’’بجٹ کے بعد کا یہ غوروخوض عمل درآمد اور معینہ مدت کے اندر فراہمی کے نقطہ نظر سے اہم ہے۔ اس سے ٹیکس دہندگان کے پیسے کی ایک ایک پائی کے مناسب استعمال کو بھی یقینی بنایا جائے گا‘‘
’’ہم بہتر طرز حکمرانی پر جتنا زور دیں گے، آخری میل تک پہنچنے کا ہمارا مقصد اتنی ہی آسانی سے پورا ہو جائے گا‘‘
’’آخری میل تک پہنچنے کا نقطہ نظر اور100 فیصد کارگزاری کی پالیسی ایک دوسرے کے لئے معاون ہیں ‘‘
جب ہمارا مقصد سب تک پہنچنا ہے تو پھر امتیازی سلوک اور بدعنوانی کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی
’’اس سال کے بجٹ میں قبائلی اور دیہی علاقوں کےآخری میل تک پہنچنے کے منتر پر خصوصی توجہ دی گئی ہے‘‘
’’پہلی بار، ملک اس پیمانے پر ہمارے ملک کے قبائلی معاشرے کی بڑی صلاحیت کو استعمال کر رہا ہے‘‘
’’ قبائلی برادری میں سب سے زیادہ محروم افراد کے لیے خصوصی مشن کے تحت تیزی سے سہولیات فراہم کرنے کی غرض سے پورے ملک والے نقطہ نظر کی ضرورت ہے‘‘
’’ خواہش مند ضلع پروگرام آخری میل تک پہنچنے کے حوالے سے ایک کامیاب ماڈل کے طور پر اُبھرا ہے‘‘

عام طور پر یہ روایت  رہی ہے کہ بجٹ کے بعد پارلیمنٹ میں بجٹ کے حوالے سے بحث ہوتی ہے اور یہ ضروری بھی ہے اور مفید بھی۔ لیکن ہماری حکومت نے بجٹ پر بحث کو ایک قدم آگے بڑھایا ہے۔ پچھلے کچھ برسوں سے، ہماری حکومت نے بجٹ کی تیاری سے پہلے بھی اور  بجٹ کے بعد  بھی  تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ غور و خوض  کی ایک نئی روایت شروع کی ہے۔ یہ عمل درآمد کے لحاظ سے،  ٹائم باؤنڈ ڈیلیوری کے نقطہ نظر سے بہت ہی اہم ہے۔ اس سے  ٹیکس دہندگان کے پیسے کی ہر ایک پائی کے مناسب استعمال کو بھی یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں، میں نے مختلف شعبوں کے ماہرین سے گفتگو کی ہے۔ آج ریچنگ دی لاسٹ مائل، جسے مہاتما گاندھی کہا کرتے تھے کہ آپ کی پالیسیاں، آپ کے منصوبے آخری سرے پر بیٹھے شخص تک کتنی جلدی پہنچتے ہیں، کیسے پہنچتے ہیں، یہ بہت اہم ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج اس موضوع پر تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ایک وسیع صلاح و مشورہ  کیا جارہاہے کہ بجٹ میں عوامی فلاح و بہبود کے جتنے کام ہیں، اتنا بجٹ ہے، ہم اسے پوری شفافیت کے ساتھ مستحقین تک کیسے پہنچا سکتے ہیں۔

