اتر پردیش کی گورنر آنندی بین پٹیل، فعال وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی، کابینہ کے میرے ساتھی، ملک کے وزیر دفاع جناب راجناتھ سنگھ جی، یوپی کے نائب وزیر اعلیٰ، قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر، دیگر معززین، ملک اور بیرون ملک سے آئے صنعتی شعبے کے نمائندے اورپریوار جنوں۔
آج ہم یہاں ایک ترقی یافتہ ہندوستان کے لیے ایک ترقی یافتہ اتر پردیش کی تعمیر کے عہدکے ساتھ یکجا ہوئے ہیں۔ اور مجھے بتایا گیا کہ اس وقت ٹیکنالوجی کے ذریعے یوپی کی 400 سے زیادہ اسمبلی سیٹوں پر لاکھوں لوگ اس پروگرام سے جڑے ہوئے ہیں۔ میں اپنے تمام فیملی ممبرز کو تہہ دل سے خوش آمدید کہتا ہوں جو ٹیکنالوجی کے ذریعے اس پروگرام سے جڑے ہوئے ہیں۔ 7-8 سال پہلے ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اتر پردیش میں بھی سرمایہ کاری اور نوکریوں کے حوالے سے ایسا ماحول پیدا ہوگا۔ چاروں طرف جرائم، فسادات، چھینا جھپٹی کی خبریں تھیں۔ اس دوران اگر کوئی کہتا کہ وہ یوپی کو ترقی یافتہ بنائیں گے، تو شاید کوئی سننے کو تیار نہ ہوتا، یقین کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ لیکن آج دیکھیں، لاکھوں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری اتر پردیش کی سرزمین پر آرہی ہے۔ اور میں اتر پردیش سے ایم پی ہوں۔ اور جب میرے اتر پردیش میں کچھ ہوتا ہے، تو مجھے سب سے زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ آج ہزاروں پروجیکٹوں پر کام شروع ہو رہا ہے۔ یہ جو فیکٹریاں لگ رہی ہیں، یہ صنعتیں جو لگ رہی ہیں، یہ یوپی کی تصویر بدلنے والی ہیں۔ میں سبھی سرمایہ کاروں،خاص طور پر یوپی کے تمام نوجوانوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیو !
یوپی میں ڈبل انجن کی حکومت بنے 7 سال ہوچکے ہیں۔ پچھلے 7 سالوں میں ریاست میں موجود ریڈ ٹیپ کلچر کو ختم کرکے ریڈ کارپٹ کلچر بنایا گیا ہے۔ پچھلے 7 سالوں میں یوپی میں جرائم میں کمی آئی ہے، لیکن بزنس کلچر میں وسعت آئی ہے۔ پچھلے 7 سالوں میں یوپی میں کاروبار، ترقی اور اعتماد کا ماحول بنا ہے۔ ڈبل انجن والی حکومت نے دکھا دیا کہ اگر تبدیلی کی سچی نیت ہو ، تو اسے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ پچھلے کچھ سالوں میں یوپی سے برآمدات اب دگنی ہوگئی ہیں۔ بجلی کی پیداوار ہو یا ٹرانسمیشن، آج یوپی قابل ستائش کام کر رہا ہے۔ آج یوپی وہ ریاست ہے، جس کے پاس ملک میں سب سے زیادہ ایکسپریس وے ہیں۔ آج یوپی وہ ریاست ہے، جہاں ملک میں سب سے زیادہ بین الاقوامی ہوائی اڈے ہیں۔ آج یوپی وہ ریاست ہے جہاں ملک کی پہلی ریپڈ ریل چل رہی ہے۔ ویسٹرن ڈیڈیکیٹڈ فریٹ کوریڈور اور ایسٹرن ڈیڈیکیٹڈ فریٹ کوریڈور کا ایک بڑا نیٹ ورک بھی اتر پردیش سے گزرتا ہے۔ یوپی میں دریاؤں کے وسیع نیٹ ورک کا استعمال بھی کارگو جہازوں کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے یوپی میں نقل و حمل آسان ہوتی جا رہی ہے، ٹرانسپورٹیشن تیز اور سستا ہو ا ہے۔
ساتھیو !
