جئے سوامی نارائن!
جئے سوامی نارائن!
قابل صد احترام مہنت سوامی جی، قابل احترام سنت حضرات، گورنر، وزیر اعلیٰ اور موجود تمام ست سنگی پریوار کے لوگ، یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے اس تاریخی پروگرام کا گواہ بننے اور ایک ست سنگی ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ یہ پروگرام اتنے بڑے پیمانے پر اور ایک ماہ تک جاری رہے اور میں نہیں مانتا کہ یہ پروگرام صرف تعداد کے لحاظ سے بڑا ہے، وقت کے لحاظ سے بہت طویل ہے، لیکن جو وقت میں نے یہاں گزارا ہے، مجھے لگتا ہے کہ یہاں ایک الوہیت کا احساس ہے۔ یہاں خیالات کی عظمت ہے۔ یہاں بچوں اور بزرگوں سب کے لئے ہماری وراثت کیا ہے، ہمارا ورثہ کیا ہے، ہماری آستھا کیا ہے، ہماری روحانیت کیا ہے، ہماری روایت کیا ہے، ہماری ثقافت کیا ہے، ہماری فطرت کیا ہے، ان سبھی کو اس احاطہ میں سمیٹ دیا گیا ہے۔ ہندوستان کا ہر رنگ یہاں نظر آتا ہے۔ اس موقع پر میں تمام معزز سنتوں کو اس انعقاد کے لئے ان کے قدموں میں جھکتا ہوں کہ انہوں نے اس تقریب کے لیے اپنی قابلیت اور اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے جو کوشش کی، میں انھیں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور معزز مہنت سوامی جی کے آشیرواد سے اتنا عظیم الشان انعقاد اور یہ ملک اور دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرے گا، اتنا ہی نہیں ہے، یہ متاثر کرے گا،یہ آنے والی نسلوں کو تحریک دے گا۔
15 جنوری تک دنیا بھر سے لاکھوں لوگ میرے والد جیسے قابل احترام پرمکھ سوامی جی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے یہاں آنے والے ہیں۔ آپ میں سے بہت سے لوگ واقف ہوں گے کہ پرمکھ سوامی جی کی صد سالہ تقریبات اقوام متحدہ میں بھی منائی گئی تھیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے خیالات کتنے لازوال ہیں، کتنے عالمگیر ہیں اور جو ہماری عظیم روایت سنتوں کے ذریعہ قائم وید سے وویکانند تک جس دھارا کو پرمکھ سوامی جیسے عظیم سنتوں نے آگے بڑھایا، وہ وسودھیو کٹمبکم کا جذبہ آج صدسالہ تقریب میں اس کے بھی دیدار ہورہے ہیں۔ یہ جو شہر بنایاگیا ہے، یہاں ہمارے ہزاروں سال کی ہماری یہ عظیم سنت روایت، متمول سنت روایت اس کے دیدار ایک ساتھ ہورہے ہیں۔ ہماری سنتوں کی روایت صرف کسی مذہب، عقیدے، طرز عمل، فکر کو پھیلانے تک محدود نہیں رہی، ہمارے سنتوں نے پوری دنیا کو آپس میں جوڑنے کے لیے وسودھیو کٹمبکم کی لازوال روح کو طاقت بخشی ہے اور میری
