نمسکار جی!مرکزی وزیر برائے زراعت و کسان بہبود جناب نریندر سنگھ تومر جی، چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ جناب بھوپیش بگھیل جی، کابینہ کے میرے دیگر معاون جناب پرشوتم روپالا جی، کیلاش چھودھری جی، بہن شوبھا جی، چھتیس گڑھ کے سابق وزیر اعلیٰ جناب رمن سنگھ جی، حزب اختلاف کے لیڈر جناب دھرم لال کوشک جی، زراعتی تعلیم سے جڑے تمام وائس چانسلر، ڈائریکٹرز، سائنداں ساتھی اور میرے پیارے کسان بہنوں اور بھائیوں!
ہمارے یہاں شمالی بھارت میں گھاگھ اور بھڈری کی زراعت سے متعلق کہاوتیں بہت مقبول رہی ہیں۔ گھاگھ نے آج سے کئی صدی پہلے کہا تھا-
جیتے گہیرا جوتے کھیت،
پرے بیج، پھل تیتے دیت!
یعنی کھیت کی جُتائی جتنی گہری کی جاتی ہے، بیج بونے پر پیداوار بھی اُتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ یہ کہاوتیں، بھارت کی زراعت کے سینکڑوں سال پرانے تجربات کے بعد بنی ہیں۔ یہ بتاتی ہیں کہ بھارتیہ زراعت ہمیشہ سے کتنی سائنسی رہی ہے۔زراعت اور سائنس کے اس تال میل کا مسلسل بڑھتے رہنا، 21ویں صدی کے بھارت کے لئے بہت ضروری ہے۔ آج اِسی سے جڑا ایک اور اہم قدم اُٹھایا جارہا ہے۔ہمارے ملک کے جدید سوچ والے کسانوں کو یہ وقف کیا جارہا ہے اور چھوٹے چھوٹے کسانوں کی زندگی میں تبدیلی کی اُمید کے ساتھ یہ بہت بڑی سوغات آج میں، میرے ملک کے کروڑ ہا کسانوں کے قدموں میں وقف کررہا ہوں۔ الگ الگ فصلوں کی 35نئی قسمیں آج جاری ہوئی ہیں۔ آج رائے پور میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بایوٹک اسٹریس مینجمنٹ کا افتتاح بھی ہوا ہے۔ چار زرعی یونیورسٹیز کو گرین کیمپس ایوارڈ بھی دیئے گئے ہیں۔ میں آپ سبھی کو، ملک کے کسانوں کو، زرعی سائنس دانوں کو بہت بہت مبارکباد دیتاہوں۔
ساتھیوں،
پچھلے 7-6سالوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو زراعت سے جڑی چنوتیوں کے حل کے لئے اولیت کی بنیاد پر استعمال کیا جارہا ہے۔ خاص طور سے بدلتے ہوئے موسم میں، نئی صورتحال کے مطابق، زیادہ زخیر بیجوں پر ہمارا فوکس بہت زیادہ ہے۔ حال کے سالوں میں الگ الگ فصلوں کی ایسی 1300سے زیادہ بیج کی قسمیں تیار کی گئی ہیں۔ اسی سلسلے میں آج 35 مزید فصل قسموں کو ملک کے کسانوں کے قدموں میں وقف کیا جارہا ہے۔ فصل کی یہ قسمیں ، یہ بیج،موسمیاتی تبدیلی کے اثر سے کھیتی کو محفوظ کرنے اور عدم زخیزی سے آزاد بھارت کی مہم میں بہت معاون ثابت ہونے والی یہ ہمارے سائنسدانوں کی تحقیق کا نتیجہ ہے۔ یہ نئی قسمیں موسم کی کئی طرح کی چنوتیوں سے نمٹنے میں اہل تو ہیں ہی ، اِن میں تغذیہ عناصر بھی زیادہ ہیں۔