کابینہ کے میرے ساتھی ڈاکٹر جتیندر سنگھ، جناب پی کے مشرا جی، جناب راجیو گوبا جی، جناب شری نواسن جی اور اس پروگرام سے جڑے تمام کرم یوگی ساتھیوں، خواتین و حضرات! آپ سبھی کو سول سروسز ڈے کی بہت بہت مبارکباد۔
اس سال کا سول سروسز ڈے بہت زیادہ اہم ہے۔ یہ ایک ایسا وقت ہے، جب ملک نے اپنی آزادی کے 75 برسو مکمل کیے ہیں۔ ایک ایسا وقت ہے، جب ملک نے آئندہ 25 برسوں کے عظیم اہداف کو پورا کرنے کے لیے تیزی سے قدم بڑھانا شروع کیا ہے۔ ملک کو آزادی کے اس امرت کال تک لانے میں ان افسران کا بھی بڑا کردار رہا، جو 15-20-25 سال پہلے اس سروس میں آئے۔ اب آزادی کے اس امرت کال میں ان نوجوان افسران کا کردار سب سے بڑا ہے، جو آئندہ 15-20-25 سال اس سروس میں رہنے والے ہیں۔اس لیے، میں آج بھارت کے ہر سول سروسز افسر سے یہی کہوں گا کہ آپ بہت خوش قسمت ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ میری بات پر آپ کو پورا یقین ہوگا۔ ہو سکتا ہے، کچھ لوگ نہ بھی مانتے ہوں کہ وہ خوش قسمت نہیں ہیں۔ اپنی اپنی سوچ ہر کسی کو مبارک۔
آپ کو اس دور میں ملک کی خدمت کرنے کا موقع حاصل ہوا ہے۔ آزادی کے امرت کال میں ملک کےمجاہدین آزادی کے خوابوں کو پورا کرنے کی ذمہ داری ہم سبھی پر ہے۔ ہمارے پاس وقت کم ہے، لیکن صلاحیت بھرپور ہے۔ ہمارے ہدف مشکل ہیں، لیکن حوصلہ کم نہیں ہے۔ ہمیں پہاڑ جیسی اونچائی بھلے ہی چڑھنی ہے، لیکن ارادے آسمان سے بھی زیادہ بلند ہیں۔ گذشتہ 9 برسوں میں بھارت آج جہاں پہنچا ہے، اس نے ہمارے ملک کو بہت اونچی چھلانگ کے لیے تیار کر دیا ہے۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ ملک میں نوکرشاہی وہی ہے، افسران – ملازمین وہی ہیں، لیکن نتائج تبدیل ہوگئے ہیں۔ گذشتہ 9 برسوں میں بھارت اگر عالمی سطح پر ایک خاص کردار میں نظر آیا ہے ، تو اس میں آپ سب کا تعاون ازحد اہم رہا ہے۔ گذشتہ 9 برسوں میں اگر ملک کے غریب سے غریب کو بھی اچھی حکمرانی کا یقین ہوا ہے، تو اس میں آپ کی محنت رنگ لائی ہے۔ گذشتہ 9 برسوں میں اگر بھارت کی ترقی کو نئی رفتار حاصل ہوئی ہے، تو یہ بھی آپ کی شراکت داری کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ کورونا کے عظیم بحران کے باوجود آج بھارت دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت ہے۔
آج بھارت فن ٹیک کی دنیا میں چھایا ہوا ہے، ڈجیٹل ادائیگیوں کے معاملے میں بھارت سرفہرست ہے۔ آج بھارت دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے، جہاں موبائل ڈاٹا سب سے سستا ہے۔ آج بھارت میں دنیا کا تیسرا سب سے بڑا اسٹارٹ اپ ایکو نظام موجود ہے۔ آج ملک کی دیہی معیشت، بہت بڑی تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے۔ 2014 کے مقابلے آج ملک میں 10 گنا زیادہ تیزی سے ریل لائنوں کی برق کاری ہو رہی ہے۔ 2014 کے مقابلے میں آج ملک میں دوگنی رفتار سے قومی شاہراہوں کی تعمیر عمل میں آ رہی ہے۔ 