خوش قسمت ہے، ابھی برہم ویہاری سوامی جی کچھ اندرونی باتیں بھی بتا دے رہے ہیں۔ بچپن سے ہی ایک میرے من میں کچھ ایسے ہی شعبوں میں دلچسپی رہی تو پرمکھ سوامی جی کے بھی دور سے درشن کرتے رہتے تھے۔ کبھی اندازہ نہیں تھا کہ ہم ان کے بہت قریب پہنچیں گے، لیکن اچھا لگتا تھا، مجھے دور سے بھی درشن کا موقع ملتا تھا، مجھے اچھا لگتا تھا، میری عمر بھی بہت کم تھی، لیکن میرا تجسس بڑھتا جاتا تھا۔ کئی سالوں کے بعد غالباً 1981 میں مجھے پہلی بارتنہا ان کے ستاھ ستسنگ کرنے کا شرف حاصل ہوا اور میرے لئے سرپرائز تھا کہ اُن کو میرے بارے میں تھوڑی بہت جانکاری انہوں نے جمع کرکے رکھی تھی اور پورا وقت نہ کوئی دھرم پر بات چیت ، نہ کوئی ایشور پر بات چیت، نہ کوئی روحانیت کی بات چیت، کچھ نہیں، اب پوری طرح سیوا، انسانیت کی سیوا، ان ہی موضوعات پر باتیں کرتے رہے۔ وہ میری پہلی ملاقات تھی اور ہر لفظ میرے دل پر نقش ہو تا جارہا تھا اور ان کا ایک ہی پیغام تھا کہ زندگی کا سب سے پہلا ہدف خدمت ہی ہونی چاہئے۔ آخری سانس تک خدمت میں مصروف رہنا چاہیے۔ ہمارے یہاں تو مقدس کتابیں کہتی ہیں کہ نر سیوا ہی نارائن سیوا ہے۔ زندگی میں ہی شیو ہے، لیکن روحانیت پر بڑی بڑی بات کو انتہائی عام فہم لفظوں میں بیان کرتے ۔ وہ شخص کو مدنظر رکھ کر ہی بیان کرتے تھے، جتنا وہ سمجھ سکے، جتنا وہ اخذ کرسکے۔ عبدالکلام جی، اتنے بڑے سائنسدان ان کو بھی ان سے مل کرکے کچھ کچھ نہ ہوتا تھا اور اطمینان ہوتا تھا اور میرے جیسا ایک عام سوشل ورکر، وہ بھی جاتا تھا، اس کو بھی کچھ ملتا تھا، اطمینان ہوتا تھا۔ یہ ان کی شخصیت کی عظمت تھی، وسعت تھی، گہرائی تھی اور ایک روحانی سنت کے ناطے تو بہت کچھ آپ کہہ سکتے ہیں، جان سکتے ہیں۔ لیکن میرے دل میں ہمیشہ رہا ہے کہ وہ سچے معنی میں ایک سماجی مصلح تھے، وہ ایک رفارمسٹ تھے اورہم جب ان کو اپنے اپنے طریقہ سے یاد کرتے ہیں لیکن ایک دھاگہ جو مجھے ہمیشہ نظر آتا ہے، ہوسکتا ہے، اُس مالا میں الگ الگ طرح کے موتی ہم کو نظر آتے ہوں گے، لیکن اندر کا جو دھاگہ ہے وہ ایک طرح سے انسان کیسا ہو، مستقبل کیسا ہو، نظام تبدیلی کیوں ہو،اسے بلند و بالا آدرشوں سے جوڑا جانا چاہیے۔لیکن جدید چیزوں کے خواب، ہر جدید چیزوں کو قبول کرنے والے ہوں، ایک حیرت انگیز اتفاق، ایک حیرت انگیز سنگم، ان کا طریقہ بھی انتہائی منفرد تھا، انہوں نے ہمیشہ لوگوں کی باطنی خوبی کی حوصلہ افزائی کی۔ کبھی یہ نہیں کہا کہ ہاں بھائی، تم ایسا کرو،ایشور کا نام لو، ٹھیک ہوجائے گا، نہیں، ہوگی تمہاری خامیاں ہوں گی، مصیبت ہوگی، لیکن تیرے اندر یہ اچھائی ہے، تم اس پر توجہ مرکوز کرو اور اسی طاقت کی وہ حمایت کرتے تھے، کھاد پانی ڈالتے تھے، آپ کے اندر کی اچھائیاں ہی آپ کے اندر آرہیں، پنپ رہی برائیوں کو
