پروگرام میں مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی جناب پیوش گوئل جی، گری راج سنگھ جی، پشوپتی پارس جی، پرشوتم روپالا جی، پرہلاد سنگھ پٹیل جی، دنیا کے الگ الگ ممالک سے آئے ہوئے سبھی مہمان، ریاستوں سے آئے وزراء، صنعت اور اسٹارٹ اپ ورلڈ کے سبھی ساتھیوں، ملک بھر کے ہمارے کسان بھائیوں اور بہنوں، خواتین و حضرات، ورلڈ فوڈ انڈیا گلوبل کانفرنس میں خوش آمدید، آپ سب کو مبارک ہو۔
میں یہاں ٹیکنالوجی کا پویلین دیکھ کر آیا ہوں۔ یہاں جس طرح ٹیکنالوجی پویلین، اسٹارٹ اپ پویلین اور فوڈ اسٹریٹ جیسے انتظامات کیے گئے ہیں وہ حیرت انگیز ہے۔ ذائقہ اور ٹیکنالوجی کا یہ امتزاج ایک نئے مستقبل کو جنم دے گا اور ایک نئی معیشت کو رفتار اور تحریک دے گا۔ آج کی بدلتی ہوئی دنیا میں، 21ویں صدی کے سب سے اہم چیلنجوں میں سے ایک خوراک کی یقینی فراہمی بھی ہے، اس لیے ورلڈ فوڈ انڈیا کی یہ تقریب اور بھی اہم ہوگئی ہے۔
دوستو،
ہندوستان میں خوراک کو ڈبہ بند کرنے کی صنعت کو آج سن رائز سیکٹر کی شکل میں دیکھا جا رہا ہے۔ پہلے ورلڈ فوڈ انڈیا کے انعقاد سے جو نتائج حاصل ہوئے وہ بھی اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ پچھلے 9 سالوں میں اس شعبے میں 50 ہزار کروڑ روپے کی راست بیرونی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) آئی ہے۔ یہ حکومت ہند کی صنعت نواز اور کسانوں کی حامی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ہم نے ڈبہ بند خوراک کی صنعت کے شعبے کے لیے پی ایل آئی اسکیم شروع کی ہے۔ اس کے تحت صنعت اور نئے شراکت داروں کو خصوصی تعاون مل رہا ہے۔
آج، ہندوستان میں ایگری انفرا فنڈ کے تحت فصل کے بعد کے بنیادی ڈھانچے کے لیے ہزاروں منصوبوں پر کام کیا جا رہا ہے۔ اس میں بھی 50 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ ماہی پروری اور مویشی پروری میں پروسیسنگ انفرا اسٹرکچر پر ہزاروں کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے۔
ساتھیو،
آج ہندوستان میں سرمایہ کاروں کے لئے سازگار پالیسیاں خوراک کے شعبے کو ایک نئی بلندی پر لے جا رہی ہیں۔ گزشتہ 9 سالوں میں ہماری زرعی برآمدات میں ڈبہ بند خوراک کا حصہ 13 سے بڑھ کر 23 فیصد ہو گیا ہے۔ 9 سالوں میں ڈبہ بند خوراک کی برآمد میں تقریباً 150 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ آج ہم 50,000 ملین امریکی ڈالر سے زیادہ مالیت کی زرعی برآمد کرکے عالمی سطح پر 7 ویں نمبر پر آگئے ہیں۔ خوراک کو ڈبہ بند کرنے کی صنعت سے متعلق کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جس میں ہندوستان نے بے مثال ترقی نہ کی ہو۔ یہ فوڈ سیکٹر ہر کمپنی اور فوڈ سیکٹر سے متعلق ہر اسٹارٹ اپ کے لیے ایک سنہری موقع ہے۔
دوستو،
یہ ترقی اپنے آپ میں یقیناً تیز اور بہت تیز ضرور لگ رہی ہے، اس کے پیچھے ہماری مسلسل اور انتھک محنت رہی ہے۔ یہ ہماری حکومت کے دوران ہی بھارت نے پہلی بار زرعی برآمداتی پالیسی بنائی۔ ہم نے ملک گیر لاجسٹکس اور بنیادی ڈھانچے کا نیٹ ورک کھڑا کیا۔
آج ہندوستان میں 100 سے زیادہ اضلاع اور ضلعی سطح کے برآمداتی مراکز بنائے گئے ہیں، جن سے اضلاع براہ راست عالمی منڈی سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس سے قبل ملک میں 2 میگا فوڈ پارکس ہوتے تھے۔ آج ان کی تعداد 20 سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ پہلے ہماری پروسیسنگ کی صلاحیت 12 لاکھ میٹرک ٹن تھی۔ اب یہ 200 لاکھ میٹرک ٹن سے زیادہ ہے، یعنی 9 سالوں میں 15 گنا سے زیادہ کا اضافہ!
