نمسکار!
کابینہ کے میرے سبھی ساتھیوں، ریاستی سرکاروں کے نمائندوں، سماجی تنظیموں سے وابستہ ساتھیوں، خاص طور پر شمال مشرق کے دور دراز کے علاقوں کے ساتھیوں!
خواتین اور حضرات،
بجٹ کے بعد، بجٹ اعلانات کو نافذ کرنے کی سمت میں آج آپ سبھی شراکت داروں کے ساتھ بات چیت اپنے آپ میں بہت اہمیت کی حامل ہے۔ سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس ہماری سرکار کی پالیسی اور اقدامات، اس کے بنیادی نتیجہ کا فارمولہ ہے۔ آج کا موضوع ’کوئی بھی شہری محروم نہ رہے‘ بھی اسی فارمولے سے نکلا ہے۔آزادی کے امرت کال کے لئے جو عزائم ہم نے کئے ہیں وہ سب کی کوششوں سے ہی پورے کئے جاسکتے ہیں۔ سب کا پریاس، اسی وقت ممکن ہے کہ جب سب کا وکاس (ترقی) ہوگا۔ ہر شخص، ہر طبقہ اور ہر علاقے کو وکاس (ترقی) کے سبھی فائدے ملیں گے۔ اسی لئے گزشتہ برسوں میں ہم ملک کے ہر شہری، ہر علاقے کی گنجائشوں اور طاقت کو بڑھانے کے لئے مسلسل کوششیں کررہے ہیں۔ ملک کے گاوؤں کو پکے گھروں، بیت الخلا، گیس، بجلی، پانی، سڑک جیسی بنیادی سہولتوں سے منسلک کرنے سے متعلق اسکیموں کا یہی مقصد ہے۔ ملک نے ان میں بہت کامیابی حاصل بھی کی ہے، لیکن اب وقت ہے ان اسکیموں کے سیچوریشن کا، ان کے سوفیصد اہداف کو حاصل کرنے کا۔ اس لئے ہمیں نئی حکمت عملی بھی اختیار کرنی پڑے گی۔ نگرانی کے لئے، جوابدہی کے لئے، ٹکنالوجی کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے، نئے نظام کو وضع کرنا ہوگا۔ ہمیں پوری طاقت لگانی ہوگی۔
ساتھیو،
اس بجٹ میں سرکار کے ذریعہ سیچوریشن کے اس بڑے ہدف کو حاصل کرنے کی غرض سے ایک واضح روڈ میپ دیاگیا ہے۔ بجٹ میں پی ایم آواس یوجنا، گرامین سڑک یوجنا، جل جیون مشن، شمال مشرق کی کنکٹی وٹی، گاوؤں کی براڈ بینڈ کنکٹی وٹی، اس قسم کی ہر اسکیم کے لئے ضروری بندوبست کیاگیا ہے۔ یہ دیہی علاقوں، شمال مشرق کے سرحد کے علاقوں اور امنگوں والے اضلاع میں سہولتوں کی سیچوریشن کی طرف بڑھنے کی کوششوں کا بھی حصہ ہے۔
بجٹ میں جس وائبرینٹ ولیج پروگرام کا اعلان کیاگیا ہے وہ ہمارے سرحدی گاوؤں کی ترقی کے لئے بہت اہم ہے۔وزیر اعظم کی شمال مشرقی خطے کی ترقی سے متعلق پہل کے تحت مقررہ وقت کے اندر ترقی کی اسکیموں کے صد فیصد فوائد کو طے کرنے میں بہت مدد ملے گی۔
ساتھیو،
گاووں کی ترقی میں وہاں گھر اور زمین کا پراپر ڈیمارکیشن ضروری ہے۔ سوامتوا یوجنا سے اس میں کافی مدد مل رہی ہے۔ ابھی تک اسکے تحت 40 لاکھ سے زیادہ پراپرٹی کارڈ ذریعہ کئے جاچکے ہیں۔ لینڈریکارڈس کے رجسٹریشن کے لئے ایک نیشنل سسٹم اور ایک یونک لینڈ آئیڈینٹی فکیشن پن ایک بہت بڑی سہولت ہوگی۔ ریونیو ڈپارٹمنٹ پر گاوں کے عام لوگوں کا انحصار کم سے کم ہو، ہمیں یہ یقینی بنانا ہے۔ لینڈریکارڈس کے ڈیجیٹائزیشن اور ڈیمارکیشن سے جڑے سالیوشن کو جدید ٹکنالوجی سے جوڑنا آج کی ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سبھی ریاستی حکومتیں اگر وقت مقرر کرکے کام کریں گی تو گاوں کی ترقی کو کافی زیادہ رفتار ملے گی۔ یہ ایسے ری فارمس ہیں جو گاوں میں انفرااسٹرکچر کے پروجیکٹس کی تعمیر کی رفتار کو بڑھائیں گے اور گاوں میں بزنس ایکٹیوٹی کی بھی حوصلہ افزائی کریں گے۔ الگ الگ اسکیموں میں 100 فیصد ہدف کے حصول کے لئے ہمیں نئی ٹکنالوجی پر بھی فوکس کرنا ہوگا تاکہ تیزی سے پروجیکٹس بھی پورے ہوں اور کوالٹی بھی کمپرومائز نہ ہو۔