وہیں پر ختم کردے گی۔ ایسا ایک اعلیٰ تصور اور آسان لفظوں میں وہ ہمیں بتاتے رہتے تھے۔ اور اسی وسیلے کو انہوں نے ایک طرح سے انسان کو باسلیقہ بنانے ، اسے تبدیل کرنے کا وسیلہ بنایا۔ صدیوں پرانی برائیاں جو ہمارے سماج زندگی میں اعلیٰ اور ادنیٰ ، امتیازی سلوک اِن سب کو انہوں نے ختم کردیا اور اُن کا ذاتی طور پر دخل رہتا تھا اور اسی کی وجہ سے یہ ممکن ہوپاتاتھا۔ مدد سب کی کرنا، فکر سب کی کرنا،وقت معمول کے مطابق رہا ہو یا پھر چیلنجوں کا دور رہا ہو۔ قابل احترام پرمکھ سوامی جی نے سماج کی بھلائی کے لئے ہمیشہ سبھی کو تحریک دی۔آگے رہ کرکے، آگے بڑھ کر کے تعاون دیا۔ جب موربی میں پہلی بار مچھو ڈیم کی تکلیف ہوئی، میں وہاں والنٹیئر کے طور پر کام کرتا تھا، ہمارے پرمکھ سوامی، کچھ سنت ، اس کے ساتھ ست سنگی سب کو انہوں نے بھیج دیا تھا اور وہ بھی وہاں ہمارے ساتھ مٹی اٹھانے کے کام میں لگ گئے تھے۔ ڈیڈ باڈیز کی آخری رسوم ادا کرنے میں مصروف تھے۔ مجھے یاد ہے، 2012 میں وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف لینے کے بعد میں اُن کے پاس گیا۔ عام طور پر میں اپنی زندگی کے جو بھی اہم مراحل آئے ہوں گے، پرمکھ سوامی جی کے پاس ضرور گیا ہوں۔ شاید بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگا، میں 2002 کا انتخاب لڑرہا تھا، پہلی بار مجھے انتخاب لڑنا تھا، پہلی بار کاغذات نامزدگی داخل کرنا تھا اور راجکوٹ سے مجھے امیدوار ہونا تھا، تو وہاں دو سنت موجود تھے، میں جب وہاں گیا تو انہوں نے مجھے ایک ڈبہ دیا، میں نے کھولا تو اندر ایک پین تھا، انہوں نے کہا کہ پرمکھ سوامی جی نے بھیجا ہے، آپ جب کاغذات نامزدگی پر دستخط کریں گے تو اِس پین سے کرنا، اب وہاں سے لے کر میں کاشی چناؤ کے لئے گیا۔
ایک بھی الیکشن ایسا نہیں ہے جب میں پرچہ داخل کرنے گیا اور اس کے لئے مجھے دستخط کرنے کے لئے قابل احترام پرمکھ سوامی جی کے لوگ آکر کے کھڑے نہ ہوں وہاں۔ اور جب کاشی گیا تب تو میرے لیے سرپرائز تھا، اُس پین کا جو کلر تھا، وہ بی جے پی کے جھنڈے کے کلر کا تھا۔ ڈھکن اس کا جو تھا وہ گرین کلر کا تھا اور نیچے کا حصہ اورینج کلر کا تھا۔ مطلب کئی پہلے دنوں سے انہوں نے سنبھال کر رکھا ہوگا اور یاد کرکے اُسی رنگ کا پین مجھے بھیجنا۔ یعنی ذاتی طو رپر ورنہ اُن کا کوئی شعبہ نہیں تھا کہ میری اتنی کیئر کرنا، شاید بہت لوگوں کو حیرت ہوگی سن کرکے ۔ 40 سال میں شاید ایک سال ایسا نہیں گیا ہوگا کہ ہر سال پرمکھ سوامی جی نے میرے لیے کرتا پاجامہ کا کپڑا نہ بھیجا ہو اور یہ میرے لیے شرف کی بات ہے۔ اور ہم جانتے ہیں بیٹا کچھ بھی بن جائے، کتنا بھی بڑا بن جائے، لیکن ماں باپ کے لئے بچہ ہی ہوتا ہے۔ ملک نے مجھے وزیر اعظم بنادیا، لیکن جو روایت پرمکھ سوامی جی چلاتے تھے، اُن کے بعد بھی وہ کپڑا بھیجنا چالو ہے۔ یعنی یہ اپنا پن اور میں نہیں مانتا ہو ں کہ یہ ادارہ جاتی عوامی رابطے کا معاملہ ہے، نہیں ایک روحانیت کا ناطہ تھا، ایک باپ بیٹے کا پیار تھا، ایک اٹوٹ رشتہ ہے اور آج بھی وہ جہاں ہوں گے، میرے ہر پل کو دیکھتے ہوں گے۔ باریکی سے میرے کام پر نظر رکھتے ہوں گے۔ انہوں نے مجھے سکھایا، سمجھایا، کیا میں اسی راہ پر چل رہا ہوں کہ نہیں چل رہا ہوں۔ وہ ضرور دیکھتے ہوں گے۔ کَچھ میں زلزلہ جب میں والنٹیئر کے طور پر کچھ میں کام کرتا تھا تب تو میرا وزیر اعلیٰ کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا تھا لیکن وہاں سبھی سنت مجھے ملے تو سب سے پہلے کہ تمہارے کھانے کا کیا بندوبست ہے، میں نے کہا کہ میں تو اپنے کارکنوں کے یہاں پہنچ جاؤں گا، نہیں کہا کہ تم کہیں پر بھی جاؤ، تمہارے لئے یہاں کھانا رہے گا، رات کو دیر سے آؤگے تو بھی کھانا یہیں کھانا۔ یعنی میں جب تک بھج میں کام کرتا رہا، میرے کھانے کے بارے میں پرمکھ سوامی نے سنتوں کو کہہ دیا ہوگا وہ پیچھے پڑے رہتے تھے میرے۔ یعنی اتنا پیار اور میں یہ ساری باتیں کوئی روحانی باتیں نہیں کہہ رہا ہوں جی، میں تو ایک عام سی باتیں کررہا ہوں آپ لوگوں کے ساتھ۔
.زندگی کے مشکل سے مشکل لمحات میں شاید ہی کوئی ایساموقع ہوگا جب پرمکھ سوامی نے خود مجھے بلایا نہ ہو یا مجھ سے فون پر بات نہ کی ہو، شاید ہی کوئی واقعہ ہوگا۔ مجھے یاد ہے، میں ویسے ابھی ویڈیو دکھا رہے تھے، اس میں اس کا ذکر تھا۔ 92-1991 میں سرینگر کے لال چوک پر ترنگا جھنڈا لہرانے کے لئے میری پارٹی کی طرف سے ایکتا یاترا کا پروگرام تھا۔ ڈاکٹر مرلی منوہر جی کی قیادت میں وہ یاترا جاری تھی اور میں اس کا بندوبست دیکھتا تھا۔ جانے سے پہلے میں پرمکھ سوامی کا آشیرواد لے کر گیا تھا، تو ان کو پتہ تھا کہ میں کہاں جارہا ہوں، کیا کررہا ہوں۔ ہم پنجاب سے جارہے تھے تو ہماری یاترا کے ساتھ دہشت گردوں کی بھیڑ ہوگئی، ہمارے کچھ ساتھی مارے گئے۔ پورے ملک میں بڑی تشویش کا معاملہ تھا، کہیں گولیاں چلیں، کافی لوگ مارے گئےتھے۔ اور پھر وہیں سے ہم جموں پہنچ رہے تھے۔ ہم نے سری نگر لال چوک پر ترنگا جھنڈا لہرایا۔ لیکن جیسے ہی میں نے جموں میں لینڈ کیا، سب سے پہلا فون پرمکھ سوامی جی کا اور میں خیریت سے ہوں نا، چلئے ایشور تمہیں آشیرواد دیں، آؤگے تو پھر ملتے ہیں، سنیں گے تم سے کچھ کیا ہوا، سادہ اور آسان۔ میں وزیر اعلیٰ بن گیا، اکشردھام کے سامنے ہی 20 میٹر کی دوری پر میرا گھر جہاں سی ایم کی رہائش گاہ تھی، میں وہاں رہتا تھا۔