ایسی کئی مصنوعات ہیں جو پہلی بار غیر ملکی منڈیوں میں جا رہی ہیں۔ جیسے ہماچل پردیش کا کالا لہسن، کچھ کا ڈریگن فروٹ یا کملم، مدھیہ پردیش کا سویا دودھ پاؤڈر، لداخ کا کارکیچو سیب، پنجاب کا کیونڈش کیلا، جموں کا گچی مشروم، کرناٹک کا کچا شہد، ایسی کتنی ہی مصنوعات ہیں جو کئی ممالک میں پہلی پسند بن چکی ہیں، بیحد پسند کی جارہی ہیں ۔ یعنی پوری دنیا میں آپ کے لیے ایک بہت بڑا بازار تیار ہورہا ہے۔
دوستو،
ہندوستان کے اندر بھی ایک اور عنصر ابھر رہا ہے۔ میں اس طرف بھی آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ آج ہندوستان میں تیزی سے شہر کاری بڑھ رہی ہے۔ بڑھتے ہوئے مواقع کے ساتھ گھر سے باہر کام کرنے والے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے ڈبہ بند خوراک کی مانگ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے ہمارے کسانوں کے لئے، ہمارے اسٹارٹ اپس اور چھوٹے صنعت کاروں کے لیے نا دریافت کئے گئے مواقع پیدا ہورہے ہیں۔ ان امکانات کے لیے، ان تمناؤں سے پُر پالیسیوں کے لیے آپ کے منصوبے بھی اتنے ہی تمنا رکھنے والے ہونے چاہئیں۔
ساتھیو،
خوراک کو ڈبہ بند کرنے کے شعبے میں ہندوستان کی ترقی کی داستان کے تین سب سے اہم بنیاد ہیں۔ چھوٹے کسان، چھوٹی صنعتیں اور خواتین! چھوٹے کسانوں کی حصے داری اور ان کا منافع بڑھانے کے لیے ہم نے فارمر پروڈیوس آرگنائزیشنز- ایف پی اوز کو ایک مؤثر پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ہم ہندوستان میں 10 ہزار نئے ایف پی اوز بنا رہے ہیں، جن میں سے 7 ہزار پہلے ہی بن چکے ہیں۔ اس سے کسانوں کے لیے بازار تک رسائی اور پروسیسنگ کی سہولیات کی دستیابی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چھوٹے پیمانے کی صنعتوں کی حصے داری بڑھانے کے لیے فوڈ پروسیسنگ میں تقریباً 2 لاکھ بہت چھوٹی صنعتوں کو منظم کیا جا رہا ہے۔ ایک ضلع ایک پروڈکٹ- او ڈی او پی جیسی اسکیموں سے بھی چھوٹے کسانوں اور چھوٹی صنعتوں کو نئی پہچان ملی ہے۔
ساتھیو،
آج ہندوستان دنیا کو خواتین کی قیادت میں ترقی کا راستہ دکھا رہا ہے۔ ہندوستان کی معیشت میں خواتین کی حصے داری لگاتار بڑھ رہی ہے۔ اس کا بھی فائدہ خوراک کو ڈبہ بند کرنے کی صنعت کو ہورہا ہے۔ آج ہندوستان میں 9 کروڑ سے زیادہ خواتین سیلف ہیلپ گروپوں سے وابستہ ہیں۔ آپ سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستان میں ہزاروں سالوں سے فوڈ سائنس کی سرکردہ سائنسدان خواتین ہی رہی ہیں۔ کھانے کی مختلف اقسام اور کھانے کے جو اقسام ہم دیکھتے ہیں وہ ہندوستانی خواتین کی مہارت اور معلومات کا نتیجہ ہے۔ اچار، پاپڑ، چپس، مربہ جیسی کتنی ہی مصنوعات کا بازار خواتین اپنے گھروں سے ہی چلا تی رہی ہیں۔
ہندوستانی خواتین میں فوڈ پروسیسنگ انڈسٹری کی قیادت کرنے کی قدرتی صلاحیت ہے۔ اس کے لیے ہر سطح پر خواتین کو کاٹیج انڈسٹریز اور سیلف ہیلپ گروپوں کو فروغ دیا جارہا ہے۔ آج اس پروگرام میں بھی ایک لاکھ سے زیادہ خواتین کو ، جو ویمن سیلف ہیلپ گروپس چلاتی ہیں، کروڑوں روپے کی ابتدائی پونجی دی گئی اور میں نے تکنیکی اعتبار سے ابھی یہاں سے اس کو پہلے ہی ان کے کھاتے میں جمع کردیا ہے۔ میں ان خواتین کو خصوصی طور پر مبارک باد دیتا ہوں، اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