اِن میں سے کچھ قسمیں کم پانی والے علاقوں کے لئے ہیں، کچھ فصلیں خطرناک بیماریوں سے محفوظ ہیں، کچھ جلدی تیار ہو جانے والی ہیں، کچھ کھارے پانی میں ہو سکتی ہیں۔یعنی ملک کی الگ الگ صورتحال کو ذہن میں رکھتے ہوئے اِنہیں تیار کیا گیا ہے۔چھتیس گڑھ کے نیشنل انسٹی ٹیو ٹ آف بایوٹک اسٹریس مینجمنٹ کی شکل میں ملک کو ایک نیا قومی ادارہ ملا ہے۔یہ ادارہ موسم اور دیگر حالات کی تبدیلی سے پیدا ہوئی چنوتیوں سے نمٹنے میں ملک کی کوششوں کو سائنسی طور پر رہنمائی کرے گا، سائنسی مدد ملے گی اور اس سے بہت طاقت فائدہ ہوگا۔ یہاں سے جو افرادی قوت تربیت یافتہ ہوگی، جو ہمارا نوجوانوں کا اثاثہ تیار ہوگا، سائنسی ذہن و فکر کےساتھ ، جو ہمارا سائنسداں تیار ہوگا، جو یہاں پر حل نکالے جائیں گے، وہ ملک کی زراعت اور کسانوں کی آمدنی بڑھانے میں کارگر ثابت ہوں گے۔
ساتھیوں،
ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں فصلوں کا کتنا بڑا حصہ، کیڑوں کی وجہ سے برباد ہوجاتاہے۔ اس سے کسانوں کا بھی بہت نقصان ہوتا ہے۔پچھلے سال ہی کورونا سے لڑائی کے دوران ہم نے دیکھا ہے کہ کیسے ٹڈیوں کے جھنڈ نے متعد د ریاستوں میں بڑا حملہ کردیا تھا۔ بھارت نے بہت کوشش کرکے تب اس حملے کو روکا تھا، کسانوں کا زیادہ نقصان ہونے سے بچانے کی بھرپور کوشش کی گئی تھی۔میں سمجھتا ہوں کہ اس نئے ادارے پر بہت بڑی ذمہ داری ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہاں کام کرنے والے سائنسداں ملک کی امیدوں پر کھرا اتریں گے۔
ساتھیوں،
کھیتی-کسانی کو جب تحفظ ملتا ہے، حفاظتی حصار ملتا ہے، تو اُس کی اور تیزی سے ترقی ہوتی ہے۔کسانوں کی زمین کو تحفظ دینے کے لئے، اُنہیں الگ الگ مرحلوں میں 11کروڑ سوائل ہیلتھ کارڈ دیئے گئے ہیں۔اِ س کی وجہ سے کسانوں کو اپنی جو زمین ہے، اس کی کیا حدیں ہیں، زمین کی کیا طاقت ہے، کس طرح کے بیج بونے اور اس کس طرح کے فصل بونے سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔دوائیاں کون سی ضروری ہیں، کھاد کون سا ضروری پڑے گا، یہ تمام چیزیں اُس سوائل ہیلتھ کارڈ کے سبب ، زمین کی صحت کا پتہ لگ جانے کی وجہ سے کسانوں کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ اُن کا خرچ بھی ہوا ہے اور پیداوار بھی بڑھی ہے۔اِسی طرح سے یوریا کی 100 فیصد نیم کوٹنگ کرکے ہم نے کھاد کو لے کر ہونے والی تشویش کو دور کیا۔ کسانوں کو پانی کا تحفظ دینے کے لئے ہم نے آبپاشی پروجیکٹ شروع کئے۔ دہائیوں سے لٹکے قریب قریب 100 آبپاشی پروجیکٹوں کو پورا کرنے کی مہم چلائی ، بڑے تعدا د میں اس کے لئے پروجیکٹ لگادیا۔کسانوں کو پانی مل جائے، تو وہ پانی سے معجزہ کر دکھا تا ہے۔ اِسی طرح پانی بچانے کے لئے ہم نے مائیکرو ایریگیشن، اسپرنکلر کے لئے بھی بڑی مالی مدد فراہم کرکے کسانوں تک یہ سہولتیں پہنچانے کی کوشش کی۔فصلوں کو بیماری سے بچانے کےلئے، زیادہ پیداوار کے لئے کسانوں کو نئی نئی قسموں کے بیج دیئے گئے۔ کسان کھیتی کے ساتھ ساتھ بجلی پیدا کر ے، اَنّ داتا توانائی دینے والا بھی بنے، اپنی خود کی ضرورتیں بھی پوری کرسکے، اس کے لئے پی ایم کُسُم مہم بھی چلائی جارہی ہے۔ لاکھوں کسانوں کو سولر پمپ بھی دیئے گئے ہیں۔ اِسی طرح سے آج تو موسم کے بارے میں تو ہمیشہ دنیا بھر میں تشویش رہی ہے، ابھی ہمارے چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ جی ، کتنی طرح کی قدرتی آفات آتی رہتی ہیں، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے کیا کیا مصیبتیں آتی ہیں، بڑے اچھے ڈھنگ سے انہوں نے اس کا ذکر کیا۔ زالہ باری اور موسم کی مار سے کسانوں کو تحفظ دینے کے لئے ہم نے کئی چیزوں میں تبدیلی کی۔پہلے کے سارے قوانین میں بدلاؤ کیا، تاکہ کسان کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو۔اس نقصان کے وقت اُس کو دقت نہ آئے، یہ ساری تبدیلیاں کیں۔پی ایم فصل بیمہ یوجنا ، اس سے بھی کسانوں کو بہت فائدہ اور تحفظ ملے ، اس کی فکر کی۔ اس تبدیلی کے بعد کسانوں کو قریب قریب یعنی پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا میں جو تبدیلی لائی گئی، اُس کی وجہ سے کسانوں کو قریب قریب ایک کروڑ روپے کی کلیم رقم کی ادائیگی کی گئی ہے۔ ایک لاکھ کروڑ روپے اس بحران کی گھڑی میں کسانوں کی جیب میں گیا ہے۔
ساتھیوں،
ایم ایس پی میں اضافے کے ساتھ ساتھ ہم نے خرید عمل میں بھی بہتری پیدا کی، تاکہ زیادہ سے زیادہ کسانوں کو اس کا فائدہ مل سکے۔ ربیع سیزن میں 430لاکھ میٹرک ٹن سے زیادہ گیہوں خریدا گیا ہے۔ اس کے لئے کسانوں کو 85ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی ادائیگی کی گئی ہے۔ کووڈ کے دوران گیہوں خرید مراکز کی تعداد 3گنا تک بڑھائی گئی ہے۔ساتھ ہی دلہن –تلہن خرید مراکز کی تعداد بھی 3گنا بڑھائی گئی ہے۔ کسانوں کی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کو پورا کرنے کےلئے کسان سمّان نِدھی کے تحت 11کروڑ سے زیادہ رقم ہمارے ہر کسان کو دی گئی ہے اور اس میں زیادہ تر چھوٹے کسان ہیں۔ 10 میں سے 8 کسان ہمارے ملک میں چھوٹے کسان ہیں، بہت بہت چھوٹی زمین کے ٹکڑے پر پل رہے ہیں۔ ایسے کسانوں کو قریب قریب 1 لاکھ 60ہزار کروڑ سے بھی زیادہ روپے براہ راست اُن کے بینک اکاؤنٹ میں بھیجے گئے ہیں۔ اس میں سے 1لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ رقم تو اسی کورونا کے دور میں بھیجی گئی ہے۔