گجرات کے گورنر جناب آچاریہ دیوورت جی ، گجرات کے وزیر اعلی جناب بھوپیندر بھائی پٹیل، آندھرا پردیش کے وزیر اعلی جناب چندرابابو نائیڈو جی، راجستھان کے وزیر اعلی جناب بھجن لال شرما جی، مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی جناب موہن یادو جی، چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ جی کو بھی یہاںدیکھ رہا ہوں میں ، گوا کے وزیر اعلیٰ بھی نظر آ رہے ہیں اور کئی ریاستوں کے وزیر توانائی بھی مجھے نظر آ رہے ہیں۔ اسی طرح غیر ملکی مہمانان، جرمنی کی اکنامک کوآپریشن منسٹر، ڈنمارک کے انڈسٹری بزنس منسٹر، کابینہ کے میرے ساتھی پرہلاد جوشی، شری پد نائک جی، اور دنیا کے کئی ممالک سے آئے ہوئے تمام مندوبین، خواتین و حضرات!
دنیا کے کئی ممالک سے تشریف لائے ہوئے تمام دوستوں کا ویلکم کرتا ہوں اور ان کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ یہ ری-انویسٹ کانفرنس کا چوتھا ایڈیشن ہے۔ مجھے پورا یقین ہے.... آنے والے تین دنوں تک یہاں اینرجی کے فیوچر، ٹیکنالوجی اور پالیسیز پر سنجیدہ غور وخوض ہوگا۔ یہاں ہمارے سینئر موسٹ تمام وزرائے اعلیٰ بھی ہمارے درمیان ہیں۔ان کا اپنا بھی اس شعبے کا کافی تجربہ ہے، اس بات چیت میں ہمیں ان کی بھی بیش قیمتی رہنمائی حاصل ہوگی ۔ اس کانفرنس سے ہم جو ایک دوسرے سے سیکھیں گے ،وہ پوری انسانیت کی بہتری کے لیے کارآمد ثابت ہوگا۔ میری نیک تمنائیں آپ سب کے ساتھ ہیں۔
دوستو،
آپ سب جانتے ہیں کہ ہندوستان کے عوام نے 60 سال کے بعد مسلسل کسی حکومت کو، تھرڈ ٹرم دیا ہے۔ ہماری حکومت کو ملے تھرڈ ٹرم کے پیچھے ہندوستان کی بہت بڑی ایسپریشنز ہیں۔ آج 140 کروڑ ہندوستانی کواعتماد ہے، ہندوستان کے نوجوانوں کو اعتماد ہے، ہندوستان کی خواتین کواعتماد ہے کہ ان کی ایسپریشنز(امنگوں) کوگزشتہ 10 سالوں میں جو پنکھ لگے ہیں،وہ اس تھرڈ ٹرم میں ایک نئی پرواز بھریں گے۔ ملک کے غریب، دلت، مظلوم اور محروم لوگوں کو یقین ہے کہ ہمارا تھرڈ ٹرم ...ان کی باوقار زندگی گزارنے کی گارنٹی بنے گا۔ 140 کروڑ ہندوستانی، ہندوستان کو تیزی سے ٹاپ تھری اکنامیز میں پہنچانے کے عزم کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ اس لیے آج کا یہ ایونٹ، آئسولیٹڈ ایونٹ نہیں ہے۔ یہ ایک بڑے وژن، ایک بڑے مشن کا حصہ ہے۔ یہ 2047 تک ہندوستان کوڈیولپڈ نیشن بنانے کے ہمارے ایکشن پلان کا حصہ ہے۔ اور ہم یہ کیسے کر رہے ہیں، اس کا ٹریلر تھرڈ ٹرم کے ہمارے پہلے 100ڈیز، 100 دنوں کے فیصلوں میں نظر آتا ہے۔
دوستو،