ساتھیو،

ہمارے ملک میں ایک پرانا تصور  رہا ہے کہ عوام کی فلاح و بہبود اور ملک کی ترقی  صرف پیسے سے ہی ممکن ہے۔  ایسا نہیں ہے۔ ملک اور اہل وطن کی ترقی کے لیے پیسہ تو ضروری ہے  ہی لیکن پیسے کے ساتھ دماغ کی بھی ضرورت ہے۔ سرکاری کاموں اور سرکاری اسکیموں کی کامیابی کے لیے سب سے ضروری شرط  ہے- گڈ گورننس، بہترین حکمرانی، حساس انتظامیہ، عام آدمی کے لیے وقف حکمرانی ہے۔ جب حکومت کے کام ناپ تول  کے لائق ہوتے ہیں، اس کی مسلسل نگرانی ہوتی ہے، تو یہ فطری بات ہے کہ آپ مقررہ اہداف ،مقررہ وقت میں حاصل کر کے مطلوبہ نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ اس لئے ہم گڈ گورننس پر جتنا زیادہ زور دیں گے، اتنا ہی ’ریچنگ دی لاسٹ مائل‘کا ہمارا ہدف  آسانی سے پورا  ہو  گا۔ آپ یاد  کیجئےکہ پہلے ہمارے ملک میں ویکسین کو دور دراز علاقوں تک پہنچنے میں کئی دہائیاں لگ جاتی تھیں۔ ویکسینیشن کوریج کے معاملے میں ملک بہت پیچھے تھا۔ ملک کے کروڑوں بچوں، خاص طور پر گاؤوں  اور قبائلی علاقوں میں رہنے والے بچوں  کو ویکسین کے لیے برسوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔ اگر ہم نے پرانے انداز کے ساتھ کام کیا ہوتا تو ہندوستان میں 100 فیصد ویکسینیشن کوریج حاصل کرنے میں مزید کئی دہائیاں لگ جاتیں۔ ہم نے ایک نئے انداز کے ساتھ کام شروع کیا، مشن اندر دھنش شروع کیا اور پورے ملک میں ویکسینیشن کے نظام کو بہتر کیا۔ جب کورونا کی عالمی وبا آئی تو ہمیں اس نئے نظام کا فائدہ ہوا، ویکسین کو دور دور تک پہنچانے میں مدد ملی اور مجھے یقین ہے کہ اس میں گڈ گورننس کا بڑا رول ہے، یہ ایک ایسی قوت ہے جس نے ’ریچنگ دی لاسٹ مائل‘ کی ترسیل کو ممکن بنایا ہے۔

ساتھیو،

ریچنگ دی لاسٹ مائل کی اپروچ اور سیچوریشن  کی پالیسی تک پہنچنا ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب غریب بنیادی سہولتوں کے لیے حکومت کے چکر لگاتے تھے، انہیں کسی بچولیہ کی تلاش ہوتی تھی، جس کی وجہ سے بدعنوانی میں اضافہ ہوتا تھا اور لوگوں کے حقوق پامال ہوتے تھے۔ اب حکومت غریبوں کو ان کی دہلیز پر جا کر سہولیات فراہم کر رہی ہے۔ جس دن ہم یہ طے کر لیں گے کہ ہر بنیادی سہولت، ہر شعبے میں، ہر شہری کو بلا تفریق فراہم کی جائے گی، تب ہم دیکھیں گے کہ مقامی سطح پر کام کے طور طریقوں میں کیا بڑی تبدیلی آتی ہے۔ اطمینان کی پالیسی کے پیچھے یہی جذبہ ہے۔ جب ہمارا ہدف ہر  ایک اسٹیک ہولڈر تک پہنچنے کا ہوگا تو پھر تعصب، بدعنوانی اور اقربا پروری کی کوئی گنجائش نہیں رہ جائے گی  اور تب ہی آپ ’ریچنگ دی لاسٹ مائل‘ تک پہنچنے کا ہدف پورا کر پائیں گے۔ آپ دیکھیں، آج، ملک میں پہلی بار، پی ایم سواندھی یوجنا کے ذریعے سڑک کے دکانداروں کو رسمی طور پر  بینکنگ سے منسلک کیا گیا ہے۔ آج ملک میں پہلی بار خانہ بدوش، نیم خانہ بدوش طبقے کے لیے ایک ویلفیئر بورڈ تشکیل دیا گیا ہے۔ گاؤوں  میں قائم کیے گئے 5 لاکھ سے زیادہ کامن سروس سینٹرز نے حکومت کی خدمات کو گاؤں تک پہنچایا ہے۔ میں نے کل من کی بات میں تفصیل سے بتایا ہے کہ کس طرح ملک میں ٹیلی میڈیسن کے 10 کروڑ معاملے مکمل ہو چکے ہیں۔ یہ صحت کے حوالے سے ’ریچنگ دی لاسٹ مائل‘ تک پہنچنے کے جذبے کا بھی عکاس ہے۔

