مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی ایس جے شنکر جی، گجیندر سنگھ شیخاوت جی، یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آدرے اوزلے جی، میرے کابینہ کے دیگر اراکین راؤ اندرجیت سنگھ جی، سریش گوپی جی اور ورلڈ ہیریٹیج کمیٹی کے چیئرمین وشال شرما جی، دیگر تمام معززین، خواتین اور حضرات،
آج ہندوستان گرو پورنیما کا مقدس تہوار منا رہا ہے۔ سب سے پہلے میں آپ سب کو اور تمام ہم وطنوں کو علم اور روحانیت کے اس تہوار پر مبارکباد دیتا ہوں۔ ایسے اہم دن پر آج 46ویں ورلڈ ہیریٹیج کمیٹی کا اجلاس شروع ہو رہا ہے۔ اور یہ تقریب ہندوستان میں پہلی بار منعقد کی جا رہی ہے، اور فطری طور پر مجھ سمیت تمام ہم وطن اس پر بہت خوش ہیں۔ میں اس موقع پر دنیا بھر سے آنے والے تمام معززین اور مہمانوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ خاص طور پر، میں یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آدرے اوزولے کو بھی مبارکباد دیتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ ہر عالمی ایونٹ کی طرح یہ ایونٹ بھی ہندوستان میں کامیابی کے نئے ریکارڈ بنائے گا۔
ساتھیو،
حال ہی میں میں بیرون ملک سے واپس لائے گئے قدیم ورثے کی نمائش بھی دیکھ رہا تھا۔ گزشتہ برسوںمیں، ہم ہندوستان کے 350 سے زیادہ قدیم ورثے کی اشیا کو واپس لائے ہیں۔ قدیم ورثے کی واپسی عالمی سخاوت اور تاریخ کے احترام کی عکاسی کرتی ہے۔ یہاں کی عمیق نمائش بھی اپنے آپ میں ایک شاندار تجربہ ہے۔ جیسے جیسے ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے، اس شعبے میں تحقیق اور سیاحت کے بھی بے پناہ امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔
دوستو،
ورلڈ ہیریٹیج کمیٹی کا یہ پروگرام ہندوستان کے لیے ایک قابل فخر کارنامہ ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ہمارے شمال مشرقی ہندوستان کے تاریخی ‘موئدم‘ کو یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل کرنے کی تجویز ہے۔ یہ ہندوستان کے 43 ویں عالمی ورثے کامقام اور شمال مشرقی ہندوستان کا پہلا ورثہ ہوگا جسے ثقافتی عالمی ورثے کا درجہ مل رہا ہے۔ موئدم اپنی خصوصیات کی وجہ سے بہت خاص ہے۔ مجھے یقین ہے کہ عالمی ورثے کی فہرست میں آنے کے بعد ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا اور اس کی طرف دنیا کی کشش بڑھے گی۔
ساتھیو،
آج کی تقریب میں دنیا کے کونے کونے سے ماہرین تشریف لائے ہیں جو کہ بذات خود اس سربراہی اجلاس کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ اہتمام ہندوستان کی سرزمین پر ہو رہا ہے جو دنیا کی قدیم ترین زندہ تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ ہم نے دیکھا ہے... دنیا میں وراثتوں کے مختلف مراکز ہیں۔ لیکن ہندوستان اتنا قدیم ہے کہ یہاں موجودہ دور کا ہر نقطہ کسی نہ کسی شاندار ماضی کی کہانی سناتا ہے۔ دہلی کی مثال لے لیں...دنیا دہلی کو ہندوستان کے دارالحکومت کے طور پر جانتی ہے۔ لیکن، یہ شہر ہزاروں سال پرانے ورثے کا مرکز بھی ہے۔ یہاں آپ کو ہر قدم پر تاریخی ورثہ نظر آئے گا۔ یہاں سے تقریباً 15 کلومیٹر کے فاصلے پر کئی ٹن وزنی لوہے کا ستون ہے۔ ایک ستون، جو 2 ہزار سال سے کھلے میں کھڑا ہے، آج بھی اس پر زنگ نہیں لگا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کی دھات کاری اس وقت بھی کتنی ترقی یافتہ تھی۔ یہ واضح ہے کہ ہندوستان کا ورثہ صرف ایک تاریخ نہیں ہے۔ ہندوستان کا ورثہ ایک سائنس بھی ہے۔