فرسٹ ہنڈرڈ ڈیز میں، ہماری ترجیحات بھی نظر آتی ہیں، ہماری رفتار اور پیمانہ بھی نظر آتا ہے۔ اس دوران، ہم نے ہر اس سیکٹر اور ہر اس فیکٹرپر توجہ دی ہے جو ہندوستان کی تیز رفتار ترقی کے لیے ضروری ہے۔ ان 100 دنوں میں فزیکل اور سوشل انفراسٹرکچر کی توسیع کے لیے کئی اہم فیصلے لیے گئے ہیں۔ ہمارے غیر ملکی مہمانوں کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ ہندوستان میں ہم 70 ملین یعنی 7کروڑ گھر بنا رہے ہیں، یہ دنیا کے کئی ممالک کی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ حکومت کےگزشتہ دو ٹرم میں ہم اس میں سے 40 ملین یعنی 4 کروڑ گھر بنا چکے ہیں۔ اور تیسری مدت میں ہماری حکومت نے 30 ملین یعنی 3 کروڑ نئے گھروں کی تعمیر کا کام شروع بھی کر دیا ہے۔ گزشتہ 100 دنوں میں ہندوستان میں 12 نئے انڈسٹریل سٹیز بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ گزشتہ 100 دنوں میں 8 ہائی اسپیڈ روڈ کوریڈورپروجیکٹس کی منظوری دی گئی ہے۔گزشتہ 100 دنوں میں 15 سے زیادہ نئی میڈ ان انڈیا، سیمی ہائی اسپیڈ وندے بھارت ٹرین لانچ کی گئی ہیں۔ہم نے ریسرچکو فروغ دینے کے لیے ون ٹریلین روپے کا ریسرچ فنڈ بھی تشکیل دیا ہے۔ ہم نے الیکٹرک موبیلٹی کو فروغ دینے کے لیے بھی کئی اقدامات کا بھی اعلان کیا ہے۔ ہمارا مقصدہائی پرفارمنس بائیو مینوفیکچرنگ کو فروغ دینا ہے، اور یہ مستقبل اسی سے وابستہ رہنے والا ہے۔ اس کے لیے بائیو- ای- تھری پالیسی کی بھی منظوری دی گئی ہے۔
دوستو،
گزشتہ ہنڈرڈ ڈیز میں گرین انرجی کے لیے بھی کئی بڑے فیصلے لیے گئے ہیں۔ ہم نے آف شور ونڈ انرجی پروجیکٹس کے لیے وائبلٹی گیپ فنڈنگ اسکیم شروع کی ہے۔ ہم اس پر سات ہزار کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کرنے والے ہیں۔ ہندوستان، آنے والے وقت میں اکتیس ہزار میگاواٹ ہائیڈرو پاور جنریٹ کرنے کے لیے بھی کام کر رہا ہے۔ اس کے لیے بارہ ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی منظوری دی گئی ہے۔
دوستو،
ہندوستان کی ڈائیورسٹی، ہندوستان کی اسکیل، ہندوستان کی کیپاسٹی، ہندوستان کا پوٹنشیل، ہندوستان کی پرفارمنس… یہ سب یونیک ہیں۔ اس لئے ، میں کہتا ہوں- انڈین سالیوشنز فار گلوبل ایپلیکیشن۔ اس بات کودنیا بھی اچھی طرح سمجھ رہی ہے۔ آج نہ صرف ہندوستانی بلکہ پوری دنیا محسوس کر تی ہے کہ ہندوستان 21ویں صدی کی بیسٹ بیٹ ہے۔ آپ دیکھئے، اس مہینے کی شروعات میں ہی گلوبل فنٹیک فیسٹ کا انعقاد ہوا۔ اس کے بعد پہلے سولر انٹرنیشنل فیسٹیول میں دنیا بھر سے لوگوں نے شرکت کی۔ پھر گلوبل سیمی کنڈکٹر سمٹ میں دنیا کے کونے کونے سے لوگ ہندوستان آئے۔ اس دوران ہندوستان نے سول ایوی ایشن پر ایشیا پیسیفک منسٹریل کانفرنس کے انعقاد کی ذمہ داری ادا کی ۔ اور اب آج یہاں ہم گرین اینرجی کے فیوچر پر بات کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔
دوستو،