ساتھیو،
اس سال کے بجٹ میں پی ایم آواس یوجنا کے لئے 48 ہزار کروڑ روپئے کا بندوبست کیا گیا ہے ۔ اس سال 80 لاکھ گھربنانے جو نشانہ ہے اسے بھی مقررہ وقت پر پورا کرنے کےلئے تیزی سے کام کرنا ہوگا۔ آپ سبھی جانتے ہیں کہ آج ملک کے چھ شہروں میں افورڈیبل ہاؤسنگ کے لئے نئی ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ، 6 لائٹ ہاؤس پرجیکٹس پر کام کررہے ہیں۔ اس طرح کی ٹکنالوجی گاؤں کے گھروں میں کیسے استعمال ہو، ہمارے ایکوسینسٹیو زونز میں ہورہی کنسٹرکشن کے لئے ہم نئی ٹکنالوجی کا استعمال کیسے کرسکتے ہیں ، ان کے سالیوشن پر ایک مثبت اور سنجیدگی سے بحث کرنے کی ضرورت ہے۔ گاؤں میں ، پہاڑی علاقوں میں ، نارتھ ایسٹ میں سڑکوں کے مینٹیننس بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ مقامی جغرافیائی صورتحال کے مطابق طویل عرصے تک برقرار رہ سکے ، ایسے مٹیریل کی شناخت ، اس کا سالیوشن بھی بہت ضروری ہے۔
ساتھیو،
جل جیون مشن کے تحت تقریباً 4 کروڑ کنکشن دینے کا ٹارگیٹ ہم نے رکھا ہے ۔ اس ٹارگیٹ کو حاصل کرنے کے لئے آپ کو اپنی محنت اور بڑھانی ہوگی۔ میری ہر ریاست حکومت سے یہ بھی درخواست ہے کہ جو پائپ لائن بچھ رہی ہیں، جو پانی آرہا ہے، اس کی کوالٹی پر بھی ہمیں بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ گاوں کی سطح پر لوگوں میں ایک سینس آف آنرشپ آئے ، واٹرگورننس کو تقویت ملے ، یہ بھی اس اسکیم کا ایک ہدف ہے۔ ان سبھی باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں 2024 تک ہر گھر تک نل سے جل پہنچانا ہے۔
ساتھیو،
گاوں کی ڈیجیٹل کنکٹیوٹی اب محض ایک ایسپریشن نہیں ہے، بلکہ آج کی ضرورت ہے براڈ بینڈکنکٹیوٹی سے گاوں میں سہولیات ہی نہیں ملیں گی ، بلکہ یہ گاؤوں میں اسکلڈنوجوانوں کا ایک بڑا پول تیار کرنے میں بھی مدد کرے گی۔ گاؤوں میں براڈبینڈکنکٹیوٹی سے سروس سیکٹر کی توسیع جب ہوگی تو ملک کی طاقت اور زیادہ بڑھے گی۔ آپٹیکل فائبر کنکٹیوٹی میں اگر کہیں کوئی دقتیں آرہی ہیں تو ان کی پہچان اور ان کا حل ہمیں تلاش کرنا ہی ہوگا۔ جن جن گاؤں میں کام پورا ہوچکا ہے وہاں کوالٹی اور اس کے پراپر یوز کے تئیں بیداری پھیلانا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ 100 فیصد پوسٹ آفس کو کور بینکنگ سسٹم میں لانے کا فیصلہ بھی ایک بڑا قدم ہے ۔ جن دھن یوجنا سے فائنانشل انکلوزن کی جو مہم ہم نے شروع کی تھی ، اس کو سیچوریشن تک پہنچانے میں اس قدم سے تقویت ملے گی۔
ساتھیو،
دیہی معیشت کی ایک بڑی ماتر شکتی ہے، ہماری خواتین طاقت ور ہیں۔ فائنانشیل انکلوزن نے کنبوں میں خواتین کی معاشی فیصلوں میں زیادہ حصہ داری کو یقینی بنایا ہے۔ سیلف ہیلپ گروپوں کے توسط سے خواتین کی اس حصہ داری کو اور زیادہ وسعت دیئے جانے کی ضرورت ہے۔ ہم دیہی علاقوں میں زیادہ سے زیادہ اسٹارٹ اپس کو کیسے لے کر جائیں اس کے لئے بھی آپ کو اپنی کوششیں بڑھانی ہوں گی۔
ساتھیو!
