‘‘ بھارت کی سائنسی برادری ، ہمارے ملک کے لئے جائز مقام کو یقینی بنائے گی’’
‘‘ اکیسویں صدی میں ڈاٹا اور ٹکنالوجی کی وافر دستیابی سے بھارت سائنس کی مدد کرے گا’’
‘‘ ہماری سوچ سے صرف یہ نہیں ہے کہ ہمیں خواتین کو سائنس کے ذریعہ بااختیار بنانا چاہئے بلکہ خواتین کے تعاون سے سائنس کو بھی مضبوط بنانا چاہئے’’
‘‘ خواتین کی بڑھتی ہوئی شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ خواتین اور سائنس دو نو ں ہی ملک میں ترقی پذیر ہیں’’
‘‘ سائنس کی کوششیں صرف اس صورت میں ہی عظیم کامیابی بن سکتی ہیں جب وہ لیب سے زمین تک پہنچیں اور ان کے اثرات عالمی سطح سے بنیادی سطح تک پہنچیں ، جب ان کا دائرہ جرنل سے زمین تک پہنچے اور جب تبدیلی تحقیق سے حقیقی زندگی میں نظر آئے ’’
‘‘ اگر ملک مستقبل کے شعبوں میں اقدامات کرتا ہے تو ہم صنعت کو 4.0 تک لے جانے کی پوزیشن میں ہوں گے’’

نمسکار!

‘انڈین سائنس کانگریس’ کے انعقاد کے لیے آپ سب کو بہت بہت مبارکباد۔ اگلے 25 سال میں ہندوستان جس بلندی پر ہوگا اس میں ہندوستان کی سائنسی طاقت کا کردار بہت اہم ہوگا۔ جب ملک کی خدمت کے عزم کو سائنس  کے جذبے کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو اس کے بے مثال نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہندوستان کی سائنسی برادری ہندوستان کو وہ مقام  دلانے  میں مدد کرے گی جس کا وہ 21ویں صدی میں مستحق ہے۔ میں آپ کو اس یقین کی وجہ بھی بتانا چاہتا ہوں۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ مشاہدہ سائنس کی اصل بنیاد ہے۔ آپ سائنسداں مشاہدے کے ذریعےپیٹرن/ نمونوں کی پیروی کرتے ہیں، پھر ان نمونوں کا تجزیہ کرنے کے بعد، آپ کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں۔

اس دوران سائنسداں کے لیے ہر قدم پر ڈیٹا اکٹھا کرنا اور اس کا تجزیہ کرنا بہت ضروری ہے۔ آج کے 21ویں صدی کے ہندوستان میں ہمارے پاس دو چیزیں وافر مقدار میں موجود ہیں۔ پہلا - ڈیٹا اور دوسرا - ٹیکنالوجی۔ ان دونوں میں ہندوستان کی سائنس کو نئی بلندیوں تک لے جانے کی طاقت ہے۔ ڈیٹا تجزیہ کا شعبہ تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ معلومات کو بصیرت اور تجزیہ کو قابل عمل علم میں تبدیل کرنے میں مدد کرتا ہے۔ روایتی علم ہو یا جدید ٹیکنالوجی، یہ دونوں سائنسی دریافت میں مددگار ثابت ہوتے ہیں اور اس لیے ہمیں اپنے سائنسی عمل کو مضبوط بنانے کے لیے مختلف تکنیکوں کے تئیں تحقیقاتی رویہ پیدا کرنا ہوگا۔

ساتھیو،

آج ہندوستان جس سائنسی نقطہ نظر کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اس کے نتائج بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔ سائنس کے میدان میں ہندوستان تیزی سے دنیا کے سرفہرست ممالک میں شامل ہوتا جا رہا ہے۔ 2015 تک، ہم 130 ممالک میں گلوبل انوویشن انڈیکس میں 81 ویں نمبر پر تھے۔ لیکن، 2022 میں، ہم 40 نمبر پر پہنچ گئے ہیں۔ آج ہندوستان پی ایچ ڈی کے معاملے میں دنیا کے ٹاپ 3 ممالک میں شامل ہے۔ آج ہندوستان اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم کے لحاظ سے دنیا کے ٹاپ 3 ممالک میں شامل ہے۔