ساتھیو،

ہندوستان کے قبائلی علاقوں اور دیہی علاقوں میں آخری  سرے  تک ، ریچنگ دی لاسٹ مائل کے منتر کو لے جانے کی ضرورت ہے۔ اس سال کے بجٹ میں اس پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ ریچنگ دی لاسٹ مائل کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے جل جیون مشن کے لیے بجٹ میں ہزاروں کروڑ روپے کا انتظام کیا گیا ہے۔ سال 2019 تک صرف ہمارے ملک کے دیہی علاقوں میں تین کروڑ گھروں میں ہی  نل سے پانی آتا تھا۔ اب ان کی تعداد 11 کروڑ سے زیادہ ہو گئی ہے اور وہ بھی اتنے کم وقت میں۔ صرف ایک سال کے اندر ملک میں تقریباً 60 ہزار امرت سرووروں پر کام شروع ہو چکا ہے اور مجھے جو معلومات دی گئی  ہیں ن کے مطابق  اب تک 30 ہزار سے زیادہ امرت سروورتعمیر ہو چکے ہیں۔ یہ مہمات دور دراز کے ہندوستانیوں کے معیار زندگی کو بہتر بنا رہی ہیں جو دہائیوں سے ایسے انتظامات کا انتظار کررہے تھے۔

لیکن ساتھیو،

ہمیں یہاں ٹھہرنا منظور  نہیں ہے۔ ہمیں ایک طریقہ کار بنانا ہوگا تاکہ ہم پانی کے نئے کنکشن میں پانی کے استعمال کا نمونہ دیکھ سکیں۔ ہمیں یہ بھی جائزہ لینا ہوگا کہ پانی کی سمیتیوں  کو مزید مضبوط بنانے کے لیے کیا ،کیا جا سکتا ہے۔ گرمیوں کا موسم آچکا ہے۔ ہمیں یہ بھی سوچنا ہو گا کہ اب سے ہم پانی کی سمیتیوں  کو پانی کے تحفظ کے لیے کس طرح استعمال کر سکتے ہیں۔ بارش سے پہلے کیچ دی رین موومنٹ کے لیے عوامی  سطح پر لوگوں کو بیدار  کیا جائے، لوگوں کو متحرک کیا جائے، بارش  آتے ہی کام شروع کر دیا جائے۔

ساتھیو،

اس سال کے بجٹ میں ہم نے غریبوں کے گھروں کے لیے تقریباً 80 ہزار کروڑ روپے مختص کئے ہیں۔ ہمیں سب کے لیے مکان کی مہم کو تیز کرنا ہوگا۔ ہاؤسنگ کو ٹیکنالوجی سے کیسے جوڑا جائے، کم خرچ میں زیادہ پائیدار اور مضبوط گھر کیسے بنایا جائے؟ سبز توانائی، جیسے شمسی توانائی سے فائدہ کیسے اٹھایا جائے؟ گاؤوں اور شہروں میں بھی قابل قبول گروپ ہاؤسنگ کا نیا ماڈل کیا ہو سکتا ہے؟ اس پر ٹھوس بحث کی ضرورت ہے۔ اس میں آپ کے تجربے کا نچوڑ  سامنے آنا چاہیے۔

ساتھیو،

ہمارے ملک کے قبائلی معاشرے کی مالا مال صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے   پہلی بار  ملک میں اتنے بڑے پیمانے پر کام کیا جا رہا ہے ۔ اس  بار کے بجٹ میں بھی قبائل کی  ترقی کو اہمیت دی گئی ہے۔ ایکلویہ ماڈل رہائشی اسکولوں میں اساتذہ اور عملے کی بھرتی کے لیے بہت بڑا انتظام کیا گیا ہے۔ ایکلویہ ماڈل اسکولوں میں ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ طلبہ کا کیا فیڈ بیک ہے، اساتذہ کا کیا فیڈ بیک ہے؟ ان اسکولوں میں پڑھنے والے  طلبا کو  ملک کے بڑے شہروں میں کس طرح ایکسپوزر حاصل ہو ،  ان میں  اٹل ٹنکرنگ لیبز زیادہ سےزیادہ  کیسے قائم کی جائیں اس سمت میں  ہمیں سوچنا ہوگا۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر ہم ابھی سے ان سکولوں میں اسٹارٹ اپس اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے لیے ورکشاپ شروع کر دیں تو ہمارے قبائلی معاشرے کو اس سے کتنا فائدہ ہو گا۔ جب یہ بچے ایکلویہ ماڈل اسکولوں سے  تعلیم حاصل کرکے باہر نکلیں گے ، تو انہیں  پہلے سے پتہ ہوگا  کہ اپنے علاقے کی قبائلی مصنوعات کو  انہیں کیسے فروغ دینا ہے، اپنی برانڈنگ آن لائن کیسے کرنی ہے۔

