ایک اجلاس کے دوران برجستہ طور پر شامل ہوتے ہوئے بارہویں درجے کے امتحانات منسوخ کرنے کے لئے طلبا اور والدین نے وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا۔

پرنسپل: نمستے سر!

وزیراعظم مودی: نمستے!

مودی جی : میں نے آپ سب کو ڈسٹرب تو نہیں کیا نا؟ آپ سب لوگ بڑے مزے سے باتیں کر رہے تھے۔  اور  آن لائن اپنی توانائی صرف کر رہے تھے ۔

پرنسپل: نمسکار سر! اور آپ آ گئے سر، آپ نے ہمیں جوائن کیا اس کے لیے بہت بہت شکریہ سر۔ میں نے ابھی انہیں  بتایا کہ ایک خصوصی مہمان آنے والے ہیں سر، انہوں نے سوچا بھی نہیں ہوگا اور سر یہ لوگ آپ کے آنے سے پہلے آپ کے تعلق سے بہت ساری باتیں کر رہے تھے ۔ یہاں آپ کے بہت سارے مداح بھی موجود ہیں۔

مودی جی : اچھا تو میں اچانک آپ کے ہاں آ گیا ہوں لیکن میں آپ کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا ہوں کیوں کہ آپ بڑے ہی ہنسی خوشی کے ماحول میں تھے اور مجھے لگ رہا تھا کہ اب امتحانات کا ٹینشن آپ کو بالکل نہیں ہے۔ اسی کی وجہ سے آپ کی خوشیوں کی کوئی انتہا نہیں ہے، ایسا مجھے نظرآ رہا تھا۔ اور آپ  نےکمرے میں بند ہونے کی وجہ سے اپنی توانائیوں کو آن لائن صرف کرنے کے فن کو بھی سیکھ لیا ہے۔

مودی جی : اچھا کیسے ہیں آپ لوگ؟

طلبا: بہتر ہیں سر! بہت اچھے ہیں سر!

مودی جی : آپ سب صحت مند ہیں؟

طلبا: ہاں سر، صحت مند ہیں!

مودی جی : آپ کے اہل خانہ کے تمام افراد صحت مند ہیں؟

طلبا: جی سر!

مودی جی : اچھا یہ بتائیں جو گذشتہ دنوں آپ نے سنا، اس سے پہلے ٹینشن تھی اور اب ٹینشن گئی، ایسا ہے کیا؟

طلبا: ہاں سر! بالکل سر!

مودی جی : مطلب آپ کو امتحانات کا ٹینشن ہوتا ہے؟

طلبا: جی سر! بہت ہوتا ہے!

مودی جی : پھر تو میرے لیے کتاب کی تصنیف کرنا بالکل ہی بےکار ثابت ہوا۔ میں نے اپنی کتاب 'اکزام واریئر'میں کہا ہے کہ کبھی ٹینشن نہ لیں، پھر آپ طلبا و طالبات ٹینشن کیوں لیتے تھے؟

طلبا: سر ہم ہر روز تیاریاں کرتے تھے، تب ٹینشن کی کوئی بات نہیں ہوتی ہے سر۔

مودی جی :  کب ٹیشن ہوتا ہے؟

طلبا: سر ٹینشن کچھ نہیں ہوتا ہے اور نوجوانوں کے لیے صحت سب سے زیادہ ضروری ہے، اس لیے اتنا شاندار فیصلہ کیا گیا، جس کے لیے ہم زندگی بھر آپ کے احسان مند ہوں گے۔

مودی جی : لیکن آپ بتائیے کہ آپ کا نام کیا ہے؟

طالب علم: سر، ہتیشور شرما، پنجکولہ سے۔

مودی جی : ہتیشور شرما جی! پنچکولہ میں رہتے ہیں؟

طالب علم: جی سر!

مودی جی : کس سیکٹر میں؟

طالب علم: سیکٹر 10 میں سر!

مودی جی : میں سات میں رہتا تھا، برسوں تک وہاں قیام کیا ہے میں نے۔

طالب علم: مجھے آج ہی اس بات کا علم ہوا ہے۔

مودی جی : ہاں، میں وہاں رہتا تھا۔

طالب علم: جی سر، سر یہاں پر بہت سارے آپ کے مداح ہیں جو آپ کو دوبارہ  دیکھنا چاہتے ہیں۔

مودی جی : اچھا یہ بتاؤ بھئی، آپ تو دسویں میں ٹاپر تھے، تو یہ بات تو پکی ہے کہ گھر میں تیاریاں چل رہی ہوں گی کہ آپ بارہویں میں بھی ٹاپ کریں گے۔ اب تو امتحانات ہی منسوخ ہوگئے تب تو آپ کی ساری تیاریاں رک گئیں۔

طالب علم: سر میں وہی عرض کر رہا تھا، توقعات تو ہوں گی ہی لیکن جناب،اگر میں امتحان دیتا تو دباؤ تو بڑھتا ہی جارہا تھا، لیکن میں ایک نقطہ اطمینان تک پہنچ گیا تھا اوریہ محسوس کر رہا تھا کہ یہ اتنامحفوظ بھی نہیں ہے اور آپ نے اچانک ایسا بہترین  فیصلہ لے لیا۔ ور میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ جو ٹاپر ہے یا جو سخت محنت کرتا ہے، اس کی محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی، علم اور جانکاری ہمارے ساتھ ہمیشہ موجود رہتی ہے سر۔ اور جو مسلسل تیاری کرتا رہا  ہے، جو مستقل اپنی پڑھائی کی طرف توجہ دیتا ہے، سر، جو بھی معیارہوگا، جو بھی آپ فیصلہ کریں گے،تو اس  میں وہ پھر سر فہرست رہیں گے۔ لہذا اس میں انہیں اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ٹاپرس مایوس ہیں۔ میں یہ مانتا  ہوں کہ ہم نے پہلے ہی ایک ایسا انتظام کر رکھاہے کہ آپ دوبارہ پیپر دے سکتے ہیں۔  میں تو اسے بہت ہی دانشمندانہ فیصلہ سمجھتا ہوں۔ اور ہم اس کے لیے پوری زندگی آپ کے مشکورو ممنون ہوں گے۔

مودی جی: اچھا بچوں کچھ لوگوں کا ایسا رویہ ہے جو اپنے آپ کو بڑے کہتے ہیں اور خود کو بہادر سمجھتے ہیں۔ خود کو بڑا پہلوان باور کراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں ماسک نہیں لگاؤں گا، میں ان اصولوں کو نہیں مانوں گا، میں یہ نہیں کروں گا۔ تب آپ لوگوں کو کیسا لگتا ہے؟

طالب علم: سر! ان اصولوں کو تو تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔جیسا کہ ابھی آپ نے کہا  کہ جب لوگ ماسک نہیں لگاتے ہیں یا کووڈ کی گائیڈ لائنز پر عمل نہیں کرتے ہیں تو ایسی صورتحال کو مایوسی سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ ہماری حکومت نے  اس سلسلے میں اتنی زیادہ بیداری لانے کی کوشش کی ہےاور اس عالمی وبا کے تعلق سے بین الاقوامی ادارے بھی بہت زیادہ بیداری اور لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔جب ان چیزوں کو لوگ نہیں سمجھتے تو بہت برا لگتا ہے۔ اور میں آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہوں گی کہ ہم نے اور ہمارے اطراف رہنے والے کچھ بچوں نے لوگوں کو بیدار کرنے کے لیےچند ماہ قبل  ایک مہم چلائی تھی۔اس وقت جب یہاں اَن لاک تھا۔(جب یہاں لاک ڈاؤن نہیں لگا تھا)۔ہم نے کئی نکڑ ناٹک کیے۔ہم نے کورونا کی گائیڈ لائنزپر عمل کرنے کے لیے لوگوں کو بیدار کیا۔ انہیں بتایا کہ ان اصولوں پر عمل کرنا کتنا ضروری ہے۔جگہ جگہ جاکر لوگوں کو آگاہ کیا کہ کیسے ماسک کو اپنے معمول کا حصہ بنانا ہے،ایک دوسرے سے سماجی فاصلہ(سوشل ڈسٹینسینگ )رکھنا ہے۔ہاتھوں کو بار بار دھلنا ہے۔ ہم نے لوگوں کو بتایا کہ یہ کتنا اہم ہے اور اس پر عمل کرنا کتنا ضروری ہے۔ میری یہ سوچ ہے کہ اگر ہر سطح پر اس طرح کی کوششیں کی جائیں اور خود ہی اس تعلق سے ذمہ داری لی جائے اور معاشرے میں بہت بڑی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔

مودی جی:  اچھا میں یہ جاننا چاہوں گا کہ آپ لوگوں نے(کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ)جب بارہویں میں بچے ہوتے ہیں تو ان کے ذہن میں یہ منصوبہ ہوتا ہے کہ آج یہ مطالعہ کرنا ہے، کل یہ پڑھنا ہے، صبح چار یا پانچ بجے بیدار ہوجانا ہے، یہ کریں گے، وہ کریں گے۔ یہ ساری باتیں آپ نے سوچی ہوں گی۔ مطالعے کے لیے ٹائم ٹیبل بنایا ہوگا۔یہ ساری قواعد گذشتہ دنوں یعنی یکم جون کی صبح تک چل رہی ہوں گی۔اچانک سارے پروگرام رک گئے۔ ایک رکاوٹ آگئی۔ اب آپ لوگ اس رکاوٹ  سے کیسے نمٹیں گے؟

طالبہ: نمسکار سر، ویدھی چودھری، گوہاٹی، رویال نوبل اسکول سے!

