جئے واڑی ناتھ! جئے جئے واڑی ناتھ۔
پرامبا ہنگلاج ماتا جی کی جئے! ہنگلاج ماتا جی کی جئے!
بھگوان شری دتاتریہ کی جئے! بھگوان شری دتاتریہ کی جئے!
آپ سب کیسے ہیں؟ اس گاؤں کے پرانے جوگیوں کے درشن کیے اور پرانے دوستوں کے بھی درشن ہوئے۔ بھائی، واڑی ناتھ نے تو رنگ جما دیا ، میں پہلے بھی واڑی ناتھ آیا ہوں اور کئی بار آیا ہوں، لیکن آج کی رونق کچھ اور ہے۔ دنیا میں چاہے جتنا استقبال اوراحترام ہو لیکن جب یہ احترام گھر میں ہوتا ہے تو خوشی ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ آج میرے گاؤں کے کچھ لوگ نظر آئے، ماما کے گھر آنے کی خوشی بھی انوکھی ہے، میں نے جو ماحول دیکھا ہے، اس کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ آپ سبھی عقیدت سے لبریز بھگتوں کو میرا پرنام۔ دیکھیں کیا اتفاق ہے، ٹھیک ایک ماہ قبل 22 جنوری کو میں ایودھیا میں بھگوان رام کے قدموں میں تھا۔ وہاں مجھے بھگوان رام للا کی مورتی کی پران پرتشٹھا کی تاریخی تقریب میں شرکت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس کے بعد 14 فروری بسنت پنچمی کو ابوظہبی میں خلیجی ممالک کے پہلے ہندو مندر کا افتتاح کرنے کا موقع ملا۔ اور ابھی دو تین دن پہلے یوپی کے سنبھل میں کالکی دھام کا سنگ بنیاد رکھنے کا موقع بھی ملا۔ اور اب آج مجھے یہاں تربھ کے اس شاندار مندر میں پران پرتشٹھا کے بعد پوجا کرنے کی تقریب میں حصہ لینے کا شرف حاصل ہوا ہے۔
ساتھیوں،
ملک اور دنیا کے لیے یہ واڑی ناتھ شیودھام یاترا ہے لیکن رباری برادری کے لیے قابل احترام گرو گادی ہے۔ آج میں یہاں ملک بھر سے رباری برادری کے دیگر عقیدت مندوں کو دیکھ رہا ہوں، میں مختلف ریاستوں کے لوگوں کو بھی دیکھ رہا ہوں۔ میں آپ سب کو مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیوں،
ہندوستان کی ترقی کے سفر میں یہ ایک شاندار دور ہے۔ ایک ایسا وقت ہے جب دیو کاج ہو یا یا ملک کا کام، دونوں تیز رفتاری سے ہو رہے ہیں۔ دیو سیوا بھی ہو رہی ہے اور ملک کی خدمت بھی۔ آج جہاں ایک طرف یہ کام مکمل ہو چکا ہے وہیں دوسری طرف 13 ہزار کروڑ روپے کے ترقیاتی منصوبوں کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا ہے اور افتتاح بھی ہو چکا ہے۔ یہ منصوبے بہت سے اہم ترقیاتی کاموں جیسے ریل، سڑک، بندرگاہ- ٹرانسپورٹ، پانی، قومی سلامتی، شہری ترقی، سیاحت سے متعلق ہیں۔ اس سے لوگوں کی زندگی آسان ہوگی اور اس علاقے کے نوجوانوں کے لیے روزگار اور خود روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
میرے پریوار جنوں،
آج میں اس مقدس زمین پر ایک دیویہ توانائی محسوس کر رہا ہوں۔ یہ توانائی ہمیں اس روحانی شعور سے جوڑتی ہے جو ہزاروں سالوں سے چلی آ رہی ہے، جس کا تعلق بھگوان کرشن سے ہے اور مہادیو جی سے بھی۔ یہ توانائی ہمیں اس سفر سے بھی جوڑتی ہے جو سب سے پہلے گادی پتی مہنت ویرم- گری باپو جی نے شروع کیا تھا۔ میں گادی پتی پوجیا جے رام گیری باپو کو بھی احترام کے ساتھ خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ آپ نے گادی پتی مہنت بلدیوگیری باپو کے عزم کو آگے بڑھایا اور اسے عملی جامہ پہنایا۔ آپ میں سے بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ میرا بلدیوگیری باپو کے ساتھ تقریباً 3-4 دہائیوں سے بہت گہرا تعلق رہا ۔ جب میں وزیر اعلیٰ تھا تو کئی بار مجھے اپنی رہائش گاہ پر ان کے استقبال کا موقع ملا۔ وہ تقریباً 100 سال تک ہمارے درمیان روحانی شعور کو بیدار کرتے رہے اور 2021 میں جب وہ ہم سے رخصت ہوئے تو میں نے فون کیا اور اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ لیکن آج جب میں ان کا خواب پورا ہوتا دیکھتا ہوں تو میری روح کہتی ہے – آج وہ جہاں بھی ہے، اس کامیابی کو دیکھ کر خوش ہو ں گے اور ہمیں آشیرواد ددیتے ہوں گے۔ سینکڑوں سال پرانا یہ مندر آج 21ویں صدی کی شان و شوکت اور قدیم الوہیت کے ساتھ تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ مندر بھی سینکڑوں کاریگروں اور مزدوروں کی برسوں کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے۔ اسی محنت کی وجہ سے آج واڑی ناتھ مہادیو، پرامبا شری ہنگلاج ماتا جی اور بھگوان دتاتریہ اس عظیم الشان مندر میں وراجے ہیں۔ میں اپنے تمام مزدور ساتھیوں کو بھی پرنام کرتا ہوں جو مندر کی تعمیر میں مصروف تھے۔
بھائیو اور بہنو،
ہمارے یہ مندر صرف دیوالے ہیں ، ایسا نہیں ہے۔ صرف عبادت گاہیں ہیں،ایسا بھی نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہماری ہزاروں سال پرانی ثقافت اور روایت کی علامت ہیں۔ ہمارے ملک میں مندر علم و سائنس کے مراکز رہے ہیں اور ملک اور معاشرے کو جہالت سے علم کی طرف لے جانے کا ذریعہ رہے ہیں۔ شیودھام، شری واڑی ناتھ اکھاڑہ نے تعلیم اور سماجی اصلاح کی اس مقدس روایت کو پوری لگن کے ساتھ آگے بڑھایا ہے اور مجھے یاد ہے کہ میں جب بھی پوجیہ بلدیوگیری مہاراج جی سے بات کرتا تھا، وہ روحانی یا مندر کے معاملات سے زیادہ سماج کے بیٹوں اور بیٹیوں کی تعلیم کے بارے میں بات کرتے تھے۔ کتاب پرب سے لوگوں میں بیداری میں اضافہ ہوا ہے۔ سکولوں اور ہاسٹلز کی تعمیر سے تعلیم کی سطح میں مزید بہتری آئی ہے۔ آج مسابقتی امتحانات کی تیاری کرنے والے سینکڑوں طلبا کو رہائش اور لائبریری کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ دیوکاج اور ملک کے کام کی اس سے اچھی مثال کیا ہو سکتی ہے۔ ایسی روایت کو آگے بڑھانے کیلئے رباری برادری تعریف کی مستحق ہے اور رباری برادری کو تعریف بہت کم ملتی ہے۔
بھائیو اور بہنو،
آج ملک سب کا ساتھ، سب کا وکاس کے منتر پر چل رہا ہے۔ یہ احساس ہمارے ملک میں کیسے بسی ہے، ہم اسے واڑی ناتھ دھام میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں بھگوان نے پرکٹ ہونے کیلئے ایک رباری چرواہے بھائی کا استعمال کیا۔ یہاں پوجاپاٹھ کی ذمہ داری رباری برادری پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن درشن پورا سماج کرتا ہے۔ سنتوں کے اسی جذبے کے مطابق آج ہماری حکومت ملک کے ہر علاقے اور ہر طبقے کی زندگیوں کو سنوارنے میں مصروف ہے۔ مودی کی گارنٹی، مودی کی اس گارنٹی کا مقصد سماج کے آخری چھور پر موجود ہم وطنوں کی زندگیوں کو بدلنا ہے۔ اس لیے ایک طرف ملک میں مندر بن رہے ہیں تو دوسری طرف کروڑوں غریبوں کے لیے پکے مکان بھی بن رہے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے مجھے گجرات میں 1.25 لاکھ سے زیادہ غریبوں کے گھروں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھنے کا موقع ملا۔تصور کیجئے کہ یہ غریب خاندان کتنا آشیرواد دیں گے ۔ آج ملک کے 80 کروڑ لوگوں کو مفت راشن مل رہا ہے، جس سے غریبوں کے گھر کا چولہا بھی جلتا رہتا ہے۔ ایک طرح سے یہ بگھوان کا پرساد ہے۔ آج ملک کے 10 کروڑ نئے خاندانوں کو نل کا پانی ملنا شروع ہو گیا ہے۔ یہ ان غریب خاندانوں کے لیے کسی امرت سے کم نہیں ہے ، جنہیں پہلے پانی لینے کے لیے بہت دور جانا پڑتا تھا۔ ہمارے شمالی گجرات کے لوگ جانتے ہیں کہ انہیں پانی کے لیے کتنی پریشانیاں جھیلنی پڑیں۔ کسی کو دو اور تین کلومیٹر تک سر پر گھڑا رکھ کر لے جانا پڑتا تھا۔ مجھے یاد ہے، جب میں نے سجلام-سفلام اسکیم بنائی تھی، تو شمالی گجرات کے کانگریسی ایم ایل اے بھی مجھ سے کہتے تھے کہ جناب، آپ جیسا کام کوئی نہیں کر سکتا۔ لوگ اسے 100 سال تک نہیں بھولیں گے۔ ان کے گواہ بھی یہاں بیٹھے ہیں۔
ساتھیوں،
پچھلی دو دہائیوں میں، ہم نے گجرات کی ترقی کے ساتھ ساتھ تاریخی مقامات کی عظمت کے لیے کام کیا ہے۔ بدقسمتی سے آزاد ہندوستان میں طویل مدتی ترقی اور وراثت نے ان کے درمیان تصادم پیدا کیا، دشمنی پیدا کی۔ اس کے لیے اگر کوئی قصوروار ہے تو وہ کانگریس ہے جس نے ملک پر دہائیوں تک حکومت کی۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے سومناتھ جیسے مقدس مقام کو بھی تنازعہ کا سبب بنایا۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے پاوا گڑھ میں مذہبی جھنڈا لہرانے کی کوئی خواہش بھی ظاہر نہیں کی۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کئی دہائیوں تک موڈھیرا کے سوریہ مندر کو بھی ووٹ بینک کی سیاست سے جوڑ کر دیکھا ۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے بھگوان رام کے وجود پر سوال اٹھائے اور ان کے مندر کی تعمیر میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ آج جب جنم بھومی پر ایک عظیم الشان مندر تعمیر ہوچکا ہے، جب پورا ملک اس سے خوش ہے، پھر بھی منفی سیاست کرنے والے لوگ نفرت کا راستہ نہیں چھوڑ رہے ہیں۔
بھائیو اور بہنو،
کوئی بھی ملک اپنے ورثے کو محفوظ کرکے ہی آگے بڑھ سکتا ہے۔ گجرات میں ہندوستان کی قدیم تہذیب کی بہت سی علامتیں بھی ہیں۔ یہ علامتیں نہ صرف تاریخ کو سمجھنے بلکہ آنے والی نسلوں کو اپنی اصلیت سے جوڑنے کے لیے بھی بہت اہم ہیں۔ اس لیے ہماری حکومت کی مسلسل کوشش رہی ہے کہ ان علامتوں کو محفوظ کیا جائے اور انہیں عالمی ورثے کے طور پر ترقی دی جائے۔ اب آپ دیکھیں کہ وڈ نگر کی کھدائی میں کس طرح نئی تاریخ ابھرکر سامنے آرہی رہی ہے۔ گزشتہ ماہ ہی وڈ نگر میں 2800 سال پرانی بستی کے آثار ملے تھے، لوگ وہاں 2800 سال پہلے رہتے تھے۔ دھولاویرا میں بھی کس طرح قدیم ہندوستان کےدویہ درشن ہو رہے ہیں۔ یہ ہندوستان کی شان ہیں۔ ہمیں اپنے شاندار ماضی پر فخر ہے۔
