ممتاز قانونی ماہرین، دنیا بھر کے مختلف ممالک کے مہمانان، اور معزز سامعین ۔ آپ سب کو میرا نمستے۔
ساتھیو،
اس کانفرنس کا افتتاح کرنا اعزاز کی بات ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ دنیا بھر کے سرکردہ قانونی ماہرین یہاں موجود ہیں۔ ایک ارب چار کروڑ بھارتیوں کی طرف سے میں اپنے تمام بین الاقوامی مہمانوں کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ میں آپ سبھی سے درخواست کرتا ہوں کہ شاندار بھارت سے بھرپور لطف اٹھائیں۔
ساتھیو،
مجھے بتایا گیا ہے کہ یہاں افریقہ کے بہت سے دوست ہیں۔ افریقی یونین کے ساتھ بھارت کے خصوصی تعلقات ہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ افریقی یونین بھارت کی صدارت کے دوران جی 20 کا حصہ بن گیا۔ یہ افریقہ کے عوام کی امنگوں کو پورا کرنے میں ایک طویل سفر طے کرے گا۔
ساتھیو،
گزشتہ چند مہینوں میں میں نے کئی مواقع پر قانونی برادری سے گفت و شنید کی ہے۔ کچھ دن پہلے میں سپریم کورٹ آف انڈیا کے 75 سال مکمل ہونے کی تقریب میں تھا۔ گزشتہ ستمبر میں، اسی مقام پر، میں بین الاقوامی وکلاء کانفرنس میں آیا تھا۔ اس طرح کی بات چیت سے ہم سب کو اپنے انصاف کے نظام کے کام کی تعریف کرنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ بہتر اور تیز تر انصاف کی فراہمی کے لیے حل کرنے کے مواقع بھی ہیں۔
ساتھیو،
بھارتی افکار میں انصاف کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ قدیم بھارتی مفکرین نے کہا تھا: न्यायमूलं स्वराज्यं स्यात्اس کا مطلب ہے کہ انصاف آزادی کی اصل ہے۔ انصاف کے بغیر کسی قوم کا وجود ممکن نہیں ہے۔
ساتھیو،
اس کانفرنس کا موضوع ’انصاف کی فراہمی میں سرحد پار چیلنجز‘ ہے۔ ایک انتہائی مربوط ، تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں ، یہ ایک بہت ہی متعلقہ موضوع ہے۔ بعض اوقات، ایک ملک میں انصاف کو یقینی بنانے کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔جب ہم تعاون کرتے ہیں، تو ہم ایک دوسرے کے نظام کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ تفہیم زیادہ ہم آہنگی لاتی ہے۔ ہم آہنگی بہتر اور تیز تر انصاف کی فراہمی کو فروغ دیتی ہے۔ لہذا، اس طرح کے پلیٹ فارم اور کانفرنسیں اہم ہیں۔
ساتھیو،
ہمارے نظام پہلے ہی بہت سے میدانوں میں باہمی طور پر مل کر کام کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ہوائی ٹریفک کنٹرول اور سمندری ٹریفک۔ اسی طرح ہمیں تحقیقات اور انصاف کی فراہمی میں تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کے دائرہ اختیار کا احترام کرتے ہوئے بھی تعاون ہوسکتا ہے۔ جب ہم مل کر کام کرتے ہیں تو دائرہ اختیار انصاف کی فراہمی کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے، اس میں تاخیر نہیں ہوتی۔
ساتھیو،
حالیہ دنوں میں، جرائم کی نوعیت اور دائرہ کار میں ایک بنیادی تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ جرائم پیشہ افراد کے مختلف ممالک اور خطوں میں وسیع نیٹ ورک ہیں۔ وہ فنڈنگ اور آپریشنز دونوں کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں۔ ایک خطے میں اقتصادی جرائم کو دوسرے خطوں میں سرگرمیوں کی مالی اعانت کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ کرپٹو کرنسی اور سائبر خطرات میں اضافہ نئے چیلنج پیدا کر رہا ہے۔ اکیسویں صدی کے چیلنجوں کا مقابلہ بیسویں صدی کی اپروچ سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر نظر ثانی، ازسرنو تصور اور اصلاح کی ضرورت ہے۔ اس میں انصاف فراہم کرنے والے قانونی نظام کو جدید بنانا بھی شامل ہے۔ اس میں ہمارے نظام کو زیادہ لچکدار اور قابل قبول بنانا شامل ہے۔
ساتھیو،
جب ہم اصلاحات کی بات کرتے ہیں تو انصاف کے نظام کو زیادہ شہری مرکوز بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انصاف کی آسانی انصاف کی فراہمی کا ایک ستون ہے۔ اس میدان میں، بھارت کے پاس اشتراک کرنے کے لیے بہت سے اسباق ہیں۔ سال 2014 میں بھارت کے لوگوں نے مجھے وزیر اعظم بننے کی ذمہ داری سے نوازا۔ اس سے پہلے میں ریاست گجرات میں وزیر اعلیٰ کے طور پر کام کرتا تھا۔ اس کے بعد ہم نے شام کے وقت کی عدالتیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سے لوگوں کو اپنے کام کے اوقات کے بعد عدالت کی سماعتوں میں شرکت کرنے میں مدد ملی۔ اس سے انصاف تو ملا لیکن وقت اور پیسے کی بھی بچت ہوئی۔ لاکھوں لوگ اس سے مستفید ہوئے۔
ساتھیو،
