کرناٹک کے وزیر اعلیٰ جناب بسواراج بومئی جی، وزراء کی کونسل میں میرے ساتھی پرہلاد جوشی جی، پارلیمنٹ میں ہمارے سینئر ساتھی ڈاکٹر وریندر ہیگڑے جی، قابل پرستش سوامی نرملانند ناتھ سوامی جی، قابل پرستش شری شری شیوراتری دیشی کیندر سوامی جی، شری شری وشواپرسن تیرتھ سوامی جی، شری شری ننجاودھوتا سوامی جی، شری شری شیومورتی شیواچاریہ سوامی جی، مرکزی کابینہ میں میرے تمام ساتھی، ممبران پارلیمنٹ، بھائی سی ٹی روی جی، دہلی کرناٹک سنگھ کے تمام اراکین، خواتین و حضرات،
سب سے پہلے، میں آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں، مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آج، دہلی-کرناٹک سنگھ ایلادرو ایرو، اینتادارو ایرو، ایندیندیگو نی کنڑاواگیرو' ایسی شاندار وراثت کو آگے بڑھا رہی ہے۔ 'دہلی کرناٹک سنگھ' کے 75 سال مکمل ہونے کا یہ جشن ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ملک بھی آزادی کے 75 سال کا امرت مہوتسو منا رہا ہے۔ جب ہم 75 سال پہلے کے حالات کو دیکھتے ہیں اور ان کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اس کوشش میں ہندوستان کی لافانی روح نظر آتی ہے۔ دہلی-کرناٹک سنگھ کی تشکیل سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح آزادی کے اس پہلے مرحلے میں لوگ ملک کو مضبوط بنانے کے مشن میں متحد ہوگئے تھے۔ مجھے خوشی ہے کہ آزادی کے سنہری دور کے پہلے دور میں بھی ملک کی وہ توانائی اور لگن آج زندہ دکھائی دے رہی ہے۔ اس موقع پر میں ان تمام عظیم ہستیوں کو سلام کرتا ہوں جنہوں نے اس سنگھ کا خواب دیکھا اور اسے حقیقت میں بدل دیا۔ اور 75 سال کا سفر آسان نہیں ہے۔ بہت سے اتار چڑھاؤ آتے ہیں، بہت سے لوگوں کو ساتھ ساتھ چلنا پڑتا ہے۔ جنہوں نے 75 سال تک اس سنگھ کو چلایا، آگے بڑھایا اور فروغ دیا ، وہ سب مبارکباد کے مستحق ہیں۔ میں کرناٹک کے لوگوں کو قوم کی تعمیر میں ان کی کوششوں کے لیے بھی سلام کرتا ہوں۔
ساتھیوں،
ہندوستان کی شناخت ہو، ہندوستان کی روایات ہوں یا ہندوستان کی ترغیبات ہوں ، ہم کرناٹک کے بغیر ہندوستان کی تشریح نہیں کرسکتے۔ عہد قدیم نے ہندوستان میں کرناٹک کا کردارتو ہنومان کی رہی ہے۔ ہنومان کے بغیر نہ رام ہے نہ رامائن۔ دور کی تبدیلی کا کوئی مشن اگر ایودھیا سے شروع ہو کر رامیشورم تک جاتا ہے تو اسے کرناٹک میں ہی طاقت ملتی ہے۔
بھائیوں بہنوں،
یہاں تک کہ قرون وسطی میں بھی، جب حملہ آوروں نے ہندوستان کو تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور سومناتھ جیسے شیو لنگ کو توڑا جاتا ہے ، تو کرناٹک کے دیورا داسمایہ، مادارا چنئیایا، دوہر کاکیا، اور بھگوان بسویشورا جیسے سنتوں نے لوگوں کو اشٹلنگ سے جوڑ دیتے ہیں۔ جب بیرونی طاقتیں ملک پر حملہ آور ہوتی ہیں تو رانی ابکا، اوناکے اوبوا، رانی چنمما اور کرانتی ویرا سنگولی رائینا جیسے ہیرو ان کے سامنے دیوار کی طرح کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آزادی کے بعد بھی، 'کاشی ہندو وشوودیالیہ " کے پہلے وائس چانسلر مہاراجہ کرشن راجا اڈیر سے لے کر فیلڈ مارشل کے ایم کریپا اور بھارت رتن ایم ویشوریا تک، کرناٹک نے ہمیشہ ہندوستان کو متاثر کیا اور اپنی طرف متوجہ بھی کیا ہے۔ اور ابھی ہم قابل پرستش سوامی جی سے کاشی کے تجربات سن رہے تھے۔
ساتھیوں،
