عام طور پر یہ روایت رہی ہے کہ بجٹ کے بعد پارلیمنٹ میں بجٹ کے حوالے سے بحث ہوتی ہے اور یہ ضروری بھی ہے اور مفید بھی۔ لیکن ہماری حکومت نے بجٹ پر بحث کو ایک قدم آگے بڑھایا ہے۔ پچھلے کچھ برسوں سے، ہماری حکومت نے بجٹ کی تیاری سے پہلے بھی اور بجٹ کے بعد بھی تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ غور و خوض کی ایک نئی روایت شروع کی ہے۔ یہ عمل درآمد کے لحاظ سے، ٹائم باؤنڈ ڈیلیوری کے نقطہ نظر سے بہت ہی اہم ہے۔ اس سے ٹیکس دہندگان کے پیسے کی ہر ایک پائی کے مناسب استعمال کو بھی یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں، میں نے مختلف شعبوں کے ماہرین سے گفتگو کی ہے۔ آج ریچنگ دی لاسٹ مائل، جسے مہاتما گاندھی کہا کرتے تھے کہ آپ کی پالیسیاں، آپ کے منصوبے آخری سرے پر بیٹھے شخص تک کتنی جلدی پہنچتے ہیں، کیسے پہنچتے ہیں، یہ بہت اہم ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج اس موضوع پر تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ایک وسیع صلاح و مشورہ کیا جارہاہے کہ بجٹ میں عوامی فلاح و بہبود کے جتنے کام ہیں، اتنا بجٹ ہے، ہم اسے پوری شفافیت کے ساتھ مستحقین تک کیسے پہنچا سکتے ہیں۔
ساتھیو،
ہمارے ملک میں ایک پرانا تصور رہا ہے کہ عوام کی فلاح و بہبود اور ملک کی ترقی صرف پیسے سے ہی ممکن ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ ملک اور اہل وطن کی ترقی کے لیے پیسہ تو ضروری ہے ہی لیکن پیسے کے ساتھ دماغ کی بھی ضرورت ہے۔ سرکاری کاموں اور سرکاری اسکیموں کی کامیابی کے لیے سب سے ضروری شرط ہے- گڈ گورننس، بہترین حکمرانی، حساس انتظامیہ، عام آدمی کے لیے وقف حکمرانی ہے۔ جب حکومت کے کام ناپ تول کے لائق ہوتے ہیں، اس کی مسلسل نگرانی ہوتی ہے، تو یہ فطری بات ہے کہ آپ مقررہ اہداف ،مقررہ وقت میں حاصل کر کے مطلوبہ نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ اس لئے ہم گڈ گورننس پر جتنا زیادہ زور دیں گے، اتنا ہی ’ریچنگ دی لاسٹ مائل‘کا ہمارا ہدف آسانی سے پورا ہو گا۔ آپ یاد کیجئےکہ پہلے ہمارے ملک میں ویکسین کو دور دراز علاقوں تک پہنچنے میں کئی دہائیاں لگ جاتی تھیں۔ ویکسینیشن کوریج کے معاملے میں ملک بہت پیچھے تھا۔ ملک کے کروڑوں بچوں، خاص طور پر گاؤوں اور قبائلی علاقوں میں رہنے والے بچوں کو ویکسین کے لیے برسوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔ اگر ہم نے پرانے انداز کے ساتھ کام کیا ہوتا تو ہندوستان میں 100 فیصد ویکسینیشن کوریج حاصل کرنے میں مزید کئی دہائیاں لگ جاتیں۔ ہم نے ایک نئے انداز کے ساتھ کام شروع کیا، مشن اندر دھنش شروع کیا اور پورے ملک میں ویکسینیشن کے نظام کو بہتر کیا۔ جب کورونا کی عالمی وبا آئی تو ہمیں اس نئے نظام کا فائدہ ہوا، ویکسین کو دور دور تک پہنچانے میں مدد ملی اور مجھے یقین ہے کہ اس میں گڈ گورننس کا بڑا رول ہے، یہ ایک ایسی قوت ہے جس نے ’ریچنگ دی لاسٹ مائل‘ کی ترسیل کو ممکن بنایا ہے۔
ساتھیو،