2014 کے مقابلے میں آج ملک کی بندرگاہوں کی صلاحیت میں دوگنا سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ آج یہاں جو انعامات دیے گئے ہیں، وہ ملک کی کامیابی میں آپ کی اس حصہ داری کو ثابت کرتے ہیں، آپ کے خدمت کے جذبے کی عکاسی کرتے ہیں۔ میں تمام انعام یافتگان ساتھیوں کو ایک مرتبہ پھر بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیو،
گذشتہ برس 15 اگست کو میں نے لال قلعہ سے، ملک کے سامنے پنچ پرنوں کی اپیل کی۔ ترقی یافتہ بھارت کی تعمیر کا عظیم ہدف ہو، غلامی کی ہر سوچ سے آزادی ہو، بھارت کی وراثت پر فخر کا جذبہ ہو، ملک کے اتحاد-یکجہتی کو مسلسل مضبوط کرنا ہو، اور اپنے فرائض کو ترجیح دینی ہو، ان پنچ پرنوں کی ترغیب سے جو توانائی نکلے گی، وہ ہمارے ملک کو وہ اونچائی دے گی، جس کا وہ ہمیشہ حقدار رہا ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر بھی اچھا لگا کہ آپ سبھی نے اس سال سول سروسز ڈے کا موضوع بھی ’ترقی یافتہ بھارت‘ رکھا ہے۔ ترقی یافتہ بھارت کی تعمیر کے پس پشت کیا سوچ ہے، یہ اس کتاب میں نظر آتی ہے، جس کا ابھی اجراء ہوا ہے۔ ترقی یافتہ بھارت کے لیے ضروری ہے – بھارت کا سرکاری نظام، ہر اہل وطن کی امنگوں کی حمایت کرے۔ ترقی یافتہ بھارت کے لیے ضروری ہے – بھارت کا ہر سرکاری ملازم، اہل وطن کے خوابوں کو سچ کرنے میں ان کی مدد کرے۔ ترقی یافتہ بھارت کے لیے ضروری ہے – بھارت میں سسٹم کے ساتھ جو منفی طرز فکر گذشتہ دہائیوں میں جڑی تھی، وہ مثبت طرز فکر میں تبدیل ہو، ہمارا نظام، اہل وطن کے معاون کے طور پر اپنے کردار کو آگے بڑھائے گا۔
ساتھیو،
آزادی کے بعد کے دہوں کا ہمارا تجربہ رہا ہے، اسکیمیں کتنی بھی بہتر ہوں، کاغذ پر کتنا ہی شاندار روڈ میپ کیوں نہ ہو، لیکن اگر آخری میل تک بہم رسانی ٹھیک نہیں ہوگی تو متوقع نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ پہلے کے نظام کی دین تھی کہ ملک میں 4 کروڑ سے زائد فرضی گیس کنکشن تھے۔ یہ پہلے کے نظام کی ہی دین تھی کہ ملک میں 4 کروڑ سے زائد فرضی راشن کارڈ تھے۔ یہ پہلے کے نظام کی ہی دین تھی کہ اقلیتوں کی وزارت، تقریباً 30 لاکھ فرضی نوجوانوں کو اسکالرشپ کے فوائد دے رہی تھی۔ اور یہ بھی پہلے کے ہی نظام کی دین ہے کہ منریگا کے تحت ملک میں لاکھوں ایسے فرضی کھاتے بنے، لاکھوں ایسے محنت کشوں کو پیسے منتقل کیے گئے، جن کا وجود ہی نہیں تھا۔ آپ سوچئے، جن کا کبھی جنم ہی نہیں ہوا، جو صرف کاغذوں میں ہی پیدا ہوئے، ایسے لاکھوں- کروڑوں فرضی ناموں کی آڑ میں ایک بہت بڑا ایکو نظام بدعنوانی میں مصروف تھا۔ آج ملک کی کوششوں سے، آپ سبھی کی کوششوں سے، یہ نظام تبدیل ہوا ہے، ملک کے تقریباً تین لاکھ کروڑ روپئے غلط ہاتھوں میں جانے سے بچے ہیں۔ آپ سب اس کے لیے مبارکباد کے حقدار ہیں۔ آج یہ پیسے غریبوں کی بھلائی کے کام آر ہے ہیں، ان کی زندگی آسان بنا رہے ہیں۔