کسانوں کو ٹیکنالوجی سے جوڑنے کےلئے ہم نے اُنہیں بینکوں سے مدد کی اور اس مدد کے پورے عمل کو بہت آسان بنایا گیا ہے۔ آج کسانوں کو اور بہتر طریقے سے موسم کی جانکاری مل رہی ہے۔ حال ہی میں مہم چلاکر 2کروڑ سے زیادہ کسانوں کو کریڈٹ کارڈ دیئے گئے ہیں۔ماہی گیری کرنے والے اور ڈیری سیکٹر سے جڑے کسانوں کو بھی کے سی سی سے جوڑا گیا ہے۔10ہزار سے زیادہ کسان پیداوار تنظیمیں ہوں،ای-نیم یوجنا کے تحت زیادہ سے زیادہ زرعی منڈیوں کو جوڑنا ہو، موجودہ زرعی منڈیوں کی جدید کاری ہو، یہ سارے کام تیزی رفتاری سے کئے جارہے ہیں۔ملک کے کسانوں اور ملک کی زراعت سے جڑے جو کام پچھلے 7-6سالوں میں ہوئے ہیں، انہوں نے آنے والے 25 سالوں کے بڑے قومی عہد کی کامیابی کے لئے ، کیونکہ 25 سال کے بعد ہمارا ملک آزادی کی صدی منائے گا۔ آج ہم آزادی کا امرت مہوتسو منا رہے ہیں۔ 25 سال کے بعد آزادی کی صدی منائیں گے اور اس کے اِن 25 سالوں کے بڑے قومی عہد کی کامیابی کے لئے ایک بڑی مضبوط بنیاد بنادی ہے۔ بیج سے لے کر بازار تک ہوئے یہ کام ایک بڑی اقتصادی طاقت کی شکل میں بھارت کی ترقی کی رفتار کو یقینی بنانے والے ہیں۔
ساتھیوں،
ہم سب جانتے ہیں کہ زراعت ایک طرح سے ریاست کا موضوع ہے اور اس کے بارے میں متعدد بار لکھا بھی جاتا ہے کہ یہ تو ریاست کا موضوع ہے۔ بھارت سرکار کو اِس میں کچھ بھی نہیں کرنا چاہئے۔ ایسا بھی کہا جاتا ہے ، کیونکہ ریاست کا مسئلہ ہے اور میں جانتا ہوں ، کیونکہ گجرات میں کئی سالوں تک وزیر اعلیٰ کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ گجرات کا وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے ، کیونکہ ریاست کی بھی خصوصی ذمہ داری ہے ، یہ میں جانتا تھا اور اس ذمہ داری کو مجھے نبھانا چاہئے۔ یہ وزیر اعلیٰ ہونے کے ناتے میں پوری کوشش کرتاتھا۔ گجرات کا وزیراعلیٰ رہتے ہوئے میں نے زرعی نظام کو ، زرعی پالیسیوں اور اُن کے کھیتی پر اثرات کو بہت قریب سے محسوس کیا اور ابھی ہمارے نریندر سنگھ تومر جی ، میرے گجرات کے مدت کار میں ، میں کیا کام کررہا تھا، اُس کا بھی ذکر کررہے تھے۔ ایک وقت تھا جب گجرات میں زراعت کچھ فصلوں تک ہی محدود تھی۔ گجرات کے ایک بڑے حصے میں پانی کی کمی کی وجہ سے کسان زراعت چھوڑ چکے تھے۔اُس وقت ایک ہی منتر کو لے کر ہم چلیں۔ کسانوں کو ساتھ لے کر چلیں اور منتر تھا –صورتحال بدلنی چاہئے، ہم حالات ضرورت بدلیں گے۔ اس کے لئے اُس دور میں ہی ہم نے سائنس اور جدید ٹیکنالوجی کا وسیع پیمانے پر استعمال شروع کردیا تھا۔ آج ملک کی زراعت اور باغبانی میں گجرات کی ایک بہت بڑی حصے داری ہے۔اب آج گجرات میں 12مہینے کھیتی ہوتی ہے۔کچھ جیسے خطے میں بھی آج وہ پھل ، سبزیاں پیدا ہوتی ہیں، جن کے بارے میں کبھی سوچ نہیں سکتے تھے۔آج کچھ کے ریگستان میں سے وہاں کی زرعی پیداوار غیر ممالک میں برآمد ہونی شروع ہوگئی ہے۔