کنڑ کے لوگ ہمیشہ 'ایک بھارت، شریشٹھ بھارت' کے منتر کے ساتھ زندگی بسر کی ہے ۔ اس کی تحریک انہیں کرناٹک کی سرزمین سے ہی ملتی ہے۔ قومی شاعر کویمپو کی تخلیق ناڈا گیتے ابھی ہم سب نے اس کو سنا اور پوجیہ سوامی جی نے بھی اس کی وضاحت کی۔ کتنے شاندار الفاظ ہیں – جئے بھارت جنانیہ تنو جاتے، جئے ہے کرناٹک ماتے۔ انہوں نے کس قدر اپنائیت کے ساتھ کرناٹک ماں کی تعریف کی ہے، اسی میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ بھارت ماتا' کی تنوجاتے ہیں۔ اسی گیت میں پورے ہندوستان کی تہذیب کو بھی بیان کیا گیا ہے، اور کرناٹک کی اہمیت اور کردار کا بھی ذکر ہے۔ جب ہم اس گیت کی روح کو سمجھ لیتے ہیں تو ہم 'ایک بھارت شریشٹھ بھارت' کی روح کو بھی سمجھ لیتے ہیں۔
ساتھیوں،
آج، جب ہندوستان جی-20 جیسے بڑے عالمی گروپ کی صدارت کر رہا ہے، تو جمہوریت کی ماں کے طور پر ہمارے آئیڈیل ہماری رہنمائی کر رہے ہیں۔ 'انوبھو منٹپا' کے ذریعہ بھگوان بسویشور کے الفاظ، ان کی جمہوری تعلیمات، ہندوستان کے لیے روشنی کی طرح ہیں۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے لندن میں بھگوان بسویشورا کے مجسمے کے افتتاح کا، ہمارے اس فخر کی توسیع کا موقع ملا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے ان کے کلام کو مختلف زبانوں میں جاری کرنے کا موقع بھی ملا۔ یہ کامیابیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ کرناٹک کی فکری روایت بھی لازوال ہے، اس کا اثر بھی لافانی ہے۔
ساتھیوں،
کرناٹک روایات کی سرزمین کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کی بھی سرزمین ہے۔ یہاں تاریخی ثقافت کے ساتھ ساتھ جدید مصنوعی ذہانت بھی ہے۔ آج صبح ہی جرمن چانسلر سے میری ملاقات ہوئی اور مجھے خوشی ہے کہ ان کا پروگرام کل سے بنگلورو میں منعقد ہو رہا ہے۔ آج جی-20گروپ کی بھی ایک بڑی میٹنگ بنگلور میں ہو رہی ہے۔
ساتھیوں،
جب میں کسی بھی سربراہ مملکت سے ملتا ہوں تو میری کوشش ہوتی ہے کہ وہ قدیم اور جدید ہندوستان کی دونوں تصویریں دیکھیں ۔ روایت اور ٹیکنالوجی، یہی آج کے نئے ہندوستان کا مزاج بھی ہے۔ آج ملک ترقی اور وراثت، ترقی اور روایات کو ساتھ لے کر آگے بڑھ رہا ہے۔ آج، ایک طرف، ہندوستان اپنے قدیم مندروں اور ثقافتی مراکز کو زندہ کر رہا ہے، اور ساتھ ہی، ہم ڈیجیٹل ادائیگیوں میں بھی عالمی رہنما بن گئے ہیں۔ آج کا ہندوستان ہمارے صدیوں پرانے چوری کی گئی مجسموں اور نوادرات بیرون ملک سے واپس لا رہا ہے۔ اور، آج کا ہندوستان بیرون ملک سے ریکارڈ غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری بھی لا رہا ہے۔ یہی نئے ہندوستان کی ترقی کا راستہ ہے جو ہمیں ترقی یافتہ ہندوستان کے ہدف تک لے جائے گا۔
ساتھیوں،
آج کرناٹک کی ترقی ملک کے لیے اور حکومت کرناٹک کے لیے اولین ترجیح ہے۔ پہلے ایک وقت ایسا بھی تھا جب لوگ حکومت بنانے کے بعد کرناٹک سے پیسہ باہر لے جاتے تھے۔ لیکن، آج ملک کا پیسہ، ملک کے وسائل کرناٹک کی ترقی کے لیے ایمانداری سے لگائے جاتے ہیں۔ آپ دیکھئے 2009 سے 2014 کے درمیان ہر سال مرکز سے ریاست کرناٹک کو 11 ہزار کروڑ روپے سالانہ دیئے جاتے تھے۔ ہماری حکومت میں 2019 سے 2023 کے درمیان اب تک مرکز سے 30 ہزار کروڑ روپے بھیجے گئے ہیں۔ 2009 اور 2014 کے درمیان کرناٹک میں ریلوے پروجیکٹوں پر 4,000 کروڑ روپے سے بھی کم خرچ ہوئے اور ایک ریلوے وزیر کرناٹک کے ہی تھے ، 4,000 کروڑ روپے۔ یعنی پانچ سالوں میں 4 ہزار کروڑ روپے سے بھی کم۔ جبکہ ہماری حکومت نے اس بجٹ میں کرناٹک کے ریل انفراسٹرکچر کے لیے تقریباً 7 ہزار کروڑ روپے دیے ہیں، میں اس سال کی بات کر رہا ہوں۔ قومی شاہراہوں کے لیے بھی سابقہ حکومت کے پانچ سالوں کے دوران کرناٹک کو کل 6000 کروڑ روپے دیے گئے تھے۔ لیکن، ان 9 سالوں میں ہماری حکومت نے کرناٹک میں ہر سال 5 ہزار کروڑ کی سرمایہ کاری کی ہے۔ کہاں 5 سال میں 6 ہزار کروڑ، کہاں ہر سال 5 ہزار کروڑ!