ساتھیو،

پہلی بار، ہم قبائلیوں میں سب سے زیادہ محروم لوگوں کے لیے ایک خصوصی مشن شروع کر رہے ہیں۔ ہمیں ملک کے 200 سے زائد اضلاع کے 22 ہزار سے زائد گاؤوں  میں اپنے قبائلی ساتھیوں  تک  تیز رفتار سہولیات فراہم کرنی ہیں۔  اسی طرح ہمارے چھوٹے سے معاشرے میں، خاص طور پر ہمارے مسلم معاشرے  کے جو پسماندہ  لوگ ہیں، ان تک کیسے فائدے پہنچ سکتے ہیں، جو آزادی کے اتنے سال گزرنے کے بعد بھی بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ اس بجٹ میں اسکل سیل سے مکمل نجات کا ہدف بھی مقرر کیا گیا ہے۔ اس کے لیے کلی طور پر ایک قومی  اپروچ کی ضرورت ہے۔ اس لیے صحت سے متعلق ہر اسٹیک ہولڈر کو تیزی سے کام کرنا ہوگا۔

ساتھیو،

خواہش مند ضلعی پروگرام  ریچنگ دی لاسٹ مائل  کے لحاظ سے ایک کامیاب ماڈل کے طور پر ابھرا ہے۔ اس نقطہ نظر پر اب ملک کے 500 بلاکوں میں خواہش مند بلاک پروگرام شروع کیا جا رہا ہے۔ خواہش مند بلاک پروگرام کے لیے، ہمیں تقابلی پیرامیٹرز کو اسی طرح ذہن میں رکھتے ہوئے کام کرنا ہوگا جس طرح ہم نے خواہش مند اضلاع کے لیے کام کیا ہے۔ ہمیں ہر بلاک میں بھی ایک دوسرے کے لیے مقابلہ جاتی  ماحول بنانا ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ اس ویبینار سے  لاسٹ مائل  ڈیلیوری سے متعلق نئے خیالات، نئی تجاویز سامنے آئیں گی جو ہمارے دور دراز علاقوں کے آخری سرے پر بیٹھے ہمارے بھائیوں اور بہنوں کی زندگیوں میں تبدیلی لائیں گی۔  ہمیں آگے کے لئے سوچنا ہے، ہمیں عمل درآوری پر زور دینا ہوگا، ہمیں ٹیکنالوجی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرکے شفافیت کو یقینی بنانا ہوگا۔ اسٹیک ہولڈر درست ہو ، اس سے ملنے کا انتظام اس کے لیے کارآمد ہونا چاہیے، اور مقررہ وقت کے اندر ملنا چاہیے، تاکہ جلد از جلد وہ ایک نئے اعتماد کے ساتھ غربت کے خلاف لڑنے کے لیے ہمارے سپاہیوں میں شامل ہو جائے۔ ہماری غریبوں کی فوج اتنی مضبوط ہونی چاہیے کہ وہ غربت کو شکست دے سکے۔ ہمیں غریبوں کی طاقت کو بڑھانا ہے تاکہ صرف ہمارا غریب ہی غربت کو شکست دے سکے، ہر غریب  کو یہ عہد لینا ہوگا  کہ اب میں غریب نہیں رہنا چاہتا، میں چاہتا ہوں کہ میرا خاندان غربت سے باہر آئے، حکومت  میرا ہاتھ  تھام  رہی ہے۔ اب میں چل پڑوں گا،  ہمیں اس طرح کا  ماحول پید ا کرنا ہوگا اور اس کے لیے مجھے آپ جیسے تمام اسٹیک ہولڈرز کے فعال تعاون کی توقع ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آج کا یہ  ویبینار ایک طرح سے سروجن ہتائے سروجن سکھائےکے ایک بہت بڑے عہد  کی تکمیل کا سبب بنے گا۔ میری طرف سے آپ سب کو بہت بہت  نیک خواہشات! شکریہ!