بھائیوں اور بہنوں،
صرف پیداوار پر ہی فوکس نہیں کیاگیا، بلکہ پوری گجرات میں کولڈ چین کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک تیار کیاگیا۔ ایسی متعدد کوششوں سے کھیتی کا دائرہ تو بڑھا ہی ، ساتھ ہی کھیتی سے جڑی صنعتوں اور روزگار میں بھی اضافہ ہوا اور کیونکہ ایک وزیر اعلیٰ ہونے کے ناتے ریاستی سرکار کی ساری ذمہ داری ہوتی ہے، تو مجھے اُس وقت اِن تمام کاموں کو کرنے کا ایک اچھا موقع ملا اور میں نے پوری محنت بھی کی۔
بھائیوں اور بہنوں،
کھیتی میں ہوئی ایسی ہی جدید تبدیلیوں کو آزادی کے اس امرت کال میں مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلی زراعت ہی نہیں، بلکہ ہمارے پورے ایکو سسٹم کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے۔موسم میں تبدیلی سے ہماری ماہی پروری، جانوروں کی صحت اور پیداوار بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے، اس کا نقصان کسانوں کو ، ماہی گیر ساتھیوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔موسمیاتی تبدیلی کے سبب جو نئے طرح کے کیڑے ، نئی بیماریاں، وبائیں آرہی ہیں، اس سے انسان اور پشو دَھن کے صحت پر بھی بہت بڑا بحران آرہا ہے اور فصلیں بھی متاثر ہورہی ہیں۔اِن پہلوؤں پر گہری تحقیقی مسلسل ضروری ہے۔جب سائنس ، سرکار اور سوسائٹی مل کر کام کریں تھے، تو اُس کے نتائج بہت بہتر آئیں گے۔کسانوں اور سائنسدانوں کا ایسا گٹھ جوڑ نئے چیلنجز سے نمٹنے میں ملک کی طاقت بڑھائے گا۔ضلع سطح پر سائنس پر مبنی ایسی زری ماڈل کھیتی کو مزید پیشہ ورانہ ، زیادہ فائدہ مند بنائیں گے۔آج موسمیاتی تبدیلی سے بچاؤ کرنے والی تکنیک اور عمل کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے جو مہم شروع کی گئی ہے، اُس کی بنیاد میں یہی جذبہ ہے۔
بھائیوں اور بہوں،
یہ وہ وقت ہے، جب ہمیں بیک ٹو بیسک اور مارچ فار فیوچر دونوں میں توازن قائم کرنا ہے۔ جب میں بیک ٹو بیسک کہتا ہوں، تب میری مراد ہماری روایتی زراعت کی اُس طاقت سے ہے، جس میں آج کے زیادہ تر چیلنجوں سے جڑا تحفظاتی حصار تھا۔روایتی طور سے ہم زارعت، ماہی گیری اور مویشی پروری ایک ساتھ کرتے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک ساتھ ایک ہی کھیت میں ، ایک وقت میں کئی فصلوں کو بھی اُگایا جاتا تھا۔