ساتھیو،
جب وقت محدود ہو، تو یہ طے کرنا بہت اہم ہوجاتا ہے کہ ہماری سمت کیا ہوگی، ہمارا طریقہ کار کیا ہوگا۔ آج چنوتی یہ نہیں ہے کہ آپ کتنے قابل ہیں، بلکہ چنوتی یہ طے کرنے میں ہے کہ جہاں جو کمی ہے ، وہ کیسے دور ہوگی؟ اگر ہماری سمت صحیح ہوگی، تو قابلیت کی قوت بڑھے گی اور ہم آگے بڑھیں گے۔ لیکن اگر کمی ہوگی تو ہمیں وہ نتائج نہیں حاصل ہوں گے، جس کے لیے ہم کوشش کر رہے تھے۔ آپ یاد کیجئے، پہلے کمی کی آڑ میں ہر شعبے کی چھوٹی سے چھوٹی چیز کو کنٹرول کرنے کے طریقے بنائے جاتے تھے۔ لیکن آج وہی کمی، قابلیت میں تبدیل ہوگئی ہے۔ آج وہی، قابلیت پالیسی سے جڑی چھوٹی سے چھوٹی رکاؤٹوں کی پہچان کر رہی ہے، تاکہ انہیں ہٹایا جا سکے۔ پہلے یہ سوچ تھی کہ ’سرکار سب کچھ کرے گی‘، لیکن اب سوچ ہے کہ سرکار سب کے لیے کرے گی۔
اب حکومت سب کے لیے کام کرنے کے جزبے کے ساتھ وقت اور وسائل مؤثر طریقے سے استعمال کر رہی ہے۔ آج کی حکومت کا مقصد ہے – پہلے ملک، پہلے شہری، آج کی حکومت کی ترجیح ہے – محرومین کو ترجیح۔ آج کی حکومت، توقعاتی اضلاع تک جا رہی ہے، توقعاتی بلاکس تک جا رہی ہے۔ آج کی حکومت، ملک کے سرحدی مواضعات کو آخری گاؤں نہ مان کر انہیں پہلا گاؤں مانتے ہوئے کام کر رہی ہے، فعال مواضعات اسکیم چلا رہی ہے۔ یہ گذشتہ برسوں میں ہماری حکومت کی بہت بڑی شناخت رہی ہے۔ لیکن ہمیں ایک اور بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی ہے۔ 100 فیصد تکمیل کے لیے ہمیں اس سے بھی زیادہ محنت کی، اختراعی حل کی ہر لمحہ ضرورت پیش آئے گی۔ اب جیسے ڈجیٹل انڈیا کا اتنا وسیع بنیادی ڈھانچہ ہمارے پاس دستیاب ہے، ان بڑا ڈاٹا سیٹ ہمارے پاس موجود ہے۔ لیکن ابھی بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہر محکمہ اپنے اپنے حساب سے وہی معلومات، وہی دستاویز طلب کرتا ہے، جو پہلے سے ہی کسی نہ کسی ڈاٹا بیس میں موجود ہیں۔
انتظامیہ کا بہت بڑا وقت این او سی، سند، منظوری، انہیں سب کاموں میں ضائع ہوجاتا ہے۔ ہمیں ان کے حل نکالنے ہی ہوں گے۔ تبھی ایز آف لیونگ بڑھے گی، تبھی ایز آف ڈوئنگ بزنس بڑھے گا۔ میں آپ کو پی ایم گتی شکتی قومی ماسٹر پلان کی بھی مثال دینا چاہتا ہوں۔ اس کے تحت ہر طرح کے بنیادی ڈھانچے سے جڑی ڈاٹا لیئرس ایک ہی پلیٹ فارم پر دستیاب ہیں۔ اس کا ہمیں زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا ہے۔ ہمیں سماجی شعبے میں بہتر منصوبہ بندی اور عمل آوری کے لیے بھی پی ایم گتی شکتی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہئے۔ اس سے ہمیں لوگوں کی ضرورتوں کو شناخت کرنے میں اور نفاذکاری میں پیش آنے والی مشکلات کو دور کرنے میں مدد ضرور ملے گی ۔ اس سے محکموں کے درمیان، ضلع اور بلاک کے درمیان رابطہ اور آسان ہوگا۔ اس سے ہمارے لیے آگے کی حکمت عملی وضع کرنا بھی زیادہ آسان ہوگا۔
ساتھیو،