میرے لیے یہ بہت ہی خوش کن اتفاق ہے کہ گجرات کی جس سرزمین پر سفید انقلاب... مِلک ریولوشن رونماہوا، جس سرزمین پرمدھو کرانتی...سویٹ ریولوشن، شہد کا کام، اس کا عروج ہوا، جس سرزمین پر سوریہ کرانتی.... سولر ریولوشن ہوا...وہاں یہ عظیم الشان تقریب منعقد ہو رہی ہے۔ گجرات، ہندوستان کی وہ ریاست ہے جس نے ہندوستان میں سب سے پہلے اپنیسولر پاور پالیسی بنائی تھی۔ پہلے گجرات میں پالیسی بنی… اس کے بعد ہم قومی سطح پر آگے بڑھے۔دنیا میں جیسا کہ ابھی بھوپیندر بھائی نے بتایا کلائمیٹ کے لئے الگ سے منسٹری بنانے والوں میں بھی گجرات بہت آگے تھا۔جس وقت ہندوستان میں سولر پاور کی بہت چرچا بھی نہیں تھی… گجرات میں سینکڑوں میگاواٹ کے سولر پلانٹ نصب ہو رہے تھے۔
دوستو،
آپ نے بھی دیکھا ہوگا... یہ جو وینو ہے، اس کا نام مہاتما گاندھی کے نام پرہے - مہاتما مندر۔ جب دنیا میں کلائمیٹ چیلنج کا موضوع سامنے بھی نہیں آیا تھا، تب مہاتما گاندھی نے دنیا کو خبردار کیا تھا۔ اور ہم مہاتما گاندھی کی زندگی دیکھیں گے ، تو یہمنیمم کاربن فوٹ پرنٹ والی زندگی تھی، وہ فطرت سے محبت کی زندگی گزارتے تھے اور انہوں نے کہا تھا – زمین کے پاس ہماری نیڈ (ضروریات) پوری کرنے کے لیے کافی وسائل ہیں، لیکن گریڈ (لالچ) کو پورا نہیں کیا جا سکتا۔ مہاتما گاندھی کا یہ وژن ہندوستان کی عظیم روایت سے نکلا ہے۔ ہمارے لیے، گرین فیوچر، نیٹ زیرو، یہ کوئی فینسی ورڈس نہیں ہیں۔ یہ ہندوستان کی ضرورت ہیں ، یہ ہندوستان کا کمٹمنٹ ہیں ، ہندوستان کی ہر ریاستی حکومت کا کمٹمنٹ ہے۔ ایک ترقی پذیر معیشت کے طور پر، ہمارے پاس بھی ان وعدوں سے باہر رہنے کا جائز بہانہ تھا۔ ہم دنیا کو کہہسکتے تھے کہ دنیا کو تباہ کرنے میں ہمارا کوئی کردار نہیں لیکن ہم نے یہ کہہ کر ہاتھ اوپر نہیں کئے۔ ہم بنی نوع انسان کے روشن مستقبل کے بارے میں فکر کرنے والے لوگ تھے، اور اس لیے دنیا کو راستہ دکھائی دے، ہم نے اسی طرح سے ذمہ داری کے ساتھ متعدد اقدامات کیے ہیں۔
آج کا ہندوستان، صرف آج کے لیے نہیں بلکہ آنے والے ہزار سالوں کے لیے بنیاد تیار کر رہا ہے۔ ہمارا مقصد صرف ٹاپ پر پہنچنا نہیں ہے۔ ہماری تیاری ٹاپ پر برقرار ر ہنےکی ہے۔ بھارت اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے... ہماری توانائی کی ضروریات کیا ہیں۔ ہندوستان جانتا ہے کہ 2047 تک ڈیولپڈ نیشن بننے کے لیے ہماری ضرورتیں کیا ہیں۔ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے پاس اپنے تیل اور گیس کے ذخائر نہیں ہیں۔ ہم اینرجی انڈیپنڈنٹ نہیں ہیں۔ اور اس لیے ہم نے سولر پاور، ونڈ پاور، نیوکلیئر اور ہائیڈرو پاور کی بنیاد پر اپنے فیوچر کوبنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
دوستو،