یعنی پہلے ہمارے ملک کی زراعت کثیر رُخی تھی، لیکن یہ رفتہ رفتہ یک رُخی ہوتی چلی گئی۔ الگ الگ حالات کی وجہ سے کسان ایک ہی فصل اُگا نے لگا ۔اِس حالت کو بھی ہمیں مل کر بدلنا ہی ہوگا۔ آج جب موسمیاتی تبدیلی کی چنوتی بڑھ رہی ہے، تو ہمیں اپنے کاموں کی رفتار کو بھی بڑھانا ہوگا۔ گزرے ہوئے سالوں میں اسی جذبے کو ہم نے کسانوں کی آمدنی میں اضافے کے لئے فروغ دیا ہے۔کسان کو صرف فصل پر مبنی آمدنی نظام سے باہر نکال کر اُنہیں ویلیو ایڈیشن اور کھیتی کے دیگر متبادل کے لئے بھی متحرک کیاجارہا ہے۔ چھوٹے کسانوں کو اس کی بہت ضرورت ہے اور ہمیں پوری توجہ 100 میں سے 80 جو چھوٹے کسان ہیں، ان پر ہی مبذول کرنی ہے۔ہمارے کسانوں کے لئے، اِس میں مویشی پروری اور ماہی گیری کے ساتھ ساتھ شہد کی مکھی پالنا، کھیت میں سولر توانائی کی پیداوار، کچرے سے کنچن ، یعنی ایتھینال، بایوفیول، جیسے متبادل بھی کسانوں کو دیئے جارہے ہیں۔مجھے خوشی ہے کہ چھتیس گڑھ سمیت ملک کے کسان اِن تمام نئی نئی چیزوں کو بہت تیزی سے اپنا رہے ہیں۔زراعت کے ساتھ ساتھ دو چار اور چیزوں کی وسعت کررہے ہیں۔
ساتھیوں،
موسم کی مقامی صورتحال کے مطابق فصلوں کی پیداوار ہماری روایتی زراعت کی ایک اور طاقت ہے۔ جہاں خشک سالی رہتی ہے، وہاں اس کے مطابق فصلوں کی پیداوار کی جاتی ہے۔ جہاں سیلاب رہتا ہے، پانی زیادہ رہتا ہے، جہاں برف رہتی ہے، وہاں اُسی طرح کی فصلیں اُگائی جاتی ہیں۔ موسم کے حساب سے اُگائی جانے والی اِن فصلوں میں تغذیہ کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے۔ خاص طور سے جو ہمارے موٹے اناج –ملیٹس ہیں، اُن کی بہت اہمیت ہے۔ ماہرین کہتے ہیں یہ ہماری صحت کو مضبوطی فراہم کرتے ہیں، اس لئے آج کی طرز زندگی سے ، جس طرح کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں، ان کو دیکھتے ہوئے ہمارے اِن موٹے اناج کی ڈیمانڈ بہت زیادہ بڑھ رہی ہے۔
میرے کسان بھائیوں-بہنوں،
آپ کو جان کر خوشی ہوگی بھارت کی کوششوں سے ہی اقوام متحدہ نے اگلے سال یعنی 2023ء کو انٹر نیشنل ایئر آف ملیٹس اعلان کیا ہے۔یہ موٹے اناج کی کھیتی کی ہماری روایت ، ہمارے اناج کو بین الاقوامی سطح پر شوکیش کرنے کا اور نئے بازار تلاش کرنے کا بہت بڑا موقع ہے،لیکن اس کے لئے بھی ابھی سے کام کرنا پڑے گا۔آج اِس موقع پر میں ملک کے تمام سماجی اور تعلیمی اداروں سے کہوں گا کہ موٹے اناج سے جڑے فوڈ فیسٹول لگائیں۔موٹے اناج سے نئی نئی کھانے کی قسمیں کیسے تیار ہوں، اِس کے مقابلے کا اہتمام کریں، کیونکہ 2023 ء میں اگر دنیا میں ہمیں اپنی بات لے کر جانا ہے، تو ہمیں اِن چیزوں میں نیا پن لانا پڑے گا اور لوگوں میں بھی بیداری بڑھائیں۔ موٹے اناج سے جڑی نئی ویب سائٹ بھی بنائی جاسکتی ہیں۔ لو گ آئیں، موٹے اناج سے کیا کیا بن سکتا ہے، کیا فائدہ ہوسکتا ہے، ایک بیداری مہم چل سکتی ہے۔میں مانتاہوں کہ اس فائدے کیا ہوتے ہیں۔ اس سے جڑے دلچسپ معلومات ہم اِس ویب سائٹ پر رکھ سکتے ہیں، تاکہ لوگ اُس کے ساتھ جڑیں۔ میں تو تمام ریاستوں سے بھی زور دے کر کہوں گا کہ زراعت سے متعلق آپ محکمہ ،آپ کی زرعی یونیورسیٹیاں، آپ کے سائنسداں اور ترقی پسند کسان ، ان میں سے کوئی ٹاسک فورس بنائیے اور 2023ء میں جب دنیا موٹے اناج کا سال منا رہی ہوگی، تب بھارت کو کیسے اُس میں تعاون کرے، بھارت کیسے قیادت کرے، بھارت کے کسان اس سے کیسے فائدہ اٹھائیں، ابھی سے اُس کی تیاری کرنی چاہئے۔
ساتھیوں،
سائنس اور ریسرچ کے حل سے اب موٹے اناج اور دیگر اناجوں کو مزید فروغ دیا جانا ضروری ہے۔مقصد یہ کہ ملک کے الگ الگ حصوں میں، الگ الگ ضرورتوں کے حساب سے اِنہیں اگایا جاسکے۔آج فصلوں کی جن قسموں کا لانچ ہوا ہے، اُن میں اِن کوششوں کی جھلک بھی ہمیں دکھائی دے رہی ہے۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس وقت ملک میں 150 سے زیادہ کلسٹر میں وہاں کے حالات کے مطابق زرعی تکنیکوں پر تجربہ چل رہا ہے۔
ساتھیوں،
کھیتی کی جو ہماری قدیم روایت ہے، اس کے ساتھ ساتھ مارچ ٹو فیوچر بھی اُتنا ہی ضروری ہے۔ فیوچر کی جب ہم بات کرتے ہیں تو اُس کی بنیاد میں جدید ٹیکنالوجی ہے، کھیتی کے نئے اوزار ہیں۔ جدید زرعی مشینوں اور آلات کو بڑھا وا دینے کی کوششوں کا نتیجہ آج دِکھائی دے رہا ہے۔ آنے والا وقت اسمارٹ مشینوں کا ہے، اسمارٹ آلات کا ہے۔ملک میں پہلی بار گاؤں کی جائیداد کے دستاویز تیار کرنے میں ڈرون کا رول ہم دیکھ رہے ہیں۔ اب کھیتی میں بھی جدید ڈرونز اور سینسرز کے استعمال کو بھی بڑھاوا دینا ہے۔اس سے کھیتی سے جڑا ہائی کوالٹی ڈیٹا ہمیں مل سکتا ہے۔ یہ کھیتی کی چنویتوں سے جڑے ریئل ٹائم حل تیار کرنے میں بھی مدد کرے گا۔حال ہی میں نافذ کی گئی نئی ڈرون پالیسیز میں مزید معاون ثابت ہونے والی ہے۔
ساتھیوں،
بیج سے لے کر بازار تک کا جو پورا ایکو سسٹم ہے، ملک جو تیا رکررہا ہے، اسے ہمیں مسلسل جدید بناتے رہنا ہے۔ اس میں آرٹیفیشل انٹلی جنس ، ڈاٹا اینالسٹکس اور بلاک چین ٹیکنالوجی، ڈیمانڈ اور سپلائی سے جڑے چیلنجز کو دور کرنے میں بہت مدد کرسکتی ہے۔ہمیں ایسی جدت طرازی ، ایسے اسٹارٹ اَپس کو بڑھاوا دینا ہے، جو اِن تکنیکوں کو گاؤں گاؤں تک پہنچاسکیں۔ ملک کا ہر کسان خاص طور سے چھوٹا کسان اِن نئے آلات ، نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کرے گاتو زرعی سیکٹر میں بڑی تبدیلیاں آئیں گی۔ کسانوں کو کم دام میں جدید ٹیکنالوجی مہیا کرانے والے اسٹارٹ اَپس کے لئے بھی بہتر موقع ہے۔ میں ملک کے نوجواں سے اس کا فائدہ اٹھانے پر زور دوں گا۔