ساتھیوں،
اپر بھدرا پروجیکٹ کا دیرینہ مطالبہ بھی ہماری حکومت پوری کر رہی ہے۔ اس سے وسطی کرناٹک کے بڑے قحط زدہ علاقوں بشمول تمکورو، چکمگلور، چتردرگا اور داونگیرے کو فائدہ پہنچے گا ، میرے کسانوں کا بھلا ہونے والا ہے۔ ترقی کی یہ نئی رفتار تیزی سے کرناٹک کی تصویر بدل رہی ہے۔ آپ میں سے جو لوگ دہلی میں رہ رہے ہیں، کافی عرصے سے آپ کے گاؤں نہیں آئے، جب آپ وہاں جائیں گے تو حیران ہونے کے ساتھ ساتھ فخر بھی کریں گے۔
ساتھیوں،
دہلی کرناٹک سنگھ کے 75 سال ہمارے لیے علم کی ترقی، کامیابی اور پھلنے پھولنے کے کئی اہم لمحات لائے ہیں۔ اب اگلے 25 سال اور بھی اہم ہیں۔ آپ امرت کال اور دہلی کرناٹک سنگھ کے اگلے 25 سالوں میں بہت سے اہم کام کر سکتے ہیں۔ جن دو چیزوں پر آپ توجہ مرکوز کر سکتے ہیں وہ ہیں – کلیکے متو کلے۔ یعنی علم اور فن۔ اگر ہم کلیکے کی بات کریں تو ہم جانتے ہیں کہ ہماری کنڑ زبان کتنی خوبصورت ہے، اس کا ادب کتنا بھرپور ہے۔ ساتھ ہی کنڑ زبان کی ایک اور خاصیت ہے۔ یہ وہ زبان ہے جس کے بولنے والوں میں پڑھنے کی عادت بہت مضبوط ہے۔ کنڑ زبان کے پڑھنے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ آج، جب کنڑ میں ایک اچھی نئی کتاب سامنے آتی ہے، تو ناشرین کو اسے چند ہفتوں کے اندر دوبارہ چھاپنا پڑتا ہے۔ دوسری زبانوں کو وہ نصیب نہیں ہے جو کرناٹک کو حاصل ہے۔
آپ میں سے جو لوگ دہلی میں رہتے ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ اپنی آبائی ریاست سے باہر رہنے والی نئی نسل کے لیے زبان کی مشکلات کتنی بڑھ جاتی ہیں۔ لہٰذا، چاہے وہ جگد گرو بسویشور کے الفاظ ہوں، یا ہری داس کے گیت، چاہے وہ کمار ویاس کی لکھی ہوئی مہابھارت کا نسخہ ہو، یا کویمپو کا لکھا ہوا رامائن درشنم، اس وسیع وراثت کو اگلی نسل تک پہنچانا بہت ضروری ہے۔میں نے سنا ہے کہ آپ لائبریری بھی چلاتے ہیں۔ آپ باقاعدگی سے اسٹڈی سرکل سیشن، ادب سے متعلق مباحث جیسے بہت سے پروگرام منعقد کرتے رہتے ہیں۔ اسےمزید موثر بنا سکتے ہیں۔ اس سے آپ دہلی کے کنڑیگا ؤ ں کے بچوں کو کنڑ میں پڑھنے کی عادت پیدا کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ اس طرح کی کوششوں سے کلیکے یا علم کا پھیلاؤ دہلی کے کنڑ لوگوں کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی متاثر کرے گا - کنڑا کالیری یعنی کنڑ سیکھنے اور کنڑ کالیسیری یعنی کنڑ سکھانے میں مدد ملے گی۔
ساتھیوں،
کلیکے کے ساتھ ساتھ کلےیعنی آرٹ کے میدان میں بھی کرناٹک نے غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ میں شکر گزار ہوں کہ اتنے کم وقت میں مجھے اس پروگرام میں پورے کرناٹک کی ثقافت کو دیکھنے کا موقع ملا۔ کرناٹک کلاسیکی آرٹ اور جنپد آرٹ دونوں میں امیر ہے۔ کنسالے سے لے کر موسیقی کے کرناٹک انداز تک، بھرتناٹیم سے لیکر یکشگانا تک، کرناٹک آرٹ کی ہر شکل ہمیں خوشی سے بھر دیتی ہے۔ دہلی کرناٹک سنگھ نے کئی سالوں میں اس طرح کے کئی پروگرام منعقد کیے ہیں۔ لیکن اب ان کوششوں کو اگلے درجے تک لے جانے کی ضرورت ہے۔ میری گزارش ہے کہ مستقبل میں جب بھی کوئی پروگرام ہو تو دہلی کے ہر کنڑ خاندان کو اپنے ساتھ کسی غیر کنڑ خاندان کو شامل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تاکہ وہ کرناٹک کی شان و شوکت کا مشاہدہ کر سکیں اور کرناٹک کے بھرپور فنون سے لطف اندوز ہو سکیں۔ کنڑ ثقافت کی عکاسی کرنے والی کچھ فلمیں غیر کنڑ لوگوں میں بھی بہت مقبول ہوئی ہیں۔ اس سے لوگوں میں کرناٹک کو جاننے اور سمجھنے کا تجسس بڑھ گیا ہے، ہمیں اس تجسس کو استعمال کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ، مجھے آپ سے ایک اور امید ہے۔ فنکار، کرناٹک کے روشن خیال لوگ جو یہاں آئے ہیں، آپ کو دہلی میں نیشنل وار میموریل، پی ایم میوزیم اور کرتو پتھ جیسی جگہوں پر ضرور جانا چاہیے، اس کے بعد ہی واپس جائیں ۔ آپ کو بہت کچھ دیکھنے کو ملے گا جو آپ کو فخر سے بھر دے گا۔ آپ محسوس کریں گے کہ یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ میں چاہوں گا کہ آپ یہاں اپنے تجربات کرناٹک کے لوگوں کے ساتھ شیئر کریں۔
ساتھیوں،
اس وقت دنیا ہندوستان کی پہل پر 'جوار کا بین الاقوامی سال' منا رہی ہے۔ کرناٹک ہندوستانی جواروں سری دھنیا کا اہم مرکز رہا ہے یعنی ۔ آپ کی شری ان-راگی کرناٹک کی ثقافت کا بھی ایک حصہ ہے اور آپ کی سماجی شناخت بھی۔ ہمارے یدی یورپا جی کے زمانے سے کرناٹک میں 'سری دھنیا' کے فروغ کے لیے پروگرام بھی شروع کیے گئے تھے۔ آج پورا ملک کنڑیگا ؤ ں کے راستے پر چل رہا ہے، اور موٹے اناج کو شری ان کہنا شروع کر دیا ہے۔ آج جب پوری دنیا شری ان کے فوائد اور اس کی ضرورت کو سمجھ رہی ہے تو آنے والے وقتوں میں اس کی مانگ بھی بڑھنے والی ہے۔ اس سے کرناٹک کے عوام، کرناٹک کے چھوٹے کسانوں کو بہت فائدہ ہونے والا ہے۔
ساتھیوں،
2047 میں، جب ہندوستان ایک ترقی یافتہ ملک کے طور پر اپنی آزادی کے 100 سال مکمل کرے گا، دہلی-کرناٹک سنگھ بھی اپنے سوویں سال میں داخل ہو جائے گا۔ پھر ہندوستان کی لافانی عظمت میں آپ کے تعاون پر بھی بات کی جائے گی۔ میں ایک بار پھر اس عظیم الشان تقریب کے لیے آپ سب کو بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں اور 75 سال کے اس سفر کے لیے، میں ان قابل احترام سنتوں کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ان سنتوں نے ہمارے درمیان آکر ہم سب کو برکت دی، ہم سب کو متاثر کیا۔ میں فخر محسوس کر رہا ہوں کہ مجھے قابل پرستش سنتوں کاآشیرباد حاصل کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ میں ایک بار پھر آپ سب کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میرے ساتھ بولیں بھارت ماتا کی – جئے، بھارت ماتا کی – جئے، بھارت ماتا کی – جئے!