آزادی کا یہ امرت کال، یہ وقت، بھارت کے تمام سرکاری ملازمین کے لیے جتنے بڑے مواقع لے کر آیا ہے، اتنا ہی چنوتی بھرا بھی ہے۔ اتنی ساری حصولیابیوں کے باوجود، تیز رفتار سے حاصل ہوئی کامیابیوں کے باوجود، میں اسے چنوتی کیوں کہہ رہا ہوں، اور میں مانتا ہوں کہ اس بات کو آپ کو بھی سمجھنا ہوگا۔ آج بھارت کے لوگوں کی امنگیں، ان کی آرزوئیں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ ترقی یافتہ بھارت کے لیے ، نظام میں تبدیلی کے لیے اب اہل وطن مزید انتظار نہیں کرنا چاہتے۔ ملک کے لوگوں کی اس آرزو کو پورا کرنے کے لیے ہم سب کو، آپ کو پوری صلاحیت کے ساتھ مصروف عمل ہو جانا ہوگا، تیزی سے فیصلے لینے ہوں گے، ان فیصلوں کو اتنی ہی تیزی سے نافذ کرنا ہوگا۔ اور آپ کو ایک اور بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ آج ،اور یہ میں کہہ رہا ہوں اس لیے نہیں آپ بھی محسوس کرتے ہوں گے، آج پوری دنیا کی بھی بھارت سے توقعات بہت زیادہ بڑھی ہوئی ہیں۔
دنیا بھر کے ماہرین، مختلف بین الاقوامی تنظیمیں یہ کہہ رہی ہیں کہ بھارت کا وقت آگیا ہے۔ ایسی صورت میں بھارت کی نوکر شاہی کو ایک بھی لمحہ ضائع نہیں کرنا ہے۔ آج میں بھارت کی نوکرشاہی سے، بھارت ہر سرکاری ملازم سے، خواہ وہ ریاستی حکومت میں ہو یا مرکزی حکومت میں، میں ایک گذارش ضرور کرنا چاہتا ہوں۔ ملک نے آپ پر بہت بھروسہ کیا ہے، آپ کو موقع دیا ہے، اس بھروسے کو قائم رکھتے ہوئے کام کیجئے۔ میں آپ سے اکثر کہتا ہوں کہ آپ کی سروس میں، آپ کے فیصلوں کی بنیاد صرف اور صرف ملک کا مفاد ہونا چاہئے۔ ہو سکتا ہے میدان میں آپ کو کسی ایک شخص کے لیے کوئی فیصلہ لینا ہو، کسی ایک گروپ کے لیے کوئی فیصلہ لینا ہو، لیکن تب بھی آپ یہ ضرور سوچیں کہ میرے اس فیصلے سے، فیصلہ خواہ چھوٹا ہی کیوں نہ ہو، میرے اس فیصلے سے ملک کا کیا بھلا ہوگا؟ یعنی آپ کے لیے کسوٹی، ملکی مفاد ہی ہے۔ اور میں آج بھارت کی نوکرشاہی کے لیے اس کسوٹی میں ایک اور بات جوڑنا چاہتا ہوں۔ مجھے یقین ہے، آپ اس کسوٹی پر بھی کھرا اتریں گے۔
ساتھیو،
کسی بھی جمہوریت میں سیاسی پارٹیوں کی بہت اہمیت ہوتی ہے اور یہ ضروری بھی ہے۔ اور یہ جمہوریت کی خوبصورتی ہے۔ ہر جماعت کا اپنا نظریہ ہوتا ہے، آئین نے ہر جماعت کو یہ حق دیا ہے۔ لیکن ایک نوکرشاہ کے طور پر، ایک سرکاری ملازم کے طور پر اب آپ کو اپنے ہر فیصلے میں کچھ سوالوں کا دھیان ضرور رکھنا پڑے گا۔ جو سیاسی جماعت برسر اقتدار آئی ہے، وہ ٹیکس دہندگان کے پیسوں کا استعمال اپنی پارٹی کے فائدے کے لیے کر رہی ہے، یا ملک کے مفاد کے لیے اس کا استعمال کہا ہوں رہا ہے؟ یہ آپ لوگوں کو دیکھنا ہی ہوگا دوستوں۔ وہ سیاسی جماعت، اپنی جماعت کی توسیع میں سرکاری پیسے کا استعمال کر رہی یا پھر ملک کی ترقی میں اس پیسے کا استعمال کر رہی ہے؟ وہ سیاسی جماعت، اپنا ووٹ بینک بنانے کے لیے سرکاری پیسہ لٹا رہی ہے یا پھر سبھی کی زندگی آسان بنانے کے لیے کام کر رہی ہے؟ وہ سیاسی جماعت، سرکاری پیسے سے اپنا پروپیگنڈا کر رہی ہے، یا پھر ایمانداری سے لوگوں کو بیدار کر رہی ہے؟ وہ سیاسی جماعت، اپنے کارکنان کی ہی مختلف اداروں میں تقرری کر رہی ہے یا پھر سب کا شفاف طریقہ سے نوکری میں آنے کا موقع فراہم کر رہی ہے؟ وہ سیاسی جماعت، پالیسیوں میں اس لیے تو پھیر بدل نہیں کر رہی، تاکہ اس کے آقاؤں کی کالی کمائی کے نئے راستے بنیں؟ آپ اپنے ہر فیصلے سے پہلے ان سوالوں کے بارے میں بھی ضرور سوچیں۔ سردار پٹیل جس نوکرشاہی کو اسٹیل فریم آف انڈیا کہا کرتے تھے، اسی نوکرشاہی کو ان کی توقعات پر کھرا اترنا ہے۔ کیونکہ اب اگر نوکرشاہی سے غلطی ہوئی، تو ملک کا سرمایہ لٹ جائے گا، ٹیکس دہندگان کا پیسہ برباد ہو جائے گا، ملک کے نوجوانوں کے خواب چکناچور ہو جائیں گے۔
ساتھیو،
جو نوجوان، گذشتہ چند برسوں میں، یا گذشتہ دہے میں ملک کی سول سروسز سے جڑے ہیں، انہیں میں کچھ باتیں خاص طور سے کہنا چاہتا ہوں۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ زندگی جینے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ پہلا ہے، ’کام کروانا‘۔ دوسرا ’چیزوں کو ہونے دینا‘۔ پہلا فعال رویے اور دوسرا غیر فعال رویے کی علامت ہے۔ پہلے طریقے سے جینے والے شخص کی سوچ ہوتی ہے کہ ہاں، تبدیلی آسکتی ہے۔ دوسرے طریقے میں یقین کرنے والا شخص کہتا ہے، ٹھیک ہے، رہنے دو، سب ایسے ہی چلتا ہے، پہلے سبھی چلتا آیا ہے، آگے بھی چلتا رہے گا، وہ تو اپنے آپ ہو جائے گا، ٹھیک ہو جائے گا۔ ’کام کروانے‘ میں یقین رکھنے والے آگے بڑھ کر ذمہ داری لیتے ہیں۔ جب انہیں ٹیم میں کام کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہ ہر کام کا محرک بن جاتے ہیں۔ لوگوں کی زندگی میں تبدیلی لانے کی ایسی جلتی ہوئی خواہش سے ہی آپ ایک ایسی وراثت چھوڑ جائیں گے، جسے لوگ یاد کریں گے۔ آپ کو یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ ایک افسر کے طور پر آپ کی کامیابی اس بات سے نہیں آنکی جائے گی کہ آپ نے اپنے لیے کیا حاصل کیا۔ آپ کی کامیابی کا تجزیہ اس بات سے ہوگا کہ آپ کے کام سے، آپ کے کرئیر سے دوسروں کی زندگی کتنی تبدیل ہوئی ہے۔ جن کی زندگی بدلنے کی ذمہ داری آپ کے پاس تھی، وہ لوگ آپ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ اس لیے آپ کو یہ ہمیشہ یاد رکھنا ہے – اچھی حکمرانی ہی کلید ہے۔
جب عوام پر مرتکز حکمرانی ہوتی ہے، جب ترقی پر مبنی حکمرانی ہوتی ہے تو وہ مسائل کا حل بھی کرتی ہے اور بہتر نتائج بھی دیتی ہے۔ اچھی حکمرانی میں عوام کے تئیں جوابدہی ہوتی ہے۔ ایک ہی ریاست میں ایک ضلع اچھی کارکردگی پیش کرے اور دوسرا نہ کرے تو اس کے پیچھے اصل وجہ اچھی حکمرانی کا فرق ہی ہوتا ہے۔ ہمارے سامنے توقعاتی اضلاع کی مثال ہے۔ ہم نے جب جوش سے بھرے ملک کے نونجوان افسروں کو وہاں تعینات کیا، انہیں اچھی حکمرانی کے لیے ترغیب فراہم کی، تو نتیجے بھی بہترین برآمد ہوئے۔ آج متعدد توقعاتی اضلاع، ترقیاتی پیمانوں میں ملک کے دوسرے اضلاع سے بھی بہت اچھی کارکردگی پیش کر رہے ہیں۔ جب آپ اس پر توجہ مرکوز کریں گے، عوامی شراکت داری پر توجہ دیں گے تو عوام میں ملکیت کا احساس، اس کا جذبہ اور مضبوط ہوگا۔ اور جب عوام الناس کسی اسکیم کو اپنا سمجھ لیتی ہے تو غیر معمولی نتائج آنا یقینی ہو جاتا ہے۔ آپ سووَچھ بھارت ابھیان دیکھ لیجئے، امرت سرووَر ابھیان دیکھ لیجئے، جل جیون مشن دیکھ لیجئے، ان کی کامیابی کی بڑی بنیاد، عوام کے ذریعہ لی گئی ملکیت ہے۔
ساتھیو،
مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ اپنے ضلع کی توقعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک ڈسٹرکٹ ویژن@100 تیار کر رہے ہیں۔ ایسا ہی ویژن پنچایت کی سطح تک ہونا چاہئے۔ اپنی گرام پنچایت، اپنے بلاک، اپنے ضلع، اپنی ریاست میں ہمیں کن شعبوں پر توجہ دینی ہے؟ سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے کون کون سی تبدیلیاں کرنی ہیں؟ ہمارے ضلع، بلاک یا پنچایت میں کون سے پروڈکٹس ہیں جنہیں ہم برآمد کر سکتے ہیں یا اس سطح تک لے جا سکتے ہیں؟ ان کو لے کر ایک واضح ویژن ہمارے پاس ہونا چاہئے۔ آپ اپنے علاقے میں مقامی مصنوعات کو بڑھاوا دینے کے لیے ایم ایس ایم ای اور سیلف ہیلپ گروپوں کے درمیان کڑیوں کو جوڑ سکتے ہیں۔ آپ سبھی کے لیے، مقامی صلاحیت کی حوصلہ افزائی کرنا، مقامی صنعت کاری کو تعاون فراہم کرنا، اسٹارٹ اپ کلچر کو بڑھاوا دینا، میں سمجھتا ہوں کہ یہ وقت کی مانگ ہے۔
ساتھیو،
ہیڈ آف دی گورنمنٹ رہتے ہوئے مجھے 20 سال سے بھی زیادہ وقت ہو چکا ہے۔ آپ میں سے کئی لوگ برسوں سے میرے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ اور میں تو کہوں گا کہ میری خوش قسمتی ہے کہ آپ جیسے ساتھیوں کے ساتھ مجھے کام کرنے کا موقع حاصل ہوا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ میں نے ہمیشہ صلاحیت سازی پر کتنا زور دیا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج آپ سب سول سروینٹس کے درمیان ’مشن کرم یوگی‘ ایک بڑی مہم ب چکی ہے۔ مشن کرم یوگی کا مقصد ہے – سول سروینٹس کی مکمل صلاحیت کو بروئے کار لانا۔ صلاحیت سازی کمیشن اس مہم کو پوری مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھا رہا ہے۔ میرا یہ بھی ماننا ہے کہ تربیت اور تدریس کچھ مہینوں کی رسم بن کر نہیں رہنی چاہئے۔ اس لیے ، تربیت اور تدریس سے وابتہ کوالٹی مٹیرئیل ہر جگہ ہر وقت دستیاب ہو، اس کے لیے آئی جی او ٹی پلیٹ فارم بنایا گیا ہے۔ اب سبھی نئی بھرتیوں کو آئی جی او ٹی پر ’کرم یوگی پرارمبھ‘ کے اورنٹیشن ماڈیول کے ساتھ بھی تربیت فراہم کی جا رہی ہے۔
ساتھیو،