مودی جی: گوہاٹی سے ہیں؟

طالبہ: جی سر!

مودی جی: سر میں محض اتنا ہی عرض کرنا چاہوں گی کہ ابھی ابھی جو آپ نے کہا کہ یکایک گذشتہ دنوں صبح تک سب کے ذہنوں میں کئی طرح کی چیزیں چل رہی تھیں۔ آپ نے اپنی کتاب 'اکزام واریئر'کے تعلق سے بھی بتایاتو میرا یہ کہنا ہے کہ جب میں دسویں میں تھی اور  میرے امتحانات ہونے والے تھے، میں سفر کر رہی تھی، کولکاتا سے یہاں آ رہی تھی تو ایئر پورٹ پر میں نے آپ کی کتاب دیکھی۔ جناب میں نے اسے فوراً ہی خرید لیا۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔میں نے ایک ماہ تک مسلسل اس کتاب کا مطالعہ کیا۔آپ نے کتاب کی ابتدا ہی اس انداز میں کی تھی کہ امتحانات کو تہواروں کی طرح مناؤ۔ تو جناب تہواروں کے لیے خوفزدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے۔مطلب یہ کہ تہواروں کے لیے تو ہم تیاریاں کرتے ہیں کہ ہم اسے شاندار طریقے سے منائیں۔ اور آپ نے سب سے بڑا منتر یوگا کا دیا تھا۔ آپ نے اس کتاب کا اختتام ہی یوگا کو روزمرہ کے معمول میں شامل کرنے کے سبق سے دیا ہے۔اس سے مجھے بہت فائدہ پہنچا۔یہ صحیح ہے کہ حالات اچھے نہیں تھے، سب کچھ تھا لیکن جس طرح ہم تیاریاں کرتے تھے(اسکول جانا اور وہاں سے بہت کچھ سیکھنا) ایسا نہیں ہوپایا۔ میں نے بارہویں کے امتحانات کے لیے بھی اسی طرح تیاری کی ہے۔ سر! آپ کا بہت بہت شکریہ اس کتاب کے لیے جس سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔

مودی جی: اچھا میرے سوال کا جواب رہ گیا۔ ایک طالب علم بار بار اپنے ہاتھوں کو اٹھا رہے ہیں۔ ان کو موقع نہیں ملا ہے۔ آپ کا کیا نام ہے؟

طالب علم: سر، میرا نام نندن ہیگڑے ہے!

مودی جی: نندن ہیگڑے، کرناٹک سے ہیں؟

طالب علم: جی سر، کرناٹک سے، بنگلورو سے جناب!

مودی جی: جی بتائیں!

طالب علم: سر، میرا یہ خیال ہے کہ یہ امتحان میری زندگی کا آخری امتحان تو ہے نہیں۔آگے بھی کئی امتحانات آنے والے ہیں سر۔ اب ہمیں اپنی صحت و تندرستی کو بچا کر رکھنا ہے تاکہ مستقل میں آنے والے امتحانات کا اچھے طریقے سے سامنا کیا جا سکے۔

مودی جی: اچھا تو پھر آپ امتحان سے فری ہوگئے، اب کیا آئی پی ایل کے میچز دیکھنے میں اپنا وقت لگائیں گے یا چیمپیئنز لیگ فائنل دیکھیں گے یا فرنچ اوپن دیکھنے کا ارادہ ہے یا جولائی میں اولمپک شروع ہونے والا ہے، اس اولمپک میں ذہن لگائیں گے۔ بھارت سے اولمپک کے لیے کون کون سے کھلاری جا رہے ہیں؟ ان کا بیک گراؤنڈ کیا ہے؟اس میں طبیعت لگے گی یا پھر 21 تاریخ کو یوگا دیوس(یوم یوگ) ہے، اس میں اپنی توانائی لگانی ہے۔ کیا کرنا ہے آپ کو؟

طالب علم: تمام طرح کی چیزوں میں طبیعت لگے گی سر!

مودی جی: یہ چشمہ پہنے ہوئی بیٹی کچھ کہنا چاہتی ہے، کب سے اسے کچھ بولنے کا موقع نہیں مل رہا ہے۔

طالبہ:نمسکار سر! جناب جیسے ہی پتہ چلا کے آپ نے ہمارے تمام امتحانات کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہےتو ہمیں بہت زیادہ خوشی ہوئی اور آخرکار دباؤ کم ہوا۔ہمیں معلوم ہے کہ اب ہمیں صرف مسابقتی امتحانات کے لیے  تیاریاں کرنی ہیں۔پہلے یہ ہوتا تھا کہ بورڈز کے امتحانات کے لیے تیاریاں کرتے پھر مسابقتی امتحانات کے لیے الگ سے تیاری کرنی پڑتی تھی۔ ہمارے پاس اب اتنا وقت ہے ہم کافی بہتر انداز سے مسابقتی امتحانات کی تیاریاں کر سکتے ہیں۔ سر، آپ کا بہت بہت شکریہ!۔

مودی جی: دماغ سے امتحان کا خوف جاتا نہیں ہے؟

طالبہ: جی سر، بالکل نہیں جاتا

مودی جی: اب تو آپ گھر پر ہیں ۔ اب تو والدین آپ کی تمام باتیں سنتے ہوں گے؟

طالبہ: جی سر!

مودی جی: کہاں ہیں دکھائیں مجھے؟

طالبہ: سر میں انہیں بلاتی ہوں

مودی جی: نمستے جی!

گارجین: نمسکار سر!

مودی جی: آپ کو کیا لگا، اب آپ کی بیٹی آزاد ہوگئی؟

گارجین: سر، یہ بہت بہتر فیصلہ ہےکیوں پورے ملک کے حالات خراب ہیں اور اس فیصلے سے بچوں کے ذہنوں سے دباؤ ختم ہوگیا۔ یہ مسقبل کے لیے اور اپنے کیرئیر کے لیے تیاریاں کر سکتے ہیں، ہمیں کافی اچھا لگا۔

مودی جی: مجھے بہت اچھا لگا کہ آپ نے اسے بہت مثبت انداز میں لیا ہے۔ ہاں، اور کئی بچے کچھ کہنا چاہتے ہیں؟

طالب علم: نمسکار سر، کیندریہ ودیالیہ بنگلورو سے ہوں سر۔ سر میں آپ کا بہت بڑا مداح ہوں۔

مودی جی: بہت شکریہ

طالب علم: سر آپ کا یہ فیصلہ بہت شاندار ہے کیوں کہ سر سلامت تو پگڑی ہزار، تو سر سلامت تو رکھنا پڑے گا۔

مودی جی: صحت ہی اصل دولت ہے، ہمارے ہاں تو یہ مقولہ بہت مشہور ہے نا؟

طالب علم: جی سر، جناب آپ ہی ہمارے لیے ترغیب کا باعث ہیں۔

مودی جی : اچھا، سر سلامت تو پگڑی ہزار والی کہاوت تو نہایت معقول ہے لیکن سر کا مطلب یہ تو نہیں کہہ رہے ہیں کہ دماغ ہی سلامت رہے یا پھر پورا جسم۔ اس تعلق سے آپ کیا سوچتے ہیں ؟

طالب علم: میری مراد پورے جسم سے ہے سر، یعنی صحت و تندرستی میری مراد تھی۔

مودی جی : اچھا یہ بتائیں کہ جسم کو تندرست رکھنے کے لیے کیا کرتے ہیں اور اس پر کتنا وقت صر ف کرتے ہیں اور کیا کرتے ہیں کہ  آپ کاجسم تندرست و توانا رہے۔

