جئےگرو روی داس۔
اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی،پورے ہندوستان سے یہاں آئے قابل احترام سنتوں، عقیدت مندوں اور میرے بھائیو اور بہنوں،
میں آپ سبھی کا گرو روی داس جی کے یوم پیدائش کے موقع پر ان کی جائے پیدائش پر خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ سبھی روی داس جی کے یوم پیدائش کے موقع پر بہت دور دور سے یہاں آتے ہیں۔ خاص طور پر میرے پنجاب سےاتنے بھائی بہن آتے ہیں کہ بنارس خود بھی’منی پنجاب‘جیسا لگنے لگتا ہے ۔ یہ سب سنت روی داس جی کی مہربانی سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ مجھے بھی روی داس جی بار بار اپنی جائے پیدائش پر بلاتے ہیں۔ مجھے ان کے عزائم کو آگے بڑھانے کا موقع ملتا ہے، ان کے لاکھوں پیروکاروں کی خدمت کا موقع ملتا ہے۔گرو کی جائے پیدائش پر ان کے تمام پیروکاروں کی خدمت کرنا میرے لیے کسی خوش بختی سے کم نہیں ہے۔
اور بھائیو اور بہنوں،
یہاں کارکن پالیمنٹ ہونے کے ناطے اور کاشی کا عوامی نمائندہ ہونے کے ناطے میری بھی ایک خاص ذمہ داری بنتی ہے۔میں بنارس میں آپ سب کا استقبال بھی کروں اور آپ سب کی سہولتوں کا خاص خیال بھی رکھوں، یہ میرا فرض ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج کے اس مبارک دن پر مجھے یہ ذمہ داریاں نبھانے کا موقع ملا ہے۔ آج بنارس کی ترقی کے لیے سینکڑوں کروڑ روپے کے ترقیاتی پروجیکٹوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد ہونے جا رہا ہے۔ اس سے یہاں آنے والے عقیدت مندوں کا سفر مزید خوشگوار اور آسان ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ سنت روی داس جی کی جائے پیدائش کی ترقی کے لیے کئی کروڑ روپے کی اسکیمیں بھی شروع کی گئی ہیں۔ مندر اور مندر کے علاقے کی ترقی، مندر کی طرف جانے والی سڑکوں کی تعمیر، انٹر لاکنگ اور ڈرینیج کا کام، عقیدت مندوں کے لیے ستسنگ اور سادھنا کرنے، پرساد حاصل کرنے کے لیے مختلف طرح کے انتظامات کرنا، ان سب سے آپ لاکھوں عقیدت مندوں کو سہولت ہوگی۔ ماگھی پورنیما کی یاترا کے دوران عقیدت مندوں کو نہ صرف روحانی خوشی ملے گی، بلکہ بہت سی پریشانیوں سے بھی نجات ملے گی۔ آج مجھے سنت روی داس جی کی نئی مورتی کا افتتاح کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی ہے۔ سنت روی داس میوزیم کا بھی آج سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ میں آپ سبھی کے تئیں ان ترقیاتی کاموں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ میں ملک اور دنیا بھر کے تمام عقیدت مندوں کو سنت روی داس جی کے یوم پیدائش اور ماگھی پورنیما پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ساتھیوں،
آج عظیم سنت اور سماجی مصلح گاڈگے بابا کا یوم پیدائش بھی ہے۔ سنت روی داس کی طرح گاڈگے بابا نے بھی سماج کو دقیانوسی تصورات سے آزاد کرنے اور دلتوں اور محروموں کی فلاح و بہبود کے لیے بہت کام کیا تھا۔ خودبابا صاحب امبیڈکر ان کے بڑے مداح تھے۔ گاڈگے بابا بھی بابا صاحب سے بہت متاثر تھے۔ آج اس موقع پر میں بھی گاڈگے بابا کے قدموں میں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