 

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
India's Economic Growth Activity at 8-Month High in October, Festive Season Key Indicator

Media Coverage

India's Economic Growth Activity at 8-Month High in October, Festive Season Key Indicator
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM Modi's address to the Indian Community in Guyana
November 22, 2024
The Indian diaspora in Guyana has made an impact across many sectors and contributed to Guyana’s development: PM
You can take an Indian out of India, but you cannot take India out of an Indian: PM
Three things, in particular, connect India and Guyana deeply,Culture, cuisine and cricket: PM
India's journey over the past decade has been one of scale, speed and sustainability: PM
India’s growth has not only been inspirational but also inclusive: PM
I always call our diaspora the Rashtradoots,They are Ambassadors of Indian culture and values: PM

Your Excellency President Irfan Ali,
Prime Minister Mark Philips,
Vice President Bharrat Jagdeo,
Former President Donald Ramotar,
Members of the Guyanese Cabinet,
Members of the Indo-Guyanese Community,

Ladies and Gentlemen,

Namaskar!

Seetaram !

I am delighted to be with all of you today.First of all, I want to thank President Irfan Ali for joining us.I am deeply touched by the love and affection given to me since my arrival.I thank President Ali for opening the doors of his home to me.

I thank his family for their warmth and kindness. The spirit of hospitality is at the heart of our culture. I could feel that, over the last two days. With President Ali and his grandmother, we also planted a tree. It is part of our initiative, "Ek Ped Maa Ke Naam", that is, "a tree for mother”. It was an emotional moment that I will always remember.

Friends,

I was deeply honoured to receive the ‘Order of Excellence’, the highest national award of Guyana. I thank the people of Guyana for this gesture. This is an honour of 1.4 billion Indians. It is the recognition of the 3 lakh strong Indo-Guyanese community and their contributions to the development of Guyana.

Friends,

I have great memories of visiting your wonderful country over two decades ago. At that time, I held no official position. I came to Guyana as a traveller, full of curiosity. Now, I have returned to this land of many rivers as the Prime Minister of India. A lot of things have changed between then and now. But the love and affection of my Guyanese brothers and sisters remains the same! My experience has reaffirmed - you can take an Indian out of India, but you cannot take India out of an Indian.

Friends,

Today, I visited the India Arrival Monument. It brings to life, the long and difficult journey of your ancestors nearly two centuries ago. They came from different parts of India. They brought with them different cultures, languages and traditions. Over time, they made this new land their home. Today, these languages, stories and traditions are part of the rich culture of Guyana.

I salute the spirit of the Indo-Guyanese community. You fought for freedom and democracy. You have worked to make Guyana one of the fastest growing economies. From humble beginnings you have risen to the top. Shri Cheddi Jagan used to say: "It matters not what a person is born, but who they choose to be.”He also lived these words. The son of a family of labourers, he went on to become a leader of global stature.

President Irfan Ali, Vice President Bharrat Jagdeo, former President Donald Ramotar, they are all Ambassadors of the Indo Guyanese community. Joseph Ruhomon, one of the earliest Indo-Guyanese intellectuals, Ramcharitar Lalla, one of the first Indo-Guyanese poets, Shana Yardan, the renowned woman poet, Many such Indo-Guyanese made an impact on academics and arts, music and medicine.

Friends,

Our commonalities provide a strong foundation to our friendship. Three things, in particular, connect India and Guyana deeply. Culture, cuisine and cricket! Just a couple of weeks ago, I am sure you all celebrated Diwali. And in a few months, when India celebrates Holi, Guyana will celebrate Phagwa.

This year, the Diwali was special as Ram Lalla returned to Ayodhya after 500 years. People in India remember that the holy water and shilas from Guyana were also sent to build the Ram Mandir in Ayodhya. Despite being oceans apart, your cultural connection with Mother India is strong.

I could feel this when I visited the Arya Samaj Monument and Saraswati Vidya Niketan School earlier today. Both India and Guyana are proud of our rich and diverse culture. We see diversity as something to be celebrated, not just accommodated. Our countries are showing how cultural diversity is our strength.

Friends,

Wherever people of India go, they take one important thing along with them. The food! The Indo-Guyanese community also has a unique food tradition which has both Indian and Guyanese elements. I am aware that Dhal Puri is popular here! The seven-curry meal that I had at President Ali’s home was delicious. It will remain a fond memory for me.

Friends,

The love for cricket also binds our nations strongly. It is not just a sport. It is a way of life, deeply embedded in our national identity. The Providence National Cricket Stadium in Guyana stands as a symbol of our friendship.

Kanhai, Kalicharan, Chanderpaul are all well-known names in India. Clive Lloyd and his team have been a favourite of many generations. Young players from this region also have a huge fan base in India. Some of these great cricketers are here with us today. Many of our cricket fans enjoyed the T-20 World Cup that you hosted this year.