ہندوستان کاورثہ اعلیٰ درجے کی انجینئرنگ کے شاندار سفر کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ یہاں دہلی سے چند سو کلومیٹر دور 3500 میٹر کی بلندی پر کیدارناتھ مندر واقع ہے۔ آج بھی وہ جگہ جغرافیائی طور پر بھی اتنی دشوار گزار ہے کہ لوگوں کو کئی کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا ہے یا ہیلی کاپٹر سے جانا پڑتا ہے۔ وہ جگہ اب بھی کسی بھی تعمیر کے لیے کافی چیلنجنگ ہے... سال کے بیشتر حصے میں برف باری کی وجہ سے وہاں کام کرنا ناممکن ہے۔ لیکن، آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ کیدارگھاٹی میں اتنا بڑا مندر آٹھویں صدی میں بنایا گیا تھا۔ اس کی انجینئرنگ میں سخت ماحول اور گلیشیئرز کا پورا دھیان رکھا گیا۔ یہی نہیں مندر میں کہیں بھی مارٹر کا استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن، وہ مندر اب بھی اٹل ہے۔ اسی طرح جنوب میں راجہ چول کےذریعہ تعمیر کردہ برہادیشور مندر کی بھی مثال ملتی ہے ۔ مندر کی تعمیراتی ترتیب، افقی اور عمودی جہتیں، مندر کے مجسمے، مندر کا ہر حصہ اپنے آپ میں ایک عجوبہ معلوم ہوتا ہے۔
دوستو،
ریاست گجرات جہاں سے میں آیا ہوں، وہاں دھولاویرا اور لوتھل جیسی جگہیں ہیں۔ دھولاویرا میں 3000 اور 1500 قبل مسیح کے درمیان جس قسم کی شہری منصوبہ بندی موجود تھی… جس طرح کے پانی کے انتظام کے نظام اور انتظامات موجود تھے… وہ 21 ویں صدی میں بھی ماہرین کو حیران کیے ہوئے ہیں۔ لوتھل میں بھی قلعہ اور زیریں شہر کی منصوبہ بندی… گلیوں اور نالوں کا انتظام… یہ اس قدیم تہذیب کی جدید سطح کو ظاہر کرتا ہے۔
دوستو،
ہندوستان کی تاریخ اور ہندوستانی تہذیب تاریخ کی عام فہم سے کہیں زیادہ قدیم اور جامع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے نئے حقائق سامنے آ رہے ہیں… جیسے جیسے تاریخ کی سائنسی تصدیق ہو رہی ہے… ہمیں ماضی کو دیکھنے کے لیے نئے زاویے تیار کرنا ہوں گے۔ یہاں موجود عالمی ماہرین کو اتر پردیش کے سینولی میں ملنے والے شواہد کے بارے میں ضرور جاننا چاہیے۔ سینولی کے آثار تانبے کے دور کے ہیں، لیکن، یہ وادی سندھ کی تہذیب کے بجائے ویدک تہذیب سے مطابقت رکھتے ہیں۔ 2018 میں وہاں سے ایک 4 ہزار سال پرانا رتھ ملا تھا، یہ ‘گھوڑے سے چلنے والا’ تھا۔ یہ تحقیق، یہ نئے حقائق کو سامنے لاتی ہے کہ ہندوستان کو جاننے کے لیے تصورات سے پاک نئی سوچ کی ضرورت ہے۔ میں آپ سب سے اپیل کرتا ہوں کہ نئے حقائق کی روشنی میں تاریخ کی جو نئی تفہیم تیار ہورہی ہے، آپ اس کا حصہ بنیں اور اسے آگے بڑھائیں۔
دوستو،
ورثہ صرف تاریخ نہیں بلکہ انسانیت کا مشترکہ شعور ہے۔ جب ہم دنیا میں کہیں بھی کوئی ورثہ دیکھتے ہیں تو ہمارا ذہن موجودہ جیو پولیٹیکل فیکٹرز سے اوپر اٹھتا ہے۔ ہمیں ورثے کی اس صلاحیت کو دنیا کی بہتری کے لیے استعمال کرنا ہے۔ ہمیں اپنے ورثے کے ذریعے دلوں کو جوڑنا ہے اور آج، 46 ویں ورلڈ ہیریٹیج کمیٹی کی میٹنگ کے ذریعے، یہ پوری دنیا کے لیے ہندوستان کی اپیل ہے... آئیے ہم سب شامل ہوں... ایک دوسرے کے ورثے کو آگے بڑھانے کے لیے... آئیے... ہم سب شامل ہوں... انسانی فلاح کے جذبے کی توسیع کے لیے! آئیے ہم سب مل کر سیاحت میں اضافہ کریں اور اپنے ورثے کو محفوظ رکھتے ہوئے روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کریں۔