ہندوستان،جی-20 میںایسا پہلا ملک ہے جس نے پیرس میں طے کلائمیٹ کمٹمنٹس کوڈیڈ لائن سے 9 سال پہلے حاصل کیا اور9برس پہلے پوراکر دیا۔ اور جی-20 ممالک کے گروپ میں ہم واحد ہیں جس نے کر کے دکھایا ہے۔ جو ڈیولپڈ نیشنز نہیں کرسکے، وہ ایک ڈیولپنگ نیشن نے دنیا کو کر کے دکھایا ہے۔ اب 2030 تک 500 گیگا واٹ قابل تجدید توانائی کا ہدف حاصل کرنے کے لیے، ہم ایک ساتھ کئی سطحوں پر بیک وقت کام کر رہے ہیں۔ ہم گرین ٹرانزیشن کو عوامی تحریک بنا رہے ہیں۔ آپ سب کو، ابھی آپ نے ویڈیو بھی دیکھا، ہماری پی ایم سوریہ گھر مفت بجلی اسکیم کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ یہ روف ٹاپ سولر کی ایک منفرد اسکیم ہے۔ اس کے تحت، ہم ہر روف ٹاپ سولر سیٹ اپ کے لیے، خاندان کو فنڈ فراہم کر رہے ہیں اور انسٹالیشن میں مدد کر رہے ہیں۔ اس اسکیم سے ہندوستان کا ہر گھر ایک پاور پروڈیوسر بننے جا رہا ہے۔ اب تک 13 ملین یعنی 1 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ خاندان اس میں رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔ اب تک 3.25 لاکھ گھروں میں اس اسکیم کے تحت انسٹالیشن کا کام مکمل کیا جا چکا ہے۔
دوستو،
پی ایم سوریہ گھر مفت بجلی اسکیم کے جو نتائج آنا شروع ہوئے ہیں… یہ نتائج اپنے آپ میں حیرت انگیز ہیں۔ ایک چھوٹا خاندان جس کا ماہانہ 250 یونٹ بجلی کا خرچ ہے، اور جو 100 یونٹ بجلی پیدا کر کے گرڈ کو فروخت کر رہا ہے، اسے سال میں تقریباً 25 ہزار روپے کی مجموعی بچت ہو گی۔یعنی لوگوں کا جو بجلی بل بچے گا اور جو وہ کمائیں گے ...اس سے ان کو تقریباً 25,000 روپے کا فائدہ ہو گا۔ اگر اس رقم کو وہ پی پی ایف میں ڈالتے ہیں، اور مان لیجئے کہ اگر گھر میں بیٹی پیدا ہوئی، ایک سال کی بیٹی ہے، تو 20 سال کے بعد ان کے پاس 10-12 لاکھ روپے سے زیادہ ہوں گے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں...بچوں کی تعلیم سے لے کر شادی -بیاہ تک یہ رقم بہت کام آئے گی۔
دوستو،
اس اسکیم سے دو اور بڑے فائدے ہیں۔یہ اسکیم بجلی کے ساتھ ساتھ روزگار پیدا کرنے اور ماحولیات کے تحفظ کا بھی ذریعہ بن رہی ہے۔ گرین جابز بہت تیزی سے بڑھنے والی ہیں، ہزاروں وینڈرس کی ضرورت ہوگی، لاکھوں لوگوں کی اس کو انسٹال کرنے کے لئے ضرورت ہوگی۔ اس اسکیم سے تقریباً 2 ملین یعنی 20 لاکھ ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ پی ایم سوریہ گھر اسکیم کے تحت 3 لاکھ نوجوانوں کو ہنر مند افرادی قوت کے طور پر تیار کرنے کا ہدف ہے۔ ان میں سے ایک لاکھ نوجوان تو سولر پی وی ٹیکنیشن بھی ہوں گے۔ اس کے علاوہ، ہر 3 کلو واٹ سولربجلی پیدا ہونے سے 50-60 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج بھی رکے گا۔ یعنی پی ایم سوریہ گھر مفت بجلی اسکیم سے وابستہ ہونے والا ہر خاندان موسمیاتی تبدیلی سے مقابلہ کرنے میں بھی اہم تعاوں دے گا۔