بھارت میں بھی لوک عدالت کا ایک انوکھا تصور ہے۔ اس کا مطلب ہے عوام کی عدالت۔ یہ عدالتیں پبلک یوٹیلیٹی سروسز سے متعلق چھوٹے مقدمات کے تصفیے کے لیے ایک میکانزم فراہم کرتی ہیں۔ یہ قانونی چارہ جوئی سے پہلے کا عمل ہے۔ ایسی عدالتوں نے ہزاروں مقدمات کو حل کیا ہے اور انصاف کی آسان فراہمی کو یقینی بنایا ہے۔ اس طرح کے اقدامات پر بات چیت دنیا بھر میں بہت اہمیت کی حامل ہوسکتی ہے۔
ساتھیو،
قانونی تعلیم انصاف کی فراہمی کو فروغ دینے میں ایک اہم ذریعہ ہے۔ تعلیم گاہ وہ جگہ ہے جہاں نوجوان ذہنوں میں جذبہ اور پیشہ ورانہ صلاحیت دونوں کو متعارف کرایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں اس بات پر بحث جاری ہے کہ کس طرح ہر شعبے میں زیادہ سے زیادہ خواتین کو لایا جائے۔ ایسا کرنے کا پہلا قدم تعلیمی سطح پر ہر ڈومین کو جامع بنانا ہے۔ جب لاء اسکولوں میں خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوگا تو قانونی پیشے میں خواتین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس کانفرنس کے شرکاء اس بارے میں خیالات کا تبادلہ کر سکتے ہیں کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ خواتین کو قانونی تعلیم میں لایا جا سکتا ہے۔
ساتھیو،
دنیا کو نوجوان قانونی ذہنوں کی ضرورت ہے جو متنوع نمائش رکھتے ہیں۔ قانونی تعلیم کو بھی بدلتے وقت اور ٹکنالوجیوں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ جرائم، تفتیش اور شواہد میں تازہ ترین رجحانات کو سمجھنے پر توجہ مرکوز کرنا مددگار ثابت ہوگا۔
ساتھیو،
زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی ایکسپوژر کے ساتھ نوجوان قانونی پیشہ ور افراد کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری بہترین لاء یونیورسٹیاں ممالک کے درمیان تبادلے کے پروگراموں کو مضبوط بنا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، بھارت میں شاید دنیا کی واحد یونیورسٹی ہے جو فارنسک سائنس کے لیے وقف ہے۔ طلبہ، لاء فیکلٹی اور یہاں تک کہ مختلف ممالک کے ججوں کو یہاں مختصر کورسز تلاش کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ انصاف کی فراہمی سے متعلق بہت سے بین الاقوامی ادارے موجود ہیں۔ ترقی پذیر ممالک ان میں زیادہ سے زیادہ نمائندگی حاصل کرنے کے لیے مل کر کام کرسکتے ہیں۔ ہمارے طلبہ کو ایسے اداروں میں انٹرن شپ تلاش کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ یہ ہمارے قانونی نظام کو بین الاقوامی بہترین طریقوں سے سیکھنے کے قابل بنائے گا۔
ساتھیو،
بھارت کو نوآبادیاتی دور سے ایک قانونی نظام ورثے میں ملا تھا۔ لیکن گزشتہ چند برسوں میں ہم نے اس میں کئی اصلاحات کی ہیں۔ مثال کے طور پر بھارت نے نوآبادیاتی دور کے ہزاروں فرسودہ قوانین کو ختم کر دیا ہے۔ ان میں سے کچھ قوانین میں لوگوں کو ہراساں کرنے کا آلہ بننے کی صلاحیت تھی۔ اس سے زندگی گزارنے میں آسانی اور کاروبار کرنے میں آسانی پیدا ہوئی ہے۔ بھارت موجودہ حقائق کی عکاسی کرنے کے لیے قوانین کو بھی جدید بنا رہا ہے۔ اب، 3 نئے قوانین نے 100 سال سے زیادہ پرانے نوآبادیاتی فوجداری قوانین کی جگہ لے لی ہے۔ اس سے پہلے، توجہ سزا اور تعزیری پہلوؤں پر تھی۔ اب توجہ انصاف کو یقینی بنانے پر ہے۔ لہذا، شہریوں کو خوف کے بجائے یقین دہانی کا احساس ہے۔
ساتھیو،
ٹیکنالوجی انصاف کے نظام پر بھی مثبت اثر ڈال سکتی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں بھارت نے مقامات کی نقشہ سازی اور دیہی لوگوں کو واضح پراپرٹی کارڈ فراہم کرنے کے لیے ڈرونز کا استعمال کیا ہے۔ تنازعات کم ہوئے ہیں۔ قانونی چارہ جوئی کے امکانات کم ہوئے ہیں۔ اور انصاف کے نظام کا بوجھ کم ہوا ہے، جس سے یہ زیادہ موثر ہوا ہے۔ ڈیجیٹلائزیشن نے بھارت میں بہت سی عدالتوں کو کارروائی آن لائن کرنے میں بھی مدد کی ہے۔ اس سے لوگوں کو دور دراز علاقوں سے بھی انصاف تک رسائی حاصل کرنے میں مدد ملی ہے۔ بھارت دوسرے ممالک کے ساتھ اس سلسلے میں اپنی تعلیم کا اشتراک کرنے پر خوش ہے۔ ہم دوسرے ممالک میں بھی اسی طرح کے اقدامات کے بارے میں جاننے کے خواہاں ہیں۔
ساتھیو،
انصاف کی فراہمی میں ہر چیلنج سے نمٹا جا سکتا ہے۔ لیکن سفر ایک مشترکہ قدر کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ ہمیں انصاف کے لیے جذبہ بانٹنا چاہیے۔ دعا ہے کہ یہ کانفرنس اس جذبے کو مزید تقویت دے۔ آئیے ہم ایک ایسی دنیا کی تعمیر کریں جہاں ہر کسی کو بروقت انصاف تک رسائی حاصل ہو اور کوئی بھی پیچھے نہ رہے۔
شکریہ۔