جے سوامی نارائن!
اس مقدس پروگرام کو سمت دے رہے قابل پرستش شری دیوکرشن داس جی سوامی، مہنت شری دیوپرساد داس جی سوامی،قابل پرستش دھرم ولبھ سوامی جی، پروگرام میں موجود تمام معزز سنتوں اور دیگر عظیم شخصیت اور میرے پیارے نوجوان ساتھیوں!
آپ سب کو جے سوامی نارائن
قابل پرستش شاستری جی مہاراج شری دھرم جیون داس جی سوامی کی تحریک سے، ان کے آشیرواد سے، راجکوٹ گروکل 75 سال مکمل کر رہا ہے۔ میں آپ سب کو راجکوٹ گروکل کے 75 سال کے اس سفر کے لیے دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دیتا ہوں۔بھگوان شری سوامی نارائن، ان کے نام کو یاد کرنے سے ہی ایک نیا شعورپیدا ہوتا ہے اور آج آپ تمام سنتوں کی صحبت میں سوامی نارائن کا نام یاد کرنا خوش قسمتی کا موقع ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس تاریخی ادارے کا آنے والا مستقبل اور بھی کامیاب ہوگا۔ اس کی خدمات اور بھی حیرت انگیز ہوگی۔
ساتھیوں،
شری سوامی نارائن گروکل راجکوٹ کے سفر کے 75 سال ایسے وقت میں مکمل ہو رہا ہے جب ملک اپنی آزادی کے 75 سال کا جشن منا رہا ہے۔ یہ صرف ایک خوش کن اتفاق نہیں ہے، یہ ایک خوش کن موقع بھی ہے۔ بحیثیت قوم آزاد ہندوستان کی زندگی کا سفر ایسے ہی مواقع کی وجہ سے ہے اور ہماری ہزاروں سال کی عظیم روایت بھی ایسے ہی مواقع کی وجہ سے آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ نیک مواقع ہیں، محنت اور فرض کے لیے نیک مواقع! یہ یہ خوش کن مواقع ہیں، ثقافت اور لگن کے خوش کن مواقع! یہ خوش کن مواقع ہیں ، روحانیت اور جدیدیت کا موقع! جب ملک آزاد ہوا تو ہماری یہ ذمہ داری تھی کہ ہم تعلیم کے میدان میں ہندوستان کی قدیم شان و شوکت اور اپنے فخر کو زندہ کریں۔ لیکن غلامی کی ذہنیت کے دباؤ میں حکومتیں اس سمت میں نہیں بڑھیں۔ اور کچھ معاملات میں تو الٹے پاؤں چلیں۔ اور ان حالات میں ایک بار پھر ہمارے سنتوں، آچاریوں نے ملک کے تئیں اس فرض کو نبھانے کی بڑی پہل کی۔ سوامی نارائن گروکل اسی موقع کی زندہ مثال ہے۔ آزادی کے فوراً بعد ہندوستانی اقدار اور نظریات کی بنیاد پر اس تحریک کو ، اس ادارہ کو تعمیر کیا گیا۔ راجکوٹ گروکل کے لیےقابل پرستش دھرم جیون داس جی کا جو وژن تھا، اس میں روحانیت اور جدیدیت سے لے کر ثقافت اور رسومات تک سب کچھ شامل تھا۔ آج اس خیال کا بیج بڑے برگد کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ میں گجرات میں آپ سب کے درمیان ہی رہا ہوں، آپ کے درمیان پلا بڑھا ہوں۔ اور یہ میری خوش قسمتی رہی ہے کہ مجھے اس برگد کے درخت کو اپنی نظروں سے شکل اختیار کرتے دیکھنے کا موقع ملا۔