طالب علم: میں ہر دن صبح بیدار ہونے کے بعد 30 منٹ تک یوگا کرتا ہوں سر، یوگا اور مشق کرتا ہوں سر، میں اور مجھ سے جو چھوٹا بھائی ہے ہم دونوں ہی ہر روز ایسا کرتے ہیں۔

مودی جی : آپ کے گھر کے دیگر افراد آپ کی باتیں سن رہے ہیں، میں پوچھوں گا ایسا نہ ہو کہ آپ پکڑے جائیں۔

طالب علم: نہیں سر! 30 منٹ ہر دن یوگا کرتا ہوں سر۔ میں اور چھوٹا بھائی ساتھ مل کر کرتے ہیں سر، اور ہر روز اپنے ذہن کو ترو تازہ رکھنے کے لیے تبلہ بجاتا ہوں جس سے میرا ذہن فریش رہتا ہے سر۔

مودی جی : تو موسیقی آپ کی فیملی  کے ہر فرد کو پسند ہے؟

طالب علم: جی سر، میری والدہ بھی ستار اور تانپورہ بجاتی تھیں

مودی جی : اسی لیے گھر میں موسیقی کی فضا بنی ہوئی ہے

مودی جی :  اچھا، اب جس طالب علم کو بھی مجھ سے بات کرنے کا موقع نہیں ملا ہے وہ اب مجھ سے گفتگو کر سکتا ہے، انہیں اب موقع دوں گا۔ ابھی ایک بچی جس نے سفید ایئرفون لگا رکھا ہے میرے سامنے موجود ہے اور مجھے کچھ بتایا چاہتی ہے۔

طالبہ: نمستے سر! میرا نام کشش نیگی ہے ، میں ایم آر اے ڈی اے وی پبلک اسکول، سولن، ہماچل پردیش سے ہوں۔ سر آپ سے صرف ایک بات کہنا چاہتی ہوں کہ میرے خوابوں کے سچ ہونے جیسا ہے۔ میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ آپ سے ایسے ملاقات ہوگی۔ اور سر آپ کاشکریہ  ادا کرنا چاہتی ہوں ۔ آپ نے  جو حالیہ فیصلہ کیا ہے وہ بالکل درست ہے کیوں کہ ڈیڑھ سال گزر چکے ہیں اور بارہویں کے طلبا و طالبات ابھی تک اسی کلاس میں ہیں۔ زندگی جیسی تھم سی گئی تھی۔ کچھ نیا پن نہیں تھا۔ اسی لیے آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں کے آپ نے طلبا کے مفاد میں بہت بہتر فیصلہ کیا ہے۔ آپ کا بہت بہت شکریہ سر!

مودی جی : جس بچی نے انگلی اٹھا ئی، ذرا بتائیں بیٹا کیا کہنا چاہتی ہیں۔

طالبہ: نمسکار سر، میں دلی پبلک اسکول، جے پور، راجستھان سے بارہویں کلاس کی طالبہ ہوں۔ میرا نام جنت ساکشی ہے۔ بارہویں بورڈ کے امتحانات کے لیے آپ نے جو فیصلہ کیا ہے میں اس کا خیر مقدم کرتی ہوں۔ موجودہ حالات کے پیش نظر یہ فیصلہ بالکل صحیح ہے۔ کیوں کہ بچوں کا تحفظ اور ان کی صحت و سلامتی سب سے زیادہ ضروری ہے۔ ہمیں سی بی ایس ای بورڈ پر پورا یقین ہے کہ وہ نمبرات کی درجہ بندی کے سلسلے میں جو بھی لائحہ عمل مرتب کریں گے وہ ہمارے مفاد میں ہوگا۔مجھے پورا یقین ہے کہ ہمیں ہماری محنت کا پورا پھل ملے گا۔ بہت بہت شکریہ سر!

مودی جی : اب جتنے بھی بچوں کے والدین یہاں موجود ہیں سب ایک ساتھ اسکرین کے سامنے آجائیں۔ یہ تمام کے لیے بھی اور میرے لیے بھی بہتر ہوگا کہ سب سے ایک ساتھ بات چیت کرلوں۔ اور یہ بھی ہے کہ آپ تمام ہی لوگوں کو سچ بولنا پڑے گا۔ ایک نوجوان مجھے نظر آ رہے ہیں جو کچھ بولنے کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے سفید رنگ کی قمیض پہن رکھی ہے۔ بتائیں کیا کہنا ہے۔

طالب علم 1: سر میری والدہ فی الوقت یہاں پر موجود نہیں ہیں لیکن جب ہم ساتھ بیٹھ کر باتیں کیا کرتے تھے تو وہ مجھ سے کہتی تھیں کہ پریشان نہ ہو۔ مودی جی سب بہتر کر دیں گے۔ فکر نہ کرو مودی جی کر دیں گے۔ لاک ڈاؤن کے دوران جب میری داڑھی بڑھ جاتی تھی تو ممی کہتی تھیں کہ حجامت کیوں نہیں بنواتا۔ میں نے ان سے کہا کہ مودی جی کا مداح ہوں ، داڑھی کو ایسے ہی بڑھا کر رکھوں گا۔

طالبہ  2: سر ، میرا نام شیوانجلی اگروال ہے، سر میں کیندریہ ودیالیہ، جے این یو، نئی دہلی کی طالبہ ہوں۔ سر میں یہ عرض کرنا چاہتی ہوں کہ بورڈ کے امتحانات کو منسوخ کرنے کا فیصلہ آپ کا بہت اچھا ہے۔ اب ہمیں کافی وقت مل گیا ہے جس میں ہم انٹرینس اکزام اور مسابقتی امتحانات  کی تیاریاں کریں گے۔ آپ کا بہت بہت شکریہ!

مودی جی : اچھا اب آپ لوگ یہ کریں کہ ایک کاغذ پر نمبر لکھ کر انتظار کریں تاکہ جو نمبر میں بولوں اس نمبر کا فرد فوراً مجھ سے رابطہ کرے کیوں کہ میں تو اچانک یہاں آ پہنچا ہوں اس لیے مجھے بچوں اور ان کے والدین کے نام پتہ نہیں ہیں۔ میں تو ایسے ہی آپ کو پریشان کر رہا ہوں۔

گارجین: نمستے سر! ہم آپ کے بہت بڑے مداح ہیں۔ آپ جو بھی فیصلہ کریں گے وہ بچوں کے مفاد میں ہی ہوگا۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں سر اور ہمیشہ آپ کے ساتھ رہیں گے۔

مودی جی : نمبر ون

گارجین: نمسکار سر! آپ کا بہت بہت شکریہ سر، آپ کا یہ فیصلہ کافی بہتر تھا ، ہمارے بچوں کے لیے ۔ ابھی ان کے پاس  ....

مودی جی : میں ابھی تمام ہی لوگوں کو یہ عرض کیا ہے کہ آپ اس فیصلے سے باہر آجائیں، امتحانات سے باہر نکلیں۔ ہم کچھ اور باتیں کر سکتے ہیں کیا؟

گارجین: بالکل س، بالکل! اور اچھی باتیں کریں۔ شاہ رخ خان سے ملاقات کرنے پر جو خوشی نہیں ہوتی اتنا آپ سے مل کر خوشی ہو رہی ہے۔ یہ تو خواب کے سچ ہونے جیسا ہے۔آپ سے بات چیت کرکے بہت اچھا لگا سر۔آپ سب سے بہتر ہیں ہی۔آپ نے بچوں کو کافی وقت دے دیا ہے۔ اس وقت کا بچے کافی اچھے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مستقبل کے لیے اچھی تیاری کرسکتکے ہیں اور اپنا کریئر کو مزید بہتر بنانے میں ان اوقات کو لگا سکتے ہیں۔

مودی جی: 26

گارجین: ایک ڈانسر ہونے کی حیثیت سے میرے نزدیک ذہنی صحت اور جسمانی صحت دونوں ضروری ہے۔ اور اسی کے لیے میں رقص کرتی ہوں۔میں کتھک ڈانس کرتی ہوں۔ سائکلنگ بھی کرتی ہوں جب طبیعت ہوتی ہے۔میں پہلی چیز آپ کے ساتھ یہ شیئر کرنا چاہتی ہوں کے نتائج آنے کے بعد اور امتحانات کی منسوخی کا آپ کا فیصلہ آنے کے بعد 12 بجے سوگئی تھی کیوں کہ امتحانات کی وجہ سے صبح 8 بجے جگنا پڑتا تھا لیکن اس دن میں 12 بجے تک سوئی رہی تھی۔