ساتھیوں،
اسٹیج پر آنے سے پہلے میں سنت روی داس جی کی مورتی پر گلہائے عقیدت نذر کرنے ، انہیں خراج عقیدت پیش کرنے بھی گیا تھا۔ اس دوران میرا ذہن جس قدر عقیدت سے بھرا ہوا تھا، میں اندر بھی اتنا ہی شکر گزاری محسوس کر رہا تھا۔ برسوں پہلے جب میں نہ سیاست میں تھا اور نہ ہی کسی عہدے پر تھا، تب بھی میں سنت روی داس جی کی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کرتا تھا۔ میرے ذہن میں یہ احساس تھا کہ مجھے روی داس جی کی خدمت کا موقع ملے اور آج صرف کاشی میں ہی نہیں، ملک کے دیگر مقامات پر بھی سنت روی داس جی سے متعلق عزائم کی تکمیل کی جارہی ہیں۔ روی داس جی کی تعلیمات کی نشرو اشاعات کے لیے نئے مراکز بھی قائم کیے جا رہے ہیں۔ ابھی چند مہینے پہلے، مجھے مدھیہ پردیش کے ستنا میں سنت روی داس میموریل اور آرٹ میوزیم کا سنگ بنیاد رکھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ کاشی میں تو ترقی کی پوری گنگا ہی بہہ رہی ہے۔
ساتھیوں،
ہندوستان کی ایک تاریخ ہے، جب بھی ملک کو ضرورت ہوئی ہے، کوئی نہ کوئی سنت، رشی، عظیم شخصیت پیدا ہوئی ہے۔ روی داس جی بھکتی تحریک کے ایک عظیم سنت تھے، جس نے کمزور اور منقسم ہندوستان کو نئی توانائی بخشی۔ روی داس جی نے سماج کو آزادی کی اہمیت بھی بتائی اور سماجی تقسیم کو ختم کرنے کا کام بھی کیا۔ اس وقت انہوں نے اونچ نیچ ،چھواچھوت ، بھید بھاؤ، اس سب کے خلاف انہوں اس دور میں آواز اٹھائی تھی۔ سنت روی داس ایک ایسے سنت ہیں، جنہیں مت، مذہب، پنتھ، نظریے کی حدود میں محدود نہیں کیا جا سکتا۔ روی داس جی سب کے ہیں اور سب روی داس جی کے ہیں۔ جگد گرو رامانند کے شاگرد ہونے کے ناطے ویشنو برادری بھی انہیں اپنا گرو مانتی ہے۔ سکھ بھائی اور بہنیں انہیں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ کاشی میں رہتے ہوئے انہوں نے ’من چنگا تو کٹھوتی میں گنگا‘کی تعلیم دی تھی۔ اس لیے جو لوگ کاشی میں یقین رکھتے ہیں اور ماں گنگا میں یقین رکھتے ہیں وہ بھی روی داس جی سے تحریک لیتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ آج ہماری حکومت روی داس جی کے خیالات کو آگے بڑھا رہی ہے۔ بی جے پی کی حکومت سب کی ہے۔ بی جے پی حکومت کی اسکیمیں سب کے لیے ہیں۔ ’سب کا ساتھ، سب کا وِکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس ‘یہ منتر آج 140 کروڑ ہم وطنوں سے جڑنے کا منتر بن گیا ہے۔
ساتھیوں،