دوستو،
دنیا نے ایک ایسا دور بھی دیکھا ہے جب ترقی کی دوڑ میں ورثے کو نظر انداز کیا جانے لگا تھا۔ لیکن، آج کا دور بہت زیادہ باشعور ہے۔ ہندوستان کا ایک وژن ہے - ترقی کے ساتھ ساتھ ورثہ بھی! پچھلے 10 سالوں میں ایک طرف ہندوستان نے جدید ترقی کی نئی جہتوں کو چھو لیا ہے تو دوسری طرف اس نے ‘وراثت پر فخر’ کرنے کا عہد بھی لیا ہے۔ ہم نے ورثے کے تحفظ کے لیے بے مثال اقدامات کیے ہیں۔ کاشی میں وشوناتھ کوریڈور ہو، ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر ہو، قدیم نالندہ یونیورسٹی کے جدید کیمپس کی تعمیر ہو، ایسے کئی کام ملک کے کونے کونے میں ہو رہے ہیں۔ وراثت کے حوالے سے ہندوستان کے عزم میں پوری انسانیت کی خدمت کا جذبہ شامل ہے۔ ہندوستانی ثقافت اپنے بارے میں نہیں بلکہ ہم سب کے بارے میں بات کرتی ہے۔ ہندوستان کا جذبہ ہے - میں نہیں، بلکہ ہم! اس سوچ کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ہندوستان نے ہمیشہ دنیا کی فلاح و بہبود کے لیے شراکت دار بننے کی کوشش کی ہے۔
آج پوری دنیا میں یوگا کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ آج پوری دنیا آیورویدک سائنس کے فوائد حاصل کر رہی ہے۔ یہ یوگا، یہ آیوروید... یہ ہندوستان کا سائنسی ورثہ ہیں۔ پچھلے سال ہم نے جی- 20 سمٹ کی بھی میزبانی کی تھی۔ اس سربراہی اجلاس کا موضوع تھا‘ایک زمین، ایک خاندان، ایک مستقبل’ ۔ ہمیں اس کی تحریک کہاں سے ملی؟ ہمیں اس کی تحریک ’واسودھیو کٹمبکم‘ کے خیال سے ملی ہے۔ ہندوستان خوراک اور پانی کے بحران جیسے چیلنجوں کے لیے میلیٹس کو فروغ دے رہا ہے… ہماری سوچ ہے – ‘ماتا بھومی: پتروہم پرتھیویا’، یعنی یہ زمین ہماری ماں ہے، ہم اس کے بچے ہیں۔ اس خیال کو ذہن میں رکھتے ہوئے، آج ہندوستان انٹرنیشنل سولر الائنس اور مشن لائف جیسے حل فراہم کر رہا ہے۔
ساتھیو،
ہندوستان بھی عالمی ورثے کے اس تحفظ کو اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی وراثت کے ساتھ ساتھ ہم گلوبل ساؤتھ کے ممالک میں وراثت کے تحفظ میں بھی تعاون کر رہے ہیں۔ کمبوڈیا کے انکور واٹ، ویتنام کے چام مندر، میانمار کے بگان میں استوپ، ہندوستان اس طرح کے بہت سے ورثے کے تحفظ میں مدد کر رہا ہے اور اس سمت میں آج میں ایک اور اہم اعلان کر رہا ہوں۔ ہندوستان یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کے مرکز کے لیے ایک ملین ڈالر کا تعاون کرے گا۔ یہ گرانٹ صلاحیت سازی، تکنیکی مدد اور عالمی ورثے کی جگہوں کے تحفظ میں استعمال کی جائے گی۔ خاص طور پر یہ رقم گلوبل ساؤتھ کے ممالک کے لیے کارآمد ثابت ہوگی۔ ہندوستان میں نوجوان پیشہ ور افراد کے لیے ورلڈ ہیریٹیج مینجمنٹ میں ایک سرٹیفکیٹ پروگرام بھی شروع کیا گیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ثقافتی اور تخلیقی صنعت عالمی ترقی میں ایک بڑا عنصر بن جائے گی۔
ساتھیو،
آخر میں، میں بیرون ملک سے آنے والے تمام مہمانوں سے ایک اور گزارش کرنا چاہوں گا… آپ کو ہندوستان کی سیر ضرور کرنی چاہیے۔ ہم نے آپ کی سہولت کے لیے آئیکونک ہیریٹیج سائٹس کے لیے ٹور سیریز بھی شروع کی ہے۔ مجھے یقین ہے، یہ تجربات آپ کے سفر کو یادگار بنائیں گے۔ ورلڈ ہیریٹیج کمیٹی کے اجلاس کے لیے ایک بار پھر آپ سب کے لیے نیک خواہشات۔ آپ کا بہت بہت شکریہ، نمستے۔