اس بجٹ میں اعلان کئے گئے سبھی پروگراموں کو ہم مقررہ وقت کے اندر کیسے پورا کر سکتے ہیں، سبھی وزارتوں، سبھی اسٹیک ہولڈرس کا کنورژن کیسے یقینی بنا سکتے ہیں، اس کو لے کر اس سیمینار میں تفصیلی گفتگو متوقع ہے۔ مجھے یقین ہے کہ لیونگ نو سٹیزن بی ہائنڈ (کوئی شہری پیچھے نہ رہ جائے)، کا مقصد ایسی کوششوں سے پورا ہوگا۔
میری یہ بھی گزارش ہے کہ اس طرح کے سمٹ میں ہم سرکار کی طرف سے زیادہ کچھ بولنا نہیں چاہتے ہیں، ہم آپ کو سننا چاہتے ہیں ، ہم آپ کے تجربات کو جاننا چاہتے ہیں، ہم ہمارے گاؤں کی صلاحیت کیسے بڑھائیں، پہلے تو گورنرس کے نقطہ نظر سے ، آپ سوچئے کبھی، کیا کبھی گاؤں کے اندر جتنی سرکاری ایجنسیوں کا کوئی نہ کوئی رول ہوتا ہے، وہ گاؤں کی سطح پر کبھی دو چار گھنٹے ایک ساتھ بیٹھ کر کے اس گاؤں میں ساتھ مل کر کے کیا کرسکتے ہیں، گفتگو کی ہے، میں طویل عرصے تک ریاست میں وزیراعلیٰ رہ کر کے آیا ہوں، مجھے تجربہ ہے کہ یہ میری عادت نہیں ہے۔ ایک دن میں ایگریکلچر والا جائے گا، دوسرے دن میں آب پاشی والا جائے گا ، تیسرے دن صحت والا جائے گا، چوتھے دن تعلیم والا جائے گا اور ایک دوسرے کو کوئی پتہ نہیں ہوگا، اس گاؤں میں کوئی دن طے کرکے جتنی متعلقہ ایجنسی ایک ساتھ مل کر بیٹھیں، گاؤں کے لوگوں کے ساتھ بیٹھیں، گاؤں کی منتخبہ ادارے کے ساتھ بیٹھیں، بیٹھ کر کہ آج ہمارے گاؤں کے لئے پیسہ اتنا مسئلہ نہیں جتنا کہ ہماری الگ تھلگ رہنےکی عادت کو ختم کرنا، کنورژن ہونا اور اس کا فائدہ لینا۔
اب آپ سوچیں گے کہ بھائی، نیشنل ایجوکیشن پالیسی اور دیہی ترقی کا کیا لینا، اب آپ سوچئے نیشنل ایجوکیشن پالیسی میں ایک موضوع ہے کہ بھائی آپ مقامی جو ہنر ہے اس سے بچوں کو متعارف کرایئے، آپ مقامی علاقوں میں ٹور کے لئے جایئے، کیا کبھی ہم سوچ سکتے ہیں کہ ہمارے جو وائیبرینٹ بارڈر ولیج کی سوچ ہے، ہم اس بلاک میں جو اسکول ہے، اس کی نشان دہی کریں۔ کہیں پر آٹھویں کلاس کے بچے ، کئی پر نویں کلاس کے بچوں کا، کہیں دسویں کلاس کے بچے، دو دن کے لئے ایک رات ، وہاں قیام کرنا، جو آخری ولیج ہے، اس کا ٹور کریں، ولیج کو دیکھیں، ولیج کے پیڑ پودوں کو دیکھیں، وہاں کے لوگوں کی زندگی کو دیکھیں، وائبرنسی آنا شروع ہو جائے گی۔
تحصیل سینٹر پر رہنے والا بچہ 40-50-100 کلو میٹر جا کر آخری سرحدی ولیج جائے گا، اپنے بارڈر کو دیکھے گا، اب ہے تو وہ ایجوکیشن کا پروگرام، لیکن ہمارے وائبرنٹ بارڈر ولیج کے لئے وہ کام آسکتا ہے، تو ہم ایسے کچھ انتظامات ڈیولپ کرسکتے ہیں کیا؟
اب ہم طے کریں کہ تحصیل لیول کی جتنی مقابلہ آرائیاں ہوں گی، وہ سارے پروگرام ہم بارڈر ولیج پر کریں گے، اپنے آپ وائبرنسی آنا شروع ہو جائے گا۔ اسی طرح سے ہم کبھی سو چیں کہ ہمارے گاؤں میں ایسے کتنے لوگ ہیں جو کہیں نہ کہیں سرکار میں کام کرتے ہیں، کتنے لوگ ہیں جو ہمارے گاؤں کے ہیں لیکن اب سرکار میں سے ریٹائر ہو کر یا تو گاؤں میں رہتے ہیں یا قریب ہی کہیں نگر میں رہتے ہیں، اگر ایسا بندو بست ہے تو کیا کبھی سرکار سے جڑے ہوئے یا سرکار کی پنشن پر، یا سرکار کی تنخواہ پر، جن کا تعلق ہے، کیا سال میں ایک بار یہ سب لوگ اکھٹے ہو سکتے ہیں گاؤں میں؟ چلو بھائی یہ میرا گاؤں ہے، میں تو چلا گیا، نوکری کر رہا ہوں، شہر چلا گیا لیکن آیئے اپن بیٹھتے ہیں، اپنے گاؤں کے لئے ہم سرکار میں رہ رہے ہیں۔ سرکار کو جانتے ہیں، بندو بست کرو، چلو مل کر کام کرتے ہیں۔ یعنی یہ ہوئی نئی حکمت عملی۔ کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ گاؤں کا جنم دن طے کریں اور گاؤں کا جنم دن منائیں گے۔
گاؤں کے لوگ 10-15 دن منانے کے بعد گاؤں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے آگے آئیں گے۔ گاؤں کے ساتھ یہ وابستگی گاؤں کو اتنا ہی مالا مال کرے گی جتنا یہ بجٹ سے ہوگا، اس سے بھی زیادہ ہر ایک کی کوششوں سے ہوگا۔
ہم نئی حکمت عملی کے ساتھ ہیں، اب جیسا کہ ہمارے پاس کرشی وگیان کیندر ہے، کیا ہم فیصلہ کر سکتے ہیں، بھائی ہمارے گاؤں میں دو سو کسان ہیں، آئیے اس بار 50 کسانوں کو قدرتی کھیتی کی طرف لے جائیں۔ کیا ہم کبھی سوچ سکتے ہیں؟ ہمارے یہاں موجود زرعی یونیورسٹیوں میں زیادہ تر بچے دیہی ماحول سے پڑھنے آتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی ان یونیورسٹیوں میں جا کر دیہی ترقی کی مکمل تصویر ان بچوں کے سامنے رکھی ہے جو چھٹیوں میں اپنے گاؤں جاتے ہیں، گاؤں کے لوگوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔ اگر آپ تھوڑے بھی پڑھے لکھے ہیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا، حکومت کی اسکیموں کو سمجھیں گے، اپنے گاؤں کے لیے کام کریں گے۔ یعنی کیا ہم کوئی نئی حکمت عملی سوچ سکتے ہیں؟ اور ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ آج ہندوستان کی بیشتر ریاستوں میں پیداوار سے زیادہ نتائج پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ آج بہت پیسہ گاؤں جاتا ہے۔ اگر وہ رقم صحیح وقت پر استعمال کی جائے تو ہم گاؤں کی حالت بدل سکتے ہیں۔
گاؤں کے اندر ایک طرح سے ہمیں ولیج سیکرٹریٹ کہا جاتا ہے اور جب میں ولیج سیکرٹریٹ کہوں گا تو ہم سوچیں گے کہ کوئی عمارت ہونی چاہیے۔ سب کے بیٹھنے کے لیے چیمبر، یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں۔ چاہے آج ہم جہاں کہیں بیٹھیں گے، اتنی چھوٹی جگہ پر بیٹھیں گے، لیکن مل کر تعلیم کے لیے کچھ منصوبہ بندی کر سکتے ہیں۔ آپ نے بھی اسی طرح دیکھا ہوگا۔ حکومت ہند نے خواہش مند اضلاع کا پروگرام شروع کیا۔ ایسا شاندار تجربہ ہو رہا ہے کہ جیسے اضلاع کے درمیان مقابلہ شروع ہو گیا ہو۔ ہر ضلع یہ محسوس کر رہا ہے کہ میں اپنی ریاست میں پیچھے نہیں رہوں گا۔ بہت سے اضلاع محسوس کرتے ہیں کہ وہ قومی اوسط سے آگے نکلنا چاہتے ہیں ۔ کیا آپ اپنی تحصیل میں آٹھ یا دس پیرامیٹرز طے کریں گے؟ ان آٹھ دس پیرامیٹرز میں سے ہر تین ماہ بعد مقابلے کا نتیجہ سامنے آنا چاہیے کہ اس کام میں کون سا گاؤں آگے نکلا ہے؟ کون سا گاؤں آگے ہے؟ آج ہم کیا کرتے ہیں، بہترین گاؤں کے لیے ریاستی سطح کا ایوارڈ دیتے ہیں، بہترین گاؤں کے لیے قومی سطح کا ایوارڈ دیتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر گاؤں میں ہی تحصیل سطح پر پچاس ، سو،ڈیڑھ سو، دو سو دیہات ہیں تو ان کے پیرامیٹرز طے کریں، کہ یہ دس مضامین ہیں، آئیے 2022 میں ان دس مضامین کے لیے مقابلہ کریں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ان دس مضامین میں کون آگے آتا ہے۔ آپ دیکھیں گے، تبدیلی شروع ہو جائے گی اور جب اسے بلاک کی سطح پر تسلیم کیا جائے گا، تبدیلی شروع ہو جائے گی اور اسی لیے میں کہتا ہوں کہ بجٹ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ آج ہمیں زمین پر نتائج اور تبدیلی کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔
کیا گاؤں کے اندر یہ مزاج نہیں بن سکتا کہ ہمارے گاؤں کا کوئی بچہ نقص تغذیہ کا شکار نہ ہو؟ میں کہتا ہوں کہ وہ حکومت کے بجٹ کی پرواہ نہیں کرے گا، ایک بار جب اس کے دل میں یہ بات آگئی تو گاؤں کے لوگ کسی بچے کوبد غذائیت کا شکار نہیں رہنے دیں گے۔ آج بھی ہمارے یہاں یہ رسم ہے۔ اگر ہم کہیں کہ ہمارے گاؤں میں ایک بھی ڈراپ آؤٹ نہیں ہوگا، آپ دیکھیں گاؤں کے لوگ اس میں شامل ہوجائیں گے۔ ہم نے یہ دیکھا ہے، گاؤں کے بہت سے لیڈر ایسے ہیں، پنچ ہیں، سرپنچ ہیں لیکن وہ کبھی گاؤں کے اسکول نہیں گئے۔ اور کب گئے تھے؟ جھنڈا سلامی کے دن گئے، باقی کبھی نہیں جاتے۔ ہم اسے عادت کیسے بنائیں؟ یہ میرا گاؤں ہے، یہ میرے گاؤں کے انتظامات ہیں، مجھے اس گاؤں میں جانا ہے اور یہ رہنمائی حکومت کی تمام اکائیوں کو دینی چاہیے۔ اگر ہم یہ رہنمائی نہیں دیتے اور ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ ہم نے چیک کاٹ دیا، ہم نے رقم بھیج دی، یہ ہو گیا، توتبدیلی نہیں آئے گی۔ اور جب ہم آزادی کے 75 سال کا جشن منا رہے ہیں اور مہاتما گاندھی کی زندگی سے متعلق کچھ باتیں ہیں تو کیا ہم ان پر عمل پیرا نہیں ہوسکتے؟ صفائی، ہندوستان کی روح گاؤں میں رہتی ہے، مہاتما گاندھی نے ایسا کہا ہے، کیا ہم اسے پورا نہیں کر سکتے؟
ساتھیوں،
اگر ریاستی حکومت، مرکزی حکومت، مقامی سوراج تنظیمیں اور ہمارے تمام محکمے مل کر الگ تھلگ رہنے کی عادت کو ختم کرکے یہ کام کرنے کا فیصلہ کریں تو مجھے یقین ہے کہ ہم بہترین نتائج لاسکتے ہیں۔ آزادی کے 75 سال پر ہمیں بھی ملک کو کچھ دینا چاہیے، اسی مزاج کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ آپ آج پورا دن اس بات پر بحث کرنے والے ہیں کہ گاؤں کی زندگی میں ایک ایک پائی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیسے کیا جائے، ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں، اگر ہم یہ کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ کوئی شہری پیچھے نہیں رہے گا۔ ہمارا خواب پورا ہوگا۔ میں آپ سب کے لئے میری نیک خواہشات!
بہت بہت شکریہ!