میں آج کے پروگرام کا اندازہ صرف سرمایہ کاری کے نقطہ نظر سے نہیں کر رہا ہوں۔ یہاں کے تمام سرمایہ کاروں میں جو امید نظر آتی ہے، بہتر منافع کی امید، اس کا بہت وسیع تناظر ہے۔ آج، آپ دنیا میں جہاں کہیں بھی جائیں، ہندوستان کے بارے میں بے مثال مثبت نظریہ دکھائی دے رہا ہے۔ چار پانچ دن پہلے میں متحدہ عرب امارات اور قطر کے غیر ملکی دورے سے واپس آیا ہوں۔ ہر ملک ہندوستان کی ترقی کی کہانی پر بھروسہ کرتا ہے اور اعتماد سے بھرا ہوا ہے۔ آج ملک میں مودی کی گارنٹی کو لے کر کافی چرچا ہے۔ لیکن آج پوری دنیا ہندوستان کو بہتر منافع کی ضمانت سمجھ رہی ہے۔ اکثر ہم نے دیکھا ہے کہ انتخابات کے قریب لوگ نئی سرمایہ کاری سے گریز کرتے ہیں۔ لیکن آج بھارت نے اس تصور کو بھی ختم کردیا ہے۔ آج پوری دنیا کے سرمایہ کاروں کو ہندوستان میں حکومت کے، پالیسیوں کے استحکام پر پورا بھروسہ ہے۔ یہی بھروسہ یہاں یوپی میں، لکھنؤ میں بھی جھلک رہا ہے۔
بھائیو اور بہنو !
جب میں ترقی یافتہ ہندوستان کی بات کرتا ہوں، تو اسے نئی سوچ اور نئی سمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ آزادی کے بعد کئی دہائیوں تک ملک میں جس طرح کی سوچ رائج رہی اس کے پیش نظر یہ ممکن نہیں تھا۔ وہ سوچ کیاتھی؟ سوچ تھی،کہ کسی طرح ملک کے شہریوں کو جیسے تیسے گزارہ کراؤ، انہیں ہر بنیادی سہولت کے لیے ترسا کر رکھو۔ پہلے کی حکومتیں سوچتی تھیں کہ اگر سہولتیں پیدا کریں، تو 2-4 بڑے شہروں میں ہوں، اگر ملازمت کے مواقع پیدا کریں تو کچھ منتخب شہروں میں ہوں۔ ایساکرنا آسان تھا ،کیونکہ اس میں محنت کم لگتی تھی۔ لیکن اس کی وجہ سے ملک کا بڑا حصہ ترقی سے محروم رہا۔ یوپی کے ساتھ ماضی میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ لیکن ڈبل انجن والی حکومت نے اس پرانی سیاسی سوچ کو بدل دیا ہے۔ ہم اتر پردیش کے ہر خاندان کی زندگی کو آسان بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ جب زندگی آسان ہو گی، تو بزنس کرنا اور کاروبار کرنا خود بخود آسان ہو جائے گا۔ آپ نے دیکھا کہ ہم نے غریبوں کے لیے 4 کروڑ پکے گھر بنائے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہم نے شہروں میں رہنے والے متوسط طبقے کے خاندانوں کو اپنا گھر بنانے کا خواب پورا کرنے کے لیے تقریباً 60 ہزار کروڑ روپے کی مدد بھی فراہم کی ہے۔ اس رقم سے شہروں میں رہنے والے 25 لاکھ متوسط طبقے کے خاندانوں کو سود میں چھوٹ ملی ہے۔ اس میں 1.5 لاکھ مستفید کنبے میرے یوپی کے ہیں۔ ہماری حکومت نے انکم ٹیکس میں جو کمی کی ہے اس کابھی متوسط طبقے کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ 2014 سے پہلے انکم ٹیکس صرف 2 لاکھ روپے کی آمدنی پر لگایا جاتا تھا۔ جبکہ بی جے پی حکومت کے تحت اب 7 لاکھ روپے تک کی آمدنی پر کوئی انکم ٹیکس نہیں دینا پڑے گا۔ اس وجہ سے متوسط طبقے کے ہزاروں کروڑ روپے بچے ہیں۔
ساتھیو !