بھگوان سوامی نارائن کی ترغیب اس گروکل کی بنیاد میں رہی ہے - "پرورتنیا سد ودیا بھووی یت سوکریتم مہات"! یعنی در ست تعلیم کی نشر و اشاعت دنیا کا سب سے مقدس اور اہم ترین کام ہے۔ یہی تو علم اور تعلیم کے تئیں ہندوستان کی وہ لازوال لگن ہے جس نے ہماری تہذیب کی بنیاد رکھی ہے۔ اس کا اثر ہے کہ گروکل ودیا پرتشٹھانم جو کبھی راجکوٹ میں صرف 7 طلبہ سے شروع ہوا تھا، آج اس کی ملک اور بیرون ملک تقریباً 40 شاخیں ہیں۔ یہاں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں طلباء آتے ہیں۔ گزشتہ 75 برسوں میں گروکل نے طلبہ کے ذہنوں اور دلوں کو اچھےافکار اور اقدارسےآبیاری کی ہےتاکہ ان کی مجموعی ترقی ہو سکے۔ روحانیت کے میدان میں وقف نوجوانوں سے لے کر اسرو اور بی اے آر سی کے سائنسدانوں تک، گروکل روایت نے ہر شعبے میں ملک کی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا ہے۔ اور ہم سب گروکل کی ایک خاصیت جانتے ہیں اور آج کے دور میں یہ سب کو متاثر کرتا ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس مشکل وقت میں بھی اور آج بھی یہ گروکل ایک ایسا ادارہ ہے جو ہر غریب طالب علم سے تعلیم کے لیے روزانہ صرف ایک روپیہ وصول کرتا ہے۔ اس سے غریب طلبہ کے لیے تعلیم حاصل کرنے کا راستہ آسان ہو رہا ہے۔
ساتھیوں،
آپ سب جانتے ہیں کہ ہندوستان میں زندگی کا سب سے بڑا مقصد علم رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس دور میں دنیا کے دوسرے ممالک کی شناخت وہاں کی ریاستوں اور راج کولوں سے ہوتی تھی ، اس وقت ہندوستان کو ، بھارت بھومی کے گروکلوں سے جانا جاتا تھا۔ گروکل کا مطلب ہے، گرو کا خاندان، علم کا خاندان! ہمارے گروکل صدیوں سے مساوات، محبت، یکسانیت اور جذبہ خدمت کے باغ کی طرح رہے ہیں۔ نالندہ اور تکشیلا جیسی یونیورسٹیاں ہندوستان کی اس گروکل روایت کی عالمی شان کے مترادف ہوا کرتی تھیں۔ دریافت اور تحقیق ہندوستان کے طرز زندگی کا حصہ تھے۔ آج ہم ہندوستان کے ہرذرے میں جو تنوع دیکھتے ہیں، جو ثقافتی فراوانی ہم دیکھتے ہیں، یہ انہی تحقیقات اور دریافتوں کے نتائج ہیں۔ آتم تتو سے پرماتما تتو تک، روحانیت سے آیوروید تک، سماجی سائنس سے شمسی سائنس تک، ریاضی سے دھات کاری تک، اور صفر سے انفینٹی تک، ہم نے ہر شعبے میں تحقیق کی، نئے نتائج حاصل کئے۔ ہندوستان نے ان تاریک دور میں انسانیت کو روشنی کی وہ کرنیں دیں جہاں سے جدید دنیا اور جدید سائنس کا سفر شروع ہوا۔ اور ان کامیابیوں کے درمیان، ہمارے گروکلوں کی ایک اور طاقت نے دنیا کے لیے راہ ہموار کی۔ جس دور میں دنیا میں صنفی مساوات جیسے الفاظ نے جنم بھی نہیں لیا تھا، ہمارے یہاں گارگی-میتری جیسی دانشور بحث و مباحثہ کیا کرتی تھیں۔ مہارشی والمیکی کے آشرم میں لو- کش کے ساتھ ساتھ آتریی بھی پڑھ رہی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ سوامی نارائن گروکل اس قدیم روایت کو جدید ہندوستان تک لے جانے کے لیے 'کنیا گروکل' کی شروعات کر رہا ہے۔ 75 سالوں کے امرت مہوتسو میں، آزادی کے امرت دور میں، یہ اس ادارے کی ایک شاندار حصولیابی کامیابی ہو گی، اور ملک کے لیے ایک اہم شراکت بھی ہو گی۔