ساتھیو،

مجھے خوشی ہے کہ اس بار انڈین سائنس کانگریس کا موضوع بھی ایک ایسا ہی موضوع ہے، جس پر دنیا میں سب سے زیادہ بحث ہو رہی ہے۔ پائیدار ترقی سے ہی دنیا کا مستقبل محفوظ ہے۔ آپ نے پائیدار ترقی کے موضوع کو خواتین کو بااختیار بنانے کے ساتھ جوڑا ہے۔ میں اتفاق کرتا ہوں کہ عملی طور پر بھی یہ دونوں ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ آج ملک کی سوچ صرف یہ نہیں ہے کہ ہم سائنس کے ذریعے خواتین کو بااختیار بنائیں۔ بلکہ ہمیں خواتین کی شمولیت سے سائنس کو بااختیار بنانا چاہیے، سائنس اور تحقیق کو نئی رفتار دینی چاہیے، یہی ہمارا مقصد ہے۔ اب ہندوستان کو جی-20 گروپ کی صدارت کی ذمہ داری ملی ہے۔ جی-20 کے اہم موضوعات میں خواتین کی زیر قیادت ترقی بھی ایک اہم ترجیح ہے۔ پچھلے 8 سال میں گورننس سے لے کر سماج اور معیشت تک، ہندوستان نے اس سمت میں کئی ایسے غیر معمولی کام کیے ہیں، جن پر آج بحث ہو رہی ہے۔ آج ہندوستان میں، چاہے وہ مدرا یوجنا کے ذریعے چھوٹی صنعتوں اور کاروباروں میں شرکت ہو یا اسٹارٹ اپ کی دنیا میں قیادت، خواتین ہر جگہ اپنی طاقت دکھا رہی ہیں۔ پچھلے 8 سال میں، ایکسٹرامورل  تحقیق اور ترقی میں خواتین کی شرکت دوگنی ہوگئی ہے۔ خواتین کی یہ بڑھتی ہوئی شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک میں معاشرہ بھی ترقی کر رہا ہے اور سائنس بھی ترقی کر رہی ہے۔

ساتھیو،

کسی بھی سائنسداں کے لیے اصل چیلنج اپنے علم کو ایسی ایپلی کیشنز میں تبدیل کرنا ہے جو دنیا کی مدد کر سکے۔ سائنسداں جب اپنے تجربات سے گزرتا ہے تو اس کے ذہن میں یہی سوالات رہتے ہیں کہ کیا اس سے لوگوں کی زندگی میں بہتری آئے گی؟ کیا ان کی دریافت دنیا کی ضروریات پوری کرے گی؟ سائنس کی کوششیں اسی وقت عظیم کامیابیوں میں بدل سکتی ہیں جب وہ لیب سے نکلیں اور زمین تک پہنچیں، جب ان کا اثر عالمی سطح پر نچلی سطح تک ہو، جب یہ جرائد سے زمین تک پھیلے، جب یہ تحقیق سے حقیقی زندگی میں بدل جائے۔

ساتھیو،

جب سائنس کی عظیم کامیابیاں تجربات سے لوگوں کے تجربات کی طرف سفر کرتی ہیں تو یہ ایک اہم پیغام دیتی ہیں۔ یہ چیز نوجوانوں کو بہت متاثر کرتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سائنس کے ذریعے وہ پوری دنیا کو متاثر کر سکتے ہیں۔ ایسے نوجوانوں کو آگے لے جانے کے لیے ادارہ جاتی فریم ورک کی ضرورت ہےتاکہ ان کی امنگوں کو وسعت دی جا سکے، انہیں نئے مواقع مل سکیں۔ میں یہاں موجود سائنسدانوں سے چاہوں گا کہ وہ ایک ایسا ادارہ جاتی ڈھانچہ تیار کریں، جو نوجوان صلاحیتوں کو راغب کرے اور انہیں آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرے۔ مثال کے طور پر، ٹیلنٹ ہنٹ اور ہیکاتھون کے انعقاد کے ذریعہ  سائنسی ذہن رکھنے والے بچوں کو تلاش کی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد ان بچوں کی سمجھ کو ایک مناسب روڈ میپ کے ذریعے تیار کیا جا سکتا ہے۔ سینئر سائنسداں اس میں ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان کھیلوں میں نئی ​​بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ اس کے پیچھے دو اہم وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے، کھیلوں کی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لیے ملک میں ادارہ جاتی فریم ورک کو مضبوط کیا گیا۔ دوسرا، کھیلوں میں گرو ششیہ پرمپرا کا وجود اور اثر  جہاں نئے ٹیلنٹ کو پہچان کر آگے بڑھایا جاتا ہے۔ جہاں استاد شاگرد کی  کامیابی میں اپنی کامیابی دیکھتا ہے۔ یہ روایت سائنس کے میدان میں کامیابی کا منتر بھی بن سکتی ہے۔