ہم نے یوپی میں رہن سہن کی آسانی اور کاروبار کرنے میں آسانی پر یکساں زور دیا ہے۔ ڈبل انجن حکومت کا مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی فائدہ اٹھانے والا کسی بھی سرکاری اسکیم سے محروم نہ رہے۔ حال ہی میں جو وکست بھارت سنکلپ یاترا ہوئی ہے، اس میں بھی یوپی کے لاکھوں استفادہ کنندگان کو ان کے گھر کے پاس ہی اسکیموں سے جوڑا گیا ہے۔ مودی کی گارنٹی والی گاڑی گاؤں گاؤں اور شہر شہرپہنچی ہے۔ سیچوریشن یعنی صدفیصد فائدہ جب حکومت استفادہ کنندگان کو 100 فیصد فوائد فراہم کرتی ہے، تو یہی حقیقی سماجی انصاف ہے۔ یہی ہے حقیقی سیکولرازم۔ آپ کو یاد کریئے ، بدعنوانی اور امتیازی سلوک کی ایک بڑی وجہ کیا ہوتی ہے؟ پہلے کی حکومتوں میں لوگوں کو اپنے فوائد کے حصول کے لیے لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا تھا۔ کاغذات لے کر ایک کھڑکی سے دوسری کھڑکی تک بھاگنا پڑتا تھا۔ اب ہماری حکومت خود غریبوں کی دہلیز پر آ رہی ہے۔ اور یہ مودی کی گارنٹی ہے کہ ہماری حکومت اس وقت تک آرام نہیں کرے گی، جب تک کہ ہر مستحق کو اس کا حق نہیں مل جاتا۔ راشن ہو، مفت علاج ہو، پکامکان ہو، بجلی پانی گیس کا کنکشن ہو، ہر مستحق کو ملتا رہے گا۔
ساتھیو !
آج مودی ان کوبھی پوچھ رہا ہے، جن کو پہلے کسی نے نہیں پوچھا ۔ شہروں میں ہمارے جو یہ ریڑھی- پٹری -ٹھیلے والے بھائی بہن ہوتے ہیں، پہلے کی امدد کرنے کے بارے میں کسی حکومت نے نہیں سوچا۔ ان لوگوں کے لیے ہماری حکومت پی ایم سواندھی یوجنا لے کر آئی ہے۔ اب تک ملک بھر میں ریڑھی – پٹری- ٹھیلے والوں کو تقریبا 10,000 کروڑ روپے کی مدد دی جاچکی ہے۔ یہاں یوپی میں بھی 22 لاکھ ریڑھی – پٹری- ٹھیلے والوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔ پی ایم سواندھی یوجنا کا اثر ظاہر کرتا ہے کہ جب غریبوں کو مدد ملتی ہے، تو وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ پی ایم سواندھی یوجنا کے مطالعہ میں ایک بہت اہم بات سامنے آئی ہے کہ سواندھی کی مدد حاصل کرنے والے ساتھیوں کی سالانہ کمائی میں اوسطاً 23 ہزار روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ آپ ہی بتائیں کہ یہ اضافی آمدنی ایسے دوستوں کے لیے کتنی طاقت بن جاتی ہے۔ پی ایم سواندھی یوجنا نے ریڑھی – پٹری- ٹھیلے والوں کی قوت خرید میں بھی اضافہ کیا ہے۔ ایک اور تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سواندھی یوجنا کے تقریباً 75 فیصد استفادہ کنندگان دلت، پسماندہ اور قبائلی بھائی بہن ہیں۔ اس میں بھی مستفید ہونے والی تقریباً نصف ہماری بہنیں ہیں۔ پہلے انہیں بینکوں سے کوئی مدد نہیں ملتی تھی، کیونکہ ان کے پاس بینکوں کو دینے کی کوئی ضمانت نہیں تھی۔ آج ان کے پاس مودی کی گارنٹی ہے، اس لیے انہیں بینکوں سے بھی مدد مل رہی ہے۔ یہ سماجی انصاف ہے، جس کا خواب کبھی جے پی نے دیکھا اور کبھی لوہیا جی نے دیکھا تھا۔
ساتھیو !