ریچنگ دی لاسٹ مائل کی اپروچ اور سیچوریشن کی پالیسی تک پہنچنا ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب غریب بنیادی سہولتوں کے لیے حکومت کے چکر لگاتے تھے، انہیں کسی بچولیہ کی تلاش ہوتی تھی، جس کی وجہ سے بدعنوانی میں اضافہ ہوتا تھا اور لوگوں کے حقوق پامال ہوتے تھے۔ اب حکومت غریبوں کو ان کی دہلیز پر جا کر سہولیات فراہم کر رہی ہے۔ جس دن ہم یہ طے کر لیں گے کہ ہر بنیادی سہولت، ہر شعبے میں، ہر شہری کو بلا تفریق فراہم کی جائے گی، تب ہم دیکھیں گے کہ مقامی سطح پر کام کے طور طریقوں میں کیا بڑی تبدیلی آتی ہے۔ اطمینان کی پالیسی کے پیچھے یہی جذبہ ہے۔ جب ہمارا ہدف ہر ایک اسٹیک ہولڈر تک پہنچنے کا ہوگا تو پھر تعصب، بدعنوانی اور اقربا پروری کی کوئی گنجائش نہیں رہ جائے گی اور تب ہی آپ ’ریچنگ دی لاسٹ مائل‘ تک پہنچنے کا ہدف پورا کر پائیں گے۔ آپ دیکھیں، آج، ملک میں پہلی بار، پی ایم سواندھی یوجنا کے ذریعے سڑک کے دکانداروں کو رسمی طور پر بینکنگ سے منسلک کیا گیا ہے۔ آج ملک میں پہلی بار خانہ بدوش، نیم خانہ بدوش طبقے کے لیے ایک ویلفیئر بورڈ تشکیل دیا گیا ہے۔ گاؤوں میں قائم کیے گئے 5 لاکھ سے زیادہ کامن سروس سینٹرز نے حکومت کی خدمات کو گاؤں تک پہنچایا ہے۔ میں نے کل من کی بات میں تفصیل سے بتایا ہے کہ کس طرح ملک میں ٹیلی میڈیسن کے 10 کروڑ معاملے مکمل ہو چکے ہیں۔ یہ صحت کے حوالے سے ’ریچنگ دی لاسٹ مائل‘ تک پہنچنے کے جذبے کا بھی عکاس ہے۔
ساتھیو،
ہندوستان کے قبائلی علاقوں اور دیہی علاقوں میں آخری سرے تک ، ریچنگ دی لاسٹ مائل کے منتر کو لے جانے کی ضرورت ہے۔ اس سال کے بجٹ میں اس پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ ریچنگ دی لاسٹ مائل کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے جل جیون مشن کے لیے بجٹ میں ہزاروں کروڑ روپے کا انتظام کیا گیا ہے۔ سال 2019 تک صرف ہمارے ملک کے دیہی علاقوں میں تین کروڑ گھروں میں ہی نل سے پانی آتا تھا۔ اب ان کی تعداد 11 کروڑ سے زیادہ ہو گئی ہے اور وہ بھی اتنے کم وقت میں۔ صرف ایک سال کے اندر ملک میں تقریباً 60 ہزار امرت سرووروں پر کام شروع ہو چکا ہے اور مجھے جو معلومات دی گئی ہیں ن کے مطابق اب تک 30 ہزار سے زیادہ امرت سروورتعمیر ہو چکے ہیں۔ یہ مہمات دور دراز کے ہندوستانیوں کے معیار زندگی کو بہتر بنا رہی ہیں جو دہائیوں سے ایسے انتظامات کا انتظار کررہے تھے۔
لیکن ساتھیو،
ہمیں یہاں ٹھہرنا منظور نہیں ہے۔ ہمیں ایک طریقہ کار بنانا ہوگا تاکہ ہم پانی کے نئے کنکشن میں پانی کے استعمال کا نمونہ دیکھ سکیں۔ ہمیں یہ بھی جائزہ لینا ہوگا کہ پانی کی سمیتیوں کو مزید مضبوط بنانے کے لیے کیا ،کیا جا سکتا ہے۔ گرمیوں کا موسم آچکا ہے۔ ہمیں یہ بھی سوچنا ہو گا کہ اب سے ہم پانی کی سمیتیوں کو پانی کے تحفظ کے لیے کس طرح استعمال کر سکتے ہیں۔ بارش سے پہلے کیچ دی رین موومنٹ کے لیے عوامی سطح پر لوگوں کو بیدار کیا جائے، لوگوں کو متحرک کیا جائے، بارش آتے ہی کام شروع کر دیا جائے۔
ساتھیو،
اس سال کے بجٹ میں ہم نے غریبوں کے گھروں کے لیے تقریباً 80 ہزار کروڑ روپے مختص کئے ہیں۔ ہمیں سب کے لیے مکان کی مہم کو تیز کرنا ہوگا۔ ہاؤسنگ کو ٹیکنالوجی سے کیسے جوڑا جائے، کم خرچ میں زیادہ پائیدار اور مضبوط گھر کیسے بنایا جائے؟ سبز توانائی، جیسے شمسی توانائی سے فائدہ کیسے اٹھایا جائے؟ گاؤوں اور شہروں میں بھی قابل قبول گروپ ہاؤسنگ کا نیا ماڈل کیا ہو سکتا ہے؟ اس پر ٹھوس بحث کی ضرورت ہے۔ اس میں آپ کے تجربے کا نچوڑ سامنے آنا چاہیے۔
ساتھیو،
