کرناٹک کے وزیر اعلیٰ جناب بسو راج بومئی جی، سدگرو شری مدھوسودن سائی جی، اسٹیج پر موجود معززین، خواتین و حضرات۔
کرناٹکا دا ایلاّ سہودریاریگے ننّا نمسکاراگلو!
آپ سبھی اتنے جوش و خروش کے ساتھ متعدد خواب لے کر، نئے عزائم لے کر خدمت کی اس عظیم نوعیت سے جڑے ہیں۔ آپ کے درشن کرنا یہ بھی میرے لیے خوش قسمتی ہے۔ میں آپ کا بہت بہت شکرگزار ہوں۔ چکاّ بلاّپور جدید ہندوستان کے معماروں میں سے ایک، سر ایم وشویشوریا کی جائے پیدائش ہے۔ ابھی مجھے سر وشویشوریا کی سمادھی پر گلہائے عقیدت پیش کرنے اور ان کے میوزیم پر جانے کا موقع ملا۔ اس مقدس سرزمین کو میں سر جھکا کر سلام کرتا ہوں۔ اس مقدس سرزمین سے حوصلہ پا کر ہی انہوں نے کسانوں، عام لوگوں کے لیے نئے انوویشن کیے، انجینئرنگ کے بہترین پروجیکٹ بنائے۔
ساتھیوں،
اس سرزمین نے ستیہ سائیں گرام کے طور پر بھی خدمت کا ایک انوکھا ماڈل ملک کو دیا ہے۔ تعلیم اور صحت کے ذریعے جس طرح انسانیت کی خدمت کا مشن یہاں چل رہا ہے، وہ واقعی انوکھا ہے۔ آج جویہ میڈیکل کالج شروع ہو رہا ہے، اس سے یہ مشن اور مضبوط ہوا ہے۔ جناب مدھو سودن سائی انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس اینڈ ریسرچ، ہر سال متعدد نئے ماہر ڈاکٹر ملک کے کروڑوں عوام کی خدمت میں قوم کو وقف کرے گا۔ میں ادارہ کو اور چکاّ بلاّپور یہاں کے سبھی لوگوں کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔
بھائیوں اور بہنوں،
آزادی کے امرت مہوتسو میں ملک نے ترقی یافتہ بننے کا عہد کیا ہے۔ کئی بار لوگ پوچھتے ہیں کہ بھارت اتنے کم وقت میں کیوں کہ میں نے کہا 2047 جب آزادی کے 100 سال ہوں گے تو لوگ پوچھتے ہیں کہ اتنے کم وقت میں ہندوستان ترقی یافتہ کیسے بنے گا؟ اتنی چنوتیاں ہیں، اتنا کام ہے، اتنے کام کم وقت میں پورا کیسے ہوگا؟ اس سوال کا ایک ہی جواب ہے، مضبوط جواب ہے، عہد سے بھرا جواب ہے، کامیابی حاصل ہونے کی طاقت والا جواب ہے اور وہ جواب ہے – سب کی کوشش۔ ہر شہری کی مشترکہ کوششوں سے یہ ممکن ہو کر ہی رہے گا۔ اس لیے بی جے پی سرکار لگاتار سب کی حصہ داری پر زور دے رہی ہے۔ ترقی یافتہ ہندوستان کے ہدف کو حاصل کرنے میں ہماری سماجی تنظیموں کا، مذہبی تنظیموں کا رول بھی بہت بڑا ہے۔ کرناٹک میں تو سنتوں، آشرموں، مٹھوں کی عظیم روایت رہی ہے۔ یہ مذہبی اور سماجی ادارے، عقیدت اور روحانیت کے ساتھ ساتھ غریبوں، دلتوں، پس ماندوں، آدیواسیوں کو با اختیار بناتی رہی ہیں۔ آپ کے ادارہ کے ذریعے کیے جا رہے سماجی کام بھی، سب کی کوشش کے جذبہ کو ہی مضبوط کرتے ہیں۔
ساتھیوں،
میں دیکھ رہا تھا، شری ستیہ سائی یونیورسٹی کا موٹو ہے – ’’یوگہ کرمسو کوشلم‘‘۔ یعنی، کام میں مہارت ہی یوگ ہے۔ گزشتہ 9 برسوں میں بھارت میں بھی طبی خدمات کو لے کر بہت ایمانداری سے، بہت مہارت سے کام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ملک میں میڈیکل ایجوکیشن سے جڑے متعدد ریفارم کیے گئے ہیں۔ اس سے سرکار کے ساتھ ساتھ جو دوسرے ادارے ہیں، ان کے لیے بھی اسپتال اور میڈیکل کالج کھولنا اب آسان ہو گیا ہے۔ سرکار ہو، پرائیویٹ سیکٹر ہو، سماجی سیکٹر ہو، ثقافتی سرگرمی ہو سبھی کی کوششوں کا نتیجہ آج دکھائی دے رہا ہے۔ سال 2014 میں ہمارے ملک میں 380 سے بھی کم میڈیکل کالج تھے۔ لیس دین 380۔ آج ملک میں میڈیکل کالجوں کی تعداد بڑھ کر 650 سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ ان میں سے 40 میڈیکل کالج ایسپریشنل ڈسٹرکٹس میں بنے ہیں، جو ضلعے ترقی کے ہر پہلو میں پیچھے تھے، وہاں پر میڈیکل کالج بنے ہیں۔