دوستو،
جب 21ویں صدی کی تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں ہندوستان کے شمسی انقلاب کا باب،سولر ریولوشن کا چیپٹر سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔
دوستو،
جو بیرون ملک سے مہمان آئے ہیں میں انکو کہوں گا یہاں سے 100 کلو میٹر کے فاصلے پر ہی ایک بہت خاص گاؤں ہے ۔موڈھیرا۔ وہاں سینکڑوں سال پرانا سن ٹیمپل ہے۔ اور یہ گاؤں بھارت کا پہلا سولر ولیج بھی ہے… یعنی اس گاؤں کی ساری ضرورتیں سولر پاور سے پوری ہوتی ہیں۔ آج ملک بھر میں ایسے متعدد گاؤں کو سولر ولیج بنانے کی مہم چل رہی ہے۔
دوستو،
میں ابھی یہاں جو نمائش لگی ہے ، وہ دیکھنے گیا تھا، آپ سب سے بھی میری گزارش ہے کہ نمائش ضرور دیکھئے۔ آپ سب ایودھیا کے بارے میں توخوب جانتے ہیں۔ ایودھیا شہر، بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے۔ اور بھگوان رام تو سوریہ ونشی تھے۔ اور میں ابھی جب نمائش دیکھ رہا تھا تو وہاں اتر پردیش کا اسٹال دیکھا۔ چونکہ میں کاشی کا ایم پی ہوں ، اتر پردیش والا بھی بن گیا ہوں، تو فطری ہے کہ میں اتر پردیش کا اسٹال دیکھنے بھی گیا۔ اور میری جو ایک خواہش تھی، آج وہ مجھے رپورٹ کر رہے تھے کہ میری خواہش انہوں نے پوری کر دی ہے۔ بھگوان رام کا عظیم الشان مندر توبنا ہے لیکن میں دنیا کو بتانا چاہتا ہوں ، اب اس ایودھیا جو سوریہ ونشی بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے، وہ پورا ایودھیا ماڈل سولر سٹی بنانے کا ہدف لے کر چل رہے ہیں۔ تقریباً کام مکمل ہو نے کو ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ایودھیا کا ہر گھر، ہر دفتر، ہر سروس شمسی توانائی سے چلے ، سولر اینرجی سے چلے۔ اور مجھے خوشی ہے کہ اب تک ہم ایودھیا کی بہت سی سہولیات اور گھروں کو شمسی توانائی سے جوڑ چکے ہیں۔ ایودھیا میں بڑی تعداد میں سولر اسٹریٹ لائٹس، سولر چوراہے، سولر بوٹس، سولر واٹر اے ٹی ایم اور سولر بلڈنگ دیکھی جا سکتی ہیں۔
ہم نے ہندوستان میں ایسے 17 شہروں کی نشاندہی کی ہے ،جنہیں ہم ،اسی طرح سولر سٹی کے طور پر ترقی دینا چاہتے ہیں۔ ہم اپنی ایگریکلچر فیلڈس کو،ہمارے کھیتوں کو بھی اور اپنے کسانوں کو خود کفیل بنانے کے لیے شمسی توانائی کی پیداوار کو ایک ذریعہ بنا رہے ہیں۔ آج کسانوں کو آبپاشی کے لیے سولر پمپ اور چھوٹے سولر پلانٹس لگانے میں مدد دی جا رہی ہے۔ ہندوستان آج قابل تجدید توانائی سے متعلق ہر شعبے میں بڑی رفتار سے اور بڑے پیمانے پر کام کر رہا ہے۔ گزشتہ دہائی میں ہم نے جوہری توانائی سے پہلے کی نسبت 35 فیصد زیادہ بجلی پیدا کی ہے۔ ہندوستان، گرین ہائیڈروجن کے میدان میں گلوبل لیڈر بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے لیے ہم نے تقریباً بیس ہزار کروڑ روپے کا گرین ہائیڈروجن مشن شروع کیا ہے۔ آج ہندوستان میںویسٹ ٹو اینرجی کی بھی ایک بہت بڑی مہم چل رہی ہے۔ کریٹیکل منرلز سے متعلق چیلنجوں کو حل کرنے کے لیے ہم ایک سرکلر اپروچ کو فروغ دے رہے ہیں۔ ری - یوز اور ری سائیکل سے متعلق بہتر ٹیکنالوجی تیار ہوں،اس کے لیے اسٹارٹ اپس کو بھی مدد دی جا رہی ہے۔
دوستو،
پرو- پلانیٹ پیپل کا اصول ہمارا کمٹمنٹہے۔ لہذا، ہندوستان نے دنیا کو مشن لائف، یعنی لائف اسٹائل فار انوائرنمنٹ کا وژن دیا ہے۔ ہندوستان نے انٹرنیشنل سولر الائنسکی پہل کر دنیا کے سینکڑوں ممالک کو جوڑا ہے۔ ہندوستان کی جی -20 صدارت کے دوران بھی گرین ٹرانزیشن پربھی ہماری کافی توجہ رہی۔ جی -20 سربراہی اجلاس کے دوران گلوبل بائیو فیول الائنس بھی لانچ کیا گیا تھا۔ ہندوستان نے اپنے ریلوے کو اس دہائی کے آخر تک نیٹ زیروبنانے کا ہدف بھی مقرر کیا ہے۔ کچھ لوگ سوچ سکتے ہیں کہ انڈین ریلوے کی نیٹ زیرو کا مطلب کیاہے؟ ذرا،میں ان کو بتا دوں۔ ہمارا ریلوے نیٹ ورک اتنا بڑا ہے کہ ڈیلی ٹرین کے ڈبے میں تقریباً 1.5 کروڑ لوگ ہوتے ہیں، اتنا بڑا ٹرین نیٹ ورک۔ اور ہم اس کو نیٹ زیروبنانے والے ہیں۔ ہم نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ 2025 تک ہم پٹرول میں 20 فیصد ایتھنول بلنڈنگ کا ہدف حاصل کریں گے۔بھارت کے لوگوں نے گاؤں گاؤں میں ہزاروں امرت سروور بھی بنائے ہیں، جو پانی کاذخیرہ کرنے کے کام آ رہے ہیں۔ آجکل آپ دیکھ رہے ہوں گے…بھارت میں لوگ اپنی ماں کے نام پر ایک پیڑ لگا رہے ہیں، 'ایک پیڑ مان کے نام'۔ میں آپ سے بھی اس مہم میں شامل ہونے کی گذارش کروں گا، دنیا کے ہر شہری سے گذارش کروں گا۔
دوستو،
ہندوستان میں قابل تجدید توانائی کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ حکومت بھی اس ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے لیے نئی پالیسیاں بھی بنا رہی ہے اور ہر طرح سے تعاون فراہم کر رہی ہے۔ اس لئے ، آپ کے سامنے مواقع صرف توانائی کی پیداوار میں نہیں ہیں ۔ بلکہ، مینوفیکچرنگ میں بھی حیرت انگیز امکانات ہیں۔ ہندوستان کی کوشش مکمل طور پر میڈ ان انڈیا سالیوشنزکی ہے۔ اس سے بھی یہاں آپ کے لیے بہت سے امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔ ہندوستان واقعی آپ کے لیے توسیع کی اور بہتر ریٹرن کیگارنٹی ہے۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس میں شامل ہوں گے۔ اس شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے اس سے بہتر جگہ نہیں ہو سکتی، اختراع کے لیے بہت اچھی جگہ اور نہیں ہو سکتی۔ اور میں کبھی- کبھی سوچتا ہوں، ہمارے میڈیا میں کبھی- کبھی گاسپ کالم آتے ہیں، وہ بہت مسالے دار ہوتی ہیں ، مزیدار ہوتی ہیں کبھی-کبھی۔ لیکن انکی ایک بات پر توجہ نہیں گئی اور آج کے بعد ضرور متوجہ ہوںگے۔ ابھی جو یہاں تقریر کر رہے تھے ناپرہلاد جوشی، وہ ہمارے قابل تجدید توانائی کے وزیر ہیں، لیکن میری پچھلی حکومت میں وہ کوئلہ کے وزیر تھے۔ تو دیکھئے، میرا وزیر بھی کوئلے سے قابل تجدید توانائی کی طرف چلا گیا۔
میں ایک بار پھر آپ سب کو ہندوستان کی گرین ٹرانزیشن میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے مدعو کرتا ہوں۔ اور آپ اتنی بڑی تعداد میں یہاں آئے ، میںآپ کاپھر سے ایک بار، اس سرزمین میں میں پیدا ہوا، گجرات نے مجھے بہت کچھ سکھایا،تو میرا بھی دل کر تا ہے کہ گجرات کے وزیر اعلیٰ کے ساتھ- ساتھ، میں بھی آپ سب کے استقبال میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے، آپ سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، تمام ریاستی حکومتوں کی شراکت داری کے لیے،میں تمام ریاستی حکومتوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔جو وزائے اعلیٰ یہاں تشریف لائے ہیں، ان کا بھی میں خصوصی شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ اور میں پورے اعتماد کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہماری یہ سمٹ، اس سمٹ میں ہونے والی بات چیت ہم سب کو جوڑے گی اور ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کے لئے جوڑے گی۔
مجھے یاد ہے کہ ایک بار صدر اوبامایہاں پر ٹور، ہندوستان میں ان کا قیام تھا، دو طرفہ دورے کے لئے آئے تھے۔ تو ہماری پریس کانفرنس تھی دہلی میں ، تو کسی صحافی نے پوچھا کیوں کہ اس وقت لوگ طرح طرح کے اعداد و شمار کا اعلان کر رہے تھے ، یہ کریں گے، وہ کریں گے، تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ دنیا میں الگ الگ ممالک بڑے -بڑے تارگیٹ طے کر رہے ہیں؟ کیا اس کا دباؤ ہے آپ کے دل پر؟ اور میں نے اس دن جواب دیا تھا میڈیا کو کہ مودی ہے…یہاں پر کسی کا دباؤ وباؤ نہیں چلتا ہے۔ پھر میں نے کہا تھا کہ ہاں مجھ پر دباؤ ہے اور وہ دباؤ ہے ہماری مستقبل کی پیڑھی کے بچوں کا، جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے ہیں۔ اور اسی لئے آنے والی نسلوں کی بہبود کے لئے کام میں کر رہا ہوں اور آج بھی یہ اجلاس ہمارے بعد دوسری- تیسری-چوتھی نسل کے روشن مستقبل کی گارنٹی بننے والا ہے۔ اتنا بڑا کام کرنے کے لئے آپ یہاں آئے ہیں ، مہاتما گاندھی کے نام پربنے اس مہاتما مندر میں آئے ہیں۔ میں پھر ایک بار آپ سب کا تہہ دل سے بہت۔ بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