دوستو،
ہندوستان میں جتنا ثقافتی تنوع ہے اتنا ہی خوراک کا تنوع (فوڈ ڈائیورسٹی) بھی ہے۔ خوراک کا ہمارا یہ تنوع دنیا کے ہر سرمایہ کار کے لیے ایک منافع ہے۔ آج جس طرح سے پوری دنیا میں ہندوستان کے تئیں تجسس بڑھ گیا ہے، وہ بھی آپ سب کے لیے ایک بہت بڑا موقع لے کر آیا ہے۔ پوری دنیا کی خوراک کی صنعت کے پاس ہندوستان کی کھانے کی روایات سے بھی سیکھنے کی بہت کچھ ہے۔
ہمارے یہاں صدیوں سے بات بات یعنی زندگی کا حصہ ہے، ہر کنبے کی سوچ کا حصہ ہے۔ ہمارے یہاں کہا جاتا ہے – ’یتھا انم، تتھا منم‘۔ مطلب ہم جیسا کھانا کھاتے ہیں ویسے ہی ہمارا من بھی بنتا ہے۔ یعنی کھانا نہ صرف ہماری جسمانی صحت کا ایک بڑا عنصر ہوتا ہے بلکہ ہماری ذہنی صحت میں بھی بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہندوستان کا پائیدار خوراک کا کلچر ہزاروں سالوں کی ترقی کے سفر کا نتیجہ ہے۔ ہمارے آباء و اجداد نے کھانے کی عادات کو آیوروید سے جوڑا۔ آیوروید میں کہا جاتا ہے – ’ریت بھک‘ یعنی موسم کے مطابق کھانا، ’مت بھک‘ یعنی متوازن غذا، اور ’ہت بھک‘ یعنی صحت مند غذائیں۔ یہ ہندوستان کی سائنسی سمجھ کے اہم حصے ہیں۔
صدیوں سے ہندوستان سے غذائی اجناس اور خاص طور پر مسالوں کی تجارت کے ذریعہ ہندوستان کے اس علم سے پوری دنیا فائدہ اٹھائے گی۔ آج جب ہم عالمی غذائی تحفظ کی بات کرتے ہیں، جب عالمی صحت کے حوالے سے بہت سے خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے، تو یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہماری خوراک کو ڈبہ بند کرنے کی صنعت بھی پائیدار اور صحت مند کھانے کی عادات کے اس قدیم علم کو جانتی، سمجھتی اور اس پر عمل درآمد کرتی ہے۔
میں آپ کو مثال دیتا ہوں موٹے اناج کا۔ اس سال دنیا موٹے اناج (ملیٹس) کا بین الاقوامی سال منا رہی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ موٹا اناج ہماری سپر فوڈ بکٹ کا حصہ ہے۔ ہندوستان میں ہم نے اسے شری انیہ کی پہچان دی ہے۔ صدیوں سے زیادہ تر تہذیبوں میں موٹے اناج یعنی شری انیہ کو بڑی ترجیح دی جاتی تھی۔ لیکن یہ گزشتہ کچھ دہائیوں میں، بھارت سمیت کئی ممالک موٹے اناج خوراک کی عادت سے باہر ہوتے چلے گئے۔ اس کا بہت بڑا نقصان عالمی صحت کو بھی ہوا، پائیدار کاشتکاری کو بھی ہوا اور پائیدار معیشت کو بھی ہوا۔
ہندوستان کی پہل پر آج ایک بار پھر دنیا میں موٹے اناج کے حوالے سے بیداری مہم شروع ہوئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جس طرح بین الاقوامی یوگا ڈے نے یوگا کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچایا، اسی طرح اب موٹا اناج بھی دنیا کے کونے کونے میں پہنچ جائے گا۔ ابھی جب ہندوستان نے اسی مقام پر منعقد ہونے والے جی 20 سربراہی اجلاس میں دنیا کے بڑے بڑے لیڈروں کی میزبانی کی تو انہیں بھی موٹے اناج سے بنے پکوان بہت پسند آئے تھے۔
آج ہندوستان میں بہت سی بڑی کمپنیاں موٹے اناج سے تیار شدہ کھانے کی اشیاء بازار میں لا رہی ہیں۔ اس سمت میں کیسے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کیے جائیں، کیسے کھانے کے بازار میں شری انیہ کی حصے داری بڑھے، آپ سب اس پر گفتگو کریں اور اس کا ایک مجموعی خاکہ تیار کریں، جس کا فائدہ صنعت اور کسان دونوں کو پہنچے۔