ساتھیوں،
آج، نئے ہندوستان میں کی جا رہی ہر کوشش آنے والی نسلوں کے لیے وراثت بنانے کا کام کر رہی ہے۔ آج جو نئی اور جدید سڑکیں اور ریلوے ٹریک بن رہے ہیں یہ وکست بھارت کے ہی راستے ہیں۔ آج مہسانہ کا ریل رابطہ مضبوط ہو گیا ہے۔ ریلوے لائن کو دوگنا کرنے سے اب بناس کانٹھا اور پاٹن کی کانڈلا، ٹُنا اور موندرا بندرگاہوں سے رابطہ بہتر ہوا ہے۔ اس سے نئی ٹرینیں چلانا ممکن ہو گیا ہے اور مال گاڑیوں کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے۔ آج ڈیسا ایئرفورس سٹیشن کے رن وے کا بھی افتتاح کر دیا گیا ہے اور مستقبل میں، یہ صرف ایک رن وے نہیں بلکہ ہندوستان کی سلامتی کے لیے فضائیہ کا ایک بہت بڑا مرکز بننے جا رہا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں وزیر اعلیٰ تھا تو میں نے اس منصوبے کے لیے حکومت ہند کو کئی خطوط لکھے تھے اور کئی کوششیں کی تھیں۔ لیکن کانگریس حکومت نے اس کام اور اس تعمیر کو روکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ فضائیہ کے لوگ کہتے تھے کہ یہ مقام ہندوستان کی سلامتی کے لیے بہت اہم ہے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ 2004 سے 2014 تک کانگریس حکومت اس کی فائلیں لے کر بیٹھی رہی۔ ڈیڑھ سال قبل میں نے اس رن وے کے کام کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ مودی جی جو بھی عہد کرتے ہیں، اسے پورا کرتے ہیں، ڈیسا کے اس رن وے کا آج افتتاح ہوا، یہ اس کی ایک مثال ہے اور یہ مودی کی ضمانت ہے۔
ساتھیوں،
20-25 سال پہلے ایک وقت تھا جب شمالی گجرات میں مواقع بہت محدود تھے۔ اس وقت کسانوں کے کھیتوں میں پانی نہیں تھا اور مویشی چرانے والوں کے اپنے چیلنج تھے۔ صنعت کاری کا دائرہ بھی بہت محدود تھا لیکن آج بی جے پی حکومت میں حالات مسلسل بدل رہے ہیں۔ آج یہاں کے کسان ایک سال میں 2-3 فصلیں اگانے لگے ہیں۔ پورے علاقے میں پانی کی سطح بھی بڑھ گئی ہے۔ آج یہاں پانی کی فراہمی اور آبی ذرائع سے متعلق 8 منصوبوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ ان پر 1500 کروڑ روپے سے زیادہ خرچ ہوں گے۔ اس سے شمالی گجرات کے پانی کے مسائل کو حل کرنے میں مزید مدد ملے گی۔ یہ حیرت انگیز ہے کہ کس طرح شمالی گجرات کے کسانوں نے ڈرپ اریگیشن جیسی جدید ٹیکنالوجی کو اپنایا ہے۔ اب میں دیکھ رہا ہوں کہ کیمیکل سے پاک قدرتی کاشتکاری کا رجحان بھی بڑھنے لگا ہے۔ آپ کی کوششوں سے ملک بھر کے کسانوں کا جوش بڑھے گا۔
بھائیو اور بہنو،
اس طرح ہم ترقی بھی کریں گے اور اپنے ورثے کو بھی بچائیں گے۔ آخر میں، میں ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ مجھے اس دیویہ درشن میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ آپ سب کا بہت بہت شکریہ! میرے ساتھ بولئے-
بھارت ماتا کی جئے ۔
بھارت ماتا کی جئے ۔
بھارت ماتا کی جئے ۔
شکریہ