ساتھیو،

آج میں آپ کے سامنے کچھ ایسے موضوعات رکھنا چاہتا ہوں، جو ہندوستان میں سائنس کی سمت کا تعین کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ ہندوستان کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے، ہندوستان میں سائنس کی ترقی، یہ ہماری سائنسی برادری کا بنیادی محرک ہونا چاہیے۔ ہندوستان میں سائنس ، ہندوستان کو خود کفیل  بنانے  والی ہونی  چاہیے۔ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ آج دنیا کی 17-18 فیصد انسانی آبادی ہندوستان میں رہتی ہے۔ اس طرح کے سائنسی کام، جو ہندوستان کی ضروریات کو پورا کریں گے، دنیا کی 17-18 فیصد انسانی آبادی کو رفتار دیں گے اور اس کا اثر پوری انسانیت پر پڑے گا۔ اس لیے آئیے ایسے موضوعات پر کام کریں، جو آج پوری انسانیت کے لیے اہم ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر ہم ایک موضوع لے لیں- توانائی۔ ہندوستان کی توانائی کی ضروریات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں اگر ہندوستان کا سائنسی طبقہ توانائی کی ضروریات سے متعلق اختراعات کرتا ہے تو اس سے ملک کو بہت فائدہ ہوگا۔ خاص طور پر، ملک ہائیڈروجن توانائی کے بے پناہ امکانات کے لیے نیشنل ہائیڈروجن مشن پر کام کر رہا ہے۔ اسے کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ الیکٹرولائزر جیسے مختلف ضروری اجزاء ملک میں ہی بنائے جائیں۔ اگر اس سمت میں کسی نئے متبادل کی گنجائش ہے تو اس سمت میں بھی تحقیق ہونی چاہیے۔ اس کے لیے ہمارے سائنسدانوں اور صنعت کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

ساتھیو،

آج ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں، جب انسانیت نت نئی بیماریوں کے خطرے سے دوچار ہے۔ ہمیں نئی ​​ویکسین کی تیاری کے لیے تحقیق اور ترقی کو فروغ دینا ہوگا۔ آج جس طرح ہم سیلاب یا زلزلے جیسے سانحات سے نمٹنے کے لیے پہلے سے تیار ہیں اسی طرح ہمیں انٹیگریٹڈ ڈیزیز سرویلنس کے ذریعے بیماریوں کی اچھی طرح شناخت کرنا ہوگی اور ان سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے مختلف وزارتوں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ آپ سب میرے ساتھی  لائف (ایل آئی ایف ای ) یعنی لائف اسٹائل فار انوائرمنٹ کے بارے میں اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہماری سائنس کمیونٹی اس سمت میں بہت مدد کر سکتی ہے۔

ساتھیو،

ہندوستان کی اپیل پر اقوام متحدہ نے اس سال یعنی 2023 کو موٹے اناج(ملٹ) کا بین الاقوامی سال قرار دیا ہے۔ یہ ہر ہندوستانی کے لیے بڑے فخر کی بات ہے۔ ہندوستان کے  موٹے اناج  اور ان کے استعمال کو بہتر بنانے کے لیے کام کیا جا سکتا ہے۔ بائیوٹیکنالوجی کی مدد سے فصل کے بعد ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کے لیے سائنسی برادری کے ذریعے موثر اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

ساتھیو،

آج ویسٹ مینجمنٹ  کے شعبے میں بھی سائنسی تحقیق کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ میونسپل سالڈ ویسٹ، الیکٹرانک ویسٹ، بائیو میڈیکل ویسٹ، ایگری کلچرل ویسٹ، ایسے شعبے ہیں، جو مسلسل پھیل رہے ہیں۔ اسی لیے گزشتہ سال کے بجٹ میں حکومت نے سرکلر اکانومی (محوری معیشت) پر بہت زیادہ زور دیا تھا۔ اب ہمیں مشن سرکلر اکانومی کو مزید مضبوط کرنا ہے۔ اس کے لیے ہمیں ایسی ایجادات پر کام کرنا ہوگا، جس سے دھات اور پلاسٹک کے اسکریپ کا بہتر استعمال کیا جاسکے۔ ہمیں آلودگی کو کم کرنے اور اسکریپ کو مفید بنانے پر مل کر کام کرنا ہے۔

ساتھیو،

آج ہندوستان خلائی شعبے میں بھی نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ کم قیمت والی سیٹلائٹ لانچ وہیکل  کی وجہ سے ہماری صلاحیت میں اضافہ ہوگا اور دنیا ہماری خدمات لینے کے لیے آگے آئے گی۔ پرائیویٹ کمپنیاں اور اسٹارٹ اپ ان مواقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اسٹارٹ-اپ، آر اینڈ ڈی لیبز اور تعلیمی اداروں کے ساتھ وابستہ ہو کر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کر سکتے ہیں۔ ایسا ہی ایک موضوع کوانٹم کمپیوٹنگ کا ہے۔ آج ہندوستان کوانٹم فرنٹیئر کے طور پر دنیا میں اپنی شناخت بنا رہا ہے۔ ہندوستان کوانٹم کمپیوٹر، کوانٹم کیمسٹری، کوانٹم کمیونیکیشن، کوانٹم سینسرز، کوانٹم کرپٹوگرافی اور نئے مٹیریئل  کی سمت میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ میں چاہوں گا کہ ہمارے نوجوان محققین اور سائنسداں کوانٹم کے شعبے میں مہارت حاصل کریں اور اس میدان میں رہنما بنیں۔