ہماری ڈبل انجن والی حکومت کے فیصلے اور منصوبے سماجی انصاف اور معیشت دونوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ آپ نے لکھپتی دیدی کے عہد کے بارے میں ضرور سنا ہوگا۔ پچھلے 10 سالوں کے دوران، ہم نے ملک بھر میں 10 کروڑ بہنوں کو سیلف ہیلپ گروپس سے جوڑا ہے۔ ان میں سے ابھی تک ،آپ صنعت سے جڑے لوگ ہیں، ذرا یہ اعداد و شمار سنئے ، اب تک ایک کروڑ بہنوں کو لکھپتی دیدی بنا یا جا چکا ہے۔ اور اب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ کل 3 کروڑ بہنوں کو لکھپتی دیدی بنا کر رہیں گے ۔ ہمارے ملک میں تقریباً ڈھائی لاکھ گرام پنچایتیں ہیں۔ ذرا تصور کریں کہ اگر 3 کروڑ لکھپتی دیدی بن جائیں، تو ہر گرام پنچایت کی قوت خرید کتنی بڑھ جائے گی۔ اس سے بہنوں کی زندگیوں کے ساتھ ساتھ دیہی معیشت پر بھی بہت مثبت اثر پڑ رہا ہے۔
بھائیو اور بہنو !
جب ہم ترقی یافتہ یوپی کی بات کرتے ہیں، تو اس کے پیچھے ایک اور طاقت ہے۔ یہ طاقت ہے، یہاں کے ایم ایس ایم ایز یعنی چھوٹے، بہت چھوٹے اور کاٹیج صنعتوں کی طاقت۔ ڈبل انجن والی حکومت کے قیام کے بعد، یوپی میں ایم ایس ایم ایز کی بے مثال توسیع ہوئی ہے۔ یہاں،ایم ایس ایم ایز کو ہزاروں کروڑ روپے کی امداد دی گئی ہے۔ جو دفاعی راہداری بنائی جا رہی ہے اور جو نئی اقتصادی راہداری بنائی جا رہی ہے، اس سے بھی ایم ایس ایم ایزکو بہت فائدہ ہو گا۔
ساتھیو !
یوپی کے تقریباً ہر ضلع میں کاٹیج انڈسٹریز کی پرانی روایت ہے۔ کہیں تالے بنتے ہیں، کہیں پیتل کی کاری گری ہے، کہیں قالین بنتے ہیں، کہیں چوڑیاں بنتی ہیں، کہیں مٹی کی کلاکاری ہوتی ہے، کہیں چکن کاری کا کام ہوتا ہے۔ ہم ایک ضلع، ایک پروڈکٹ اسکیم کے ساتھ اس روایت کو مضبوط کر رہے ہیں۔ آپ ریلوے اسٹیشنوں پر یہ بھی دیکھیں گے کہ کس طرح ون ڈسٹرکٹ – ون پروڈکٹ اسکیم کی حوصلہ افزائی اور فروغ کیا جا رہا ہے۔ اب ہم 13 ہزار کروڑ روپے کی پی ایم وشوکرما اسکیم بھی لائے ہیں۔ یہ اسکیم یوپی میں روایتی طور پر دستکاری سے وابستہ لاکھوں وشوکرما خاندانوں کو جدت سے جوڑ ے گی۔ اس سے انہیں اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے بینکوں سے سستااور بغیر گارنٹی کاقرض دلانے میں مدد ملے گی۔
بھائیو اور بہنو !
ہماری حکومت کیسے کام کرتی ہے، اس کی جھلک آپ کو گھلونے بنانے والے سیکٹر میں بھی ملے گی ۔ اور میں تو کاشی کا ایم پی ہونے کے ناطے بھی وہاں بننے والے لکڑی کے کھلونوں کو پرموٹ کرتا ہی رہتا ہوں۔
ساتھیو !
کچھ سال پہلے تک ہندوستان اپنے بچوں کے لیے زیادہ تر کھلونے بیرون ملک سے درآمد کرتا تھا۔ یہ وہ صورت حال تھی، جب ہندوستان میں کھلونوں کی بھرپور روایت تھی۔ لوگ نسلوں سے کھلونے بنانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ لیکن ہندوستانی کھلونوں کو فروغ نہیں دیا گیا، کاریگروں کو جدید دنیا کے مطابق ڈھالنے میں مدد نہیں دی گئی۔ جس کی وجہ سے ہندوستان کے بازاروں اور گھر وں پر غیر ملکی کھلونوں کا قبضہ ہوگیا۔ میں نے اسے بدلنے کی ٹھانی اور ملک بھر میں کھلونا بنانے والوں کے ساتھ کھڑے رہنا، ان کی مدد کرنا اور میں نے ان کو آگے بڑھنے کی اپیل کی ۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ہماری درآمدات میں نمایاں کمی آئی ہے اور کھلونوں کی برآمدات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
ساتھیو!