گذشتہ برسوں میں، حکومت نے نوکر شاہی کو ایک اور بندھن سے آزادی دلائی ہے۔ یہ بندھن ہے پروٹوکول اور درجہ بندی کا۔ آپ جانتے ہیں کہ درجہ بندی کے بندھنوں کو توڑنے کی شروعات بھی میں نے خود کی ہے۔ میں مسلسل سکریٹریوں سے لے کر اسسٹنٹ سکریٹریوں تک سے ملاقات کرتا ہوں۔ میں زیر تربیت افسران کے ساتھ ملاقات کرتا ہوں۔ ہم نے محکمے کے اندر ہر کسی کو حصہ داری بڑھانے کے لیے، نئے آئیڈیاز کے لیے مرکزی حکومت میں چنتن شِوِر کو بڑھاوا دیا ہے۔ ہماری کوششوں سے ایک اور بڑی تبدیلی آئی ہے۔ پہلے برسوں تک ریاستوں میں رہنے کے بعد ہی افسران کو ڈپیوٹیشن پر مرکزی حکومت میں کام کرنے کا تجربہ ملتا تھا۔ یہ کسی نے نہیں سوچا کہ اگر ان افسران کے پاس مرکزی حکومت میں کام کرنے کا تجربہ ہی ہیں ہوگا تو وہ مرکز کے پروگراموں کو زمینی سطح پر کیسے نافذ کریں گے؟ ہم نے اسسٹنٹ سکریٹری پروگرام کے ذریعہ اس خلاء کو بھی پر کرنے کی کوشش کی۔ اب نوجوان آئی اے ایس کو اپنے کرئیر کی شروعات میں ہی مرکز حکومت میں کام کرنے کا، اس کا تجربہ حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ سینئر موسٹ لوگوں کے ساتھ اس کو کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ ہمیں اس طرح کی اختراعات کو آگے بڑھانا ہے، ان کوششوں کو نتائج کی بلندی پر لے جانے کی مسلسل کوشش کرنی ہے۔
ساتھیو،
ترقی یافتہ بھارت کے لیے 25 برسوں کی امرت یاترا کو ملک نے کرتویہ کال مانا ہے۔ آزادی کی صدی ملک کی سنہری صدی تب ہوگی، جب ہم فرائض کو ترجیح دیں گے۔ فرائض ہمارے لیے متبادل نہیں عزم ہیں۔ یہ وقت تیزی سے تبدیلی کا وقت ہے۔ آپ کا کردار بھی آپ کے حقوق سے نہیں، آپ کے فرائض اور ان پر عمل کرنے سے طے ہوگا۔ نئے بھارت میں ملک کے شہری کی قوت میں اضافہ رونما ہوا ہے، بھارت کی بھی طاقت بڑھی ہے۔ اس نئے ابھرتے ہوئے بھارت میں آپ کو اہم کردار نبھانے کا وقت ملا ہے ۔ آزادی کے 100 سال بعد جب تاریخ جائزہ لے گی، تو آپ کے پاس موقع ہے کہ اس میں ایک اہم نام آپ کا بھی ہو۔ آپ فخر سے یہ کہیں کہ میں ملک کے لیے نئے نظام وضع کرنے میں ایک کردار ادا کیا ہے، نظاموں کی اصلاح میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ سبھی تعمیر قوم میں اپنے کردار کو وسعت دیتے رہیں گے۔ صلاحیت سازی ہر لمحہ ہماری کوشش رہنی چاہئے خود کے لیے بھی، ساتھیوں کے لیے بھی اور نظام کے لیے بھی ہمیں بتدریج نئی بلندیاں سر کرنے کے لیے حالات کو سازگار بناتے رہنا ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ سول سروسز ڈے یہ سالانہ رسم نہیں ہے۔ یہ سول سروسز ڈے عزائم کا وقت ہے۔ یہ سول سروسز ڈے نئے فیصلوں کا وقت ہے۔ فیصلوں کے مقررہ وقت میں نافذ کرنے کا جوش اور توانائی سے بھرنے کا وقت ہے۔ اس موقع سے ایک نئی توانائی، نئی ترغیب، نئی طاقت، نئی صلاحیت، نیا عزم یہ لے کر ہم چلیں گے، تو جن کامیابیوں کو حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کامیابیوں کو ہم خود چھوکر دیکھیں گے، اسی یقین کے ساتھ میری جانب سے آپ کو بہت ساری نیک خواہشات۔
شکریہ۔