ساتھیوں،
گزشتہ 9 برسوں میں ملک میں میڈیکل سیٹوں کی تعداد تقریباً دو گنی ہو چکی ہے۔ آزادی کے 75 سالوں میں جتنے ڈاکٹر ملک میں بنے، اتنے ڈاکٹر اگلے 10 سال میں بننے جا رہے ہیں۔ یہ جو کام ملک میں ہو رہا ہے، اس کا فائدہ کرناٹک کو بھی مل رہا ہے۔ کرناٹک میں آج تقریباً 70 میڈیکل کالج ہیں۔ ڈبل انجن سرکار کی کوششوں سے جو میڈیکل کالج گزشتہ برسوں میں بنے ہیں، ان میں سے ایک یہاں چکاّ بلاّپور میں بھی بنا ہے۔ اس سال کے مرکزی حکومت کے بجٹ میں تو ہم نے ڈیڑھ سو نرسنگ انسٹی ٹیوٹ بنانے کا بھی اعلان کیا ہے ۔ اس سے نرسنگ کے شعبے میں بھی نوجوانوں کے لیے بہت سے مواقع بننے والے ہیں۔
ساتھیوں،
آج جب میں آپ کے درمیان آیا ہوں، تو بھارت کے میڈیکل پروفیشن کے سامنے رہی ایک چنوتی کا بھی ذکر ضرور کرنا چاہوں گا۔ اس چنوتی کی وجہ سے گاؤں کے، غریب کے، پس ماندہ برادری کے نوجوانوں کے لیے ڈاکٹر بننا بہت مشکل تھا۔ اپنے سیاسی مفاد کے لیے، ووٹ بینک کے لیے کچھ پارٹیوں نے زبانوں کا کھیل کھیلا۔ لیکن صحیح معنوں میں زبان کو تقویت دینے کے لیے جتنا ہونا چاہیے تھا، اتنا نہیں ہوا۔ کنڑ تو اتنی مالدار زبان ہے، ملک کا امتیاز بڑھانے والی زبان ہے۔ کنڑ میں بھی میڈیکل کی، انجینئرنگ کی، ٹیکنالوجی کی پڑھائی ہو، اس کے پہلے کی سرکاروں نے قدم نہیں اٹھائے۔ یہ سیاسی پارٹیاں نہیں چاہتی تھیں کہ گاؤں، غریب، دلت، پس ماندہ کنبوں کے بیٹے بیٹی بھی ڈاکٹر انجینئر بن سکیں۔ غریبوں کے مفاد میں کام کرنے والی ہماری سرکار نے کنڑ سمیت سبھی ہندوستانی زبانوں میں میڈیکل کی پڑھائی کا متبادل دیا ہے۔
بھائیوں اور بہنوں،
لمبے وقت تک ملک میں ایسی سیاست چلی ہے، جہاں غریبوں کو صرف ووٹ بینک سمجھا گیا۔ جب کہ بی جے پی حکومت نے غریب کی خدمت کو اپنا اولین فریضہ مانا ہے۔ ہم نے غریب اور مڈل کلاس کے آروگیہ کو ترجیح دی ہے۔ ہم نے ملک میں سستی دواؤں کی دکانیں، جن اوشدھی کیندر کھولے ہیں۔ آج ملک بھر میں تقریباً 10 ہزار جن اوشدھی کیندر ہیں، جس میں سے ایک ہزار سے زیادہ ہمارے یہاں کرناٹک میں ہی ہیں۔ ان کیندروں کی وجہ سے کرناٹک کے غریبوں کے ہزاروں کروڑ روپے دواؤں پر خرچ ہونے سے بچے ہیں۔
ساتھیوں،
پہلے ہارٹ سرجری ہو، نی رپلیسمنٹ ہو، ڈائلیسس ہو، یہ سب بھی بہت مہنگا ہوتا تھا۔ غریبوں کی سرکار نے، بی جے پی کی سرکار نے، ان کو بھی سستا کر دیا ہے۔ مفت ڈائلیسس کی سہولت نے بھی غریبوں کے ہزاروں کروڑ روپے خرچ ہونے سے بچائے ہیں۔
ساتھیوں،
