفظ کے اس  ایجنڈے کو نافذ کرنا آسان ہو جائے گا جو ہندوستان سمیت مختلف ممالک کے تجربات سے سامنے آیا ہے۔ بین الاقوامی بگ کیٹ الائنس کی توجہ دنیا کی 7 بڑی بڑی بلیوں کے تحفظ پر مرکوز ہوگی۔ یعنی جن ممالک میں ٹائیگر، شیر، چیتا، سنو لیپرڈ، پوما، جیگوار اور چیتا ہیں، ایسے ممالک اس اتحاد کا حصہ ہوں گے۔ اس اتحاد کے تحت رکن ممالک اپنے تجربات شیئر کر سکیں گے، وہ اپنے ساتھی ملک کی زیادہ تیزی سے مدد کر سکیں گے۔ یہ اتحاد تحقیق، تربیت اور صلاحیت سازی پر بھی زور دے گا۔ ہم مل کر ان نسلوں کو معدوم ہونے سے بچائیں گے، ایک محفوظ اور صحت مند ماحولیاتی نظام بنائیں گے۔

 

ساتھیو،

انسانیت کا بہتر مستقبل اسی وقت ممکن ہے جب ہمارا ماحول محفوظ رہے اور ہمارا حیاتیاتی تنوع بڑھتا رہے۔ یہ ذمہ داری ہم سب کی ہے، پوری دنیا کی ہے۔ ہم اپنی جی 20 صدارت کے دوران اس جذبے کی مسلسل حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ جی  20 کا نعرہ، ایک زمین، ایک خاندان، ایک مستقبل، یہی پیغام دیتا ہے۔ کوپ 26 میں بھی، ہم نے اپنے لیے بڑے اور پرجوش اہداف مقرر کیے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ باہمی تعاون سے ہم ماحولیاتی تحفظ کا ہر مقصد حاصل کر لیں گے۔

 

ساتھیو،

میں ایک اور بات ان غیر ملکی مہمانوں سے بھی کہنا چاہوں گا جو اس پروگرام کے لیے آئے ہیں، ہمارے مہمان دیگر ریاستوں سے  بھی ہیں۔ آپ سب کو یہاں ایک اور چیز سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہ  جوسہیادری کا خطہ ہے، مغربی گھاٹ کا خطہ ہے ، یہاں بہت سے قبائل رہتے ہیں۔ صدیوں سے، وہ ٹائیگر سمیت ہر حیاتیاتی تنوع کو مالا مال کرنے میں مصروف ہیں۔ ان کی زندگی، ان کی ثقافت، پوری دنیا کے لیے ایک بہت اچھی مثال ہے۔ فطرت سے جتنا کچھ لیا، اتنا ہی ہم فطرت کو لوٹایا ، یہ توازن کیسے کام کرتا ہے، ہمیں اسے یہاں سیکھنے کو ملتا ہے، ہمیں اس قبائلی روایت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہاں آنے سے پہلے میں نے ایسے کئی ساتھیوں سے بات چیت کی تھی اور اسی وجہ سے مجھے آنے میں دیر ہوئی۔ ایلیفینٹ وِسپرز ڈاکیومینٹری جس نے آسکر ایوارڈ جیتا ہے، فطرت اور مخلوق کے درمیان حیرت انگیز تعلق کے ہمارے ورثے کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ قبائلی معاشرے کا طرز زندگی مشن لائف یعنی ماحولیات کے لیے طرز زندگی کے وژن کو سمجھنے میں بھی بہت مدد کرتا ہے۔ میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ اپنے ملک اور اپنے معاشرے کے لیے ہمارے قبائلی معاشرے کی زندگی اور روایت سے کچھ نہ کچھ ضرور لیں۔ ایک بار پھر میں اس تقریب میں آنے پر آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آج ٹائیگر کے جو نئے اعداد وشمار ہمارے سامنے آئے ہیں ، آنے والے دنوں میں ہم مزید نئے اعداد وشمار عبور کریں گے اور نئی کامیابیاں حاصل کریں گے،میں آپ کو یہ  یقین دلاتا ہوں۔

بہت بہت شکریہ !

 

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
Waqf Law Has No Place In The Constitution, Says PM Modi

Media Coverage

Waqf Law Has No Place In The Constitution, Says PM Modi
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
PM to participate in ‘Odisha Parba 2024’ on 24 November
November 24, 2024

Prime Minister Shri Narendra Modi will participate in the ‘Odisha Parba 2024’ programme on 24 November at around 5:30 PM at Jawaharlal Nehru Stadium, New Delhi. He will also address the gathering on the occasion.

Odisha Parba is a flagship event conducted by Odia Samaj, a trust in New Delhi. Through it, they have been engaged in providing valuable support towards preservation and promotion of Odia heritage. Continuing with the tradition, this year Odisha Parba is being organised from 22nd to 24th November. It will showcase the rich heritage of Odisha displaying colourful cultural forms and will exhibit the vibrant social, cultural and political ethos of the State. A National Seminar or Conclave led by prominent experts and distinguished professionals across various domains will also be conducted.