ساتھیو،

آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ جو پہل کرتا ہے وہی سائنس میں سبقت حاصل کرتا ہے۔ لہذا، ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ کام جو کہیں نہیں ہو رہے، جو مستقبل کے خیالات ہیں، ان پر بھی توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ آج دنیا میں  اے آئی ، اے آر  اور وی آر کا چرچہ ہے۔ ہمیں ان موضوعات کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا۔ ملک سیمی کنڈکٹر چپس کی سمت میں بہت سے بڑے قدم اٹھا رہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سیمی کنڈکٹر چپس میں بھی نئی ایجادات کی ضرورت ہوگی۔ ہم ملک کے سیمی کنڈکٹر پُش کو ابھی سے مستقبل کے لئے تیار کرنے کی سمت میں کیوں نہیں سوچتے؟ ملک ان شعبوں میں پہل کرے گا، تب ہی ہم انڈسٹری 4.0 کی قیادت کر سکیں گے۔

ساتھیو،

مجھے یقین ہے کہ انڈین سائنس کانگریس کے اس اجلاس میں مختلف تعمیری نکات پر مستقبل کے لیے ایک واضح روڈ میپ تیار کیا جائے گا۔ امرت کال میں ہمیں ہندوستان کو جدید سائنس کی جدید ترین تجربہ گاہ بنانا ہے۔ اس آرزو کے ساتھ، آپ سب کا بہت بہت شکریہ اور اس سربراہی اجلاس کے لیے میری ڈھیر ساری نیک خواہشات۔ نمسکار

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
Annual malaria cases at 2 mn in 2023, down 97% since 1947: Health ministry

Media Coverage

Annual malaria cases at 2 mn in 2023, down 97% since 1947: Health ministry
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
PM chairs 45th PRAGATI Interaction
December 26, 2024
PM reviews nine key projects worth more than Rs. 1 lakh crore
Delay in projects not only leads to cost escalation but also deprives public of the intended benefits of the project: PM
PM stresses on the importance of timely Rehabilitation and Resettlement of families affected during implementation of projects
PM reviews PM Surya Ghar Muft Bijli Yojana and directs states to adopt a saturation approach for villages, towns and cities in a phased manner
PM advises conducting workshops for experience sharing for cities where metro projects are under implementation or in the pipeline to to understand the best practices and key learnings
PM reviews public grievances related to the Banking and Insurance Sector and emphasizes on quality of disposal of the grievances

Prime Minister Shri Narendra Modi earlier today chaired the meeting of the 45th edition of PRAGATI, the ICT-based multi-modal platform for Pro-Active Governance and Timely Implementation, involving Centre and State governments.

In the meeting, eight significant projects were reviewed, which included six Metro Projects of Urban Transport and one project each relating to Road connectivity and Thermal power. The combined cost of these projects, spread across different States/UTs, is more than Rs. 1 lakh crore.

Prime Minister stressed that all government officials, both at the Central and State levels, must recognize that project delays not only escalate costs but also hinder the public from receiving the intended benefits.

During the interaction, Prime Minister also reviewed Public Grievances related to the Banking & Insurance Sector. While Prime Minister noted the reduction in the time taken for disposal, he also emphasized on the quality of disposal of the grievances.

Considering more and more cities are coming up with Metro Projects as one of the preferred public transport systems, Prime Minister advised conducting workshops for experience sharing for cities where projects are under implementation or in the pipeline, to capture the best practices and learnings from experiences.

During the review, Prime Minister stressed on the importance of timely Rehabilitation and Resettlement of Project Affected Families during implementation of projects. He further asked to ensure ease of living for such families by providing quality amenities at the new place.

PM also reviewed PM Surya Ghar Muft Bijli Yojana. He directed to enhance the capacity of installations of Rooftops in the States/UTs by developing a quality vendor ecosystem. He further directed to reduce the time required in the process, starting from demand generation to operationalization of rooftop solar. He further directed states to adopt a saturation approach for villages, towns and cities in a phased manner.

Up to the 45th edition of PRAGATI meetings, 363 projects having a total cost of around Rs. 19.12 lakh crore have been reviewed.