اترپردیس بھارت کا سب سے بڑا سیاحتی مقام بننے کے قابل ہے۔ آج ملک کا ہر شخص وارانسی اور ایودھیا آنا چاہتا ہے۔ ہر دن لاکھوں لوگ ان مقامات پر درش کرنے کے لیے آتے ہیں۔ اس کی وجہ سے یہاںیوپی میں چھوٹے کاروباریوں کے لیے، ایئرلائنس کمپنیوں کے لیے، ہوٹل-ریسٹرانٹس کے لیے منفرد مواقع پیدا ہو رہے ہیں اور میری تو ایک گذارش ہے، میں ملک کے بارے میںسیاحوں سے گذارش کرنا چاہتا ہوں، ملک کے تمام لوگوں کو کہنا ہے کہ آپ جب گھومنےجانے کا بجٹ بنائیں تو اس میں سے دس فیصد بجٹ جس جگہ پر جارہے ہیں وہاں سے کچھ نہ کچھ خریدنے کے لئے رکھیں۔آپ کے لئے وہ مشکل نہیں ہے،کیونکہ آپ ہزاروں روپے خرچ کرنے کےلئے سفر پر نکلے ہیں۔اگر اس میں سے دس فیصدسے،جس جگہ پر جارہے ہیں،وہاں کی مقامی چیز خریدیں گے تو وہاں کی معیشت آسمان کو چھونے لگے گی۔میں ان دنوں ایک اور بات کہتا ہوں،یہ بڑے بڑے امیر لوگ بیٹھے ہیں نہ،ان کو ذرا زیادہ چھبتی ہے لیکن میں پھر بھی عادت کے مطابق کہتا رہتا ہوں،آج کل بد قسمتی سے ملک میں فیشن چل پڑا ہے۔امیری کا مطلب ہوتا ہے غیر ملکوں میں جاؤ،بچوں کی شادیاں غیر ملکوں میں کرو۔اتنا بڑا ملک ہے ،کیا آپ کے بچے ہندوستان میں شادی نہیں کرسکتے۔کتنے لوگوں کو روزگار ملے گا۔اور جب سے میں نے شروع کیا ہے-ویڈ ان انڈیا ،مجھے خط ملے رہے ہیں۔صاحب ہم نے پیسہ جمع کرایا تھا ،غیر ملک میں شادی کرنے والے تھے لیکن آپ نے کہا تو ارادہ بدل دیا۔اب ہندوستان میں شادی کریں گے۔ملک کے لئے بھگت سنگھ کی طرح پھانسی پر لٹکیں ،تبھی ملک کی خدمت ہوتی ہے ایسا نہیں ہے۔ملک کے لئے کام کرکے بھی ملک کی خدمت ہوسکتی ہے دوستوں۔اور اس لئے میں کہتا ہوں بہتر لوکل ،نیشنل اور انٹرنیشنل کنیکٹی وٹی سے یوپی میں آنا جانا آسان ہوگیا ہے۔وارانسی کے راستے گزرے دنوں ہم نے دنیا کی سب سے لمبی کروز سروس کو بھی شروع کرایا ہے۔2025 میں کمبھ میلے کا انعقاد بھی ہونے والا ہے۔یہ بھی یوپی کی معیشت کےلئے بہت اہم ہونے والا ہے۔آنے والے وقت میں سیاحت اور میزبانی کے شعبہ میں یہاں بہت بڑی تعداد میں روزگار کے مواقع پیدا ہونے والے ہیں۔
ساتھیو!