دوستو،
اس کانفرنس میں آپ کے سامنے بہت سے مستقبل کے موضوعات زیر بحث آنے والے ہیں۔ آپ کو صنعت اور وسیع تر عالمی دلچسپی کے دونوں موضوعات پر بات کرنی چاہیے اور اس سمت میں قدم اٹھانا چاہیے۔ مثال کے طور پر جی 20 گروپ نے دہلی اعلامیہ میں پائیدار زراعت، خوراک کی حفاظت اور خوراک کے تحفظ پر زور دیا ہے۔ ڈبہ بند خوراک سے وابستہ تمام شراکت داروں کا اس معاملے میں بڑا اہم کردار ہے۔ ہمیں اس کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا۔
ہم ملک میں 10 کروڑ سے زیادہ بچوں، بچیوں اور حاملہ خواتین کو غذائیت سے بھرپور خوراک فراہم کرتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ خوراک کی تقسیم کے پروگرام کو متنوع فوڈ باسکٹ کی طرف لے جایا جائے۔ اسی طرح ہمیں فصل کے بعد ہونے والے نقصانات کو مزید کم کرنا ہوگا۔ پیکیجنگ میں بہتر ٹیکنالوجی لانے کے لیے کام کرنا ہو گا۔ پائیدار طرز زندگی کے لیے خوراک کے نقصان کو روکنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہماری مصنوعات ایسی ہونی چاہئیں جو ضائع نہ ہو۔
ٹیکنالوجی بھی اس میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ ہمیں خراب ہونے والی مصنوعات کی پروسیسنگ کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا ہوگا۔ اس سے نقصان بھی کم ہوگا، کسانوں کو بھی فائدہ ہوگا، اور قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کو روکنے میں بھی مدد ملے گی۔ ہمیں کسانوں کے مفادات اور صارفین کے اطمینان کے درمیان بھی توازن قائم کرنا ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ اس تقریب میں ایسے تمام موضوعات پر تفصیل سے بات کی جائے گی۔ یہاں جو نتائج برآمد ہوں گے ان سے دنیا کے لیے ایک پائیدار اور محفوظ خوراک مستقبل کی بنیاد پڑے گی۔
آپ سبھی کو ایک بار پھر میں اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ اور وہ لوگ جو دہلی میں ہیں، دہلی کے آس پاس ہیں اور جو ان موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں، چاہے وہ زرعی یونیورسٹیوں کے طالب علم ہوں، اسٹارٹ اپ کی دنیا کے لوگ ہوں، کسان تنظیمیں چلانے والے لوگ ہوں؛ میں ان سے کسی وقت اپیل کروں گا… تین دن یہ فیسٹیول یہاں چلنے والا ہے۔ آپ ضرور آئیے... دو چار گھنٹے گزارئیے... دیکھئے دنیا کتنی تیزی سے بدل رہی ہے۔ ہمارے کھیت کی ہر چیز کا کتنے طریقوں سے ہم استعمال کرسکتے ہیں؟ ہم کیسے ویلیو ایڈیشن کے ذریعے اپنی آمدنی بڑھا سکتے ہیں؟ آج یہاں بہت ساری چیزیں موجود ہیں۔
میرے پاس جتنا وقت تھا، لیکن اس میں جتنا بھی مجھے دیکھنے کا موقع ملا، وہ واقعی متاثر کرنے والا ہے۔ اور اس لیے جو یہاں ہیں، میں ان سے گزارش کروں گا کہ وہ ہر اسٹال پر جائیں اور وہ چیزیں دیکھیں جو اسے آگے لے جائیں، آپ اس میں بھی ویلیو ایڈیشن کا کام کر سکتے ہیں۔ لیکن میں ملک کے لوگوں سے یہ بھی کہوں گا کہ جس کے پاس دہلی پہنچنے کا امکان ہے وہ تین دن کا فائدہ اٹھائیں اور اس طرح کے عظیم الشان پروگرام کا فائدہ اٹھائیں۔ اسی امید کے ساتھ، آپ سب کے لیے بہت سی نیک خواہشات۔
بہت بہت شکریہ!