طالب علم: سر میرا نام ..... میں تمل ناڈو سے ہوں سر! سر مجھے پتہ تھا کہ بورڈ کے امتحانات منسوخ ہوجائیں گے۔ تو میں بہت کم پڑھتا تھا۔ ویسے تو ہم راجستھان سے ہیں لیکن رہتے تمل ناڈو میں ہیں۔

مودی جی : تو  آپ علم نجوم بھی پڑھتے ہیں۔ علم نجوم سے واقف ہیں کیا؟یہ کیسے پتہ چلا کہ ایسا ہونے والا ہے؟

طالب علم: جی سر! بس اندازہ لگایا تھا کہ ایسا ہونے والا ہے۔اور یہ کافی اچھا فیصلہ تھا۔لاک ڈاؤن کی وجہ سے فیملی کے ساتھ اچھا وقت گزرا۔

مودی جی:  ہفتے بھر میں ہی گھر والے سب ناراض ہوجائیں گے تم دیکھنا۔ تم یہ نہیں کرتے ہو، تم جلدی بیدار نہیں ہوتے ہو، چلو غسل کرلو، تم نہاتے نہیں ہو، چلو تمہارے پاپا کے آنے کا وقت ہوگیا ہے، اب دیکھیئے ڈانٹ پڑنے والی ہے۔

طالب علم: میرا نام تمنا ہے سر! میں ڈی اے وی پبلک اسکول ، مغربی بنگال سے ہوں۔ جیسا آپ نے کہا کہ ہمارے پاس اب کافی وقت ہے تو لاک ڈاؤن میں میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ ایک یو ٹیوب چینل شروع کیا تھا۔ تو اس پر بھی فوکس کر سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ میں نے ....

مودی جی: یو ٹیوب چینل کا کیا نام ہے؟

طالب علم:tamannasharmilee ….   اس پر ہم لوگ الگ الگ طرح کے ویڈیوز اپ لوڈ کرتے ہیں۔ ہم نے ایک چھوٹی سی نظم اس پر ڈالی تھی۔ اس پر ویڈیو اور شارٹ فلم بھی اپ لوڈ کی ہے۔

مودی جی:  21،    ہاں بتاؤ بیٹا!

طالب علم: سر میرے دادا اور والد صاحب میرے ساتھ ہیں۔

گارجین: سر ہر اس چیز کے لیے آپ کا بہت بہت شکریہ جو آپ نے ہمارے اس  ملک کے لیے کی ہے۔ آپ کا بہت شکریہ۔ اس کے علاوہ مجھے اور کچھ نہیں کہنا ہے۔آپ نے ہر شعبے میں جو کچھ کیا ہے اس کے لیے بھی آپ کا بہت بہت شکریہ

طالب علم: سر مجھ سے زیادہ میری دادی ہر چیز سے باخبر رہتی ہیں۔ آپ کی ہر خبر پر نظر رکھتی ہیں۔ آپ کو فالو کرتی ہیں اور مجھے بتاتی رہتی ہیں کہ آج یہ اعلان ہوا ہے یا آج یہ ہوا ہے۔ وہ آپ کی بہت بڑی مداح ہیں۔

مودی جی:  اچھا تو آپ کی دادی کو ساری سیاست کا علم ہے؟

طالب علم: ہاں سر! دادی کو ساری سیاست کا خوب پتہ ہے۔ سیاسی خبروں سے ہمیشہ باخبر رہتی ہیں۔

مودی جی:  اچھا، آزادی کے اس سال 75 سال پورے ہوئے ہیں۔ کیا آپ لوگ جنگ آزادی میں جس ضلع میں آپ رہ رہے ہیں وہاں کیا واقعات رونما ہوئے تھے؟ آزادی کے وقت وہاں کیا ہوا تھا ؟ اس پر ایک اچھا اور تفصیلی مضمون لکھ سکتے ہیں کیا؟

طالب علم: جی سر! بالکل لکھ سکتے ہیں۔

مودی جی: تحقیق کریں گے

طالب علم: یقیناً سر!

مودی جی: حتمی مانوں نا اسے میں

طالب علم: بالکل سر!

مودی جی:  بہت خوب

گارجین: سر میں آپ کی بہت بڑی مداح ہوں سر۔ سر آپ نے جو فیصلہ کیا ہے وہ بہت اچھافیصلہ ہے۔آپ نے ملک کے تما م بچوں کے بارے میں سوچا اور یہ چیز مجھے بہت اچھی لگی۔ میں آپ کی بڑی مداح ہوں۔ آپ نے کشمیر میں جو دفعہ 370 ہٹانے کا فیصلہ کیا سر وہ بھی مجھے بہت اچھا لگا۔ وہ فیصلہ بھی بہت بہترین تھا۔

مودی جی: بہت شکریہ

طالب علم: سر یہ میرے والدین ہیں

مودی جی:  سب کو پتہ چل گیا کہ آپ نے مجھے کیا کیا بتایا ہے، اب آپ کو فالو کرنا پڑے گا۔

گارجین: سر میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ سر آپ کی تمام خوبیوں کا دل سے قدر دان ہوں۔ آپ کی ایمانداری کا بھی قائل ہوں سر۔ لیکن سر ایک گذارش ہے آپ سے کہ ابھی بھی ملک میں جو ایمانداری سے کام کرتے ہیں ان کا بہت زیادہ استحصال کیا جاتا ہے۔اس لیے براہ کرم کچھ ایسی پالیسی وضع کریں کہ ان لوگوں کو احترام کی نظروں سے دیکھا جائے  اور ان کی ایمانداری سے بچے بھی متاثر ہوں ۔ ان کی پیروی کریں اور ان کے نقش راہ کا اختیار کرنے میں فخر محسوس کریں۔

مودی جی: پالیسی تو بنتی ہی ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کی عادت اس میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ ہم سب مل کر اچھی فضا بنائیں گے تو حالات بہتر ہوں گے۔ سب کچھ بہتر ہوسکتا ہے۔

مودی جی: 31؟

طالب علم: جے ہند سر!

مودی جی: جے ہند! ہاں بتائیے بیٹا کیا کہنا چاہتی ہو؟

طالبہ: سر میرا نام ارنی ساملے ہے۔ میں اینی بیسینٹ اسکول، اندور سے ہوں۔ سر جو آپ نے ابھی حال ہی میں فیصلہ کیا وہ تو اچھا تھا ہی اس کے ساتھ ہی ...

مودی جی:  آپ کا اندور کس بات کے لیے مشہور ہے؟

طالبہ: صفائی ستھرائی کے لیے

مودی جی: صفائی ستھرائی کے معاملے میں اندور نے جس طرح سے کمال کیا ہے وہ واقعی شاندار ہے اور اس کی شہرت ہر طرف ہے۔ یہ نمبر پوری طرح نظر نہیں آ رہا ۔ آپ کا نمبر پانچ ہے کیا؟

طالب علم:نمسکار سر! سر میں جواہر نودیہ ودیالیہ، منڈی ، ہماچل پردیش سے ہوں۔ سر میرے دادا آپ کے بہت بڑے مداح ہیں۔

مودی جی: آپ کا گاؤں کا واقع ہے؟

گارجین:  ہماچل پردیش کے پاس ضلع منڈی ہے۔ منڈی سے نزدیک ہے آٹھ –نو کلو میٹر .... اور ٹھیک ہیں؟

مودی جی: میں ٹھیک ہوں! پہلے تو مجھے آپ کے یہاں سے سیو بڑی کھانے کو ملتی تھی۔

چلیئے مجھے بہت اچھا لگا، آپ سب لوگوں سے بات کرنے کا مجھے موقع ملااور یہ یقین مزید مضبوط ہوا بھارت کا نوجوان مثبت سوچ کا حامل بھی ہے اور پریکٹیکل بھی۔منفی سوچ کی جگہ آپ لوگ ہر پریشانی اور چیلنج کو اپنی طاقت بنا لیتے ہیں۔ یہ ہمارے ملک کے نوجوانوں کی خاصیت ہے۔گھر میں رہ کر آپ تمام نوجوانوں نے جتنی اختراعات کی ہیں،جتنی نئی نئی چیزیں سیکھی ہیں اس نے آپ لوگوں میں نئی خوداعتمادی پیدا کی ہے۔ اور میں دیکھ رہاتھا کیوں کہ آج میں اچانک آ گیا، آپ کو معلوم بھی نہیں تھا پھر بھی بات چیت کے دوران آپ تھوڑا بھی لڑکھڑائے نہیں، جس طرح آپ اساتذہ کے ساتھ یا گارجین کے ساتھ روز باتیں کرتے ہیں اسی طرح آپ لوگوں نے آج مجھ سے بھی باتیں کی ہیں۔یہ جو اپنا پن ہے یہ میرے لیے سرمایہ ہے اور اس سے مجھے بڑی خوشی ملتی ہے۔ میرے لیے یہ تجربہ کافی خوشگوار ہے کہ ملک کے کونے کونے میں بیٹھے بچوں کے ساتھ میں اتنی آسانی سے گفتگو کرپارہا ہوں۔ ورنہ تو کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دیکھ کر ہی لوگ چونک جاتے ہیں کہ ارے! آپ ہیں۔ پھر وہ بات ہی نہیں کرسکتے ہیں۔ لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ لوگ پورے اعتماد کے ساتھ بات کر رہے ہیں۔ یہ میرے لیے بہت شاندار تجربہ ہے۔

ساتھیو!