روی داس جی نے برابری اور ہم آہنگی کا درس بھی دیا اور ہمیشہ دلتوں اور محروموں کی خاص طور پر فکربھی کی۔ برابری، محروم سماج کو ترجیح دینے سے ہی آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ، جو طبقہ ترقی کے مرکزی دھارے سے جتنا زیادہ دور رہ گئے، گزشتہ 10 برسوں میں انہیں ہی مرکز میں رکھ کر کام ہوا ہے۔ پہلے جس غریب کو سب سے آخری سمجھا جاتا تھا، سب سے چھوٹا کہا جاتا تھا، آج سب سے بڑی اسکیمیں اسی کے لیے بنی ہے۔ ان اسکیموں کو آج دنیا کی سب سے بڑی سرکاری اسکیمیں کہا جارہا ہے۔ آپ دیکھئے کورونا کی اتنی بڑی مشکل آئی، ہم نے 80 کروڑ غریبوں کو مفت راشن فراہم کرنے کی اسکیم شروع کی۔ کورونا کے بعد بھی ہم نے مفت راشن دینا بند نہیں کیا، کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ جو غریب اپنے پیروں پر کھڑا ہوا ہے وہ طویل مسافت طے کرے۔ اس پر اضافی بوجھ نہ آئے، ایسی اسکیم اتنے بڑے پیمانے پر دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں ہے۔ ہم نے سوچھ بھارت مہم چلایا ۔ ملک کے ہر گاؤں میں ہر خاندان کے لیے مفت بیت الخلاء بنایا۔ اس کا فائدہ سب سے زیادہ دلت، پسماندہ خاندانوں، خاص طور پر ہماری ایس سی، ایس ٹی، او بی سی ماؤں اور بہنوں کو ہی ہوا۔ انہیں ہی سب سے زیادہ کھلے میں رفع حاجت کے لیے جانا پڑتا تھا، پریشانیاں اٹھانی پڑتی تھیں۔ آج ملک کےگاؤں گاؤں تک صاف پانی پہنچانے کے لیے جل جیون مشن چل رہا ہے۔ 5 سال سے بھی کم عرصے میں11 کروڑ سے زیادہ گھروں کو پائپ سے پانی فراہم کیا جا چکا ہے۔ کروڑوں غریبوں کو مفت علاج کے لیے آیوشمان کارڈ ملا ہے۔انہیں پہلی بار یہ حوصلہ ملا ہے کہ بیماری آئے تو بھی علاج نہ ہونے کی وجہ سے اس کی زندگی ختم نہیں ہوگی۔ اسی طرح جن دھن کھاتوں کے ذریعے غریبوں کو بینک جانے کا حق ملا ہے۔ حکومت ان ہی بینک کھاتوں میں براہ راست رقم بھیجتی ہے۔ کسان سمان ندھی انہی کھاتوں میں کسانوں کو دی جاتی ہے، جس میں سے تقریباًڈیڑھ کروڑ مستفیدین ہمارے دلت کسان ہیں۔ فصل انشورنس اسکیم کا فائدہ اٹھانے والے کسانوں میں بڑی تعداد دلت اور پسماندہ کسانوں کی ہے۔ نوجوانوں کے لیے بھی،2014 سے پہلے جتنی اسکالر شپ ملتی تھی، آج ہم اس سے دوگنی اسکالر شپ دلت نوجوانوں کو دے رہے ہیں۔ اسی طرح23-2022 میں پی ایم آواس یوجنا کے تحت دلت خاندانوں کے کھاتوں میں ہزاروں کروڑ روپے بھیجے گئے، تاکہ ان کا بھی اپنا پکا گھر ہو۔
بھائیوں اور بہنوں،
ہندوستان اتنے بڑے بڑے کام اس لیے کر پارہا ہے، کیونکہ آج دلتوں، محروموں، پسماندوں اور غریبوں کے لیے حکومت کی نیت صاف ہے۔ ہندوستان یہ کام اس لیے کر پارہا ہے ، کیونکہ آپ کا ساتھ اور آپ کا وشواس ہمارے ساتھ ہے۔سنتوں کی وانی ہر دور میں ہمیں راستہ دکھاتی ہیں اور خبردار بھی کرتی ہیں۔
روی داس جی کہتے تھے-
جات پات کے پھیر مہی ، اُرجھی رہئی سب لوگ
مانُشتا کوں کھات ہئی، ریداس جات کر روگ
یعنی اکثر لوگ ذات پات کی تفریق میں الجھتے رہتے ہیں، الجھاتے رہتے ہیں۔ ذات پات کی یہی بیماری انسانیت کو نقصان پہنچاتی ہے۔ یعنی جب کوئی ذات پات کے نام پر جب کوئی کسی کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے تو اس سے انسانیت کو نقصان پہنچتا ہے۔ اگر کوئی ذات پات کے نام پر کسی کو اُکساتا ہے تو اس سے انسانیت کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