ساتھیوں،
آپ سب بخوبی جانتے ہیں کہ ہندوستان کے روشن مستقبل میں ہمارے آج کے تعلیمی نظام اور تعلیمی اداروں کا بڑا رول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے اس سنہری دور میں ہم ہر سطح پر زیادہ تیزی اور تفصیل کے ساتھ کام کر رہے ہیں، خواہ وہ تعلیمی بنیادی ڈھانچہ ہو یا تعلیمی پالیسی۔ آج ملک میں آئی آئی ٹی، ٹرپل آئی ٹی، آئی آئی ایم، ایمس جیسے بڑے تعلیمی اداروں کی تعداد میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔ 2014 سے اب تک میڈیکل کالجوں کی تعداد میں 65 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ نئی ’قومی تعلیمی پالیسی‘ کے ذریعہ پہلی بار ملک میں ایک ایسا تعلیمی نظام تیار کیا جا رہا ہے جو مستقبل کے حوالے سے نظر آتا ہے۔ جب نئی نسل بچپن سے ہی بہتر تعلیمی نظام میں پروان چڑھے گی تو ملک کے لیے مثالی شہری پیدا ہونے کا عمل خود بخود آگے بڑھے گا۔ یہ مثالی شہری، مثالی نوجوان ترقی یافتہ ہندوستان کے خواب کو 2047 میں پورا کریں گے، جب ملک آزادی کے 100 سال کا جشن منائے گا۔ اور یقینی طور پر اس میں شری سوامی نارائن گروکل جیسے تعلیمی اداروں کی کوششیں بہت اہم ہوں گی۔
ساتھیوں،
امرت کال کے اگلے 25 سالوں کے سفر میں آپ سنتوں کا آشیرواد اور آپ سب کی صحبت بہت اہم ہے۔ آج ہندوستان اور ہندوستان کی قراردادیں بھی نئی ہیں، ان قراردادوں کو پورا کرنے کی کوششیں بھی نئی ہیں۔ آج ملک ڈیجیٹل انڈیا، خود کفیل ہندوستان، مقامی لوگوں کے لیے آواز، ہر ضلع میں 75 امرت جھیلوں کی تعمیر، ایک بھارت شریشٹھ بھارت کے وژن کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ سماجی تبدیلی اور سماجی اصلاح کے ان کاموں میں ہر ایک کی کوشش کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کرے گی۔ مجھے یقین ہے کہ سوامی نارائن گروکل ودیا پرتشٹھانم جیسے ادارے اس سنکلپ یاترا کو اسی طرح توانائی دیتے رہیں گے۔ اور آج جب میں آپ سب سنتوں کے درمیان آیا ہوں تو 75 سال کا ایک بہت بڑا سفر ہے جسے آپ نے کامیابی سے آگے بڑھایا ہے۔ اب اسے ملک کے نوجوانوں کے فائدے کے لیے بڑھایا جانا چاہیے۔ کیا میں آج سوامی نارائن گروکلوں میں آج میں دعا کر سکتا ہوں۔ ہمارا جو شمال مشرق ہے ، آپ طے کریں کہ ہر سال کم از کم 100 نوجوان 15 دن کے لیے ناگالینڈ، میزورم، اروناچل پردیش، تریپورہ، سکم کے لیے شمال مشرق جائیں گے۔ وہاں 15 دن جانا، وہاں کے نوجوانوں سے ملنا، ان سے واقفیت، وہاں کی چیزوں کو جاننا، آکر ان کے بارے میں لکھنا، ہر سال کم از کم 150 نوجوانوں کو 15 دن کے لیے وہاں جانا چاہیے۔ آپ دیکھیں گے کہ 75 سال پہلے ہمارے سنتوں نے کتنی مشکلات سے یہ سفر شروع کیا ہو گا، آپ دیکھیں گے کہ ہمارے شمال مشرق میں کتنے ہونہار نوجوان ہیں۔ اگر ہم ان سے رشتہ استوار کر لیں تو ملک میں ایک نئی قوت کا اضافہ ہو گا، آپ کوشش کریں۔
اسی طرح مجھے یاد ہے ہماری سنت برادری میں جب ہم بیٹی بچاؤ مہم چلا رہے تھے تو چھوٹی چھوٹی بچیاں اسٹیج پر آتی تھیں اور 7 منٹ، 8 منٹ، 10 منٹ تک بڑی دلکش اور زبردست اداکاری کے ساتھ تقریر کرتی تھیں۔ پورے سامعین رلا دیتی تھیں۔ اور وہ کہتی تھیں رحم مادر سے وہ بولتی تھیں کہ ماں مجھے مت مارو۔ رحم مادر میں لڑکیوں کے قتل کے خلاف تحریک کی قیادت گجرات میں ہماری بیٹیوں نے کی تھی۔ کیا ہمارے گروکل کےطلباء دھرتی ماں کے روپ میں لوگوں سے مخاطب ہوں کہ میں تمہاری ماں ہوں۔ میں تمہارے لیے کھانا، پھل، پھول سب پیدا کرتی ہوں۔ مجھے مت مارو، یہ کیمیاوی کھاد، کیمیاوی اشیاء، یہ دوائیں، مجھے اس نجات دلاؤ ۔ اور قدرتی کھیتی کی طرف راغب کرنے کے لیےکسانوں کے درمیان ، میرے گروکل کے طلباء کو اس طرح اسٹریٹ ڈرامے، شہری ڈرامے کرنا چاہیے۔ ہمارا گروکل ایک بڑی مہم چلا سکتا ہے۔ اور مجھے خوشی ہے کہ ہمارے گجرات کے گورنر جناب آچاریہ دیوورت جی کی قیادت میں قدرتی کھیتی کی ایک بہت بڑی مہم شروع کی گئی ہے۔ جس طرح آپ انسانوں کو نشے سے نجات دلانے کی مہم چلا رہے ہیں، اسی طرح آپ کسانوں کو اس قسم کے زہر سے دھرتی ماں کو آزاد کرنے کا عہد لینے کے لیے ترغیب دینے کا کام بھی کر سکتے ہیں۔ کیونکہ جو لوگ گروکل میں آتے ہیں وہ اصل گاؤں سے، کسانوں کے خاندان سے آتے ہیں۔ ان کے ذریعہ معاملہ بہت آسانی سے پہنچ سکتا ہے۔ لہذا، آزادی کے اس امرت کال میں، ہمارے گروکل، ہمارے مہذب تعلیم یافتہ نوجوان روشن مستقبل کے لیے، ماحول کی حفاظت کے لیے، ایک بھارت شریشٹھہ بھارت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے بہت سے نئے خیالات، آئیڈیل اور قراردادوں کو لے کر چل سکتے ہیں۔ اور مجھے امید ہے کہ سوامی نارائن روایت میں یہ میرے لیے بڑی خوش قسمتی رہی ہے کہ جب بھی میں سوامی نارائن روایت میں آپ سے ملا ہوں، آپ سب نے جو کچھ بھی مانگا ہے اسے پورا کیا ہے۔ آج جب میں یہ چیزیں مانگ رہا ہوں تو مجھے یقین ہے کہ آپ بھی ان کو پورا کریں گے۔ اور گجرات کا نام تو یقیناً روشن ہو گا، آنے والی نسلوں کی زندگی آسان ہو گی۔ ایک بار پھر آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔
جے سوامی نارائن!