آپ کے تجربات زندگی کے ہر موڑ اور پڑاؤ پر آپ کے بہت کام آنے والے ہیں۔اگر مشکل وقت ہے تو اسے بار بار یاد کرکے رونے اور چیخنے چلانے میں اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ مشکل وقت سے بھی کچھ سیکھا ہوگا، اس سبق کو لے کر آگے بڑھیں گے تو آپ کو طاقت ملے گی۔ آپ جس بھی شعبے میں جائیں گے وہاں کافی کچھ نیا کر پائیں گے۔ آپ نے دیکھا ہوگا اسکول میں، کالج میں، ہمیں ٹیم اسپرٹ کے بارےمیں بار بار کہا جاتا ہے۔ سکھایا جاتا ہے۔متحدہ طاقت کا سبق ہمیں پڑھایا جاتا ہے لیکن کورونا کے مشکل حالات کے درمیان ہمیں ان رشتوں کو قریب سے دیکھنے، سمجھنے، محسوس کرنے اور زندگی گزارنے کا ایک طریقے سے نیا موقع ملا ہے۔ کیسے ہمارے معاشرے میں ہر کسی نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما، کیسے پورے ملک نے ٹیم اسپرٹ کے جذبے کے ساتھ اتنے بڑے چیلنج کا سامنا کیا ہے۔ ان سب کے تجربات ہم نے حاصل کیے ہیں۔عوام کی شراکت داری اور ٹیم ورک کا تجربہ سے مجھے پورا یقین ہے کہ یہ آپ کو بھی تقویت فراہم کریں گے۔

ساتھیو!

انتہائی مشکل وقت میں بھی اگر ہم اپنے ملک کی تاریخ پر نظر ڈالتے  ہیں ، تب ہمیں معلوم ہوگا کہ جب بھی میں کسی سے بات کرتا ہوں ، جیسا کہ ابھی میری ایک بیٹی بتا رہی تھی ، اس نے اپنے کنبہ کے دو فرد کو کھو دیا۔یہ  کسی کی بھی زندگی میں معمولی نہیں ہے۔لیکن میں  نے اس کی آنکھوں میں اعتماد کی ایک چمک دیکھی ہے۔ سب کو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ایک آفت آئی ہے  لیکن ہم فاتح ہوکر اس آفت سے نکلیں گے۔ہر ہندوستانی کی زبان سے یہی بات نکل رہی ہے کہ یہ عالمی وبا ہے ، پوری صدی میں کبھی ایسی آفت نہیں آئی۔ پچھلی چار پانچ نسلوں میں کسی نے ایسا کچھ سنا نہیں،کسی نے دیکھا نہیں لیکن یہ حالات ہمارے دور میں روبنما ہوئے۔ لیکن پھر بھی ملک کے ہر شہری کی زبان سے ایک ہی جملہ ادا ہوتا ہے کہ نہیں، ہم اس کو بھی شکست دیں گے، ہم اس صورتحال سے بھی نکلیں گے اور نئی توانائیوں کے ساتھ ملک کو آگے لے جائیں گے۔ اور مل کر آگے بڑھنا تو ہمارا عزم ہے اور مجھے پورا بھروسہ ہے کہ آپ جہاں بھی جائیں گےاسی طرح ایک ساتھ مل کرآگے بڑھتے رہیں گے اور ملک کو نئی بلندیوں تک پہنچائیں گے۔

اور جیسا میں نے کہا پانچ جون ماحولیات کا دن ہے۔اپنے ماحول کو بچانے کے لیے کچھ نہ کچھ کیجیئے کیونکہ زمین کو قدرتی وسائل کا تحفظ ہم پر فرض ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ماحولیات کی حفاظت کریں۔ اسی طرح سے 21 جون، یاد ہے نا بین الاقوام یوم یوگا ہے۔ اور اقوام متحدہ میں بھی جتنے  فیصلے ہوئے ہیں نا ۔یو م یوگا ایسا ہے کہ  دنیا کے سب سے زیادہ ممالک نے اس کی حمایت کی ہے۔اقوام متحدہ میں تقریباً ہر ملک نے اس کی حمایت کی ہے۔پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ تو اس یوم یوگا کے موقع پر آپ بھی اپنے کنبے کے ساتھ یوگ ضرور کریں۔ اسے اپنائیں۔ اور میں نے یہ بھی آپ لوگوں کو بتایا ہے کہ بہت سارے میچز ہیں، اولمپک ہیں، جاننا چاہیے کہ ہمارے ملک سے کون کون ہونہار کھلاڑی اس بار اولمپک میں حصہ لے رہے ہیں۔اولمپک میں جان والے کھلاڑیوں نے کتنی محنت کی ہے، کیسے مشکل حالات میں وہ آگے آ ئے ہیں۔ یہ سب جاننے سے ہمیں نیا حوصلہ ملتا ہے ، ہمیں ایک نئی طاقت ملتی ہے۔ اور اس کے لیے مجھے یقین ہے کہ تمام نوجوان اس وقت کا زیادہ سے زیادہ اور بہتر استعمال کریں گے۔

کورونا کے اس پرُآشوب دور میں جیسے ٹیکہ کاری کرانی،آپ کے کنبے میں بھی کچھ لوگ ہوں گےجن کی رجسٹری وغیرہ کرنے کا کام آپ کر سکتے ہیں۔ ارد گرد کے لوگوں کی رجسٹری کا کام کریں گے اور جب بھی اور جیسے جیسے ویکسین کی فراہمی ہوتی جائے گی، ویکسین لوگوں کو ملتی جائے گی۔  خدمت کے جذبے سے ہی ضرور کسی نہ کسی کام سے جڑیئے۔میری  طرف سے آپ سب کو نیک خواہشات ۔آپ کے والدین کی آپ پر شفقت بنی رہے۔آپ اپنے خوابوں کو پورا کرنے والے بنیں تاکہ آپ کے والدین کو آپ پر فخر ہو۔ ایسا مجھے پورا یقین ہے۔مجھے بہت اچھا لگا، میں اچانک آپ کے درمیان میں گھس گیا۔ آپ آپس میں  ہنسی مزاق کر رہے تھے، لطائف سنا رہے تھے لیکن میں نے آکرآپ کو تھوڑا ڈسٹرب کردیا۔لیکن مجھے بہت اچھا لگا۔ میں آپ تمام لوگوں کا بہت شکرگزار ہوں۔

 

بہت بہت شکریہ

 

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
Modi blends diplomacy with India’s cultural showcase

Media Coverage

Modi blends diplomacy with India’s cultural showcase
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text Of Prime Minister Narendra Modi addresses BJP Karyakartas at Party Headquarters
November 23, 2024
Today, Maharashtra has witnessed the triumph of development, good governance, and genuine social justice: PM Modi to BJP Karyakartas
The people of Maharashtra have given the BJP many more seats than the Congress and its allies combined, says PM Modi at BJP HQ
Maharashtra has broken all records. It is the biggest win for any party or pre-poll alliance in the last 50 years, says PM Modi
‘Ek Hain Toh Safe Hain’ has become the 'maha-mantra' of the country, says PM Modi while addressing the BJP Karyakartas at party HQ
Maharashtra has become sixth state in the country that has given mandate to BJP for third consecutive time: PM Modi

जो लोग महाराष्ट्र से परिचित होंगे, उन्हें पता होगा, तो वहां पर जब जय भवानी कहते हैं तो जय शिवाजी का बुलंद नारा लगता है।

जय भवानी...जय भवानी...जय भवानी...जय भवानी...