Your cheers for the ‘Team in Blue’ at their match in Guyana could be heard even back home in India!

Friends,

This morning, I had the honour of addressing the Guyanese Parliament. Coming from the Mother of Democracy, I felt the spiritual connect with one of the most vibrant democracies in the Caribbean region. We have a shared history that binds us together. Common struggle against colonial rule, love for democratic values, And, respect for diversity.

We have a shared future that we want to create. Aspirations for growth and development, Commitment towards economy and ecology, And, belief in a just and inclusive world order.

Friends,

I know the people of Guyana are well-wishers of India. You would be closely watching the progress being made in India. India’s journey over the past decade has been one of scale, speed and sustainability.

In just 10 years, India has grown from the tenth largest economy to the fifth largest. And, soon, we will become the third-largest. Our youth have made us the third largest start-up ecosystem in the world. India is a global hub for e-commerce, AI, fintech, agriculture, technology and more.

We have reached Mars and the Moon. From highways to i-ways, airways to railways, we are building state of art infrastructure. We have a strong service sector. Now, we are also becoming stronger in manufacturing. India has become the second largest mobile manufacturer in the world.

Friends,

India’s growth has not only been inspirational but also inclusive. Our digital public infrastructure is empowering the poor. We opened over 500 million bank accounts for the people. We connected these bank accounts with digital identity and mobiles. Due to this, people receive assistance directly in their bank accounts. Ayushman Bharat is the world’s largest free health insurance scheme. It is benefiting over 500 million people.

We have built over 30 million homes for those in need. In just one decade, we have lifted 250 million people out of poverty. Even among the poor, our initiatives have benefited women the most. Millions of women are becoming grassroots entrepreneurs, generating jobs and opportunities.

Friends,

While all this massive growth was happening, we also focused on sustainability. In just a decade, our solar energy capacity grew 30-fold ! Can you imagine ?We have moved towards green mobility, with 20 percent ethanol blending in petrol.

At the international level too, we have played a central role in many initiatives to combat climate change. The International Solar Alliance, The Global Biofuels Alliance, The Coalition for Disaster Resilient Infrastructure, Many of these initiatives have a special focus on empowering the Global South.

We have also championed the International Big Cat Alliance. Guyana, with its majestic Jaguars, also stands to benefit from this.

Friends,

Last year, we had hosted President Irfaan Ali as the Chief Guest of the Pravasi Bhartiya Divas. We also received Prime Minister Mark Phillips and Vice President Bharrat Jagdeo in India. Together, we have worked to strengthen bilateral cooperation in many areas.

Today, we have agreed to widen the scope of our collaboration -from energy to enterprise,Ayurveda to agriculture, infrastructure to innovation, healthcare to human resources, anddata to development. Our partnership also holds significant value for the wider region. The second India-CARICOM summit held yesterday is testament to the same.

As members of the United Nations, we both believe in reformed multilateralism. As developing countries, we understand the power of the Global South. We seek strategic autonomy and support inclusive development. We prioritize sustainable development and climate justice. And, we continue to call for dialogue and diplomacy to address global crises.

Friends,

I always call our diaspora the Rashtradoots. An Ambassador is a Rajdoot, but for me you are all Rashtradoots. They are Ambassadors of Indian culture and values. It is said that no worldly pleasure can compare to the comfort of a mother’s lap.

You, the Indo-Guyanese community, are doubly blessed. You have Guyana as your motherland and Bharat Mata as your ancestral land. Today, when India is a land of opportunities, each one of you can play a bigger role in connecting our two countries.

Friends,

Bharat Ko Janiye Quiz has been launched. I call upon you to participate. Also encourage your friends from Guyana. It will be a good opportunity to understand India, its values, culture and diversity.

Friends,

Next year, from 13 January to 26 February, Maha Kumbh will be held at Prayagraj. I invite you to attend this gathering with families and friends. You can travel to Basti or Gonda, from where many of you came. You can also visit the Ram Temple at Ayodhya. There is another invite.

It is for the Pravasi Bharatiya Divas that will be held in Bhubaneshwar in January. If you come, you can also take the blessings of Mahaprabhu Jagannath in Puri. Now with so many events and invitations, I hope to see many of you in India soon. Once again, thank you all for the love and affection you have shown me.

Thank you.
Thank you very much.

And special thanks to my friend Ali. Thanks a lot.