ہماری کوشش ہے کہ ہماری جو طاقت ہے ،اسے بھی جدیدیت کے ساتھ جوڑیں ،بااختیار بنائیں اور نئے شعبوں میں بھی کمال کرکے دکھائیں۔آج بھارت الیکٹرک موبیلٹی اور سبز توانائی پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کررہا ہے ۔ہم بھارت کو ایسی ٹیکنولوجی میں ،ایسی مینوفیکچرنگ میں گلوبل ہب بنانا چاہتے ہیں۔ہماری کوشش ہے کہ ملک کا ہر گھر ہر کنبہ شمسی توانائی پیدا کرنے والا بنے۔اس لئے ہم نے ،پی ایم سوریہ گھر-مفت بجلی یوجنا شرو ع کی ہے۔اس یوجنا کے تحت 300بجلی مفت ملے گی اور اضافی بجلی لوگ حکومت فروخت بھی کر پائیں گے۔ابھی یہ منصوبہ ایک کروڑ کنبوں کےلئے ہے۔اس میں ہر کنبے کے بینک کھاتے میں براہ راست 30ہزار روپے سے لے کر قریب قریب 80 ہزار روپے تک جمع کرائے جائیں گےیعنی جو 100 یونٹ بجلی ہر مہینے پیدا کرنا چاہتا ہے اسے 30 ہزار روپے کی مدد ملے گی۔جو 300 یونٹ یا اس سے زیادہ بجلی بنانا چاہیں گے انہیں قریب 80ہزار روپے ملیں گےاس کے علاوہ بینکوں سے بہت سستا اور آسان قرض بھی مہیا کرایا جائےگا۔ایک جائزہ ہے کہ اس سے ان کنبوں کو مفت بجلی تو ملے گی ہی ،سال میں 18ہزار روپے تک کی بجلی بیچ کر اضافی کمائی بھی کر سکتے ہیں۔اتنا ہی نہٰں ،اس سے انسٹالیشن ،سپلائی چین اور مینٹننس سے وابستہ شعبہ میں ہی لاکھوں روزگار بنیں گے۔اس سے لوگوں کو 24 گھنٹے بجلی دینا،طے یونت تک مفت بجلی دینا بھی آسان ہو جائےگا۔
ساتھیو!
شمسی توانائی کی طرح ہی ہم الیکٹرک گاڑیوں کو لے کر بھی مشن موڈ پر کام کررہے ہیں۔الیکٹرک گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ کرنے والے ساتھیوں کو پی ایل آئی یوجنا کا فائدہ دیا گیا ہے۔ الیکٹرک گاڑیاں خریدنے پر ٹیکس میں راحت دی گئی ہے۔اسی کا نتیجہ ہے کہ پچھلے دس سالوں میں تقریباً ساڑھے 34 لاکھ الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت ہوئی ہے۔ہم تیز رفتار سے الیکٹرک بسیں اتار رہے ہیں۔یعنی سولر ہویا پھر ای وی ،دونوں سیکٹر وں میں یو پی میں بہت امکانات پیدا ہورہے ہیں۔
ساتھیو!
ابھی کچھ دن پہلے ہمارے حکومت کو کسانوں کو مسیحہ چودھری چرن سنگھ جی کو بھارت رتن دینے کا شرف حال ہوا۔اترپردیش کی زمین کے بیٹے چودھری صاحب کوعزت دینا ملک کے کروڑوں مزدوروں،ملک کے کروڑوں کسانوں کو عزت دینا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ بات کانگریس اوراس کے اتحادیوں کو سمجھ میں نہیں آتی ہے۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب چودھری چرن سنگھ جی کے بارے میں پارلیمنٹ میں بات ہورہی تھی ،تو کیسے کانگریس کے لوگوں نے چودھری صاحب کے بار ے میں بولنا تک مشکل کردیا تھا ۔کانگریس کے لوگ، بھارت رتن پر ایک ہی کنبے کا حق سمجھتے ہیں ۔اس لئے کانگریس نے دہائیوں تک بابا صاحب امبیڈکر کو بھی بھارت رتن نہیں دیا۔یہ لوگ اپنے ہی کنبے کے لوگوں کو بھارت رتن دیتے رہے۔دراصل کانگریس غریب ،دلت ،پسماندہ ،کسان ،مزدور کا احترام کرنا ہی نہیں چاہتی ہے،یہ ان کی سوچ میں نہیں ہے۔چودھری چرن سنگھ جی کی زندگی میں بھی کانگریس نے ان سے سودے بازی کی بہت کوشش کی تھی ۔چودھری صاحب نے پی ایم کی کرسی چھوڑدی لیکن اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ان کو سیاسی سودے بازی سے نفرت تھی۔ لیکن دکھ کی بات ہے کہ ان کا نام لے کر سیاست کرنے والے اترپردیش کے تمام سیاسی دھڑوں نے چودھری صاحب کی بات کو نہیں مانا۔چودھری صاحب نے چھوٹے کسانوں کے لئے جو کیا وہ پورا ملک بھی نہیں بھول سکتا۔آج چودھری صاحب سے تحریک لے کر ہم ملک کے کسانوں کو مسلسل بااختیار بنا رہے ہیں۔
ساتھیو!