اور میرے آنے جانے کا راستہ بھی ایسا کہ جیسے ہی نکلتا تھا، تو پہلے اکشردھام کے درشن کرکے ہی میں آگے جاتا تھا۔ اکشر دھام پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تو میں نے پرمکھ سوامی جی کو فون کیا، اتنا بڑا حملہ ہوا ہے، میں حیران تھا جی، حملہ اکشر دھام پر ہوا ہے، سنتوں پر کیا بیتی ہوگی، گولیاں چلیں، نہیں چلیں کس کو کیا سب تشویش کی بات تھی کیونکہ ایک دم سے دھندلا سا ماحول تھا۔ ایسے بحران کی گھڑی میں اتنا بڑا دہشت گردانہ حملہ، اتنے لوگ مارے گئے تھے۔ پرمکھ سوامی جی نے مجھے کیا کہا فون کیا تو، ارے بھائی تیرا گھر تو سامنے ہی ہے، تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہی نا۔ میں نے کہاباپا اِس مشکل گھڑی میں آپ میری فکر کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا دیکھ بھائی، ایشور پر بھروسہ کرو، سب اچھا ہوگا۔ ایشور سچائی کے ساتھ ہوتا ہے یعنی کوئی بھی فرد ہو، ایسی حالت میں ذہنی توازن ، صحت مندی یہ اندر کی روحانی طاقت کے بغیر ممکن نہیں ہی جی۔ جب پرمکھ سوامی نے اپنے گوروؤں سے اور اپنی تپسیا سے سدھ کی تھی۔ اور مجھے ایک بات ہمیشہ یاد رہتی ہے، مجھے لگتا ہے کہ وہ میرے لیے باپ کے برابر تھے، آپ لوگوں کو لگتا ہوگا کہ میرے گورو تھے۔لیکن ایک اور بات کی طرف میرا ذہن جاتا ہے اور جب دلی اکشر دھام بنا تب میں نے اِس بات کا ذکر بھی کیا تھا، کیونکہ مجھے کسی نے بتایا تھا کہ یوگی جی مہاراج کی خواہش تھی کہ یمنا کے ساحل پر اکشردھام کا ہونا ضروری ہے۔ اب انہوں نے تو باتوں باتوں میں یوگی یوگی جی مہاراج کے منہ سے نکلا ہوگا لیکن وہ شاگرد دیکھئے جو اپنے گرو کے اِن الفاظ کو جیتا رہا۔ یوگی جی تو نہیں رہے، لیکن وہ یوگی جی کے الفاظ کو جیتا رہا، کیونکہ یوگی جی کے سامنے
جی کر دکھایا تو یمنا کے ساحل پر اکشر دھام بنا کرکے آج پوری دنیا کے لوگ آتے ہیں تو اکشر دھام کے ذریعہ ہندوستان کی عظیم وراثت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ہمیشہ کے لئے کیا گیا کام ہے ، یہ ہر زمانے کو تحریک دینے والا کام ہے۔ آج دنیا میں کہیں بھی جائیے، مندر ہمارے یہاں کوئی نئی چیزنہیں، ہزاروں سال سے مندر بنتے رہے ہیں۔ لیکن ہماری مندر کی روایت کو جدید بنانا، مندر کے انتظامات میں روحانیت اور جدیدیت کو یکجا کرنا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک بڑی روایت پرمکھ سوامی جی نے قائم کی ہے۔ بہت لوگ ہماری سنتوں کی روایت کے بڑے، نئی نسل کے دماغ میں تو کیاپتہ نہیں کیا کچھ بھر دیا جاتا ہے، ایسا ہی مانتے ہیں۔ پہلے کے زمانے میں تو کہاوت تھی کہ مجھے معاف کرنا، سب ست سنگی لوگ ، پہلے سے کہا تھا کہ بھائی سادھو بننا ہے ، سنت سوامی نارائن کے بنو، پھر لڈو بتاتے تھے۔ یہی کتھا چلتی تھی کہ سادھو بننا ہے تو سنت سوامی نارائن کے بنو، موج رہے گی۔ لیکن پرمکھ سوامی نے سنت روایت کو جس طرح سے پوری طرح بدل ڈالا، جس طرح سے سوامی وویکانند جی نے رام کرشن مشن کے ذریعہ سنیاس کی زندگی کو خدمت کےجذبے کے لئے ایک بہت زیادہ
وسعت دی۔ پرمکھ سوامی جی نے بھی سنت یعنی صرف خود کی بہبود کے لئے نہیں ہے، سنت سماج کی بہبود کے لئے ہے اور ہر سنت اس لیے انہوں نے تیار کیا، یہاں پر بیٹھے ہوئے ہر سنت کسی نہ کسی سماجی کام سے نکل کر کے آئے ہیں اور آج بھی سماجی کام اُن کی ذمہ داری ہے۔ صرف آشیرواد دینا اور تم کو نجات مل جائے، یہ نہیں ہے۔ جنگلوں میں جاتے ہیں، آدیواسیوں کے بیچ میں کام کررہے ہیں، ایک قدرتی آفت ہوئی، والنٹیئر کے طور پر زندگی وقف کردیتے ہیں۔ اور یہ روایت قائم کرنے میں قابل احترام پرمکھ سوامی جی مہاراج کا بہت بڑا تعاون ہے۔ وہ جتنا وقت، طاقت اور تحریک دیتے تھے، مندروں کے ذریعہ دنیا میں ہماری شناخت قائم ہو ، اتنی ہی کوشش وہ سنتوں کی ترقی کے لئے کرتے تھے۔ پرمکھ سوامی جی چاہتے تو گاندھی نگر میں رہ سکتے تھے، احمد آباد میں رہ سکتے تھے، بڑے شہر میں رہ سکتے تھے، لیکن انہوں نے زیادہ تر سہارنپور میں اپنا وقت گزارنا پسند کیا۔ یہاں سے 90-80کلومیٹر دور اور وہاں کیا کیا انہوں نے، سنتوں کے لئے ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ پر زور دیا اور مجھے آج کوئی بھی اکھاڑے کے لوگ ملتے ہیں تو میں اُن سے کہتا ہوں کہ آپ دو دن کے لئے سہارنپور جائیے، سنتوں کی ٹریننگ کیسی ہونی چاہئے، ہمارے مہاتما کیسے ہونے چاہئے، سادھو مہاتما کیسے ہونے چاہئے، یہ دیکھ کر آئیے اور وہ جاتے ہیں اور دیکھ کر آتے ہیں۔یعنی جدت اس میں لینگویج بھی سکھاتے ہیں، انگریزی زبان سکھاتے ہیں، سنسکرت بھی سکھاتے ہیں، سائنس بھی سکھاتے ہیں، ہماری اسپریچوئل روایات بھی سکھائی جاتی ہے۔ یعنی ایک بھرپور کوشش ترقی کرکرکے سماج میں سنت بھی ایسا ہونا چاہئےجو جرأت مند ہونا چاہئے۔ صرف تیاگی ہونا ضروری ، اتنی سی بات میں نہیں، تیاگ تو ہو لیکن جرأت ہونی چاہئے۔ اور انہوں نے پوری سنت روایات جوقائم کی ہیں، جیسے انہوں نے اکشر دھام مندروں کے ذریعہ دنیا میں ایک ہماری ہندوستان کی عظیم روایت کو متعارف کرانے کے لئے ایک ذریعہ بنایا ہے۔ ویسے عظیم طرح کی سنت روایت کی تعمیر میں بھی قابل احترام پرمکھ جی سوامی جی مہاراج نے ایک انسٹی ٹیوشنل میکانزم قائم کیا ہے۔ وہ ذاتی نظام کے تحت نہیں ، انہوں نے انسٹی ٹیوشنل میکانزم قائم کیا ہے، اس لیے صدیوں تک لوگ آئیں گے ، جائیں گے، سنت نئے نئے آئیں گے، لیکن یہ نظام ایسا بنا ہے کہ ایک نئی روایت کی نسلیں بننے والی ہیں۔ یہ میں اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا ہوں۔اور میرا تجربہ ہے وہ دیو بھگتی اور دیش بھگتی میں فرق نہیں کرتے تھے۔ دیو بھگتی کے لئے جیتے ہیں، آپ، دیش بھگتی کے لئے جیتے ہیں جو ان کا لگتا ہے کہ میرے لئے دونوں ست سنگی ہوا کرتے ہیں۔ دیو بھگتی کے لئے بھی جینے والا بھی ست سنگی ہے، دیش بھگتی کےلئے بھی جینے والا ست سنگی ہوتا ہے۔ آج پرمکھ سوامی جی کی صد سالہ تقریب ہماری نئی نسل کے لیے باعث تحریک بنے گی، ایک تجسس پیدا ہوگا۔ آج کے زمانے میں بھی اور آپ پرمکھ سوامی جی کے ڈیٹیل میں جائیے کوئی بڑی تکلیف ہو ، ایسے وعظ نہیں دیے، انہوں نے آسان باتیں کیں، سادہ زندگی کی بہترین باتیں بتائیں اور اتنے بڑے مجمع کو جوڑا، مجھے بتایا گیا 80 ہزار والنٹیئرس ہیں، ابھی ہم آرہے تھے تو ہمارے برہم جی ہمیں بتارہے تھے کہ یہ سبھی سویم سیوک ہیں اور وہ وزیر اعظم جو وزٹ کررہے ہیں۔ میں نے کہاآپ بھی تو کمال آدمی ہو یار بھول گئے کیا، میں نے کہا وہ سویم سیوک ہیں، میں بھی سویم سیوک ہوں، ہم دونوں ایک دوسرے کی مدد کررہے ہیں۔ تو میں نے کہا اب 80 ہزار میں ایک اور جوڑ دیجئے۔ خیر بہت کچھ کرنے کو ہے، پرانی یادیں آج دل کو چھو رہی ہیں۔ لیکن مجھے ہمیشہ پرمکھ سوامی کی کمی محسوس ہوتی رہی ہے۔ اور میں کبھی ان کے پاس کوئی بڑا،سیکھنے کے لئے کبھی نہیں کیا میں نے، ایسے ہی اچھا لگتا تھا، جاکر بیٹھنا اچھا لگتا تھا، جیسے درخت کے نیچے بیٹھے تھکے ہوئے ہوں، درخت کے نیچے بیٹھتے ہیں تو کتنا اچھا لگتا ہے۔ اب درخت تو ہمارے سامنے کوئی بات نہیں کرتا ہے۔ میں پرمکھ سوامی کے پاس بیٹھتا تھا،ایسے ہی لگتا تھا جی، ایک برگد کے سائے میں بیٹھا ہوں، ایک علم کے خزانے کے قدموں میں بیٹھتا ہوں۔ پتہ نہیں میں ان چیزوں کو لکھ پاؤں گا کہ نہیں لکھ پاؤں گا، لیکن میرے من کا جو سفر ہے، وہ سفر کا بندھن ایسی سنت روایت سے رہا ہے، روحانی روایت سے رہا ہے اور اس میں قابل احترام یوگی جی مہاراج، قابل احترام پرمکھ سوامی مہاراج اور قابل احترام مہنت سوامی مہاراج بہت بڑی خوش قسمتی ہے میری کہ مجھے ایسے ساتوک ماحول میں، تامسک دنیا کے بیچ میں اپنے آپ کو بچا کرکے کام کرنے کی طاقت ملتی رہتی ہے۔ ایک مسلسل تأثر ملتا رہتا ہے اور اسی وجہ سے راجسی بھی نہیں بننا ہے، تامسی بھی نہیں بننا ہے، ساتوک بنتے ہوئے چلتے رہنا ہے، چلتے رہنا ہے، چلتے رہنا ہے۔ آپ سب کو بہت -بہت نیک خواہشات۔
جئے سوامی نارائن۔