ہم صحت سے جڑی پالیسیوں میں ماؤں اور بہنوں کو اولین ترجیح دے رہے ہیں۔ جب ماں کی صحت، ماں کی غذا بہتر ہوتی ہے، تو پوری نسل کی صحت بہتر ہوتی ہے۔ اس لیے چاہے بیت الخلاء بنانے کی اسکیم ہو، مفت گیس کنکشن کی اسکیم ہو، ہر گھر تک نل سے پانی پہنچانے کی اسکیم ہو، مفت سینٹری پیڈ دینے کی اسکیم ہو، یا مقوی کھانے کے لیے سیدھے بینک میں پیسے بھیجنا ہو، یہ سب ماؤں اور بہنوں کی صحت کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر بریسٹ کینسر کو لے کر بھی بی جے پی حکومت محتاط ہے۔ اب گاؤوں میں جو ہیلتھ اینڈ ویلنیس سنٹر کھولے جا رہے ہیں، وہاں پر ایسی بیماریوں کی اسکریننگ کی کوشش ہو رہی ہے۔ مقصد یہی ہے کہ شروعاتی دور میں ہی بیماریوں کی پہچان کی جا سکے۔ اس سے ماؤں اور بہنوں کی زندگی پر بڑے بحران کو ہم روکنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ میں بومئی جی اور ان کی ٹیم کو مبارکباد دوں گا کہ کرناٹک میں بھی 9 ہزار سے زیادہ ہیلتھ اینڈ ویلنیس سنٹر بنے ہیں۔ ہماری سرکار بیٹیوں کو ایسی زندگی دینے میں مصروف ہے، جس سے وہ خود بھی صحت مند رہے اور آگے جا کر اولاد بھی صحت مند رہے۔
بھائیوں اور بہنوں،
آج میں کرناٹک سرکار کی، ایک اور وجہ سے تعریف کروں گا۔ گزشتہ برسوں میں بی جے پی سرکار نے اے این ایم اور آشا بہنوں کو مزید با اختیار بنایا ہے۔ انہیں جدید ٹیکنالوجی والے گیجٹس دیے گئے ہیں، ان کا کام آسان بنایا گیا ہے۔ کرناٹک میں آج تقریباً 50 ہزار آشا اور اے این ایم کام کرتی ہیں، تقریباً ایک لاکھ رجسٹرڈ نرسیں اور دوسرے ہیلتھ ورکر ہیں۔ ڈبل انجن سرکار ان سبھی ساتھیوں کو ہر ممکن سہولیات دینے کے لیے، زندگی آسان بنانے کے لیے کوشاں ہے۔
ساتھیوں،
آروگیہ کے ساتھ ساتھ ماؤں اور بہنوں کو اقتصادی طور پر با اختیار بنانے پر بھی ڈبل انجن سرکار کی پوری توجہ ہے۔ یہ سرزمین تو ملک اور سلک کی سرزمین ہے۔ یہ ہماری سرکار ہے جس سنے مویشی پروروں کے لیے بھی کسان کریڈٹ کارڈ کی سہولت کو یقینی بنایا ہے۔ مویشیوں کی صحت ٹھیک رہے، اس کے لیے سب سے بڑی مفت ٹیکہ کاری مہم بھی ہماری سرکار نے شروع کی۔ اس مہم پر 12 ہزار کروڑ روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ ڈبل انجن سرکار کی یہ بھی کوشش ہے کہ ڈیئری کو آپریٹوز میں خواتین کی حصہ داری مزید بڑھے۔ گاؤوں میں خواتین کے جو سیلف ہیلپ گروپس ہیں، ان کو بھی با اختیار بنایا جا رہا ہے۔
ساتھیوں،
جب ملک صحت مند رہے گا، جب ترقی میں سب کی کوشش شامل ہوگی، تو ترقی یافتہ ہندوستان کا ہدف ہم اور تیزی سے حاصل کریں گے۔ میں ایک بار پھر سے شری مدھو سودن سائی انسٹی ٹیوٹ سے جڑے سبھی ساتھیوں کو انسانیت کی اس عمدہ کوشش کے لیے تہ دل سے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔
بھگوان سائی بابا سے میرا بہت قریبی رشتہ رہا اور ہمارے شری نواس جی سے بھی کافی ناطہ رہا پرانا، قریب 40 سال ہو گئے اس ناطے کو اور اس لیے نہ میں یہاں اتیتھی ہوں، نہ میں مہمان ہوں، میں تو آپ ہی کے یہاں کی اس سرزمین کا ہی سنتان ہوں۔ اور جب بھی آپ کے درمیان آتا ہوں تو رنیو ہو جاتا ہے ناطہ، پرانی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں اور مزید مضبوطی سے جڑنے کا من کر جاتا ہے۔
مجھے یہاں مدعو کرنے کے لیے میں آپ کا ایک بار پھر بہت بہت شکرگزار ہوں۔ بہت بہت شکریہ۔