ہم ملک کی زراعت کو ایک نئے راستے پر لے جانے کےلئے کسانوں کو مدد دے رہے ہیں،ترغیب دے رہے ہیں۔قدرتی کھیتی اور موٹےاناج پر توجہ کے پس پشت بھی یہی سوچ ہے۔آج گنگا جی کے کنارے، یوپی میں بہت بڑے پیمانے پر قدرتی کھیتی ہونے لگی ہے۔یہ کسانوں کو کم لاگت میں زیادہ فائدہ دینے والی کھیتی ہے۔اور اس سے گنگا جی جیسی ہماری پاون ندیوں کا پانی بھی آلودہ ہونےسے بچ رہا ہے۔آج میں خوراک کی ڈبہ بندی سے متعلق صنعت کاروں سے بھی خاص طورپر درخواست کروں گا۔آپ کو زیروافیکٹ ،زیروڈفیکٹ کے منتر پر ہی کام کرنا چاہئے۔آپ کو ایک ہی مقصد کے ساتھ کام کرنا چاہئے کہ دنیا بھر کے ملکوں کے ڈائننگ ٹیبل پر کوئی نہ کوئی میڈ ان انڈیا فوڈ پیکٹ ضرور ہونا چاہئے۔آج آپ کی کوششوں سے ہی سدھارتھ نگر کا کالا نمک ،چاول،چندولی کا بلیک رائس کی بڑی مقدار میں برآمدات کی جانے لگی ہے۔خصوصی طورپر موٹے اناج یعنی شری ان کو لے کر ایک نیا رجحان ہم دیکھ رہے ہیں۔اس سپر فوڈ کو لے کر سرمایہ کاری کرنے کا بھی یہی صحیح وقت ہے۔اس کے لئے آپ کو کسانوں کو ان کی پیداوار میں اضافہ کیسے ہو،پیکیجنگ کیسے ہو،دنیا کے بازار میں ،میرا کسان جو پیدا کرتا ہے وہ کیسے پہنچے ،اس کے لئے آگے آنا چاہئے۔آج سرکاری بھی چھوٹے چھوٹے کسانوں کو بازار کی بڑی طاقت بنانے میں لگی ہے۔ہم کسانوں کی پیداوار کے فیڈریشن ایف پی او ز اور کوآپریٹو سمیتیوں کو بااختیار بنا رہے ہیں۔آپ ان کا مال خریدنے کی گارنٹی کیسے دے سکتے ہیں۔جتنا کسان کو فائدہ ہوگاجتنا مٹی کا فائدہ ہوگا ،اتنا ہی فائدہ آپ کے کاروبار کو بھی ہوگا۔یو پی نے بھارت کی دیہی معیشت ،زراعت پر مبنی معیشت کو آگے بڑھانے میں ہمیشہ بڑا کردار ادا کیا ہے ۔اس لئے معیشت کو آپ کی محنت پر پورا بھروسہ ہے۔آج جو بنیاد رکھی گئی ہے وہ یو پی اور ملک کی ترقی کی بنیاد بنے گی اور میں یوگی جی کو اترپردیش حکومت کو خصوصاً مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ہر ہندوستانی کو فخر ہوتا ہے جب ریاستوں سے اپیل کروں گا،سیاست اپنی جگہ پر چھوڑیے ،ذرا اترپردیش سے سیکھئے اور آپ کتنے ٹریلین ڈالر کی معیشت اپنی ریاست کی بنائیے،ذرا عہد کرکے میدان میں آئیےملک تبھی آگے بڑھےگا۔اترپردیش کی طرح ہر ریاست بڑے خواب بڑے عزائم لے کر چل پڑے اور میرے صنعتی شعبے کے ساتھی بھی لاتعداد مواقوں کی سمت آگے بڑھ رہے ہیں۔آئے کوشش کیجئے ہم تیار ہیں۔
ساتھیو!
آج جب اترپردیش کے لاکھوں لوگ اس بات کو سن رہے ہیں ۔400 مقامات پر ہزاروں کی تعداد میں لوگ بیٹھے ہیں ،تومیں ان کو بھی یقین دلاتا ہوں،آپ نے کبھی سوچا نہیں ہوگااتنی تیزی سے اترپردیش اپنے سارے عہد کو پورا کردے گا،آئے ہم سب مل کر آگے بڑھیں اسی امید کے ساتھ آپ سب کو بہت بہت مبارکباد۔بہت بہت شکریہ۔