आज हम यहां पर एक और ऐतिहासिक महाविजय का उत्सव मनाने के लिए इकट्ठा हुए हैं। आज महाराष्ट्र में विकासवाद की जीत हुई है। महाराष्ट्र में सुशासन की जीत हुई है। महाराष्ट्र में सच्चे सामाजिक न्याय की विजय हुई है। और साथियों, आज महाराष्ट्र में झूठ, छल, फरेब बुरी तरह हारा है, विभाजनकारी ताकतें हारी हैं। आज नेगेटिव पॉलिटिक्स की हार हुई है। आज परिवारवाद की हार हुई है। आज महाराष्ट्र ने विकसित भारत के संकल्प को और मज़बूत किया है। मैं देशभर के भाजपा के, NDA के सभी कार्यकर्ताओं को बहुत-बहुत बधाई देता हूं, उन सबका अभिनंदन करता हूं। मैं श्री एकनाथ शिंदे जी, मेरे परम मित्र देवेंद्र फडणवीस जी, भाई अजित पवार जी, उन सबकी की भी भूरि-भूरि प्रशंसा करता हूं।

साथियों,

आज देश के अनेक राज्यों में उपचुनाव के भी नतीजे आए हैं। नड्डा जी ने विस्तार से बताया है, इसलिए मैं विस्तार में नहीं जा रहा हूं। लोकसभा की भी हमारी एक सीट और बढ़ गई है। यूपी, उत्तराखंड और राजस्थान ने भाजपा को जमकर समर्थन दिया है। असम के लोगों ने भाजपा पर फिर एक बार भरोसा जताया है। मध्य प्रदेश में भी हमें सफलता मिली है। बिहार में भी एनडीए का समर्थन बढ़ा है। ये दिखाता है कि देश अब सिर्फ और सिर्फ विकास चाहता है। मैं महाराष्ट्र के मतदाताओं का, हमारे युवाओं का, विशेषकर माताओं-बहनों का, किसान भाई-बहनों का, देश की जनता का आदरपूर्वक नमन करता हूं।

साथियों,

मैं झारखंड की जनता को भी नमन करता हूं। झारखंड के तेज विकास के लिए हम अब और ज्यादा मेहनत से काम करेंगे। और इसमें भाजपा का एक-एक कार्यकर्ता अपना हर प्रयास करेगा।

साथियों,

छत्रपति शिवाजी महाराजांच्या // महाराष्ट्राने // आज दाखवून दिले// तुष्टीकरणाचा सामना // कसा करायच। छत्रपति शिवाजी महाराज, शाहुजी महाराज, महात्मा फुले-सावित्रीबाई फुले, बाबासाहेब आंबेडकर, वीर सावरकर, बाला साहेब ठाकरे, ऐसे महान व्यक्तित्वों की धरती ने इस बार पुराने सारे रिकॉर्ड तोड़ दिए। और साथियों, बीते 50 साल में किसी भी पार्टी या किसी प्री-पोल अलायंस के लिए ये सबसे बड़ी जीत है। और एक महत्वपूर्ण बात मैं बताता हूं। ये लगातार तीसरी बार है, जब भाजपा के नेतृत्व में किसी गठबंधन को लगातार महाराष्ट्र ने आशीर्वाद दिए हैं, विजयी बनाया है। और ये लगातार तीसरी बार है, जब भाजपा महाराष्ट्र में सबसे बड़ी पार्टी बनकर उभरी है।

साथियों,

ये निश्चित रूप से ऐतिहासिक है। ये भाजपा के गवर्नंस मॉडल पर मुहर है। अकेले भाजपा को ही, कांग्रेस और उसके सभी सहयोगियों से कहीं अधिक सीटें महाराष्ट्र के लोगों ने दी हैं। ये दिखाता है कि जब सुशासन की बात आती है, तो देश सिर्फ और सिर्फ भाजपा पर और NDA पर ही भरोसा करता है। साथियों, एक और बात है जो आपको और खुश कर देगी। महाराष्ट्र देश का छठा राज्य है, जिसने भाजपा को लगातार 3 बार जनादेश दिया है। इससे पहले गोवा, गुजरात, छत्तीसगढ़, हरियाणा, और मध्य प्रदेश में हम लगातार तीन बार जीत चुके हैं। बिहार में भी NDA को 3 बार से ज्यादा बार लगातार जनादेश मिला है। और 60 साल के बाद आपने मुझे तीसरी बार मौका दिया, ये तो है ही। ये जनता का हमारे सुशासन के मॉडल पर विश्वास है औऱ इस विश्वास को बनाए रखने में हम कोई कोर कसर बाकी नहीं रखेंगे।

साथियों,

मैं आज महाराष्ट्र की जनता-जनार्दन का विशेष अभिनंदन करना चाहता हूं। लगातार तीसरी बार स्थिरता को चुनना ये महाराष्ट्र के लोगों की सूझबूझ को दिखाता है। हां, बीच में जैसा अभी नड्डा जी ने विस्तार से कहा था, कुछ लोगों ने धोखा करके अस्थिरता पैदा करने की कोशिश की, लेकिन महाराष्ट्र ने उनको नकार दिया है। और उस पाप की सजा मौका मिलते ही दे दी है। महाराष्ट्र इस देश के लिए एक तरह से बहुत महत्वपूर्ण ग्रोथ इंजन है, इसलिए महाराष्ट्र के लोगों ने जो जनादेश दिया है, वो विकसित भारत के लिए बहुत बड़ा आधार बनेगा, वो विकसित भारत के संकल्प की सिद्धि का आधार बनेगा।



साथियों,

हरियाणा के बाद महाराष्ट्र के चुनाव का भी सबसे बड़ा संदेश है- एकजुटता। एक हैं, तो सेफ हैं- ये आज देश का महामंत्र बन चुका है। कांग्रेस और उसके ecosystem ने सोचा था कि संविधान के नाम पर झूठ बोलकर, आरक्षण के नाम पर झूठ बोलकर, SC/ST/OBC को छोटे-छोटे समूहों में बांट देंगे। वो सोच रहे थे बिखर जाएंगे। कांग्रेस और उसके साथियों की इस साजिश को महाराष्ट्र ने सिरे से खारिज कर दिया है। महाराष्ट्र ने डंके की चोट पर कहा है- एक हैं, तो सेफ हैं। एक हैं तो सेफ हैं के भाव ने जाति, धर्म, भाषा और क्षेत्र के नाम पर लड़ाने वालों को सबक सिखाया है, सजा की है। आदिवासी भाई-बहनों ने भी भाजपा-NDA को वोट दिया, ओबीसी भाई-बहनों ने भी भाजपा-NDA को वोट दिया, मेरे दलित भाई-बहनों ने भी भाजपा-NDA को वोट दिया, समाज के हर वर्ग ने भाजपा-NDA को वोट दिया। ये कांग्रेस और इंडी-गठबंधन के उस पूरे इकोसिस्टम की सोच पर करारा प्रहार है, जो समाज को बांटने का एजेंडा चला रहे थे।

साथियों,

महाराष्ट्र ने NDA को इसलिए भी प्रचंड जनादेश दिया है, क्योंकि हम विकास और विरासत, दोनों को साथ लेकर चलते हैं। महाराष्ट्र की धरती पर इतनी विभूतियां जन्मी हैं। बीजेपी और मेरे लिए छत्रपति शिवाजी महाराज आराध्य पुरुष हैं। धर्मवीर छत्रपति संभाजी महाराज हमारी प्रेरणा हैं। हमने हमेशा बाबा साहब आंबेडकर, महात्मा फुले-सावित्री बाई फुले, इनके सामाजिक न्याय के विचार को माना है। यही हमारे आचार में है, यही हमारे व्यवहार में है।

साथियों,

लोगों ने मराठी भाषा के प्रति भी हमारा प्रेम देखा है। कांग्रेस को वर्षों तक मराठी भाषा की सेवा का मौका मिला, लेकिन इन लोगों ने इसके लिए कुछ नहीं किया। हमारी सरकार ने मराठी को Classical Language का दर्जा दिया। मातृ भाषा का सम्मान, संस्कृतियों का सम्मान और इतिहास का सम्मान हमारे संस्कार में है, हमारे स्वभाव में है। और मैं तो हमेशा कहता हूं, मातृभाषा का सम्मान मतलब अपनी मां का सम्मान। और इसीलिए मैंने विकसित भारत के निर्माण के लिए लालकिले की प्राचीर से पंच प्राणों की बात की। हमने इसमें विरासत पर गर्व को भी शामिल किया। जब भारत विकास भी और विरासत भी का संकल्प लेता है, तो पूरी दुनिया इसे देखती है। आज विश्व हमारी संस्कृति का सम्मान करता है, क्योंकि हम इसका सम्मान करते हैं। अब अगले पांच साल में महाराष्ट्र विकास भी विरासत भी के इसी मंत्र के साथ तेज गति से आगे बढ़ेगा।