ساتھیوں،
آزادی کے اس امرت کال میں ہمیں زراعت سے جڑی جدید سائنس کو گاؤں گاؤں ، گھر گھر تک پہنچانا ہے۔نئی قومی تعلیمی پالیسی میں اس کے لئے کچھ بڑے قدم اٹھائے گئے ہیں۔ ہمیں اب کوشش کرنی ہے کہ مڈل اسکول سطح تک زراعت سے جڑی تحقیق اور ٹیکنالوجی ہمارے اسکولی نصاب کا بھی حصہ بنے۔ اسکولوں کی سطح پر بھی ہمارے طلباء کے پاس یہ متبادل ہو، جو زراعت کو کیریر کی شکل میں چننے کے لئے خود کو تیار کرسکیں۔
ساتھیوں،
آج جو مہم ہم نے شروع کی ہے، اس کو عوامی تحریک میں بدلنے کے لئے ہم سب کو اپنی حصے داری کو یقینی بنانا ہے۔ ملک کو عدم تغذیہ سے پاک کرنے کےلئے جو مہم چل رہی ہے، راشٹریہ پوشن مشن کو بھی یہ مہم طاقتور بنائے گی۔ اب تو سرکار نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ سرکاری منصوبے کے تحت غریبوں کو ، اسکولوں میں بچوں کو ، فورٹیفائیڈ چاول ہی دیا جائے گا۔حال ہی میں ، میں نے اپنے اولمپک چمپئن سے عدم تغذیہ کو لے کر بیداری بڑھانے کے لئے ہر ایک کھلاڑی سے میں نے گزارش کی تھی کہ آپ کم سے کم آنے والے ایک دو سال میں کم از کم 75اسکولوں کا دورہ کریں، وہاں طلباء سے تغذیہ کے متعلق باتیں کریں۔ کھیل کود کے بارے میں باتیں کریں، ورزش کے بارے میں باتیں کریں۔ آج میں تمام تعلیمی ماہریں، تمام زرعی سائنسدانوں، تمام اداروں سے کہوں گا کہ آپ بھی آزادی کے امرت مہوتسو کے لئے اپنے اہداف طے کریں۔ 75 دن کی مہم کو اٹھالیں، 75 گاؤں کو گود لے کر کوئی تبدیلی کی مہم اٹھالیں، 75اسکولوں کو بیدار کرکے ہر ایک اسکول کو اسی کام میں لگادیں، ایسی ایک اہم اگر ملک کے ہر ضلع میں اپنی سطح پر بھی اور اداروں کی سطح پر بھی چلائی جاسکتی ہے۔ اس میں نئی فصلوں ، فورٹیفائیڈ بیجوں، موسمیاتی تبدیلی سے بچاؤ کے بارے میں کسانوں کو معلومات دی جاسکتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم سب کی کوشش، یہ سب کی کوشش بہت اہم ہیں۔ ہم سب کی کوشش موسم کی تبدیلی سے ملک کی زراعت کو بچائے گی، کسانوں کی خوشحالی اور ملک کی صحت کے تحفظ کو بھی یقینی بنائے گی۔ ایک بار پھر تمام کسان ساتھیوں کو، نئی فصلوں کے اقسام اور نئے قومی تحقیقاتی ادارے کے لئے میری طرف سے بہت بہت مبارکباد ۔جن یونیورسیٹیوں کو آج ایوارڈ ملا ، تاکہ سائنسی نظام ہی، سائنسی من ہی، سائنسی طریقہ ہی چنوتیوں سے آزادی پانے کا بہترین راستہ فراہم کرسکتا ہے، اُن سب کو میری طرف سے بہت بہت نیک خواہشات۔
بہت بہت شکریہ!