اس لیے بھائیوں اور بہنوں،
آج ملک کے ہر دلت اور ہر پسماندہ فرد کو ایک اور بات ذہن میں رکھنی ہوگی۔ ہمارے ملک میں ذاتی کے نام پر اکسانے اور انہیں لڑانے میں بھروسہ رکھنے والے، اِنڈی اتحاد کے لوگ ، دلتوں اور محروموں کو فائدہ پہنچانے والی اسکیموں کی مخالفت کرتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ یہ لوگ ذات پات کی فلاح کے نام پر اپنے خاندان کی خود غرضی کی سیاست کرتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب غریبوں کے لیے بیت الخلاء کی تعمیر شروع ہوئی تو ان لوگوں نے اس کا مذاق اڑایا۔ انہوں نے جن دھن کھاتوں کا مذاق اڑایا۔ انہوں نے ڈیجیٹل انڈیا کی مخالفت کی تھی۔ یہی نہیں خاندانی پارٹیوں کی ایک اور پہچان ہے۔یہ اپنے خاندان سے باہر کسی دلت یا قبائلی کو آگے بڑھنے نہیں دینا چاہتے ہیں۔ دلتوں اور قبائلیوں کا اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونا انہیں برداشت نہیں ہوتا۔ آپ کو یاد ہوگا، جب محترمہ دروپدی مرمو جی ملک کی پہلی قبائلی خاتون صدر بننے کے لیے الیکشن لڑ رہی تھیں، تو کن کن لوگوں نے ان کی مخالفت کی تھیں؟ انہیں شکست دینے کے لیے کن کن پارٹیوں نے سیاسی گول بندی کی تھی؟یہ سب کی سب یہی خاندانی پارٹیاں ہی تھیں، جنہیں انتخابات کے وقت دلت، پسماندہ ، آدی واسی اپنا ووٹ بینک نظر آنے لگتے ہیں ۔ہمیں ان لوگوں کی اس طرح کی سوچ سے ہوشیار رہنا ہے ۔ ہمیں ذات پات کی منفی ذہنیت سے بچ کر روی داس جی کی مثبت تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا۔
ساتھیوں،
روی داس جی کہتے تھے۔
سو برس لوں جگت منہی جیوت رہی کرو کام
ریداس کرم ہی دھرم ہے کرم کرہو نہکام
یعنی اگر ہم سو سال بھی زندہ رہیں تو ہمیں زندگی بھر کام کرنا چاہیے، کیونکہ کرم ہی دھرم ہے۔ ہمیں بے لوث کام کرنا چاہیے۔ سنت روی داس جی کی یہ تعلیم آج پورے ملک کے لیے ہے۔ ملک اس وقت آزادی کے امرت کال میں داخل ہو چکا ہے۔ گزشتہ برسوں میں امرت کال میں ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر کی مضبوط بنیاد رکھی جاچکی ہے۔ اب اگلے 5 سالوں میں ہمیں اس بنیاد پر ترقی کی عمارت کو مزید اونچائی دینی ہے۔ غریبوں اور محروموں کی خدمت کے لیے جو مہم 10 برسوں میں چلی ہے، آئندہ 5 سالوں میں انہیں اور بھی زیادہ وسعت دی جانی ہے ۔ یہ سب 140 کروڑ ہم وطنوں کی شراکت داری سےہی ہوگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ملک کا ہر شہری اپنی ذمہ داریاں ادا کرے۔ ہمیں ملک کے بارے میں سوچنا ہے۔ ہمیں توڑنے والے، بانٹنے والے خیالات سے دور رہ کر ملک کے اتحاد کو مضبوط کرنا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سنت روی داس جی کی مہربانی سے ہم وطنوں کے خواب ضرور پورے ہوں گے۔ آپ سبھی کو ایک بار پھر سنت روی داس جینتی کی میں بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔
بہت بہت شکریہ!