साथियों,

इंडी वाले देश के बदले मिजाज को नहीं समझ पा रहे हैं। ये लोग सच्चाई को स्वीकार करना ही नहीं चाहते। ये लोग आज भी भारत के सामान्य वोटर के विवेक को कम करके आंकते हैं। देश का वोटर, देश का मतदाता अस्थिरता नहीं चाहता। देश का वोटर, नेशन फर्स्ट की भावना के साथ है। जो कुर्सी फर्स्ट का सपना देखते हैं, उन्हें देश का वोटर पसंद नहीं करता।

साथियों,

देश के हर राज्य का वोटर, दूसरे राज्यों की सरकारों का भी आकलन करता है। वो देखता है कि जो एक राज्य में बड़े-बड़े Promise करते हैं, उनकी Performance दूसरे राज्य में कैसी है। महाराष्ट्र की जनता ने भी देखा कि कर्नाटक, तेलंगाना और हिमाचल में कांग्रेस सरकारें कैसे जनता से विश्वासघात कर रही हैं। ये आपको पंजाब में भी देखने को मिलेगा। जो वादे महाराष्ट्र में किए गए, उनका हाल दूसरे राज्यों में क्या है? इसलिए कांग्रेस के पाखंड को जनता ने खारिज कर दिया है। कांग्रेस ने जनता को गुमराह करने के लिए दूसरे राज्यों के अपने मुख्यमंत्री तक मैदान में उतारे। तब भी इनकी चाल सफल नहीं हो पाई। इनके ना तो झूठे वादे चले और ना ही खतरनाक एजेंडा चला।

साथियों,

आज महाराष्ट्र के जनादेश का एक और संदेश है, पूरे देश में सिर्फ और सिर्फ एक ही संविधान चलेगा। वो संविधान है, बाबासाहेब आंबेडकर का संविधान, भारत का संविधान। जो भी सामने या पर्दे के पीछे, देश में दो संविधान की बात करेगा, उसको देश पूरी तरह से नकार देगा। कांग्रेस और उसके साथियों ने जम्मू-कश्मीर में फिर से आर्टिकल-370 की दीवार बनाने का प्रयास किया। वो संविधान का भी अपमान है। महाराष्ट्र ने उनको साफ-साफ बता दिया कि ये नहीं चलेगा। अब दुनिया की कोई भी ताकत, और मैं कांग्रेस वालों को कहता हूं, कान खोलकर सुन लो, उनके साथियों को भी कहता हूं, अब दुनिया की कोई भी ताकत 370 को वापस नहीं ला सकती।



साथियों,

महाराष्ट्र के इस चुनाव ने इंडी वालों का, ये अघाड़ी वालों का दोमुंहा चेहरा भी देश के सामने खोलकर रख दिया है। हम सब जानते हैं, बाला साहेब ठाकरे का इस देश के लिए, समाज के लिए बहुत बड़ा योगदान रहा है। कांग्रेस ने सत्ता के लालच में उनकी पार्टी के एक धड़े को साथ में तो ले लिया, तस्वीरें भी निकाल दी, लेकिन कांग्रेस, कांग्रेस का कोई नेता बाला साहेब ठाकरे की नीतियों की कभी प्रशंसा नहीं कर सकती। इसलिए मैंने अघाड़ी में कांग्रेस के साथी दलों को चुनौती दी थी, कि वो कांग्रेस से बाला साहेब की नीतियों की तारीफ में कुछ शब्द बुलवाकर दिखाएं। आज तक वो ये नहीं कर पाए हैं। मैंने दूसरी चुनौती वीर सावरकर जी को लेकर दी थी। कांग्रेस के नेतृत्व ने लगातार पूरे देश में वीर सावरकर का अपमान किया है, उन्हें गालियां दीं हैं। महाराष्ट्र में वोट पाने के लिए इन लोगों ने टेंपरेरी वीर सावरकर जी को जरा टेंपरेरी गाली देना उन्होंने बंद किया है। लेकिन वीर सावरकर के तप-त्याग के लिए इनके मुंह से एक बार भी सत्य नहीं निकला। यही इनका दोमुंहापन है। ये दिखाता है कि उनकी बातों में कोई दम नहीं है, उनका मकसद सिर्फ और सिर्फ वीर सावरकर को बदनाम करना है।

साथियों,

भारत की राजनीति में अब कांग्रेस पार्टी, परजीवी बनकर रह गई है। कांग्रेस पार्टी के लिए अब अपने दम पर सरकार बनाना लगातार मुश्किल हो रहा है। हाल ही के चुनावों में जैसे आंध्र प्रदेश, अरुणाचल प्रदेश, सिक्किम, हरियाणा और आज महाराष्ट्र में उनका सूपड़ा साफ हो गया। कांग्रेस की घिसी-पिटी, विभाजनकारी राजनीति फेल हो रही है, लेकिन फिर भी कांग्रेस का अहंकार देखिए, उसका अहंकार सातवें आसमान पर है। सच्चाई ये है कि कांग्रेस अब एक परजीवी पार्टी बन चुकी है। कांग्रेस सिर्फ अपनी ही नहीं, बल्कि अपने साथियों की नाव को भी डुबो देती है। आज महाराष्ट्र में भी हमने यही देखा है। महाराष्ट्र में कांग्रेस और उसके गठबंधन ने महाराष्ट्र की हर 5 में से 4 सीट हार गई। अघाड़ी के हर घटक का स्ट्राइक रेट 20 परसेंट से नीचे है। ये दिखाता है कि कांग्रेस खुद भी डूबती है और दूसरों को भी डुबोती है। महाराष्ट्र में सबसे ज्यादा सीटों पर कांग्रेस चुनाव लड़ी, उतनी ही बड़ी हार इनके सहयोगियों को भी मिली। वो तो अच्छा है, यूपी जैसे राज्यों में कांग्रेस के सहयोगियों ने उससे जान छुड़ा ली, वर्ना वहां भी कांग्रेस के सहयोगियों को लेने के देने पड़ जाते।

साथियों,

सत्ता-भूख में कांग्रेस के परिवार ने, संविधान की पंथ-निरपेक्षता की भावना को चूर-चूर कर दिया है। हमारे संविधान निर्माताओं ने उस समय 47 में, विभाजन के बीच भी, हिंदू संस्कार और परंपरा को जीते हुए पंथनिरपेक्षता की राह को चुना था। तब देश के महापुरुषों ने संविधान सभा में जो डिबेट्स की थी, उसमें भी इसके बारे में बहुत विस्तार से चर्चा हुई थी। लेकिन कांग्रेस के इस परिवार ने झूठे सेक्यूलरिज्म के नाम पर उस महान परंपरा को तबाह करके रख दिया। कांग्रेस ने तुष्टिकरण का जो बीज बोया, वो संविधान निर्माताओं के साथ बहुत बड़ा विश्वासघात है। और ये विश्वासघात मैं बहुत जिम्मेवारी के साथ बोल रहा हूं। संविधान के साथ इस परिवार का विश्वासघात है। दशकों तक कांग्रेस ने देश में यही खेल खेला। कांग्रेस ने तुष्टिकरण के लिए कानून बनाए, सुप्रीम कोर्ट के आदेश तक की परवाह नहीं की। इसका एक उदाहरण वक्फ बोर्ड है। दिल्ली के लोग तो चौंक जाएंगे, हालात ये थी कि 2014 में इन लोगों ने सरकार से जाते-जाते, दिल्ली के आसपास की अनेक संपत्तियां वक्फ बोर्ड को सौंप दी थीं। बाबा साहेब आंबेडकर जी ने जो संविधान हमें दिया है न, जिस संविधान की रक्षा के लिए हम प्रतिबद्ध हैं। संविधान में वक्फ कानून का कोई स्थान ही नहीं है। लेकिन फिर भी कांग्रेस ने तुष्टिकरण के लिए वक्फ बोर्ड जैसी व्यवस्था पैदा कर दी। ये इसलिए किया गया ताकि कांग्रेस के परिवार का वोटबैंक बढ़ सके। सच्ची पंथ-निरपेक्षता को कांग्रेस ने एक तरह से मृत्युदंड देने की कोशिश की है।