ہمارے ملک کے قبائلی معاشرے کی مالا مال صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے پہلی بار ملک میں اتنے بڑے پیمانے پر کام کیا جا رہا ہے ۔ اس بار کے بجٹ میں بھی قبائل کی ترقی کو اہمیت دی گئی ہے۔ ایکلویہ ماڈل رہائشی اسکولوں میں اساتذہ اور عملے کی بھرتی کے لیے بہت بڑا انتظام کیا گیا ہے۔ ایکلویہ ماڈل اسکولوں میں ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ طلبہ کا کیا فیڈ بیک ہے، اساتذہ کا کیا فیڈ بیک ہے؟ ان اسکولوں میں پڑھنے والے طلبا کو ملک کے بڑے شہروں میں کس طرح ایکسپوزر حاصل ہو ، ان میں اٹل ٹنکرنگ لیبز زیادہ سےزیادہ کیسے قائم کی جائیں اس سمت میں ہمیں سوچنا ہوگا۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر ہم ابھی سے ان سکولوں میں اسٹارٹ اپس اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے لیے ورکشاپ شروع کر دیں تو ہمارے قبائلی معاشرے کو اس سے کتنا فائدہ ہو گا۔ جب یہ بچے ایکلویہ ماڈل اسکولوں سے تعلیم حاصل کرکے باہر نکلیں گے ، تو انہیں پہلے سے پتہ ہوگا کہ اپنے علاقے کی قبائلی مصنوعات کو انہیں کیسے فروغ دینا ہے، اپنی برانڈنگ آن لائن کیسے کرنی ہے۔
ساتھیو،
پہلی بار، ہم قبائلیوں میں سب سے زیادہ محروم لوگوں کے لیے ایک خصوصی مشن شروع کر رہے ہیں۔ ہمیں ملک کے 200 سے زائد اضلاع کے 22 ہزار سے زائد گاؤوں میں اپنے قبائلی ساتھیوں تک تیز رفتار سہولیات فراہم کرنی ہیں۔ اسی طرح ہمارے چھوٹے سے معاشرے میں، خاص طور پر ہمارے مسلم معاشرے کے جو پسماندہ لوگ ہیں، ان تک کیسے فائدے پہنچ سکتے ہیں، جو آزادی کے اتنے سال گزرنے کے بعد بھی بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ اس بجٹ میں اسکل سیل سے مکمل نجات کا ہدف بھی مقرر کیا گیا ہے۔ اس کے لیے کلی طور پر ایک قومی اپروچ کی ضرورت ہے۔ اس لیے صحت سے متعلق ہر اسٹیک ہولڈر کو تیزی سے کام کرنا ہوگا۔
ساتھیو،
خواہش مند ضلعی پروگرام ریچنگ دی لاسٹ مائل کے لحاظ سے ایک کامیاب ماڈل کے طور پر ابھرا ہے۔ اس نقطہ نظر پر اب ملک کے 500 بلاکوں میں خواہش مند بلاک پروگرام شروع کیا جا رہا ہے۔ خواہش مند بلاک پروگرام کے لیے، ہمیں تقابلی پیرامیٹرز کو اسی طرح ذہن میں رکھتے ہوئے کام کرنا ہوگا جس طرح ہم نے خواہش مند اضلاع کے لیے کام کیا ہے۔ ہمیں ہر بلاک میں بھی ایک دوسرے کے لیے مقابلہ جاتی ماحول بنانا ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ اس ویبینار سے لاسٹ مائل ڈیلیوری سے متعلق نئے خیالات، نئی تجاویز سامنے آئیں گی جو ہمارے دور دراز علاقوں کے آخری سرے پر بیٹھے ہمارے بھائیوں اور بہنوں کی زندگیوں میں تبدیلی لائیں گی۔ ہمیں آگے کے لئے سوچنا ہے، ہمیں عمل درآوری پر زور دینا ہوگا، ہمیں ٹیکنالوجی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرکے شفافیت کو یقینی بنانا ہوگا۔ اسٹیک ہولڈر درست ہو ، اس سے ملنے کا انتظام اس کے لیے کارآمد ہونا چاہیے، اور مقررہ وقت کے اندر ملنا چاہیے، تاکہ جلد از جلد وہ ایک نئے اعتماد کے ساتھ غربت کے خلاف لڑنے کے لیے ہمارے سپاہیوں میں شامل ہو جائے۔ ہماری غریبوں کی فوج اتنی مضبوط ہونی چاہیے کہ وہ غربت کو شکست دے سکے۔ ہمیں غریبوں کی طاقت کو بڑھانا ہے تاکہ صرف ہمارا غریب ہی غربت کو شکست دے سکے، ہر غریب کو یہ عہد لینا ہوگا کہ اب میں غریب نہیں رہنا چاہتا، میں چاہتا ہوں کہ میرا خاندان غربت سے باہر آئے، حکومت میرا ہاتھ تھام رہی ہے۔ اب میں چل پڑوں گا، ہمیں اس طرح کا ماحول پید ا کرنا ہوگا اور اس کے لیے مجھے آپ جیسے تمام اسٹیک ہولڈرز کے فعال تعاون کی توقع ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آج کا یہ ویبینار ایک طرح سے سروجن ہتائے سروجن سکھائےکے ایک بہت بڑے عہد کی تکمیل کا سبب بنے گا۔ میری طرف سے آپ سب کو بہت بہت نیک خواہشات! شکریہ!