साथियों,

कांग्रेस के शाही परिवार की सत्ता-भूख इतनी विकृति हो गई है, कि उन्होंने सामाजिक न्याय की भावना को भी चूर-चूर कर दिया है। एक समय था जब के कांग्रेस नेता, इंदिरा जी समेत, खुद जात-पात के खिलाफ बोलते थे। पब्लिकली लोगों को समझाते थे। एडवरटाइजमेंट छापते थे। लेकिन आज यही कांग्रेस और कांग्रेस का ये परिवार खुद की सत्ता-भूख को शांत करने के लिए जातिवाद का जहर फैला रहा है। इन लोगों ने सामाजिक न्याय का गला काट दिया है।

साथियों,

एक परिवार की सत्ता-भूख इतने चरम पर है, कि उन्होंने खुद की पार्टी को ही खा लिया है। देश के अलग-अलग भागों में कई पुराने जमाने के कांग्रेस कार्यकर्ता है, पुरानी पीढ़ी के लोग हैं, जो अपने ज़माने की कांग्रेस को ढूंढ रहे हैं। लेकिन आज की कांग्रेस के विचार से, व्यवहार से, आदत से उनको ये साफ पता चल रहा है, कि ये वो कांग्रेस नहीं है। इसलिए कांग्रेस में, आंतरिक रूप से असंतोष बहुत ज्यादा बढ़ रहा है। उनकी आरती उतारने वाले भले आज इन खबरों को दबाकर रखे, लेकिन भीतर आग बहुत बड़ी है, असंतोष की ज्वाला भड़क चुकी है। सिर्फ एक परिवार के ही लोगों को कांग्रेस चलाने का हक है। सिर्फ वही परिवार काबिल है दूसरे नाकाबिल हैं। परिवार की इस सोच ने, इस जिद ने कांग्रेस में एक ऐसा माहौल बना दिया कि किसी भी समर्पित कांग्रेस कार्यकर्ता के लिए वहां काम करना मुश्किल हो गया है। आप सोचिए, कांग्रेस पार्टी की प्राथमिकता आज सिर्फ और सिर्फ परिवार है। देश की जनता उनकी प्राथमिकता नहीं है। और जिस पार्टी की प्राथमिकता जनता ना हो, वो लोकतंत्र के लिए बहुत ही नुकसानदायी होती है।

साथियों,

कांग्रेस का परिवार, सत्ता के बिना जी ही नहीं सकता। चुनाव जीतने के लिए ये लोग कुछ भी कर सकते हैं। दक्षिण में जाकर उत्तर को गाली देना, उत्तर में जाकर दक्षिण को गाली देना, विदेश में जाकर देश को गाली देना। और अहंकार इतना कि ना किसी का मान, ना किसी की मर्यादा और खुलेआम झूठ बोलते रहना, हर दिन एक नया झूठ बोलते रहना, यही कांग्रेस और उसके परिवार की सच्चाई बन गई है। आज कांग्रेस का अर्बन नक्सलवाद, भारत के सामने एक नई चुनौती बनकर खड़ा हो गया है। इन अर्बन नक्सलियों का रिमोट कंट्रोल, देश के बाहर है। और इसलिए सभी को इस अर्बन नक्सलवाद से बहुत सावधान रहना है। आज देश के युवाओं को, हर प्रोफेशनल को कांग्रेस की हकीकत को समझना बहुत ज़रूरी है।

साथियों,

जब मैं पिछली बार भाजपा मुख्यालय आया था, तो मैंने हरियाणा से मिले आशीर्वाद पर आपसे बात की थी। तब हमें गुरूग्राम जैसे शहरी क्षेत्र के लोगों ने भी अपना आशीर्वाद दिया था। अब आज मुंबई ने, पुणे ने, नागपुर ने, महाराष्ट्र के ऐसे बड़े शहरों ने अपनी स्पष्ट राय रखी है। शहरी क्षेत्रों के गरीब हों, शहरी क्षेत्रों के मिडिल क्लास हो, हर किसी ने भाजपा का समर्थन किया है और एक स्पष्ट संदेश दिया है। यह संदेश है आधुनिक भारत का, विश्वस्तरीय शहरों का, हमारे महानगरों ने विकास को चुना है, आधुनिक Infrastructure को चुना है। और सबसे बड़ी बात, उन्होंने विकास में रोडे अटकाने वाली राजनीति को नकार दिया है। आज बीजेपी हमारे शहरों में ग्लोबल स्टैंडर्ड के इंफ्रास्ट्रक्चर बनाने के लिए लगातार काम कर रही है। चाहे मेट्रो नेटवर्क का विस्तार हो, आधुनिक इलेक्ट्रिक बसे हों, कोस्टल रोड और समृद्धि महामार्ग जैसे शानदार प्रोजेक्ट्स हों, एयरपोर्ट्स का आधुनिकीकरण हो, शहरों को स्वच्छ बनाने की मुहिम हो, इन सभी पर बीजेपी का बहुत ज्यादा जोर है। आज का शहरी भारत ईज़ ऑफ़ लिविंग चाहता है। और इन सब के लिये उसका भरोसा बीजेपी पर है, एनडीए पर है।

साथियों,

आज बीजेपी देश के युवाओं को नए-नए सेक्टर्स में अवसर देने का प्रयास कर रही है। हमारी नई पीढ़ी इनोवेशन और स्टार्टअप के लिए माहौल चाहती है। बीजेपी इसे ध्यान में रखकर नीतियां बना रही है, निर्णय ले रही है। हमारा मानना है कि भारत के शहर विकास के इंजन हैं। शहरी विकास से गांवों को भी ताकत मिलती है। आधुनिक शहर नए अवसर पैदा करते हैं। हमारा लक्ष्य है कि हमारे शहर दुनिया के सर्वश्रेष्ठ शहरों की श्रेणी में आएं और बीजेपी, एनडीए सरकारें, इसी लक्ष्य के साथ काम कर रही हैं।


साथियों,

मैंने लाल किले से कहा था कि मैं एक लाख ऐसे युवाओं को राजनीति में लाना चाहता हूं, जिनके परिवार का राजनीति से कोई संबंध नहीं। आज NDA के अनेक ऐसे उम्मीदवारों को मतदाताओं ने समर्थन दिया है। मैं इसे बहुत शुभ संकेत मानता हूं। चुनाव आएंगे- जाएंगे, लोकतंत्र में जय-पराजय भी चलती रहेगी। लेकिन भाजपा का, NDA का ध्येय सिर्फ चुनाव जीतने तक सीमित नहीं है, हमारा ध्येय सिर्फ सरकारें बनाने तक सीमित नहीं है। हम देश बनाने के लिए निकले हैं। हम भारत को विकसित बनाने के लिए निकले हैं। भारत का हर नागरिक, NDA का हर कार्यकर्ता, भाजपा का हर कार्यकर्ता दिन-रात इसमें जुटा है। हमारी जीत का उत्साह, हमारे इस संकल्प को और मजबूत करता है। हमारे जो प्रतिनिधि चुनकर आए हैं, वो इसी संकल्प के लिए प्रतिबद्ध हैं। हमें देश के हर परिवार का जीवन आसान बनाना है। हमें सेवक बनकर, और ये मेरे जीवन का मंत्र है। देश के हर नागरिक की सेवा करनी है। हमें उन सपनों को पूरा करना है, जो देश की आजादी के मतवालों ने, भारत के लिए देखे थे। हमें मिलकर विकसित भारत का सपना साकार करना है। सिर्फ 10 साल में हमने भारत को दुनिया की दसवीं सबसे बड़ी इकॉनॉमी से दुनिया की पांचवीं सबसे बड़ी इकॉनॉमी बना दिया है। किसी को भी लगता, अरे मोदी जी 10 से पांच पर पहुंच गया, अब तो बैठो आराम से। आराम से बैठने के लिए मैं पैदा नहीं हुआ। वो दिन दूर नहीं जब भारत दुनिया की तीसरी सबसे बड़ी अर्थव्यवस्था बनकर रहेगा। हम मिलकर आगे बढ़ेंगे, एकजुट होकर आगे बढ़ेंगे तो हर लक्ष्य पाकर रहेंगे। इसी भाव के साथ, एक हैं तो...एक हैं तो...एक हैं तो...। मैं एक बार फिर आप सभी को बहुत-बहुत बधाई देता हूं, देशवासियों को बधाई देता हूं, महाराष्ट्र के लोगों को विशेष बधाई देता हूं।

मेरे साथ बोलिए,

भारत माता की जय,

भारत माता की जय,

भारत माता की जय,

भारत माता की जय,

भारत माता की जय!

वंदे मातरम, वंदे मातरम, वंदे मातरम, वंदे मातरम, वंदे मातरम ।

बहुत-बहुत धन्यवाद।